قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے 28 بہمن 1391 ہجری شمسی مطابق، 16 فروری سنہ 2013 عیسوی کو تبريز شہر کے ہزاروں لوگوں سے ملاقات ميں جو تہران ميں حسينيہ امام خميني ميں انجام پائي ايران کے ساتھ مذاکرات کے تعلق سے امريکي حکام کے غير منطقي بيانات اور اقدامات کي تشريح کی۔ آپ نے امريکي حکام کو  انہي کے بيانات اور اقدامات کا حوالہ ديتے ہوئے انہیں غير منطقي افراد سے تعبیر کيا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمايا کہ ان لوگوں کے بيانات اور عمل ميں تضاد اور بالادستي قائم کرنے کا جذبہ کارفرما رہتا ہے۔

قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ امريکيوں کو يہ توقع رہتي ہے کہ دوسرے ان کي غير منطقي اور زور  زبردستي کي باتوں کو ہر حال ميں مان ليں جس طرح سے بعض ملکوں نے ان کے سامنے سرتسليم خم کر رکھا ہے ليکن ايران کے عوام اور اسلامي جمہوري نظام جھکنے والا نہيں ہے کيونکہ ايران کے عوام اور نظام کے پاس منطق، طاقت و اقتدار اور توانائي ہے۔

 قائد انقلاب اسلامی نے موجودہ حالات کا جائز لیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن، ملت ایران کی بصیرت و شجاعت، قوت برداشت اور ایمان و عزم راسخ کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نامعقول اور متضاد حرکتیں انجام دینے لگے ہیں۔

قائد انقلاب اسلامي نے امريکي حکام اور ان کي  مطيع مغربي حکومتوں کے غير منطقي اقدامات اور موقف کي تشريح کرتے ہوئے کچھ عيني نمونے اور مثاليں بھي پيش کيں اور فرمايا کہ وہ لوگ دعوي کرتے ہيں کہ انساني حقوق کے محافظ ہيں اور انہوں نے پوري دنيا ميں انساني حقوق کا پرچم بلند کر رکھا ہے ليکن سب سے زيادہ انساني حقوق کو نقصان وہي پہنچا رہے ہيں اور گوانتانامو  ابوغريب جيلوں جيسے المناک واقعات، افغانستان اور پاکستان  کےعوام کے قتل عام جيسے حادثات کے تحت يہي امريکا اور مغربي حکومتيں سب سے زيادہ انساني حقوق کو پامال اور ان کی توہین کرنے والی حکومتیں ہیں۔ آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے دنيا ميں جمہوريت کو رواج دينے پر مبني امريکي حکام کے دعوؤں کو ايسے بيانات سے تعبير کيا جو حقائق سے دور ہيں، انہوں نےفرمايا کہ امريکي حکام ايک طرف دنيا ميں جہموريت کو فروغ دينے کا دعوي کرتے ہيں اور دوسري طرف ايران سے مسلسل محاذ آرائي اور دشمني کر رہے ہيں، وہ ايران جو علاقے ميں سب سے بڑي اور واضح جمہوريت ہے۔ قائد انقلاب اسلامي نے امريکي حکام کے بيانات اور عمل ميں تضاد کي ايک اور مثال ايران کے ساتھ مذاکرات کي آمادگي کے ان کے اعلان کو قرار ديا اور فرمايا کہ ايران سے مذاکرات کرنے کا امريکي حکام کا دعوي ايک ايسے وقت آ رہا ہے جب وہ اسلامي جمہوري نظام کے خلاف  غلط نامناسب اور خلاف حقيقت اتہام لگاتے ہيں اور ايران کے عوام کا مقابلہ کرنے کے لئے پابنديوں اور دباؤ کا حربہ استعمال کر رہے ہیں۔

آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے امريکي صدر کے حاليہ کا بيان کا بھي حوالہ ديتے ہوئے جس ميں انہوں نے کہا ہے کہ وہ ايران کو ايٹمي ہتھيار بنانے سے روکنے کي ہر کوشش کريں گے فرمايا کہ اگر ايران ايٹم بم بناناچاہتا تو امريکا کسي بھي صورت ميں ملت ايران کو اس کام سے نہيں روک سکتا تھا۔ انہوں نے امريکا کے ساتھ مذاکرات کے بارے ميں  آخر ميں فرمايا کہ اسلامي جہوري نظام  اور ايران کے عوام امريکي حکام کے برخلاف  منطق پر يقين رکھتے ہيں، بنابريں اگر مقابل فريق کي طرف سے منطقي بيان اور عمل کا مشاہدہ کريں گے تو اس کا مثبت جواب ديں گے۔

قائد اقلاب اسلامی کے مطابق مذاکرات کی تجویز سے امریکیوں کا اصلی مقصد یہ جھوٹا پروپیگںڈا کرنا ہے کہ ملت ایران اور اسلامی نطام نے ان کے آگے سرتسلیم خم کر دیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی چاہتے ہیں کہ علاقے کی مسلمان اور انقلابی قوموں کو یہ دکھائيں کہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی اپنی تمام تر مزاحمت و پائیداری کے باوجود سرانجام مذاکرات اور مصالحت کی میز پر آنے پر مجبور ہو گیا، بنابریں آپ کے پاس بھی سر تعظیم خم کر دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے یہ اتنہائی کلیدی سوال اٹھایا کہ امریکی حکام کے اس طرز فکر اور ایران کے سر تعظیم خم کر دینے کی ان کی توقعات کے باوجود اگر حکومت ایران مذاکرات کی پیشکش کو قبول کر لے تو کیا مذاکرات کا کوئی فائدہ ہوگا اور کیا مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ سکیں گے؟

قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی منطقی گفتگو پر لا جواب ہو جانے کی صورت میں مذاکرات کو بیچ میں ہی چھوڑ کر اٹھ جانے کی امریکیوں کی حرکت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ گزشتہ پندرہ سال کے عرصے میں دو تین دفعہ امریکیوں نے بڑے شد و مد سے یہ بات کی کہ مذاکرات بہت ضروری، حیاتی اور فوری چیز ہے اور بعض مسائل کے سلسلے میں گفتگو بھی کی لیکن جب ایران کے مدلل موقف کے سامے لا جواب ہو گئے تو مذاکرات کی میز سے اٹھ گئے اور اپنے عالمی ابلاغیاتی نیٹ ورک کی مدد سے یہ ظاہر کیا کہ ایران نے مذاکرات کو ختم کر دیا۔ آپ نے سوال کیا کہ کیا ان تجربات کے بعد بھی ضروری ہے کہ ہم ایک بار پھر مذاکرات میں امریکیوں کے اسی غیر منطق طرز عمل کا  تجربہ کیا جائے؟

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مذاکرات کے بعد پابندیاں ختم کر دینے کے امریکیوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انہیں یہ خام خیالی ہے کہ ایرانی قوم پابندیوں کے نتیجے میں جاں بلب ہو گئی ہے، لہذا جیسے ہی اس وعدے کے بارے میں سنے گی دوڑ کر امریکیوں سے مذاکرات شروع کر دیگی اور اس کے لئے اپنے حکام پر بھی دباؤ ڈالے گی۔ آپ نے فرمایا کہ در حقیقت یہ وعدہ امریکیوں کی وہی معروف چال ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حقیقی اور منصفانہ مذاکرات کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ ان کا مقصد ملت ایران کو جھکانا ہے جبکہ ملت ایران کو اگر امریکیوں کے سامنے جھکنا ہوتا تو سرے سے انقلاب ہی نہ لاتی۔

