1392/02/21 ہجری شمسی مطابق 11/5/2013 عیسوی کو ماہ رجب کے بابرکت مہينے کي آمد کي مناسبت سے مختلف سرکاري ومذہبي اداروں، يونيورسٹيوں اور ثقافتي مراکز ميں سرگرم خواتين کي بڑی تعداد نے قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي سے ملاقات کي- قائد انقلاب اسلامي نے اس ملاقات ميں خواتين کے بارے ميں اسلامي نقطہ نگاہ پر زور ديتے ہوئے عورت کے بارے ميں مغرب کے نقطہ نگاہ کو سوچی سمجھی سازش اور منصوبے کے تحت اختیار کیا جانے والا سیاسی نقطہ نگاہ قرار ديا اور فرمايا کہ اگرچہ عورت کے بارے ميں يہ نظريہ اس وقت بظاہر اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے ليکن امر واقعہ یہ ہے کہ عورت کے بارے ميں مغرب کی فکر اور سوچ انحطاط اور سقوط کي سمت جا رہي ہے- قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ عورت کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ کو عالمی سطح پر فخریہ انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کنبے کی بنیادوں کی تقویت اور خاندانی ماحول میں عورت کا احترام معاشرے کی دو اہم اور فوری ضرورتیں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے محاذ میں نتیجہ خیز اور سرگرم کردار ادا کرنے والی خواتین کو آج انقلاب کی حفاظت اور دفاع کے میدان میں بھی اپنی شراکت اور تعاون مزید بڑھانا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے عورت کے سلسلے میں اسلامی افکار کی بین الاقوامی سطح پر منتقلی اور تشہیر میں پائی جانے والی تساہلی پر تنقید کی اور فرمایا کہ اسلامی جمہوری نظام کی برکت سے اور امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے نام کی برکت سے عورت ک سلسلے میں بڑے اہم اقدامات انجام پائے تاہم ابھی اور کام کرنے اور مضبوط محاذ کی شکل میں سامنے آنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عورتوں کے درمیان بیداری کی تحریک کے سلسلے میں ہرگز کوئی تعطل یا تساہلی نہیں ہونا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ عورت کے سلسلے میں اسلام کے کامل اور اطمینان بخش موقف کے باوجود مغرب کے نقطہ نگاہ سے کیوں مرعوب ہوا جائے؟ آپ نے عورت کے سلسلے میں مغرب کے روئے کو دو پہلوؤں پر استوار بتایا، ایک ہے عورت کو جنسی لذت کا آلہ سمجھنا اور دوسرے اس سے مردوں جیسا برتاؤ کرنا۔ آپ نے فرمایا کہ مغرب والے اس کوشش میں ہیں کہ ان پیشوں کو جو جسمانی و فکری محنت کے اعتبار سے مردوں کے لئے سازگار ہوتے ہیں، عورتوں میں بھی عام کر دیں اور اسے باعث افتخار قرار دیں۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اجرائی شعبے اور جسمانی محنت کے کاموں میں عورتوں کے سرگرم عمل ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن مضائقہ مغربی نقطہ نگاہ کی ترویج اور اجرائی شعبے میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی کثرت پر افتخار کرنے میں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ اجرائی امور میں عورتوں کی کثرت پر فخر کرنا غلط اور مغربی نقطہ نگاہ سے مرعوب ہو جانے کے معنی میں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں فخر دانشور اور مفکر خواتین کی کثرت اور سیاسی و ثقافتی شعبے میں عورتوں کی بڑی تعداد پر ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم

میں محترم خواتین کا شکرگزار ہوں کہ اتنی اچھی اور ثمر بخش نشست کا آپ نے اہتمام کیا۔ آج واقعی میں محترم خواتین کی تقاریر سن کر بہت مستفیض ہوا۔ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمارے ملک کی ممتاز اور نمایاں خواتین کے اندر فکری کاوشوں اور علمی بحثوں کی مطلوبہ گہرائی بحمد اللہ بنحو احسن موجود ہے۔ آپ نے جو باتیں بیان کیں، ان میں بیشتر بہت اچھی چیزیں تھیں، جو تجاویز پیش کی گئیں ان کا جائزہ لیا جائے گا۔ جس کا تعلق مجھ سے ہے اس کے لئے میں خود کوشش کروں گا، انشاء اللہ۔
