1392/02/11 ہجری شمسی مطابق 1/5/2013 حسینیہ میں ذاکرین اہل بیت کی محفل منعقد ہوئی جس میں کثیر تعداد میں خوش الحان مداحوں، ذاکرین و شعراء نے شرکت کی، قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی محفل میں شرکت فرمائی۔ قائد انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب میں ولادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مبارکباد پیش کی اور اسی دن امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے یوم پیدائش کی مناسبت سے خراج عقیدت پیش کیا۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ذکر اہل بیت اور مدح سرائی کو سننے والوں کے دلی جذبات کو حرکت میں لانے، ان کی امیدیں بڑھانے اور معرفت میں اضافے کا بہترین فنکارانہ روش قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عورت کے مسئلے میں مغرب کے نقطہ نگاہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ مرد و زن کے ذاتی و سماجی حقوق کے سلسلے میں اسلام و قرآن کا نقطہ نگاہ سب سے منطقی، باوقار اور قابل عمل نقطہ نگاہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوان ذاکرین اور مدح سراؤں نیز اس میدان کے کہنہ مشق افراد کے اہل بیت عصمت و طہارت کے تئیں خاص عقیدت سے مملو دلوں اور درخشاں صلاحیتوں کو ملک کے لئے عظیم نعمت، گراں قدر موقعہ اور بے مثال برکت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اہل بیت کے مداح اور ذاکر کی شان یہ ہے کہ جذبات کو حرکت میں لائے اور انہیں فکر و خرد کی سمت لے جائے۔ پوری تاریخ میں عقل و خرد و استدلال کے ساتھ جذبات و احساسات کی طاقت سے دین، اخلاقیات اور روحانیت و معنویت کی حفاظت کی جاتی رہی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ شاعر اور مدح سرائی کرنے والے کا شعر اور طرز ادائیگی کا انتخاب ایسا ہونا چاہئے کہ اس سے سننے والوں کی معرفت میں اضافہ ہو، لوگوں کی ہدایت میں گہرائی پیدا ہو اور دین و راہ زندگی کے تعلق سے ان کا علم بڑھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں عورت کے احترام کی ضرورت کا جائزہ لیا۔ آپ نے عورت کے سلسلے میں مغربی پالیسیوں کی مذمت کی اور فرمایا کہ عورت کے سلسلے میں مغرب کی مادہ پرست ثقافت نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ نا قابل معافی عظیم گناہ ہے جس کے نقصانات کا کسی بھی طرح تدارک نہیں ہو سکتا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جسم کی نمائش، مردوں کی لذت کا سامان فراہم کرنا اور عورتوں کے پروقار حصار کا ٹوٹ جانا عورت کے سلسلے میں مغربی ثقافت کے مظاہر ہیں جنہیں مغربی دنیا آزادی قرار دیتی ہے اور اس کے برخلاف طرز زندگی کو قید و بند کی زندگی کا نام دیتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عورت کو اس نگاہ سے دیکھنے کا نتیجہ خاندان اور کنبے کا تصور ختم ہو جانے کی صورت میں نکلا ہے اور جب معاشرے میں خاندان اور کنبے کا تصور متزلزل ہو جائے تو اس معاشرے کی مشکلات جڑ پکڑ لیتی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ مغربی ثقافت اپنے خباثت آلود جنسی قوانین کے نتیجے میں جس پر وہ عمل پیرا ہے شکست و سقوط کی جانب بڑھ رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌اللّه‌ الرّحمن ‌الرّحيم‌

