1393/11/27ہجری شمسی مطابق 26-02-2015 عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے تعلیم و تربیت کے شعبے کے شہدا پر کانفرنس، شہید طلبہ پر کانفرنس اور شہید فنکاروں پر کانفرنس کی منتظمہ کمیٹیوں کے ارکان سے ملاقات میں شہدیوں کو ہمیشہ خراج عقیدت پیش کئے جانے اور ان کی گراں بہا یادوں کو فراموش ہونے سے بچانے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ شہیدوں کی یاد میں نشستوں کا اہتمام در حقیقت جہاد اور شہادت کی روش کو زندہ رکھنے کی کوشش ہے اور ضروری ہے کہ معاشرے میں شہیدوں کی یاد اور ان کی زںدگي میں پائے جانے والے اہم نکات کی ترویج کی جائے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم الله الرّحمن الرّحیم (1)

بڑا نورانی، معطر اور پرمغز جلسہ ہے۔ جلسے میں جن افراد کو شہید کی حیثیت سے متعارف کرایا گيا وہ معاشرے کے منتخب اور اعلی صلاحیتوں کے مالک افراد ہیں۔ ان میں طلبہ ہیں، فنکار ہیں، اساتذہ ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ راہ خدا میں قربانی کا جذبہ اور اس راستے میں شہادت، ہمارے معاشرے میں مختلف سطح پر رائج ہے اور یہ بہت اہم چیز ہے۔ یونیورسٹی کا استاد آگے بڑھ کر جام شہادت نوش کرتا ہے۔ فنکار جاکر شہید ہوتا ہے۔ طالب علم شہادت کو گلے لگاتا ہے۔ مقدس دفاع کے ہمارے ان نامور بہادروں میں کہ جن کے ناموں سے ہماری سڑکیں اور مراکز مزین ہیں اور جن کی تصاور ہمارے ماحول کی زینت بڑھا رہی ہیں، اکثریت طلبہ کی تھی، جن میں بعض واقعی نابغہ تھے، اسی طرح ان میں بڑی تعداد فنکاروں کی تھی، اساتذہ کی تھی۔ اساتذہ جو گئے اور اپنی جانیں اور اپنی زندگیاں مادی امور میں اپنا سب سے قیمتی سرمایہ یعنی اپنی زندگی، راہ خدا میں، اعلی اہداف کے راستے میں، قربان کر دیا، نذرانے کے طور پر پیش کر دیا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔
خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقدہ یہ جلسے جہاد اور شہادت کے سفر کا تسلسل ہیں۔ اگر شہیدوں کا نام بار بار دہرایا نہ جاتا، اگر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ سلسلہ نہ ہوتا، اگر ان کا اور ان کے اہل خانہ کا خاص احترام ہمارے معاشرے میں ایک کلچر کی شکل اختیار نہ کرتا تو ان گراں بہا اور قیمتی یادوں میں سے بہت سی یادیں فراموش کر دی گئی ہوتیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ کلچر رائج ہو چکا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو شہادت کے ذریعے معاشرے میں جو اعلی قدریں وجود میں آتی ہیں وہ فراموش کر دی جاتیں۔ آپ آئندہ بھی ایسا نہ ہونے دیجئے گا۔ ہمارے معاشرے میں شہدا کا ذکر، ان کے ناموں کا تذکرہ اور ان کی زںدگی میں پائے جانے والے اہم نکات کا جائزہ روز بروز زیادہ وسیع سطح پر رائج ہونا چاہئے۔ جب یہ ہو جائے گا تو پھر شہادت یعنی راہ خدا میں ہمہ جہتی مجادہت معاشرے میں دائمی بنیادوں پر عام ہو جائے گی۔ اگر ایسا ہو گيا تو پھر معاشرے کی شکست کا کوئی تصور ہی باقی نہیں رہے گا، شکست کا کوئی مفہوم ہی نہیں رہ جائے گا، معاشرہ پیشرفت حاصل کرے گا۔ بعینہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے واقعے کی مانند۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو آج تیرہ سو سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ بیت چکا ہے، مگر یہ واقعہ روز بروز زیادہ نمایاں اور تازہ نظر آتا ہے۔ اس واقعے میں ایسے مضامین مضمر ہیں جو اسلامی معاشرے کی زندگی کے لئے لازمی ہیں۔ اگر یہ مضامین ہر چار سو پھیلے نہ ہوتے تو اسلام، قرآن اور اسلامی معارف کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ یہی چیز ہمارے یہاں بھی ہے۔ آپ شہدا کا نام اور شہدا کا تذکرہ فراموش نہ ہونے دیجئے، اس پر کہنگی کی گرد نہ بیٹھنے دیجئے۔ البتہ جدت عملی کے ساتھ یہ کوشش ہونی چاہئے۔ خراج عقیت کے لئے یہ جو جلسے منعقد کئے جاتے ہیں، اور جو اپنی جگہ بہت اہم بھی ہیں، صرف ایصال ثواب کے پرشکوہ پروگرام نہیں ہیں۔ یہ جلسے بڑے خاص اور عمیق معانی کے حامل ہیں۔ یہاں شہادت کے حقیقی معنی بیان ہونے چاہئے، شہید کا تعارف کرایا جانا چاہئے، ان کے ذریعے معاشرے میں شہادت کے کلچر کو مزید دوام ملنا چاہئے۔
شہید کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَ لا تَقولوا لِمَن یقتَلُ فی سَبیلِ اللهِ اَموات(۲) وَلا تَحسَبَنَّ الَّذینَ قُتِلوا فی سَبیلِ اللهِ اَمواتًا بَل اَحیآءٌ عِندَ رَبِّهِم یرزَقون* فَرِحینَ بِمآ ءاتهُمُ اللهُ مِن فَضلِه (۳) یہ آیات قرآن ہیں۔ یہ نمایاں معارف ہیں، ان معرفتوں سے کوئی بھی مسلمان چشم پوشی نہیں کر سکتا۔ قرآن اور اسلام پر جو بھی عقیدہ رکھتا ہے اس کی نگاہوں کے سامنے یہ معارف اور حقائق ہونے چاہئے۔ قرآن کی یہ آیہ شریفہ کہتی ہے کہ یہ لوگ زندہ ہیں، ان کی زندگی ایک حقیقی زندگی ہے، روحانی زندگی ہے، اللہ تعالی کی بارگاہ سے انہیں رزق حاصل ہو رہا ہے، یعنی فضل پروردگار دائمی طور پر ان کے اوپر نازل ہو رہا ہے: فَرِحینَ بِمآ ءاتهُمُ اللهُ مِن فَضلِه۔ زندگی و موت کی سرحد کے دوسری جانب کیا صورت حال ہے؟ اس دنیا اور اس عالم کے بارے میں انسانوں کو کیا معلوم ہے؟ شہدا کے بارے میں ہم اتنا جانتے ہیں کہ وہ خوش و خرم ہیں، مسرور و شادماں ہیں؛ فَرِحینَ بِمآ ءاتهُمُ اللهُ مِن فَضلِه، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر: وَ یستَبشرونَ بِالَّذینَ لَم یلحَقوا بِهِم (۴) یعنی وہ ہم سے کچھ کہہ رہے ہیں، وہ ہم سے مخاطب ہیں؛ اَلّا خَوفٌ عَلَیهِم وَلا هُم یحزَنون (۵) یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ شہدا کی ملکوتی آواز کو سننے پر قادر سماعت ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے۔ وہ ہمیں بشارت دے رہے ہیں، مژدگانی سنا رہے ہیں، خوف و حزن کی نفی کر رہے ہیں؛ اَلّا خَوفٌ عَلَیهِم وَلا هُم یحزَنون۔ ہم اپنی بے بضاعتی کی وجہ سے خوفزدہ ہوتے ہیں مگر وہ ہم سے کہتے ہیں کہ کوئی خوف نہیں ہے، کوئی حزن نہیں ہے۔ مفسرین کے درمیان اس آیہ شریفہ کے تعلق سے جو اختلاف نظر ہے اس کے مطابق وہ یا تو اپنے بارے میں یہ بات کہتے ہیں یا ہمارے بارے میں ان کی یہ خوش خبری ہے۔ بہرحال خوف و حزن کی نفی کرتے ہیں، عالم دنیا میں بھی اور عالم آخرت میں بھی۔ کسی بھی قوم کے لئے یہ کتنی اہم بات ہوتی ہے کہ پیش قدمی کے عمل میں اسے کسی طرح کا کوئی خوف و اندیشہ نہ ہو، کوئی حزن نہ ہو۔ پوری امید کے ساتھ آگے بڑھے۔ ہمارے لئے یہ شہدا کا پیغام ہے۔ اس پیغام کو سننا چاہئے۔ آپ جو یہ جلسے اور اجتماعات منعقد کر رہے ہیں، آپ کا فرض ہے کہ اس پیغام کو کانوں تک پہنچائیں۔
ہمارے برادر عزیز (6) نے بڑا اچھا نکتہ بیان کیا کہ جب کسی شہید کی یاد میں جلسہ تشکیل پاتا ہے تو جو افراد اس میں شرکت کرتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی مرتبے اور مقام پر فائز ہوں، ان کے وجود سے اس جلسے کو جو برکت، عظمت اور منفعت ملتی ہے اس سے کہیں زیادہ خیر و برکت اور ہدایت و معرفت یہ جلسہ ان شرکاء کو عطا کر دیتا ہے۔ آپ ایسا انتظام کیجئے کہ ان جلسوں سے یہ برکتیں حاصل ہوتی رہیں۔ اس سلسلے کو بڑھائيے، اس ثقافت کو معاشرے میں وسعت دیجئے۔ ملت ایران نے بڑا نمایاں کام انجام دیا ہے، عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جو بڑی طاقتوں کی دھونس اور دھمکیوں، اور ان کی لوٹ کھسوٹ کے محور پر گھوم رہی ہے اور دنیا کے بہت سے علاقوں میں مستضعف اقوام مستقل طور پر ان طاقتوں کے دباؤ رہتی ہیں۔ ایسی دنیا میں ایک نئی شناخت اور نیا تشخص نظر آتا ہے جو صریحی طور پر اور کسی کا کئی لحاظ کئے بغیر پوری شجاعت سے دنیا کی اس غلط روش کی نفی کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ملت ایران نے تسلط پسندانہ نظام کی نفی کی ہے جو سامراجی طاقتوں اور سامراج کی نشانہ بننے والی اقوام پر مشتمل ہے۔ لٹیری طاقتوں کی اصلی بنیاد ہی دنیا کو تسلط پسند طاقتوں اور تسلط کی شکار اقوام کے درمیان تقسیم کئے جانے پر ٹکی ہوئی ہے۔ آج بھی یہی صورت حال جاری ہے۔ جس زمانے میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا، اس وقت بھی یہی صورت حال تھی، ماضی کی تاریخ میں بھی یہ سلسلہ رہا ہے۔ البتہ آج کی شدت ماضی سے زیادہ ہے۔ کیونکہ اس وقت تسلط کے وسائل کا سو سال قبل، ہزار سال قبل اور پانچ ہزار سال قبل کے وسائل سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مظلومین اور مستضعفین پر تسلط اور غلبہ حاصل کرنے کے وسائل و امکانات کی کثرت ہے اور وہ ان وسائل کو پوری طرح استعمال کر رہے ہیں۔ ذخائر کو لوٹتے ہیں، ثقافتوں کو نابود کرتے ہیں، انسانوں کی توہین کرتے ہیں، مظلوم و محروم اقوام میں بھکمری پھیلاتے ہیں اور دوسرے گوناگوں المئے (رقم کرتے ہیں)۔ اس سلسلے کے خلاف اسلامی انقلاب نام کی ایک حقیقت نمودار ہوئی جو روحانی بنیادوں پر، الوہی بنیادوں پر، الوہی اخلاقیات پر، ملکوتی روش پر اور قرآن کے صریحی فرمودات پر استوار تھی۔ یہ ملت ایران کی تحریک تھی۔ بحمد اللہ یہ تحریک روز بروز وسیع تری ہوتی رہی اور آگے بڑھتی گئی۔
