بحمد اللہ آپریشن کا پورا عمل، اس کے مقدمات اور بعد کے امور بنحو احسن انجام پا گئے۔ اس وقت بظاہر پوری صحت و سلامتی کے ساتھ گھر واپس جا رہا ہوں۔ جسم تو صحیح و سالم ہے مگر دل و روح پر اس محبت و لطف و کرم کا ایک عظیم بوجھ ہے جس کا اس حقیر کے تعلق سے اظہار کیا گیا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب محبت کے سیکڑوں بلکہ ہزاروں پیغامات ہر بے جان دل کو گرمی حیات اور خشک زمین کو زندگی کی شادابی عطا کرنے والے حیات بخش بارش کے قطروں کی مانند عوام کی طرف سے اس حقیر کے دل و جان تک نہ پہنچے ہوں۔ محترم علما، مراجع کرام، اعلی شخصیات، ملک کے بڑے عہدیداران اور مختلف عوامی طبقات کی طرف سے اس حقیر سے ایسی محبت کا اظہار کیا گیا کہ میں واقعی شرمندہ ہوں اور اس مدت میں اس پیمانے پر جو لطف و کرم کیا گیا اس کے سامنے اپنی جگہ پر شرمندگی کا احساس کرتا ہوں۔ وطن عزیز کے عوام الناس کے علاوہ دیگر اقوام کی طرف سے بھی، اور میں ہمیشہ اس بات پر زور دیتا آیا ہوں کہ ملت ایران کے یہاں ایک اسٹیٹیجک گہرائی پائی جاتی ہے جو اسی سے مختص ہے، ہمیں کوئی بھی ملک اور کوئی بھی نظام ایسا نظر نہیں آتا جو اپنی سرحدوں کے باہر بھی لوگوں سے عقیدے، ایمان اور جذبات و احساسات کے اعتبار سے اس طرح گہرا رابطہ اور رشتہ رکھتا ہو۔ ہمارے پاس یہ خصوصیت ہے، گزشتہ چند دنوں کے دوران ہم نے اس کا مشاہدہ کیا۔ بہرحال جسمانی طور پر میں صحتیاب ہوں، ذہن و دل کے اعتبار سے بھی بحمد اللہ شادابی و تازگی کا احساس کر رہا ہوں۔ لیکن ساتھ ہی اس کرم فرمائی اور اس مہر و محبت پر شرمندہ بھی ہوں جو اس ایک ہفتے کے دوران مختلف حلقوں کی جانب سے اس حقیر کے تعلق سے نظر آئی۔ سیاستداں حضرات، مختلف عوامی طبقات، فنکار، اسپورٹس کی دنیا سے وابستہ افراد جن کی ملاقات منظر عام پر دکھائی گئی اور اس کی کئي گنا ملاقاتیں نشر نہیں کی گئیں، سب نے لطف کیا، بہت سے لوگوں نے تحریری طور پر اور بہت سے لوگوں نے الیکٹرانک وسائل کی مدد سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ان سب کو جزائے خیر دے۔
جہاں تک طبی امور اور ڈاکٹروں کی مہارت کا تعلق ہے تو میں ان ڈاکٹروں اور طبی عملے کے افراد کا شکریہ ادا کروں گا۔ یہ ایک فریضہ بھی ہے۔ انہوں نے واقعی بہترین انداز میں اپنا کام انجام دیا۔ شکرئے سے بڑھ کر میں اپنے ان ڈاکٹروں پر افتخار کروں گا۔ مجھے فخر ہے کہ ہمارا وطن عزیز طبی سطح کے اعتبار سے اور طبی صلاحیتوں کے معیار کے اعتبار سے اس مقام پر ہے کہ ہماری قوم کو، ڈاکٹروں کی اس کثیر تعداد پر جن میں سرجن بھی ہیں اور دوسری گوناگوں اقسام کی طبی خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر بھی ہیں، اسی طرح نرسوں پر فخر کرنا چاہئے کہ الحمد للہ ہمارے پاس یہ عظیم سرمایہ ہے، ایسا عظیم افرادی سرمایہ جو انسان اور معاشرے کی صحت و سلامتی کے سلسلے میں انتہائی حیاتی اور اساسی شعبے یعنی صحت عامہ کے شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ان کے اندر کیسی فرض شناسی اور احساس ذمہ داری ہے، یہ لوگ کتنے صلاحیت مند اور اپنے کام میں ماہر ہیں؟! مجھے اس کا علم تھا، میں ہمیشہ سے ملک کے ڈاکٹروں کی صنف کو اسی نقطہ نگاہ سے دیکھتا آیا ہوں۔ تاہم جب انسان خود اپنا علاج کروائے اور ان کے طرز عمل کو دیکھے تو پھر یہ علم، علم الیقین میں تبدیل ہو جاتا ہے، عین الیقین میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ انسان باقاعدہ طور پر محسوس کرتا ہے کہ ان عزیز ڈاکٹروں کی صورت میں کتنا عظیم سرمایہ ہمارے پاس موجود ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ان سب کو جزائے خیر دے۔
