اپنے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے ملکی مسائل کا جائزہ لیا اور اتحاد و یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے دنیا میں اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کی درجہ بندی اور اصلی دشمنوں کی طرف سے ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے حکومت کی جانب سے عوام کی خدمت کا ذکر کیا اور ملک میں بڑے پیمانے پر انجام پانے والے ترقیاتی کاموں کی نشاندہی کی۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
 
بسم اللہ الرحمان الرحیم
الحمد للّہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدین المعصومین۔ سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

آٹھویں امام حضرت امام علی رضا علیہ الاف التحیۃ و الثناء کے روضہ مبارک میں نئے سال کا آغاز، سب کے لئے ایک توفیق الہی ہے۔ مشہد کے عوام کے لئے بھی جو پورے سال اس نعمت عظمی سے بھرہ مند رہتے ہیں اور (بیرونی) زائرین کے لئے بھی جو شوق و اشتیاق کے ساتھ دوسرے علاقوں سے تشریف لائے ہیں۔ اس روضہ مبارک اور اس نورانی و معنوی مرکز الہی کے زیر سایہ اس باریابی نے ہمیں اس بات کا موقع فراہم کیا ہے کہ اپنے ان فرائض پر توجہ دیں جو عام طور پر آغاز سال سے مخصوص ہیں۔ وہ فرائض جو تمام اقوام اور تمام ملکوں کے ادوار سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں میں سے ایک ہے 'سال' جس کی مدد سے ہم اپنی عمر، زندگی اور تاریخ کا حساب کرتے ہیں۔
یہاں میں یہ نکتہ بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ ایرانی قوم وہ واحد قوم ہے جس کے قمری کیلنڈر کا مبدا بھی اورشمسی کیلنڈر کا مبدا بھی، رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ہجرت کو قرار دیا گیا ہے۔ قمری سال پہلی محرم سے شروع ہوتا ہے۔ ایرانی قوم کے ساتھ ہی دیگر مسلم اقوام کے قمری سال بھی محرم سے ہی شروع ہوتے ہیں۔ لیکن ضروری حساب کتاب کے لئے جنہیں محکم اور آسان ہونا چاہئے، بقیہ مسلم اقوام عیسوی سال کی بنیاد پر کام کرتی ہیں۔ صرف ہماری قوم ہے جس کے شمسی سال کا مبدا بھی ہجرت پیغمبر اسلام ہے۔ یعنی در اصل عید نوروز سے جو شمسی سال کا پہلا دن ہے پیغمبر اسلام کی ہجرت، عظیم اسلامی ہجرت اور اسلامی حکومت کے معرض وجود میں آنے (کی تاریخ) میں ایک اور سال کا اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارا شمسی سال بھی ہجری (شمسی) ہے اور یہ افتخار صرف ایرانی قوم کو حاصل ہے۔ یہ موضوع ماضی بعید سے مد نظر رکھا گیا ہے، اس کا تعلق حالیہ برسوں سے نہیں ہے اور یہ بات حتی تاریخ کے مسئلے میں بھی اسلامی مسائل سے اس قوم کی دلچسپی کی عکاسی کرتی ہے۔
