1393/11/19 ہجری شمسی مطابق 8 فروری 2015 کو قائد انقلاب اسلامی نے جوہری مذاکرات میں ایران کی منطقی و مدلل روش اور مد مقابل فریق کے غیر منطقی اور متکبرانہ انداز پر روشنی ڈالی۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ گیارہ فروری کو ایران کے عوام ثابت کر دیں گے کہ وہ کوئی بھی زور زبردستی برداشت کرنے والے نہیں ہیں اور تحقیر کرنے والوں پر جوابی وار ضرور کریں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آٹھ فروری 1979 کو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں کی جانب سے بیعت کے تاریخی واقعے کی مناسبت سے انجام پانے والی اس سالانہ ملاقات میں اس واقعے کو ناقابل فراموش اور انتہائی پرمغز مضمون کا حامل واقعہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: آٹھ فروری 1979 کو فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں کا شجاعانہ اقدام اسلامی انقلاب کے حق بجانب اور پرکشش پیغام کے اس زمانے کی شاہی فضائیہ کے بھی دلوں کی گہرائیوں تک اتر جانے کا ثبوت تھا، جو امریکا کی چہیتی فورس تھی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایٹمی مذاکرات کا حوالہ دیا اور بدخواہوں اور مخالفین کی یہ تاثر دینے کی کوششوں کا ذکر کیا کہ ایران اس معاملے میں بے دست و پا ہوکر رہ گیا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں چند اساسی نکات بیان کئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے پہلا نکتہ یہ بیان کیا کہ خود معاہدے سے آپ اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں جو معاہدہ ہو سکتا ہے اس سے متفق ہوں مگر برے معاہدے سے اتفاق نہیں رکھتا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم ‌(۱)

میں برادران عزیز کو، اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کے انتہائی اہم ادارے یعنی فضائیہ اور ایئر ڈیفنس شعبے کے انتہائی حساس امور کے ذمہ داران کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آج کے دن کی جو در اصل یوم فضائیہ ہے، آپ سب کو، اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے فضائی شعبے اور ایئر ڈیفنس شعبے کے جملہ کارکنوں اور آپ کے اہل خانہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ترانہ پیش کرنے والی ٹیم کا بھی، یہ بہترین پروگرام پیش کرنے پر، شکر گزار ہوں۔
آٹھ فروری کی تاریخ کا معاملہ جسے آپ ہر سال مناتے ہیں، ایک شیریں واقعے کی یاد تازہ کرنے سے کہیں بالاتر ہے۔ بیشک یہ بہت اہم اور یادگار واقعہ ہے، بہت شیریں و دلنشیں واقعہ ہے اور مناسب بھی ہے کہ انسان اس طرح کے واقعات کو ہمیشہ زندہ رکھے، مگر یہاں مسئلہ اس سے بالاتر ہے۔ آٹھ فروری کا واقعہ ہمیشہ زندہ رہنے والا اور پرمغز مضمون کا حامل واقعہ ہے۔ یعنی یہ واقعہ جو رونما ہوا اور شاہی نظام کی فضائیہ کے جوان اٹھ کھڑے ہوئے اور آکر انہوں نے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی بیعت کا اعلان کر دیا، اس شجاعت اور شفافیت کے ساتھ، میں اس تقریب میں موجود تھا، ان میں بعض نے اپنے شناختی کارڈ اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے اور اسے دکھا رہے تھے، یہ اپنی جگہ ایک اہم مضمون کا حامل واقعہ ہے، جسے ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک انقلابی فریضہ ہے۔ وہ مضمون کیا ہے؟ وہ مضمون یہ ہے کہ انقلاب کا پیغام، ایک برحق اور پرکشش پیغام تھا جس نے دلوں کو، خود غرضی اور مرض سے پاک دلوں کو، آگاہی اور روشنی رکھنے والے دلوں کو، خواہ وہ ملک کے کسی بھی حصے میں رہے ہوں اپنی جانب کھینچ لیا۔ یہاں تک کہ شہنشاہی فضائیہ جیسے ادارے میں بھی جو اس زمانے میں حکمراں اداروں کی بڑی چہیتی، بلکہ امریکا کی بھی بڑی چہیتی اور دلاری تھی، اس زمانے میں فضائیہ کو امریکیوں کی طرف سے بھی اور ملک کے اندر ان کے آلہ کاروں کی جانب سے بھی، جو بد قسمتی سے ان دنوں تمام امور کے مالک تھے، بہت نوازا جاتا تھا، بڑی عنایتیں کی جاتی تھیں۔ مگر یہی فضائیہ انقلاب کی حقانیت کی کشش سے اس انداز میں متحرک ہوئی کہ اس نے یہ عظیم کارنامہ انجام دے ڈالا۔ یعنی روز روشن میں، بے شمار اہلکاروں کی موجودگی میں، اس زمانے میں موجود گوناگوں خطرات کے سائے میں، یہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور 'ایران روڈ' پہنچ کر امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کی بیعت کی، ترانہ پڑھا، اپنے ہاتھوں میں اپنے شناختی کارڈ لیکر کھڑے ہو گئے۔ یہ اس واقعے کا انتہائی اہم پہلو ہے۔ انقلاب کی وہ غیر معمولی کشش اور وہ عجیب حقیقت جو اس انقلاب کے اندر مضمر تھی اور دلوں کو اپنی جانب مائل کر لیتی تھی، ہمیں اس کی شناخت ہونی چاہئے اور اس کی حفاظت کرنی چاہئے۔
ملک کے علاوہ دنیا میں بھی یہی صورت حال پیش آئی۔ اس انقلاب کے اندر یہ توانائی تھی کہ ملک کے ہر شعبے اور ہر پہلو میں اتر جائے، بس جائے، مثال کے طور پر شہروں میں ہی نہیں بلکہ دیہی علاقوں میں بھی عوام باہر نکلتے تھے اور ایک جگہ سے دوسرے جگہ تک مارچ کرتے تھے اور انقلاب کے حق میں، امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے حق میں نعرے لگاتے تھے، ظالم شاہی حکومت اور آمریت کے خلاف نعرے بازی کرتے تھے۔ اس طرح پوری قوم اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ، عالمی سطح پر بھی یہی جذبہ دیکھنے میں آیا، البتہ تدریجی طور پر، یعنی ساری دنیا میں، ایشیا میں، افریقا کے دور دراز کے علاقوں میں، یہاں تک کہ لاطینی امریکا میں قومیں یہ دیکھ کر جوش میں آ جاتی تھیں کہ ایک قوم ایسی بھی نظر آئی ہے جو امریکا کے مقابل اور امریکی دھمکیوں کے جواب میں اس شجاعت اور اس دلیری کا اعلانیہ مظاہرہ کر رہی ہے۔ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو عرب ملکوں کے شہری تھے مگر ایران کی فارسی نشریات کو اتنا سنتے تھے کہ انہیں فارسی آ گئی تھی۔ اسے کہتے ہیں کشش، یہ انقلاب کی کشش تھی جس نے دلوں کو، عوامی گروہوں کو، دانشوروں کو، نوجوانوں کو، یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد کو جو دشمن کے شدید تشہیراتی پروپیگنڈے کے دام میں گرفتار نہیں ہوئے تھے، اپنی جانب راغب کر لیا، یہ صورت حال ہر جگہ نظر آئی۔ جب یہ دیکھنے میں آتا تھا کہ ایک قوم استبداد کے خلاف، دھونس اور دھمکیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے تو ان قوموں میں ایک نیا جوش بھر جاتا تھا جو امریکا اور مغربی طاقتوں کی دھونس اور دھمکیوں سے پریشان تھیں، یہ قومیں حامی بن جاتی تھیں اور اس کی جانب راغب ہو جاتی تھیں۔ یہ چیز ہر جگہ، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ مستضعفین کی دنیا میں، افریقا میں، ایشیا میں، دور دراز کے علاقوں میں، لاطینی امریکا میں، تقریبا ہر جگہ نظر آتی تھی۔ اس کی ہمیں مکمل اطلاعات ملیں۔ لوگ آمد و رفت رکھتے تھے۔ انقلاب کی تاثیر اور امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے نام کی تاثیر کو انسان واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔
اس کے مد مقابل کون تھا؟ اس کے مد مقابل وہ طاقتیں تھیں جن کے خلاف یہ عظیم تحریک عمل میں آئی تھی۔ ان طاقتوں میں سر فہرست ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت تھی۔ یہ طاقتیں اس بات پر کہ یہ عظیم اور وسیع البنیاد تحریک روز بروز ان کے تسلط والی اقوام میں پھیلتی جا رہی ہے، سخت مضطرب اور آشفتہ تھیں۔ وہ رد عمل ظاہر کرنے پر مجبور ہو گئيں اور انہوں نے سخت رد عمل کا مظاہرہ بھی کیا۔ ان کے ذہن میں سب سے پہلا حل یہ آیا کہ اس سرچشمے کو بند کر دیا جائے، اس مرکز اور اس محور کو جہاں سے یہ لہریں اٹھ رہی ہیں، دبا دیا جائے تاکہ دوسری جگہوں پر اپنے آپ یہ تحریک ختم ہو جائے۔ چنانچہ جتنا ان کے بس میں تھا، دباؤ ڈالا۔
اسلامی جمہوریہ سے امریکا کی دشمنی روز اول سے ہی شروع ہو گئی تھی، یہ بات نوجوان ذہن نشین کر لیں۔ امریکیوں نے جو بھی ممکن تھا کیا۔ یعنی واقعی ایسی کوئی بھی کارروائی نہیں ہے جو امریکا جیسی حکومت ایک قوم کے خلاف اور ایک ملک کے خلاف عسکری سطح پر، اقتصادی سطح پر، سیکورٹی کے میدان میں، ثقافتی روابط کے میدان میں، جو کر سکتی تھی مگر اس نے نہ کی ہو۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا انہوں نے کیا اور آج بھی کر رہے ہیں۔ انہیں دشمنی انقلاب سے تھی اور آج بھی ہے، ان کی دشمنی ان عوام سے تھی جنہوں نے اس انقلاب کو قبول کر لیا۔ بعض لوگ جو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ امریکا کو کچھ افراد سے دشمنی ہے، غلط ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کو امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) سے دشمنی تھی اور آج علی خامنہ ای سے دشمنی ہے۔ ان کی دشمنی بذات خود اس تحریک اور اس کے مضمون سے ہے۔ انہیں دشمنی استقامت، خود مختاری اور عزت نفس پر استوار اس فیصلے اور موقف سے ہے، ان کی دشمنی ان عوام سے ہے جنہوں نے ان چیزوں کو قبول کیا اور ان کے مطابق عمل کر رہے ہیں۔ یہ دشمنی ماضی میں بھی تھی، آج بھی ہے اور اس کا سلسلہ جاری ہے۔ جو قوم برسوں سے اپنے اس موقف پر ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے اور سختیوں کا سامنا کر رہی ہے، ان کی نظر میں وہ قابل نفرت ہے۔ بعض امریکی سیاستدانوں سے بہت بڑی غلطی ہوئی جو انہوں نے زبان سے اعلان بھی کر دیا، ان حالیہ برسوں میں ان کی زبان سے یہ بات پھسل گئی اور صریحی طور پر انہوں نے کہا کہ وہ ملت ایران کے دشمن ہیں، ایرانی قوم کے مخالف ہیں۔ آج بھی امریکی اور ان کے ہمنوا اور اتحادی جو اقدامات انجام دے رہے ہیں ان کا مقصد ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دینا اور ایران کے عوام کی تحقیر کرنا ہے۔
البتہ یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے، ان کا تجزیہ غلط ہے۔ یہ عین حقیقت ہے کہ اس علاقے کے تغیرات اور خاص طور پر ہمارے وطن عزیز کے مسائل کا تجزیہ کرنے میں امریکیوں سے اسٹریٹیجک غلطی ہو رہی ہے اور انہی غلطیوں کی وجہ سے انہیں مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے، ضربیں پڑ رہی ہیں، ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے، ان سے اندازے کی غلطی ہو رہی ہے۔
ایک امریکی عہدیدار نے (2) ابھی چند روز قبل بیان دیا کہ ایرانی پھنس گئے ہیں، ایٹمی مسائل میں مذاکرات کی میز پر ایرانیوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے یہ اندازے کی غلطی ہے۔ ایرانی پھنسے نہیں ہیں۔ ان شاء اللہ آپ 22 بہمن (مطابق گیارہ فروری، انقلاب کی سالگرہ کی تاریخ) کو دیکھیں گے کہ ایرانی عوام کیا کریں گے اور کس طرح (جشن انقلاب میں شرکت کے لۓ) باہر نکلیں گے۔ تب واضح ہو جائے گا کہ کیا واقعی ملت ایران کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں؟ ایرانی قوم کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں ہیں اور اسے یہ قوم بارہا ثابت بھی کر چکی ہے اور آئندہ بھی اس کا ثبوت دیتی رہے گی۔ حکام کا بھی یہی عالم ہے۔ ان شاء اللہ ملک کے حکام اپنی ذہانت اور خلاقانہ صلاحیتوں کی مدد سے، اپنی شجاعت و جرئت کی مدد سے ثابت کر دیں گے کہ ایرانی قوم کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ انہوں نے ایران کو ایک گوشے میں محصور کر دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم نے ایرانیوں کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ جی نہیں، آپ بہت بڑی غلط فہمی میں ہیں! مشکل میں دوچار آپ ہوئے ہیں۔ ہمارے علاقے کے تمام حقائق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس علاقے میں بھی اور باہر کے خطوں میں بھی امریکا اپنے اہداف پورے کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ امریکا کو شام میں شکست ہوئی، امریکا کو عراق میں ہزیمت اٹھانی پڑی، امریکا کو لبنان میں شکست سے دوچار ہونا پڑا، امریکا مسئلہ فلسطین میں بھی ہارا، امریکا کو عزہ میں بھی منہ کی کھانی پڑی، افغانستان اور پاکستان کے امور پر تسلط قائم کرنے کی امریکی کوششیں بھی لا حاصل رہیں۔ ان اقوام میں امریکا کو نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، اس علاقے کے باہر بھی یہی عالم ہے۔ امریکا کو یوکرین میں بھی شکست ہوئی۔ تو یہ آپ ہیں کہ شکست جن کا مقدر بن گئی ہے۔ برسوں سے ایک کے بعد دوسری ہزیمت!
