قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ہجری شمسی سال 1392 کے آغاز کی مناسبت سے 1 فروردین مطابق 21 مارچ کو مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں خدام اور زائرین کے عظیم الشان اجتماع سے انتہائی اہم خطاب میں گزشتہ سال 1391 ہجری شمسی کے دوران دشمنوں کی جانب سے وسیع پروپیگنڈے اور خلل اندازی کے باوجود ملت ایران کو حاصل ہونے والی عظیم بنیادی کامیابیوں اور پیشرفت کا جائزہ لیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے امریکا سے مذاکرات کے مسئلے میں کلیدی نکات بیان کئے اور اقتصادی جہاد بالخصوص تیل کی آمدنی پر انحصار ختم کرنے، دراز مدتی اقتصادی پالیسیوں پر سنجیدگی سے توجہ دینے اور دشمن کی سازش کے اجراء سے پہلے ہی دانشمندانہ تدارک کرنے کے لوازمات اور شرائط بیان کئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے سیاسی جہاد کے سلسلے میں مجوزہ صدارتی انتخابات کا ذکر کیا اور اسے سیاسی جہاد کا مظہر قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ انتخابات میں اسلامی جمہوری نطام پر یقین رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کی شرکت ہونی چاہئے اور اللہ تعالی کی عنایتوں اور ملت ایران کی بلند ہمتی سے انتخابات میں وسیع شراکت ہونی چاہئے کیونکہ صدارتی انتخابات کے اثرات ملک کے تمام بنیادی امور پر مرتب ہوتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی کارکردگی اور کامیابیوں پر مختلف ممالک کے عوام اور دانشور طبقوں کی خصوصی توجہ، اس کے تجربات سے استفادہ کرنے کی کوشش، اسی طرح ایران کی بڑی کامیابیوں اور ممکنہ خامیوں پر دشمنوں کی تیز نگاہوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس حقیقت کے مد نظر ملت ایران کو چاہئے کہ وسیع النظری اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے اور ملکی حالات کی صحیح تصویر اس کے ذہن میں واضح ہو۔ قائد انقلاب اسلامی نے صرف گرانی، بعض پیداواری یونٹوں میں پیداوار کی کمی اور اقتصادی دباؤ جیسے مسائل کو بنیاد بناکر لئے جانے والے جائزے کو نادرست قرار دیا اور فرمایا کہ صحیح طرز فکر یہ ہے کہ چیلنجوں سے بھرے ہوئے عظیم میدان میں ملت ایران کی مشکلات اور خامیوں کے ساتھ ہی اس کی عظیم کامیابیاں بھی مد نظر رکھی جائیں، قائد انقلاب اسلامی کے بقول اس طرح انجام پانے والے وسیع جائزے کے نتیجے میں ملت ایران کی سربلندی اور ممتاز حیثیت کا اندازہ ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کے بیانوں کا حوالہ دیا جس میں وہ آشکارا کہتے ہیں کہ پابندیاں ملت ایران کی کمر توڑ دینے کے لئے عائد کی گئی ہیں، آپ نے فرمایا کہ مقابلے کے اس میدان میں ملت ایران نے بہترین دانشمندی، توانائی اور صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پابندیوں کو مواقع میں تبدیل کیا ہے اور کھیل کے میدان کے کسی چیمپین کی طرح سخت اجتماعی محنت اور سعی و کوشش کے بعد میدان سے فتحیاب ہوکر نکلے گی اور سب لوگ عش عش کر اٹھیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر ملک اور داخلی حالات کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یقینا اس عظیم میدان کی فاتح ملت ایران ہی نظر آئے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ چیلنجوں سے بھرے اس میدان میں ملت ایران کی کامیابیوں کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک یہاں تک کہ ایران کے بدخواہ ملکوں کے اندر بھی سیاسی شخصیات اور دانشور طبقے سے تعلق رکھنے والے باریک بیں افراد بھی ایران کی تعریف کر رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی ترقی و پیشرفت سے ہمیشہ ناراض رہنے والے گروہ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ گروہ در اصل ملت ایران کا اصلی دشمن ہے جو ملت ایران کی پیشرفت کے سلسلے کو روکنے کے لئے دو طریقے اختیار کرتا ہے؛ ایک ہے عملی رکاوٹیں پیدا کرنا جیسے پابندیاں، دھمکیاں اور حکام، مفکرین اور عوام کو فروعی اور غیر ترجیحی کاموں میں الجھا دینا اور دوسرے ملت ایران کی پیشرفت پر پردہ ڈالنے اور اس کے بعض نقائص کے بارے میں مبالغہ آرائی کے لئے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا کرنا۔ آپ نے سنہ 1391 ہجری شمسی کو اس زاوئے سے ملت ایران کے بدخواہوں کا بہت مصروف سال قرار دیا اور فرمایا کہ انہوں نے ملت ایران کی کمر توڑ دینے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کو اپنا ہدف قرار دیا تھا، اب اگر ملت ایران اتنے دباؤ کے بعد بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑی رہے اور روز بروز ترقی کی منزلیں طے کرے تو دشمنوں کی آبرو چلی جائیگی۔ اس کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے دو بنیادی سوال اٹھائے۔ 1؛ ملت ایران کے خلاف سازشوں کا اصلی مرکز کہاں ہے؟ 2؛ اس قوم کے دشمن کون لوگ ہیں؟
قائد انقلاب اسلامی نے صیہونی حکومت کے سلسلے میں فرمایا کہ غاصب صیہونی حکومت کی اتنی اوقات نہیں ہے کہ ملت ایران کے دشمنوں میں اس کا شمار کیا جائے۔ ایران پر فوجی حملے سے متعلق بعض صیہونی حکام کے بیانوں کا حوالہ دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر انہوں نے حماقت کی تو اسلامی جمہوریہ ایران تل ابیب اور حیفا کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام کے اندر تشویش و تامل پیدا کرنے اور انہیں اسلامی نطام سے دور کرنے کی کوششوں کو سیاسی میدان میں دشمنوں کی دوسری بڑی سازش قرار دیا اور فرمایا کہ بائیس بہمن (جشن انقلاب کی تاریخ) کے جلوسوں میں عوام کی پرجوش شرکت اور اسلام و اسلامی نظام سے ان کا والہانہ اظہار عقیدت دشمنوں کے منہ پر زوردار طمانچہ تھا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سیکورٹی کے شعبے میں بھی دشمنوں کی ناکامیوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے علاقائی و عالمی اثر و نفوذ میں کمی لانے کی ناکام کوششوں کو دیگر معاندانہ اقدامات قرار دیا اور فرمایا کہ آٹھ روزہ جنگ غزہ میں فلسطینیوں کے لئے ایران کی مقتدرانہ پشت پناہی اور فلسطینی مجاہدین کے سامنے صیہونی حکومت کی شرمناک شکست اور علاقائی مسائل کے ایران کی مدد کے بغیر ناقابل حل ہونے کے دشمنوں کے اعترافات، اس میدان میں دشمنوں کی سازشوں کی ناکامی کی دلیلیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد سنہ 1391 ہجری شمسی کے دوران پابندیوں کے باوجود حاصل ہونے والی کامیابیوں اور انجام پانے والے عظیم کاموں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تیل اور یورینیم کے نئے ذخائر کی دریافت، بجلی گھروں اور ریفائنریوں کی توسیع، شاہراہوں اور انرجی کے شعبے میں بنیادی کام، سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں اہم کامیابیاں منجملہ ناہید سیٹیلائٹ کی خلا میں ترسیل اور زندہ مخلوق کے ساتھ پیشگام راکٹ کی خلا میں لانچنگ، جدید ترین جنگی طیاروں کی ساخت، انتہائی اہم دواؤں کی پیداوار، نینو ٹکنالوجی کے اعتبار سے علاقائی سطح پر حاصل ہونے والا پہلا مقام، سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں نمایاں مقام، سائنسی ترقی کی رفتار میں اضافہ، طلبہ و طالبات کی تعداد میں اضافہ، اسٹم سیلز، نیوکلیائی ٹکنالوجی اور جدید انرجی کے شعبے میں اہم کامیابیاں، اس سال کے اندر ایرانی سائنسدانوں اور نوجوانوں کی حیرت انگیز ترقی ہے جس میں پابندیوں کے ذریعے ملت ایران کی کمر توڑ دینے کی پیشین گوئی کی جا رہی تھی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس سال کی بڑی کامیابیوں کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ کسی قوم کو دشمن پابندیوں اور دباؤ سے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے براہ راست دوطرفہ مذاکرات کی امریکی حکام کی مکرر پیشکش کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی حکام کچھ عرصے سے مختلف ذرائع سے پیغام دے رہے ہیں کہ ایٹمی مسئلے میں ایران سے علاحدہ طور پر دو طرفہ مذاکرات کے خواہشمند ہیں لیکن ماضی کے تجربات کی بنا پر میں اس قسم کے مذاکرات کے سلسلے میں زیادہ پرامید نہیں ہوں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکیوں کے نزدیک مذاکرات کا مطلب منطقی راہ حل تک پہنچنے کے لئے انجام پانے والی گفت و شنید نہیں ہے، امریکیوں کی نظر میں مذاکرات کا مطلب ہے مد مقابل فریق کو اپنی بات تسلیم کرنے پر مجبور کر دینا، بنابریں ہم اس طرح کے مذاکرات کو مسلط کردہ گفتگو مانتے ہیں اور ایران زور زبردستی کے سامنے جھکنے والا ملک نہیں ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ البتہ میں اس کی مخالفت بھی نہیں کرتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں امریکیوں کے لئے چند باتیں دو ٹوک انداز میں کہیں۔ آپ نے سب سے پہلے امریکیوں کی طرف سے بار بار بھیجے جانے والے اس پیغام کا ذکر کیا کہ وہ ایران کی حکومت تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں اسلامی جمہوری نظام کو بدل دینے کے آپ کے ارادے سے کوئی تشویش نہیں ہے کیونکہ جب آپ کے ذہن میں یہ ارادہ تھا اور آپ صریحی طور پر اس کا اظہار بھی کرتے تھے اس وقت بھی آپ کچھ نہیں کر پائے اور آئندہ بھی آپ کچھ نہیں کر پائیں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے امریکیوں کے سلسلے میں دوسرے نکتے کا ذکر کرتے ہوئے امریکی حکام کے اس اصرار کا حوالہ دیا کہ وہ مذاکرات کی پیشکش میں پوری صداقت برت رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم نے بارہا اعلان کیا ہے کہ ہم جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں لیکن امریکی کہتے ہیں کہ ہمیں آپ کی اس بات پر یقین نہیں ہے تو ان حالات میں ہم مذاکرات کی پیشکش میں صداقت برتے جانے کے امریکیوں کے دعوے کو کیوں تسلیم کر لیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مذاکرات کی پیشکش امریکیوں کی ایک چال ہے جس کا مقصد عالمی رائے عامہ اور ایران کے عوام کو دھوکا دینا ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو امریکی عملی طور پر اس کا ثبوت پیش کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں امریکیوں کی ایک تشہیراتی چال کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے بعض مواقع پر کہا ہے کہ رہبر ایران کی طرف سے کچھ افراد نے امریکا سے مذاکرات کئے ہیں جبکہ یہ بات سراسر جھوٹ ہے، اب تک رہبر ایران کی طرف سے کسی نے امریکا سے مذاکرات نہیں کئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بعض مواقع پر الگ الگ حکومتوں نے بعض وقتی موضوعات کے سلسلے میں امریکیوں سے مذاکرات کئے البتہ ان مذاکرات میں بھی حکومت کے نمائندے کو قائد انقلاب کی جانب سے طے شدہ ریڈ لائن کو ملحوظ رکھنے کا پابند کیا گيا تھا اور آج بھی اس ریڈ لائن کو ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں آئندہ صدارتی انتخابات کا ذکرکیا اور فرمایا کہ الیکشن سیاسی جہاد، اسلامی نظام کی قوت، قومی ارادے اور اسلامی نطام کی آبرو کا آئینہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انتخابات میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت بہت اہم ہے، عوام کی وسیع شرکت اور انتخابی جوش و خروش ملکی سلامتی کے لئے مددگار ثابت ہونے کے ساتھ ہی دشمن کے خطرات کو بے اثر اور دشمنوں کو ناامید کر دینے والی چیز ہے۔ آپ نے اسلامی نظام پر یقین رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں اور حلقوں کی انتخابات میں شرکت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات ایک خاص سیاسی رجحان رکھنے والے حلقے سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ یہ قومی مفادات اور ملکی خود مختاری سے دلچسپی رکھنے والے تمام افراد کا حق اور فریضہ ہے۔
قائد انقلابا سلامی نے فرمایا کہ انتخابات سے روگردانی ان لوگوں کا کام ہے جو اسلامی نظام کے مخالف ہیں۔ آپ نے عوام کے ووٹوں کو فیصلہ کن قرار دیا اور فرمایا کہ سزاوارترین شخص کے بارے میں عوام کی تشخیص بہت اہم ہے اور عوام کو چاہئے کہ امیدواروں کا بغور جائزہ لیکر سزاوارترین امیدوار کا انتخاب کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے رائے دہندگان کو سفارش کی کہ سزاوارترین امیدوار کے انتخاب میں میڈیا کی سطح پر انجام دی جانے والی تشہیرات اور تعلقات سے متاثر نہ ہوں۔ آپ نے سب کو قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی سفارش کی اور فرمایا کہ سنہ 2009 کے حوادث اس وقت شروع ہوئے جب کچھ لوگوں نے قانون اور عوام کے ووٹوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا اور عوام کو سڑکوں پر آکر شورش کرنے کی دعوت دی جو ناقابل تلافی غلطی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ خوش قسمتی سے ہر شبہے اور شک کا ازالہ کرنے کے لئے قانونی سسٹم موجود ہے، بنابریں سب کو چاہئے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں۔ آپ نے فرمایا کہ آئندہ صدر ایسا ہو جو اپنے اندر سابق صدر کی تمام مثبت خصوصیات پیدا کرے اور خود کو اس کی کمزوریوں سے دور رکھے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصّلواۃ و السلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابی القاسم المصطفی محمّد (ص) و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المنتجبین المعصومین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین السلام علی الصّدیقۃ الطّاہرۃ فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیھا و علی ابیھا و بعلھا و بنیھا۔

جوش و جذبے سے معمور تمام بھائیوں اور بہنوں کو جو اس محفل میں شریک ہیں تہنیت و مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دل کی گہرائیوں سے اپنے خدا کا شکرگزار ہوں کہ اس نے یہ وقت اور موقع عنایت فرمایا کہ ایک بار پھر، ایک اور سال نو اور ایک اور نوروز پر حضرت ابوالحسن علی ابن موسی الرضا ( علیہ آلاف التحیۃ و السلام ) کی ملکوتی بارگاہ کے جوار میں، مشہد مقدس کے آپ تمام خوش نصیب خادموں، ساکنوں اور زائروں کے درمیان جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف گوشہ و کنار سے آکر یہاں جمع ہوئے ہیں، آؤں اور ملاقات کی توفیق حاصل کروں اور آپ کے ساتھ عصر حاضر کے اہم مسائل پر گفتگو کروں۔ خداوند متعال سے دست بدعا ہوں کہ وہ ہمارے دل اور ہماری زبان کی رہنمائی فرمائے اور وہ باتیں جو اس کی رضا ؤ خوشنودی کا باعث ہیں ہمارے دل اور زبان پر جاری کر دے۔ یہ بھی ایک بڑی توفیق ہے کہ عید نوروز میں ان خوشیوں اور خوبیوں کے ساتھ جو نوروز کے مزاج میں پائي جاتی ہیں ہر سال ہمیں یہ موقع فراہم ہو جاتا ہے کہ ایک ایسے دن آپ لوگوں کے مجمع میں ملک کے مسائل اور اپنی موجودہ حالت کا جائزہ لیں اور گزشتہ و آئندہ سال پر ایک نگاہ ڈال سکیں۔
ایک سرسری نگاہ سے خود اپنی ایک سالہ آمدنی و اخراجات کا، وسیع قومی پیمانوں کے تناظر میں جائزہ لیں اور حساب کتاب کریں؛ قومی سطح پر نفس کا محاسبہ کریں، عمومی سطح پر نفس کا جائزہ لیں۔ جس طرح ذاتی مسائل میں نفس کا محاسبہ لازم ہے کیونکہ (معصوم ع نے ) فرمایا ہے : حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا (اپنے نفس کا خود محاسبہ کر لو قبل اس کے کہ تم سے حساب مانگا جائے۔ بحار جلد 67 ص 265) اپنے کام کا، اپنے اعمال کا اور اپنے شخصی حرکات و سکنات کا خود محاسبہ کر لینا چاہئے، قومی سطح پر بھی اپنا محاسبہ کرنا بڑی اہمیت و قدر و قیمت رکھتا ہے؛ خود اپنا بھی محاسبہ کریں، خود اپنے آپ پر نگاہ ڈالیں جو کچھ ہم پر گزری ہے اس کا ایک بار پھر جائزہ لیں، ان سے سبق اور عبرت حاصل کریں اور اس سے مستقبل میں فائدہ اٹھائیں۔ عزيز بھائیوں اور بہنوں کو خیال رہے کہ ہم ایرانی عوام صرف اپنے آپ میں محصور و محدود نہیں ہیں کہ اپنے مسائل پر نظر ڈالی اور تاریخ وار اس کا ایک جائزہ مرتب کر لیا۔ کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں جو ہمارے مسائل کا مطالعہ کر رہے ہیں، ہمارے مسائل کے بارے میں، ہمارے کاموں اور ہمارے اقدامات کو دیکھ رہے اور فیصلے کر رہے ہیں۔ ملتیں ہیں جو ہمارے تجربوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں جو ملت ایران کے حالات کے مطالعے میں مشغول ہیں، ہماری ترقیوں سے خوش ہوتے ہیں، ہماری کامرانیوں سے مسرور ہوتے ہیں۔ ہم کو اگر کامیابی ملتی ہے تو وہ لوگ کامیابی کا احساس کرتے ہیں، اگر ہمارے امور میں کوئی خامی اور تلخی ہو تو انہیں تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ کچھ اور لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں جو ہمارے کاموں کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ ہمارے امور کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں اور ان لوگوں کے برعکس، ہماری لغزشوں پر مسکراتے ہیں، ہماری کامیابیوں سے ان کے دل ملول ہو جاتے ہیں، سینوں میں دم گھٹنے لگتا ہے۔ ملت ایران کے بدخواہ جو ہیں۔ یہ لوگ بھی ہمارے کاموں پر نظر رکھتے ہیں، یہ لوگ زيادہ تر وہ ہیں کہ برسہا برس تک اس ملک کی تمام چیزوں پر جن کا قبضہ رہا ہے۔ ہمارے ملک کے تمام امور پر جو مسلط رہے ہیں۔ انقلاب اسلامی نے ان کے ہاتھ کاٹ دئے لہذا انقلاب کے دشمن ہیں۔ انقلابی حکومت اور انقلابی نظام کے مخالف اور دشمن ہیں۔ بنابریں ہم ایک عظیم انسانی برادری کی ایک ایک فرد کی نگاہ میں ہیں۔ لوگ ہمارے امور پر نگاہ رکھتے ہیں اور ہمارے عمل کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔
بنابریں، جس وقت ہم خود اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں اور اپنے گزشتہ ؤ آئندہ پر نظر ڈالیں تو لازم ہے کہ ہماری نگاہ حقیقت بینانہ ہو، ہمارا حساب کتاب بالکل صحیح و درست ہو، خود ہمارے بعض لوگ جس وقت ملک کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں صرف کمزوریوں کو دیکھتے ہیں مہنگائی کو دیکھتے ہیں، ملکی پیداوار کے میدان میں صرف کچھ چیزوں کی پیداوار کی کمی کو دیکھتے ہیں، دشمنوں کے سخت دباؤ کو دیکھتے ہیں، اس طرح کی نگاہ ایک ناقص نگاہ ہے، میری نگاہ اس سے مختلف ہے۔ میں جس وقت ملک کے حالات اور اپنی قوم کے حالات پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے مشکلات سے گھرا ایک وسیع و عریض میدان نظر آتا ہے، ملت ایران اس میدان میں دشمنیوں کے باوجود سربلند اور سرفراز دکھائی دیتی ہے۔
بیشک کمزوریاں ہیں، مشکلات ہیں، ملک کے اندر پیش آنے والے بعض حادثوں اور واقعوں میں کڑواہٹیں اور تلخ حقیقتیں بھی پائي جاتی ہیں لیکن مادی دنیا کی وہ قوتیں کہ جنہوں نے اپنے پورے وجود کے ساتھ کوشش کی ہے کہ ملت ایران کو مفلوج کر دیں اور یہ بات اپنی زبان سے کہی بھی ہے؛ اس ناکارہ خاتون نے جو ( اس سے قبل ) امریکہ کی خارجہ پالیسی کی ذمہ دار تھی اکڑتے ہوئے کہا تھا ہم چاہتے ہیں اسلامی جمہوریہ پر ایسی پابندیاں عائد کریں کہ پورا ایران مفلوج ہوکر رہ جائے۔ انہوں نے اپنی زبان سے یہ بات کھل کر کہی تھی اور ابھی ہم عرض کریں گے کہ ان کی سرگرمیاں اور اقدامات کیا تھے اور کہاں پہنچے اور ان کے نتائج کیا ظاہر ہوئے؟ معلوم ہوا ایک طرف تو دشمن کی یہ کوششیں ہیں جو اس عظیم سطح پر ایک وسیع و عریض میدان میں جاری ہیں، پھر بھی ملت ایران دشمن کی اکڑفوں اور جارحیت و عسکریت پسندی کے خلاف ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے اور ایک طرف یہ عظیم الشان کامیابیاں ہیں جو اس عظیم قوم کی ذہانت، قوت، اقتدار اور صلاحیت و ظرفیت کی نشان دہی کر رہی ہیں۔ چنانچہ ایک انسان جب اس منظر کو دیکھتا ہے تو اس کو گویا برابر سے مقابلہ کرنے والے قوی ہیکل پہلوانوں کی کشتی کا ایک میدان نظر آتا ہے جہاں زحمت، کوشش و تلاش اور تھکن سب کچھ ہے مگر کامیابی جی توڑ محنت کرنے والے چیمپیئن کو ہی ملتی ہے، اس کو کامران و فاتح سمجھا جاتا ہے اور لوگ تحسین و تمجید کرتے ہیں اور یہ عظیم میدان جو اس وقت ہماری نگاہوں کے سامنے ہے اس کی چیمپئن ملت ایران ہے؛ اس میدان کو جو شخص بھی انصاف کی نگاہ سے صحیح طور پر دیکھے گا اور بالکل صحیح جائزہ لیگا ملت ایران کو شاباشی دے گا۔ جیسا کہ ہم آج دنیا کی باریک بیں شخصیات کی شاباشی کی آواز سن رہے ہیں، خود ان ہی ملکوں میں جو ملت ایران کے دشمن اور بدخواہ بنے ہوئے ہیں، سیاسی شخصیتیں، یونیورسٹیوں کے ممتاز اسکالرز اور وہ جہاں دیدہ، تجربہ کار افراد کہ جن کی حالات پر نظر ہے ملت ایران کو آفریں کہہ رہے ہیں۔ یہ وہ میدان ہے جو ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ بنابریں نظر اٹھانا اور صرف کمیوں اور کمزوریوں پر نگاہ جمائے رکھنا غلط ہے۔ مجموعی صورت حال کو دیکھنا چاہئے، ملک میں جاری سعی و کوشش، کس انداز سے آگے بڑھ رہی ہے اور بالآخر اس کے نتائج کیا برآمد ہو رہے ہیں؟ جب ہم اس نقطۂ نگاہ سے اس میدان پر نگاہ ڈالیں گے ایران اور ایرانی مسلمانوں کو آفریں اور شاباش کہنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔
ہم نے عرض کیا کہ بعض ہیں جنہیں ملت ایران کی ترقی غمگین و بے چین کر دیتی ہے یہ کون لوگ ہیں؟ یہ میں بعد میں عرض کروں گا، ( پہلے یہ بتا دوں کہ) ان دشمنوں کو کہ جنہیں ملت ایران کی ترقی اور کامرانی دیکھنا اچھا نہیں لگتا، آپ دو طرح کی سازشوں میں مصروف پائیں گے۔ ایک تو یہ کہ جہاں تک بھی ممکن ہو ایسی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں کہ ملت ایران ترقی و خوش حالی حاصل نہ کر سکے۔ بائیکاٹ کے ذریعے، دھمکی اور دھونس کے ذریعے؛ ملک کے منتظمین کو دوسرے درجے کے فروعی کاموں میں الجھا دینے کے ذریعے اور ملک کی عظیم ملت اور ممتاز ذہنوں کی توجہ کو ایسے کاموں پر مرکوز کر دینے کے ذریعے جو ملک کے اصل منصوبوں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں تا کہ میدان عمل میں رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں۔
دوسرا کام یہ ہے کہ اپنے پروپیگنڈوں میں وہ ہماری ترقیوں کا انکار کرتے ہیں۔ آج ایک بہت ہی بڑی پروپیگنڈہ مشینری، قسم قسم کے ہزاروں ترقی یافتہ ذرائع ابلاغ کے ساتھ اسی کام میں مشغول ہے کہ ثابت کرے ایران میں عوام کو ہرگز کوئی ترقی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ ملت ایران کی کامیابیوں کا انکار ان کا اہم منصوبہ ہے۔ اگر کمزوریاں ہیں تو ان کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے اور لوگوں کی نگاہوں کے سامنے لاکر انہیں بہت اہم بنا دیتے ہیں لیکن توانائیوں کو اور نیا جوش و جذبہ پیدا کر دینے والے مثبت پہلوؤں کو جو ملک کے مختلف گوشہ ؤ کنار میں ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں اور منصف مزاج انسانوں کی نگاہوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں نگاہوں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
امریکا کے صدر جمہوریہ نے اپنے ایک رسمی خطاب میں ایران کی اقتصادی مشکلات پر بات کی تو یوں لگ رہا تھا جیسے اپنی کامیابی کا ذکر کر رہے ہوں کہ ہاں! ایران میں ملکی کرنسی کی قیمت گر گئی ہے، یہ ملک اس طرح کی اور اس طرح کی اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے۔ انہوں نے، البتہ اس ملت کی توانائیوں اور ان مثبت اور تعمیری کوششوں کی طرف جو اس ملک میں انجام پا رہی ہیں اور وہ عظیم کامیابیاں جو اس عظیم قوم کو نصیب ہوئی ہیں، معمولی سا کوئی اشارہ بھی نہیں کیا اور کبھی کریں گے بھی نہیں؛ تیس سال ہو گئے ہم کو اسی طرح کی مستکبرانہ دشمنی کا سامنا رہا ہے کہ جس پر میں بعد میں اس تیس سالہ مدت کا جائزہ لیتے وقت، چند جملے عرض کروں گا، لیکن یہ مستکبرانہ دشمنی کہ جس سے اس وقت ملت ایران روبرو ہے اور دشمنوں کی طرف سے، عملی میدان میں بھی اور تشہیراتی میدان میں بھی، جو مہم چل رہی ہے کہ اسلام کے زير سایہ زندگي بسر کرنے والے ایران کی نمایاں ترقیوں کی رفتار کو روک دیں، آج اس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
سنہ 91 ہجری شمسی ( 21 مارچ 2012 ع سے 20 مارچ سنہ 2013 ع تک )، جو ابھی گزرا ہے، اس سلسلے میں، ہمارے دشمنوں کے لئے بہت ہی زیادہ مشغولیت کا سال رہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا ہم پابندیوں کے ذریعے ملت ایران کو مفلوج کر دینا چاہتے ہیں۔ اگر اسلامی جمہوریہ ایران آج اپنے پاؤں پر کھڑا ہے، خوشحالی کی جانب بڑھ رہا ہے، ترقی کی طرف گامزن ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دنیا میں ان دشمن طاقتوں کی عزت مٹی میں مل گئی، لہذا جہاں تک ممکن ہے وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے؛ اور اگر یہ کام ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو کم از کم اپنے تشہیراتی ذرائع ابلاغ میں اس بات کو ایک اور ہی انداز سے پیش کریں گے؛ یہ لوگ آج یہ دونوں کام اور زیادہ شد و مد سے انجام دے رہے ہیں۔ طرح طرح کے دباؤ، دھمکیاں، بائیکاٹ اور اسی کے جیسے دوسرے اقدامات کے ذریعے عملی رکاوٹیں بھی جاری ہیں اور ملت ایران کی قوت و صلاحیت کے مثبت پہلوؤں پر پردہ ڈالنے اور کمزور پہلوؤں کو نمایاں کرنے اور ہوا دینے والی پروپیگنڈہ مہم بھی زوروں پر چل رہی ہے۔
ہم نے دشمنوں کی بات کی تھی ، یہ دشمن کون لوگ ہیں ؟ ملت ایران کے خلاف سازشوں کا اصل اڈہ کہاں ہے ؟ اس سوال کا جواب مشکل نہیں ہے ۔ آج چونتیس سال ہوچکے ہیں کہ جب بھی دشمن کی بات ہوتی ہے ملت ایران کا ذہن حکومت امریکہ تک پہنچ جاتا ہے ٹھیک ہے امریکہ کے حکام کو اس بات پر غور کرنا چاہئے اور اس کو سمجھنا چاہئے کہ ملت ایران نے اس تیس چونتیس سال میں ایسی چیزیں دیکھی ہیں، ایسے مرحلوں سے گزری ہے کہ دشمن کا نام آتے ہی ملت ایران کے ذہن میں فورا امریکہ کا خیال آ جاتا ہے۔ یہ مسئلہ بہت ہی اہم ہے۔ خصوصا ایک ایسی حکومت کے لئے جو دنیا میں آبرو کے ساتھ زندگي گزارنا چاہتی ہو، یہ مسئلہ ایک غور طلب مسئلہ اور لمحہ فکریہ ہے۔ اس مسئلے کو بنیاد قرار دیں، سازشوں کا مرکز یہی جگہ ہے۔ دشمنی کی اساس و بنیاد یہی ہے۔
یقینا دوسرے دشمن بھی ہیں کہ جن کو ہم پہلے درجے کے دشمنوں میں شمار نہیں کرتے۔ صیہونی حکومت بھی دشمن ہے مگر صیہونی حکومت اس قابل نہیں ہے کہ اسے ایران کے دشمنوں میں شمار کیا جائے۔ بعض اوقات صیہونی حکومت کے قائدین ہم کو دھمکی بھی دیتے ہیں، فوجی حملے کی دھمکی دیتے ہیں، لیکن میری نظر میں خود ان کو بھی پتہ ہے اور اگر نہیں پتہ ہے تو جان لیں کہ اگر انہوں نے ایسی غلطی بھی کی تو اسلامی جمہوریہ ایران تل ابیب اور حیفا کو خاک کے ڈھیر میں تبدیل کر دے گا۔