ابتدائے سال کے فرائض میں سے ایک یہ ہے کہ ہر ایک اپنے حالات کا جائزہ لے اور اپنا حساب کتاب کرے۔ اپنے ذاتی امور کا بھی حساب کرے اور عمومی مسائل کا بھی، اپنی ذات کا بھی، اور بحیثیت قوم جماعت کے امور کو بھی دیکھے۔ یہ بہت اچھا موقع ہے کہ انسان پیچھے مڑ کے دیکھے، جو غفلتیں اس سے سرزد ہوئی ہیں، جو کوتاہیاں ہوئی ہیں، جو نامناسب کام اس سے سرزد ہوئے ہیں اور اسی طرح اپنے اچھے کاموں کا بھی ایک بار پھر جائزہ لے۔ میرے عزیز بھائیو اور بہنو! اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کو اپنی عادت بنا لیں کہ جب بھی نیا سال آئے تو ابتدائے سال کے موقع پر اپنے ماضی پر ایک نظر ڈالیں۔ ہر مثبت اور منفی پہلو ہمیں ایک پیغام دیتا ہے۔
میں نے نئے سال کے آغاز پر ایران کی عزیز قوم اور دوسروں کے نام اپنے پیغام میں کچھ باتیں عرض کی ہیں۔ اس پیغام میں، گزشتہ سال کے بارے میں اہم نکات جو مجھے نظر آئے، انہیں اجمال کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جن امور پر مجھے توقع ہے کہ میری عزیز قوم توجہ دیگی، انھیں اختصار کے ساتھ عرض کیا۔ آج گزشتہ سال کے بنیادی مسائل کے بارے میں اور اسی طرح ان ایام اور اس سال سے متعلق جو شروع ہوا ہے، اپنی قوم کے اہم مسائل کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
پہلی بات جو مشہد کے عزیز اور مومن باشندوں سے تعلق رکھتی ہے اور اس کو عرض کرنا ضروری ہے، یہ ہے کہ جو انتخابات انجام پائے، ان کے لئے ہم نے پوری ایرانی قوم کا شکریہ ادا کیا؛ اس لئے کہ انتخابات کا بہت اچھا استقبال کیا گیا۔ لیکن مشہد کے عوام کا ایک خصوصی شکریہ بھی ادا کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ جو رپوررٹ مجھے ملی سے اس کے مطابق مشہد میں، انتخابات میں عوام کی شرکت میں گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں پچاس فیصدی کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ بہت بڑا ہے جو اچھی باتوں کی عکاسی کرتا ہے اور تجزیہ نگاروں کو کافی دقت نظر کے ساتھ تجزیہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ البتہ اس طرح کی نمایاں مثالیں دوسری تمام جگہوں پر بھی دیکھی گئی ہیں اور مشہد کے تعلق سے یہ بات خصوصی طور پر نمایاں تھی جس کی طرف اشارہ کیا گیا۔
اگر کوئی ہمارے ملک کی (ترقی و پیشرفت سے متعلق) رپورٹوں سے کسی قدر واقف ہو تو جیسا کہ اس پیغام میں عرض کیا گیا، دیکھے گا کہ گزشتہ سال بہت اچھا سال تھا اور اس میں بہت کام ہوئے۔ واقعی ( اکیس مارچ انیس سو پچانوے سے شروع ہونے والے) گزشتہ سال کے دوران پورے ملک میں علمی، اخلاقی اور معنوی شعبوں میں، ملک کی تعمیر میں، انقلابی اقدار کے احیا میں ظالم شاہی حکومت اور اسی طرح مسلط کردہ جنگ کے زمانے کی تباہیوں کے دور کرنے میں ہزاروں اہم کام انجام پائے یا انجام دیئے جا رہے ہیں جو اس سال یا بعد کے برسوں میں مکمل ہو جائیں گے۔ واقعی کام، سعی و کوشش، پیشرفت، ملک کی عمومی دولت و ثروت بڑھانے اور گوناگوں تعمیرات کے شعبوں میں ملک میں عظیم تحریک شروع ہوئی ہے۔
واقعی اگر کوئی اس ملک کا دوسرے تعمیر یافتہ ملکوں سے موازنہ کرنا چاہے تو دیکھے گا کہ اسلامی جمہوریہ نے اس نقطہ نگاہ سے ایران کی عظیم قوم کو ایک پر افتخار دور کا تحفہ دیا ہے۔ معنوی پہلو، سیاسی مسائل اور آزادی و خود مختاری اپنی جگہ پر، ملک کی تعمیر کے لحاظ سے اس قوم کے لئے (اسلامی جمہوری حکومت کے دور میں) جو کچھ کیا گیا ہے اور جو انجام دیا جا رہا ہے وہ باعث افتخار ہے۔