آپ نے فرمایا کہ بیشک ملت ایران ترقی، فروغ اور رفاہ حاصل کرنے کے لئے کوششیں کر رہی ہے لیکن ذلت و خواری اٹھا کر یہ ہدف حاصل نہیں کرنا چاہتی بلکہ تدبیر، عزم و ارادے اور شجاعت کے ساتھ اور داخلی توانائیوں بالخصوص نوجوانوں پر تکیہ کرکے اس منزل کو سر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کے سامنے سر تعظیم جھکانے والے ملکوں سے ملت ایران کی حیرت انگیز ترقی کا موازنہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پابندیاں عوام کو بیشک پریشان کر رہی ہیں  لیکن اس سلسلے میں ان کے پاس دو ہی راستے ہیں، یا تو کمزور ملکوں کی طرح دنیا کی سامراجی طاقتوں کے سامنے جھک جائیں اور توبہ کر لیں، یا پھر ایران کی شجاع قوم کی مانند داخلی توانائیوں اور صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں اور خطرات سے پروقار اور مقتدرانہ انداز میں عبور کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یقینا ایرانی عوام نے آخر الذکر راستہ چنا ہے اور آئندہ بھی اسی پر جلیں گے اور بفضل الہی پابندیوں کو مزید رشد و نمو کے مواقع میں  تبدیل کر دیں گے۔

قائد انقلاب اسلامي نے کہا کہ اگر امريکا اپني نيک نيتي ثابت کرنا چاہتا ہے تو اس کو منہ زوري اور شيطنت سے باز آنا ہوگا، ايراني عوام کے حقوق کا احترام کرنا ہوگا، ايران کے داخلي امور ميں مداخلت سے باز رہنا ہوگا اور دو ہزار نو کے ايران کے صدارتي انتخابات کے بعد جس طرح سے اس نے فتنہ گر عناصر کي کھل کر حمايت کي تھي اس طرح کي حرکتوں سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔

قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ امريکي حکام ان باتوں پر عمل کريں اور قول و فعل ميں نيک نيتي ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ يہ بھي ثابت کريں کہ وہ غير منطقي نہيں ہيں، تب وہ ديکھيں گے اسلامي جمہوريہ ايران اور ايران کے عوام  خيرخواہ اور معاملہ فہم ہيں اور منطقی طرز عمل پر يقين رکھتے ہيں۔

قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌
آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو، عزیز نوجوانوں اور خاص طور پر گراں قدر شہداء کے اہل  خانہ، دانشوروں، علمائے کرام اور محترم حکام کو جو یہ طویل راستہ طے کرکے آذربائیجان کے پیارے عوام کی استقامت کا  پیغام اور محبت و الفت کا قیمتی تحفہ یہاں اپنے ساتھ لائے ہیں خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ آپ سب کو لطف کامل و کثیر اور رحمت ہمہ گیر سے بہرہ مند فرمائے۔ میں آپ خواہران و برادران گرامی کے توسط سے تمام اہل آذربائیجان اور تبریز کے صاحب ایمان عوام کو ہدیہ سلام و تہنیت پیش کرتا ہوں، بیشک گزشتہ سو ڈیڑھ سو سال کے دوران تمام ادوار میں تبریز اور دیگر شہروں سمیت پورے آذربائیجان کا کردار واقعی فیصلہ کن ثابت ہوا ہے۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔ آپ نے اپنی ہمت و حوصلے سے، اپنی غیرت و حمیت اور ایمان و عزم راسخ سے دشمنوں کے سامنے اس قوم اور وطن عزیز کے وقار کو قائم رکھا ہے۔ گزرنے والے ہر دن کے ساتھ گوناگوں میدانوں میں آذربائیجان کی درخشندگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 18 فروری سنہ 1978 کے واقعے کو پینتیس سال کا عرصہ گزر رہا ہے لیکن ایمان و استقامت کے اعتبار سے اور بصیرت و پائیداری کے لحاظ سے آذربائیجان اس اہم اور تقدیر ساز دور سے بھی زیادہ آگے پہنچ چکا ہے۔ قوم کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے اور ایک دوسرے سے دور کرنے کے لئے اتنی سازشیں اور اتنی بدخواہانہ کوششیں انجام دی گئيں لیکن ان کا نتیجہ الٹا نکلا ہے۔ آپ ہمیشہ پیش پیش رہنے میں کامیاب رہے ہیں۔ آپ اس ملک کی کشتی کو ثبات عطا کرنے والے لنگر کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ نے اپنے شعر میں جو بات کہی میں اسی ضمن میں کہوں گا کہ؛ آرام دل ایران سیزلر سیز(۱) آذربائیجان کے عوام میں انسان ایک خصوصیت نمایاں طور پر دیکھتا ہے، ویسے یہ خصوصیت ملک کے کچھ دیگر علاقوں میں بھی ہے لیکن آذربائیجان میں زیادہ نمایاں ہے۔ وہ خصوصیت یہ ہے کہ مختلف ادوار میں، آئینی انقلاب کے دور میں، فوجی قبضے کے دور میں، دیگر واقعات میں، ان تمام مسائل میں دوسرے علاقے بھی پیش پیش رہے ہیں لیکن آذربائیجان کے عوام کی غیرت مندانہ جدوجہد اور تحریک ہمیشہ دینی و ایمانی جذبات سے آراستہ رہی ہے۔ آذربائیجان میں بائیں بازو کی روشن خیال تحریک بھی تھی اور مغرب سے وابستہ جدت پسندی کی تحریک بھی چل رہی تھی، ملک کے اندر اس بیمار روشن خیالی کی دراندازی کے پہلے ہی دن سے لوگوں کو دین سے جدا کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن اس کے باوجود آپ دیکھیں گے کہ آذربائیجان میں جو تحریکیں چلیں البتہ ان میں بیشتر تحریکیں پوری ایرانی قوم کی عمومی تحریکیں تھیں، ان میں اہل آذربائیجان دوسروں سے زیادہ پیش پیش رہے۔ تمام تر سازشوں کے باوجود آذربائیجان میں عوام کی تحریک اور ان تحریکوں کو آگے لے جانے والے رہنماؤں کی روش میں دینی امور سے قلبی وابستگی سب سے زیادہ نمایاں اور واضح تھی۔ تبریز میں ستار خان کہتے تھے کہ علمائے نجف کا فتوی میری جیب میں ہے۔ یعنی یہ عظیم الشان شجاع مجاہد اپنے مشن کو علمائے نجف کی ہدایات کے مطابق آگے بڑھاتا تھا۔ یعنی اس زمانے میں مشرق و مغرب کے روشن خیال افکار کے بالکل برخلاف۔ یہ چیز ہمیشہ رہی ہے اور آج بھی ہے، انشاء اللہ آئندہ بھی ایسا ہی رہےگا۔ ملت ایران نے ہمیشہ دین و ایمان کو معیار اور مشعل راہ قرار دیا ہے۔ ہم نے مثال آذربائیجان کی پیش کی تاہم پورے ملک میں کم و بیش سارے عوام ایسے ہی ہیں۔ ان کی تحریک غیرت و شجاعت اور احساس ذمہ داری کے ساتھ انجام پاتی ہے لیکن دین کی رہنمائی میں، ایمان کی روشنی میں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اسی لئے آپ دیکھئے کہ عالمی تسلط پسند طاقتوں کی جانب سے جو خطرات قوموں کو لاحق ہو جاتے ہیں اور انہیں متزلزل کر دیتے ہیں، وہ خطرات ملت ایران کو اس کی جگہ سے ہلا نہیں پائے۔ موجودہ دور میں پابندیوں اور دباؤ کا مسئلہ ہے۔ دشمنوں نے اعلان کیا کہ ہم ملت ایران پر مفلوج کن پابندیاں عائد کریں گے اور انہوں نے عائد بھی کیں۔ بائیس بہمن (جشن انقلاب) سے دو تین دن قبل پابندیوں کا ایک نیا دور انہوں نے شروع کیا۔ چند ماہ قبل جولائی میں بھی انہوں نے پابندیاں عائد کی تھیں۔ یعنی انہوں نے اس سال بائیس بہمن (جشن انقلاب) کے ایام میں بخیال خویش عوام پر دباؤ بڑھایا، کس امید پر؟ اس امید پر کہ عوام کی امنگیں ماند پڑ جائیں۔ جواب کیا ملا؟ ملت ایران کا جواب یہ تھا کہ اس سال بائیس بہمن کے جلوس گزشتہ برسوں سے زیادہ باشکوہ انداز میں نکلے۔ سب میدان میں آئے، ہر جگہ سے آئے اور جوش و جذبے کے ساتھ، مسکراتے چہروں کے ساتھ آئے، یہ ہے ملت ایران۔ ہر سال بائیس بہمن کو ملت ایران دشمنوں کے سروں  پر ہتھوڑے کی طرح گرتی ہے، طوفان بن کر دشمنوں اور مخالفوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ اس سال بھی یہ ہتھوڑا گرا۔ میں ایک بار پھر اس پرشکوہ اور عزت آفریں شرکت پر عوام کا شکریہ ادا کرنا لازمی سمجھتا ہوں، اس پر اگر سو دفعہ بھی شکریہ ادا کیا جائے تو کم ہے۔ اس جذبے کے سامنے، اس بصیرت کے سامنے انسان کو سر تعظیم خم کرنا چاہئے۔ یہ ہے ایرانی قوم۔ آپ کا یہ عالم دیکھ کر دشمن خود کو بے بس محسوس کر رہا ہے، اس کا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔ یہ جو ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ جارحانہ  پوزیشن میں ہیں، حقیقت کے برخلاف ہے، حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ ملت ایران کے سامنے دشمن خود کو کمزور پا رہا ہے۔ عزم راسخ، بصیرت اور ایمان سے مزین قوم کو پورا اندازہ ہوتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے، اسے راستے کی مکمل پہچان ہوتی ہے اور سختیوں کو مسکراتے ہوئے برداشت کرتی ہے۔ اس قوم کے سامنے گوناگوں سیاسی، فوجی اور اقتصادی حربے کند ہو جاتے ہیں، اسی لئے دشمن خود کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ دشمن چونکہ خود کو بے بس پا رہا ہے اس لئے غیر منطقی حرکتیں کر رہا ہے۔