برطانیہ کی خبیث حکومت بھی ملت ایران سے دشمنی رکھتی ہے، یہ بھی ملت ایران کے قدیم اور دیرینہ دشمنوں میں ہے لیکن برطانوی حکومت اس میدان میں امریکی منصوبوں کے ایک جز کے طور پر کام کر رہی ہے، خود برطانوی حکومت اپنی مرضی کی مالک نہیں ہے کہ انسان اس کو باقاعدہ الگ ایک دشمن شمار کرے؛ وہ امریکہ کی پچھ لگو حکومت ہے، بعض دوسری حکومتیں بھی دشمنیاں رکھتی ہیں، یہاں مناسب سمجھتا ہوں کہ یہ بھی عرض کر دوں کہ فرانسیسی حکومت کے حکام نے بھی ادھر چند برسوں سے ملت ایران کے ساتھ کھلی دشمنیاں کی ہیں۔ یہ فرانسیسی حکام کی طرف سے ایک بے عقلی کا مظاہرہ ہے، عقلمند انسان خاص طور پر ایک عاقل سیاستداں میں، ہرگز اس طرح کا جذبہ نہیں ہونا چاہئے کہ کسی ایسے کو جو اس کا دشمن نہیں ہے اپنے دشمن میں تبدیل کر دے۔ فرانسیسی حکومت اور ملک فرانس سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے، نہ تو تاریخ کے طویل دور میں کبھی کوئی مشکل رہی ہے، نہ ہی اس وقت ہے۔ لیکن سارکوزی کے زمانے سے اس ملک نے غلط سیاست جو اپنائی گئی ہے، افسوس! فرانس کی موجودہ حکومت بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ ملت ایران کے ساتھ دشمنی ہے؛ ہماری نگاہ میں یہ کام غلط ہے اور غیر مدبرانہ اور غیر عاقلانہ ہے، یہ کام عقل و ہوش سے پرے ہے۔
امریکیوں کو جب بات کرنا ہوتی ہے کہتے ہیں عالمی برادری گنتی کے چند ملکوں کا نام کہ جن میں سرفہرست امریکہ ہے، عالمی برادری رکھ لیا ہے۔ امریکہ کے ساتھ اس میں صیہونیوں کا حکومت برطانیہ کا اور چھوٹی موٹی کچھ اور حکومتوں کا نام جڑا ہوا ہے! جبکہ عالمی برادری (حقیقی معنی میں) کسی بھی عنوان سے ایران، ایرانیوں یا اسلامی جمہوریہ کے ساتھ دشمنی کے در پے نہیں ہے۔
حسب دستور ہم گزشتہ سال سنہ 1391 ہجری شمسی (21 مارچ 2012 الی 20 مارچ 2013) پر ایک نگاہ ڈالیں گے۔ ہم نے عرض کیا کہ سنہ 91 کے آغاز سے ہی امریکیوں نے اپنی نئی منصوبہ بندیاں شروع کر دیں۔ حالانکہ وہ زبانی طور پر دوستی کا اظہار کر رہے تھے۔ کبھی خط، کبھی پیغام، کبھی کسی اور ذریعے سے اور کبھی ذرائع ابلاغ میں ملت ایران کے ساتھ دوستی کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے لیکن ان مصنوعی اظہار خیال کے در پردہ عملی طور پر ان کی کوشش تھی کہ ایران اور ملت ایران کے سلسلے میں سخت گیرانہ رویہ اپنائیں۔ سنہ 91 ھ ش کے اوائل سے ہی پابندیوں میں شدت پیدا کی گئی۔ ایران کے تیل سیکٹر کا بائیکاٹ، ایرانی بینکوں کا بائیکاٹ، اسلامی جمہوریہ اور دیگر ملکوں کے درمیان بینکنگ اور زرمبادلہ کے لین دین پر پابندی اور اسی قسم کے بہت سے کام اس ذیل میں انجام دئے گئے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ جو امریکی، ہم سے دشمنیاں نکال رہے ہیں وہی کہہ رہے ہیں کہ تم ہمیں اپنا دشمن نہ سمجھو! عملی طور پر مخالفت اور عداوت سے کام لے رہے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ملت ایران ان کو اپنا دشمن نہ سمجھے اور یہ نہ کہے کہ وہ دشمنی کر رہے ہیں! یہ پالیسی ایران کے خلاف بش کے دور حکومت کے اواخر سے شروع ہوئی ہے اور آج بھی اسی سیاست پر امریکی حکمراں عمل پیرا ہیں۔ کرخت آہنی پنجہ انہوں نے مخملی دستانے میں ڈھانپ رکھا ہے میں چند سال قبل یہیں، امام علی رضا علیہ السلام کے روضۂ اقدس کے جوار میں اسی نوروز ( پہلی فروردین) کی تقریر میں، ان سے کہہ چکا ہوں کہ خیال رکھئے کہ آپ کا اظہار محبت، دوستی کا اعلان اس معنی میں نہ ہو کہ آپ نے کرخت آہنی پنجے پر مخملی دستانہ چڑھا رکھا ہو، بناوٹی دوستی اور دکھاوے سے کام لے رہے ہوں اور اندر سے دشمنی پر کمربستہ ہوں۔ امریکیوں نے تیل کی فروخت اور زرمبادلہ کی منتقلی روک دینے کے لئے خصوصی نمائندے معین کئے۔ امریکہ سے ممتاز حیثیت کے حامل مخصوص افراد اس کام پر لگائے کہ مختلف ملکوں سے رابطہ قائم کریں، دورے کریں، حتی کمپنیوں کے ڈائرکٹروں سے بات چیت کریں کہ وہ اسلامی جمہوریۂ ایران کے ساتھ تیل سے متعلق کسی قسم کا معاہدہ، سودہ اور رابطہ آگے نہ بڑھائیں، ان ملکوں اور کمپنیوں کو سزائیں دی جائیں جو اسلامی جمہوریہ کے ساتھ مالی اور تجارتی تعلق رکھتے ہوں یا انہوں نے تیل کا کوئي سودہ کیا ہو۔ یہ کام انہوں نے سنہ 91 ہجری شمسی کے اوائل خصوصا ماہ مرداد (یعنی جولائی دوہزار بارہ) سے تمام تر سختیوں کے ساتھ، وسیع پیمانے پر شروع کر دیا۔ انہیں امید تھی کہ اس منصوبہ بند کارروائی کے مقابلے میں کہ جس پر پوری سختی سے وہ نظر رکھے ہوئے تھے ، ایران ترقی کی طرف گامزن اپنی علمی سرگرمیوں سے دست بردار ہوکر امریکہ کی زور زبردستیوں کے سامنے سر جھکا دے گا۔
البتہ میں یہ بات عرض کر دوں، البتہ یہ بات کچھ مہینے پہلے بھی ایک بار کہہ چکا ہوں کہ امریکیوں نے اس پر اپنی خوش کا اظہار کیا اور کہہ دیا کہ فلاں نے ان پابندیوں کے موثر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ پابندیاں بے اثر تو نہیں رہی ہیں؛ خوشیاں منانا چاہتے ہیں تو منانے دیجئے، پابندیوں نے کچھ نہ کچھ اثرات تو مرتب کئے ہیں، بیشک یہ ہماری ایک بنیادی مشکل کا نتیجہ ہے۔ ہمارا اقتصاد اس مشکل سے دوچار ہے کہ اس کا انحصار تیل پر ہے۔ ہمیں اپنی معیشت کو تیل کے انحصار سے آزاد کرنا ہوگا۔ ہماری حکومتوں کو اپنے بنیادی منصوبوں میں اس ہدف کو شامل کرنا ہوگا، میں نے سترہ اٹھارہ سال قبل جو حکومت اس وقت بر سر اقتدار تھی اور جو دوسرے ذمہ دار حکام ان کے ساتھ تھے ان سے کہا تھا کہ کچھ ایسا کیجئے کہ ہم جب بھی چاہیں اپنے تیل کے کنؤوں کو بند کر دیں۔ جس پر ٹکنو کریٹ کہے جانے والے بعض حضرات زیر لب مسکرائے بھی تھے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟! جی ہاں! ممکن ہے، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اقدام کرنا چاہئے، منصوبہ بندی کرنا ہوگی، جب ایک ملک کا اقتصاد کسی ایک خاص نقطے سے متصل ہوگا، دشمن اسی خاص نقطے پر اپنی توجہ مرکوز کر دیں گے۔ جی ہاں! بائیکاٹ موثر واقع ہوا ہے لیکن اس شدت کے ساتھ نہیں جو دشمن چاہتے تھے۔ میں ابھی اس مسئلے کی وضاحت کروں گا۔ یہ باتیں اقتصادی مسائل سے متعلق تھیں۔ سیاسی میدان میں بھی، سنہ 91 ہجری شمسی کے دوران پورے سال انہوں نے کوشش کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو خود ان ہی کے الفاظ میں دنیا میں الگ تھلگ اور تنہا کر دیں یعنی حکومتوں کو اسلامی جمہوریہ سے تعلقات کی بابت پس و پیش اور تزلزل کی کیفیت سے دوچار کر دیں اور اسلامی جمہوریہ کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ علاقائی سطح پر، یا عالمی سطح پر حتی ملکی سطح پر بھی اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد یا تعمیر و ترقی کا کام کر سکے۔ یہ کوشش پوری طرح ناکام کر دی گئی۔ بین الاقوامی مسائل میں ان لوگوں کی کوشش تھی کہ ہم چونکہ تہران میں ناوابستہ ملکوں کے اجلاس کے میزبان تھے، یہ اجلاس بہت ہی کمزور اور نچلی سطح پر منعقد ہو، یعنی تمام لوگ شریک نہ ہوں اور اگر شریک ہوں تو جوش وجذبے کے ساتھ شریک نہ ہوں۔ ان کی جو خواہش تھی اس کے بالکل برخلاف ظاہر ہوا۔ دنیا کی دو تہائی قومیں ناوابستہ تحریک کی رکن ہیں، سربراہان مملکت تہران اجلاس میں شریک ہوئے، بلند مرتبہ حکام نے شرکت کی، سبھی نے ایران کی تعریف کی، سبھی نے ملک کی علمی، تکنیکی اور اقتصادی ترقیاں دیکھ کر تعجب و حیرت کا اظہار کیا، یہ بات ہم سے بھی کہی، اپنے انٹرویو میں بھی اس کا اظہار کیا، اپنے اپنے ملکوں میں واپس جاکر بھی اس بات کی سبھی نے تائيد و تصدیق کی، یہ سب بالکل اس کے برخلاف ہوا تھا جو ملت ایران کے دشمنوں نے چاہا تھا؛ دشمن اجلاس کو متاثر کرنے میں ناکام ہو گئے۔
ملکی سیاست کے دائرے میں ان پابندیوں سے ان کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو اپنی راہ و روش کے سلسلے میں تردد اور تذبذب میں مبتلا کر دیں۔ ملت ایران اور اسلامی نظام کے درمیان جدائی ڈال دیں، لوگوں کے جذبات ماند پڑ جائیں، مایوسی اور ناامیدی پھیل جائے۔ گیارہ فروری (جشن انقلاب) کے موقعے پر ملت ایران نے ( پورے ملک میں) انسانی سیلاب سے چھلکتی ہوئی سڑکوں کے ساتھ وسیع شرکت اور اسلام ، اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی نسبت اپنے پاکیزہ احساسات اور جوش و جذبے کے اظہار کے ذریعے ان کے منھ پر بھر پور طمانچہ رسید کر دیا۔
امن و سلامتی کے میدان میں انہوں نے ملک کی سکیورٹی کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی جس کی تفصیل متعلقہ حکام نے اپنے انٹرویوز اور تقریروں میں لوگوں کے سامنے بیان کی ہے لیکن اس میدان میں بھی انہیں منھ کی کھانا پڑی۔