اسلامی جمہوریہ ایران تو ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران، پینتیس سال قبل کے اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں بہت مختلف پوزیشن میں ہے۔ تجربات کا انبار ہے، کارناموں کی طویل فہرست ہے، بے پناہ پیشرفت کے نظارے ہیں، علاقے میں گہرا اثر و رسوخ ہے، ملک کے نوجوانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں انقلاب کے اصول اور بنیادیں اپنی جگہ بنا چکی ہیں۔ کیا یہ معمولی چیزیں ہیں؟ یہ سب کچھ ہو رہا ہے، یہ زمینی سچائی ہے۔
امریکی مختلف مسائل کے سلسلے میں اندازے کی غلطی کا شکار ہیں۔ فضل پروردگار سے، عوام الناس کی بلند ہمتی سے، آپ جوانوں کے بلند حوصلے سے ملک بھر میں ہر جگہ، ہر شعبے میں اسی طرح کی سرگرمیاں جن کا ذکر محترم کمانڈر نے ابھی کیا اور بتایا کہ فضائیہ کے اندر انجام پا رہی ہیں، ملک گیر پیمانے پر ملک کے ہر ادارے میں انجام دی جا رہی ہیں۔ وہ بھی پابندیوں کے عالم میں، ایسے حالات میں کہ جب دشمنوں نے ہمارا بائيکاٹ کر رکھا ہے، ہم نے سائنس کے میدان میں ترقی کی ہے، ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کی ہے، گوناگوں سماجی میدانوں میں ہم پیشرفت کر رہے ہیں، گوناگوں تجربات حاصل ہو رہے ہیں جن سے اسلامی جمہوریہ کے پاس قیمتی سرمائے کا بڑا ذخیرہ مسلسل اور بڑھ رہا ہے۔ ہم آگے بڑھ رہے ہیں، ترقی کر رہے ہیں، دشمن کی رخنہ اندازی کے باوجود۔ دشمن ناکام ہو گیا ہے۔ دشمن چاہتا تھا کہ اس عظیم تناور درخت کی جڑوں کو کاٹ دے۔ وہ اسلامی جمہوری نظام کو برداشت کرنے پر قطعی تیار نہیں تھے۔ لیکن آج اسی اسلامی جمہوری نظام کو تحمل کرنے پر وہ مجبور ہیں۔ گوناگوں معاملات میں مختلف سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سیکورٹی حربوں اور چالوں سے وہ جہاں تک ممکن ہے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سب کچھ بے سود ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران پورے استحکام کے ساتھ ترقی کے راستے پر رواں دواں ہے۔
انہوں نے ایٹمی مسئلے کو ایک نمونے کے طور پر لے لیا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایٹمی مسئلے میں بے دست و پا ہوکر رہ گئی ہے، جبکہ حقیقت ماجرا یہ نہیں ہے۔ میں یہیں یہ بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو معاہدہ قبول کرنے کے قابل ہو، میں اس سے متفق ہوں، البتہ برا معاہدہ نہیں۔ امریکی بار بار یہ جملہ دہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا یہ موقف ہے کہ معاہدہ نہ کرنا برا معاہدہ کرنے سے بہتر ہے۔ جی ہاں، ہمارا بھی یہی نظریہ ہے۔ ہم بھی یہی موقف رکھتے ہیں کہ معاہدہ نہ ہو تو یہ اس معاہدے سے بہتر ہے جو قومی مفادات کے لئے نقصان دہ ثابت ہو، جو عظیم ملت ایران کی تحقیر کا باعث بنے۔
دوسرے یہ کہ اس چیز کو بھی سب بخوبی سمجھ لیں کہ ہمارے حکام اور ہماری مذاکراتی ٹیم اور ہماری حکومت سب کے سب یہ کوشش کر رہے ہیں کہ دشمن کے ہاتھ سے پابندیوں کا حربہ چھین لیں۔ سب کی یہ کوشش ہے کہ اس عیار دشمن کے ہاتھ سے پابندیوں کا ہر بہانہ لے لیں۔ اگر وہ کامیاب ہوئے تو چہ بہتر! لیکن اگر اس میں وہ کامیاب نہ ہوئے تو سب یاد جان لیں، ہمارے دشمن بھی سن لیں اور دنیا میں ہمارے دوست بھی بخوبی سمجھ لیں کہ ایسے بہت سے طریقے موجود ہیں جو دشمن کے اس حربے کو کند اور بے اثر بنا سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم سوچیں کہ پابندیاں واقعی بہت کاری اور موثر حربہ ہے۔ جی نہیں، ہم اگر ہمت سے کام لیں، ہم اگر اپنے موجودہ وسائل پر بخوبی توجہ دیں، بحمد اللہ یہ جذبہ موجود بھی ہے، تو پابندیوں کے حربے کو اگر دشمن کے ہاتھ سے خارج نہ کیا جا سکا تو کم از کم کند تو ضرور کر دیا جائےگا۔