میں آپ کی خدمت میں عرض کر دوں کہ امریکی حکام غیر منطقی لوگ ہیں، ان کی باتیں غیر منطقی ہیں، ان کا عمل غیر منطقی ہوتا ہے، زبردستی کرنے کے عادی ہیں، انہیں توقع رہتی ہے کہ دوسرے افراد ان کی غیر منطقی باتوں اور زور زبردستی کو بے چوں و چرا قبول کر لیں۔ بعض لوگ تسلیم بھی کر لیتے ہیں۔ کچھ حکومتیں، بعض ملکوں کے کچھ سیاسی عمائدین ان کے ڈھیٹ پنے اور زبردستی کو مان لیتے ہیں لیکن ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام تو اسے تسلیم کرنے سے رہا۔ اسلامی جمہوری نظام کے پاس مدلل باتیں ہیں، منطقی روش ہے، طاقت و توانائی ہے، لہذا غیر منطقی بات اور غیر منطقی فعل کو وہ ہرگز قبول نہیں کر سکتا۔

یہ لوگ نا معقول افراد ہیں؟ ان کے نامعقول ہونے کی علامت ان کے قول و فعل میں پائے جانے والے یہی تضادات ہیں۔ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں! غیر منطقی ہونے کی اس سے بڑی علامت اور کیا ہو سکتی ہے؟! منطقی فکر رکھنے والا آدمی کوئی قابل قبول بات کرتا ہے اور پھر اسی بات کے مطابق عمل کرتا ہے۔ لیکن یہ حضرات، یہ امریکی حکام اور مغرب میں ان کے حلقہ بگوش افراد، ایسے نہیں ہیں۔ بات کچھ کرتے ہیں، دعوی کچھ کرتے ہیں اور عملی میدان میں اس کے بالکل برخلاف اقدامات انجام دیتے ہیں۔ میں اس کے چند نمونے پیش کروں گا۔

وہ دعوی کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کے بڑے پاسدار ہیں۔ انسانی حقوق کا پرجم امریکیوں نے بلند کر رکھا ہے، کہتے ہیں کہ ہم خود کو انسانی حقوق کا  پابند مانتے ہیں، صرف اپنے ملک امریکا میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں۔ یہ ان کا قول اور ان کا دعوی ہے، اب یہ دیکھئے کہ ان کا عمل کیا ہے؟ عمل میں دیکھا جائے تو انہوں نے انسانی حقوق کو سب سے زیادہ پامال کیا ہے، انسانی حقوق کا سب سے زیادہ مذاق انہی نے اڑایا ہے۔ مختلف ملکوں میں انہوں نے انسانی حقوق کی توہین کی ہے، مختلف اقوام کے حقوق پامال کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کے خفیہ عقوبت خانے، ان کی گوانتانامو جیل، عراق میں ان کی ابو غریب جیل، افغانستان میں عام شہریوں پر ان کے وحشیانہ حملے، پاکستان اور دیگر خطوں میں ان کی بے رحمانہ کارروائیاں، یہ سب امریکیوں کے انسانی حقوق کی پاسداری کے نمونے ہیں!!! ان کے ڈرون طیارے پرواز کرتے ہیں تو جاسوسی بھی کرتے ہیں اور عوام الناس کی زندگیوں کو جہنم بھی بنا دیتے ہیں، آپ روزانہ افغانستان اور پاکستان سے اس کی خبریں سن رہے ہیں۔ البتہ یہی ڈرون طیارے ایک امریکی جریدے کے بقول جس نے ابھی چند روز قبل یہ بات لکھی ہے، آگے چل کر خود امریکیوں کے لئے بہت بڑے درد سر میں تبدیل ہونے والے ہیں۔

ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ ہم ایٹمی عدم پھیلاؤ کے بڑے پابند ہیں۔ اب سے گیارہ سال قبل عراق پر حملے کے لئے انہوں نے یہی بہانہ  پیش کیا تھا کہ صدام حکومت ایٹمی ہتھیار بنا رہی ہے۔ وہ گئے اور کہیں بھی جوہری ہتھیار تلاش نہیں کر سکے اور معاملہ صاف ہو گیا کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاؤ نہ ہو، لیکن اس کے باوجود وہ ایک ایسی  حکومت کا دفاع کرتے ہیں جو انتہائی شر پسند ہے، یعنی صیہونی حکومت جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے اور ایٹمی حملے کی دھمکیاں بھی دیتی رہتی ہے۔ تو ان کی باتیں ایسی ہیں اور عمل ایسا ہے۔

ان کا دعوی ہے کہ ہم دنیا میں جمہوریت کی ترویج کے بھی بہت پابند ہیں۔ فی الحال میں اس بارے میں بحث نہیں کروں گا کہ خود امریکا کے اندر جمہوریت کی کیا حقیقت ہے؟! اس بلند بانگ دعوے کے بعد بھی وہ اسلامی جمہوریہ ایران جیسے ملک سے، جو علاقے میں سب سے روشن اور سب سے نمایاں عوامی و جمہوری نظام کا مالک ہے، دشمنی برتتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، وہ اسی علاقے میں ان ملکوں کی پشتپناہی بھی کرتے ہیں اور انتہائی ڈھیٹ پنے سے ان کا دفاع اور حمایت کرتے ہیں جنہوں نے جمہوریت کی بو بھی کبھی محسوس نہیں کی ہے اور جہاں کے عوام نے بیلٹ  باکس کا منہ تک نہیں دیکھا ہے۔ تو یہ ہے جمہوریت سے ان کی وفاداری کا عالم! آپ ذرا ملاحظہ فرمائے کہ ان کے قول و فعل میں کتنا تضاد ہے؟!!

وہ کہتے ہیں کہ ہم ایران سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے بارہا کہی ہے۔ حالیہ دنوں میں وہ اس کی کچھ زیادہ تکرار کرنے لگے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم ایران سے مذاکرات کرکے اپنے مسائل کا تصفیہ کر لینا چاہتے ہیں۔ یہ تو ان کا قول ہے، لیکن عمل میں دیکھئے تو کبھی پابندیوں کا سہارا لیتے ہیں، کبھی جھوٹے پروپیگنڈے کرتے ہیں، نازیبا باتیں کرتے ہیں، اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے تعلق سے خلاف حقیقت باتیں پھیلاتے ہیں۔

ابھی چند روز قبل امریکی صدر خطاب کر رہے تھے تو انہوں نے ایران کے ایٹمی مسائل کے بارے میں اس انداز سے بات کی کہ گویا ایران اور امریکا کے درمیان سارا جھگڑا اس بات پر ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتا ہے! ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک ممکن ہوگا ہم ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکیں گے! سوال یہ ہے کہ اگر ہم ایٹم بم بنانا چاہتے تو آپ ہمیں کیسے روک لیتے؟ اگر ایران نیوکلیائی بم حاصل کرنے کا ارادہ کر لیتا تو امریکا کے بس کی بات نہیں تھی کہ اسے روک لیتا!

ہم خود نہیں چاہتے کہ ایٹمی ہتھیار بنائیں۔ اس لئے نہیں کہ ایسا کرنے پر امریکا برا مان جائے گا۔ بلکہ اس لئے کہ ہمارے دینی عقیدے کا تقاضا یہی ہے۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیار کا استعمال انسانیت سوز جرم ہے، یہ ہتھیار نہیں بنانا چاہئے، دنیا میں جو ایٹمی ہتھیار ہیں انہیں بھی نابود کر دیا جانا چاہئے، ختم کر دیا جانا چاہئے۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے، اس سے آپ کی خوشی اور ناراضگی کا کوئی ربط نہیں ہے۔ اگر ہمارا یہ دینی عقیدہ نہ ہوتا اور ہم ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کر لیتے تو کوئی بھی طاقت ہمیں روک نہ پاتی، جیسا کہ کچھ دیگر ملکوں کو کوئی نہیں روک پایا۔ ہندوستان کو کوئی نہیں روک سکا، پاکستان کو کوئی نہیں روک پایا، شمالی کوریا کو کوئی نہیں روک پایا۔ امریکی اس کی بڑی مخالفت کر رہے تھے لیکن ان ملکوں نے ایٹمی اسلحہ بنا لیا۔

فرماتے ہیں کہ ہم ایران کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ ایٹم بم بنائے! ان کے اس جملے میں ایک فریب پنہاں ہے۔ ایٹم بم بنانے کی بحث کہاں سے آ گئی؟ سارا جھگڑا تو اس بات پر ہے کہ ملت ایران کو یورینیم کی افزودگی اور پر امن مقاصد کے تحت جوہری توانائی کے استعمال پر مبنی اس کے مسلمہ حق سے محروم کر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے اور ایرانی قوم اپنا حق حاصل کرکے رہے گی۔

امریکی حکام غیر منطقی باتیں کرتے ہیں۔ غیر منطقی باتیں کرنے والوں سے انسان منطقی بات نہیں کر سکتا، کیونکہ وہ منطقی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ غیر منطقی یعنی زور زبردستی کی بات، یعنی نامعقول بات۔ یہ حقیقت ہے کہ تیس سال کے عرصے میں ہم نے مختلف عالمی مسائل میں بخوبی اسے دیکھ لیا ہے۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ ہمارا واسطہ کیسے فریق سے ہے اور اس سے کیسے نمٹنا ہے؟!!

میں نے چند نکتے نوٹ کئے ہیں جو آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں اور تمام ملت ایران کی خدمت میں پیش کروں گا۔ میں یہ باتیں ایرانی عوام کے لئے بیان کر رہا ہوں۔ جب وہ لوگ بات کرتے ہیں، امریکی صدر کوئی بات کرتے ہیں، ان کے اعوان و انصاو کچھ کہتے ہیں، امریکی حکام کوئی بیان دیتے ہیں تو ان کا مقصد رائے عامہ کو فریب دینا ہوتا ہے۔ عالمی رائے عامہ، علاقائی رائے عامہ اور اگر ممکن ہو تو ایران کے عوام کو بھی ورغلانا ان کا مقصد ہوتا ہے۔ اس وقت ہمیں عالمی رائے عامہ سے کچھ نہیں کہنا ہے، کیونکہ دنیا کے ذرائع ابلاغ جو امریکا اور صیہونیوں کی ملکیت ہیں، ہماری بات کو صحیح شکل میں پیش کرنے سے رہے۔ وہ یا تو سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں یا آدھی ادھوری بات توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ میں یہ بات اپنے عوام سے کر رہا ہوں۔ اسلامی جمہوریہ کی قوت و طاقت کا انحصار عالمی رائے عامہ پر نہیں ہے، اسلامی جمہوریہ نے یہ قوت، یہ عزت اور یہ وقار عالمی رائے عامہ کی مدد سے حاصل نہیں کیا ہے، اسے یہ نعمت ملت ایران نے عطا کی ہے۔ وہ مستحکم اور نا قابل تسخیر عمارت جو ملت ایران نے تعمیر کی ہے اور اس کا جو پیغام آج دنیا بھر میں بار بار خود بخود نشر ہو رہا ہے اس سب کا سرچشمہ ایران کے عوام ہیں۔ میں اپنے عوام سے بات کر رہا ہوں، دوسروں سے مجھے کوئی مطلب نہیں ہے۔ دوسرے اگر چاہیں تو سنیں اور نہ چاہیں تو نہ سنیں، چاہیں تو کوریج دیں اور چاہیں تو نہ دیں۔ بس ہماری قوم ان باتوں سے باخبر ہو جائے۔ تو سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ یہ امریکی حکام نامعقول لوگ ہیں، سوچتے کچھ ہیں اور کہتے کچھ اور ہیں، ان کے قول و فعل میں تضاد ہے۔

