19 بہمن مطابق 8 فروری کو ہفتے کی صبح فضائیہ کے کمانڈروں، عہدیداروں اور اہلکاروں سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خود مختاری کی حفاظت کے لئے لازمی ہے کہ اسلامی انقلاب کے اصولوں، اقدار اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے نظریات منجملہ امریکا کے سلسلے میں آپ کے نظرئے کے بارے میں صریحی، شفاف اور ہر طرح کی پردہ پوشی سے دور پالیسی اختیار کی جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی نظام کی پائیداری، استحکام اور اندرونی مضبوطی کا راز اس نظام کا عوام الناس کے ارادوں، مہر و محبت اور ایمان پر استوار ہونا ہے اور ایرانی قوم گيارہ فروری (اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ) کے جلوسوں میں ایک بار پھر اسلامی انقلاب کے نعروں کو بھرپور خود اعتمادی کے ساتھ دہرائے گی اور دنیا والوں کے سامنے اپنی قومی طاقت اور استقامت کا ایک اور نظارہ پیش کریگی۔
انیس بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی مطابق آٹھ فروری سنہ 1979 عیسوی کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ہاتھوں پر فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں کی بیعت کے تاریخی واقعے کی سالگرہ پر انجام پانے والی اس ملاقات میں مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر اور قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فضائیہ کی بیعت کے واقعے کو بہت اہم، متعدد پہلوؤں کا حامل اور بابرکت واقعہ قرار دیا اور فرمایا کہ آٹھ فروری کے واقعے کا ایک انتہائی اہم پہلو فضائیہ اور پھر فوج کے اندر خود مختاری کے جذبے کا احیاء تھا کیونکہ یہ واقعہ خود اعتمادی اور داخلی توانائیوں پر تکیہ کرنے کی تمہید ثابت ہوا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے اصولوں اور بنیادوں پر ملت ایران کی صریحی اور آشکارا استقامت کی وجہ سے حالیہ برسوں کے دوران تسلط پسند طاقتوں کے تشہیراتی اداروں کی جانب سے ایرانوفوبیا پھیلانے کی وسیع کوششوں کے باوجود، آج دنیا بھر کی قومیں اور غیر جانبدار مفکرین ملت ایران کو شجاع، صداقت پسند، دانشمند، صابر اور جذبہ استقامت سے سرشار قوم مانتے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج نہ صرف یہ کہ ملت ایران کی مقبولیت اور وقار میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دوسری طرف امریکا سے قوموں کی نفرتیں بڑھی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملک کی اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کا واحد راستہ بے پناہ داخلی توانائیوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے، بیرونی ممالک سے آس لگانا اور پابندیاں ہٹوانا نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن سے امید نہیں لگائی جا سکتی اور اس سے توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتیں۔
مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر اور قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران کے عوام اور ملک کے مختلف شعبوں کے حکام خاص طور پر مسلح فورسز کے عہدیدار توفیق خداوندی سے روز بروز ملکی دفاعی قوت میں اضافہ کرتے رہیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ داخلی توانائیوں اور صلاحیتوں پر اعتماد ملک کی نجات کا ضامن اور گوناگوں سماجی، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کے حل کا راستہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جلد ہی مزاحتمی معیشت کی پالیسیوں کے ابلاغ کا عمل انجام دیا جائے گا اور اس کے بعد مزاحمتی معیشت کے لئے ضروری اقدامات اور مقدمات پر توجہ دی جائے گی۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں آپ تمام برادران عزیز، اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے کمانڈروں، اہلکاروں اور جوانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور اس عظیم دن کی اور اس عظیم یادگار واقعے کی آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ان افراد کو جنہوں نے انیس بہمن مطابق آٹھ فروری کے اس واقعے کو بے حد اہم اور انتہائی حساس حالات میں جنم دیا۔ محترم کمانڈر (1) کی بریفنگ پر ان کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں، جو بامعنی و پرمغز ترانہ پیش کیا گیا اس پر بھی میں آپ کا شکر گزار ہوں۔
