قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیر 23 بہمن 1391 ہجری شمسی مطابق 11 فروری 2013 عیسوی کو فقہ کے درس خارج میں جشن انقلاب کے دن عظمت و جلالت کی نئی داستان رقم کئے جانے کو بہت عظیم واقعہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ انقلاب کے جشن میں مرد و زن پیر و جواں ہر صنف کے لوگوں کی بھرپور شرکت، وہ بھی ایسے وقت جب انقلاب کو چونتیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، عظیم نعمت خداوندی ہے جس پر تا عمر سجدہ شکر کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں جشن انقلاب کا موازنہ دیگر ممالک میں وہاں کے انقلابوں کے جشن سے کیا اور فرمایا کہ سب سے خاص بات یہ ہے کہ ایران میں عوام الناس صاحب انقلاب اور صاحب مملکت ہیں اور جشن کے انعقاد کی ذمہ داری بھی عوام کے ہی دوش پر ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام اس عظیم سرمائے سے دلی وابستگی رکھتے ہیں جو ان کے وقار اور خود مختاری کا ضامن ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے جشن انقلاب میں عوام کی بروقت شرکت پر اظہار تشکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عین اس وقت جب ملت ایران کے وقار اور خود مختاری کے دشمن اس آس میں تھے کہ عوام انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی آواز پر لبیک کہنے سے گریز کریں گے، پوری قوم نے صدائے لبیک بلند کرکے دشمن کو مایوس کر دیا۔

قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين‌
سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين‌
«و من كلام له صلّى اللَّه عليه و ءاله: النّاس معادن كمعادن الذّهب و الفضّة» لوگ سونے اور چاندی کی کانوں کی مانند ہوتے ہیں(1)