تیسرے یہ کہ اس مسئلے میں، صدر محترم نے بڑے اچھے نکتے کی جانب اپنی ایک حالیہ تقریر میں اشارہ کیا اور وہ یہ ہے کہ مذاکرات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دو فریق مشترکہ منزل تک پہنچنے کی کوشش کریں (3)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی فریق یک طرفہ طور پر یہ کوشش نہ کرے کہ سب کچھ اسی کی مرضی کے مطابق ہو اور اس کی ہر توقع اسی طرح پوری کر دی جائے جس طرح وہ چاہتا ہے۔ امریکیوں کا یہی وتیرہ ہے۔ امریکی اور چند یورپی ممالک جو کسی بچے کی طرح امریکا کی پیچھے پیچھے دوڑتے ہیں اور واقعی بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں، اسٹریٹیجک غلطی کر رہے ہیں جو امریکا کے تابعدار بنے ہوئے ہیں، یہ ممالک توسیع پسندانہ انداز میں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں بالکل اسی طرح انجام دے دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ غلط طریقہ ہے، یہ مذاکرات کا طریقہ نہیں ہے۔ ایران نے ایسے کچھ اقدامات انجام دئے جو معاہدے کو قریب لا سکتے تھے، متعدد اقدامات انجام دئے ہیں۔ یورینیم کی افزودگی کی مشینوں کی توسیع اور ڈیولپمنٹ کا کام روک دیا ہے۔ اسے ضروری سمجھا گیا کہ کچھ وقت کے لئے اس عمل کو روک دیا جائے۔ بیس فیصدی کے گریڈ تک یورینیم کی افزودگی کے عمل کو جو واقعی ایک عظیم کارنامہ ہے، بیس فیصدی کی سطح تک یورینیم افزودہ کرنے کی ٹکنالوجی کا حصول ایک عظیم کامیابی تھی، جو لوگ اس شعبے کے ماہر ہیں بخوبی جانتے ہیں کہ پانچ فیصدی کی سطح سے بیس فیصدی کی سطح تک پہنچنا، بیس فیصدی سے زیادہ گریڈ تک رسائی سے بھی زیادہ اہم ہوتا ہے۔ یہ قابل فخر کارنامہ ہمارے فرض شناس نوجوانوں نے انجام دیا۔ اسے روک دیا گیا، چونکہ مذاکرات کا تقاضہ یہ تھا کہ اسے روک دیا جائے۔ اراک کے ری ایکٹر کو جو اپنی جگہ پر بہت اہم اور قابل تعریف کارنامہ اور بہت بڑی تکنیکی کامیابی ہے، فی الحال روک دیا گيا ہے۔ فوردو کے ایٹمی مرکز کو جو ہمارے ماہرین اور داخلی سائنسدانوں کے عظیم شاہکاروں میں سے ایک ہے، اس کے ذریعے ہمارے ماہرین نے سنٹری فیوج مشینوں کے تحفظ کو یقینی بنا دیا ہے، وہ اس وقت رکا ہوا ہے۔ کتنے بڑے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ یعنی ایران نے منطقی انداز میں عمل کیا ہے، معقول روش کے مطابق کام کیا ہے۔ اب مد مقابل فریق 'ڈو مور' پر زور دے رہا ہے، ڈھٹائی دکھا رہا ہے، باج وصولنے کی کوشش میں ہے، اب اگر اس مرحلے پر ہمارے حکام استقامت اور مزاحت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو بالکل حق بجانب ہیں۔ اس پر کوئی ان کی سرزنش نہیں کر سکتا، انہیں استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور وہ استقامت کا مظاہرہ کر بھی رہے ہیں، مزاحمت کر رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے شروع ہی سے، مختلف امور میں، عقل و منطق کے مطابق عمل کیا۔ مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں بھی ہم نے عقل و منطق کو اپنے اقدامات کی بنیاد بنایا۔ قرارداد (598) کو قبول کرنے میں بھی ہم نے عقل و منطق کے تقاضوں کے مطابق کام کیا، جنگ کے بعد اب تک جو گوناگوں مسائل پیش آئے ان کے تعلق سے بھی ہمیشہ ہم نے منطق اور دلائل کے مطابق عمل کیا۔ اسلامی جمہوریہ نے کبھی بھی بے عقلی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ اس مسئلے میں بھی عقل و منطق کے مطابق ہی عمل کیا جا رہا ہے۔ مگر مد مقابل فریق، عقلی و منطقی بات سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔ ہمارا مد مقابل فریق بے عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زور زبردستی کی کوشش کر رہے ہیں، وہ خود بھی کہتے ہیں کہ ہم ایران کو مجبور کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ ایٹمی مشینوں کو مزید ڈیولپ کرنا بند کر دے، فلاں چیز کو روک دے، فلاں مرکز کو بند کر دے، وہ صحیح کہتے ہیں۔ایران نے مذاکرات کے منطقی تقاضوں کے مطابق یہ اقدامات انجام دئے ہیں۔ مگر وہ اب ڈو مور کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ملت ایران کسی دھونس اور دھمکی سے متاثر ہونے والی نہیں ہے۔
ہمارے حکومتی عہدیداروں نے جو عمل شروع کیا ہے اور جس کے لئے وہ محنت کر رہے ہیں، واقعی وہ بڑی عرق ریزی کر رہے ہیں، وقت دے رہے ہیں، انرجی صرف کر رہے ہیں۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ اگر ایک اچھا معاہدہ ہو جاتا ہے تو میں اس کے حق میں ہوں۔ میں بھی اس سے متفق ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ملت ایران بھی اس معاہدے کی مخالفت نہیں کرے گی جس میں اس قوم کی عزت و آبرو کو ملحوظ رکھا گیا ہو، اس کے احترام اور وقار کا خیال رکھا گیا ہو، اس کے مفادات کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا ہو۔ عوام اس کی حمایت کریں گے۔ لیکن لازمی ہے کہ ان باتوں کو ضرور ملحوظ رکھا جائے۔ ملت ایران کے وقار اور عزت کا اور سب سے بنیادی مسئلے یعنی قوم کی پیشرفت کا خیال رکھا جائے۔ ملت ایران کو دشمنوں کی دھونس اور دھمکیاں سننے کی قطعی عادت نہیں ہے، وہ زور زبردستی اور باج خواہی کے سامنے جھکنے والی نہیں ہے، پھر سامنے امریکا ہو یا کوئی بھی ملک ہو۔ ایک زمانہ تھا جب امریکا اور سابق سوویت یونین نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف اتحاد قائم کر لیا تھا، حالانکہ ان کے درمیان متعدد آپسی اختلافات تھے۔ سینہ زوری کرتے تھے۔ مگر اسلامی جمہوریہ ایران ہرگز ان کے دباؤ میں نہیں آیا۔ اسلامی جمہوریہ کو فتح ملی، اسلامی جمہوریہ کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس دفعہ بھی یہی ہوگا۔ آج بھی ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کسی بھی دباؤ میں نہیں آئے گا۔