علاقائی سیاست کے میدان میں انہوں نے ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ کے اثر و رسوخ اور اقتدار کا تجربہ کر لیا، علاقائی مسائل میں کام اس مقام تک پہنچ گیا کہ انہیں اعتراف و اقرار کرنا پڑا ایران کی موجودگی یا ایران کی رائے کے بغیر علاقے کی کوئی بھی بڑی مشکل حل نہیں ہوگی۔ غزہ پر صیہونی حکومت کے حملے کے مسئلے میں، پورے اقتدار کے ساتھ اس کے پس منظر میں اسلامی جمہوریہ کی موجودگي باعث بنی کہ فلسطینی دلاوروں کے مقابلے میں خود انہیں اپنی شکست کا اعتراف کرنا پڑا اور کہنا پڑا، جی ہاں! ہم نے نہیں، خود انہوں نے کہا اور زور دیا ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ شریک نہ ہوتا اور اسلامی جمہوریہ اپنی طاقت و توانائی سے کام نہ لیتا تو فلسطینی افواج اسرائیل کے مقابلے میں اس درجہ استقامت نہیں دکھا سکتی تھیں کہ اسرائیل کو زانو ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑے جیسا کہ فلسطینیوں نے آٹھ روزہ جنگ میں اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے اور یہ صیہونی غاصبوں کی جعلی حکومت کی تشکیل کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا۔
ہم نے عرض کیا، ان کی کوششیں بے اثر ثابت نہیں ہوئیں، جی ہاں! بے اثر نہیں رہیں لیکن منفی اثرات کے ساتھ ہی ساتھ، ایک بہت بڑا مثبت اثر بھی، کہ جس کی ہمیں توقع تھی، ظاہر ہوا۔ بائیکاٹ باعث بنے کہ ملت ایران کی اندرونی توانائیاں اور اس کی عظیم صلاحیتیں فعال ہو گئیں، صلاحیتیں اجاگر ہوئیں اور بڑے عظیم کام انجام پائے، اگر یہ پابندیاں نہ ہوتیں تو یہ کام اتنی جلد ہرگز انجام نہ پاتے۔ ہم ان بائیکاٹس کی برکت سے ہی یہ عظیم کام کر سکے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں نے وہ کامیابیاں حاصل کی ہیں کہ اگر پابندیاں نہ ہوتیں تو یہ کامیابیاں ہرگز ہمیں حاصل نہیں ہو سکتی تھیں۔ بنیادی قسم کے کاموں کے میدانوں میں کہ جن کا ہم بعد میں ذکر کریں گے سنہ 91 ہجری شمسی کے دوران وہ ترقیاں ہاتھ آئی ہیں کہ پچھلے برسوں کے ساتھ اگر ان کا موازنہ کریں تو سنہ 91 کا سال ایک ممتاز سال ثابت ہوگا۔ بڑی کثرت کے ساتھ بنیادی قسم کے کام انجام پائے ہیں، سڑکوں کی تعمیر اور ریل کی پٹریاں بچھانے کے میدان میں، ایندھن کے میدان میں، تیل کے نئے ذخیروں کی تلاش کے میدان میں، یورینیم کے نئے ذخیروں کی تلاش کے میدان میں، نئے بجلی گھروں اور ریفائنریوں کی تعمیر اور توسیع، نیز دسیوں بڑے بڑے صنعتی کاموں کے میدان میں۔ یہ سب کام جو ایک اچھے مستقبل کے لئے ملک کے اقتصادی ڈھانچے کی بنیادیں ہیں، اسی سال کے دوران انجام پائے ہیں۔ جی ہاں! اگر چنانچہ ہم نے یہ بنیادیں پہلے سے فراہم کر لی ہوتیں تو دشمن کی پابندیوں کا اس مقدار میں بھی اثر نہ ہو پاتا جو ہوا ہے۔ یہ تمام کام ہم نے انجام دئے ہیں اور دشمنوں کی دشمنی اور بائیکاٹ کا مقابلہ کرتے ہوئے ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ بڑے بڑے کام انجام پائے ہیں؛ ایک جملے میں اگر کہنا چاہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ سنہ 91 ہجری شمسی عظیم علمی ترقیوں کا سال رہا ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں وہ کام انجام پائے ہیں کہ حقیقت میں آنکھیں خیرہ ہو جائیں اور اس انسان کے لئے جو ملک کے مستقبل پر یقین رکھتا ہے یہ چیز بہت ہی مسرت بخش اور حوصلہ افزا ہے۔ یعنی اسی سال کہ جب ملت ایران کے لئے سختیاں اپنے عروج پر تھیں ہمارے عزيز نوجوانوں اور با لیاقت سائنسدانوں نے ناہید سیٹیلائٹ خلا میں روانہ کیا اور زندہ مخلوق کے ساتھ راکٹ خلاء میں لانچ کیا اور جدید ترین لڑاکا طیارے بنا لئے؛ ان میں سے ہر ایک کام اس قدر زيادہ اہمیت رکھتا ہے کہ ان میں سے ہر کام پر ایک قوم جس قدر بھی خوشی اور مسرت کا اظہار کرے، شادمانی کے نغمے گائے اور شادیانے بجائے، بجا ہے۔ یہ کام اس قدر کم وقت میں پے درپے انجام پائے کہ ان کی صحیح طور پر تشہیر بھی نہیں ہوئی اور پوری طرح خبررسانی کا کام بھی انجام نہیں پایا۔ جس وقت یہ زندہ مخلوق خلاء میں بھیجی گئی اور وہ صحیح و سالم واپس لوٹی تو یہ مسئلہ دنیا کے سائنسدانوں اور بین الاقوامی مبصروں کے لئے اس قدر تعجب خیز تھا کہ پہلی منزل میں انہوں نے انکار کر دیا لیکن بعد میں جب دیکھا کہ کوئی چارہ نہیں ہے اور اس حقیقت کی صحیح نشانیاں اور حقائق نگاہوں کے سامنے آ گئے ہیں تو قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔
صحت عامہ اور میڈیکل انجینیرنگ یا طبی مصنوعات و اختراعات کے دائرے میں بھی عظیم کام انجام پائے ہیں جو لوگوں کی سلامتی اور تن درستی سے تعلق رکھتے ہیں؛ بایو ٹکنالوجی میں علاقائی سطح پر ہم اول قرار پائے ہیں اور ہم نے بڑے ہی اہم ماہرانہ کام انجام دئے ہیں اور اس کی بنیاد پر کئی قسم کی دوائیں اختراع اور تیار کی ہیں اور یہ کام اسی سال انجام پائے ہیں جب ایران پر سختیاں بڑھا دی گئی تھیں کہ اس کو زندگی سے اور بشری صلاحیتوں کی مرہون منت تمام مصنوعات سے محروم کر دیں، اسی سال نینو ٹکنالوجی کے شعبے میں بھی، جس کو صنعت اور ٹکنالوجی کے میدان میں ایک انقلاب کہہ سکتے ہیں، ہمیں علاقے میں پہلا نمبر حاصل ہوا؛ اسی سال دوسرے کئی اہم علمی میدانوں میں علمی پیداوار کے لحاظ سے علاقے میں پہلا مقام حاصل ہوا ہے، علم اور سائنسی ایجادات کے ریکارڈس بنانے میں رسرچ پیپرز کی اشاعت کے میدان میں اور علمی ترقی کی رفتار میں عالمی سطح پر علمی ایجادات میں دخیل ملکوں کے درمیان ہمیں نمایاں پیشرفت دیکھنے کو ملی ہے۔ طلبہ کے اولمپیاڈوں میں ہمارے ملک کو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اکتیس فی صدی ترقی ملی ہے۔ سنہ 91 ہجری شمسی میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ کی تعداد میں اتنا زيادہ اضافہ ہوا ہے کہ اس سال ان کی تعداد اوائل انقلاب کی نسبت پچیس گنا بڑھ چکی ہے، اول انقلاب کی نسبت 25 گنا زيادہ طلبہ اندرون ملک یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھ رہے ہیں۔ یہ ملت ایران کی عظیم ترقی ہے۔ پانی کی سپلائی کے میدان میں، ماحولیات کے شعبے میں، اسٹم سیلز کے شعبے میں، توانائی کے جدید ذرائع کے میدان میں، قدیم طبی علوم کے میدان میں اور نیوکلیائي ٹکنالوجی کے میدان میں ہمارا ملک عظیم ترقیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے اور یہ سب کچھ اس سال سے مربوط ترقیاں ہیں کہ جس سال ملت ایران کی دشمن طاقتوں نے پوری کوششیں اس بات پر مرکوز کر دی تھیں کہ ملت ایران کو بالکل بے دست و پا کر دیں اور اس کے تمام کام بالکل ٹھپ ہو جائیں۔
سنہ 91 ہجری شمسی کے تغیرات ہم کو ایک بہت بڑا درس دیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ایک زندہ قوم دشمن کی سختیوں، دھمکیوں، زيادتیوں اور دباؤ سے ہرگز گھٹنے نہیں ٹیکا کرتی، ہم کو اور ان سبھی لوگوں کو جو ایران کے مسائل پر نظر رکھتے رہے ہیں معلوم ہو گیا کہ وہ چیز جو ایک قوم کے لئے اہم ہے وہ یہ کہ اپنی اندرونی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا چاہئے، خدائے عظیم پر توکل اور خود پر اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے اور دشمنوں پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ یہی چیز ایک قوم کو ترقی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ سنہ 91 ہمارے لئے ایک جد وجہد اور کارزار کا میدان تھا، ہمارے لئے ایک مشق اور تجربے کا میدان تھا، دشمن کی نظر میں ہمارا وجود ناقابل برداشت ہو جانے کے سبب ہم ایرانی عوام مفلوج نہیں ہوئے بلکہ ہم کو موقع مل گیا کہ جد وجہد کے اس میدان میں خود اپنی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے نمایاں کر سکیں۔ البتہ ہم کو ہماری کمزوریوں کا بھی پتہ چل گيا، مقابلہ آرائی کی خاصیت یہی ہے۔ ایک جہادی مقابلے اور جنگی مشق کے میدان میں ایک جنگی مجموعے کو اپنی قوتوں اور توانائیوں کا بھی پتہ چلتا ہے اور کمزوریوں سے بھی وہ واقف ہوتا اور ان کو برطرف کرتا ہے۔
ہم نے بھی خود اپنی کمزوریوں کو جان لیا ہے۔ اقتصاد میں ہماری کمزوری جو لوگوں کے بعض طبقوں کی معاشی زندگی میں کچھ سختیوں پر منتج ہوئی، تیل کے اوپر انحصار ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ ہماری کمزوریوں میں سے ایک ہے، بڑي اور دراز مدتی اقتصادی پالیسیوں کی طرف سے بے توجہی اور روزمرہ کے عارضی فیصلوں اور پالیسیوں پر عمل ہے۔ ملک کے حکام کو موجودہ حکومت اور خاص طور پر اسی سال آئندہ چند ماہ میں ہونے والے انتخابات کے بعد برسر اقتدار آنے والے عہدیداروں کو، اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ملک کے پاس مدون و طے شدہ منصوبے کے تحت ایک ایسی روشن اور واضح وسیع و مستحکم اقتصادی پالیسی ہونا چاہئے کہ وقتی تغیرات اس میں تغییر و تبدیلی ایجاد نہ کر سکیں۔
ایک اور بڑا درس یہ ملتا ہے کہ ملک کی بنیادیں قوی ہیں، جب بنیادیں قوی ہوں، دشمنوں کی معاندانہ حرکتوں کے اثرات کم سے کم ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ حکام جو اس وسیع و عریض ملک میں ان قوی و مستحکم بنیادوں کے ساتھ ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں، حکمت و تدبیر سے کام کریں، آپس میں حکام متحد رہیں اور مل کر کام کریں کہ جس کی میں ہمیشہ ملک کے حکام کو نصیحت کیا کرتا ہوں، پکے ارادے اور تدبیر سے کام لیں تو دشمن کی ہر دھمکی کو ایک اچھے موقع میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ سنہ 91 ہجری شمسی میں دشمن کی دھمکیوں اور پابندیوں کو ہم نے بہترین مواقع میں تبدیل کر دیا اور آگے بڑھنے میں کامیاب رہے۔ سنہ 91 ھ ش میں جو کام ہماری ملت عزیز اور ملک کے حکام نے انجام دئے ہیں انشاء اللہ ان کے ثمرات عوام کی زندگی میں آئندہ برسوں میں ظاہر ہوں گے اور ضرور ظاہر ہوں گے ۔