دوسرا نکتہ: انہوں نے مذاکرات کا مسئلہ اٹھایا ہے کہ ایران آئے مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ ان کا غیر منطقی رویہ مذاکرات کی اس دعوت میں بھی صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ انہیں مشکلات اور مسائل حل کرنے کی کوئی فکر نہیں ہے، اس کی میں بعد میں تشریح کروں گا، ان کا سارا مقصد پروپیگنڈا کرنا ہے اور مسلم اقوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ دیکھئے اسلامی جمہوریہ ایران بھی اپنی تمام تر اکڑ، مزاحمت اور استقامت کے باوجود سرانجام ہم سے مذاکرات کا دروازہ کھولنے اور مفاہمت کرنے پر مجبور ہو گیا۔ جب ملت ایران کا یہ عالم ہے تو پھر آپ کس شمار میں ہیں؟ آج جب بیشتر اسلامی ملکوں میں نسیم بیداری کے جھونکے فضا کو معطر کر رہے ہیں اور اسلام سے وابستہ ہونے پر لوگ احساس فخر کر رہے ہیں تو ان حالات میں مسلمان قوموں کو ناامید اور مایوس کرنے کے لئے امریکیوں کو اس کی سخت ضرورت پیش آ گئی ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد سے ہی یہ ان کا مطمح نظر رہا ہے۔ ابتدائي برسوں میں ان کی یہ کوشش تھی کہ ایران کو مذاکرات اور سودے بازی کی میز پر گھسیٹ لیں اور پھر کہیں کہ دیکھا آپنے! ایران جو خود مختار، آزاد، نڈر، ثابت قدم اور شجاع ہونے کے اتنے دعوے کرتا تھا آخرکار ہم سے مصالحت کرنے پر مجبور ہو گیا۔ آج بھی ان کی نظریں اسی ہدف پر ٹکی ہوئی ہیں۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ جب مذاکرات کا مقصد بنیادی مسائل سے الگ ہٹ کر کوئی اور ہی شئے ہے، جب مقصد تشہیراتی فائدہ حاصل کرنا ہے، تو ظاہر ہے کہ ان کا واسطہ اسلامی جمہوریہ جیسے فریق سے ہے جو نا تجربہ کار نہیں ہے، جو آنکھ بند کرکے کوئی کام نہیں کرتی، اسے خوب اندازہ ہے کہ آپ کس فکر میں ہیں؟! بنابریں آپ کی اسی نیت کے مطابق وہ آپ کا جواب بھی دیگی۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امریکیوں اور دیگر تسلط پسند طاقتوں کے نزدیک مذاکرات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ آئیے، مذاکرات کے لئے بیٹھئے تا کہ آپ ہماری بات سنیں اور اسے مانیں۔ یہ ہے ان کا مقصد۔ آئيے بیٹھئے، آپس میں ہم بات کرتے ہیں اور اس گفتگو کا نتیجہ یہ نکلے کہ جو بات آپ پہلے نہیں تسلیم کر رہے تھے اب آپ اسے مان لیں۔ ان دنوں امریکی اپنے پروپیگنڈے میں جو انہوں نے ایران سے مذاکرات کے تعلق سے شروع کر رکھا ہے، اس کے بارے میں یقینا آپ نے بھی سنا ہی ہوگا، اس کا بڑا ہنگامہ کیا جا رہا ہے کہ ہم ایران سے براہ راست مذاکرات کریں گے، ان کے اسی پروپیگنڈے میں آپ دیکھئے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ ہم ایران سے مذاکرات کریں گے اور اسے اس بات پر قائل کر لیں گے کہ یورینیم کی افزودگی سے دست بردار ہو جائے، جوہری توانائی سے کنارہ کش ہو جائے۔ یہ ہے ان کا مقصد۔ یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تا کہ ایران اپنے دلائل پیش کرے، ہم ایٹمی مسئلے میں دباؤ ڈالنے کا سلسلہ بند کریں، پابندیوں میں کمی کریں، مداخلتوں کا سلسلہ روکیں۔ فرماتے ہیں کہ آئیے مذاکرات کرتے ہیں تا کہ ایران ہماری بات مان لے۔ اس طرح کے مذاکرات سے کیا حاصل ہوگا، یہ گفتگو تو کسی نتیجے پر پہنچنے والی نہیں ہے۔ چلئے میں نے مان لیا کہ حکومت ایران قبول کر لے اور ہمارے مذاکرات کار جائیں امریکیوں کے ساتھ بیٹھیں اور مذاکرات کریں۔ تو اگر ہدف یہی ہے تو یہ کیسے مذاکرات ہوں گے؟ ظاہر ہے کہ ایران اپنے حقوق سے تو دست بردار ہوگا نہیں۔ لہذا مذاکرات کے دوران جب بھی وہ دیکھیں گے کہ ایرانی فریق منطقی دلائل پیش کر رہا اور وہ لاجواب ہو گئے ہیں تو وہیں پر مذاکرات کو ادھورا چھوڑ کر اٹھ جائیں گے اور واویلا مچانے لگیں گے کہ ایران تو مذاکرات میں سنجیدہ ہی نہیں ہے! سیاسی و ابلاغیاتی نیٹ ورک بھی ان کے اختیار میں ہیں جو ان کے لئے زبردست پروپیگنڈے کا کام کرتے ہیں۔ اس کا ہم تجربہ کر چکے ہیں۔ گزشتہ دس پندرہ سال کے عرصے میں دو تین دفعہ یہ  اتفاق ہوا کہ امریکیوں نے کسی خاص مسئلے کے سلسلے میں ہمارے حکام کو یہ پیغام بھجوایا اور اصرار کیا کہ بہت فوری اور ضروری معاملہ پیش آ گیا ہے، آئیے ملتے ہیں اور بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ایک یا دو افراد گئے اور کسی جگہ مذاکرات انجام پائے۔ انہوں نے جیسے ہی دیکھا کہ ایرانی اپنی منطقی باتیں مدلل انداز میں پیش کر رہے ہیں اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں  ہے، یکطرفہ طور پر مذاکرات کو ختم کرکے چلے گئے۔ البتہ اس کا انہوں نے تشہیراتی فائدہ اٹھا لیا۔ اس کا ہم تجربہ کر چکے ہیں۔  «من جرّب المجرّب حلّت به النّدامة» (جو آزمائی ہوئی چيز کو بار بار آزمائے اسے شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔)