البتہ میں نے عرض کیا کہ ان حضرات کا شکریہ دو تین جملے کہہ دینے سے ادا ہونے والا نہیں ہے۔ میں نے جناب ڈاکٹر مرندی صاحب (1) سے جنہوں نے بڑی زحمت کی، معالج ڈاکٹروں کی ٹیم کی سربراہی کے فرائض انجام دئے، ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی محبت کا ثبوت دیا، کہا کہ آپ مجھے بتائيے کہ بطور شکریہ مجھے کیا کرنا چاہئے، انہیں چاہئے کہ میری طرف سے جس طرح مناسب سمجھیں اور جس انداز سے بھی بہتر ہو ان عزیزوں کا شکریہ ادا کریں۔
اسپتال، بیماری، اور اسپتال کے ماحول سے ہٹ کر بھی میں ایک بات عرض کرنا چاہوں گا اور وہ یہ ہے کہ ان چند دنوں میں، گزشتہ دو تین دن کے دوران مجھے ایک تفریح میسر آ گئی تھی۔ وہ تفریح یہ تھی کہ میں داعش اور داعش کے خلاف جنگ کے سلسلے میں امریکیوں کے بیانات اور ان کی باتیں سن رہا تھا، عبث، کھوکھلی اور خود غرضی کی باتیں۔ جو چیزیں واقعی میرے لئے تفریح کا باعث بنیں، ان میں ایک چیز یہ تھی کہ میں نے دیکھا کہ امریکی وزیر خارجہ نے بھی اور اس لڑکی نے بھی جو ان کی ترجمان ہے، آکر کھڑی ہوتی ہے اور بیان دیتی ہے (2)۔ صریحی طور پر کہا کہ ہم ایران کو داعش کے خلاف تشکیل پانے والے الائنس میں شرکت کی دعوت نہیں دیں گے! پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے لئے اس سے بڑے فخر کی کیا بات ہو سکتی ہے کہ امریکا ایک اجتماعی کام میں، ایک غلط اور غیر قانونی کام میں جو وہ دوسروں کے ساتھ انجام دینے جا رہا ہے، ہماری شرکت کی طرف سے مایوس ہو اور ہم سے تعاون کا مطالبہ نہ کرے۔ یہ ہمارے لئے باعث افتخار ہے، افسوس کی بات نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ یہ لوگ صاف جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس لئے کہ شروع کے دنوں میں ہی جب عراق میں داعش کا مسئلہ در پیش ہوا تو امریکیوں نے اپنے سفیر (3) کے ذریعے عراق میں ہمارے سفیر (4) سے درخواست کی کہ آئیے بیٹھتے ہیں اور داعش کے بارے میں آپس میں ہم آہنگی قائم کرتے ہیں۔ ہمارے سفیر نے اس کی اطلاع دی۔ ہمارے بعض حکام کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا لیکن میں نے مخالفت کی۔ میں نے کہا کہ اس مسئلے میں ہم خاص طور پر امریکا سے تو کوئی تعاون نہیں کریں گے، کیونکہ خود ان کے ہاتھ آلودہ ہیں۔ اس قضیئے میں ہم ان لوگوں سے کیسے تعاون کریں جن کے ہاتھ آلودہ ہیں اور جن کے ارادے بھی آلودہ ہیں؟ اس کے بعد انہیں محترم وزیر خارجہ (5) نے جنہوں نے ساری دنیا کے سامنے، کیمروں کے سامنے آکر فرمایا کہ ہم ایران کی مدد نہیں چاہتے، انہیں صاحب نے بذات خود، جناب ڈاکٹر ظریف (6) سے درخواست کی تھی کہ آئیے اس معاملے میں ہم مل کر کام کرتے ہیں، ڈاکٹر ظریف نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ ان کی نائب وزیر خارجہ نے بھی جو ایک خاتون ہیں اور جنہیں آپ دیکھتے ہیں اور پہچانتے ہیں (7) جناب عراقچی (8) سے اپنے مذاکرات کے دوران درخواست کی کہ آئيے ہم سے تعاون کیجئے، ان لوگوں نے انکار کر دیا۔ جب ان لوگوں نے انکار کر دیا اور ہم نے صریحی طور پر کہہ دیا کہ اس مسئلے میں ہم آپ سے تعاون نہیں کریں گے تو اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ایران کو شامل نہیں کرنا چاہتے!