بعض واقعات ظاہری طور پر نظر آنے والے اپنے روپ اور اپنی شکل سے کہیں زیادہ باعظمت ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی واقعہ اتنی گہرائی اور وسعت حاصل کر لیتا ہے کہ اسے انجام دینے والوں کو بھی اس کی توقع نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: 'یعجب الزّرّاع' (2) پیغمبر اسلام کے اصحاب، صدر اسلام کے مومنین اور عظیم مجاہدین کی تصویر کشی کرتے ہوئے کچھ صفات بیان کرتا ہے۔ ان کی مثال اس نازک پودے سے دیتا ہے جو مٹی کے نیچے سے سر ابھارتا ہے، پھر رفتہ رفتہ اس میں مضبوطی آتی ہے اور پھر نشونما کے مراحل اس انداز سے طے کرتا ہے کہ وہ لوگ بھی دیکھ کر مسرت آمیز حیرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جنہوں نے اس کا بیج بویا تھا۔ 19 بہمن مطابق 8 فروری کا واقعہ اس قسم کا واقعہ تھا۔ اس زمانے میں اس واقعے کے مختلف پہلو اور جوانب اتنے واضح نہیں ہوئے تھے۔ یہ پہلو رفتہ رفتہ سامنے آئے ہیں۔ یہی صورت حال وسیع تر اور اعلی تر سطح پر خود اسلامی انقلاب کی ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے جب سنہ انیس سو باسٹھ میں اس تحریک کا آغاز کیا تو اس کا یہ وسیع روپ، یہ حیرت انگیز کارنامہ کسی کے بھی ذہن میں نہیں سما سکتا تھا لیکن بعد میں یہ کارنامہ انجام پایا۔ کوئی واقعہ ایک عظیم واقعے میں تبدیل ہوتا ہے تو اس کی کچھ وجوہات ہوتی ہیں۔ البتہ اس وقت یہ ہمارا موضوع بحث نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ آٹھ فروری کا واقعہ انتہائی بابرکت اور عظیم واقعہ تھا۔ اس عظیم واقعے کے تجزئے میں جو نکتہ اب تک مورد توجہ قرار نہیں پا سکا وہ خود مختاری کے حصول میں اس عظیم واقعے کی تاثیر ہے۔ کہاں خود مختاری؟ فوج کے اندر خود مختاری۔ یعنی طاغوتی شاہی دور کے نظام کے اہم عضو کا درجہ رکھنے والی فوج، اغیار کے تسلط اور مداخلتوں سے بہت زیادہ تکلیفیں اٹھا رہی تھی۔ 8 فروری کے واقعے سے اس ادارے کے اندر خود مختاری کا احساس پیدا ہوا۔ اس واقعے نے یہ احساس فوج کے ہر شعبے میں، یعنی پہلے فضائیہ میں اور پھر دیگر شعبوں میں عام کر دیا کہ سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کے چنگل سے آزاد ہوکر کام کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے میں ابھی دوستوں سے یہی کہہ رہا تھا کہ (3) سب سے پہلے جس شعبے میں خود انحصاری کا جہاد شروع ہوا وہ فضائیہ کا شعبہ ہے۔ پھر رفتہ رفتہ پوری فوج میں یہ جذبہ بیدار ہو گیا۔ خود مختاری اور خود اعتمادی کا یہ جذبہ فوج کے لئے خاص اہمیت رکھتا تھا، مسلح فورسز کے لئے اس کی خاص اہمیت تھی اور یہ چیز آج بھی بے حد اہم ہے۔ اسی طرح مستقبل کے لئے بھی یہ بہت ضروری ہے۔ میں یہ بات ضمنا عرض کر دوں ورنہ میری بحث کا موضوع کچھ اور ہے، کہ اگر آپ اپنی اس موجودہ پوزیشن میں جو در حقیقت فضائی حدود کی حفاظت کی پوزیشن ہے، خطرات کے مقابلے میں اپنی مہارت و توانائی کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ کے اندر غیروں سے بے نیازی اور خود اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں پر انحصار کا جذبہ پیدا ہو۔ جب یہ صورت حال ہوگی تو پھر صلاحیتوں پر نکھار آئے گا، جیسا کہ آج تک ہم دیکھتے آئے ہیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ خود مختاری اور حق خود ارادیت کا مسئلہ بہت اہم ہے ملک کے لئے بھی اور اسلامی انقلاب کے لئے بھی۔ خود مختاری شروع سے ہی اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کا بنیادی ستون رہی ہے۔ آزادی کے نعرے کے ساتھ خود مختاری کا نعرہ اسلامی انقلاب کے اہم ترین نعروں کا جز تھا، ہے اور رہے گا۔