اس عظیم عید، اس مبارک و مسعود یوم ولادت، پوری تاریخ میں شیعوں کے دلوں کی فرحت و مسرت کے عظیم دن کی تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں، آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو، باغ مدحت پیغمبر کے خوش الحان بلبلوں کو، عالم خلقت کی سب سے برتر اور بہتر ہستی کے ثنا گروں کو۔ اللہ کی بارگاہ میں میری دعا ہے کہ آپ عزیزوں نے جو پروگرام پیش کیا اسے بنحو احسن شرف قبولیت عطا فرمائے۔ یہ حقیر اس بات پر اللہ کا شکر بجا لاتا ہے کہ اس نے توفیق مرحمت فرمائي۔ تقریبا تیس سال یا اس سے زیادہ عرصے سے یہ توفیق حاصل ہو رہی ہے کہ اس مبارک دن یہ پروگرام ہوتا ہے اور بحمد اللہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مفاہیم و معنی کے اعتبار سے ایک نئی عظمت اور نئی رونق کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ اس سال جو پروگرام پیش کیا گيا وہ بہت اچھا تھا، معنی افرینی اور خیال انگیزی کے اعتبار سے بھی، پیکر و قابل کے اعتبار سے بھی، پڑھنے اور پیش کرنے کے انداز کے لحاظ سے بھی۔ بڑے اچھے اشعار پیش کئے گئے۔ انشاء اللہ معاشرے کی فکری و ذہنی فضا میں نور افشانی اور معرفت افزائی کی آپ کی یہ کاوشیں اسی طرح جاری رہیں گی۔
اس نشست میں دو باتیں بیان کر دینا بہت مناسب ہے۔ البتہ کہنے کو بہت کچھ ہے۔ ایک نکتہ خاندان پیغمبر کی مدح سرائی اور ثناخوانی کے تعلق سے ہے جو آپ انجام دیتے ہیں۔ آج بحمد اللہ ملک بھر میں شعراء اور ثناگروں کا دائرہ بہت وسیع ہو چکا ہے۔ کافی بڑی تعداد، بہترین صلاحیتوں کے ساتھ، اہل بیت علیہم السلام کے تعلق سے خاص اشتیاق سے معمور دلوں کے ساتھ لوگوں کے درمیان آمد و رفت رکھتی ہے اور انہیں توسل اختیار کرنے کا موقعہ فراہم کرتی ہے، برکت اہل بیت کا دسترخوان سجاتی ہے۔ یہ ملک کے لئے بڑا اچھا موقع ہے جیسے دوسرے بہت سے مواقع ملک کو حاصل ہوتے ہیں۔ دیگر ممالک میں ہمارے بہت سے مسلمان بھائیوں کو کچھ مواقع نہیں مل پاتے، یہ بھی انہی مواقع میں شامل ہے۔ اہل بیت سے توسل اختیار کرنے، محبت اہل بیت کے جذبے کو برانگیختہ کرنے اور جذبات و احساسات کو حرکت میں لانے والی یہ صنف بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ دوسرے خطوں میں لوگ کسی وجہ سے اس نعمت سے اس طرح بہرہ مند نہیں ہیں جیسے ہم اس سے بہرہ مند ہیں۔ کسی بھی سماج اور معاشرے میں ایک طویل عرصے کے دوران روحانیت و اخلاقیات و عقائد کو قائم و دائم رکھنے والے عوامل میں جذبات و احساسات بہت اہم ہوتے ہیں، عقل و خرد و استدلال کے ساتھ ان کی بڑی اہمیت ہے۔ انبیاء اور پیغمبروں نے عوام الناس سے فلسفیانہ انداز میں گفتگو نہیں کی، بیشک ان کی باتوں کی گہرائی و گیرائی کو کما حقہ سمجھنے کے لئے فلسفیانہ باریکیوں کا علم ہونا ضروری ہے، یعنی عظیم فلاسفہ انبیائے الہی کے دسترخوان سے سب سے زیادہ مستفیض ہوتے ہیں لیکن یہ علم و دانش کا دستر خوان صرف خاص لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ چنانچہ ان کی زبان، فلسفیانہ استدلال اور ادق منطقی بحثوں والی زبان نہیں ہوتی بلکہ عقل و احساسات کا آمیزہ ہوتی ہے۔ احساسات و جذبات ادراک عقلی، حرکت عقلی اور اقدام عقلی کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں قصیدہ خوانی و عزاداری کی نشستوں میں، دعا و مناجات کے جلسوں میں، دعائے کمیل کے پروگراموں میں، دعائے ندبہ اور دعائے عرفہ کی نشستوں میں جو ہماری (اہل تشیع) کی مخصوص دعائیں ہیں، احساسات و جذبات کی فضا فطری طور پر پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ بھی بحمد اللہ ان امتیازات میں ہیں جو پیروان اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کو حاصل ہوئے ہیں۔ یہ نشستیں ذہن بشری اور جذبہ انسانی کی گہرائیوں میں عقل و احساس کی آمیزش کے ساتھ اپنا پیغام پہنچاتی ہیں۔ بنابریں خطیب، شاعر اور مداح کی شان بہت بلند ہے۔ یعنی جذبات و احساسات کو حرکت میں لانا اور پھر ان کی مدد سے عقل و خرد کو بروئے کار لانا۔ مداح جن کی تعداد بحمد اللہ ہمارے ملک میں بہت زیادہ ہے، اس کی شان یہ ہے کہ اپنے فنکارانہ بیان سے، اپنے ہنر کے استعمال سے، اپنے حسن انداز سے عوام کے درمیان معرفت پھیلاتا ہے۔ یہ بنیادی محور ہے۔ آپ جس شعر کا انتخاب کرتے ہیں، جس لہجے کا انتخاب کرتے ہیں، جس انداز سے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں وہ اس محور پر مرکوز ہونا چاہئے، عوام کی معرفت بڑھانے اور دین و راہ زندگی کے بارے میں ان کی دانائی و آگاہی کو بڑھانے کے لئے ہونا چاہئے۔ یہ کام مداحوں کی صنف بنحو احسن انجام دے سکتی ہے۔
میں نے بارہا عرض کیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب آپ معرفت سے سرشار کوئی قصیدہ یا غزل کسی نشست میں پیش کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ گھنٹوں کی تقریر اور خطابت سے زیادہ موثر اور نتیجہ بخش ثابت ہو۔ یہ ایک بہترین موقعہ ہے آپ کے پاس۔ اس سے کما حقہ استفادہ کرنا چاہئے، اس موقعہ کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے۔ جس شعر میں مضمون کی گہرائی نہ ہو اس کا انتخاب موقعہ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح اگر شعر میں کوئی غیر اہم یا غلط بات پیش کی گئی ہے تو یہ بھی موقعہ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح ادائیگی کا انداز اگر ایسا ہو کہ شرعی حدود سے خارج ہو جائے تو یہ بھی موقعہ ضائع کرنا ہے۔ آج عوام کو جس مضمون کی ضرورت ہے اگر اشعار میں اسے یکسر نظر انداز کیا جائے تو بھی موقعہ ضائع کرنا ہے۔ مثال کے طور پر مسلط کردہ جنگ کے دوران ملک کو میدان جہاد میں شجاعانہ کارنامے کی ضرورت تھی، نوجوان پوری طرح مستعد تھے، والدین بھی تیار تھے، ایسے میں کوئی شخص کسی محفل یا مجلس میں جاتا ہے، شعر بھی پڑھتا ہے، بہترین انداز سے پڑھتا ہے لیکن وقت کی ضرورتوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا تو یہ موقعہ ضائع کرنا ہے۔ اس زمانے میں مداح حضرات نے بڑا اہم رول ادا کیا۔ اس محاذ پر مداحوں نے جو کام کیا ہے اور اپنے اشعار سے جس طرح سپاہیوں اور جوانوں کے دلوں میں شجاعت و ایثار کا جذبہ بیدار کیا ہے وہ بے نظیر ہے۔ مجھے ان میں کچھ کے بارے میں معلوم ہے۔ ترکی زبان مداحوں نے اپنے انداز سے، فارسی زبان مداحوں نے اپنے انداز سے، اسی طرح زنجان کے مداحوں نے اپنے انداز سے زنجان کے مداحوں میں سے ایک صاحب نے آج یہاں بھی اشعار پیش کئے، اسی طرح دوسری مختلف جگہوں پر، شعرا نے ان مداحوں کو اشعار لکھ کر دئے، اس زمانے میں سب نے اپنے فرائض پر عمل کیا۔ آج بھی جب میں جائزہ لیتا ہوں تو نظر آتا ہے کہ جو اشعار آج پڑھے گئے، ان میں عصری تقاضوں کے مطابق مضمون پروئے گئے ہیں، اس کا بھرپور نمونہ جناب سازگار صاحب کے اشعار ہیں۔ جناب سازگار صاحب کی روش یہ ہے کہ بڑے فنکارانہ انداز سے مادی دنیا کو ملکوت سے جوڑ دیتے ہیں۔ عالم ملکوت سے سفر شروع کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ عصری تقاضوں پر آتے ہیں اور پھر دونوں میں بڑی خوبصورتی سے ربط پیدا کرتے ہیں۔ یہ ہنرمندانہ بندش ہے، اشعار بہت اچھے ہیں۔
آپ اپنی آواز استعمال کرتے ہیں جو خداداد نعمت ہے، گلا استعمال کرتے ہیں جو اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے، اشعار پیش کرتے ہیں اس کا بھی سرچشمہ جو ہے وہ نعمت خدادادی ہے۔ یہ نعمتیں آپ کو حاصل ہیں تو انہیں کس مقصد کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے؟ معرفت افزائی کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ اگر اس نعمت کو اختلافات کی آگ بھڑکانے کے لئے استعمال کیا گیا، اگر تعصب کو ہوا دینے کے لئے استعمال کیا گیا جس کے تحت آج دنیا میں روزانہ بیس تیس لوگوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں تو یہ نعمت کا غلط استعمال ہے، اس کا بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ یہاں ایک شعر پڑھتے ہیں، اور چونکہ آج مواصلاتی ذرائع، انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولت دستیاب ہے لہذا اس کی تمام تفصیلات کسی اور خطے تک پہنچتی ہیں، اس شعر سے ممکن ہے کسی کم علم شخص کے اندر تعصب کی آگ بھڑکے اور وہ کسی بے گناہ کی جان لے لے۔ تو ان چیزوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں جو مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو کم کرنے پر اتنی تاکید کرتا ہے، اس کی وجہ یہی ہے۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ اگر ہم محبت اہل بیت اور عترت پیغمبر کے عشق کی نعمت کا جو ہمارے دلوں میں ہے، شکر ادا کرنا چاہیں تو اس کا راستہ فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانا ہے، جی نہیں، یہ غلط فہمی ہے۔ اختلافات کو ہوا دینا اور تعصب پھیلانا بالکل مصلحت کے مطابق نہیں ہے، آج یہ بالکل مصلحت کے برخلاف ہے۔ نہ آج اس میں مصلحت ہے نہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے میں اس میں مصلحت تھی، حضرت نے بھی اس کی ممانعت کی تھی۔ بعض سطحی سوچ رکھنے والے افراد اس پر توجہ نہیں دیتے۔
اسی طرح داخلی اور اندرونی اختلافات کا مسئلہ ہے۔ آج ہمارے عوام کے دلوں میں امید کی شمع روشن رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر امید ہوگی تو کارنامے انجام پائیں گے۔ ہم نے سیاسی و اقتصادی جہاد کی بات کہی ہے۔ اس طرح کے کارنامے فرمان جاری کرکے انجام نہیں پاتے، سرکولر جاری کرنے سے رو بہ عمل نہیں آتے، کیا یہ ممکن ہے کہ ہم سرکولر جاری کریں کہ عوام آئيں اور کارنامے انجام دیں! یہ بھلا ہو سکتا ہے؟! یہ عقل میں آنے والی بات ہے؟! کارنامہ انجام دینے کا جذبہ تو دل کی گہرائیوں میں متحرک ہوتا ہے۔ کارنامے عقل و بینش کے سہارے آگے بڑھتے ہیں، کارنامے جذبہ ایمانی کے تحت انجام دئے جاتے ہیں، یہ احکامات صادر کرکے انجام نہیں پاتے۔ اگر دلوں میں امید کی کرن نہ ہو، فکر و خیال منطقی سوچ سے خالی ہو تو کبھی بھی کوئي کارنامہ اور جہاد انجام نہیں پا سکتا۔ اگر ہم ذہنوں میں شک ڈالیں گے، اگر دلوں میں مایوسی بھر دیں گے تو کیا کوئی کارنامہ انجام پا سکےگا؟ ظاہر ہے کہ انجام نہیں پا سکتا۔ کارنامہ انجام دینا ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ بدگمانی کی فضا پیدا نہ ہونے پائے، لوگوں کو ایک دوسرے سے بدظن نہ کیا جائے، لوگوں کے اندر امید و نشاط کا جذبہ بیدار کیا جائے، مثبت سوچ پیدا کی جائے، مستقبل پر نظر مرکوز کرنے کی تلقین کی جائے، اس مستقبل پر جو حقیقی اور یقینی ہے۔
مثال کے طور پر تیس سال قبل سنہ انیس سو اسی کے عشرے میں اگر ہم کہتے کہ مستقبل ایسا ہوگا، ویسا ہوگا تو ممکن تھا کہ لوگ کہتے کہ یہ زبردستی ایک بات ذہن میں بٹھانا چاہتے ہیں، لیکن آج تو یہ صورت حال نہیں ہے، آج ہم اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ انقلاب کی وسیع و عمیق تحریک ملک کو کس طرح اہداف اور منزل کے قریب لے جا رہی ہے، مادی اہداف، معنوی اہداف، سیاسی اہداف، سماجی اہداف، داخلی اہداف اور بین الاقوامی اہداف ہماری نگاہوں کے سامنے آ چکے ہیں۔ کیا کوئی اس کا انکار کر سکتا ہے؟ آج جب ہم اپنے اس مستقبل کا خاکہ کھینچ رہے ہیں کوئی آکر اس میں شک و شبہ پیدا کرنے لگے، مایوسی کی باتیں کرنے لگے، قنوطیت کی باتیں کرنے لگے تو یہ کہاں تک صحیح ہے؟! اسی طرح جہاد پیہم اور سعی پیہم کے بارے میں جو ملک، قوم اور تاریخ کی اہم ترین ضرورت ہوتی ہے، مایوسی کی بات کرنا!