دنیا میں ایسے لوگ ہیں جو درس حاصل کرتے ہیں اور ایرانی ماڈل کی پیروی کرتے ہیں۔ بہت سے ہیں جو ایرانی قوم کی تعریف کرتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو اس قوم سے حسد اور دشمنی رکھتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حقائق کا پتہ ہی نہیں ہے، ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ جب تک قلم دشمن کے ہاتھ میں ہے، جو کچھ ان سے بن پڑتا ہے ایرانی قوم کے خلاف لکھتے ہیں اور جو ان کے منہ میں آتا ہے کہتے ہیں۔ اس وقت تک یہ گلہ نہیں کیا جا سکتا کہ کسی عرب، افریقی یا یورپی ملک کے لوگ ایران کے حالات سے بے خبر کیوں ہیں؟ البتہ ہم بھی حتی الوسع تشہیرات انجام دیتے ہیں، ہمارے ذرائع ابلاغ اپنا کام کرتے ہیں لیکن دشمن کے پروپیگنڈوں کی رسائی زیادہ ہے۔ دسیوں ریڈیو نشریات اور سیکڑوں اخبارات و جرائد اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور لکھنے میں مصروف ہیں۔
لکھیں! اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس قوم کا عزم و ارادہ، اس کا توکّل اور ملک کے حکام کی تدبیر اہمیت رکھتی ہے؛ جن کے ذمے اس قوم کی پلاننگ اور منصوبہ بندی نیز قوم کی دولت و ثروت کی حفاظت ہے۔ یہ چیزیں اہمیت رکھتی ہیں۔ جب یہ کام انجام پائیں تو دشمن جو چاہے کہے جو چاہے لکھے، گالیاں بکے! ان چیزوں سے ہماری پیشرفت نہیں رکے گی۔
دنیا کے کسی گوشے میں کسی روزنامے میں، کسی مضمون میں یا کسی قلمکار کی تحریر میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف کچھ لکھا جاتا ہے یا کوئی سیاستداں کچھ کہتا ہے تو کچھ لوگ گھبرا جاتے ہیں، ناراض ہوتے ہیں، پریشان ہو جاتے ہیں اور غصے میں آ جاتے ہیں۔ ان کے برعکس میں کہتا ہوں کہ جو کہنا چاہیں کہیں۔ جب قوم نے خود کو اور اپنے راستے کو پہچان لیا، فیصلہ کر لیا اور محکم عزم و ارادے کی مالک ہے تو دشمن جو چاہیں کہیں۔ جب یہ معلوم ہو کہ دشمن جو کہتا ہے، دشمنی کی وجہ سے کہتا ہے تو اس سے اس قوم کا عزم و ارادہ اور پختہ ہوگا، اس کے قدم اور مضبوط ہوں گے، خدا پر اس کا توکل بڑھ جائے گا، امیدیں زیاہ درخشاں ہو جائيں گی اور اس کا مستقبل خدا کے فضل و کرم سے حال سے بہتر ہوگا۔
یہ قوم ہے، اس کا ارادہ ایسا ہے، ایمان ایسا اور فیصلہ ایسا ہے اور خدا کے فضل سے حکومت ایسی ہے کہ جذبہ خدمت گذاری اور ہمدردی کے ساتھ بہت سنجیدگی سے کام کر رہی ہے، پیداوار بڑھا رہی ہے، تجارت میں فروغ لا رہی ہے، تعمیراتی کام کر رہی ہے اور درآمدات و برآمدات کو بڑھا رہی ہے۔ الحمد للّہ ثقافت اور اقتصاد وغیرہ، سبھی شعبوں میں کام کر رہی ہے۔