ان لوگوں نے اس سے پہلے بھی ایک الائنس شام کے خلاف تشکیل دیا تھا۔ دنیا بھر میں بڑا شور و غل کرکے، تیس چالیس ممالک، پچاس ممالک کو جمع کیا، مگر شام کے مسئلے میں کچھ بھی نہیں کر پائے، عراق کے معاملے میں بھی یہی ہوگا۔ وہ کوئی سنجیدہ کارروائی کرنا بھی نہیں چاہتے۔ داعش کے خلاف جو کارروائی ہوئی اور جس کی وجہ سے عراق میں داعش کی کمر ٹوٹ گئی وہ کارروائی امریکیوں کی طرف سے نہیں تھی، یہ بات وہ خود بھی جانتے ہیں، داعش کے دہشت گردوں کو بھی بخوبی معلوم ہے اور عراق کے عوام بھی جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ یہ عوام کا کرنامہ تھا، عراقی فوج کی کارروائی تھی، عوامی فورسز کی کارروائی تھی جنہوں نے بخوبی سیکھ لیا ہے کہ داعش کا مقابلہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مقابلہ کیا اور اب تک ان پر کئی کاری ضربیں لگا چکے ہیں، آئندہ بھی یہ ضربیں پڑتی رہیں گی۔ لوگ خود دیکھیں گے۔ امریکا جو سرگرمیاں انجام دے رہا ہے ان کے ذریعے وہ چاہتا ہے کہ ایک بہانہ ہاتھ آ جائے اور جس طرح وہ پاکستان میں مستحکم حکومت ہونے کے باوجود، طاقتور فوج ہونے کے باوجود، پاکستان کی فوج واقعی ایک طاقتور فوج ہے، بغیر اجازت پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں بمباری کر دیتے ہیں، وہ عراق اور شام میں بھی یہی سلسلہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر انہوں نے یہ اقدامات انجام دئے تو ان کے سامنے وہی مشکلات پھر کھڑی ہو جائیں گی جو گزشتہ دس سال کے دوران عراق کے مسئلے میں انہیں در پیش تھیں۔ الغرض یہ کہ ان مسائل کا مشاہدہ کرنا ہمارے لئے ایک طرح کی تفریح کا سامان تھا، اسپتال کے بیڈ پر۔
نامہ نگار: بہت بہت شکریہ، دسیوں لاکھ انسانوں کے پاکیزہ دل آپ کے ہمراہ اور ان کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔
سلامت رہئے۔
نامہ نگار: التماس دعا
ان شاء اللہ، خدا کامیاب کرے۔
۱) ڈاکٹر علی رضا مرندی
۲) امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان میری ہارف
۳) رابرٹ اسٹیفن بی کروفٹ
۴) جناب حسن دانائی فر
۵) جان کیری
۶) ایران کے وزیر خارجہ جناب محمد جواد ظریف
۷) امریکا کی نائب وزیر خارجہ ونڈی شیرمن
۸) ایران کے نائب وزیر خارجہ اور ایٹمی مذاکرات کار جناب عباس عراقچی