جہاد پیہم سب کی ضرورت ہے۔ تمام تر ترقی و پیشرفت اور تہذیب و تمدن کی تشکیل دائمی جدوجہد کا ثمرہ ہے۔ دائمی جدوجہد کا مطلب ہمیشہ رنج و الم برداشت کرنا نہیں ہے۔ جہاد تو شوق آفریں عمل ہے۔ جہاد، مسرت و نشاط بخش عمل ہے۔ آج جب ہمیں اس جہاد کی ضرورت ہے تو کوئی آکر سستی، تساہلی، بے عملی اور گوشہ نشینی کی تلقین کرے تو یہ کفران نعمت ہوگا؛ «أ لم تر الى الّذين بدّلوا نعمت اللّه كفرا و احلّوا قومهم دار البوار»؛(1) یہ نہیں ہونا چاہئے۔
آپ کے درمیان بحمد اللہ انتہائی کہنہ مشق افراد بھی ہیں اور نوجوان بھی ہیں، بڑی اچھی صلاحیتیں اور توانائیاں موجود ہیں۔ آپ کے درمیان مجھے کچھ غنچے بھی نظر آ رہے ہیں جو بڑی خوش اسلوبی سے اس میدان میں آئے ہیں، آپ پیشروؤں کی جگہ سنبھالنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ ان سے بہتر انداز میں کام کریں۔ میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مداحی، در حقیقت معرفت افزائی کا نام ہے۔ مداحی در حقیقت معرفت، حکمت، امید اور پختہ عقیدے کا راستہ ہے۔ مداحی در حقیقت شعر، خوش الحانی اور حسن ادائیگی کے فن سے دلوں میں جذبات کے چشموں کو حرکت میں لانے کا نام ہے۔ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ میرے عزیزو! مومنین آپ کی آواز کو پسند کرتے ہیں، آپ کے اشعار سے محظوظ ہوتے ہیں، آپ کے حسن ادائیگی سے ان کے دل وجد میں آ جاتے ہیں، ان کی آنکھیں لبریز ہو جاتی ہیں، لیکن وہ اس کے ساتھ ہی آپ کی شخصیت پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ اگر آپ اخلاقیات کے اعتبار سے، دینداری کے لحاظ سے اور عفت و پاکیزگی کے اعتبار سے، قابل تعریف شخصیت کے مالک ہیں تو عوام پر آپ کے فن مداحی کا اثر دگنا ہو جائے گا۔ لیکن اگر خدانخواستہ اس کے برعکس ہوا اور لوگوں نے آپ کے اندر اخلاقی انحطاط دیکھا، اخلاقی پسماندگی دیکھی، اگر آپ کے برتاؤ میں انہوں نے یہ برائیاں دیکھیں تو آپ کے اس پرکشش فن کا اثر ختم ہو جائے گا۔ لہذا اس کا بڑا خیال رکھئے! ہم سب کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم عمامہ پوشوں کو دوسروں سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ دین و تقوا کے میدان کی نامور شخصیات کو دوسروں سے زیادہ محتاط رہنا چاہئے۔ سب محتاط رہیں، سب توجہ دیں۔ آپ حضرات جو دین و معرفت و امور الہیہ کے میدان میں کام کر رہے ہیں تو آپ زیادہ محتاط رہئے، اپنے اخلاقیات، اپنی پاکیزگی زبان، پاک دلی، پاک دامنی اور پاک دستی کا بہت خیال رکھئے۔ بیشک خداوند عالم آپ کی مدد فرمائے گا۔ بارگاہ فاطمی (سلام اللہ علیہا) کا مدح خواں جو اس منزل پر پہنچا ہے، وہ در حقیقت ایک عظیم انسان ہے۔ ہمارے درمیان یہ سوچ، فکر اور عقیدہ پایا جاتا ہے کہ جو لوگ ائمہ علیہم السلام کی مدح سرائی اور ان ہستیوں کی جانب لوگوں کے دلوں کو رہنمائی میں مصروف ہیں وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں پسندیدہ لوگ ہیں۔