البتہ مجھے تھوڑی سی فکر بھی ہے۔ جو آج سے نہیں ہے بلکہ برسوں سے ہے اور وہ یہ ہے کہ ایرانی قوم کی معیشت کو تیل سے الگ ہونا چاہئے۔ یہ بات میں نے حال ہی میں خدمت گذار حکومت کے گوش گذار کی ہے کہ اس کے لئے منصوبہ بندی کرے۔ حکومت پلاننگ کر رہی ہے اور کچھ کام انجام بھی دیئے گئے ہیں۔ ہمیں ایسی تدبیر اپنانی چاہئے کہ ہماری قوم اور حکومت کا انحصار تیل پر نہ رہے۔ اس لئے کہ آج افسوس کا مقام ہے کہ دنیا میں تیل، بین الاقوامی سیاست، بڑی کمپنیوں، غارتگروں، عالمی لٹیروں اور سامراجی طاقتوں کے کنٹرول میں چلا گیا ہے۔ در حقیقت تیل ان کی مٹھی میں ہے۔ جب چاہتے ہیں اس کی قیمت نیچے لاتے ہیں، پیداوار کم یا زیادہ کرتے ہیں، جس کو چاہتے ہیں اس کو حلقے سے باہر کر دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں اس کو اس حلقے میں داخل کرتے ہیں۔ تیل ہمارا ہے لیکن تیل کی سیاست دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ سرمایہ مشکل ساز ہے۔
البتہ ہماری حکومت آج تیل سے حد اکثر استفادہ کر رہی ہے اور اس کو کرنا بھی چاہئے۔ لیکن اس کو ایسا کرنا چاہئے کہ ایک دن دنیا میں اعلان کر سکے کہ آج سے چھے مہینے تک، یا ایک سال تک یا چالیس دن تک، ہم تیل کے کنویں بند رکھیں گے۔ تیل کا ایک قطرہ بھی برآمد نہیں کریں گے۔ حکومت اس فیصلے پر قادر ہونی چاہئے۔ اس کو تیل کا محتاج نہیں ہونا چاہئے۔
ہمارے پاس دولت وثروت، قدرتی ذخائر اور داخلی پیداوار بہت زیادہ ہے۔ ملک کے اندر دولت پیدا کرنے کے وسائل کافی ہیں۔ ایک زمانے میں جنگ کی وجہ سے یہ کام عملی نہیں تھے، لیکن آج الحمد للّہ یہ کام عملا انجام دئے جا سکتے ہیں۔ انہیں انجام دیا جانا چاہئے، یہ کام انجام دیں۔ حکومت یہ کام کر رہی ہے اور اس کو کرنا بھی چاہئے۔ ہم نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے، گوش گذار کیا ہے کہ یہ کام شروع ہوں۔ تمہیدی اقدامات انجام پا رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک سال، دو سال، تین سال یا پانچ سال میں اس منصوبے کا نتیجہ سامنے آ جائے۔ اگر خدا کے فضل سے یہ کام ہو گیا تو ملک کی بہت سی مشکلات کم ہو جائيں گی۔ لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ پوری قوم، وہ سب لوگ جو توانا بازو رکھتے ہیں، صاحب فکر و قلم ہیں، زبان گویا اور بیدار دل کے مالک ہیں، سب متحد رہیں اور اسی اتحاد کے ساتھ جو آج قوم میں پایا جاتا ہے، سعی و کوشش کریں اور عوام کو تفرقے میں پڑنے سے بچائیں۔
اس قوم کے لئے اتحاد ہر چیز سے زیادہ ضروری ہے۔ اتحاد و اتفاق نے اس قوم کو سخت اور دشوار بحرانوں سے نجات دلائی ہے۔ الحمد للّہ آج ہمیں کسی بحران کا سامنا نہیں ہے۔ کسی بڑی اور غیر معمولی مشکل سے ہم دوچار نہیں ہیں۔ لیکن ہمیں اتحاد کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ سبھی اپنی باتوں میں، انتخابات کی تشہیراتی مہم کے دوران، الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد، پارلیمنٹ میں اور دوسری جگہوں پر کہیں بھی ایسی باتیں نہ کریں کہ لوگ اپنے درمیان تفرقہ محسوس کریں اور لوگوں میں اختلاف پیدا ہو۔ اگر خدا نخواستہ اختلاف پیدا ہو گیا تو قوم کی یکجہتی ڈھیلی پڑ جائے گی۔ اب تک جو ہم نے محکم انداز میں استقامت سے کام لیا ہے تو اس کی وجہ یہی آپ کا اتحاد و اتفاق ہے۔ آپ کا اتحاد و اتفاق جتنا محکم ہوگا، ہم اور آپ دشمنوں کے مقابلے میں اتنے ہی محکم انداز میں ڈٹے رہ سکتے ہیں۔