عورت اور اس سے متعلق مسائل کے بارے میں کہنے کو بہت کچھ ہے، یہ حقیقت ہے کہ ہم پسماندگی کا شکار ہیں، جس کی طرف آپ خواتین میں سے بعض نے اشارہ کیا۔ اس میدان میں پسماندگی، علمی میدان کی پسماندگی جیسی نہیں ہے۔ عورت کے مسئلے میں اگر ہم پسماندگی کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس مسئلے میں، اس خاص صنف کے مسئلے میں اور عورت سے جڑے مسائل کے سلسلے میں جو مسائل سامنے آتے ہیں جیسے کنبے کا مسئلہ، بچوں کا مسئلہ، شادی کا مسئلہ، رہائش اور سکون و آسائش کا مسئلہ، اسی طرح دوسری کچھ باتیں ہیں جنہیں ہم عالمی سطح پر پیش نہیں کر سکے ہیں۔، عالمی رائے عامہ کے ذہن و خیال میں اسے اتار نہیں سکے ہیں۔ تو اس زاویہ نگاہ سے ہم اسے پسماندگی کا نام دے سکتے ہیں۔ دنیا کو آج جامع اور مشکل کشا اصولوں اور مفاہیم کی شدید احتیاج ہے۔ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا، بعض خواتین نے کہا کہ جب بھی ہم یہ موضوعات دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں، ان کا خیر مقدم کیا جاتا ہے، اسی طرح بعض خواتین نے یہ فرمایا کہ سائیکالوجی کے میدان کے بہت سے کامیاب تجربات عورت کے سلسلے میں اسلامی احکامات و تعلیمات کی حقانیت و افادیت کو ثابت کرتے ہیں۔ یہ اس حساس موضوع کے بارے میں اسلامی فکری نظام کی صلاحیتوں کا ایک پہلو ہے اور یہ چھوٹا سا گوشہ ہے، ہم تمام صلاحیتوں اور توانائيوں کو صحیح طریقے سے بیان کرنے اور متعارف کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ دوسرے فکری و نظری میدانوں میں بھی یہی عالم ہے۔ بہت سے شعبوں میں واقعی ہم اسلامی نظریات و تعلیمات کو صحیح طور پر پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم جو کہہ رہے ہیں کہ ایسا کرنے میں ہم ناکام رہے تو اس کے لئے اسلامی جمہوری نظام کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، کیونکہ جس مقدار میں بھی کام انجام پایا ہے وہ اسلامی نظام کی برکت سے ہی انجام پایا ہے۔ یہ انقلاب کی برکت تھی، یہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برکت تھی، یہ اسلامی انقلاب کے نام کی برکت تھی اور امام خمینی کے اسم مبارک کی برکت تھی کہ بحمد اللہ ان موضوعات کو قدرے فروغ حاصل ہوا، بیشک ہمیں اس سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت تھی۔ ہمیں خود کو محفوظ جارحانہ پوزیشن میں پہنجانے اور دوسروں کے حملوں سے خود کو محفوظ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ جارحانہ اصولوں کے مطابق اپنا محاذ سجائیں، ان افکار اور ان نظریات کی ترویج کریں، بتائیں کہ انسانی معاشرے کو واقعی اس کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارا یہ جارحانہ انداز در حقیقت دفاعی اور تحفظ بخش پہلو کا حامل ہے۔ اس پسماندگی کو دور کرنے کے لئے آپ جتنا زیادہ کام کریں بہتر اور لازمی ہے۔ اس تحریک کے سلسلے میں، عورتوں سے متعلق بیداری کی تحریک کے سلسلے میں ہمیں ذرہ برابر تساہلی نہیں کرنا چاہئے، توقف نہیں کرنا چاہئے، بیچ راہ میں غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ ہمارے پاس اسلام کا یہ مفید، جامع اور اطمینان بخش سرمایہ موجود ہے لیکن پھر بھی ہم عورت کے بارے میں مغربی نقطہ نگاہ کے سامنے خود کو دفاعی پوزیشن میں دیکھ رہے ہیں۔