چوتھا نکتہ: پروپیگنڈے میں وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ایران امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جاتا ہے تو پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔ یہ بھی سراسر جھوٹ ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ پابندیاں اٹھا لینے کا وعدہ کرکے ایرانی عوام میں مذاکرات کی خواہش اور لالچ پیدا کریں۔ وہ اس خام خیالی میں ہیں کہ ملت ایران پابندیوں سے جاں بلب ہو گئی ہے، اس کی درگت بن گئی ہے، سب کچھ درہم برہم ہو گیا ہے، تو اب ہم جیسے ہی کہیں گے کہ آئيے مذاکرات کرتے ہیں تا کہ ہم پابندیوں کو اٹھا لیں تو ایرانی قوم لپک پر آگے بڑھے گی کہ ہاں بالکل آئیے مذاکرات کرتے ہیں۔

یہ بات بھی ان کی غیر منطقی باتوں میں سے ایک ہے، جس کا مقصد فریب دینا اور دھونس جمانا ہے۔ سب سے پہلی بات جیسا کہ میں نے عرض کیا، یہ جو کہہ رہے ہیں کہ آئيے مذاکرات کرتے ہیں تو مذاکرات سے ان کا مقصد حقیقی معنی میں منطقی اور منصفانہ گفتگو کرنا نہیں ہے۔ مذاکرات سے ان کا مقصد یہ ہے کہ آپ آئیے اور ہماری بات مانئیے، ہمارے سامنے سر جھکائیے، تب ہم پابندیاں اٹھا لیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملت ایران کو آپ کے سامنے سر تعظیم خم کرنا گوارا ہوتا تو وہ انقلاب کیوں لاتی؟ ایران کے جملہ امور امریکا کے ہاتھ میں تھے، وہ جو چاہتا تھا کرتا تھا۔ ایرانی عوام انقلاب لائے کہ امریکی تسلط سے آزاد ہو جائیں۔ اب دوبارہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کریں اور پھر آپ کے سامنے خود سپردگی کر دیں؟! یہ تو رہا ایک اشکال! دوسرا اشکال یہ ہے کہ مذاکرات سے پابندیاں ہٹنے والی نہیں ہیں۔ یہ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ پابندیوں کا مقصد کچھ اور ہے۔ پابندیوں کا مقصد ہے ملت ایران کو تھکا مارنا، عوام کو اسلامی نظام سے روگرداں کر دینا۔ لہذا اگر مذاکرات ہو گئے تب بھی اگر ایرانی عوام میدان میں ثابت قدمی سے ڈٹے رہے اور اپنے حقوق پر اصرار کرتے رہے تو یہ پابندیاں بھی لگی ہی رہیں گی۔ دشمن کی اس غلط سوچ کے جواب میں ملت ایران کو کیا کرنا چاہئے؟

ہمارے مقابل جو فریق ہے اس کے ذہن میں ایک خیال ہے جس کا ہم  تجزیہ کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام پوری طرح عوام پر تکیہ کئے ہوئے ہے۔ اگر ہم عوام کو اسلامی جمہوری نظام سے روگرداں کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اسلامی جمہوری نطام کی ساری طاقت ختم ہو جائے گی۔ یہ ہمارے مد مقابل فریق کا خیال ہے۔ اس خیال کے دو جز ہیں۔ ایک حصہ بالکل درست ہے جبکہ دوسرا حصہ غلط ہے۔ جو حقیقت وہ صحیح طور پر سمجھے ہیں وہ یہ ہے کہ بیشک اسلامی جمہوری نظام کا تکیہ عوام پر ہے، اسلامی نظام کا سرمایہ اور بنیاد عوام الناس اور عظیم ملت ایران کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس ملک اور اس نظام کا حفاظتی حصار یہی عوام ہیں۔ جو بات وہ غلط طریقے سے سمجھے ہیں وہ یہ ہے کہ پابندیوں کے ذریعے، دھمکیوں کے ذریعے، عالمی مسائل، تجارتی مسائل اور پیداوار وغیرہ جیسے شعبوں میں زور زبردستی کرکے وہ ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وہ اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام کا یہ سرمایہ وہ چھین سکتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔

بیشک ملت ایران دشمن کے حربوں اور اس کی چالوں کو کند کرنے کے لئے تدبیریں ضرور سوچے گی، ایرانی عوام کو ترقی و پیشرفت کی فکر ہے، اقتصادی رونق اور رفاہی امور کی فکر ہے لیکن ایرانی عوام دشمن کے سامنے ذلت اٹھا کر یہ چیزیں حاصل نہیں کریں گے۔ ایرانی عوام اپنی طاقت کے ذریعے، اپنے عزم کے ذریعے، اپنی شجاعت کے ذریعے، پیش قدمی کی جرئت کے ذریعے، اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کی مدد سے، ان چیزوں کو حاصل کریں گے، کسی اور راستے سے نہیں۔ پابندیوں کی وجہ سے بیشک مشکلات ہیں، تکلیفیں ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس دباؤ کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ قومیں دشمن کا دباؤ پڑنے پر یا تو اس کے سامنے سر جھکا دیتی ہیں، کورنش بجا لاتی ہیں اور توبہ کر لیتی ہے۔ یا پھر ایران کے شجاع عوام کی مانند دشمن کا دباؤ پڑتے ہی اپنی اندرونی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور پروان چڑھانے پر توجہ مرکوز کرتی ہیں اور اپنی طاقت و صلاحیت کے ذریعے خطرناک موڑ کو عبور کر جاتی ہیں۔ ایرانی قوم اس موڑ پر بھی یہی کرے گی۔ ہمارا تیس سالہ  تجربہ اس کا گواہ ہے۔

ہمارے اسی خطے میں کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جو تیس پینتیس سال سے امریکا کی مٹھی میں ہیں، ان کی حکومتیں امریکا کی بندہ بے دام اور فرمانبردار رہی ہیں، آج وہ کس مقام پر ہیں؟ ملت ایران اس عرصے میں امریکا کے سامنے ثابت قدمی سے ڈٹی رہی تو دیکھئے کہ آج ملت ایران کس مقام پر ہے؟ تیس سال تک امریکا کے دباؤ کا سامنا کرنے کے نتیجے میں ہماری قوم سائنسی ترقی کے لحاظ سے، اقتصادی پیشرفت کے لحاظ سے، ثقافتی شگوفائی کے اعتبار سے، عالمی ساکھ کی نظر سے، سیاسی اثر و نفوذ کے زاوئے سے اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ پہلوی اور قاجاریہ حکومتوں کے دور میں اس کا وہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔ نہ عوام اس کا تصور کر سکتے تھے اور نہ حکام۔ ہم نے تجربہ کیا، ہم نے اسے آزمایا ہے۔ امریکا کے شدید دباؤ کے سامنے ہماری استقامت و پائیداری جاری رہی تو آج ہم اس مقام پر پہنچے ہیں جبکہ امریکا کی گود میں جا بیٹھنے والے ممالک بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ استقامت و پائيداری سے ہم نقصان میں نہیں رہے۔ استقامت و مزاحمت کی جائے تو قوم کے اندر پنہاں صلاحیتیں اور توانائیاں ابھر کر سامنے آ جاتی ہیں۔ یہ جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں یہ بھی ایرانی عوام کے لئے مددگار ثابت ہوں گی اور قوم اللہ کے فضل و کرم سے رشد و نمو کی چوٹی پر پہنچے گی۔ یہ بھی بہت اہم نکتہ ہے۔

