انھوں نے زور دے کر کہا کہ اس عظیم انسان کی وفات کے چھتیس سال بعد بھی بڑی طاقتوں کے زوال، کثیر قطبی نظام کی تشکیل، امریکا کی پوزیشن اور اثر و رسوخ میں شدید کمی، یورپ اور امریکا تک میں صیہونزم سے نفرت میں بہت زیادہ اضافہ، بہت سی اقوام کی بیداری اور مغربی اقدار کی نفی جیسے مسائل میں امام خمینی کی موجودگي اور ان کے انقلاب کے اثرات پوری طرح محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایک عالم دین کے ذریعے ایرانی قوم کو لام بند کیے جانے، سر تا پا مسلح پٹھو پہلوی حکومت پر خالی ہاتھوں سے امام خمینی اور قوم کی فتح اور ایران میں مفت خوری کرنے اور تباہی مچانے والے امریکیوں اور صیہونیوں کی بساط لپیٹے جانے پر عرب دنیا کے چونک جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی کی کوششوں اور تدبیر سے اسلامی جمہوری نظام کا قیام مغرب والوں کے لیے جھٹکا تھا۔

انھوں نے کہا کہ امریکیوں کو امید تھی کہ ایران میں سازباز کرنے والی کوئي حکومت اقتدار میں آئے گی اور اس ملک میں ان کے غیر قانونی مفادات پھر سے حاصل ہونے لگیں گے لیکن امام خمینی نے صاف لفظوں میں اپنا موقف واضح کیا اور کہا کہ ایران میں ایک دینی اور اسلامی نظام تشکیل پائے گا اور اس طرح انھوں نے امریکیوں کی یہ امید پوری طرح ختم کر دی اور یہیں سے دشمنوں کی تخریب کارانہ سازشیں شروع ہوئيں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کے خلاف دشمنوں کی بعض سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ تاریخ میں اس طرح کی سازشوں کی کوئي نظیر نہیں ہے اور ان سبھی سازشوں کے پیچھے سامراجی حکومتیں خاص طور پر امریکا، صیہونی حکومت اور امریکا کی سی آئي اے، برطانیہ کی ایم سکس، صیہونی حکومت کی موساد جیسی خفیہ تنظیمیں موجود تھیں۔

انھوں نے ان تباہ کن سازشوں کا مقصد، اسلامی جمہوریہ کو کمزور کرنا بتایا اور کہا کہ ان سازشوں سے اسلامی جمہوریہ نہ صرف یہ کہ کمزور نہیں ہوئي بلکہ پوری طاقت سے آگے بڑھتی رہی ہے اور اس کے بعد بھی طاقت کے ساتھ آگے بڑھتی رہے گی۔

آيت اللہ خامنہ ای نے ایرانی قوم میں "ہم کر سکتے ہیں" کے جذبے کو ختم کرنے کے لیے بدخواہوں کی سازشوں کو، اس بے مثال جذبے کی اہمیت کی علامت بتایا اور کہا کہ اس وقت اسی جوہری مسئلے میں اور عمان کی ثالثی سے جاری مذاکرات میں، امریکیوں نے جو پلان پیش کیا ہے وہ"ہم کر سکتے ہیں" کے جذبے کے سو فیصد خلاف ہے۔

انھوں نے اپنے عقائد کے مطابق عمل کرنے اور بڑی طاقتوں کی خواہش، منہ زوری اور مسلط کردہ مطالبات کے سامنے سر نہ جھکانے کے معنی میں مزاحمت و استقامت کو قومی خود مختاری کا ایک اہم عنصر بتایا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں جوہری مسئلے کی تشریح کی اور کہا کہ جوہری صنعت ایک بنیادی اور کلیدی صنعت ہے اور ماہرین و سائنسدانوں کی رپورٹوں کے مطابق بہت سے بنیادی سائنسی علوم اور انجینیرنگ سے متعلق علوم جیسے جوہری فزکس، انرجی انجینئرنگ، میٹریل انجینئرنگ اور اسی طرح میڈیکل اور ایرو اسپیس کی حساس ٹیکنالوجیز اور حساس الیکٹرونک سینسرز یا تو جوہری صنعت سے وابستہ ہیں یا اس سے متاثر ہیں۔