دشمنوں اور بیرونی مسائل کے بارے میں بھی میں کچھ باتیں اختصار کے ساتھ، اپنے عزیز عوام کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ عالمی مسائل میں اسلامی جمہوریہ، بین الاقوامی تعاون پر یقین رکھتی ہے۔ ہمارا نظریہ ہے کہ اگر دنیا میں خیر خواہ انسانوں کے درمیان اتحاد ہو تو امور دنیا کی اصلاح ہو جائے گی۔ لیکن دنیا میں یہ کام بہت مشکل ہے۔ بنابریں، بین الاقوامی میدان میں ہمیں دو طرح کے کام کرنے ہیں۔ ایک، اصلی اور بنیادی کام ہے جو بین الاقوامی تعاون، حکومتوں اور اقوام کے ساتھ تعاون اور مشترکہ سعی و کوشش سے عبارت ہیں اور دوسرے، ہنگامی نوعیت کے کام ہیں، جو مجاہدت کے مترادف ہیں۔
جی ہاں! بین الاقوامی میدان میں ہم قوم کے دشمنوں سے مجاہدت پر مجبور ہیں۔ کاش ہماری قوم کا کوئی دشمن نہ ہوتا تو ہم بھی اس سے مقابلے پر مجبور نہ ہوتے۔ لیکن اس قوم کے کچھ ضدی، کینہ پرور، خبیث، رذیل، فریبی، جھوٹے اور خطرناک دشمن ہیں۔ ان سے مقابلہ اور ان کے خلاف مجاہدت ضروری ہے۔ بین الاقوامی مجاہدت کے میدان میں بھی ہمیں دو طرح کے دشمنوں کا سامنا ہے۔ کچھ اصلی دشمن ہیں، ہمارا اصلی مقابلہ اور مجاہدت انہیں سے ہے۔ کچھ دشمن ایسے ہیں جو اصلی نہیں ہیں۔ ہم ان سے مقابلہ نہیں کرتے بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ ان سے افہام و تفہیم سے کام لیں، انہیں ان کی غلطی اور دشمنی سے منصرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات دوسرے درجے کے دشمنوں سے متعلق ہے۔ بعض معاملات میں تو انہیں دشمن بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اہم وہی اصلی دشمن ہیں۔
اسلامی جمہوریہ کے اصلی دشمن کون ہیں؟ آج دنیا میں ہمارے اصلی دشمن صیہونی اور سامراج ہیں۔ اسلام، اسلامی جمہوری نظام اور ایرانی قوم سے بنیادی دشمنی صیہونیت اور استعمار کی دشمنی ہے۔
بنابریں، آج اس قوم کے دشمنوں میں سرفہرست، سرزمین فلسطین پر قابض خبیث اور غاصب صیہونی حکومت ہے۔ دنیا میں خارجہ پالیسی میں ہماری اصلی مجاہدت اسی کے خلاف ہے اور اس ( صیہونی حکومت) کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکا، ایک بڑا ملک ہے، اس کی قوم بھی عظیم ہے لیکن اپنے اس طول و عرض کے ساتھ اور تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود، صیہونیوں کا کھلونا بنی ہوئی ہے؛ ایک دیو کی طرح، جس کی لگام ایک کتے کے ہاتھ میں ہے اور وہ جہاں چاہتا ہے اس کو لے جاتا ہے! آج امریکی حکومت اپنی تمام تر دولت وثروت، ماضی اور اس اہمیت کے ساتھ جس کی وہ سیاسی، اقتصادی اور فوجی لحاظ سے اپنے لئے قائل ہے، صیہونیوں اور اسرائیلی حکومت کا کھلونا بنی ہوئی ہے۔ امریکا اسلامی جمہوریہ کے خلاف فیصلہ کرتا ہے، امریکی حکام، صیہونی مراکز میں جاتے ہیں، اس کی رپورٹ پیش کرتے ہیں اور پھر پوری دنیا میں یہ بات نشر ہوتی ہے۔ یہ امریکی قوم کے لئے شرم کی بات ہے۔