یہ بات جو سننے میں آئی کہ فرماتے ہیں، کچھ مدت کے لئے کلی باتوں کے بارے میں اتفاق رائے کر لیا جائے اور پھر اس کے بعد تفصیلات اور جزوی باتوں کے بارے میں اتفاق رائے ہو۔ یہ بھی مجھے نہیں پسند ہے، یہ مجھے ٹھیک نہیں لگتا۔ مد مقابل فریق کے طور طریقوں کا جو تجربہ ہمیں ہے اس کے مد نظر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بعد میں تفصیلات اور جزوی امور پر اتفاق رائے کے سلسلے میں بہانے بازی کا ذریعہ بن جائے گا۔ اگر معاہدہ کرنا ہے تو کلی امور اور جزوی باتوں سب پر اتفاق رائے ایک ہی نشست میں ہو اور معاہدے پر دستخط کئے جائيں۔ کلیات پر الگ معاہدہ ہو اور پھر انہیں کلیات کی بنیاد پر جن میں کچھ مبہم چیزیں بھی ہیں، جن کی الگ الگ تشریح اور تفسیر کی جا سکتی ہے، وہ تفصیلات اور جزوی امور کی جانب بڑھیں گے، جی نہیں، یہ منطقی روش نہیں ہے۔
جو بھی معاہدہ ہونا ہے ہمارے حکام اور مد مقابل فریق کے درمیان بالکل واضح، روشن اور غیر قابل تاویل ہو جس کی الگ الگ تشریح کرنے کی گنجائش نہ ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ مد مقابل فریق جو دھوکے بازی اور سودے بازی کے ذریعے اپنا ہدف پورا کرنے کی کوشش میں ہے، ایک بار پھر مختلف امور کے بارے میں بہانے تراشنے کا موقع حاصل کر لے اور نئے نئے شگوفے چھوڑے، کاموں میں پیچیدگیاں پیدا کرے۔ نہیں، یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ دشمن کے ہاتھ سے پابندیوں کا حربہ چھین لیا جائے۔ اگر اس میں کامیابی ملے تو اچھا ہے۔ البتہ ضروری ہے کہ حقیقت میں پابندیوں کا حربہ دشمن کے ہاتھ سے چھین لیا جائے۔ معاہدہ اس طرح سے ہونا چاہئے۔ ورنہ اگر اس میں کامیابی نہ ملے تو پھر ملت ایران، حکام اور حکومتی عہدیداروں کے پاس بہت سے راستے موجود ہیں، ان راستوں کو طے کیا جانا چاہئے تاکہ پابندیوں کا حربہ بے اثر اور کند ہو جائے۔
ان شاء اللہ 22 بہمن (مطابق 11 فروری اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی تاریخ) کو ملت ایران ثابت کر دیگی کہ جو بھی ایرانی قوم کی تحقیر کرنے کی کوشش کرے گا، اسے ایران کے عوام کی منہ توڑ جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس معاملے میں پوری ایرانی قوم اور تمام ہمدرد فریق اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ کسی بھی ملک کے لئے قومی وقار کا مسئلہ بے حد اہم ہوتا ہے۔ اگر عزت باقی ہے تو سلامتی بھی ہوگي، سلامتی ہوگی تو ترقی کا راستہ بھی عملی طور پر طے کیا جا سکے گا۔ ورنہ اگر کسی قوم کو احساس حقارت میں مبتلا کر دیا جائے تو اس کا سب کچھ کھلواڑ بن کر رہ جائے گا۔ یہاں تک کہ اس کی سیکورٹی، حتی اس کا سرمایہ، ہر چیز کھلواڑ بن کر رہ جائے گی۔ قومی وقار کی حفاظت ہونی چاہئے۔ حکام کو اس حقیقت کا ادراک ہے۔ عوام ان شاء اللہ 22 بہمن کو اپنی شراکت کے ذریعے، اپنی قوت کا مظاہرہ کرکے، اپنے عزم راسخ کا منظر پیش کرکے، دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔
پالنے والے! ملت ایران کو اپنے لطف و کرم کے سائے میں رکھ، ہم سب کھ اپنی ہدایت و رہنمائی سے نواز۔ پروردگارا! مسلط کردہ جنگ اور اس سے پہلے اور بعد کے ادوار کے شہیدوں کو، مسلح فورسز اور فضائیہ کے تمام شہدا کو پیغمبر اکرم کے ساتھ محشور فرما۔ ہمارے عظیم قائد کو جو اس عظیم تحریک میں روح پھونکنے والے تھے، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ محشور فرما۔

و السّلام ‌علیکم ‌و رحمة الله ‌و برکاته‌

 

1- قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے کمانڈر، بریگیڈیئر جنرل حسن شاہ صفی نے ایک رپورٹ پیش کی۔
2- ولیم کوہن‌
3- صوبہ زنجان کے عوام سےخطاب مورخہ ۱۳۹۳/۰۷/۲۹ ہجری شمسی مطابق 21 اکتوبر سنہ 2014