آج کی اس نشست میں ایک نکتہ بڑا اچھا دکھائی دیا۔ برسوں سے یہ سلسلہ تھا کہ مداح حضرات بعض اوقات یہاں مداحی کے اشعار پیش کرتے تھے تو ان پر میرا یہ اعتراض رہتا تھا کہ محفل میلاد کو مجلس عزاداری میں تبدیل کر دیتے تھے، مصائب پڑھتے تھے اور حاضرین گریہ کرتے تھے! ہر چیز کی اپنی ایک جگہ ہے۔ آپ کو مداح کہا جاتا ہے۔ مداح یعنی کیا؟ آپ کی شناخت ہے مدح سرائی، مصائب خوانی نہیں۔ آپ اہل بیت کے مصائب پڑھئے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، میں خود مصائب پڑھتا ہوں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ محفل جشن میں بھی یقینا مصائب پڑھے جائیں، سامعین کے دل متاثر ہوں اور ان کی آنکھوں سے آنسو نکلیں، یہ ضروری نہیں ہے۔ باہر کی دنیا میں یہ تاثر نہ جائے کہ جو لوگ ائمہ علیہم السلام سے عقیدت رکھتے ہیں وہ فقط گریہ، سینہ زنی اور عزاداری کرکے اپنی عقیدت اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں، بلکہ یہ حقیقت سامنے آنا چاہئے کہ جب موقع و محل ہوتا ہے تو وہ محفلیں بھی منقعد کرتے ہیں، خوشیاں بھی مناتے ہیں، یہ دونوں چیزیں آپس میں خلط ملط نہیں ہونا چاہئے۔
ایک اور اہم نکتہ جس کے بارے میں آج مجھے گفتگو کرنا ہے، عورت کا مسئلہ ہے۔ مادہ پرست ثقافت نے عورت کے سلسلے میں جو کچھ کیا ہے وہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اس سلسلے میں بیان کرنے کو بہت کچھ ہے۔ صنف نسواں کے سلسلے میں مغربی ثقافت نے جس گناہ عظیم کا ارتکاب کیا ہے، اس کا اتنی جلدی نہ تو ازالہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کی بھرپائی کی جا سکتی ہے، یہی نہیں اسے آسانی سے بیان بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس کے لئے نئے نئے نام تلاش کر لیتے ہیں، اپنی دیگر حرکتوں کی طرح۔ وہ جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور اسے انسانی حقوق سے موسوم کر دیتے ہیں، ظلم کرتے ہیں اور اسے قوموں کی حمایت کہتے ہیں، لشکر کشی کرتے ہیں اور دفاع کا نام دیتے ہیں مغربی تمدن کی سرشت کی ایک خاص بات فریب، دھوکا، منافقت، دوغلا پن، دروغگوئی اور قول و فعل کا تضاد ہے۔ عورت کے مسئلے میں بھی انہوں نے بعینہ یہی حرکت کی ہے۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ وہ اپنی اسی ثقافت کو ساری دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ ماحول اور ذہنیت بنا دی ہے کہ دنیا میں عورت کا سب سے اہم فریضہ اگر نہ کہیں تو کم از کم یہ کہنا پڑے گا کہ عورت کے اہم ترین فرائض میں ایک فریضہ یہ ہے کہ خود نمائی کرے، اپنا حسن اور اپنی کشش مردوں کے محظوظ ہونے کے لئے پیش کرے۔ یہ ہے عورت کی حتمی اور لازمی خصوصیت! بد قسمتی کا مقام ہے کہ آج دنیا میں یہی ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ رسمی اور سرکاری پروگراموں میں، سیاسی نشستوں میں مرد تو پینٹ پہنتے ہیں، پورے لباس میں ہوتے ہیں لیکن عورتیں جتنی بھی برہنہ اور عریاں ہوں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کیا یہ معمولی بات ہے؟ کیا اسے فطری کہا جا سکتا ہے؟ کیا یہ فطری تقاضے کے مطابق انجام دیا جانے والا فعل ہے؟ مغرب والوں نے یہ حرکت کی ہے کہ عورت خود کو دیدہ زیب بنا کر مردوں کی نگاہوں کے سامنے پیش کرے تا کہ مرد اس سے لذت حاصل کریں۔ کیا اس سے بڑا بھی کوئی ظلم ہو سکتا ہے؟ اس کا نام انہوں نے رکھا ہے آزادی اور اس کے برخلاف صورت اور روش کا نام انہوں نے رکھا ہے قید و بند کی زندگی! جبکہ عورت کا حجاب میں رہنا، پردہ کرنا اس کے لئے وقار اور احترام کی بات ہے، اس سے عورت کا حفاظتی دائرہ قائم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اس دائرے کو توڑ دیا ہے اور روز بروز اس کی بے حرمتی کر رہے ہیں اور اس کے لئے بڑے خوبصورت نام تلاش لیتے ہیں۔ اس صورت حال کا ایک برا نتیجہ خاندان اور کنبے کے ڈھانچے کا کمزور اور تباہ ہو جانا ہے۔ جب کسی سماج میں کنبوں کی بنیادیں متزلزل ہوکر منہدم ہو جائیں تو برائیاں اس سماج میں گھر کر لیتی ہیں۔ آج مغرب جن مشکلات میں گرفتار ہے اور جنسی مسائل میں وہ جس طرح کے ابلہانہ اور رذالت آمیز قانون بنا رہے ہیں اس سے وہ گہری کھائی میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔ زوال اور سقوط کا یہ عمل کسی بھی صورت میں رکنے والا نہیں ہے، ان کا سقوط حتمی ہے۔ مغربی تمدن اب اس سقوط اور انحطاط پر قابو نہیں پا سکتا۔ اب بریک فیل ہو چکے ہیں اور راستہ ڈھلواں اور خطرناک ہے۔ ان کا گناہ یہ تھا کہ انہوں نے کھائی کے دہانے پر پہنچ کر بریک کے تار کاٹ دئے، اب تباہی ان کا مقدر ہے۔
تہذیبوں کا زوال ان کے معرض وجود میں آنے کے عمل کی طرح تدریجی طور پر انجام پاتا ہے، دفعتا اور یکبارگی عمل میں نہیں آتا۔ یہ تدریجی عمل شروع ہو چکا ہے، مجھے لگتا کہ موجودہ نسل یا اس کے بعد والی نسل اپنی آنکھ سے دیکھے گی کہ کیا نتیجہ نکلا ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں عورت کے وقار کی حدود کا تعین کر دیا ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں عورت مرد کی مانند ہے۔ روحانی و الوہی درجات کے حصول کے اعتبار سے ان دونوں صنفوں میں کوئی امتیاز اور تفریق نہیں ہے۔ یہ راستہ انسان کے لئے بنایا گيا ہے، عورت یا مرد کے لئے نہیں۔ اللہ تعالی عورت کی تاریخ میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علہیا جیسی ہستی کو خلق کرتا ہے کہ جن کے بارے میں امام حسن عسکری یا امام علی نقی علیہ السلام سے یہ روایت منقول ہے کہ «نحن حجج اللّه على خلقه و فاطمة حجّة اللّه علينا». حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حجت خدا ہیں، ائمہ کی امام ہیں، کیا اس سے بھی بلند کوئی ہستی ہو سکتی ہے؟ شاہزادی کونین مقام عصمت پر فائز ہیں اور اتنی عظمتوں کی حامل یہ ہستی ایک عورت ہے۔ کائنات کی عظیم خواتین میں حضرت مریم، حضرت سارا، حضرت آسیا اور دوسری کچھ خواتین ہیں، یہ ایسی عظیم ہستیاں تھیں جو پوری کائنات میں نمایاں ہیں۔ تو تکامل اور ارتقاء کے اس جادے پر سفر کرنے والا مرد یا عورت نہیں بلکہ انسان ہوتا ہے۔ سماجی حقوق میں مرد اور عورت کے مابین کوئی فرق نہیں ہے، شخصی و ذاتی حقوق میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ کچھ خاص شخصی مسائل ایسے ہیں جو عورت سے مختص ہیں اور کچھ امور ایسے ہیں جو مرد سے مخصوص کئے گئے ہیں۔ ایسا مرد اور عورت کے فطری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ یہ اسلام کا کمال ہے کہ اس نے دونوں صنفوں کے تعلق سے سب سے زیادہ منطقی، باوقار اور قابل عمل قوانین اور ضوابط وضع کئے ہیں۔ اس راستے پر چلنے کی ضرورت ہے۔ ایک بنیادی اصول ہے خاندان کی تشکیل، ایک اور بنیادی قانون ہے خاندانی مہر و محبت اور گھریلو ماحول کی پاسبانی، یہ ذمہ داری خاتون خانہ کے دوش پر ہے۔
ماں بچوں کی بہترین انداز سے پرورش کر سکتی ہے۔ ماں کے ہاتھوں بچے کی پرورش اسکول کی کلاس کی پرورش کے جیسی نہیں ہے، یہ پرورش برتاؤ، انداز بیان، جذبات، شفقت اور لوریوں کی صورت میں نیز رہن سہن کے طریقے سے انجام پاتی ہے۔ ماں اپنے طرز زندگی سے بچے کی پرورش کرتی ہے۔ عورت جتنی نیک، باشعور اور دانا ہوگی، اتنی ہی اچھی تربیت کریگی۔ بنابریں ایمان کی گہرائی، علم و دانش کی گہرائی اور فہم و شعور کی گہرائی کے لئے ملک کے اندر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
