1393/11/01ہجری شمسی مطابق 21-01-2015 کو قائد انقلاب اسلامی نے ایشیئن گیمز اور ایشیئن پیراگیمز میں میڈل جیتنے والوں کی شاندار کامیابیوں پر اظہار تشکر کرتے ہوئے ملی افتخارات کی شناخت اور قومی افتخار کے جذبے کو، اہم اور زیادہ بڑے افتخارات کی جانب کسی بھی قوم کی پیش قدمی کی تمہید قرار دیا اور فرمایا کہ یہ چیز کہ ایک نوجوان کھلاڑی، اپنی چیمپین شپ کو قوم کو نذر کرے اور عوام کے دلوں میں مسرت و افتخار کا جذبہ پیدا کرے، انتہائی قابل قدر ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے چیمپین بننے والے کھلاڑی پر تمام نگاہوں کے مرکوز ہو جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ چیمپین شپ کے بعد کھلاڑی کا طور طریقہ ملت، ثقافت، قومی تشخص اسی طرح ملت ایران کی روحانی استقامت کا آئینہ ہوتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے روحانی استقامت کی تشریح میں فرمایا کہ ایسی دنیا میں جہاں عالمی مراکز اور بین الاقوامی ابلاغیاتی سامراج نے الحاد اور بے عفتی کی ترویج کو اپنا ایجنڈا بنا رکھا ہے اور عریانیت و بے عفتی کا بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، ایک ایرانی نوجوان کھلاڑی کے ذریعے روحانی انداز کی پیشکش درحقیقت دنیا کی اس عظیم گمراہ کن لہر کے مد مقابل ملت ایران کی روحانی استقامت کا آئینہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

تمام عزیزوں، آپ نوجوانوں اور چیمپیئنس کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ سے یہ ملاقات بڑی مسرت بخش ہے۔ اگر ممکن ہوتا تو میں آپ سب سے فردا فردا ملاقات کرکے آپ کا شکریہ ادا کرتا۔ مگر ما شاء اللہ آپ کی تعداد زیادہ ہے لہذا ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ آپ تمام بہنوں اور بھائیوں اور آپ کے کوچ حضرات اور ذمہ داران کو اپنے لطف و کرم اور ہدایت و رہنمائی سے بہرہ مند فرمائے۔
جب بھی ہمارے نوجوان کسی بھی میدان میں اور کسی بھی مقابلے میں فتحیاب ہوتے ہیں تو ان کا خاص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ کیونکہ آپ کی کامیابی اور آپ کی چیمپیئن شپ ہمارے عوام کے اندر فخر کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ کسی بھی قوم کے لئے یہ چیز بہت اہمیت رکھتی ہے۔ قوموں کے دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ان کی حتی الامکان تحقیر کریں۔ تحقیر صرف یہ نہیں ہے کہ ان کی توہین کی جائے، انہیں گالیاں دی جائیں، سب سے بڑی تحقیر یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اپنی فرومایگی اور حقارت کا احساس بھر دیا جائے۔ جب کوئی قوم اپنے نمایاں کارناموں، اپنی اقدار اور اپنے افتخارات کی طرف سے غافل ہو جاتی ہے تو خود کو بہت حقیر اور انتہائی معمولی سمجھنے لگتی ہے۔ ایسی قوم پھر کسی منزل تک پہنچنے کے قابل نہیں رہ جاتی۔ ایسی قوم اور ایسے عوام پر ہر کس و ناکس حکومت کر سکتا ہے۔ قوموں کو چاہئے کہ اپنے افتخارات کو پہچانیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ قومیں بھی جن کا کوئی درخشاں ماضی نہیں ہے، کوئی اہم تاریخ بھی نہیں ہے، اپنا ماضی تراش لیتی ہیں، تاریخ بھی بنا لیتی ہیں، شخصیتیں بھی تیار کر لیتی ہیں، فلموں اور سیریئلوں وغیرہ کے ذریعے۔ تو پھر ہماری قوم جس کا تابناک ماضی رہا ہے، جو علم و دانش، ثقافت و تہذیب اور انسانیت کی تاریخ میں ہمیشہ فلک بوس چوٹیوں پر قدم جمائے نظر آتی ہے، برسوں اس پر احساس کمتری اور حقارت کا جذبہ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آپ خود بھی دیکھتے ہیں، سنتے ہیں وہ باتیں جو کہی جاتی ہیں اور قومی افتخارات کو کس طرح نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی بھی قوم کے اندر جذبہ افتخار ابھرتا ہے تو یہ اپنی جگہ پر بہت اہم پیشقدمی ہوتی ہے مزید بڑے افتخارات کی جانب۔ میں یہ دیکھ کر بہت محظوظ ہوتا ہوں کہ مقابلے کے میدان میں ہمارا نوجوان کامیاب ہوتا ہے تو اس کامیابی کو قوم کی خدمت میں پیش کرتا ہے، زبان سے کہہ کر بھی اور عملی طور پر پوری قوم کو مسرور و شادماں کرکے بھی۔ لوگوں کے دلوں میں فخر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ میرے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔ میں پیغام جاری کرتا ہوں، شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ دلی کے اندر جو جذبات اور کیفیات ہیں ان کا بہت چھوٹا سا حصہ ہوتا ہے۔ تو میں آپ سب کا شکر گزار ہوں۔
ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ جب آپ مقابلہ جیتنے کے بعد چیمپین شپ کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوتے ہیں تو اس وقت آپ پر دنیا کے کروڑوں لوگوں کی نگاہیں مرکوز ہوتی ہیں۔ اس وقت آپ کا انداز اور طور طریقہ آپ کی قوم کا تعارف کراتا ہے، آپ کی ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے، یہ آپ کے قومی تشخص کا تعارف ہوتا ہے، یہ بہت اہم ہوتا ہے کہ آپ کیا انداز اختیار کرتے ہیں۔ نوجوان خاتون حجاب میں جب چیمپیئن شپ کے پلیٹ فارم پر جاکر کھڑی ہوتی ہے تو یہ ثابت کر دیتی ہے کہ وہ اسقامت و پائيداری کا مظہر ہے، ظاہری اور باطنی حملوں کے مد مقابل جو کلچر مخالف، دین مخالف اور عفت و پاکدامنی کے دشمن عناصر کی طرف سے کئے جاتے ہیں۔ یہ خاتون اپنی جو شخصیت پیش کرتی ہے وہ شخصیت اس قوم کے تعارف کا درجہ رکھتی ہے جس سے اس کا تعلق ہے۔ وہ نوجوان جو مقابلہ جیتنے کے بعد سجدہ شکر ادا کرتا ہے، یا بلند آہنگ میں دین کی عظیم ہستیوں کا نام دہراتا ہے، یا اس لباس پر جو اس نے زیب تن کیا ہے، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا نام یا حضرت ابو الفضل العباس کا نام لکھتا ہے تو وہ در حقیقت اپنی قوم کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے، قوم کی روحانیت کا تعارف کرا رہا ہوتا ہے اور روحانیت و معنویت کے تعارف کے ساتھ ساتھ قوم کی استقامت و جذبہ پائيداری کا مظہر بھی قرار پاتا ہے۔
