اس موقعے پر ادارے کی مربوط مساعی کے نتیجے میں ضبط تحریر میں آنے والے امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف انسائیکلوپیڈیا کی رونمائی عمل میں آئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کو بھی انسانی معاشرے سے کئے گئے الوہی وعدوں کی تکمیل کی ایک مثال قرار دیا اور فرمایا کہ کون سوچ سکتا تھا کہ اس حساس علاقے میں، اس انتہائی اہم ملک میں جہاں عالمی طاقتوں کی حمایت یافتہ حکومت موجود تھی، دین و فقہ و شریعت کی بنیاد پر انقلابی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق عقیدہ اور اس دنیا میں کاروان بشریت کے سفر کے انجام تک پہنچنے کا اعتقاد آسمانی ادیان کی آئیڈیالوجی کا بڑا اہم حصہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمام ادیان الہیہ میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ انسانیت کا کارواں سرانجام اس دلنشیں اور مطلوبہ منزل پر پہنچے گا جس کی سب سے اہم خصوصیت عدل و انصاف ہوگا۔
اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

حضرت امام مہدی بقیۃ اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کی ولادت با سعادت کے پر فیض ایام ہیں، شعبان کا مہینہ اس عظیم و بابرکت (ہستی کی) ولادت کی وجہ سے متبرک ہے، ہم اس مناسبت سے تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے پیروکاروں میں قرار دے اور آپ کے شیعوں میں ہمارا شمار ہو۔ ہم شکریہ ادا کرتے ہیں جناب ری شہری اور ان کے عزیز و محترم رفقائے کار کا اس گراں قدر تحفے کی بابت جو اس عید کی مناسبت سے اسلامی دنیا اور علمی سماج کو انہوں نے دیا ہے۔ یعنی یہی مہدویت انسائیکلوپیڈیا (2) جو ان خصوصیات سے آراستہ ہے جن کا ذکر کیا گيا اور واقعی یہ بڑی اہم خصوصیات ہیں۔ میرے خیال میں کل یا پرسوں کتاب مجھے دی گئی اور مجھے وقت ملا کہ تھوڑی ورق گردانی کروں، مجھے بڑی اہم اور دلچسپ لگی۔ ان شاء اللہ میں وقت نکالوں گا اور کتاب کو شروع سے آخر تک پڑھوں گا۔ بہرحال یہ کام بہت بڑا اور اہم کام ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ذہن احتیاج اور خلا کی نشاندہی کرے اور اس خلا کو پر کرنے اور احتیاج کی تکمیل کے لئے کمر ہمت کسی جائے۔ یہ سب کچھ انجام پایا ہے، فطری بات ہے کہ ہم انسانوں کا انجام دیا ہوا کوئی بھی کام بے عیب اور پوری طرح کامل نہیں ہوتا۔ یہ بہت زیادہ اہم بھی نہیں ہے کہ کتاب پوری طرح کامل ہے یا جامع ہے، کوئی کمی ہے یا نہیں، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آج یہ کتاب موجود ہے، اس کی ضرورت کا احساس کیا گیا اور پھر اس کی تدوین کی ذمہ داری پوری کی گئی، بحمد اللہ کتاب وجود میں آ گئی ہے۔ میں جناب ری شہری اور ان کے رفقائے کار کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
چند جملے ان بابرکت ایام کے سلسلے میں اور حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کے وجود مقدس کے تعلق سے عرض کرنا ہے۔ کچھ باتیں آپ کے اس ادارے اور تحقیقاتی مرکز یا دار الحدیث کے بارے میں آخر میں عرض کروں گا۔