اس مختصر لیکن انتہائی پرمغز اور عطیم جملے میں جو چیز مد نظر رکھی ‏گئی ہے وہ نوع انسانی کی ہر فرد کے اندر پنہاں عظیم صلاحیتیں اور توانائیاں ہیں۔ جو لوگ اس بحث کو جبر و تفویض جیسے موضوعات سے جوڑ دیتے ہیں وہ در حقیقت اس حدیث شریفہ کے واضح اور بالکل سامنے کے مضمون سے دور چلے جاتے ہیں۔ اس حدیث میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ جس طرح زمین دوز معدنیات ہیں جن میں سونا، چاندی وغیرہ جیسی قیمتی دھاتیں ہوتی ہیں، ان دو دھاتوں کا ذکر نمونے کے طور پر کیا گیا ہے، اسی طرح دوسری معدنیات بھی پائی جاتی ہیں۔ بظاہر ہمیں پتھر، خاک اور زمین ہی نظر آتی ہے، کچھ اور دکھائی نہیں دیتا، لیکن اگر آپ اس مٹی کے کریدئے، کھدائی کا کام کیجئے، اگر آپ کے اندر شناخت کی صلاحیت ہے، اگر آپ اس کی قدر و حقیقت سے آگاہ ہیں تو اسی پتھر کے نیچے، اسی معمولی مٹی کے نیچے آپ کو بیش قیمتی مادہ بھی مل سکتا ہے، جس کی قیمت کا بظاہر نظر آنے والی چیزوں کی قیمت سے کوئی موازنہ نہیں ہے۔ انسانوں کا بھی یہی عالم ہے۔ ان کا ایک ظاہری روپ ہے اور انسان ان کے حرکات و سکنات اور رفتار کو کردار کو دیکھتا ہے، لیکن ان چیزوں کے پیچھے ان کا ایک باطن بھی ہے جو عظیم اور تہہ در تہہ جمع استعداد اور صلاحیتوں کا مجموعہ ہے جو اللہ تعالی نے وجود انسانی میں ودیعت فرما دیا ہے۔ جس طرح تمام معدنی اشیاء یکساں نہیں ہوتیں، اسی طرح ہر انسان کا باطن یکساں قدر و قیمت کا نہیں ہوتا، تاہم یہ خصوصیت ان میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے کہ جو کچھ انسان کے باطن میں موجود ہے وہ اس سے کہیں زیادہ قیمتی اور باارزش ہے جو بظاہر نظر آتا ہے۔ جس طرح معدن کے اندر کھدائی کرنے اور اندر کی چیزوں کو کریدنے سے، محنت و زحمت گوارا کرنے سے قیمتی مادہ حاصل ہوتا ہے، اسی طرح انسان کے اندر چھپے اس گوہر کو حاصل کرنے کے لئے بھی محنت کی ضرورت ہوتی ہے، ان صلاحیتوں کو عملی طور پر فعال بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی لازمی شرط یہ ہے کہ آپ اس مادے کو پہچانتے ہوں۔ جسے سونے کی شناخت نہ ہو، جو چاندی کو نہ پہچانتا ہو، اگر وہ سونے کی کان میں اتر جائے تب بھی لا علمی کی وجہ سے اس خزانے کو نظر انداز کر دے گا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ سونا کیا ہے اور اس کی کیا قمیت ہے؟ شناخت ہو جانے کے بعد آپ جائیے کھدائی کیجئے، زحمت اٹھائيے اور سونا باہر نکالئے۔ انسان کا بھی یہی عالم ہے۔ جو لوگ انسانوں کی تربیت کرنا چاہتے ہیں، بچوں کی پرورش کرنا چاہتے ہیں اور خاص طور پر نوجوانوں کی تربیت کی ذمہ داری جن کے دوش ہے اور جو وجود انسانی کے اندر رکھے گئے اس جوہر کو آب دینا چاہتے ہیں، اس سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں، ان کے لئے ضروری ہے کہ ان صلاحیتوں کو پہچانیں، ان صلاحیتوں کی قدر و قیمت کو سمجھیں، تب اسے تلاش کرنے کے لئے آگے بڑھیں۔ جس طرح ہم معدنیات کے سلسلے میں پہلے تحقیق کرتے ہیں کہ اس علاقے میں معدنیات ہیں یا نہیں، اگر ہیں تو کس چیز کی معدنیات ہیں، ان کا حجم اور ان کی مالیت کیا ہے، ان کو باہر نکالنے کا طریقہ کیا ہے، انسانوں کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ بعض کے اندر بے پناہ اور بڑی نمایاں صلاحیتیں ہوتی ہیں، بعض کے اندر نسبتا کم صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ صلاحیتوں کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ کہیں سونے کی ضرورت ہوتی ہے اور کہیں چاندی سے کام انجام پاتا ہے۔ جہاں چاندی کا استعمال کرنا تھا، آپ نے وہاں سونے کا استعمال کیا تو نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔ جہاں لوہے کی ضرورت تھی آپ نے اگر سونا استعمال کیا تب بھی آپ کی محنت رائیگاں جائے گی۔ ہر دھات کسی خاص مقصد کے تحت استعمال ہوتی ہے۔ لوگ گوناگوں صلاحیتیں رکھتے ہیں الگ الگ انسان، انسانی معاشرے کی گوناگوں ضرورتوں کی تکمیل میں مددگار اور کارساز واقع ہوتے ہیں۔ اللہ کی جانب پیش قدمی اور سیر الی اللہ و سیر الی الکمال میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان تمام صلاحیتوں کو نکھارنے کی ضرورت ہے۔ اس نظر سے معاشرے میں تربیت کے امور انجام دینے والوں کی ذمہ داریاں اور حکومتوں کے فرائض زیادہ سنگین معلوم ہوتے ہیں۔ استعداد یابی، استعداد شناسی، استعداد کی قدر و قیمت کا علم، استعداد کو نکھارنے اور حرکت میں لانے کے طریقے کا علم اور پھر پوری محنت اور لگن سے کام شروع کرنا، ان چیزوں سے استعداد اور صلاحیتیں حرکت میں آتی ہیں اور نتیجہ دیتی ہیں۔ یہ کام انبیائے الہی انجام دیتے تھے۔«ليستأدوهم ميثاق فطرته و يذكّروهم منسىّ نعمته ... و يثيروا لهم دفائن العقول»(2) انبیائے الہی انسانوں کی عقل و خرد کو حرکت میں لاتے تھے، انہیں متنبہ کرتے تھے، کام کرنے کی دعوت دیتے تھے، یہی استعداد کو حرکت میں لانا اور نکھارنا ہے۔ بنابریں «النّاس معادن كمعادن الذّهب و الفضّة» انسان سونے اور چاندی کی کانیں ہیں۔ کسی بھی انسان کو تحقیر آمیز نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ ہرگز نہیں، اس کے اندر ممکن ہے کہ ایسی استعداد پنہاں ہو جس کی پورے معاشرے کو انتہائی سخت ضرورت ہے۔ بیشک بعض افراد ہیں جو دنیا میں آتے ہیں، ستر سال، اسی سال کی عمر گزار کر چلے جاتے ہیں اور ان کے وجود کی گہرائی میں رکھی گئی استعداد ابھر کر سامنے نہیں آ پاتی۔ ایسے لوگ در حقیقت مظلوم ہیں، واقعی ان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ اگر ان کی صلاحیتوں کا انکشاف کیا جاتا تو ممکن تھا کہ وہ نابغہ روزگار انسان بن جاتے، کوئی نمایاں ہستی بن کر ابھرتے۔ اس زاوئے سے دیکھا جائے تو معاشرے میں تربیتی امور کے ذمہ داروں کا فریضہ، علمائے کرام کا فریضہ، اساتذہ کا فریضہ، حکومتی ارکان کا فریضہ دیگر مختلف تربیتی اداروں کا فریضہ بہت سنگین ہو جاتا ہے کہ ان صلاحیتوں کو ہرگز نظر انداز نہ ہونے دیا جائے۔