براہ راست استعماری قبضے کی پالیسی کے ناکام ہو جانے کے بعد جو پہلے رائج تھی اور جس کے تحت دیگر ملکوں پر براہ راست قبضہ کر لیا جاتا تھا، پھر ایک نئی استعماری روش نے اس کی جگہ لے لی۔ جدید استعمار کی صورت یہ ہوئی کہ مداخلت پسند بیرونی طاقتیں ملکوں پر براہ راست استعماری قبضہ نہیں کرتیں تھیں بلکہ ان کے مہرے، ان سے ڈکٹیشن لینے والے افراد اور ان پر پوری طرح منحصر عناصر ملکوں کی باگڈور سنبھالتے تھے، چونکہ بیرونی طاقتوں کے رحم و کرم پر چلنے والی حکومت ملک کے اندر استبداد کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی تھی لہذا یہ حکومتیں ظالمانہ انداز میں ملک کو چلاتی تھیں اور بیرونی طاقتوں کے مفادات کی نگہبانی پر مجبور ہوتی تھیں۔ یہ جدید استعمار تھا۔ ملک کے اندر پھیلے استبداد سے مقابلہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس بیرونی طاقت کا مقابلہ نہ کیا جائے جو اس استبدادی حکومت کی پشت پر ہے۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔ فرض کیجئے کہ ظالم حکام کے استبداد سے تھک چکی ایک قوم قیام کرے، انقلاب برپا کرے اور اس مستبد و طاغوتی طاقت سے لڑ جائے لیکن اس استبدادی حکومت کی پشت پر جو بیرونی طاقتیں تھیں ان سے آشتی کر لے تو اس انقلاب اور انقلاب کے قائدین کا انجام یا تو شکست ہے یا پھر خیانت۔ ان دو کے علاوہ کوئی تیسری صورت نہیں ہو سکتی۔ ایسی صورت میں یہ قائدین اپنی قوم اور اپنے وطن سے خیانت کے مرتکب ہوں گے اور اگر خیانت نہیں کریں گے تو پھر شکست ان کا حتمی انجام ہوگی اور وہ میدان سے بالکل ناپید ہو جائیں گے۔ جیسا کہ ہم نے چند سال کے دوران علاقے کے ملکوں میں آنے والے انقلابوں کے سلسلے میں دیکھا کہ مستبد حکمراں کے خلاف قیام تو کیا گیا لیکن اس حکمراں کی پشت پر موجود طاقت کی طرف سے غفلت برتی گئی یا پھر اس سے مفاہمت و آشتی اور دوستی و رواداری کا راستہ اختیار کیا گیا، نتیجہ آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ ظالم حکمراں کے خلاف بغاوت اور استعماری طاقت سے مفاہمت کی روش سے کوئی نتیجہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ انقلاب وہی کامیاب ہوگا جو ظالم حکمراں کی پشت پر موجود مداخلت پسند طاقت پر بھی گہری نظر رکھے اور اس کے خلاف بھی جدوجہد کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے نوجوانوں نے جاکر جاسوسی کے مرکز (تہران میں واقع امریکی سفارت خانے) پر قبضہ کر لیا اور امریکا کم اس کی حقارت کا احساس دلایا تو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ یہ انقلاب اول سے زیادہ بڑا انقلاب ہے۔ انقلاب اول بھی ظاہر ہے کہ بے حد عظیم اور بہت بڑا انقلاب تھا لیکن یہ جو دوسرا اقدام انجام پایا اس سے ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ مشکلات اور بحران پیدا کرنے والے دوسرے محاذ سے بھی مکمل واقفیت رکھتی ہے اور اس کا بھی مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہے۔
یہیں پر خود مختاری کی حقیقت سمجھ میں آتی ہے۔ خود مختاری یہ ہے کہ ملک مداخلت پسند طاقتوں کو بخوبی پہچانتا ہو، اس کا مقابلہ کرے اور اس کے سامنے سینہ سپر رہے۔ خود مختاری کا مطلب ساری دنیا سے بداخلاقی کرنا نہیں ہے۔ خود مختاری کا مطلب ہے اس طاقت کا مقابلہ جو مداخلت کی فکر میں ہے، جو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش میں ہے، جو اپنے مفادات کے لئے ایک پوری قوم کی عزت و آبرو کو نیلام کر دینے پر آمادہ رہتی ہے۔ اسے کہتے ہیں خود مختاری۔ کسی بھی قوم کی مختاری کا دشمن کون ہوتا ہے؟ بیرونی طاقتیں، مداخلت پسند طاقتیں۔ انہیں کسی بھی ملک کے اندر خود مختاری کا جذبہ پیدا ہونے پر تشویش لاحق ہو جاتی ہے۔ وہ اس جذبے سے ہراساں رہتی ہیں اور ہمیشہ کوشش کرتی ہیں کہ کسی بھی قوم کے اندر، کسی بھی ملک کے رہنماؤں اور قائدین کے اندر اگر یہ جذبہ بیدار ہو رہا ہے تو اسے کمزور کر دیں۔ ان طاقتوں کے تشہیراتی ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں اور قوموں کو خود مختاری کی بابت بد ظن کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ ملکوں کی سیاسی خود مختاری یا ثقافتی اور اقتصادی خود مختاری ان کی ترقی سے متصادم ہے۔ آپ خود ان باتوں کو آج سن رہے ہیں۔ عالمی تشہیراتی سرگرمیوں سے باخبر افراد جانتے ہیں کہ دنیا میں تھنک ٹینک کے نام پر اور فلسفیانہ نظریات کے نام پر یہ باتیں پھیلائی جاتی ہیں۔ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو ملکوں کے اندر منجملہ ہمارے ملک کے اندر بھی، ان کی انہی باتوں کا خوب پرچار کرتے ہیں کہ اگر کوئی ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا چاہتا ہے تو خود مختاری کی خواہش اور جذبے کو دبا دینے پر ناچار ہے۔ اسے اپنے اندر خود مختاری کے جذبے کو کمزور کرنا پڑے گا۔ ورنہ یہ دونوں باتیں ایک ساتھ ممکن نہیں ہیں کہ کوئی ملک خود مختار بھی رہے، صرف اپنے داخلی وسائل اور ذخائر پر تکیہ کرے اور اس کے ساتھ ہی دنیا کے ترقی یافتہ سرکل کا حصہ بھی بن جائے۔ یہ خیال بالکل غلط، بے بنیاد اور ان لوگوں کے دماغ کی اپج ہے جو دنیا کے ملکوں کو خود مختار نہیں دیکھنا چاہتے۔ مداخلت پسند بڑی طاقتوں کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے ملکوں کے اندر داخلی امور میں مداخلتیں کرکے اپنا الو سیدھا کریں خواہ اس کے لئے ان ملکوں اور قوموں کے مفادات کو پامال کرنا اور روندنا ہی کیوں نہ پڑے۔ ان کی نظر میں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان کا اصرار اس بات پر ہے کہ وہ مداخلت ضرور کریں گی۔ شاہی حکومت کے دور میں ایران میں بھی یہی صورت حال تھی۔ کس سے رابطہ رکھنا ہے، کس سے رابطہ نہیں رکھنا ہے، تیل کسے فروخت کرنا ہے، کس مقدار میں فروخت کرنا ہے، آمدنی کو کیسے خرچ کرنا ہے۔ کس عہدے پر کسے منصوب کرنا ہے، کسے نہیں منصوب کرنا ہے، ان مسائل میں (بڑی طاقتیں) آشکارا مداخلت کرتی تھیں۔ ایسا ملک در حقیقت ان طاقتوں کا ایک ادارہ اور ان کے مفادات کا پہرے دار بن کر رہ جاتا ہے، خود اس ملک کے قومی مفادات پس پشت ڈال دئے جاتے ہیں۔ ملک چلانے والے عہدیداروں کی توجہ اب قومی مفادات کی حفاظت پر نہیں، مداخلت پسند طاقتوں کے مفادات کی نگرانی پر مرکوز رہتی ہے۔ جب خود مختاری مل جاتی ہے تو پھر اس خیانت آمیز اور غلط طرز عمل پر روک لگ جاتی ہے، اس کا سد باب ہو جاتا ہے۔ یہ ہے کسی بھی ملک کی خود مختاری کا مطلب و مفہوم۔ خود مختاری کا مطلب ساری دنیا سے بگاڑ کرنا نہیں ہے۔ خود مختاری کا مطلب ہے دیگر ممالک کے نفوذ اور مداخلتوں کو روکنے کے لئے ایک ایسا حصار قائم کرنا کہ یہ ممالک اس قوم کے مفادات کو اپنے مفادات پر قربان نہ کرنے پائيں۔ یہ ہے خود مختاری کا مفہوم اور یہ چیز کسی بھی ملک کے لئے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔
ہمارے اسلامی انقلاب کی خود مختاری میں جو چیز مددگار ثابت ہو سکتی ہے وہ انقلاب کے اصولوں کی اعلانیہ پابندی اور اس پر عمل آوری ہے۔ انقلاب کے اصولوں پر، انقلاب کی بنیادوں پر اور انقلاب کے اقدار پر شفاف اور صریحی انداز میں عمل کیا جائے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کا یہی انداز تھا۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے انقلاب کی تحریک کے آغاز سے ہی اپنی باتوں کو صریحی اور دو ٹوک انداز میں بیان کر دیا اس میں کوئی ابہام نہیں رہنے دیا۔ امام خمینی نے روز اول سے ہی طاغوتی، موروثی، استبدادی سلطنتی نظام کی مخالفت کی۔ آپ نے اس سلسلے میں کوئی رواداری نہیں برتی۔ شروع ہی سے واضح ہو گیا کہ امام خمینی ایک عوامی نطام اور سسٹم قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ سلطنتی نظام ناقابل قبول ہے، استبدادی نظام ناقابل تحمل ہے، آٹوکریسی ناقابل قبول ہے، ان باتوں کو امام خمینی نے واشگاف الفاظ میں بیان کیا، کوئی پردہ پوشی نہیں کی۔ امام خمینی نے کھلے الفاظ میں فرمایا کہ اسلامی نظام تشکیل پانا چاہئے جو اسلامی افکار اور اسلامی اقدار پر استوار نظام ہو۔ آپ نے کبھی اسے چھپانے اور پوشیدہ رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ امام خمینی نے اسی طرح ساری دنیا پر اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لئے کوشاں خطرناک صیہونی نیٹ ورک سے مقابلے کے مسئلے کو بھی بغیر کسی لیت و لعل کے بیان کیا اور کچھ بھی چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ آپ نے صیہونزم کے خلاف اعلانیہ طور پر موقف اختیار کیا۔ امام خمینی نے صیہونی حکومت کے سلسلے میں جو جعلی اور غاصب حکومت ہے اور مظلوم فلسطینی سرمین پر قابض ہے، صریحی موقف اختیار کیا۔ کسی طرح کی پردہ پوشی نہیں کی۔ یہ باتیں اصول اور بنیادوں کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہم تسلط پسندانہ اور توسیع پسندانہ نظام کے مخالف ہیں امام خمینی نے اس کی کبھی پردہ پوشی نہیں کی۔ توسیع پسندانہ نظام یعنی وہ عالمی سسٹم جو دنیا کو استعماری ممالک اور نوآبادیات جیسے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے در پے ہے، امام خمینی نے آشکارا طور پر اس کی نفی کی۔ یہ توسیع پسندانہ نظام آج ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت کی صورت میں پوری طرح مجسم ہے اور اس نظام کی مکمل تصویر امریکی حکومت ہے۔ لہذا امام خمینی نے امریکا کے سلسلے میں کھل کر اپنے موقف کا اعلان کر دیا۔ امریکا کے سلسلے میں ہمارا جو موقف ہے اس کا قضیہ یہ نہیں ہے کہ امریکا بھی ایک قوم ہے اور ہم اس قوم کے مخالف ہیں یا کوئی نسلی معاملہ ہے جو اس قضیئے میں اثرانداز ہو رہا ہے۔ ماجرا یہ نہیں ہے۔ اصلی قضیہ یہ ہے کہ امریکی حکومت کی ذات، کردار اور انداز، مداخلت اور توسیع پسندی پر استوار ہے۔ امام خمینی نے اس سلسلے میں دو ٹوک انداز میں اپنا موقف بیان کر دیا۔ اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ اسلامی انقلاب پینتیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اپنے اصولوں، اصلی بنیادوں اور اس پٹری پر قائم ہے جو اس کے لئے تیار کی گئی تھی۔ انقلاب میں تغیر و تبدل نہیں ہوا۔ انقلاب نے اپنا راستہ تبدیل نہیں کیا، اپنے اہداف نہیں بدلے، یہ بہت اہم بات ہے۔ دنیا میں آنے والے انقلاب ناموافق طوفانوں کا سامنا ہونے پر اپنی استقامت کھو بیٹھتے ہیں۔ ایسی صورت میں بہت سے افراد اپنی بات بدل لیتے ہیں یا اپنا راستہ تبدیل کر لیتے ہیں یا پھر پوری طرح نابود ہو جاتے ہیں، مٹ جاتے ہیں۔ تاہم اسلامی انقلاب جب سے وجود میں آیا ہے اس وقت سے لیکر اب تک، اپنے معینہ اہداف کی حفاظت و پاسبانی کرتا آیا ہے، ان اہداف کی جانب اس کی پیش قدمی کا عمل بلا وقفہ جاری رہا ہے، اس انقلاب نے مختلف شعبوں میں حیرت انگیز پیشرفت حاصل کی ہے اور ایران خود کو دنیا کی بے اثر اور ناقابل ذکر ریاست سے علاقے کی ایک اہم طاقت اور عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے والی قوت میں تبدیل کر رہا ہے۔ دنیا کے گوشہ و کنار میں آباد قومیں ملت ایران کو ایک شجاع قوم، صداقت پسند قوت، باہوش اور دانشمند قوم اور ثابت قدم و پائیدار قوم کے طور پر پہچانتے ہیں۔ حالانکہ اسلامی جمہوری نظام کے خلاف وسیع پیمانے پر زہریلا پروپیگںڈا کیا گيا ہے، اس کی شبیہ خراب کرنے کی کوششیں اور تشہیراتی کارروائياں انجام دی گئی ہیں۔ ایک عرصے تک ملت ایران کے دشمنوں کے تشہیراتی و سیاسی اداروں نے ایرانوفوبیا پھیلانے اور اسلام و ایران کو خطرے کے طور پر پیش کرنے کی پالیسی اپنائی لیکن دنیا میں ایرانی عوام کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ آج دنیا کے صرف عوام ہی نہیں بلکہ غیر جانبدار خواص اور اہم شخصیات بھی گرویدہ ہیں۔ آپ ان کے بیان دیکھئے، ان کی تحریریں پڑھئے، ملت ایران کے بارے میں جو نظریہ قائم کیا جاتا ہے اس کے مطابق یہ ثابت قدم، دانشمند، متحمل مزاج اور پائيدار قوم ہے۔ ملت ایران کو اس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایران کو خطرہ بنا کر پیش کرنے کی ان کی پالیسی اور منصوبہ بندی کا یہ نتیجہ نکلا ہے۔ آج دنیا کی قومیں اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران سے خائف نہیں ہیں، یہ قومیں امریکی تسلط سے ہراساں ہیں۔ دنیا میں منمانی اور استبدادی انداز کے لئے امریکا بدنام ہے۔ دیگر ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کے سلسلے میں مورد الزام امریکا ہے، جنگ پسندی کے لئے امریکا بدنام ہے۔ دنیا کی قومیں امریکا کو ایک جنگ پسند، تشدد کی آگ بھڑکانے والا اور دیگر اقوام کے داخلی امور میں مداخلت کرنے والا ملک مانتی ہیں۔ قوموں کو خوف امریکا سے ہے، ان کی نظر میں نفرت انگیز ملک امریکا ہے۔ جبکہ توفیق خداوندی سے اسلامی جمہوریہ ایران کا چہرہ روز بروز زیادہ تابناک اور دنیا میں ملت ایران ہر دن زیادہ باوقار ہوتی جا رہی ہے۔ ان شاء اللہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ انقلاب کے لئے بچھائی جانے والی پٹری پر اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے خطوط پر اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کے قائم و دائم رہنے کا راز یہی صراحت اور آشکارا موقف ہے۔ کبھی بھی اس انداز اور دو ٹوک موقف کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔ مخالفین ہوں، دوست ہوں، دشمن ہوں سب کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کا موقف واضح اور شفاف رہنا چاہئے۔ آپ طرز عمل میں تغیر و تبدل کر سکتے ہیں، آپ حکمت عملی میں بدلاؤ پیدا کر سکتے ہیں لیکن جو بنیادی اصول ہیں وہ ہمیشہ اپنی اصلی شکل میں باقی رہنے چاہئیں۔ یہ انقلاب کے استحکام اور ملک کی ترقی کا راز ہے۔
آج وہ کون لوگ ہیں جنہیں ہمارے انقلاب سے دشمنی ہے؟ انقلاب کی دشمن دنیا کی وہ چند بدعنوان طاقتیں ہیں جو چار سو بدنام اور رسوا ہیں۔ یہی ملت ایران کی دشمن ہیں۔ جبکہ ایرانی عوام کے دوستوں میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلامی انقلاب کا پیغام اور اسلامی جمہوری نظام کا پیغام سنا ہے۔ ممکن ہے کہ ایسے لوگ بھی ہوں جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نعروں اور پیغاموں کو نہ سنا ہو لیکن جس نے بھی یہ پیغام سنا ہے، جسے بھی اسلامی جمہوریہ کی استقامت و پائيداری کا علم ہے، جسے بھی مظلومیت کے عالم میں قائم رہنے والی ثابت قدمی کا علم ہے وہ اسلامی جمہوریہ ایران کا حامی اور خیر خواہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران یعنی ایران کے عوام، یعنی ملت ایران۔ عوام اسلامی نظام سے جدا نہیں ہیں، عوام ہی تو اس نظام کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور یہی اس نظام کی مضبوطی اور استحکام کا راز بھی ہے۔
امریکی حکام ہمارے عہدیداروں سے ملاقاتوں میں جو باتیں کرتے ہیں اور ان کے بیانوں میں بھی جو باتیں کہی جا رہی ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ ہم ایران کے نظام حکومت کو تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ان کا سفید جھوٹ ہے۔ اگر ان کے بس میں ہو تو ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کریں گے اور پہلی فرصت میں اس نظام کی بنیادوں کو منہدم کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایران کے نظام حکومت کو تبدیل کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ استکباری طاقتیں صرف ان نظاموں کو بدل سکتی ہیں جو عوامی ارادوں اور حمایت پر استوار نہ ہو۔ اسلامی جمہوری نظام تو عوام کے ایمان و عزم پر قائم ہے، عوام کی قلبی وابستگی اور دلی محبت پر استوار ہے۔ دنیا میں کون سا انقلاب ہے کہ دسیوں سال گزر جانے کے بعد بھی عوام سڑکوں پر نکل کر اور محکم انداز میں نعروں کی گونج کے بیچ انقلاب کی سالگرہ کا جشن مناتے ہوں؟ لیکن آپ آئندہ گیارہ فروری کو (ایران کے اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی تاریخ) دیکھیں گے کہ ایرانی عوام کس طرح اس سال بھی پورے استحکام اور بھرپور اعتماد کے ساتھ سڑکوں پر نکلیں گے، نعرے لگائیں گے اور اپنے استحکام و ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں گے اور اپنی ملی طاقت کا نظارہ پیش کریں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایرانی عوام یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ ان کی کامیابی کا راز استقامت و پائيداری ہے اور بحمد اللہ ملت ایران کو اس کا بخوبی اندازہ ہے۔ عوام یہ بات بھی یاد رکھیں کہ ان کے تحفظ اور سیکورٹی کا بہترین راستہ قومی اور ملی قوت کی نمائش ہے۔ قومی و ملی اقتدار کے کچھ مظاہر ہیں۔ عوام کے یہ عظیم اجتماعات، گيارہ فروری کو نکلنے والے جلوسوں جیسے پروگرام، انتخابات وغیرہ اس کے مظاہر ہیں۔ ان مواقع پر عوام اپنی شراکت و حمایت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ علمی پیشرفت میں بھی اس قوت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کی جس طرح عوام کی طرف سے پشت پناہی ہوتی ہے وہ قومی اقتدار کا آئینہ ہے۔ ملکی سلامتی کو ضمانت قومی و ملی اقتدار کی نمائش سے ملتی ہے۔ جب عوام اپنی بھرپور شراکت و موجودگی سے قومی و ملی اقتدار کی نمائش کرتے ہیں تو پھر دشمن کے اندر یہ ہمت باقی نہیں رہ جاتی کہ کوئی حماقت کرنے کے بارے میں سوچے۔
افسوس کا مقام ہے کہ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے دشمن کی جانب سے ایسی باتیں کی جا رہی ہیں جو ہمارے عوام کے لئے باعث عبرت ہیں۔ آج کل جو مختلف قسم کے مذاکرات ہو رہے ہیں اور ان مذاکرات پر ہمارے عوام کی گہری نظر ہے، عوام امریکی حکام کے گستخانہ اور غیر مودبانہ بیانوں پر غور کریں، دشمن کے موقف کا جائزہ لیتے رہیں۔ بعض عناصر ہیں جو دشمن کے عناد اور مخاصمانہ اقدامات سے لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ یہ مناسب نہیں ہے، معاندانہ حرکتوں پر نظر رکھئے، دشمن کے دوہرے روئے کا جائزہ لیجئے۔ امریکی حکام ہمارے ملک کے عہدیداروں سے دروازوں کے پیجھے انجام پانے والی ملاقاتوں میں کسی اور انداز سے گفتگو کرتے ہیں لیکن دروازے سے باہر نکلتے ہی اور ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہی ان کا لہجہ یکلخت تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایرانی عوام دشمن کے اس دوغلے پن اور اس کی مذموم بدنیتی کو دیکھتے رہیں، اس پر نظر رکھیں۔ اس بات پر توجہ رکھئے کہ ملک کو اپنی داخلی توانائی اور قوت کی حفاظت کی کتنی ضرورت ہے۔ میں اپنے ملک کے حکام سے ہمیشہ یہ سفارش کرتا ہوں۔ ملکی مشکلات کا ازالہ صرف اس طرح ہو سکتا ہے کہ اپنی داخلی اور مقامی توانائیوں اور صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کی جائے اور ان توانائیوں سے مدبرانہ اور دانشمندانہ انداز میں استفادہ کیا جائے۔ بحمد اللہ ہماری یہ اندرونی توانائیاں بہت وسیع اور لا تعداد ہیں۔ بحمد اللہ اقتصادی شعبے کے حکام کی توجہ اس نکتے پر ہے اور وہ اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملک کی اقتصادی مشکلات کے ازالے کا راستہ باہر کی دنیا سے آس لگانا نہیں ہے، دشمن کی پابندیوں اور ناکہ بندی کو ختم کرانے سے ہی ساری توقعات وابستہ کر لینا نہیں ہے۔ معاشی شعبے کے حکام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بنیادی راہ حل یہ ہے کہ ہم اپنی داخلی توانائیوں پر توجہ دیں، ملک کی داخلی معاشی ساخت کو مضبوط کریں، اس سلسلے میں ضروری فیصلے بھی کئے جا چکے ہیں اور ان شاء اللہ یہی روش کامیابی کی طرف لے جائے گی اور انہیں کامیابی ملے گی۔ دشمن سے آس لگانا بے سود ہے، دشمن سے توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتیں۔ امریکی اپنے بیانوں میں اور لفاظی میں تو بعض اوقات کہتے ہیں کہ ہم ایرانی عوام کے دوست ہیں۔ وہ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان کی دروغگوئی کا اندازہ ان کے اقدامات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ وہ ایران کو دھمکیاں بھی دیتے ہیں اور یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی دفاعی قوت کو محدود کرے۔ یہ مضحکہ خیز نہیں ہے؟ یہ مسخرہ پن نہیں ہے؟ ایک طرف دھمکیاں بھی دے رہے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی فرماتے ہیں کہ آپ اپنی دفاعی طاقت کم کیجئے! ہرگز نہیں، ہمارے مختلف شعبوں کے حکام اور ہماری مسلح فورسز توفیق پروردگار سے روز بروز اپنی دفاعی قوت میں اضافہ کرتی رہیں گی۔