یہ ہمارے اصلی دشمن ہیں۔ البتہ دنیا کے گوشہ و کنار میں ہم سے دشمنی اور خباثت کرنے والے اور بھی ہیں، لیکن ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ اتنا اہم مسئلہ نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں، جرمنی کی عدلیہ نے صیہونیوں کے لئے جو بہت ذلیل اور نفرت انگیز حرکت ہے، اس کی ایک واضح مثال ہے۔ جرمن حکومت خود کو الگ کرنے کی کوشش کرتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ ملک کی عدلیہ کا مسئلہ ہے۔ لیکن ہم بھی جانتے ہیں اور وہ بھی جانتی ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو ملک کے عدالتی نظام پر تسلط حاصل نہ ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے معاملات میں حکومت نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جرمن حکومت اور اس کی عدلیہ پر صیہونیوں کا دباؤ ہے۔ لیکن اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ وہ امور ہیں جنہیں حل کرنا ہماری حکومت اور ہماری وزارت خارجہ کا کام ہے اور الحمد للہ وہ بہت اچھی طرح خدمت کر رہے ہیں، کام کر رہے ہیں اور اس کو حل کریں گے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو قوم کے لئے مسئلہ شمار کی جائے۔ قوم کے لئے جو بات اہم ہے، وہ وہی بات ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا؛ یعنی امریکا اور اسرائیل کا مسئلہ۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے۔
ایران کی عزیز قوم کے سامنے، اسلامی انقلاب کی کامیاب کے بعد سربلند اسلامی نظام کی سترہ سالہ تاریخ، حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے نظریات اور اپنے عوام کے نظریات کو میں ایک جملے میں اس طرح بیان کر سکتا ہوں کہ اگر دنیا کی کوئی حکومت، کوئی قوم اور کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ زور زبردستی اور دھمکیوں سے ایرانی قوم کو متاثر کر سکتا ہے تو سخت غلط فہمی ميں ہے۔ اس قوم نے مسلط کردہ جنگ کے آٹھ سال کے دوران اپنی دلیرانہ استقامت اور دشمنوں اور سامراجی طاقتوں کی خباثت اور دھمکیوں کے مقابلے میں سترہ سال سے جاری اپنی مزاحمت سے دنیا پر کم سے کم یہ بات ثابت کر دی ہے کہ یہ ایسی قوم نہیں ہے جس کو زور زبردستی اور دھمکیوں سے کسی راستے پر لے جایا جا سکے یا کسی راستے سے ہٹایا جا سکے۔ ان ماؤں کو دیکھئے، ان شیر دل خواتین کو دیکھئے، جنہوں نے اپنے بیٹوں کو راہ خدا میں جنگ کے محاذوں پر بھیجا- جیسے کوئی اپنے بیٹے کو حجلہ عروسی میں بھیجتا ہے، اور اپنی پیشانی پر بل نہیں آنے دیا۔ دیکھئے اس مجاہد قوم کو! ایران کی قوم کو دیکھئے، سترہ سال میں کن خطرناک پرپیچ راستوں سے گزری ہے! ابتدائے انقلاب میں اندرونی دشمنوں، لبرلوں، امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) اور ولایت کے مخالفین، اس جمہوریہ کی اسلامی ماہیت کے مخالفین، پارلیمنٹ کے لئے 'مجلس شورائے اسلامی' کے نام کے انتخاب کے مخالفین اور ان کی گوناگون چیرہ دستیوں کو دیکھا!؟ پارلیمنٹ کے پہلے دور میں ہمارے عظیم امام ( خمینی) نے مجلس شورائے اسلامی کے نام خط میں بہت ہی ذہانت کے ساتھ مجلس شورا کے ساتھ اسلام کا لفظ استعمال کیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بہت ہوشیار اور زیرک بھی تھے اور تجربہ کار بھی۔ امام (خمینی) تجربہ کار تھے اور جانتے تھے کہ اگر تحریک مشروطیت (آئینی حکومت کی تحریک) کے شروع میں اسلام کا لفظ اس کے ساتھ ہوتا اور یہ تحریک اسلام کے نام پر علمائے دین کی قیادت میں چلی ہوتی تو ساٹھ سال اسلام سے دور نہ رہتی! امام (خمینی) اس بات کو جانتے تھے۔ آپ نے خط میں لکھا مجلس شورائے اسلامی اور اراکین پارلیمنٹ نے کہا کہ اس کو قانونی حیثیت ملنا چاہئے۔ مجلس شورائے اسلامی کا نام قانون کی شکل میں آنا چاہئے۔ اسی پارلیمنٹ میں جس کے اراکین کو مومن اور انقلابی عوام نے منتخب کیا تھا، کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو کہتے تھے کہ اسلامی کیا ہے!؟
تعجب تھا۔ ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، ایسی حالت میں کہ ابھی ڈیڑھ دو سال بھی نہیں گزرے تھے، کچھ لوگ مجلس شورا کے ساتھ اسلامی کا لفظ جوڑے جانے کی مخالفت کریں گے؟ لیکن مخالفت کی! یہ جو ہم بار بار کہتے ہیں کہ خیال رکھیں کہ کس کو پارلیمنٹ میں بھیج رہے ہیں، یہ اس لئے ہے کہ ایسے لوگوں کو پارلیمنٹ کے لئے منتخب کریں جو اسلام کے شیدائی ہوں۔ جانتے ہوں کہ اس قوم اور ملک کی مشکلات صرف اسلام حل کر سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو بھیجیں جو تجربہ رکھتے ہوں اور دھوکہ نہ کھائیں۔ لبرلزم اور آزادی کے نام پر ملک میں اسلامی تفکر کو کمزور نہیں کریں۔ ایسے لوگوں کو پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہونا چاہئے۔ ایسے لوگ دشمنوں کے مقابلے میں سینہ سپر ہوکر آپ کا دفاع کر سکتے ہیں۔
ایرانی قوم نے سترہ سال کے دوران انواع و اقسام کی مصیبتوں کا سامنا کیا لیکن استحکام کے ساتھ ڈٹی رہی، اس کے پیروں میں لرزش نہیں آئي، اسلام اور خدا کے راستے پر آگے بڑھتی رہی۔ آج بھی خدا کے فضل سے ہم ، اسلامی انقلاب کی کامیابی کے دن سے صرف سترہ سال نہیں بلکہ دسیوں سال آگے بڑھے ہیں۔ سترہ سال میں ہم نے طولانی راستہ طے کیا ہے۔ جس دن یہ قوم اپنے پرشکوہ اسلامی انقلاب کے ذریعے، غیروں کے تسلط سے، یعنی پہلوی خاندان، اس کے فوجیوں اور کارندوں کے چنگل سے باہر نکلی ہے تو ( ملک) اندر سے خالی تھا، صرف ڈھانچہ تھا اندر سے کھوکھلا تھا۔ اس کی دولت و ثروت کو تباہ کر دیا تھا۔ زراعت کو ختم کر دیا تھا۔ ملک کی صنعت سو فیصد دوسروں پر منحصر تھی۔ تعمیری کام صفر پر پہنچا دیا تھا۔ معنویت اور اخلاقیات کو ختم کر دیا تھا۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ سترہ سال کے اندر عوام کی ہمت اور ہمدرد حکام کی قوت و توانائی سے تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود جو کام ہوا ہے، اس کو آج دشمن بھی دیکھ رہے ہیں اور حسد محسوس کر رہے ہیں، جل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے ان کے پاس۔