عورت کے بارے میں مغرب کا طر‌ز فکر اور نعرہ بالکل منصوبہ بند طریقے سے تیار کیا گيا ہے۔ یعنی جس دن سے مغرب میں عورت کے بارے میں یہ کام اور یہ طرز خیال شروع ہوا اسی دن سے اس عمل کے پس پردہ طے شدہ اہداف موجود تھے۔ یہ کوئی رپورٹ نہیں ہے جسے پڑھ کر یا جس کی بنیاد پر میں یہ بات کہہ رہا ہوں، تاہم کچھ ایسے شواہد ہیں جو اس تجزئے اور نظرئے کی تصدیق کرتے ہیں۔ مغرب میں نشآت ثانیہ کے آغاز، اس کے بعد صنعتی انقلاب اور پھر جدید صنعتوں کے دور کی شروعات کے بعد سے یہ طرز فکر رفتہ رفتہ پھیلنے لگا اور دور حاضر میں یہ اپنے اوج کو پہنچ چکا ہے، البتہ یہ اوج انشاء اللہ اس کے انحطاط اور تنزل کی تصویر بن جائے گا اور یہ نظریہ یہیں رسوا ہوکر فنا ہو جائے گا۔
عورت کے سلسلے میں مغربی نقطہ نگاہ کے کئی اجزا ہیں تاہم اس کے دو جز سب سے اہم ہیں۔ ایک ہے عورت کو مردانہ روپ میں ڈھال دینا یعنی عورت کو مردوں کی شکل دے دینا، یہ اس نظرئے کا اہم پہلو ہے اور دوسرا اہم پہلو ہے عورت کو مردوں کی تسکین کا ذریعہ اور سامان بنا دینا۔ بھوکی نظروں کی تسکین یا اس کے بعد کے مزید نفرت انگیز مراحل اس مغربی نظرئے کے دیگر اجزا اور پہلو ہیں۔ آج جو دنیا میں فیمینزم وغیرہ جیسے نظریات رائج ہیں، یہ سب اسی مغربی نقطہ نگاہ کی دین ہے جو سرانجام اس شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔
عورتوں کو مردانہ رنگ میں ڈھالنے کا مطلب یہ ہے کہ مغربی سماجوں نے ایسے کام اور پیشے جو مردوں کی فکری اور جسمانی ساخت سے مطابقت رکھتے تھے، عورتوں کے سر ڈال دئے اور اسے عورتوں کے لئے ایک افتخار اور ایک امتیاز قرار دیا۔ اس صورت حال کے سامنے ہم نے پسپائی اختیار کی اور نادانستہ اور غیر ارادی طور پر ہم نے بھی اس نقطہ نگاہ کو قبول کر لیا۔ آج آپ دیکھئے کہ ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ملک کے فلاں اجرائی شعبے میں اتنی تعداد میں عورتیں کام کر رہی ہیں۔ کوئی غلط فہمی نہ ہو، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اجرائی عہدوں پر عورتیں کام کریں، میں اس کی ممانعت نہیں کرتا، اس سے روکنا نہیں چاہتا ہوں اور نہ ہی میری نظر میں اس میں کوئی قابل اعتراض بات ہے۔ مثال کے طور پر ہماری وزیر صحت ایک خاتون تھیں، یا نائب صدر خاتون تھیں، اسی طرح دیگر شعبے ہیں جن میں عورتیں کام کرتی ہیں، میری نظر میں اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ قباحت اس میں ہے کہ ہم اس پر فخر کریں اور ساری دنیا کو جتانے کی کوشش کریں کہ دیکھئے ہمارے یہاں اجرائی شعبے میں اتنی تعداد میں عورتیں کام کرتی ہیں! یہ وہی پسپائی اور ہزیمت ہے، اس میں افتخار کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر کسی خاتون کے اندر صلاحیتیں تھیں، توانائیاں تھیں، وہ اس عہدے کے لئے موزوں تھی، تو کوئی بات نہیں اس عہدے کے لئے اس کی تقرری ہو گئی، لیکن یہ غلط ہے کہ ہم اس پر فخر کریں کہ ہمارے یہاں اجرائی شعبے میں اتنی عورتیں مصروف کار ہیں۔ اگر ہم اس بات پر فخر کریں کہ ہمارے یہاں کثیر تعداد میں تعلیم یافتہ اور مفکر خواتین ہیں تو یہ بجا ہے اور بہت اچھی بات ہے، اگر ہم کہیں کہ ہمارے یہاں تصنیف کے میدان میں اتنی تعداد میں خواتین کام کر رہی ہیں، سیاسی و ثقافتی شعبے میں سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اگر ہم کہیں کہ ہمارے یہاں مختلف شعبوں میں اتنی مجاہد اور شہادت پسند خواتین موجود ہیں تو یہ فخر بجا ہے، اتنی تعداد میں انقلابی خواتین ہیں، مقرر خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے تو یہ اچھی بات ہے، اس پر فخر کرنا چاہئے۔ لیکن اس پر فخر کرنا کہ ہمارے یہاں اتنی بڑی تعداد میں عورتیں رکن پارلیمنٹ ہیں، اتنی تعداد میں خواتین اگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں، اتنے تجارتی اداروں کی سربراہ خواتین ہیں، اس پر فخر کرنا غلط ہے، یہ مغرب سے مرعوب ہو جانے کی علامت ہے۔ کیا یہ مناسب تھا کہ ہم مردوں کے کام عورتوں کے سپرد کر دیں؟! جی نہیں، عورت کا مقام، اس کی شناخت اور اس کی شخصیت صنف نسواں کے دائرے میں بہت بلند اور باشرف ہے۔ ایک اعتبار سے یہ مقام مردوں سے زیادہ بلند ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو عورتوں اور مردوں میں کوئی فرق نہیں ہے، خلقت کے اعتبار سے، طبعی خصوصیات کے اعتبار سے جو اللہ تعالی نے ودیعت فرمائی ہیں کچھ امتیازات عورتوں کو ملے ہیں اور کچھ مردوں کو حاصل ہوئے ہیں۔ کچھ خصوصیتیں مردوں کو اور کچھ خصوصیتیں صنف نازک کو عطا کی ہیں۔ کچھ نمایاں پہلو عورتوں کو حاصل ہوئے ہیں اور کچھ مردوں کو دئے گئے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ انسان ہونے کے اعتبار سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جو چیزیں اللہ نے انہیں عطا کی ہیں، جیسے انسانی حقوق، سماجی حقوق، روحانی و معنوی اقدار اور ارتقاء نفس، کسی بھی اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یعنی ایک مرد منزل کمال پر پہنچ کر علی ابن ابی طالب بن جاتا ہے اور ایک عورت جب منزل کمال پر پہنچتی ہے فاطمہ زہرا بن جاتی ہے، مرد رفعت پاکر عیسی بن جاتا ہے اور عورت بلندیوں کو طے کرکے مریم بن جاتی ہے، ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ تو یہ نقطہ نگاہ بالکل درست ہے۔ ہم عورت کو اس کی صنف کے اندر اور اس صنف کے تقاضوں کے اندر رکھتے ہوئے اسے عورت کی حیثیت سے دیکھیں اور اس بات پر توجہ دیں کہ اس صنف سے تعلق رکھنے والی یہ فرد اس معاشرے اور اس صنف کو کس طرح ترقی اور بلندی عطا کر سکتی ہے، یہ بالکل درست نقطہ نگاہ ہے، تو ہمیں مغربی نقطہ نظر سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم مرعوب ہو گئے ہیں۔
مغربی نقطہ نگاہ کے دوسرے جز میں عورت کو مردوں کی جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، یعنی روحانی لذت نہیں، علمی لذت نہیں کہ دو لوگ بیٹھیں اور مفید گفتگو کرکے لذت حاصل کریں، یہ سب نہیں، بلکہ مرد عورت کے جنسیاتی پہلوؤں سے لذت حاصل کرے۔ یہ بے یار و مددگار اسلامی ممالک پر مغرب کی جانب سے پڑنے والا طمانچہ ہے، جو ہمارے ملک پر بھی پڑا۔ خوش قسمتی یہ رہی کہ اسلامی انقلاب آیا تو اس پر کسی حد تک قابو کر لیا گیا، البتہ اس کا پوری طرح سد باب کیا جانا چاہئے۔ یہ بہت بڑا خطرہ ہے، بہت بڑی آفت ہے۔ اس کے سد باب کے مقدمات میں سے ایک ہے حجاب، اسی طرح لباس اور پوشاک، مرد اور عورت کی باہمی معاشرت اور اس معاشرت کی حدود بھی انہی مقدمات میں شامل ہیں۔ اس طرح اس عظیم مصیبت کا سد باب کیا جا سکتا ہے، جو عورتوں کے لئے بھی بہت بڑی مصیبت ہے اور مردوں کے لئے بھی بہت بڑی مصیبت ہے، البتہ اس میں عورت کی تحقیر بھی ہے جس کا اسے احساس نہیں ہو پاتا۔ آج دنیا میں اس چیز کی بڑی تشہیر کی جاتی ہے۔ البتہ مجھے اطلاع ہے اور میں نے کچھ مقالے اور کتابیں پڑھی ہیں جن میں مغربی مفکرین کے اندر اس صورت حال سے بتدریج بڑھتے خوف و ہراس اور وحشت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کا خوف بالکل بجا ہے لیکن جاگنے میں انہوں نے بڑی دیر کر دی۔ شہوت کے مسئلے کو ہوا دینا جو پہلے تو عورتوں تک محدود تھا مگر اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس سے بھی ابتر صورت حال سامنے آئی ہے، ہم جنس پرستی کا مسئلہ، ہم جنس پرستوں کی شادی کا مسئلہ، ایسی چیزیں ہیں جو آسانی سے بیان کر دی جاتی ہیں لیکن یہ در حقیقت اس تہذیب و تمدن اور اس کے عمائدین کے راستے کی گہری کھائياں ہیں، جو انہیں تباہ کرکے رکھ دیں گی۔ ابھی تو وہ بیچ راستے میں کھڑے ہیں، ڈھلان کا یہ ابتدائی مرحلہ ہے۔ میری نظر میں اب یہ سماج اس تنزل اور سقوط کو روک نہیں سکتے۔ یعنی اب سب کچھ ان کے اختیار سے نکل چکا ہے۔ میں نے چند سال قبل، سات، آٹھ یا دس سال پہلے غیر ملکی اخبارات و جرائد میں دیکھا، پڑھا اور اس بارے میں سنا کہ امریکی یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی معروف ناول نگار کے ناول پر جو عموما خاندانی مسائل کو منعکس کرتا تھا، فلمیں بنائیں، وہ فلمسازی کی صنعت کو اس سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں کچھ کام کیا اور اب بھی کر رہے ہیں، لیکن یہ اس ہولناک طوفان کے مقابلے میں ٹمٹماتے چراغ سے زیادہ کچھ نہیں ہے جسے انہوں نے خود اپنے اوپر مسلط کر لیا ہے۔ آگے چل کر اس بھیانک طوفان کی تباہ کاریاں اور بھی بڑھنے والی ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے یہاں ایک طرح کا حفاظتی بندوبست ہے اور تحفظ پایا جاتا ہے حجاب وغیرہ جیسے اصولوں کی وجہ سے۔ لیکن یہ مسئلہ معمولی نہیں ہے، اس پر گہری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جن موضوعات کا ذکر محترم خواتین نے اپنی تقریروں میں کیا کہ آپ جنسیات کے موضوع مرد و عورت اور خاندان و سماج کو مد نظر رکھ کر کام کر رہی ہیں، یہ میری نظر میں بہت اہم مسئلہ ہے۔
ہم نے کہا کہ اسلام حقیقی عورت کی بات کرتا ہے۔ اس نقطہ نگاہ کو فخریہ انداز میں بھرپور طریقے سے پیش کرنے اور متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ دوسروں سے ہرگز مرعوب نہیں ہونا چاہئے۔ بتایا گیا کہ جو خواتین اقوام متحدہ سے متعلق اداروں کی سطح پر کام کرنا چاہتی ہیں انہیں دھمکیاں ملتی ہیں کہ آپ نے ایسا کیا تو آپ کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے، قرارداد پاس ہو سکتی ہے۔ قرارداد پاس ہوتی ہے تو ہو! عورت کے سلسلے میں اسلام کے نقطہ نگاہ کو پورے اعتماد کے ساتھ پیش کرنا چاہئے۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ آپ عورتوں کو بے حجاب گھومنے کی اجازت کیوں نہیں دیتے تو جواب میں الٹے ان سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ آپ نے یہ ہولناک اور تباہ کن چھوٹ کیوں دے رکھی ہے، جو آج مغربی سماجوں میں دکھائی دیتی ہے۔ آج مغربی سماجوں میں عورت کی عریانیت اور بے حجابی کی جس طرح ترویج ہو رہی ہے وہ واقعی بے حد خوفناک ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟ یقینا اس سلسلے میں آپ لوگوں کی اطلاعات مجھ سے زیادہ ہوں گی لیکن مجھے بھی اس سلسلے میں کافی اطلاعات ملی ہیں کہ کیا کچھ انجام دیا جا رہا ہے، مختلف سطح پر۔ اعلی سطح سے لیکر روزگار اور معیشت اور عام زندگی کی سطح تک۔ عورت کے سلسلے میں اسلام کا نقطہ نگاہ پیش کرتے وقت عورت کی خصوصیات کو بیان کیا جائے! عورت کی عزت اور اس کے وقار کی بات کی جائے، عورت کی ظرافت و نزاکت کے پہلو کو اٹھایا جائے، صرف جسمانی نزاکت و ظرافت نہیں بلکہ اس کی فکری و نفسیاتی نزاکت و ظرافت کو مد نظر قرار دیا جائے۔ بچے کی نفسیات کے بے حد نازک تاروں کو ماں کی لطیف و ظریف انگلیاں ہی صحیح جگہ پر رکھ سکتی ہیں اور انہیں الجھ جانے اور گرہ پڑ جانے سے بچا سکتی ہیں۔ کوئی دوسرا یہ کام نہیں کر سکتا، کوئی بھی انسان جس کا تعلق صنف نسواں سے نہ ہو، یہ ظریف فریضہ انجام نہیں دے سکتا، یہ عورت کا ہی کام ہے۔ بعض کاموں میں اتنی ظرافت اور نزاکت ہے کہ انسان دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ قدرت الہی نے عورتوں کو ظرافت و نزاکت کے ساتھ ساتھ یہ کیسی توانائی عطا فرمائی ہے۔ میں ہمیشہ دوستوں، ملنے والوں اور عورتوں سے کہتا ہوں کہ جو مشہور ہے اس کے برخلاف عورت مرد سے زیادہ طاقتور ہے۔ عورتیں مردوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ عورتیں اپنی ظرافت اور مدبرانہ صلاحیت کو استعمال کرکے مردوں کو جیسے چاہیں گھما سکتی ہیں۔ عملی طور پر بھی اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور فکری و عقلی دلائل سے بھی اسے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ جو عورتیں بے تدبیری کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہیں لیکن جو عورتیں مدبرانہ صلاحیت استعمال کرتی ہیں وہ مرد کو رام کر لیتی ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص اپنی صلاحیتوں سے کسی شیر کو لگام ڈال لے اور اس پر سوار ہو جائے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جسمانی اعتبار سے شیر سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس شخص نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کیا۔ عورتوں میں یہ توانائی موجود ہے، جسے وہ بروئے کار لائیں لیکن ظرافت و نزاکت کے ساتھ، اس نزاکت کے ساتھ جس کے بارے میں ہم نے عرض کیا کہ صرف عورتوں کی جسمانی ساخت تک محدود نہیں بلکہ ان کی فکر و نظر اور فیصلہ کرنے اور سوچنے کے ان کے انداز میں اللہ تعالی نے ودیعت کر دی ہے۔ تو میری نظر میں کاموں کی بنیاد یہ ہونا چاہئے۔ اس نقطہ نگاہ اور طرز فکر کی تقویت کی جانی چاہئے اور اسے آگے لے جایا جانا چاہئے۔
دوسری بات یہ عرض کرنا ہے کہ ہمارے ملک کی خواتین کے مسائل میں جو چیزیں سب سے زیادہ اہم بلکہ یوں کہا جائے کہ سب سے زیادہ فوری اور توجہ طلب چیزیں ہیں۔ ایک ہے گھر اور خاندان کا مسئلہ۔ گھر اور خاندان کی قدر و منزلت کو سمجھنا ضروری ہے۔ بغیر جائے سکونت اور پناہ گاہ کے کسی انسان کی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہر انسان کو گھر اور گھریلو فضا کی حاجت ہوتی ہے۔ گھریلو فضا سے مراد ہے خاندانی ماحول، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے بارے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا مسئلہ ہے مختلف سطح پر عورت کو ستم اور زیادتی سے محفوظ رکھنا۔ ایسی عورتیں ہیں جو کمزور اور مظلوم ہیں، ایسی عورتیں ہیں جو ستم اور زیادتی کا سامنا کرتی ہیں، ان کی مظلومیت ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے موثر قوانین کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے لئے مناسب اخلاقیات اور ذہنیت کی ترویج ضروری ہے، مناسب آداب و رسوم کی ترویج لازمی ہے، تا کہ عورت مختلف سطحوں پر، معاشرتی سطح پر، جنسی سطح پر، خاندانی سطح پر، ثقافتی سطح پر اور فکری سطح پر ناانصافی اور زیادتی سے روبرو نہ ہو۔ یعنی انتہائی ذاتی مسائل جیسے جنسیاتی مسائل وغیرہ میں بھی اس کا احتمال ہے کہ عورت مظلوم واقع ہو۔ اسی طرح عمومی مسائل یعنی معاشرتی مسائل اور خاندانی مسائل میں بھی عورتوں پر ظلم ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ میں نے خاندانی مسائل میں سے چند کو نوٹ کیا ہے۔ اس میں شوہر کی نگاہ میں احترام، بچوں کی نظر میں احترام، باپ اور بھائی کی نطر میں احترام، ضروری ہے۔ اگر خاندان کے اندر عورت کو محترم سمجھا گیا اور اس کا احترام کیا گیا تو سماج کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ایسا ماحول بنانا چاہئے کہ بچے ماں کے ہاتھ ضرور چومیں! اسلام یہ چاہتا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھئے کہ جن خاندانوں میں دینی اقدار، اخلاقیات اور مذہبی تعلیمات کا زیادہ پاس و لحاظ کیا جاتا ہے، ان میں یہی ماحول ہے۔ گھر میں ماں کے لئے بچوں کے دل میں خاص احترام ہونا چاہئے۔ اس احترام سے بے تکلفی اور اپنائیت کا ماحول ختم نہیں ہوگا۔ مامتا اور لاڈ پیار کے ساتھ ہی یہ احترام بھی ہونا چاہئے۔ گھر کے اندر عورت کا احترام ہونا چاہئے۔ اس طرح اس کی مظلومیت دور ہوگی۔ فرض کیجئے کہ کسی خاندان میں، کسی گھر میں مرد اپنی زوجہ کی توہین کرتا ہے، مختلف انداز سے توہین کرتا ہے، توہین آمیز برتاؤ کرتا ہے، توہین آمیز انداز میں اس سے بات کرتا ہے، یا خدانخواستہ عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے، ہمارے ملک میں یہ چیز کچھ جگہوں پر ہے جو نہیں ہونا چاہئے۔ مغرب میں یہ چیز بہت زیادہ ہے، بہت کثرت سے نظر آتی ہے اور یہ توقع کہ عین مطابق بھی ہے۔ مغرب والے، خاص طور پر یہ یورپی نسلیں، وحشی پنے کی عادی ہیں۔ ان کا ظاہری روپ بڑا صاف ستھرا ہے، پریس کئے ہوئے کپڑے، سلیقے سے لگی ہوئی ٹائی، کپڑوں سے اٹھتی ہوئی قیمتی پرفیوم کی مہک، یہ ظاہری شکل ہے لیکن ان کا باطن وحشی پنے میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس کی گواہ ان کی تاریخ ہے اور یہ خو ان میں آج بھی موجود ہے۔ بڑی آسانی سے قتل کر دیتے ہیں، بڑے اطمینان سے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ لہذا گھر کے اندر عورت کو زد و کوب کرنا یورپیوں کے لئے اور امریکیوں کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ لیکن اسلامی معاشرے میں اور اسلامی ماحول میں یہ چیز ہرگز نہیں ہونا چاہئے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ چیز ہے۔ بنابریں یہ دونوں چیزیں بہت بنیادی اور کلیدی ہیں۔ میری نظر میں ان دونوں چیزوں کے لئے جتنی زیادہ محنت کی جائے کام ہے۔
ان دو چیزوں کے بعد دوسرے بھی اہم مسائل ہیں۔ شادی کا مسئلہ ہے۔ شادی کے سلسلے میں پائي جانے والی رکاوٹوں کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔ یہی کام جس کے بارے میں کچھ خواتین نے اپنی تقریروں میں کہا کہ وہ انجام دے رہی ہیں، واقعی مجھے اس پر خوشی ہے کہ ان امور پر کام ہو رہا ہے۔ لباس کا مسئلہ، طرز معاشرت کا مسئلہ، واقعی اس بات کا متقاضی ہے کہ بنیادی کام انجام دئے جائيں۔ مظلوم واقع ہونے والی خواتین کو مالی و قانونی مدد بہم پہنچانے کا مسئلہ جس کا ذکر صوبہ خراسان رضوی کی خاتون نے اپنی تقریر میں کیا، یہ کام عدلیہ کی سطح پر انجام دیا گيا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ عملی میدان میں اس کا نتیجہ سامنے آئے۔ یہ ان مسائل میں ہے جن کے بارے میں میں فکرمند رہتا ہوں کہ عورتوں کو عدالتوں میں اپنے دفاع کی توانائی اور قوت حاصل ہونا چاہئے۔ اگر ان کے پاس اپنے دفاع کی توانائی نہیں ہے، پیسہ نہیں ہے کہ اچھا وکیل کر سکیں، خود بھی اپنا دفاع نہیں کر سکتیں، جس کے نتیجے میں مظلوم واقع ہوتی ہیں، یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ عورتوں کے روزگار کا معاملہ ان کے روزگار کی حدود کا مسئلہ کہ وہ کون سے کام کریں اور کون سے کام نہ کریں، ان کی سروس کی کیفیت کہ اس میں نرمی برتی جائے، یہ کام انجام پانا چاہئے۔ تاہم سب سے فوری وہی دو مسائل ہیں جن کا میں نے ذکر کیا۔
ایک اور چیز جو مجھے فکرمند رکھتی ہے یہ ہے کہ ملک میں عورت اور عورتوں کے مسائل کے سلسلے میں جو گوناگوں سرگرمیاں انجام دی جا رہی ہیں، قانونی سرگرمیوں اور فقہی سرگرمیوں سے لیکر سماجی، اجرائی اور جذباتی مسائل تک یہ سارے مسائل اور موضوعات عورتوں کے سلسلے میں زیر بحث ہیں، ان تمام سرگرمیوں کے لئے ضروری ہے کہ سسٹمیٹک طریقے سے انجام دی جائیں، عمومی منصوبہ کے تحت انجام پائیں۔ البتہ مجھے جو رپورٹیں ملی ہیں یا یہاں جو باتیں بیان کی گئیں اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اس پہلو پر غور کیا جا رہا ہے، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اس سلسلے میں اجتماعی طور پر اور عمومی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو مل کر عورتوں کے مسائل کو ایک سسٹم اور منصوبے کے تناظر میں دیکھنے اور ان کی تصویر کشی کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک دائمی مرکز قائم کیا جائے جس کا مضبوط اور دراز مدتی اور دور رس نگاہ رکھنے والا عملہ ہو، میں اس سلسلے میں کوتاہ مدتی کاموں کو مفید نہیں سمجھتا، پھر اس مرکز کی نگرانی میں ذیلی ادارے اور شعبے تشکیل دئے جائیں، تمام متعلقہ ادارے اور تنظیمیں ایک دوسرے کی سرگرمیوں سے باخبر اور مطلع ہوتی رہیں، اس مرکز کے پاس اس طرح ایک اچھا انفارمیشن بینک قائم ہو جائے، یعنی بہت سے کام انجام پا رہے ہیں لیکن ممکن ہے کہ اسی جلسے میں جو خواتین ہیں ان میں بعض کو بعض دیگر خواتین کے ذریعے انجام پانے والے کاموں کی خبر نہ ہو۔ ہمارے ملک میں چنندہ اور باصلاحیت خواتین کی خاصی تعداد ہے جو مختلف شعبوں میں اور مختلف نقطہ نگاہ کے ساتھ کام کر رہی ہیں، اس مرکز میں ان خواتین کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
ایک اور نکتہ یہ عرض کرنا ہے کہ انقلاب کی تحریک میں سرگرم خواتین نے ایک زمانے میں واقعی بڑا نمایاں کارنامہ انجام دیا، انقلاب کی فتح سے قبل بھی، انقلاب کے اوائل میں بھی اور مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران بھی عورتوں نے بڑی نمایاں شراکت کی تو آج آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ انقلابی محاذ میں عورتوں کا یہ نمایاں اور سرگرم کردار پھیکا نہ پڑنے دیں۔ دوسرے افراد انقلاب سے مقابلے اور انقلاب کی دشمنی میں عورت کے انتہائی اہم اور کارساز عنصر کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، جبکہ انقلابی محاذ کے اندر سرگرم، فعال، صاحب قلم، صاحب علم، فن خطابت میں مہارت رکھنے والی اور دانشور خواتین کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ جو خواتین اہل عمل ہیں، اہل فکر ہیں، اہل نگارش ہیں، مصنف ہیں، ماہر مقرر ہیں، اہل نظر ہیں وہ اسلامی انقلاب کے میدان سے اور اس انقلاب کی حفاظت کے پلیٹ فارم سے خود کو کنارہ کش نہ کریں۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ میں آخری نکتے کے طور پر یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم عورت کے بارے میں جو باتیں بیان کرتے ہیں یا جو نکات آپ نے بیان کئے، ان کی ترویج و تشہیر میں قومی نشریاتی ادارے کو بھرپور انداز میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ مجھے یقین ہے اور میں اس کی سفارش بھی کرتا ہوں کہ قومی نشریاتی ادارہ اپنا کردار پوری طرح ادا کرے۔ یہ ادارہ اس طرح کا ماحول قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس میں صاحب ایمان عورت، راہ خدا میں جہاد کرنے والی عورت اسلامی حجاب کے ساتھ اور اسلامی آداب کے ساتھ معاشرے میں اپنے شایان شان مقام و مرتبہ حاصل کر سکتی ہے، جبکہ اغیار چاہتے ہیں کہ اس کے بالکل برعکس نتیجہ سامنے آئے۔ قومی نشریاتی ادارے کے بعض پروگرام بد قسمتی سے مخالفین کے اہداف کی تکمیل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اس طرز عمل کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی واقعی قومی نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کو سو فیصدی عوام کی خدمت پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔ بہرحال آخر میں یہی کہنا چاہئے کہ بحمد اللہ اسلامی جمہوری نظام میں ہم نے عورتوں اور ان سے متعلق مسائل کے سلسلے میں کافی پیشرفت کی تاہم یہ پیشرفت ہماری ضرورتوں اور توقعات کے مطابق نہیں ہے اور نہ ہی اسلام سے ملنے والے امکانات و وسائل کے مطابق ہے۔ کچھ پسماندگی ہے، اس پسماندگی کو خواتین کی مدد سے بنحو احسن دور کیا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ آپ سب کی حفاظت کرے۔ ہماری توفیقات میں روز افزوں اضافہ کرے اور ہم دن بدن اس منزل کے قریب ہوں جس کا تعین عورتوں کے شعبے میں پہلے ہی کر دیا گیا ہے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللّه و بركاته