درس کا آغاز کرنے سے قبل میں ضروری سمجھتا ہوں کہ بائیس بہمن (جشن انقلاب) کے موقعے پر ملت ایران کے ذریعے انجام پانے والے عظیم کارنامے کی عظمت و شکوہ کا ذکر کروں اور اللہ تعالی کی اس عظیم نعمت پر اس کا شکر بجا لاؤں۔ واقعی بڑا عجیب کارنامہ تھا۔ آپ ان ملکوں کا جائزہ لیجئے جہاں انقلاب آ چکے ہیں، آپ دیکھئے کہ ان ملکوں میں انقلاب کی سالگرہ کا جشن کس طرح منایا جاتا ہے۔ دو سال بعد، تین سال بعد جب انقلاب کی سالگرہ آتی ہے تو بس یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ایک جگہ کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے سامنے کوئی پریڈ ہو جاتی ہے۔ یہاں ایران میں یہ ذمہ داری عوام الناس کے دوش پر ہے۔ عوام خود کو انقلاب کا مالک جانتے ہیں اور حقیقت میں وہی مالک ہیں انقلاب کے اور ملک کے۔ ہم جو عوام کا فردا فردا شکریہ ادا کرتے ہیں، ہم یا

ہمارے جیسے دیگر افراد تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انقلاب سے ہمارا رابطہ اور ہماری نسبت عوام کے مقابلے میں زیادہ ہے، اس لئے ہم عوام کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے انقلاب

کی مدد کی۔ ایسا نہیں ہے، انقلاب خود عوام کا سرمایہ ہے، یہ ملک خود عوام کا ہے، اسلامی نظام عوام کا سرمایہ ہے۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ عوام خود اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اپنی اس عظیم ثروت کا پوری شجاعت، بصیرت اور موقعہ شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے دفاع کرتے ہیں جو ان کی عزت و خود مختاری کی ضمانت ہے۔ عین اس جگہ اور اس موقعے پر جب عوام کے آگے آنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ آگے آتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ کل تہران اور پورے ایران میں عوام بھرپور انداز سے میدان میں آئے۔ یہ بہت عجیب چیز ہے، یہ بہت عظیم واقعہ ہے۔ ہم در حقیقت بہت سی عظیم چیزوں کے عادی ہو گئے ہیں، جیسے ہمیں سورج کو طلوع ہوتا دیکھنے کی عادت پڑ گئی ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ یہ تو ایک طے شدہ معمول کی چیز ہے، لہذا اس کی اہمیت کا ہمیں اندازہ نہیں ہو پاتا۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ پہلے بائیس بہمن (جشن انقلاب) کو چونتیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد اس انداز سے لوگ میدان میں موجود رہیں۔ اس طرح حمایت کے لئے باہر نکلیں۔ مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے، نوجوان، سب ہر جگہ شرکت کریں۔ یہ واقعی بہت بڑی نعمت ہے جس پر انسان پوری عمر اللہ کا شکر بجا لاتا رہے تب بھی شکر کا حق ادا نہیں ہوگا۔ اسی طرح ہمیں عوام کا بھی فردا فردا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ انہوں نے واقعی بروقت اور برمحل کارنامہ انجام دیا ہے۔ عین اس وقت جب اس قوم کی خود مختاری کے دشمن، اس قوم کے وقار کے دشمن اس آس میں بیٹھے تھے کہ عوام صدائے انقلاب پر اور صدائے اسلامی جمہوریہ پر لبیک کہنے سے انکار کر دیں گے اور انہیں اسلامی نظام اور اسلام سے عوام کے قطع تعلق کا منظر دیکھنے کا موقع مل جائے گا، عوام نے شاندار شرکت کا پرشکوہ منظر پیش کرکے دشمن کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا، اسے مایوس کر دیا۔ البتہ دشمن اپنے پروپیگنڈے میں تو اسے چھپانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اسے حقیقت امر کا خوب اندازہ ہے۔ عوام کے کارنامے کے جو مناظر کل (بائیس بہمن 1391 ہجری شمسی مطابق 10فروری 2013 کو) آپ نے دیکھے، وہ ان کی نظروں میں بھی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں، اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس قوم کا سامنا نہیں کیا جا سکتا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہماری توفیقات میں اضافہ کرے، ہم پر اپنی برکتیں، رحمتیں اور فضل و کرم نازل فرمائے۔

۱) شافى، ص ۸۲۷
۲) نهج البلاغه، خطبه‌ى ۱