ملک کو کامیابی حاصل ہوگی داخلی توانائیوں پر تکیہ کرنے کی صورت میں، اقتصادی شعبے میں بھی، گوناگوں ثقافتی و سماجی شعبوں میں بھی اور ثقافتی میدان میں بھی۔ ان شاء اللہ آنے والے چند ایام کے دوران مزاحمتی معیشت سے متعلق پالیسیوں کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا جائے گا اور نوٹیفکیشن جاری ہو جانے کے بعد ان شاء اللہ عوام کی مزاحمتی طاقت پر استوار مزاحمتی معیشت کے لئے ضروری اقدامات، ساختیاتی تیاریاں اور کوششیں انجام دی جائیں گی اور قوم اپنے اس سفر کو جاری رکھے گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے عوام اپنا اتحاد قائم رکھیں۔ عوام، حکام، ممتاز شخصیات سب مل کر یہ کوشش کریں کہ فروعی اور جزوی مسائل اصلی امور کو نظر انداز ہونے کا سبب نہ بنیں۔ آج قوم حقیقت میں جس ہدف کی جانب گامزن ہے وہ داخلی اقتدار و قوت میں اضافہ کا ہدف ہے، ناموافق طوفانوں کے سامنے ڈٹ جانے اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کا ہدف ہے۔ اس پینتیس سال میں مختلف قسم کے بڑے طاقتور طوفان آئے اور ملت ایران نے بحمد اللہ سب کا ڈٹ کر سامنا کیا اور ان برسوں کے دوران دشمن کی سازشوں کو بار بار نقش بر آب کیا۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی یہ قوم ان سازشوں کو ناکام بناتی رہے گی۔ عوام اپنے اتحاد کی حفاظت کریں۔ عوام الناس اور حکام کے درمیان اتحاد و ہمدلی میں اضافہ ہو۔ ملک کے حکام اور اعلی عہدیدار عوام الناس پر اعتماد کریں اور عوام کو اپنے حکام پر پورا بھروسہ ہو۔ ممکن ہے کہ بعض افراد جو تنقید کی صلاحیت رکھتے ہیں تنقیدیں بھی کریں۔ لیکن تنقید منصفانہ ہونا چاہئے۔ موجودہ حکومت ابھی چند مہینے پہلے ہی تشکیل پائی ہے۔ اسے موقعہ دیا جانا چاہئے تاکہ وہ کاموں کو مضبوطی کے ساتھ انجام دے۔ تنقید کرنے والے افراد بھی اس پر توجہ دیں اور حکومت کے سلسلے میں سعہ صدر کا مظاہرہ کریں اور حکام بھی تنقیدیں کرنے والے افراد کے سلسلے میں شرح صدر کا مظاہرہ کریں۔ سب ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ ہمارے کچھ دشمن ہیں اور ملک کے اندر بھی ان دشمنوں کے کچھ عناصر موجود ہیں۔ اس بات سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ ملک کے اندر موجود ان عناصر کو ہرگز یہ موقعہ نہ دیجئے کہ خامیوں سے غلط فائدہ اٹھائیں اور ملک کے اندر گڑبڑی پیدا کریں۔ سب ایک ساتھ، ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملاکر، سب امام حمینی رضوان اللہ علیہ کے راستے پر آگے بڑھتے ہوئے ملک کی مضبوطی و استحکام کی طرف آگے بڑھیں۔ ان شاء اللہ خداوند عالم عوام کی مدد کرے گا اور جملہ امور بنحو احسن انجام پائيں گے اور آج بھی ان شاء اللہ تمام مسائل میں خواہ وہ ایٹمی مسئلہ ہو یا دیگر مسائل ہوں ملت ایران کو توفیق خداوندی سے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوگا۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب کرے۔ آپ جہاں بھی مصروف خدمت ہیں، فضائیہ میں یا اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے کسی بھی شعبے میں یا ملت ایران کے درمیان کسی بھی جگہ پر، آپ سب کامیابی سے اپنے فرائض انجام دیں۔ اللہ ہم سب کو اپنے فرائض پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ہم اپنے وطن عزیز، اپنے نظام اور عوام کے لئے بہترین مستقبل کی ضمانت بنیں۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1- جنرل حسن شاہ صفی
2- سورہ فتح آیت 29
3- قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل فضائیہ کے اعلی کمانڈروں کی شرکت سے ایک پروگرام منعقد ہوا۔