29 فروردین مطابق 18 اپریل کو منائے جانے والے یوم مسلح افواج کی مناسبت سے 19 اپریل 2015 کو ہونے والی اس ملاقات میں مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس قومی دن کی مبارک باد پیش کی اور 29 فروردین مطابق 18 اپریل کو اسلامی جمہوریہ ایران کا یوم مسلح افواج قرار دینے کے فیصلے کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا با عظمت فیصلہ قرار دیا جس کی وجہ سے فوج کو منحل کرنے کی بعض حلقوں کی کوششیں ناکام ہو گئی تھیں۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ شکست یا فتح کے وقت دنیا کی بہت سی افواج عالمی قوانین اور انسانی ضوابط کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس مسئلے کا واضح نمونہ دنیا کی طاقتوں اور خاص طور پر امریکا کا رویہ ہے جو بین الاقوامی قوانین اور انسانی اصولوں کی کوئی پابندی نہیں کرتا اور ہر مجرمانہ اقدام انجام دیتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران کی مسلح فورسز کی اسلامی اصولوں اور دینی احکامات کی پاسداری کی نمایاں خصوصیت، عوام الناس کے درمیان فوج کی مقبولیت کی اصلی وجہ ہے۔ آپ نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کی دوسری خصوصیت دفاعی و اسلحہ جاتی اور وسائل کے اعتبار سے روز افزوں آمادگی ہے جو آیہ کریمہ «و اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّۃ» کی بنیاد پر عمل میں آتی ہے۔ (۱)
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

میں خواہران و برادران عزیز کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ لوگوں میں ہر ایک کا فردا فردا خیر مقدم ہے اور خاص طور پر ہمارے عزیز شہدا کے اہل خانہ کا خیر مقدم ہے۔ میری دعا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی عظیم کامیابیاں برسوں اسی طرح اس صاحب ایمان، صابر اور محنتی ادارے کے سر پر افتخار آمیز تاج کی مانند چمکتی رہیں۔ یوم مسلح افواج کی مبارکباد پیش کرتا ہوں تمام حاضرین محترم کو، اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے جملہ ارکان کو اور ان کے معزز اہل خانہ کو۔ آج اس جگہ آپ کے اس اجتماع پر شکریہ ادا کرتا ہوں، جو سرود آپ نے پیش کیا، جو اشعار پڑھے گئے اور اس کے لئے جو قدرے مختلف ادائیگی کا انداز اختیار کیا گيا اور جو بہت اچھا لگا، اس سب کا بھی شکریہ کرتا ہوں۔
بیشک ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا ایک شاہکار اور انتہائی نمایاں اور نتیجہ بخش اقدام مسلح افواج کے قومی دن کا اعلان ہے (2)۔ اگر ہم ایک نظر ڈالیں اس زمانے میں ایران اور انقلاب کے دشمنوں کے عزائم پر جو وہ ملکی سطح پر تمام پہلوؤں کے بارے میں بروئے کار لانا چاہتے تھے، تو ہماری سمجھ میں آئے گا کہ ایک دن کو مسلح افواج سے منسوب کرنا کتنا عظیم عمل تھا، کتنا کارساز اقدام تھا، کتنا ضروری اور لازمی فیصلہ تھا۔ آپ نوجوانوں میں بعض کو ان ایام کے حالات کا اندازہ نہیں ہے، آپ میں سے بعض تو اس زمانے میں پیدا بھی نہیں ہوئے ہوں گے۔ اس زمانے میں بڑے خطرناک عزائم موجود تھے، خود فوج کے اندر بھی کچھ عناصر ایسے تھے جو فوج کو ختم کر دینے کے لئے کوشاں تھے۔ اپنے اس منصوبے کے لئے دلیلیں اور توجیہات بھی پیش کرتے تھے۔ خود فوج کے اندر ایسے عناصر تھے جو نظریاتی فوج اور توحیدی فوج کی بات کرکے فوج کو ختم کر دینا چاہتے تھے۔ ایسے عزائم موجود تھے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان عزائم کا مقابلہ کیا۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) اس نتیجے پر پہنچے کہ فوج کو اسی قوت و توانائی کے ساتھ میدان میں موجود رہنا چاہئے اور اسے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور جن باتوں کی وجہ سے فوج اور عوام میں ایک طرح کی اجنبیت پیدا ہو گئی تھی انہیں ختم کیا جانا چاہئے اور امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان باتوں کو ختم بھی کر دیا۔ فوج ایک انقلابی ادارے کی حیثیت سے صرف زبان اور دعوے کی حد تک انقلابی نہیں بلکہ عملی اعتبار سے انقلابی ادارے کی حیثیت سے میدان میں موجود رہی اور اس نے اپنا کردار ادا کیا۔
آٹھ سالہ جنگ سے قبل بھی جو ہمارے اوپر مسلط کر دی گئی، کچھ واقعات رونما ہوئے، لیکن آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران تمام حقائق سامنے آ گئے۔ مختلف میدانوں میں جن کا ذکر میں نے اسی سالانہ اجلاس میں اور دیگر اجلاسوں میں کیا اور ان ایام میں مختلف میدانوں میں اور محاذ جنگ پر جو واقعات رونما ہوئے ان کے بارے میں بتایا، خاص طور پر اوائل جنگ میں، اسی طرح بعد کے برسوں میں جب عہدہ صدارت میرے پاس تھا اور میں میدان جنگ میں نہیں جاتا تھا تو جلسوں اور رپورٹوں میں مجھے دیکھنے کو ملتا تھا کہ فوج نے کیا کارنامے رقم کئے ہیں؟! ان ایام کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے، ان یادوں کو ہمیشہ زندہ رکھنا چاہئے اور 29 فروردین (مطابق 18 اپریل، یوم مسلح افواج) کے معنی کی گہرائی کو سمجھنا چاہئے۔ 29 فروردین کا مطلب یہ ہے کہ فوج کا تعلق وطن عزیز سے، انقلاب سے اور عوام سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ادارہ عوام کے اہداف اور اسلامی انقلاب کے اہداف کی تکمیل میں ثابت قدمی سے ڈٹا ہوا ہے۔ جیسا کہ ان نوجوانوں نے ابھی اپنے ترانے میں بھی پڑھا کہ فوج انقلاب کی محافظ بن کر کھڑی رہی۔ یہی 29 فروردین کا اصلی مفہوم اور نصب العین ہے۔ یہ تو ہیں وہ عظیم کارنامے جن کے پائیدار اثرات و ثمرات سامنے آئے اور آئندہ بھی مزید ثمرات سامنے آئیں گے۔ ان شاء اللہ آپ نوجوان اس ماحول میں، اس فضا میں اور اس رجحان و میلان کے ساتھ رشد و نمو کی منزلیں طے کریں گے اور ان شاء اللہ اپنے وطن عزیز کے افتخارات میں اضافہ کریں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی ایک اہم خصوصیت انقلابی و دینی بصیرت ہے، دینی التزام اور دینی فرض شناسی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ دینی فرض شناسی کا مطلب یہ ہے کہ فوج ان تمام اصولوں اور ضوابط کی پابند عہد ہے جو اسلام نے مسلح فورسز کے لئے اور عسکری سرگرمیوں کے لئے معین کئے ہیں۔ دنیا کی اور افواج جب کسی میدان میں اپنی کوئی کامیابی دیکھتی ہیں تو بے قابو ہوکر وارد میدان ہوتی ہیں، ایسی ایسی حرکتیں کرتی ہیں جو واقعی شرم ناک ہیں۔ ہم نے اس کی متعدد مثالیں مختلف جگہوں پر دیکھی ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ خود کو کامیاب ہوتا دیکھتی ہیں۔ ایسے میں وہ چھوٹے بڑے کسی پر رحم نہیں کرتیں۔ اور جب کبھی انہیں خطرے کا احساس ہوتا ہے تو پھر الگ طرح کی کارروائیاں کرتی ہیں جو اسلامی شریعت کی رو سے بھی جرم شمار ہوتی ہیں اور عالمی قوانین کی رو سے بھی ان کا شمار جرائم میں ہوتا ہے۔ البتہ جو طاقتور ہیں وہ نہ تو بین الاقوامی قوانین پر کوئی اعتنا کرتے ہیں، نہ انسانی اصولوں کا انہیں کوئی پاس و لحاظ ہوتا ہے، ممنوعہ ہتھیار استعمال کرتے ہیں، بے گناہ شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ جن جنگوں میں امریکا براہ راست یا بالواسطہ طور پر ملوث رہا ہے، ان میں یہ جرائم انجام پائے ہیں۔ یہ ہے دنیا کی افواج کی حالت۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج اور اسلامی جمہوریہ سے وابستہ دیگر مسلح فورسز، سب اسلامی اصولوں کی پابند ہیں۔ نہ تو فتح کے وقت طغیاتی کرتی ہیں اور نہ خطرے کا احساس ہونے پر ممنوعہ اقدامات اور غیر روایتی ہتھیاروں کا استعمال کرتی ہیں۔ طویل عرصے تک ہمارے شہروں پر خواہ وہ سرحدی شہر ہوں یا دیگر شہر حتی تہران اور اصفہان پر، صدام کے وحشیانہ میزائل حملوں اور کورانہ یلغار کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی شہر تہران میں مختلف محلّوں پر صدام کے میزائل گرتے تھے۔ وہ میزائل جو یورپی ملکوں میں تیار کرکے بیچے گئے ہوتے تھے، وہ میزائل جو امریکی ہدایات کے مطابق برسائے جاتے تھے۔ امریکیوں کے ذریعے ان کے اہداف معین کئے جاتے تھے۔ فضائی فوٹو گرافی کے ذریعے شہری اور فوجی اہداف کی اطلاعات دشمن کو دی جاتی تھیں۔ یہ میزائل آکر ہمارے شہروں پر گرتے تھے، نہتے عوام، بے گناہ عوام کا ان میزائلوں سے قتل عام کیا جاتا تھا، گھروں کو مسمار کیا جاتا تھا۔ کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد ہمارے اندر بھی ایسا ہی جواب دینے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ ہم بھی میزائل حاصل کر سکتے تھے، ہم بھی اسی انداز میں جواب دے سکتے تھے، ہم بھی ان شہروں پر میزائل برسا سکتے تھے جو ہماری رینج میں تھے، خود بغداد بھی ہماری رینج کے اندر تھا۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ہمیں یدایت کر رکھی تھی کہ اگر کسی غیر فوجی علاقے پر حملہ کرنا ہے جہاں چھاونی وغیرہ نہیں ہے، تو پہلے ریڈیو پر اس کا اعلان ضرور کر دیا جائے کہ ہم فلاں جگہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ عوام الناس اس جگہ سے نقل مکانی کر لیں۔ آپ غور کیجئے! اس طرح کا التزام دنیا میں کہیں بھی رائج نہیں ہے۔
بہت سے ممالک بلکہ جہاں تک میں جانتا ہوں تقریبا سارے ہی ممالک کی مسلح فورسز کے یہاں اس طرح کا التزام نہیں ہے۔ آج آپ اس کی مثال یمن میں دیکھ سکتے ہیں، کچھ عرصہ قبل یہی چیز آپ نے فلسطین میں دیکھی، غزہ میں دیکھی، لبنان میں دیکھی، دوسری جگہوں پر دیکھی۔ ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ لیکن اسلامی احکامات کی پابند فورسز کے یہاں یہ التزام رہتا ہے۔ اگر ہم نے یہ کہہ دیا اور ظاہر ہے کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کریں گے، تو یہ اعلان ہم نے اسی التزام کی بنیاد پر کیا ہے۔ یہ اعلان اسلامی احکامات، اسلامی اصولوں اور اسلامی قوانین کی پابندی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔
آج ہمارے دشمن اسلامی جمہوریہ پر دوسروں کے امور میں مداخلت کا الزام لگاتے ہیں، جو بالکل بے بنیاد ہے۔ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ ہم کہیں بھی مداخلت نہیں کر رہے ہیں۔ البتہ جب کبھی ہم پر حملہ ہوگا تو ہم بیشک اپنا دفاع کریں گے، زبردست انداز میں دفاع کریں گے، لیکن ہم مداخلت کہیں بھی نہیں کریں گے۔ ہم ان لوگوں سے اظہار نفرت اور اعلان بیزاری کرتے ہیں جو نہتے لوگوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، جو عام شہریوں پر حملہ کرتے ہیں، بچوں کا قتل عام کرتے ہیں، عورتوں کو مارتے ہیں، گھروں کو مسمار کرتے ہیں، ہم ایسے لوگوں سے اعلان بیزاری کرتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کو سمجھے ہی نہیں ہیں، ان کے اندر انسانی ضمیر نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ ہماری مسلح فورسز کا انفرادی امتیاز یہ ہے کہ اسلامی اصولوں اور الوہی قوانین کی پابند ہیں جو ہر جگہ اور ہر حالت میں حتی جنگ اور آشتی میں بھی نافذ ہوتے ہیں۔ یہ ہماری مسلح فورسز کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ آج عوام الناس کے درمیان ہماری مسلح فورسز کو، فوج کو اور پاسداران انقلاب فورس کو اتنی مقبولیت جو حاصل ہے تو اس کی وجہ یہی ہے۔ عوام دیکھتے ہیں کہ یہ فورسز بھی بالکل عام انسانوں کے انداز میں سوچتی ہیں، اسی انداز میں عمل کرتی ہیں، ان کے جیسا ہی عقیدہ رکھتی ہیں۔ ان کے اندر بھی انھیں چیزوں کا درد ہے جن چیزوں کا درد دوسرے لوگوں کو ہوتا ہے۔ یہ چیزیں عوام الناس سے مسلح فورسز کے رابطے اور رشتے کو مستحکم بناتی ہیں۔ تو یہ ایک اہم خصوصیت ہے۔
ایک اور خاص بات جس پر ہماری مسلح فورسز کو توجہ رکھنی چاہئے اور وہ واقعی توجہ دے بھی رہی ہیں جو صاف نظر آ رہی ہے، وہ خاص بات اس آیہ شریفہ؛ «وَ اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَ مِن رِباطِ الخَیلِ تُرهِبونَ بِه‌ عَدُوَّ اللهِ وَ عَدُوَّکُم»(۳) پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ کبھی غفلت کا فائدہ اٹھا کر دشمن حملہ نہ کرنے پائے! اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کسی دشمن نے آپ پر حملہ کیا تو آپ وسائل کی کمی کی وجہ سے، ہتھیار اور ساز و سامان کے فقدان کی وجہ سے، آمادگی نہ ہونے کی وجہ سے کہیں نقصان نہ اٹھائیں۔ کیونکہ آپ کو ہونے والا نقصان پوری قوم کا نقصان ہوگا، آپ کو ہونے والا نقصان اسلام کا نقصان ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ اس میدان میں ہماری مسلح فورسز نے اب تک جو پیشرفت حاصل کی ہے وہ مثالی ہے۔ آج خوش قسمتی سے دنیا میں سائنس و ٹکنالوجی کے میدانوں میں پیشرفت کے اعتبار سے ہمارا ملک ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، مگر مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والی ترقی میں کچھ میدان ایسے ہیں جہاں دوسرے میدانوں سے زیادہ ترقی ہوئی ہے، انھیں میں سے ایک دفاعی اور اسلحہ جاتی ترقی کا شعبہ ہے۔ ان گزشتہ برسوں کے دوران ملک کے وسائل اور ساز و سامان کو جس طرح ہم بلند معیار پر پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں، اتنی مدت میں، وہ بھی سخت پابندیوں کے دور میں، امکانات و ذرائع کی شدید قلت کے باوجود، وہ واقعی ایک غیر معمولی کامیابی ہے، واقعی حیرت انگیز ہے۔