آج دنیا کے تشہیراتی ادارے روحانیت کو مٹانے، دین و مذہب سے معاشرے کو عاری بنانے، عفت و پاکدامنی کا تصور ہی ختم کر دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ صیہونیوں کا یہ عالمی سطح کا منصوبہ ہے جسے وہ ہر جگہ آگے بڑھا رہے ہیں اور روز بروز ان کی سرگرمیاں زیادہ مذموم ہوتی جا رہی ہیں۔ آپ فلموں، سیریئلوں وغیرہ کو دیکھئے اور پچاس سال اور سو سال قبل یورپی خواتین کی پوشاک کا آج کے پہناوے سے موازنہ کیجئے۔ پچاس سال قبل اور سو سال قبل یورپ میں جنسی اخلاقیات کی صورت حال کا آج کے ماحول سے موازنہ کیجئے۔ دیکھئے کتنی تبدیلی آ چکی ہے؟ اخلاقی پستی کا آج یہ عالم ہے کہ اگر آپ یہ اعلان کر دیجئے کہ ہم جنس پرستی کی حمایت نہیں کرتے تو آپ پر سب چڑھ دوڑیں گے! بڑی حیرت انگیز بات ہے۔ بے عفتی اور برہنگی پر فخر کرتے ہیں۔ جنسی مسائل میں اخلاقیات کو نظر انداز کرنے پر ناز کرتے ہیں۔ یعنی وہی چیز جس کا ذکر ہماری روایتوں میں ہے کہ معروف، منکر بن جائے گا اور منکر معروف قرار دے دیا جائے گا۔ آج مغربی دنیا میں یہی سب ہو رہا ہے۔ میڈیا اور ابلاغیاتی سامراج آج اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، جو پندرہ سال اور بیس سال کے مقابلے میں آج ہزاروں گنا زیادہ ہو چکی ہے، سوشل ویب سائٹوں کی وجہ سے، انٹرنٹ کے گوناگوں وسائل کی وجہ سے، وہ اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کے اس عظیم حجم کے ساتھ روحانیت اور اخلاقی قدروں کے خلاف پرچار میں مصروف ہے۔ ایسے میں ایرانی نوجوان اس ماحول میں قدم رکھتا ہے اور روحانیت و اخلاقیات کا مظہر بن کر ظاہر ہوتا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دل، یہ روح، یہ جذبہ، اس ہمہ گیر انحرافی طوفان کے مد مقابل کہسار کی مانند اپنی جگہ قائم رہنے پر قادر ہے۔ یہی چیز آپ کا تعارف کراتی ہے۔ بیشک آپ ورزش کے میدان میں چیمپیئن شپ جیتنے کے لئے عرق ریزی کرتے ہیں، کشتی کے مقابلوں میں بھی، ویٹ لفٹنگ میں بھی، ٹیموں کے مقابلے میں بھی، بے حد محنت کرتے ہیں، جانفشانی کرتے ہیں، خود کو سختیوں میں ڈالتے ہیں، لیکن آپ کی جو روحانی استقامت ہے وہ اہل نظر افراد کی نگاہ میں آپ کی جسمانی قوت اور استقامت سے کم نہیں بلکہ بسا اوقات اس کی اہمیت اور زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قوم ایسی قوم ہے جو تباہ کن اور ضرر رساں تشہیراتی اداروں کے پروپیگنڈے کے طوفان کا سامنا کرنے پر قادر ہے۔ ایسی دنیا میں جہاں عورتوں کی ہیئت کذائی کو پسند کیا جاتا ہے اور اس پر فخر کیا جاتا ہے۔ پانچ چھے سال پہلے میں نے ایک امریکی جریدہ دیکھا جس میں ایک رستوراں کا منظر تھا اس خصوصیت کے ساتھ کہ اس کے اندر کام کرنے والی ساری لڑکیاں تھیں، یہ بھی خصوصیت تھی کہ لڑکیاں عریاں یا نیم عریاں تھیں۔ ریستوراں کے مالک کو اس پر فخر تھا اور اس نے بڑے فخر کے ساتھ اپنی، اپنے ریستوراں کی اور ان لڑکیوں کی تصاویر میگزین مین چھپوائی تھی۔ تو ایسی دنیا میں جہاں غلط، ضرر رساں، مہلک اور گمراہ کن برہنگی کی دھڑلے سے ترویج کی جاتی ہے، ہمارے ملک کی لڑکی سامنے آتی ہے اور اپنی جگہ پر کھڑی ہوتی ہے، یا ہمارے لڑکے آکر کھڑے ہوتے ہیں اور میڈل دینے والی عورت سے ہاتھ نہیں ملاتے، تو ان چیزوں کی بڑی اہمیت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم مذہبی تعصب کی بنیاد پر کسی چیز کا پرچار کرنا چاہتے ہیں، نہیں یہ سب ملت ایران کی استقامت و پائيداری اور فولادی قوت ارادی کی علامتیں ہیں۔ یہی چیزیں کسی بھی قوم کی اہمیت کو بڑھاتی ہیں۔ ان چیزوں کی قدر کیجئے۔ جہاں تک ممکن ہو اس کی ترویج کیجئے۔ ورزش میں اگر روحانیت عام ہو جائے تو اس سے ورزش کو فروغ ملے گا، قوم کا وقار بھی بڑھے گا۔ بحمد اللہ ہمارے نوجوان دیندار اور مذہبی ہیں۔
قانون کی خلاف ورزی سے بھی سختی کے ساتھ اجتناب کرنا چاہئے۔ خواہ وہ عالمی سطح کے قوانین اور ضوابط کی خلاف ورزی ہو یا ملک کے داخلی قوانین کی خلاف ورزی ہو۔ ورزش پر خاص توجہ اور اسے اہمیت دینے کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اگر کہیں قانون کی خلاف ورزی ہو تو اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ ہرگز نہیں، قانون شکنی تو قانون شکنی ہے، اوپر سے لیکر نیچے تک، عہدیداران ہوں یا دیگر افراد ہوں، اہم اور چنندہ شخصیات ہوں یا دوسرے لوگ ہوں، علم و سائنس کے میدان کی ہستیاں ہوں، اسپورٹس کے میدان کے چیمپیئنس ہوں، صنعتی شعبے کے ماہرین ہوں، سیاسی میدان کی اہم شخصیات ہوں، جو کوئی بھی ہو، اگر قانون شکنی کرے تو اسے قرار واقعی سزا دی جائے۔ ورزش اور اسپورٹس کے شعبے میں کسی بھی طرح کی ڈھلائی ٹھیک نہیں ہے۔
میں شکریہ ادا کرتا ہوں، خاص طور پر ایشیئن گیمز کے سلسلے میں، خواہ وہ ایشیئن پیرا گیمز کے مقابلے ہوں یا ایشیئن گیمز کے مقابلے ہوں، آپ بحمد اللہ بھرے ہاتھوں کے ساتھ لوٹے ہیں۔ میں دیکھ رہا تھا، مشاہدہ کر رہا تھا۔ میں ٹیلی ویزن کے پروگرام اور رپورٹیں بہت زیادہ نہیں دیکھتا۔ یعنی میرے پاس اس کے لئے وقت نہیں ہوتا۔ لیکن جب اس طرح کی خبریں ہوتی ہیں، بڑی رغبت سے دیکھتا ہوں۔ آپ میڈل کے ساتھ اور قابل فخر کارکردگی کے ساتھ لوٹے ہیں، اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ آپ سب بھی اللہ کا شکر ادا کیجئے۔ جب بھی آپ کو کوئی قابل فخر کامیابی ملتی ہے تو یہ اللہ کی جانب سے ہوتی ہے: وَ ما بِکم مِن نِعمَةٍ فَمِنَ الله؛(۲) جو بھی نعمت آپ کو حاصل ہے، اللہ کی دی ہوئی ہے۔ جو جسمانی توانائی آپ کے پاس ہے، اللہ کی دین ہے، قوت ارادی جس کا اسپورٹس کے میدان میں چمپیئن شپ جیتنے میں فیصلہ کن کردار ہے، اللہ نے آپ کو عطا کی ہے، فیصلہ کرنے کی طاقت اللہ کی عطا کردہ ہے، اسی طرح یہ کامیابی بھی اللہ نے آپ کو دی ہے۔ اللہ کا شکر ادا کیجئے، شکر خدا کے کچھ لوازمات اور تقاضے ہوتے ہیں۔