اس سال آپ نے دیکھا کہ عوام نے جلوسوں میں کیا کارنامہ انجام دیا۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ عوام کو گرانی اور مشکلات سے کوئي شکایت نہیں ہے۔ کیوں نہیں، مہنگائی ہے، اقتصادی مشکلات موجود ہیں، عوام انہیں باقاعدہ محسوس کر رہے ہیں، خاص طور پر کمزور طبقات۔ لیکن اس کے سبب عوام نے اپنے اور اسلامی نظام کے درمیان خلیج پیدا نہیں ہونے دی۔ عوام کو معلوم ہے کہ ان کی مشکلات کو حل کرنے والا طاقتور بازو اسلام ہے، اسلامی نظام ہی ان مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ با وقار اسلام، مقتدر اسلام اور اسلام کے پابند حکام ان مسائل کو برطرف کر سکتے ہیں۔ دشمنوں کے سامنے سجدہ ریز ہو جانے سے یہ مسائل حل ہونے والے نہیں ہیں۔

آخری نکتہ: ہم امریکیوں کے برخلاف منطقی سوچ رکھتے ہیں۔ ہمارے حکام منطقی طرز پر کام کرتے ہیں، ہماری قوم منطقی فکر رکھنے والی قوم ہے۔ منطقی بات کرتی ہے اور منطقی بات مانتی بھی ہے۔ امریکی پہلے یہ ثابت کر دیں کہ زور زبردستی کا ارادہ نہیں رکھتے، شر پسندی کا سودا ان کے سر میں نہیں ہے، یہ ثابت کریں کہ ان کی بات اور ان کا عمل غیر منطقی نہیں ہوگا، ثابت کریں کہ ملت ایران کے حقوق کا احترام کریں گے، یقین دلائیں کہ علاقے میں فتنہ انگیزی کی فکر میں نہیں ہیں، یقین دلائیں کہ ملت ایران کے مسائل میں مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتے، جیسا کہ انہوں نے سنہ دو ہزار نو کا فتنہ بھڑکایا تھا اور آشوب پسند عناصر کی حمایت کی تھی، اپنے سوشل نیٹ ورک آشوب پسند عناصر کے اختیار میں دے دئے تھے، ایک سوشل نیٹ ورک اس زمانے میں کچھ تعمیراتی کاموں کے لئے اپنی سرگرمیاں معطل کرنا چاہتا تھا تو انہوں نے کہا کہ ابھی کام بند نہ کرے بلکہ فتنہ کی آگ اور بھڑکانے میں مدد کرے! وہ اگر یہ حرکتیں نہ کریں تو وہ اسلامی جمہوریہ کو ایک خیر خواہ نظام پائيں گے، وہ دیکھیں گے کہ ایران کے عوام منطقی فکر کے حامل ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے کوئي بھی معاملہ اسی راستے سے طے پا سکتا ہے جس کا میں نے ذکر کیا، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ممکن نہیں ہے۔ اسی روش پر چل کر آپ ایران سے کوئی معاملہ طے کر سکتے ہیں۔ امریکیوں کو اپنی نیک نیتی ثابت کرنی ہوگی، انہیں یقین دلانا ہوگا کہ دھونس اور دھمکی کی زبان میں گفتگو نہیں کریں گے۔ اگر انہوں نے یہ یقین دلا دیا تو دیکھیں گے کہ ایرانی عوام تعاون کر رہے ہیں۔ شرپسندی نہ ہو، مداخلت نہ ہو، دھمکی آمیز باتیں نہ ہوں، ملت ایران کے حقوق کو تسلیم کیا جائے، ایسی صورت میں ایران بھی مناسب انداز میں قدم آگے بڑھائے گا۔

ایک نکتہ ملک کے داخلی مسائل کے سلسلے میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے۔ جو قضیہ پارلیمنٹ کے اندر پیش آیا بہت قبیح تھا، بالکل نامناسب واقعہ تھا۔ اس سے عوام بھی کبیدہ خاطر ہوئے، دانشور طبقے کو بھی تکلیف پہنچی۔ مجھے اس پر دو اعتبار سے تکلیف ہوئی۔ اس واقعے پر مجھے خود بھی تکلیف پہنچی اور اس کے ساتھ ہی عوام کی ناراضگی دیکھ کر بھی مجھے تکلیف پہنچی۔ ایک شعبے (مجریہ) کے سربراہ نے ایک ایسے الزام کو بنیاد بنا کر جو ابھی ثابت نہیں ہوا ہے بلکہ جسے ابھی عدالت میں پیش بھی نہیں کیا گیا ہے، دو شعبوں (عدلیہ و مقننہ) کے سربراہوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔ یہ قبیح عمل تھا، نامناسب فعل تھا۔ اس طرح کے کام شریعت کے بھی خلاف ہیں، قانون کے بھی منافی ہیں، اخلاقی اصولوں کے بھی خلاف ہیں اور یہ عوام الناس کے بنیادی حقوق کی تضییع بھی ہے۔ کیونکہ عوام کا ایک بنیادی حق ہے ذہنی و نفسیاتی سکون کی فضا میں سانس لیں، ملک میں اخلاقیاتی طمانیت کا ماحول ہو۔ اگر کسی شخص پر بدعنوانی کا الزام ہے تو اس کی بنیاد پر دوسروں کے خلاف الزامات نہیں لگائے جا سکتے، خواہ وہ الزام ثابت بھی کیوں ہو گیا ہے۔ چہ جائیکہ وہ الزام ابھی ثابت نہیں ہوا بلکہ کسی عدالت میں پیش بھی نہیں کیا گیا، کوئی عدالتی کارروائی بھی انجام نہیں پائی۔ کسی ایک شخص پر الزام لگا کر کوئی شخص پارلیمنٹ کو اور عدلیہ کو کٹہرے میں کھڑا کر دے، تو یہ فعل ہرگز درست نہیں ہے، یہ غلط بات ہے۔ میں فی الحال بس نصیحت کروں گا۔ یہ فعل اسلامی جمہوری نظام کے شایان شان نہیں ہے۔ قضیئے کے دوسرے رخ کو دیکھا جائے تو (وزیر محنت کا) جو امپیچمنٹ پارلیمنٹ میں ہوا وہ بھی غلط تھا۔ امپیچمنٹ کا کوئی فائدہ اور نتیجہ ہونا چاہئے۔ حکومت کی مدت پوری ہونے میں چند مہینے کا وقت بچا ہے، ایسے میں کسی وزیر کا امپیچمنٹ اور وہ بھی کسی ایسی وجہ کی بنیاد پر جس کا خود اس وزیر سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیا معنی و مفہوم رکھتا ہے؟ اس کی کیا ضرورت تھی؟ یہ غلط اقدام تھا۔ یہ جو سننے میں آیا کہ پارلیمنٹ کے اندر کچھ لوگوں نے نازیبا باتیں کہیں وہ بھی غلط تھا۔ یہ پورا ماجرا نامناسب اور اسلامی جمہوریہ کی شان کے منافی تھا۔ نہ وہ الزام تراشی، نہ وہ رد عمل، نہ وہ مواخذہ، کچھ بھی درست نہیں تھا۔ پارلیمنٹ کے محترم اسپیکر نے اپنے دفاع میں جو باتیں کہیں اس میں بھی زیادتی ہوئی، جس کی کوئي ضرورت نہیں تھی۔