خوش قسمتی سے مسلح فورسز نے مختلف شعبوں میں، بذات خود یا بالواسطہ طور پر اور سائنس و ٹکنالوجی کے اداروں کی مدد اور منصوبہ بندی کے سہارے بہت عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ میری تاکید اس بات پر ہے کہ اسلحے اور وسائل کے میدان میں اور دفاعی آمادگی کے اعتبار سے پیشرفت کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہئے۔ ہمارے دشمنوں کو یہی نہیں پسند ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ پر تشہیراتی دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ یہی میزائلوں کا مسئلہ، ڈرون طیاروں کا مسئلہ اور عسکری وسائل کا مسئلہ ہے۔ یہی چیزیں جو ملک کے اندر ہمارے نوجوانوں کی جانفشانی اور عرق ریزی کے نتیجے میں کسی بھی بیرونی مدد کے بغیر تیار کی گئی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ یہ چیزیں نہ رہیں، وہ چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ رک جائے۔ قرآن کی روشنی میں عقلی اصول تو ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ ہمیں اس راستے پر لگاتار آگے بڑھتے رہنا چاہئے۔
فریق مقابل حد درجہ بے حیائی کے ساتھ ہمیں فوجی حملے کی دھمکی دیتا ہے، مسلسل دھمکی دیتا آ رہا ہے، کچھ دن سے وہ خاموش تھے، مگر ادھر چند دن قبل ان میں سے پھر ایک نے ہرزہ سرائی کی اور سارے آپشن میز پر موجود ہونے اور فوجی آپشن کی بات کی۔ یہ لاف و گزاف باتیں کرتے ہیں، اس طرح کی بکواس بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف فرماتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ اپنی دفاعی قوت ختم کر دے، یہ باتیں جو وہ کرتے ہیں احمقانہ نہیں ہیں؟! اگر اس طرح صریحی طور پر ہمیں دھمکیاں نہ دیتے تب بھی لازم تھا کہ ہم اس آیہ کریمہ؛ «وَاَعِدُّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ و مِن رِباطِ الخَیل»،(۴) کے مطابق ہمیشہ ہوشیار رہتے۔ اگر وہ دھمکیاں نہ دیتے تب بھی ضروری تھا کہ ہم اس چیز کا خیال رکھتے، اپنی آمادگی میں اضافہ کرتے رہتے، تو ظاہر ہے اس وقت تو وہ کھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ایک طرف دھمکیاں دے رہے ہیں اور دوسری جانب کہتے ہیں کہ آپ میزائل نہ بنائیے، آپ یہ نہ کیجئے وہ نہ کیجئے! مسلسل میڈیا میں یا بین الاقوامی قراردادوں میں یہ ابلہانہ ہدایات دی جاتی ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ثابت کر دیا ہے اور دکھا دیا ہے کہ وہ اپنے دفاع کے سلسلے میں مقتدرانہ انداز میں عمل کرتا ہے۔ پوری قوم آپس میں متحد ہوکر طاقتور گھونسے میں تبدیل ہو جاتی ہے اور جارح قوت کے مقابلے میں، حد سے تجاوز کرنے والوں کے سامنے، حملہ آور کے سامنے ڈٹ جاتی ہے۔ دفاع کے میدان میں ہماری قوم میں مکمل یکجہتی و یگانگت پائی جاتی ہے۔ کوئی بھی چیز اس اتحاد کو متاثر نہیں کر پاتی۔ یہ تو رہی ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ خود کو آمادہ رکھتا ہے اور آمادگی کی اس کیفیت کو ہمیشہ قائم رکھتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ کے تمام ادارے، وزارت دفاع سے لیکر فوج، پاسداران انقلاب فورس اور دیگر اداروں تک سب کو چاہئے کہ اسے دستور العمل قرار دیں اور اپنی آمادگی میں روز افزوں اضافہ کرتے رہیں؛ اسلحہ جاتی میدان میں بھی اور انتظامی اعتبار سے بھی، اسی طرح اس پہلو سے بھی جس کا مسلح فورسز کے اندر سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے، یعنی فکر و جذبے کے اعتبار سے۔ خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں ہمارے اہلکاروں کے اندر، ہمارے نوجوانوں کے اندر، ہمارے دلیر عوام کے اندر، اس پہلو سے بھی کسی طرح کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جذبے کے اعتبار سے بھی الحمد للہ کسی طرح کی کوئی کسر باقی نہیں ہے۔ انقلاب کا جو ہدف تھا، 29 فروردین سے متعلق فیصلے کا جو ہدف تھا، پاسداران انقلاب فورس کی تشکیل کا جو ہدف تھا، جس کا بہترین انداز میں بندوبست ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے کیا تھا، وہ ہدف پورا ہوا ہے۔ چنانچہ آمادگی مکمل ہے اور حوصلے بھی بلند ہیں۔ آج بھی بہت سے جوان ہیں جنہوں نے انقلاب کا دور بھی نہیں دیکھا، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو بھی نہیں دیکھا، جنگ کے ایام میں بھی وہ نہیں تھے اور نہ ان ایام کی یادیں ان کے پاس ہیں، یعنی آجکل کے نوجوان ہیں، یہی نوجوان فوج کے اندر سے مختلف ذرائع سے مجھے یہ پیغام دیتے ہیں کہ قربانی کے لئے تیار ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے پائلٹ اپنے طور پر یہ پیغام دیتے ہیں، زمینی فوج کے فضائی شعبے سے تعلق رکھنے والے پائلٹ اپنے انداز سے پیغام دیتے ہیں، بحریہ سے وابستہ اہلکار اپنے طریقے سے یہ پیغام دیتے ہیں اور بری فوج کے اہلکار اپنے طریقے سے یہ پیغام پہنچاتے ہیں کہ وہ پوری طرح آمادہ ہیں۔ جس فوج کے اندر اس طرح حوصلے بلند ہوں گے، جس مسلح فورس کے اندر بھی یہ بلند ہمتی موجود ہوگی، یقینی طور پر امتحان کی گھڑی میں، مشکلات اور آزمائشوں میں وہ آگے بڑھنے پر قادر ہوگی۔ آپ اسی جذبے اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھئے۔ بصیرت قائم رکھنا، صحیح سمت اور رخ پر ثابت قدم رہنا، ضروری تیاریاں مکمل رکھنا، بہترین حوصلہ و جذبہ، وسائل و امکانات میں روز افزوں اضافہ اور دفاعی وسائل اور ساز و سامان کا دائرہ بڑھاتے رہنا بہت بنیادی کام ہے جو مسلح فورسز کے پیش نظر رہنا چاہئے۔
اسلامی جمہوریہ کسی بھی ملک کے لئے خطرہ نہیں ہے۔ ہم کبھی بھی اپنے ہمسایہ ممالک کے لئے بھی خطرہ نہیں رہے تو دور دراز کے علاقوں کی بات ہی الگ ہے۔ ماضی قریب کی تاریخ اس بات کو واضح طور پر ثابت کر سکتی ہے۔ یہاں تک کہ ایسے مواقع پر بھی جب ہمارے ہمسایہ ملکوں نے ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیا جو ایک پڑوسی ملک کو ہرگز زیب نہیں دیتا، تب بھی ہم نے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا۔ اسلامی جمہوریہ نے کسی بھی ملک سے تعرض نہیں کیا اور نہ آئندہ کریگی۔ ایٹمی مسئلہ اور نیوکلیائی ہتھیاروں کا فرضی اور جعلی مسئلہ امریکیوں نے اور پھر اس کے بعد یورپیوں اور ان کے کچھ حاشیہ برداروں نے بڑے شور شرابے کے ساتھ اٹھایا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلامی جمہوریہ خطرناک ہے۔ جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ خطرہ تو خود امریکا سے ہے۔ آج دنیا کے لئے سب سے بڑا خطرہ امریکی حکومت ہے جو بالکل بے قابو ہے اور کسی طرح کے دینی یا انسانی اصول کی پابندی کے بغیر جہاں بھی ضرورت محسوس کرتی ہے بلا وجہ مداخلت کر دیتی ہے، بدامنی پھیلانے والی مداخلتیں کرتی ہے۔ امریکا نے دنیا کو بدامنی کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ ہمارے علاقے میں بدامنی کی سب سے بڑی وجہ صیہونی حکومت ہے جسے امریکا کا پالتو کتا کہنا چاہئے۔ یہ لوگ ہیں جو دنیا میں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نہ تو دنیا میں بدامنی پھیلا رہا ہے اور نہ ہی علاقے میں کوئی بدامنی پھیلا رہا ہے۔ اپنے ہمسایہ ممالک کے گرد و پیش کی فضا کو بھی بدامنی سے دوچار نہیں کر رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے تو متعدد مواقع پر بعض ہمسایہ ملکوں کی بدسلوکی کو بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحمل کیا ہے۔ بدامنی تو وہ بے قابو طاقتیں پھیلا رہی ہیں جو ہر جگہ کو ہڑپ لینا چاہتی ہیں۔ آج یہ اندوہناک واقعات یمن میں رونما ہو رہے ہیں اور امریکی، ظالم کی حمایت کر رہے ہیں، مغربی ممالک ظالم کی حمایت کر رہے ہیں، تو بدامنی ان کی جانب سے ہے۔ ملکوں کو بدامنی کی آگ میں جھونکنے والے یہی لوگ ہیں۔ یہی طاقتیں ہیں جو انسانوں کی زندگی کی فضا کو بدامنی سے دوچار کرتی ہیں، بدامنی پھیلانا انھیں کا کام ہے۔ اسلامی جمہوریہ تو امن و سلامتی کو اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت مانتی ہے اور اپنی سیکورٹی کا ثابت قدمی کے ساتھ دفاع کرتی ہے۔ یہ چیز مسلح فورسز کے افسران کے ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہئے۔ ملک کی سیکورٹی کی حفاظت، سرحدوں کی سیکورٹی کی حفاظت، عوام الناس کی عمومی زندگی کی سیکورٹی کی حفاظت، وہ ذمہ داریاں ہیں جو اس شعبے میں سرگرم عہدیداران کے دوش پر عائد ہوتی ہیں۔
خداوند عالم کی بارگاہ میں ہماری دعا ہے کہ مسلح فورسز کی توفیقات اور کامیابیوں میں روز بروز اضافہ فرمائے اور آپ نوجوانوں کو یہ توفیق عنایت فرمائے کہ آپ بخوبی اپنے فرائض پر عمل کر سکیں۔ فرائض پر عمل کرنے کا مطلب صرف جنگ کرنا نہیں ہے، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آمادگی میں اضافہ کیا جائے، پیشرفت حاصل کی جائے، ذاتی طور پر خود سازی اور ادارہ جاتی اصلاحات انجام دی جائیں۔ یہ سارے اہم کام ہیں۔ البتہ اگر کبھی مقابلہ آرائی کی نوبت آ جائے تو محاذ جنگ پر پہنچنا بھی اسی آمادگی کا حصہ قرار پائے گا، وہ بھی اہم امتحانات کا جز ہوگا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی تمام میدانوں میں آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔

و السّلام ‌علیکم ‌و رحمة الله و برکاته‌

۱) قائد انقلاب اسلامی کی تقریر سے پہلے فوج کے کمانڈر انچیف بریگیڈیئر جنرل سید عطاء اللہ صالحی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔
۲) صحیفه‌ امام ، جلد ۷، صفحہ ۲۰؛ ملت ایران کے نام پیغام؛ مسلح افواج کے قومی دن کا اعلان، بتاریخ ۱۳۵۸/۱/۲۶ ہجری شمسی مطابق 15 اپریل 1979
۳) سوره‌ انفال، آیت نمبر 60 کا ایک ٹکڑا « اور جہاں تک ہو سکے طاقت اور گھوڑے آمادہ کرو تاکہ اس (تیاری) کے ذریعے دشمن خدا کو اور اپنے دشمن کو ہراسان کر سکو۔»
۴) ایضا