ہمیں یہ دعوی نہیں ہے کہ ملک میں اسلامی اہداف کے حصول میں ہم کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم ہرگز یہ دعوی نہیں کرتے۔ بہت سے مراحل ایسے ہیں جہاں ہماری توانائی محدود تھی، ہم جو کرنا چاہتے تھے انجام نہیں دے پائے، اس مطلوبہ سطح تک عمل نہیں کر سکے، لیکن ہم نے اپنے سفر کو جاری رکھا اور بلند چوٹی کی جانب ہم رواں دواں ہیں۔ ہمیں اس راستے سے دست بردار ہونے پر مجبور کرنے کی کوششیں ہوئیں لیکن وہ ناکام رہیں۔ ہماری پیش قدمی کے عمل کو روکنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش ناکام رہی۔ ہمیں واپس پلٹانے کی کوششیں ہوئیں لیکن یہ کوششیں لاحصل رہیں۔ بیشک ہم بلند چوٹی پر نہیں پہنچ سکے ہیں، لیکن پہاڑ کے دامن میں ہم کافی آگے بڑھ چکے ہیں، ہم نے کافی پیشرفت حاصل کی ہے اور ہمارا سفر جاری ہے، یہ جذبہ اب بھی جوان ہے اور روز بروز ان شاء اللہ اس جذبے میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ یہ سفر رکنے والا نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کچھ لوگ یہ سوچتے تھے اور کچھ تو کہتے بھی تھے کہ جناب آپ ان نوجوان طالب علموں کو محاذ جنگ پر لے جا رہے ہیں، حالانکہ حقیقت میں ہم نہیں لے جاتے تھے وہ خود اپنی رغبت اور شوق سے جاتے تھے، جن نوجوانوں کو منع کر دیا جاتا تھا وہ مختلف بہانوں اور کوششوں سے اپنے متعلقین کو اجازت دینے پر تیار کر لیتے تھے۔ کچھ افراد کہتے تھے کہ اس طرح یونیورسٹیاں خالی ہو جائیں گی، علم کا کارواں رک جائے گا۔ مگر ان کی محنت اور ان کی مجاہدت کی برکت دیکھئے کہ ہم اپنی علمی تحریک میں معاشرے میں دوسری تمام تحریکوں کی نسبت زیادہ آگے پہنچے۔ بحمد اللہ آج ملکی سطح پر علمی تحریک کی صورت حال اطمینان بخش بلکہ افتخار آمیز ہے۔ اس زمانے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس زمانے میں تو لوگ کہتے تھے کہ اگر یہ نابغہ طالب علم، یہ فنکار، یہ علمی شخصیت اور یہ استاد محاذ جنگ پر جاکر قتل ہو جاتا ہے تو خلا پیدا ہو جائے گا۔ معلوم ہوا کہ راہ خدا میں جہاد اور شہادت کی برکت اس حساب کتاب سے بہت بالاتر ہے۔ وہ چلے گئے لیکن آج بحمد اللہ ایسی نمایاں ہستیاں نمودار ہوئیں جو علم و سائنس کے میدان میں، فن و ہنر کے میدان میں، مختلف شعبوں میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ یعنی بین الاقوامی سطح پر پیش کئے جانے کے قابل ہیں۔ یہ ایک قوم کی جدوجہد کی برکتیں ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ پیش قدمی جاری رہے گی اور قوم آگے بڑھتی رہے گی۔
میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ ملک کی ایک بنیادی ضرورت ہے شہدا کے ناموں کو زںدہ رکھنا۔ خواہ وہ دیندار قسم کے مقدس افراد ہوں یا اتنے دیندار افراد نہ ہوں مگر اس ملک کے مستقبل اور عوام کے مستقبل سے دلچسپی رکھتے ہوں، وہ جس نہج پر بھی سوچتے ہوں؛ سبھی کے لئے شہداء کو یاد کرنا ملک کے مستقبل کے لئے حیاتی اور ضروری امر ہے۔ شہادت کے کلچر کا مطلب ہے تمام عوام کے مشترکہ اور دراز مدتی اجتماعی اہداف کے لئے اپنی زندگی کے سرمائے کو صرف کرنا۔ البتہ جو اہداف ہمارے مد نظر ہیں وہ صرف ملت ایران تک محدود نہیں ہیں، ان کا تعلق عالم اسلام بلکہ دنیائے انسانیت سے ہے۔ اگر معاشرے میں یہ کلچر عام ہو گيا تو یہ مغرب کے اس 'Individualism ' (انفرادیت) کے کلچر کے بالکل برعکس چیز ہوگی، جو ہر چیز کو کسی بھی شخص کے ذاتی مفاد اور اغراض و مقاصد کے دائرے میں تولتا ہے۔ وہ ہر چیز کی قیمت پیسوں اور سکوں سے لگاتے ہیں اور ہر چیز کو پیسہ کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ ثقافت مغربی کلچر کے برخلاف سمت میں آگے بڑھتی ہے۔ یعنی «وَ یؤثِرونَ عَلی اَنفُسِهِم» (۷) یعنی ایسے لوگ بھی ہیں جو ایثار کرتے ہیں، ایثار کی ثقافت، قربانی کی ثقافت، معاشرے اور عوام الناس کے مستقبل کے لئے خود کو قربان کر دینے کی ثقافت پر چلتے ہیں۔ اگر یہ ثقافت عام ہو جائے تو جس ملک اور جس معاشرے میں بھی یہ ہوگی، اس کی پیشرفت کا عمل کبھی رکے گا نہیں، وہ معاشرہ کبھی بھی پسماندگی سے دوچار نہیں ہوگا، ہمیشہ آگے بڑھتا رہے گا۔ آپ کا یہ عمل اس ثقافت کو زندگی عطا کرنے والا ہے۔ بنابریں میں تمام خواہران و برادران گرامی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو اس نیک کام میں تعاون کر رہے ہیں اور اس میں شریک ہیں۔ دعا کرتا ہوں کہ آپ سب کامیاب ہوں۔ یہ تین گروپ جو اس وقت یہاں تشریف فرما ہیں؛ شہید فنکاروں کی قدردانی کی کانفرنس کی منتظمہ کمیٹی، شہید طلبہ کی قدردانی کی کانفرنس سے متعلق منتظمہ کمیٹی اور شہید اساتذہ کی قدردانی کی کانفرنس سے متعلق کمیٹی، ان میں ہر گروپ اپنی جگہ پر بڑا اہم، بامعنی اور پرمغز کام انجام دے رہا ہے۔ ان شاء اللہ اس کے اثرات کا مشاہدہ ہم معاشرے کی سطح پر کریں گے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله

۱) اس ملاقات میں شہید طلبہ، شہید فنکاروں اور شہید اساتذہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقد ہونے والی کانفرنسوں کی منتظمہ کمیٹیوں کے اراکین شریک ہوئے۔
۲) سوره بقره، آیت نمبر ۱۵۴ کا ایک حصہ
۳) سوره آلعمران، آیت نمبر 169 اور 170 کے ٹکڑے؛ « راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو ہرگز مردہ نہ سمجھنا، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی طرف سے روزی پا رہے ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنے فضل سے انہیں جو عطا کیا ہے اس پر مسرور و شادماں ہیں۔ ...»
۴) ایضا؛ « اور ان لوگوں کے لئے جو ان سے ملحق نہیں ہوئے نوید دیتے ہیں۔...»
۵) ایضا؛ «...کہ ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ رنج ہے۔»
۶) جناب حسین مسافر آستانه
۷) سوره حشر آیت نمبر 9 کا ایک حصہ ؛ «...ان کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں۔...»