یقینا اقتصاد کا مسئلہ ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے جس پر ادھر چند برسوں کے دوران میں نے بھی پے در پے تاکید کی ہے لیکن صرف اقتصاد کا مسئلہ ہی اہم مسئلہ نہیں ہے۔ ملک کے لئے سکیورٹی اہم ہے، لوگوں کی صحت و سلامتی اہم ہے، علمی ترقیاں اہمیت رکھتی ہیں اور یہ سب بنیادی اہمیت کے حامل کام ہیں۔ چنانچہ ملک میں اگر علمی ترقیاں ہوتی رہیں تو بعد کے تمام کام آسان ہو جائیں گے۔ قومی عز و وقار اور خود مختاری ملک کے لئے اہم ہے۔ ایک قوم کے لئے کسی کا ماتحت اور غلام و محتاج نہ ہونا بہت اہم ہے؛ ایک قوم اور ایک ملک کا علاقائی اثر و رسوخ اور اقتدار ملک و ملت کے امن و تحفظ کی پشتپناہی کرتا ہے اور اہم چیز کل ہے کہ ان تمام میدانوں میں ہم نے ترقی کی ہے امن و تحفظ اور سیکیورٹی کے میدان میں بھی، صحت و سلامتی کے میدان میں بھی، بین الاقوامی اثر و رسوخ کے میدان میں بھی اور ملک اور علاقائی سطح پر جاری مختلف واقعوں پر تسلط اور اقتدار کے میدان میں بھی ہمہ جہت ترقی ملی ہے۔
ہماری قوم نے اپنی ترقیوں سے ثابت کر دیا کہ امریکہ کی چھاؤں میں زندگي گزارنے پر تیار نہ ہونے کا مطلب پسماندگی میں چلا جانا نہیں ہے۔ یہ بہت ہی اہم بات ہے، دنیا کی بڑی سامراجی طاقتیں، ان دنوں بھی جب براہ راست سامراجیت حکمراں تھی اور آج بھی امریکہ، دنیا کی قوموں پر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اگر اچھی زندگي چاہتے ہو اور ترقی کے طالب ہو تو ہمارے زیر سایہ آنا ضروری ہے۔ مگر ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ یہ بات غلط ہے۔ ہماری قوم نے ثابت کیا ہے کہ امریکہ اور دوسری بڑی طاقتوں سے وابستہ نہ ہونا، نہ صرف یہ کہ پسماندگی کا باعث نہیں ہے بلکہ ترقیوں کا باعث ہے۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ آپ اسلامی جمہوریہ کے ان تیس برسوں کا بعض ان ملکوں کے تیس سال کے ساتھ مقابلہ کر لیں جو امریکہ کے سایہ میں زندگي گزار رہے ہیں اور جنہوں نے دو تین ارب ڈالر کی سالانہ امریکی امداد پر عیش کرنے کا راستہ اختیار کر رکھا ہے اور خود کو امریکہ کی گود میں ڈال دیا ہے، دیکھ لیجئے وہ لوگ کہاں ہیں اور ہم کہاں ہیں؟ جی ہاں! کچھ ممالک ہیں جنہوں نے خود کو امریکہ کی دم سے باندھ رکھا ہے اور امریکہ کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں؛ تیس سال کا طویل تجربہ ہمارے سامنے ہے، دیکھئے! اسلامی جمہوریہ کے تیس سال کس طرح گزرے ہيں اور اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور وہ لوگـ کن حالات میں ہیں؟ جو بھی اس صورتحال کا تقابلی مطالعہ کرے گا سمجھ جائے گا کہ بڑی طاقتوں کے ساتھ وابستہ نہ ہونا ایک قوم کے لئے اچھا موقع ہے، خطرے کی بات نہیں ہے۔ اس موقع کو بحمد اللہ ملت ایران نے اپنے اقتدار کے ساتھ، اپنی بہادری کے ساتھ اور اپنی عقل و ہوشیاری کے ذریعے خوب اچھی طرح استعمال کیا ہے۔
اس منزل میں دو اہم موضوعات کی طرف اشارہ کر دینا لازم ہے۔ کیونکہ یہ باتیں مستقبل سے مربوط ہیں۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ ہمیں اپنی منصوبہ بندی میں ہمیشہ دشمن سے آگے آگے چلنا ہوگا۔ دشمن کی سرگرمیوں کے مقابلے میں ملک کا دفاعی پوزیشن میں باقی رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ پوری ہوشیاری سے دشمن کے منصوبوں کا اندازہ لگائیں، اس کی آئندہ کے اقدامات اور حکمت عملی کا پہلے ہی اندازہ لگا لیں اور میدان میں اس کے اترنے سے پہلے ہی ہم اپنا کام شروع کر دیں۔ ہم نے ایک مسئلے میں اس روش پر کام کیا اور اس کی کامیابی ہمارے سامنے ہے۔ اس کا ایک نمونہ یہی تہران کے تحقیقاتی ری ایکٹر کے لئے ضروری بیس فی صدی گریڈ تک افزودہ ایندھن کی فراہمی کا مسئلہ ہے؛ جہاں ملک کے لئے لازم اہم نیو کلیائی میڈیسنس تیار کی جا رہی ہیں، اس چھوٹے سے تحقیقاتی ری ایکٹر کے لئے بیس فی صدی گریڈ تک افزودہ یورینیم کی ضرورت تھی اور ہم بیس فی صدی گریڈ تک یورینیم کی افزودگی پہلے نہیں کر رہے تھے اس لئے ہمیشہ باہر سے فراہم کرنا پڑتا تھا۔ ہمارے دشمنوں نے سمجھ لیا کہ وہ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس قومی ضرورت کو اپنی اجارہ داری میں رکھ کر اسلامی جمہوریہ کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ ان کے فرمانوں اور ان کی زور زبردستیوں کو قبول کر لے۔ وہ اس کے ذریعے اپنے مطالبات اسلامی جمہوریہ پر مسلط کر سکتے ہیں، ہمارے نوجوانوں اور ہمارے سائنسدانوں نے قبل اس کے کہ مسئلہ دباؤ کے حساس مرحلے تک پہنچ جائے بیس فی صدی گریڈ تک افزودہ ایندھن تیار کرنے اور ایندھن کو ایٹمی ری ایکٹر کے لئے لازم پلیٹس میں تبدیل کرنے کی قوت پیدا کر لی۔ ہمارے مخالفین کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہم یہ کام انجام دے سکتے ہیں، لیکن ہمارے ملک کے حکام صحیح وقت پر ملک کی اس ضرورت کی طرف متوجہ ہو گئے اور کام شروع کر دیا۔ ایرانی صلاحیتیں بروئے کار لائیں، صلاحیتیں پروان چڑھیں اور ہم نے یہ کام کامیابی کے ساتھ انجام دے ڈالا جبکہ دشمن اس امید میں تھے کہ اسلامی جمہوریہ ان سے گڑگڑا کر بیس فی صدی افزودہ ایندھن کے لئے درخواست کرے گا، اسلامی جمہوریہ نے اعلان کر دیا کہ ہم نے بیس فی صدی کی سطح تک افزودہ یورینیم اپنے ملک میں ہی تیار کر لیا ہے، ہم کو آپ کی (مہربانیوں کی) ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہمارے سائنسدانوں، ہماری علمی شخصیتیوں اور ہمارے نوجوانوں نے یہ کام نہ کیا ہوتا تو آج ہم کو ان لوگوں کے سامنے جو ہمارے دوست و ہمدرد نہیں دشمن ہیں بھاری قیمت ادا کرنے کے باوجود خوشامد کے ساتھ ہاتھ پھیلانا پڑتا۔ ملک کے حکام نے مسئلے کو وقت سے پہلے ہی بھانپ لیا بر وقت اقدام کیا اور جو کام کرنا چاہئے تھا کر ڈالا لہذا ہمیں کامیابی ملی۔ اس روش کو ہمارے ملک کے تمام بنیادی مسائل میں اور تمام بنیادی ضرورتوں میں ایک منظم منصوبے کی صورت دینا ضروری ہے۔
حکومتوں، سرمایہ داروں، صنعت کاروں، تاجروں اور کسانوں، کارخانوں کے مالکوں اور ڈائریکٹروں، سائنسی و صنعتی شعبوں کے محققوں اور منصوبہ سازوں سبھی کا یہ فریضہ قرار دیا جائے کہ وہ اس عظیم اخلاقی ذمہ داری اور عقلی تقاضے کو سمجھیں اور ضرورت سے پہلے تمام تیاریاں مکمل کر لیں اور دشمن کی سازشوں اور منصوبوں سے ایک قدم آگے حرکت کریں۔ اقتصادی شعبے کے ذمہ داروں اور ڈائریکٹروں، یونیورسٹیوں کے استادوں اور ماہروں، علمی و تحقیقی اداروں اور گروہوں نیز سائںس و ٹکنالوجی سے متعلق سرگرمیوں کے تمام مراکز سب کو چاہئے کہ خاص شناخت قائم کر دینے والے علمی کاموں میں سبقت اختیار کرنے پر کمرکس لیں، تحقیقی مقالے جو لکھتے ہیں اسی رخ کو سامنے رکھ کر لکھیں، اپنی علمی تحقیقات اسی رخ پر انجام دیں؛ صنعتی کام جو کرتے ہیں علمی و فنی کام جو انجام دیتے ہیں سب اسی رخ پر ہوں، سرکاری افسروں کو یونیورسٹی کے عہدیداروں کو علمی و فنی اداروں کے ڈائریکٹروں کو اور قوم کی ایک ایک ذمہ دار فرد کو اسی رخ پر قدم بڑھانا چاہئے۔
ہم میں سے ہر ایک کا یہی فریضہ ہے کہ ملک کو مستحکم کرنے کی کوشش کرے اور دشمنوں کے لئے اس کو ناقابل مداخلت بنا دے، اس کی حفاظت و پاسبانی کرے۔ یہ مزاحمتی اور خود منحصر اقتصاد کے تقاضوں میں سے ایک ہے کہ جس کا ہم نے (اپنی تقریروں میں) ذکر کیا ہے۔ مزاحمتی اور خود منحصر اقتصاد میں ایک اہم اور بنیادی ستون اقتصاد کا پائدار ہونا ہے؛ اقتصاد مستحکم و پائیدار ہو کہ دشمن اگر کہیں سے سازشانہ حملہ کرے تو وہ اس کے مقابلے میں اپنی جگہ ٹھہرنے کی قوت رکھتا ہو۔ یہ وہ پہلی بات ہے کہ جس کا عرض کرنا ہم نے کہا تھا کہ لازم ہے۔
دوسری بات: امریکیوں نے مختلف راہوں سے مسلسل ہمارے پاس پیغام بھیجے ہیں کہ آئیے ایٹمی مسئلے سے متعلق گفتگو کر لیں؛ ہمارے پاس پیغامات بھی بھیج رہے ہیں اور اپنے عالمی پروپیگنڈوں میں بھی اس بات کو چھیڑا کرتے ہیں، امریکہ کے بلند مرتبہ حکام اور درمیانی سطح کے عہدیدار بھی بارہا اور بارہا کہہ چکے ہیں کہ آئیے گروپ پانچ جمع ایک مذاکرات کے ذیل میں ، جہاں ایٹمی مسائل پر بحث کرتے ہیں، امریکہ اور اسلامی جمہوریۂ ایران کے درمیان آمنے سامنے بیٹھکر ایران کے ایٹمی مسئلے کے بارے میں دو طرفہ مذاکرات کر لیں۔ میں ان مذاکرات کے سلسلے میں پرامید نہیں ہوں کیوں؟ اس لئے کہ ہمارے ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ امریکی حضرات کی نظر میں گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیٹھ کر ایک منطقی حل تلاش کریں۔ ان کی نظر میں گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہوتا۔ ان کی نظر میں گفتگو کا مطلب یہ ہے کہ بیٹھیں بات چیت کریں کہ آپ، ہماری بات کو قبول کر لیں! ہدف، پہلے سے اعلان شدہ ہے؛ مد مقابل کی بات کو ماننا ہی ہوگا لہذا ہم نے ہمیشہ اعلان کیا اور کہا ہے کہ یہ مذاکرات نہیں ہیں، یہ تو اپنی بات جبرا منوانا ہے اور ایران زبردستی کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہے۔ میں (امریکیوں کے) بیانات سے اسی لئے خوش نہیں ہوں لیکن مذاکرات کی مخالفت بھی نہیں کرتا۔ البتہ اس سلسلے میں چند باتیں واضح کر دینا چاہتا ہوں۔