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے موضوع پر آپ کی کاوشیں قابل تعریف ہیں، آپ نے محنت کی اور موضوع کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق عقیدہ، ادیان کی آئيڈیالوجی کا ایک حصہ ہے۔ یعنی ادیان الہیہ کائنات، انسان، سرچشمہ خلقت اور حیات انسانی کے انجام یعنی ازل و قیامت کے بارے میں جس طرح اپنا ایک نظریہ اور عقیدہ رکھتے ہیں، اسی آئيڈیالوجی کا جو ایک عظیم مجموعہ اور ادیان کے قوانین و ضوابط، احکامات و افکار و نظریات کی بنیاد ہے، ایک جز اس دنیا میں بشر کے کاروان زندگی کے سفر کے اختتام کا مسئلہ ہے۔ اس دوسری دنیا کا مسئلہ آخرت کا مسئلہ ہے، بالکل الگ دنیا کا معاملہ ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ (اسی دنیا میں) انسانیت کہاں جا رہی ہے۔ اگر ہم طول تاریخ میں انسانی معاشرے کی مثال ایسے کارواں سے دیں جو اپنے راستے پر رواں دواں ہے، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کارواں کی منزل کہاں ہے؟ یہ کارواں جا کہاں رہا ہے؟ کس مقام پر اس کارواں کا سفر ختم ہونے والا ہے؟ یہ بڑا اہم اور کلیدی سوال ہے۔ ہر مکتب فکر اور آئيڈیالوجی میں اس سوال کا جواب دیا جانا ضروری ہے۔ ادیان آسمانی نے اس سوال کا جواب دیا ہے، تاہم غیر دینی مکاتب فکر کی طرف سے اس بارے میں جو جوابات دیئے گئے ہیں وہ یکساں نہیں ہیں، جبکہ ادیان الہیہ نے اس بارے میں جو جواب پیش کئے ہیں ان میں آپس میں مماثلت پائی جاتی ہے، جواب واضح اور طے شدہ معلوم پڑتا ہے۔ جہاں تک ہمیں، ادیان الہیہ کے بارے یا ان ادیان کے بارے میں جو آسمانی ادیان سے ماخوذ ہیں ہیں اطلاعات ہیں، خواہ وہ آسمانی ادیان کے زمرے میں نہ آتے ہوں لیکن بالکل واضح ہے کہ انہوں نے اپنے ضوابط و احکامات ادیان الہیہ سے اخذ کئے ہیں، یہ سارے ادیان یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ کارواں سرانجام ایک پسندیدہ، دلنشیں اور اچھی منزل پر پہنچے گا۔ اس منزل کی بنیادی خصوصیت انصاف ہے۔ انصاف روز اول سے اب تک بشریت کی سب سے بڑی مانگ رہی ہے۔ جو افراد اصولی نظریات اور بنیادی عقائد میں تنوع اور تبدیلی وغیرہ کے قائل ہیں، وہ بھی اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے کہ روز اول سے اب تک بشریت کے کچھ بنیادی مطالبات رہے ہیں جن میں ایک اساسی اور کلیدی مطالبہ انصاف و مساوات کا ہے۔ انسان انصاف کی تلاش میں ہے اور کبھی اپنے اس مطالبے سے اس نے صرف نظر نہیں کیا ہے۔ سرانجام یہ مطالبہ پورا ہوگا۔ ہمارے یہاں احادیث میں آیا ہے؛«یَملَأُ الله بِهِ الاَرضَ قِسطاً وَ عَدلاً کَما مُلِئَت ظُلماً و جَورا» (۳) بیشتر کتب میں «کَما مُلِئَت» ہے جبکہ بعض کتب احادیث میں: «بَعدَ ما مُلِئَت»ہے، یہ تمام ادیان کا جواب ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر انسان جانتا ہے کہ بشریت کا یہ کارواں سرانجام کہاں پہنچنے والا ہے۔ اگر ہم مثال دینا چاہیں تو یہ کہنا چاہئے کہ ایک مسافر اور ایک کارواں دشوار گزار پیچ و خم سے، بڑی سخت گزرگاہوں سے، پہاڑوں سے، وادیوں سے، دروں سے، دلدل سے، کانٹوں سے بھری کھائیوں سے گزرتا ہوں، لگاتار آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے، راستہ طے کرتا جا رہا ہے کہ خود کو ایک مقام پر پہنچا دے۔ وہ مقام کیا ہے؟ وہ مقام ہے ایک شاہراہ، ایک اہم شاہراہ اور کھلا ہوا ہموار راستہ۔ پوری تاریخ بشر میں تاحال ہمیں یہی کوہستانی علاقوں، نشیب و فراز، کانٹوں کی وادیوں، دلدلوں وغیرہ کا سفر ہی نظر آتا ہے۔ انسانیت اپنے اسی راستے پر رواں دواں ہے کہ خود کو کسی طرح اس شاہراہ تک پہنچا دے۔ یہ شاہراہ در حقیقت امام زمانہ علیہ السلام کا دور حکومت ہے، یہ حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کا زمانہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جب ہم اس منزل پر پہنچیں گے تو یکبارگی ہماری رفتار اوج پر پہنچ جائے گی اور پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ ایسا نہیں ہے، وہاں سے پھر نئے سفر کا آغاز ہوگا۔ در حقیقت یہ کہنا چاہئے کہ وہیں سے انسان کی اصلی زندگی اور بشر کے پسندیدہ حیات کی شروعات ہوگی۔ بشریت ایسے راستے پر اپنے سفر کا آغاز کریگی جو صراط مستقیم ہے اور جو اسے تخلیق کے اصلی مقصد تک لے جائے گا، یہ راستہ انسانیت کو اس منزل پر پہنچائے گا، یہاں ایک ایک فرد کی بات نہیں ہے، اجتماعی صورت حال کا ذکر ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس زمانے میں مزاج انسانی بدل جائے گا۔ نہیں، انسانی فطرت تو اندرونی طور پر خیر و شر کے باہمی تصادم کی فطرت ہے۔ اس کے اندر عقل انسانی بھی ہے، فطرت انسانی بھی ہے، ساتھ ہی اس کی خواہشات و رجحانات بھی ہیں، انسان کی فطری خواہشات بھی اپنا کام کرتی رہتی ہیں، عقل اپنا کام انجام دیتی ہے۔ اس زمانے میں بھی یہ ٹکراؤ چلتا رہے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس زمانے میں انسان بالکل فرشتہ صفت ہو جائے گا۔ نہیں، وہاں بھی یہ تصادم جاری رہے گا۔ ظاہر ہے کہ خیر و شر کا بھی وجود قائم رہے گا۔ لیکن زندگی کا راستہ ایسا ہوگا جو اصلاح نفس کے لئے، درست انداز میں آگے بڑھنے کے لئے، صحیح پیش قدمی اور حقیقی منزل کی جانب سفر کے لئے مددگار اور سازگار ہوگا۔ یہ خصوصیت ہے اس راستے اور شاہراہ کی اور یہی عدل و انصاف کا حقیقی مفہوم بھی ہے۔ ایسا ہونا یقینی ہے۔ اس راستے میں انسان کو جو کامیابیاں ملی ہیں وہ شک کے عادی انسان کے ذہن و دل کو یہ یقین دلانے کے لئے ہیں کہ جو وعدہ کیا گیا ہے ضرور پورا ہوگا۔ جن آیتوں کی تلاوت کی گئی، میری نظر میں بڑی اہم اور دلچسپ آیتیں ہیں۔ ان آیات میں اس جگہ جہاں حضرت موسی کو پیدا ہونے کے فورا بعد، آپ کی مادر گرامی پانی میں ڈال دیتی ہیں، بڑا اہم نکتہ پوشیدہ ہے:۔ وَ اَوحَینآ اِلى‌ اُمِ‌ موسى‌ اَن اَرضِعیهِ فَاِذا خِفتِ عَلَیهِ فَاَلقیهِ فِى الیَمِّ ... اِنّا رآدّوهُ اِلَیکِ وَ جاعِلوهُ مِنَ المُرسَلین؛ (۴) یہاں دو وعدے کئے گئے ہیں۔ ایک وعدہ حضرت موسی کو ان کی ماں کی آغوش میں واپس پہنچانے کا ہے اور دوسرا وعدہ ہے؛ «جاعِلوهُ مِنَ المُرسَلین»۔ یعنی وہی عمومی وعدہ جو بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا اور بنی اسرائیل جس کی بنیاد پر نجات دہندہ کے انتظار میں تھے۔ یہ نجات دہندہ اللہ کی طرف سے آنے والا تھا اور بنی اسرائیل کو فرعون کے چنگل سے نجات دلانے والا تھا۔ اللہ تعالی نے مادر موسی پر وحی نازل کی تو ان سے یہ دوسرا وعدہ بھی کیا۔: جاعِلوهُ مِنَ المُرسَلین، یعنی اسے ہم اپنی طرف سے مبعوث کریں گے اور وہی رسول بنائیں گے جو اس عظیم وعدے اور عظیم تمنا کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والا ہے۔ اللہ نے یہ دو وعدے کئے۔ ایک وعدہ فوری اور نقدی وعدہ تھا: «اِنّا رآدّوهُ اِلَیک» بعد کی آیتوں میں جن کی تلاوت جناب سبز علی (نشست کے آغاز میں تلاوت کلام پاک کرنے والے ایران کے معروف قاری قرآن) نے نہیں کی، ارشاد پروردگار ہے: فَرَدَدنهُ اِلى‌ اُمِّهِ کَى تَقَرَّ عَینُها وَ لا تَحزَنَ وَ لِتَعلَمَ اَنَّ وَعدَ الله حَقّ؛ (۵)، یہ جو ہم نے نوزائیدہ بچے کو اس کی ماں کی آغوش میں پلٹایا تو اس کا نتیجہ تھا، «تَقَرَّ عَینُها» اور «وَ لا تَحزَن»، مادر موسی کو خوشی ملی، اضطراب دور ہو گیا، دل کو قرار آ گیا۔ بچے کو پلٹانے کا ایک اور نتیجہ بھی مقصود تھا۔ «وَ لِتَعلَمَ اَنَّ وَعدَ الله حَقّ» انہیں یقین ہو جائے کہ ہم نے جو وعدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم نجات دہندہ بھیجیں گے اور ایسے کو بھیجیں گے جو مصر میں بنی اسرائیل کو بدحالی سے باہر نکالے گا، وہ وعدہ سچا ہے، اس طرح انہیں یقین ہو جائے اور ان کا دل مطمئن ہو جائے۔ یعنی چھوٹا وعدہ اللہ تعالی کی جانب سے پورا کر دیا جاتا ہے تا کہ ہر اہل فکر انسان اس چھوٹے وعدے کی تکمیل سے یہ اطمینان حاصل کر لے کہ وہ بڑا وعدہ بھی ضرور پورا ہوگا۔ تاریخ میں انسانیت کے لئے دین کے ذریعے حاصل ہونے والی جن کامیابیوں کا ذکر ہے وہ انہی چھوٹے وعدوں کی تکمیل کا درجہ رکھتی ہیں، منجملہ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل۔ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل بھی ایسے ہی وعدے کی تکمیل ہے۔ اللہ تعالی نے وعدہ کیا تھا کہ اگر جدوجہد کروگے، اگر صبر و حوصلے کا مظاہرہ کروگے، اگر اللہ تعالی کی ذات پر توکل کروگے، تو ایسی جگہ سے ہم تمہیں قوت و طاقت عطا کر دیں گے کہ جہاں کے بارے میں کبھی تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں رہا ہوگا۔ ایسا ہی ہوا۔ ملت ایران نے جہاد کیا، صبر و تحمل سے کام لیا، استقامت کا مظاہرہ کیا، قربانیاں پیش کیں، جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا تو وہ ہوا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا! کون سوچ سکتا تھا کہ اس حد درجہ حساس علاقے میں، انتہائی اہم ملک کے اندر، دنیا کی بڑی طاقتوں کی حمایت یافتہ شاہی حکومت کے مقابلے میں ایک انقلاب کامیاب ہو جائے گا اور ایک نئی حکومت تشکیل پا جائے گی وہ بھی دین کی بنیاد پر، فقہ کی اساس پر اور شریعت کی بنیاد پر؟ کس کے تصور میں تھی یہ بات؟ کسی کے تصور میں نہیں تھی۔ اگر کوئی کہے کہ مجھے معلوم تھا کہ ایسا ہو جائے گا تو غیبی طریقوں سے شاید اسے یہ علم ملا ہوگا ورنہ حالات اور اندازوں سے ہرگز ایسا نہیں لگتا تھا، مگر یہ ہو گیا۔ تو ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ وہ اصلی وعدہ اور وہ عظیم وعدہ بھی ضرور پورا ہوگا۔ یہ اس عظیم تبدیلی کا ایک نمونہ تھا جو آگے چل کر رونما ہونے والی ہے۔
انتظار کرنا چاہئے۔ کاروان انسانی کے سفر کے نقطہ اختتام کے بارے میں ادیان الہیہ کا عقیدہ اور نظریہ بڑا امید بخش ہے۔ واقعی انتظار کا یہ جذبہ، حضرت امام زمانہ علیہ السلام سے رابطہ قائم کرنے کا جذبہ، حضرت کے ظہور کا منتظر رہنا اور اس دن کی آرزو میں زندگی بسر کرنا، اسلامی معاشرے کے لئے امید کا بہت اہم دریچہ ہے۔ ہم گشائش کے منتظر ہیں اور خود یہ انتظار اپنی جگہ کسی گشائش سے کم نہیں ہے، خود یہ انتظار گشائش کا دریچہ ہے، یہ اپنے آپ میں امید بخش اور حوصلہ افزا ہے۔ یہ انتظار عبث اور بے مقصد زندگی گزارنے کے احساس، بے وقعتی کے احساس، مایوسی کے احساس، مستقبل کے بارے میں گمراہی اور منزل گم کر دینے کے احساس سے نجات دلاتا ہے، امید عطا کرتا ہے، راستہ دکھاتا ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام کا مسئلہ ایسا ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہم سب کو حقیقی منتظرین میں قرار دے اور اس وعدہ کی تکمیل کے ذریعے ہمارے دلوں کو قرار اور آنکھوں کو ٹھنڈک عطا کرے۔