آپ نوجوان جب مقابلوں مں کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں تو عوام الناس کے اندر آپ مقبول ہو جاتے ہیں۔ مقبولیت کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں، کچھ مسائل بھی ہوتے ہیں، ان چیزوں کو تحمل کرنا پڑتا ہے۔
جب آپ کو مقبولیت مل جائے تو یہ کوشش کیجئے کہ مقبولیت زمین تک محدود نہ رہے، زیارت امین اللہ میں آپ پڑھتے ہیں؛مَحبوبَةً فی اَرضِک وَ سَمائِک (3) ایسی مقبولیت اچھی ہوتی ہے۔ زمین میں بھی قبول عام حاصل کیجئے اور آسمان میں بھی خود کو پسندیدہ بنائیے۔ عالم ملکوت میں، فرشتوں کے درمیان بھی خود کو لائق محبت بنائیے کہ اولیائے خدا کی اوراح طیبہ بھی آپ سے محبت کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ کو ملک کے نوجوانوں میں مقبولیت ملتی ہے تو وہ آپ کو دیکھتے ہیں، آپ سے سیکھتے ہیں، آپ نمونہ عمل بن جاتے ہیں۔ آپ کا کوئی ایک اچھا کام نوجوانوں کے اندر دسیوں لاکھ نیک عمل کی انجام دہی کا باعث بن جاتا ہے۔ اس طرح آپ دیکھئے تو کتنی بڑی بات ہے! جب آپ ایک مستحسن فعل انجام دیتے ہیں، اچھا اخلاق پیش کرتے ہیں، اچھا سلوک پیش کرتے ہیں، اچھی بات بیان کرتے ہیں، اچھا ارادہ ظاہر کرتے ہیں تو چونکہ آپ آئیڈیل بن چکے ہیں لہذا وہ عمل دسیوں لاکھ دفعہ دہرایا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ اس طرح آپ معاشرے کے اندر نیک امور کی ترویج کا باعث بنتے ہیں۔ امر بالمعروف کا مطلب یہ ہے کہ آپ کوئی ایسا فعل انجام دیں جس سے اچھی چیزیں رائج ہوں، تو آپ اپنے اس عمل سے در حقیقت عملی طور پر امر بالمعروف انجام دیتے ہیں۔ اور اگر خدانخواستہ اس کے برخلاف فعل انجام پائے تو اس کا بھی یہی اثر ہوتا ہے۔ اگر یہ آئیڈیل شخص کسی جگہ، کسی مرحلے میں، کوئی ایسا عمل انجام دے، کوئی ایسا کام کرے جو اخلاقیات کے منافی ہو، پاکدامنی اور پرہیزگاری کے خلاف ہو تو یہ عمل بھی اگر لوگوں کی نظروں میں آ جائے تو آئیڈیل بن جائے گا۔ لہذا آپ اس بھی بہت خیال رکھئے، آپ کا یہ عمل بھی دہرایا جائے گا۔ اس لئے چیمپیئن بننا، مقبولیت حاصل ہونا، لوگوں کے دلوں میں جگہ پانا، دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ یہ بہت اچھی چیز ہے لیکن اس شرط پر کہ اس کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے اور اگر ہم اس کے لوازمات کی پابندی نہ کر سکیں تو یہی چیز بیحد خطرناک بن جاتی ہے۔ آپ کی خدمت میں بس یہی میرے معروضات تھے۔