ایک بات تو یہ ہے کہ امریکیوں نے بار بار یہ پیغام بھیجا ہے۔ بعض اوقات تحریری پیغام بھیجا ہے اور بعض اوقات زبانی پیغام دیا ہے کہ ہم اسلامی نطام تبدیل کرنے کے درپے نہیں ہیں،، ہم سے اس طرح کی باتیں کرتے ہیں!! جواب یہ ہے کہ ہم کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے کہ تم اسلامی نظام بدلنے کے درپے ہو یا نہیں ہو کہ جس پر اس وقت تم زور دیتے رہتے ہو کہ ہم اس کا ارادہ نہں رکھتے؛ ان دنوں بھی کہ جب تم اسلامی نظام تبدیل کرنے کے خواہشمند تھے اور صاف طور پر اس کا اعلان کیا کرتے تھے تمہارا کوئی بس نہیں چل سکا اور تم کچھ نہیں کر سکے اور آئندہ بھی تم کچھ نہیں کر سکوگے۔
تیسری بات: یہ ہے کہ امریکیوں نے پے درپے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ وہ ایک منطقی گفتگو کی پیشکش میں صداقت رکھتے ہیں، یعنی سچائی کے ساتھ آپ سے مذاکرات کے خواہشمند ہیں اور مذاکرات منطقی ہوں گے یعنی اپنی بات منوانے کے لئے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ جواب میں ہم کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے بارہا تم لوگوں سے کہا ہے کہ ہم ایٹمی اسلحے بنانے کے درپے نہيں ہیں اور تم کہتے ہو کہ ہم اس پر یقین نہیں کر سکتے۔ تو ہم کس لئے تمہاری بات پر یقین کر لیں؟! جب تم ایک منطقی اور صادقانہ بات ماننے کو تیار نہیں ہو ہم کیوں تمہاری کہی ہوئی بات کو صحیح مان لیں جبکہ اس کے برخلاف بارہا (تمہارا جھوٹ) ثابت ہو چکا ہے؟ اس سلسلے میں ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ گفتگو کی تجویز رائے عامہ کو دھوکا دینے کے لئے امریکہ کی ایک چال ہے۔ عالمی رائے عامہ کو بھی اور خود ہمارے ملک کی بھی رائے عامہ کو (فریب دینا چاہتے ہیں) تم کو ثابت کرنا ہوگا کہ ایسا نہیں ہے؛ اگر ثابت کر سکتے ہو تو ثابت کرو۔
اس منزل میں، یہ بھی عرض کر دوں کہ ان لوگوں کی پروپیگنڈہ پالیسیوں میں سے ایک یہ چال بھی ہے کہ کبھی کبھی شور مچاتے ہیں: قائد انقلاب اسلامی کی طرف سے کچھ لوگوں نے امریکیوں سے مذاکرات کئے ہیں؛ یہ بھی ایک جھوٹا پروپیگنڈہ اور چال ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اب تک قائد انقلاب اسلامی کی جانب سے کسی نے بھی ان کے ساتھ گفتگو نہیں کی ہے، ہاں چند خاص امور میں، مسلسل کئی برسوں تک، مختلف حکومتوں میں کچھ لوگوں نے وقتی مسائل سے متعلق کہ جس میں ہم کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا، ان کے ساتھ گفتگو ہوئی ہے لیکن بات چیت حکومت کے مندوبین نے کی ہے۔ البتہ ان کے لئے بھی قائد انقلاب کی جانب سے ریڈ لائن کا تعین کر دیا گیا تھا۔ اس کا لحاظ رکھنا ان کے لئے ضروری تھا اور آئندہ بھی اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا۔
چوتھی بات یہ ہے کہ پوری توجہ اور چھان بین کے ساتھ حالات پر گہری نگاہ اور طویل تجربے کی بنیاد پر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ امریکہ ایٹمی مسئلے کی یکسوئی میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ امریکیوں کی خواہش نہیں ہے کہ ایٹمی مذآکرات تمام ہوں اور ایٹمی اختلاف حل ہو جائیں ورنہ اگر وہ ان مذاکرات کو انجام تک پہنچانا چاہتے اور اس مشکل کو حل کرنا چاہتے تو حل بہت ہی قریب اور آسان تھا۔ ایران ایٹمی مسئلے میں صرف اتنی سی بات چاہتا ہے کہ یورینیم کی افزودگی کا حق، جو ایک قانونی حق ہے، دنیا کی طرف سے تسلیم کر لیا جائے؛ ان ملکوں کے حکام جو مدعی (کے طور پر) آتے ہیں اعتراف کریں کہ ملت ایران کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک میں پرامن مقاصد کے لئے خود اپنے ہاتھ سے ایٹمی افزودگی کا عمل انجام دے، کیا یہ مطالبہ کوئی بڑا مطالبہ ہے؟! یہی وہ چیز ہے جو ہم نے ہمیشہ کہی ہے اور وہ لوگ یہی نہیں چاہتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم کو اس بات کی تشویش ہے کہ تم ایٹمی اسلحے بنانے کی طرف بڑھ رہے ہو۔ یہ گنتی کے چند ملکوں سے زیادہ نہيں ہیں کہ جن کا میں نے نام لیا ہے؛ انہوں نے اپنا نام عالمی برادری رکھ لیا ہے۔ کہتے ہیں عالمی برادری کو تشویش لاحق ہے! جی نہیں! عالمی برادری کو کوئی تشویش نہیں ہے۔ دنیا کے زيادہ تر ممالک اسلامی جمہوریہ کی طرف ہیں اور ہمارے مطالبے کی حمایت کر رہے ہیں؛ کیونکہ ہمارا مطالبہ حق بجانب ہے۔ امریکیوں نے اگر چاہا ہوتا کہ مسئلہ حل ہو تو یہ مشکل حل کرنے کی بہت ہی آسان راہ موجود تھی؛ ملت ایران کے لئے یورینیم کی افزودگی کے حق کا وہ اعتراف کر سکتے تھے؛ پھر ان پہلوؤں سے کوئی تشویش نہ رہے اس کے لئے ایٹمی ایجنسی کے جو اصول و ضوابط ہیں انہیں بروئے کار لا سکتے تھے، ( حال یہ ہے کہ ) جب بھی راہ حل سے قریب ہوتے ہیں مسئلہ حل ہونے کی راہ میں امریکیوں کی جانب سے کہیں نہ کہیں روڑے اٹکا دئے جاتے ہیں۔ ان کا مقصد جیسا کہ ہم نے سمجھا اور اندازہ لگایا ہے یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کو باقی رکھنا چاہتے ہیں تا کہ دباؤ ڈالنے کے لئے ایک بہانہ ان کے ہاتھ میں رہے اور یہ تمام دباؤ، جیسا کہ خود انہوں نے کہا بھی ہے، ملت ایران کو مفلوج کر دینے کے لئے ہے۔ البتہ ملت ایران کبھی مفلوج نہیں ہوگی اور دشمن کی آنکھ کا خار بنی رہے گی۔
اس مسئلے میں چوتھی اور آخری بات یہ ہے کہ اگر امریکیوں کی صادقانہ طور پر خواہش ہے کہ مسئلہ واقعی اتمام کو پہنچ جائے تو بندہ راہ حل پیش کئے دیتا ہے۔ راہ حل یہ ہے کہ امریکی حضرات اسلامی جمہوریہ کے ساتھ اپنی دشمنی سے باز آ جائیں، ملت ایران کی دشمنی ترک کر دیں۔ موجودہ صورت حال میں مذاکرات کی تجویز کوئي منطقی تجویز نہیں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ اگر چاہتے ہیں آپس میں ایک دوسرے کے لئے کوئی مشکل باقی نہ رہے، جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیںہم چاہتے ہیں ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی مشکل باقی نہ رہے تو دشمنی کا راستہ چھوڑ دیں۔ چونتیس سال ہو گئے کہ امریکہ کی مختلف حکومتیں ایران اور ایرانی کا غلط مفہوم سمجھنے کے سبب ہمارے خلاف طرح طرح کی دشمنیوں کی منصوبہ بندی کرتی رہی ہیں۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کی تشکیل کے پہلے سال سے ہی ان لوگوں نے ہمارے ساتھ دشمنی کی ہے؛ امن و سلامتی اور سکیورٹی کے میدان میں خلل اندازی کی ہے اور ہمارے امن و امان کو درہم برہم کرنے کے لئے انہوں نے سازشیں رچي ہیں، دشمنانہ اقدامات انجام دئے ہیں، ہماری ارضی سالمیت کے خلاف کارروائی کی ہے، ہمارے چھوٹے بڑے تمام دشمنوں کے ساتھ اس طویل عرصے میں مسلسل تعاون اور ان کی پشتپناہی کی ہے، ہمارے قومی اقتصاد کے خلاف ریشہ دوانیاں کی ہیں، ملت ایران کے خلاف تمام وسائل استعمال کئے ہیں اور ان تمام کے تمام میدانوں میں بحمد اللہ انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اسی طرح آئندہ بھی ملت ایران سے مقابلہ آرائی میں اگر اس دشمنی کو انہوں نے جاری رکھا تو انہیں اور بھی شکست اٹھانا پڑے گي۔ بنابرایں یہ بندہ، امریکی حکمرانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ اگر وہ کسی عاقلانہ راہ کی فکر میں ہیں تو عاقلانہ راہ یہی ہے کہ وہ اپنی سیاست اور پالیسی کی اصلاح کریں، اپنے عمل اور طرز فکر کی اصلاح کریں اور ملت ایران دشمنی کا برتاؤ کرنا چھوڑ دیں۔ اس بحث کو یہیں پرتمام کرتے ہیں۔
ایک اور بحث ہے، چاہتا ہوں اجمال کے ساتھ اس کے بارے میں بھی کچھ عرض کر دوں۔ یہ بہت اہم مسئلہ، یہ ہمارے انتخابات کی بحث ہے۔ ہمارے ملک میں انتخابات ایک سیاسی جہاد کا مظہر ہوتے ہیں، جو باتیں ابھی میں نے عرض کیں کہ ہمارے فرائض میں ہے اور مختلف طبقات کی ذمہ داری ہے کہ ہم سب اس کو انجام دیں وہ سب اقتصادی جہاد سے عبارت ہیں۔ انتخابات سیاسی جہاد کا مظہر ہیں، نظام اسلامی کے اقتدار کا مظہر ہیں، نظام کے وقار کا مظہر ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کا وقار اور آبرو انتخابات کے ساتھ وابستہ ہے کہ لوگ بیلیٹ باکس تک آئیں، انتخابات میں بھرپور حصہ لیں اور ایک ایک شخص ملک کے حکام کے انتخاب میں موثر کردار ادا کرے۔ انتخابات قومی فیصلے اور ارادے کا مظہر ہیں، اسلامی جمہوریت کا جلوہ اور علامت ہیں۔ ہم نے مغرب کی لبرل جمہوریت کے مقابلے میں اسلامی جمہوریت کا جو نمونہ پیش کیا ہے، انتخابات میں عوام کی یہی شراکت اسلامی جمہوریت کا مظہر ہے۔ لہذا انتخابات کی اسی اہمیت کے باعث ملت ایران کے دشمنوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ انتخابات کے جوش و خروش کو ٹھنڈا کر دیں، منصوبہ بندی کی ہے کہ لوگ انتخابات میں حصہ نہ لیں اور بیلیٹ باکس سے دور رہیں، لوگوں کے جذبات ٹھنڈے پڑ جائیں، لوگ مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو جائیں، مختلف برسوں کے دوران جب بھی ہمارے یہاں انتخابات ہوئے ہیں، چاہے وہ پارلیمانی انتخابات ہوں، چاہے کوئی اور انتخابات ہوں، خاص طور پر صدارتی انتخابات کے موقعوں پر، ہمارے دشمنوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ان انتخابات کی رونق چھپن لیں اور یہ ملک کے مسائل میں انتخابات کی اہمیت کے ہی سبب ہے۔