عورت کی ایک بڑی ذمہ داری، گھر کی دیکھ بھال ہے۔ سب واقف ہیں کہ میرا یہ نظریہ ہرگز نہیں ہے کہ عورتیں سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں بالکل حصہ نہ لیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن اگر ان سرگرمیوں کے سامنے گھرداری کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ گناہ ہے۔ خانہ داری بھی ایک پیشہ ہے، ایک عظیم پیشہ ہے، بہت حساس اور اہم پیشہ ہے، مستقبل ساز پیشہ ہے۔ بچے پیدا کرنا ایک عظیم جہاد ہے۔ ہم نے جو غلطیاں کیں، ہم سے جو بے توجہی سرزد ہوئی اس کے باعث ہمارے ملک میں کچھ عرصے تک اس موضوع پر توجہ نہیں دی گئی جس کے خطرات آج ہمارے سامنے ہیں۔ میں نے بارہا عوام کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ چند سال بعد اگر سن رسیدہ افراد کی تعداد زیادہ اور نوجوانوں کی تعداد کم ہوئی تو اس کے اثرات بعد میں سامنے آئيں گے لیکن جب اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں ہوگا، آج اگر ہم اقدام کرتے ہیں تو بیشک اس مشکل کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔
بچے پیدا کرنا عورتوں کا بہت بڑا جہاد اور انتہائی اہم فریضہ ہے۔ کیونکہ یہ فن عورتوں سے مختص ہے، وہی اس کی ساری زحمتیں برداشت کرتی ہیں، ساری تکلیفیں اٹھاتی ہے، اللہ نے عورت کو بچوں کی پرورش کے وسائل عطا کئے ہیں، بچوں کی پرورش کا ہنر اللہ نے مردوں کو نہیں دیا، عورتوں کو عطا کیا ہے۔ اس کے لئے درکار صبر و تحمل عورتوں کو دیا ہے، ضروری مہر و عطوفت عورتوں میں رکھی ہے، لازمی احساسات و جذبات عورتوں کو ودیعت فرمائے ہیں، ضروری جسمانی خصوصیات عورتوں کو دی ہیں، یہ عورتوں کا ہنر ہے۔ اگر ہم معاشرے کے اندر ان تمام باتوں کو فراموش نہ ہونے دیں تو بیشک ہم ترقی کریں گے۔
عورت کا احترام بھی بہت اہم مسئلہ ہے جس پر خاص توجہ دی جانی چاہئے۔ خاندان کے اندر، دفتر کے اندر، سیاست کے میدان میں، سماجی میدان میں عورتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک بہت اہم ہے۔ عورتوں کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاتا ہے جو مردوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ گھر کے اندر جو مرد ہیں جیسے باپ، بھائي اور شوہر، یا دفتر اور کام کی جگہ پر جو مرد ہیں، ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے عورتوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جاتا ہے۔ عورتوں کے ساتھ خاص احترام سے پیش آنے کی ضرورت ہے، محبت آمیز برتاؤ کرنے کی ضرورت ہے البتہ پاکیزہ نیت کے ساتھ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عورت کا احترام، عورت کے فرائض، عورت کے تعلق سے دوسروں کے فرائض، ان تینوں موضوعات پر باقاعدہ بحث کرنے اور ضروری منصوبہ بندی انجام دینے کی ضرورت ہے۔
یوم نسواں اور یوم مادر جو خوش قسمتی سے ایران میں رائج ہو گیا ہے، جو خاتون دو عالم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت کے دن منایا جاتا ہے، ہماری توجہ ان نکات کی جانب مبذول ہونے کا باعث بننا چاہئے۔ اگر ہم عورت، خاندان، ماں اور زوجہ کے سلسلے میں صحیح طرز فکر اختیار کرنے میں کامیاب ہو گئے، ہم نے صحیح فیصلے کئے اور درست عمل کیا تو یقین جانئے کہ اس ملک کا تابناک مستقبل یقینی ہو جائے گا۔
خداوند عالم آپ سب کی نیکیوں میں اضافہ کرے، آپ کے عمل میں برکت دے۔

والسّلام عليكم و رحمة اللّه و بركاته‌

1) ابراهيم: 28