اسپورٹس کے وزیر (4) نے جو نکات بیان کئے، بہت اہم تھے۔ جن عناوین کا ذکر کیا بہت اچھے تھے۔ جو چیزیں انہوں نے بیان کیں میرے بھی ذہن میں تھیں کہ آپ سے یہ کہوں کہ ترجیحات کی درجہ بندی کیجئے، عمومی ورزش کی ترویج کیجئے، عمومی ورزش عمومی صحتمندی کا باعث ہے۔ مقابلہ جاتی ورزش کے بارے میں بعض افراد کچھ تامل اور اعتراضات رکھتے تھے، میں نے ہمیشہ دفاع کیا، متعدد وجوہات کی بنا پر جن میں بعض کا میں نے ابھی ذکر کیا۔ عمومی ورزش قوم کی عمومی صحت کا راستہ ہے جو آج اس طرح سے عام نہیں ہے جیسی ہونی چاہئے۔ آپ شہری زندگی کو دیکھ رہے ہیں، جسمانی محنت کا فقدان، نامناسب غذا، دوسروں کی تقلید میں تیار کی جانے والی غذائیں جو شاپنگ سینٹرز میں فراہم کی جاتی ہیں اور لوگ بھی بڑی رغبت سے انہیں استعمال کرتے ہیں اور پھر جسمانی سرگرمیوں کی کمی، یہ صورت حال جسم میں کو کمزور کر دیتی ہے، جسم قوی رہنا چاہئے، صحتمند رہنا چاہئے، یہ چیز عمومی ورزش سے ممکن ہے، اس پر ضرور توجہ دی جانی چاہئے۔
اسپورٹس کے میدان کے جو اچھے افراد ہیں، دیندار لڑکے ہیں اور اپنے اچھے کاموں سے معاشرے کے اندر اچھے فعل کی ترویج کرتے ہیں، ان پر اگر کچھ تبصرے وغیرہ کئے جاتے ہیں تو وہ اس سے بالکل پریشان نہ ہوں، اس نکتہ چینی کو کوئی اہمیت نہ دیجئے۔ آپ جیسے ہی کوئی نیک عمل انجام دیتے ہیں، کچھ لوگ ہیں جو تاک میں بیٹھے رہتے ہیں اور اخبارات و جرائد وغیرہ میں، سوشل سائٹوں پر، فورا حملے شروع کر دیتے ہیں، ان پر آپ کوئی اعتنا نہ کیجئے۔ آپ ہمیشہ حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیجئے، اقدار اور اہم نکات کو سمجھئے، آگاہ اذہان و قلوب کیا چاہتے ہیں اس پر توجہ دیجئے۔
آپ کے وجود کی اس نعمت پر میں اللہ تعالی شکر ادا کرتا ہوں اور مجھے بہت خوشی ہے کہ بحمد اللہ ہمارا ملک چیمپیئنس کی پرورش کرنے والا ملک ہے۔ صرف اسپورٹس کے میدان میں نہیں بلکہ ہر میدان میں ہمارا ملک چیمپیئنس کی پرورش کر رہا ہے۔ علم و سائنس کے میدان میں بھی ہمارے ملک نے چیمپیئنس کی پرورش کی ہے۔ ایران کا انقلابی و اسلامی معاشرہ، مقدس اسلامی جمہوری نظام علم و سائنس کے میدان میں بھی چیمپیئنس کا مالک ہے، اخلاقیات کے شعبے میں بھی ہمارے پاس عظیم نمونے ہیں۔ گوناگوں میدانوں اور شعبوں میں چیمپیئنس ہیں۔ کچھ لوگ ہمیشہ زہریلا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ ان چیزوں کو بے وقعت ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حقارت سے دیکھتے ہیں۔ لیکن حقیقت وہی ہے جس کا میں نے ذکر کیا۔ اس ملک میں چیمپیئنس کی پرورش ایک عام چلن بن چکی ہے۔ اس سلسلے کو روز بروز زیادہ فروغ دینا چاہئے۔ یہ آپ کے ہاتھ میں ہے، حکام کے ہاتھ میں ہے، ان افراد کے ہاتھ میں ہیں جو معاشرے کے افراد کے ذہن پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ سب کے لئے دعا گو رہوں گا۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل اسپورٹس اور نوجوانوں کے امور کے وزیر ڈاکٹر محمود گودرزی نے اپنی تقریر میں اپنے شعبے کی سرگرمیوں کی بریفنگ دی۔
۲) سوره‌ی نحل، آیه‌ ۵۳
۳) اقبال‌الاعمال، صفحہ ۴۷۰
۴) جناب گودرزی‌