جب ہم سب آپس میں بھائی ہیں، جب ہمارا مشترکہ دشمن ہمارے سامنے ہے، جب ہم سازش کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں، تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اب تک یہی ہوتا رہا ہے کہ ہمارے حکام دشمن کی سازشوں کے سامنے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے ہیں، یہی روش جاری رہنی چاہئے، ہمیشہ یہی طرز عمل ہونا چاہئے۔ میں نے حکام اور عہدیداروں کی ہمیشہ حمایت کی ہے اور آئندہ بھی جو شخص اپنے دوش پر ذمہ داریاں اٹھائے گا اس کی حمایت کروں گا، اس کی مدد کروں گا۔ لیکن یہ چیزیں مجھے پسند نہیں ہیں، یہ اقدامات فرائض سے مطابقت نہیں رکھتے۔ جو حلف لیا گیا ہے اس اس سے مطابقت نہیں رکھتے۔ آپ عظیم ملت ایران کو دیکھئے! اس کی شان و شوکت الگ انداز کے طرز عمل کی متقاضی ہے۔ آج حکام کو چاہئے کہ اقتصادی مشکلات کی گرہیں کھولنے کے لئے دلجمعی سے کام کریں، مشکلات کو برطرف کرنا چاہئے۔ میں نے تین چار سال قبل آغاز سال کی تقریر میں عوام اور حکام سے واضح طور پر کہا تھا کہ ملت ایران کے دشمنوں کی سازشیں اب سے پوری طرح اقتصادی شعبے پر مرکوز رہیں گی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اب حکومت اور پارلیمنٹ کو چاہئے کہ اپنی تمام توانائیاں صحیح اقتصادی پالیسیوں اور تدابیر پر مرکوز کریں، ان کا سارا ہم و غم یہی ہونا چاہئے۔ چند سال قبل میں نے مالی بدعنوانی کے سلسلے میں تینوں شعبوں (مجریہ، عدلیہ، مقننہ) کے سربراہوں کو ایک خط تحریر کیا تھا کہ اقتصادی بدعنوانی کا مقابلہ کیجئے۔ صرف زبانی جمع خرچ سے تو کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے، بدعنوانی کا مقابلہ کرنے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بس یہی کہے جا رہے ہیں کہ مالی بدعنوانی کے خلاف اقدام ہونا چاہئے، تو سوال یہ ہے کہ کیا اقدام انجام دیا گیا؟ عملی طور پر کیا قدم اٹھایا گيا؟ آپ نے کیا کیا؟ یہ باتیں انسان کو اذیت ناک معلوم ہوتی ہیں۔ حکام سے مجھے یہ توقع ہے کہ اب جب دشمن کی ریشہ دوانیاں تیز ہو گئی ہیں تو آپ اپنی آپسی محبت کو بڑھائیے، آپس میں متحد ہو جائیے۔ تقوا! تقوا! تقوا! صبر! سرکش جذبات کو قابو سے باہر نہ ہونے دینا! ملکی مفادات کو ملحوظ رکھنا! ، عوام اور ملک کی مشکلات کے تصفئے کے لئے اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لانا! یہ ہیں ہماری توقعات۔ میں امید کرتا ہوں کہ میری یہ خیر خواہانہ اور مشفقانہ نصیحت محترم حکام کے مورد توجہ واقع ہوگی اور اعلی رتبہ حکام اس پر خاص طور پر توجہ دیں گے اور اس کی پابندی کریں گے۔

میں یہ بھی عرض کر دوں کہ میں نے جو بات آج کہی اور ملک کے بعض حکام سے گلہ کیا، اس کی بنیاد پر کچھ افراد، کچھ لوگوں کے خلاف نعرے بازی شروع نہ کر دیں۔ بالکل نہیں، میں اس فعل کے خلاف ہوں۔ چند افراد کسی کو ولی امر مسلمین کا مخالف، بے بصیرت اور نہ معلوم کیا کیا قرار دے دیں اور پھر کچھ لوگ ان کے خلاف نعرے بازی شروع کر دیں، پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کریں۔ میں ان چیزوں کے خلاف ہوں۔ یہ بات میں پوری صراحت کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ اس طرح کا جو واقعہ قم میں ہوا میں اس کے خلاف ہوں۔ اسی طرح جو اقدام امام خمینی کے مزار پر چند سال قبل ہوا تھا اس کے بھی خلاف ہوں۔ اس قسم کی چیزوں کی میں سختی سے مخالفت کرتا ہوں۔ میں نے حکام اور ان افراد کو جو ان چیزوں کا سد باب کر سکتے ہیں، بارہا اس بارے میں انتباہ دے چکا ہوں۔ جو افراد یہ کام کر رہے ہیں اگر وہ واقعی حزب اللہی ہیں، مومن ہیں، تو ان سے میری گزارش ہے کہ یہ نہ کریں، وہ جانتے ہیں کہ ہمارے نقطہ نظر سے یہ اقدامات ملک کے نقصان میں ہیں، ان سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کوئی جذبات کی رو میں بہہ کر اٹھ کھڑا ہو اور کبھی کسی کے خلاف اور کبھی کسی اور کے خلاف نعرے بازی کرے تو اس نعرے بازی سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ آپ ان جذبات اور احساسات کو کسی ضروری مقصد کے لئے محفوظ رکھئے۔ مقدس دفاع کے دوران اگر رضاکار اسی طرح جاتے اور جہاں دل چاہتا حملہ کرتے تو ملک کا ستیاناس ہو جاتا۔ نظم و انضباط ضروری ہے، ڈسپلن ضروری ہے، تمام باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ جن لوگوں کو ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ان کی تو خیر بات ہی الگ ہے لیکن جو افراد ان باتوں پر توجہ دیتے ہیں اور شریعت کے خلاف کوئی قدم نہ  اٹھانے کے پابند ہیں انہیں چاہئے کہ محتاط رہیں، اس طرح کے اقدامات نہ کریں۔

بیشک ملت ایران فضل پروردگار سے، لطف خداوندی سے ایک بابصیرت قوم ہے۔ میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرے نوجوانو! اس روز جب آپ ہوں گے اور ہم نہ ہوں گے، یہ ضرور خیال رکھنا کہ اس دن ملت ایران کی پوزیشن اور مادی و روحانی زندگی زمانہ حال سے بدرجہا بہتر ہوگی۔ ملت ایران شکوفائی اور درخشندگی کی طرف بڑھ رہی ہے، افق روشن ہے۔ ہمیں بس اپنی نقل و حرکت کا خیال رکھنا ہے۔

اللہ تعالی سے مدد و نصرت کا طالب ہوں۔ ہمیں شہداء اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی روح مطہرہ سے بھی طلب نصرت کرنا چاہئے۔ خداوند عالم حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے شامل حال رکھے۔

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته‌

۱ترکی زبان کا نعرہ جس کا مطلب ہے ایران کے دل کا چین و سکون آپ ہیں۔ اس کے جواب میں حاضرین نے یہ نعرہ لگایا؛ «بيز اولمگ راضى يوخ، خامنه‌اى سرباز يوخ»؛ ہم خامنہ ای کے سپاہی ہیں، ہم جانیں قربان کرنے پر آمادہ ہیں۔