میں چند باتیں انتخابات کے بارے میں بھی عرض کر دوں؛ یقینا ابھی دو مہینے اور کچھ روز باقی ہیں، اگر عمر رہی تو دیگر مواقع پر بھی انتخابات سے متعلق کچھ اور باتیں بھی عرض کروں گا۔ فی الحال چند باتیں عرض کر دوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ انتخابات میں سب سے پہلے لوگوں کی وسیع پیمانے پر شرکت بیحد اہمیت رکھتی ہے۔ ملک میں پر جوش انتخابات اور ووٹنگ میں لوگوں کی بھاری شرکت دشمنوں کی دھمکیوں کو بے اثر کر دیتی ہے۔ یہ دشمن کو مایوس کر سکتی ہے، ملک کو امن و تحفظ فراہم کر سکتی ہے، ہماری عزیز و باوقار ملت ملک کے گوشے گوشے میں ہر جگہ یہ بات جانتی ہے۔ بیلیٹ باکسوں تک وسیع پیمانے پر ان کی موجودگی، ملک کے مستقبل کے تعلق سے بہت موثر ہے۔ امن و تحفظ، خودمختاری، قومی سرمائے، اقتصاد اور ملک کے تمام اہم امور میں موثر ہے۔ یہ پہلا نکتہ ہے کہ انتخابات توفیق الہی، پروردگار کی مدد، ملت ایران کے عزم و ہمت اور عظیم الشان شرکت کے ساتھ منعقد ہوں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ انتخابات میں ہر فکر و مزاج اور طریق کار کے گروہوں کو جو اسلامی جمہوریہ پر ایمان رکھتے ہیں شرکت کا موقعہ فراہم کیا جائے۔ انتخابات میں شرکت ہر ایک کا حق بھی ہے اور ہر ایک کا فریضہ بھی ہے۔ انتخابات کسی مخصوص مزاج اور کسی خاص فکری اور سیاسی گروہ کی ملکیت نہیں ہے۔ وہ سبھی لوگ جو اسلامی جمہوری نظام اور ملک کی آزادی و خودمختاری پر یقین رکھتے ہیں، ملک کے مستقبل کو اہمیت دیتے ہیں اور جن کا دل قومی مفادات کے لئے دھڑک رہا ہے، انتخابات میں شریک ہوں۔ انتخابات سے روگردانی ان ہی کے لئے مناسب ہے جو اسلامی نظام کے مخالف ہیں۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ آخرکار لوگوں کے ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں، جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ عوام کا ووٹ ہے۔ عوام کا فریضہ ہے کہ خود تحقیق کریں، جائزہ لیں غور و فکر کریں۔ جن لوگوں پر آپ کو اعتماد ہو ان سے پوچھیں تا کہ جو سب سے بہتر ہو اس کا پتہ چل جائے پھر اس کا انتخاب کیجئے۔ میرے پاس بھی ایک ووٹ ہے۔ بندۂ حقیر بھی بقیہ لوگوں کی طرح ایک ہی ووٹ رکھتا ہے اور اس ووٹ کے سلسلے میں بھی جب تک بیلیٹ باکس میں پڑ نہ جائے کسی کو بھی اس کی خبر نہیں ہو سکتی کہ کس کے حق میں پڑنے والا ہے۔ اب ممکن ہے وہ لوگ جو بیلیٹ باکس کا اختیار رکھتے ہیں، بعد میں کھولیں اور وہ میری تحریر پہچانتے ہوں اور انہیں معلوم ہو جائے کہ بندے نے کس کو ووٹ دیا ہے تو یہ الگ بات ہے لیکن ووٹ ڈالنے سے پہلے کسی کو اس کی خبر نہیں ہوگی۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی آئے اور کہے کہ رہبر انقلاب کی نگاہ فلاں کے سلسلے میں مثبت ہے اور فلاں کے سلسلے میں نہیں ہے، اگر اس طرح کی نسبت دی گئی تو یہ نسبت صحیح نہیں ہے۔ البتہ ان دنوں آج کے عجیب و غریب ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس طرح کے ایس ایم ایس و غیرہ سے افسوس کہ طرح طرح کی باتیں ، طرح طرح کی نسبتیں مختلف افراد سے جوڑنے کا رواج ہے۔ کبھی ممکن ہے ایک ہی شخص ہزاروں ایس ایم ایس روانہ کرے، مجھے رپورٹ دی گئی ہے کہ ممکن ہے انتخابات کے ایام میں ہر روز کئی کروڑ ایس ایم ایس بھیجے اور وصول کئے جائیں، خيال رکھئے گا کہ اس طرح کی چیزيں آپ کو متاثر نہ کریں؛ آنکھ کھول کر دیکھئے پرکھئے، بہتر کی شناخت پیدا کیجئے اور فریضے کی ادائیگی کے عنوان سے اپنا ووٹ اسی کے نام پر، مہر لگا کر دیجئے۔ البتہ ہر شخص یا سیاسی میدان میں سرگرم افراد، دوسروں کو بھی اپنی نظر اور رائے میں شریک کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اس حقیر کی طرف سے کوئی بھی اس سلسلے میں کوئی بات نہیں سنے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں، کسی کے حق میں سفارش تاکید اور خواہش و نصیحت کر سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے توجیہ کریں، بہتر کی شناخت میں مدد کریں، بہر صورت جو چیز عمل کا معیار ہے ایک ایک فرد کا ووٹ ہے۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ انتخابات کا مسئلہ ہو یا انتخابات کے علاوہ دوسرے مسائل ہوں، سبھی کو قانون کی بالادستی کو تسلیم کرنا چاہئے؛ قانون کے سامنے سرجھکا دیں، وہ حادثے جو سنہ 88 ہجری قمری (سنہ 2008ع ) میں رونما ہوئے اور ملک کے لئے ضرررساں ثابت ہوئے اور جانیں تلف ہوئیں سب کچھ اسی بات کا نتیجہ تھا کہ کچھ لوگ قانون کے سامنے سر جھکانے پر تیار نہیں ہوئے؛ لوگوں کی رائے قبول کرنے پر تیار نہیں ہوئے؛ ممکن ہے لوگوں کی رائے اس چیز کے برخلاف ہو جو شخصی طور پر، بالفرض میری رائے ہو، ایسی صورت میں مجھے اپنی رائے نہیں بلکہ عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہئے۔ جس کا انتخاب عوام کی اکثریت کرے اسے سب کو قبول کر لینا چاہئے۔ سب کو اس کا احترام کرنا چاہئے، خوشی کا مقام یہ ہے کہ قانونی راہیں ہر ممکنہ مسئل کے لئے موجود ہیں، شکایت دور کرنے، شکوک رفع کرنے، شبہات برطرف ہو جانے کے راستے موجود ہیں۔ قانون کے ان ذرائع سے استفادہ کر سکتے ہیں؛ یہ کہ جو کچھ پیش آیا ہے چونکہ ہماری خواہش کے خلاف ہے لوگوں کو شورش کرنے پر اکسائیں یا سڑک پر نکل آنے کی دعوت دیں، جیسا کہ جون سنہ 2008ع کے انتخابات میں ہوا، تو یہ ناقابل تلافی غلطیوں میں سے ایک ہے، یہ ہماری قوم کے لئے ایک تجربہ بن گیا اور اب ہمارے عوام اس طرح کے کسی بھی حادثے کے خلاف ہمیشہ تیار ملیں گے۔
آخری بات یہ کہ ہر ایک کو جان لینا چاہئے کہ آئندہ صدر جمہوریہ کے سلسلے میں ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے ان خصوصیات و امتیازات سے عبارت ہے جو آج (موجودہ صدر میں) موجود ہیں، ہاں کچھ کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں اس کی طرف ہر ایک کی توجہ رہے؛ ہر دور کے صدر جمہوریہ کو اپنے گزشتہ صدر جمہوریہ کے وہ امتیازات جو ممکن الحصول اور کسب کئے جانے کے قابل ہیں ان کا حامل ہونا چاہئے اور اس کی کمزوریوں سے مبرا ہونا چاہئے۔ ہر شخص کے یہاں بہرحال کچھ خوبیاں ہوتی ہیں اور کچھ کمزوریاں بھی ہو سکتی ہیں؛ صدر جمہوریہ چاہے وہ موجودہ صدر جمہوریہ ہوں یا آئندہ کے صدر جمہوریہ ہوں۔ ان سب میں خوبیاں بھی ہوں گی اور کمزوریاں بھی ہوں گی۔ ہم سب کے سب اسی طرح ہيں؛ ہم میں کچھ خوبیاں بھی ہیں اور کچھ کمزوریاں بھی ہیں، وہ چیزيں جو آج اور اس وقت حکومت اور صدر جمہوریہ کی خوبیاں شمار ہوتی ہیں یہ باتیں آئندہ کے صدر جمہوریہ میں بھی ہونی چاہئے، ان خوبیوں کو وہ اپنے اندر پیدا کرے؛ وہ باتیں جو آج کمزوریاں سمجھی جا رہی ہیں۔ جو ممکن ہے آپ کہیں میں کہوں یا دوسرے بیان کریں ، ان کمزوریوں کو اپنے سے دور کرنا ہوگا یعنی ایک کے بعد ایک جو حکومتیں آتی ہیں آئیں اور ہم سلسلہ وار طریقے سے بہتری کی جانب آگے بڑھتے چلے جائیں، ہمارا رخ کمال و ارتقاء کی جانب رہے، تدریجی طور پر اپنے بہترین افراد کو اس مقام تک پہنچائیں، جو شخص بھی صدر جمہوریہ کی حیثیت سے آئے انقلاب کا وفادار ہو، اقدار و معیارات کا پابند ہو، قومی مفادات پر ایمان رکھتا ہو، اسلامی نظام کا پابند ہو، اجتماعی فکر کا پابند ہو (یعنی لوگوں کی رائے کو قبول کرتا ہو) عقل و تدبیر کا پابند ہو، اس طرح سے ملک کو چلانا چاہئے۔ ملک ایک بڑا ملک ہے، ملت ایک عظیم ملت ہے حالات حوصلہ افزا اور امید بخش ہیں، مشکلات بھی ہر قوم و ملت کے سامنے منجملہ ہمارے سامنے بھی ہیں۔ وہ لوگ جو اس میدان میں اترنے کے لئے تیار ہیں انہیں پوری قوت کے ساتھ، پورے اقتدار کے ساتھ، خدا پر توکل اور اس ملت کی توانائیوں پر اعتماد کے ساتھ قدم اٹھانا چاہئے۔
پروردگارا! جو کچھ اس ملک کے خیر و صلاح میں ہے اس ملت کے لئے مقدر فرما۔
پروردگارا! ہمارے ولی عصر (عج) کے قلب مقدس کو ہم سب سے راضی و خوشنود رکھ۔
پروردگارا ! امام (خمینی) کبیر کی روح اطہر اور ہمارے شہداء کی ارواح طیبہ کو ہم سے راضی و خوشنود قرار دے۔ جو کچھ میں نے عرض کیا صرف اور صرف اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے اور ان کو اپنے کرم کا مستحق قرار دیتے ہوئے قبول فرما لے۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