بیرونی دشمنوں کی مرضی کے خلاف، امریکا، اسرائیل اور ان سب کی مرضی کے خلاف جو اس قوم کی پیشرفت کو نہیں دیکھ سکتے اور چاہتے ہیں کہ ایران الگ تھلگ ہو جائے، خد کے فضل سے ہم دنیا کے ساتھ اپنے روابط کو وسعت دیں گے۔ اگر کوئی امریکا کے زیر اثر اسلامی جمہوریہ سے دشمنی کرنا چاہے تو ہمیں اس کی پروا بھی نہیں ہے۔
یہ قوم خدا کے فضل سے اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ گزشتہ سترہ سال کے دوران بارہا بعض حکومتوں نے روابط منقطع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ مختلف معاملات میں یورپی ملکوں نے ایک ساتھ اپنے سفیروں کو یہ سوچ کر اجتماعی طور پر واپس بلا لیا کہ ہنگامہ ہو جائے گا، آسمان زمین پر آ جائے گا، سب کچھ تہہ و بالا ہو جائے گا! لیکن دیکھا کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ یورپی حکومتوں کو یہ واقعہ یقینا یاد ہوگا۔ امید ہے کہ یاد ہوگا اور غلطی نہیں کریں گی۔ ایک دن سبھی یورپی سفرا تہران سے نکل گئے۔ ظاہر کیا کہ ہم تم سے ناراض ہیں! اسلامی جمہوریہ نے کہا جاؤ خدا حافظ۔ کچھ دن کے بعد دیکھا کہ اسلامی جمہوریہ ان سے بے نیاز ہے، اس کو ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ الحمد للہ انہوں نے اپنی ضرورت کے تحت واپس آنا شروع کر دیا۔
ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ اہم یہ ہے کہ یہ قوم اپنی قدر کو سمجھے۔ اہم یہ ہے کہ ملک کے حکام قوم کی قدر کو سمجھیں اور سمجھتے ہیں۔ ہر ایک چاہے وہ کسی بھی شعبے میں سرگرم ہو، یہ جانے اور سمجھے کہ یہ قوم ایک عظیم قوم ہے طاقتور، با ایمان اور ناقابل شکست ہے۔ جب تک آپ اپنے درمیان اتحاد اور خدا پر توکل کے جذبے کو محفوظ رکھیں گے دنیا آپ پر غلبہ نہیں حاصل کر سکے گی۔
پالنے والے! اپنے فضل و کرم اور رحمت بیکراں کو اس قوم پر نازل فرما۔ پالنے والے! ہمارے عظیم امام (خمینی) کے درجات -جنہوں نے یہ راستہ ہمیں دکھایا- بلند فرما اور اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔ پالنے والے! ہمارے شہیدوں کے درجات -جنہوں نے اپنے خون سے یہ راستہ تعمیر کیا اور اس پر آگے بڑھے- روز بروز بلند تر فرما۔ پالنے والے! اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے ہمارے جانبازوں، فداکاروں، دشمن کی قید سے رہائی پانے والے ہمارے سپاہیوں، غازیوں، مومن، رضاکار اور حزب اللّہی فوجیوں کو جو اس راستہ پر آگے بڑھنے کے لئے کمر بستہ ہیں، اپنی ہدایت اور فضل و کرم میں شامل فرما۔ جو بھی اس قوم کے لئے کام کر رہا ہے محنت کر رہا ہے، اس پر اپنا لطف و کرم نازل فرما۔ پالنے والے! حضرت ولی عصر( امام زمانہ) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما۔ ہمیں آپ کی غیبت اور ظہور کے زمانے میں آپ کے سپاہیوں میں قرار دے۔ پالنے والے! خدا کے دوستوں کی دوستی اور دشمنان خدا کی دشمنی ہمارے دلوں میں بڑھا دے۔ اپنی برکات ان تمام لوگوں کے شامل حال فرما جو اس قوم کے لئے کام اور محنت کر رہے ہیں۔ پالنے والے! ہم نے جو کہا اور جو سنا اس کو اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے اوراس کو قبول فرما۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