ان اہم کاوشوں کے سلسلے میں جو آپ خواہران و برادران عزیز نے جناب ری شہری کی قیادت میں ان برسوں کے دوران انجام دیں میں واقعی ان پر آپ کا شکر گزار ہوں۔ بہت اچھا کام ہوا ہے، نئے انداز اور جدید نہج پر کام ہوا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ اذہان کو خلا کی نشاندہی اور شناخت کے لئے حرکت میں لایا جائے، یہ اپنے آپ میں بڑا کارنامہ ہے۔ مشکل اور ضرورت کی شناخت ایک بڑا فن ہے۔ انسان جائزہ لے اور خلا کا احساس کر لے۔ آپ کی اس ٹیم نے بحمد اللہ اس سلسلے میں بہت اچھی مثال پیش کی ہے، بڑے اہم امتحان پر پوری اتری ہے۔ خلا کی نشاندہی کرکے اسے پر کرنے کی کوشش کی ہے۔
قرآن و حدیث کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ مہدویت کے موضوع اور امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق امور، انتظار کا مسئلہ، طولانی عمر کا موضوع، آپ کی حکومت کا مسئلہ، انتظار کرنے والے افراد کے فرائض اور دیگر گوناگوں موضوعات کے سلسلے میں بہترین مرجع اور ماخذ احادیث اور ائمہ علیہم السلام سے نقل کئے جانے والے فرمودات ہیں جن سے ہر شک و شبہ دور ہو جاتا ہے، یہ سب سے اہم نکتہ ہے۔ جیسا کہ جناب ری شہری صاحب نے اشارہ کیا، میں بھی یہی نظریہ رکھتا ہوں کہ عقلی دلائل کو تائید اور تصدیق کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، فیصلہ کن اور حتمی دلیل تو روایات و احادیث اور قرآنی آیات ہی ہیں اور انہیں پر تکیہ کرنا چاہئے، انہیں سے استفادہ کرنا چاہئے۔ البتہ ضروری ہے کہ تنقیح (6) کا عمل انجام دیا جائے۔ غیر محکم دلائل کو بنیاد نہیں بنانا چاہئے۔ محکم باتوں اور دلائل کی کمی نہیں ہے، محکم اور مدلل باتیں اور محکم فکری بنیادیں اس میدان میں بحمد اللہ بڑی کثرت سے موجود ہیں جن پر تکیہ کیا جا سکتا ہے اور جنہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ آپ سب کو کامیاب کرے۔ ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں اس گراں بہا تحفے پر جو آپ نے اس عید کے ان مبارک ایام میں اسلامی معاشرے کو عطا کیا۔ ان شاء اللہ ملک میں اہل علم افراد کی صنف اس عیدی سے بخوبی بہرہ مند ہوگی۔

والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته‌

۱) اس تقریر سے قبل قائد انقلاب اسلامی نے دار الحدیث علمی و تحقیقاتی مرکز کی علمی و تحقیقاتی کاوشوں اور کتب کی نمائش کا معائنہ کیا۔ اس موقعے پر دار الحدیث ادارے کے سربراہ جناب آیت اللہ محمد محمدی ری شہری بھی موجود تھے۔
۲) دار الحدیث ادارے کی نمائش کے معائنے کے دوران اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقع پر امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف انسائيکلوپیڈیا کی رونمائی عمل میں آئی۔
۳) کتاب سلیم‌ بن ‌قیس‌هلالى، جلد ۲، صفحہ ۵۶۷
۴) سوره‌ قصص، آیت نمبر ۷
۵) سوره‌ قصص ، آیه‌ ۱۳
۶) تصحیح