انھوں نے یورینیم کی افزودگي کی صلاحیت کے بغیر عظیم جوہری صنعت کے بے فائدہ ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ افزودگي اور ایندھن تیار کرنے کی صلاحیت کے بغیر اگر ہمارے پاس سو ایٹمی بجلی گھر ہوں تو بھی ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ ہمیں ایندھن کی فراہمی کے لیے امریکا کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے گا اور وہ ممکنہ طور پر اس کام کے لیے دسیوں شرطیں لگائے گا جیسا کہ دو ہزار کے عشرے میں اور بیس فیصد افزودہ ایندھن کی فراہمی کے مسئلے میں اس کا تجربہ ہو چکا ہے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے ایران میں تیار شدہ ساڑھے تین فیصد افزودہ ایندھن امریکا کو دینے کے بدلے میں ملکی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے بیس فیصد افزودہ ایندھن لینے کی اس وقت کے امریکی صدر کے مطالبے کے سلسلے میں ایران کے دو دوست ملکوں کی ثالثی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت، اعلیٰ عہدیداروں نے اس لین دین کو تسلیم کر لیا اور میں نے کہا کہ فریق مقابل بیس فیصد افزودہ ایندھن بندر عباس پہنچائے اور ہم اسے ٹیسٹ کرنے کے بعد لین دین انجام دیں گے لیکن جب انھوں نے ہمارے اصرار اور دقت نظر کو دیکھا تو اپنے وعدے سے پلٹ گئے اور بیس فیصد افزودہ ایندھن نہیں دیا۔

انھوں نے کہا کہ البتہ اسی سیاسی ہنگامہ آرائی کے دوران ہمارے سائنسدانوں نے بیس فیصد افزودہ یورینیم، ملک کے اندر تیار کر لیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ امریکیوں کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ آپ کے پاس جوہری صنعت ہونی ہی نہیں چاہی اور ایرانی عوام کو اس کے مختلف فوائد حاصل نہیں ہونے چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ امریکا کے بے ادب اور گستاخ حکام، مختلف طرح سے اپنے اس مطالبے کو دوہراتے رہتے ہیں۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکا کی ناعاقبت اندیش اور ہنگامہ مچانے والی حکومت کی ہرزہ سرائي پر ہمارا جواب بالکل واضح ہے، کہا کہ آج ہماری ایٹمی صنعت کے نٹ بولٹ بہت زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں اور آج کے صیہونی اور امریکی حکام بھی جان لیں کہ اس مسئلے میں وہ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ امریکی فریق اور ایران کی جوہری صنعت کے مخالفوں سے اسلامی جمہوریہ کا پہلا سوال ہی ان کے دعووں کی قانونی حیثیت کے بارے میں ہے اور ہم ان سے یہ کہتے ہیں کہ ایرانی قوم اپنے فیصلوں کی مالک ہے اور آپ ہیں کون اور کس قانونی حیثیت سے ہمارے یورینیم کی افزودگي کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں مداخلت کر رہے ہیں؟

انھوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں غزہ میں صیہونی حکومت کے حیرت انگیز اور ناقابل یقین جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جو کھانا تقسیم کرنے کا سینٹر بنا کر وہاں اکٹھا ہونے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کر دیتی ہے، کہا کہ اس حد تک پستی، خباثت، بے رحمی اور شر انگیزی واقعی تعجب خیز ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کو صیہونی حکومت کے جرائم کا شریک بتایا اور کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہمارا اصرار ہے کہ امریکا کو اس خطے سے نکالا جانا چاہیے۔

انھوں نے اسلامی حکومتوں کی ذمہ داریوں کو سنگین بتایا اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آج چاپلوسی، تکلف، غیر جانبداری اور خاموش رہنے کا وقت نہیں ہے، کہا کہ اگر کسی اسلامی حکومت نے کسی بھی طرح سے، کسی بھی بہانے سے، چاہے تعلقات معمول پر لا کر، چاہے فلسطینیوں کی مدد کی راہ بند کر کے، چاہے صیہونیوں کے جرائم کا جواز فراہم کر کے اس حکومت کی حمایت کی، تو وہ یقین رکھے کہ اس کی پیشانی پر ہمیشہ کے لیے کلنک لگ جائے گا۔

آيت اللہ خامنہ ای نے صیہونیوں کے ساتھ تعاون کی اخروی اور الہی سزا کو بہت سخت اور سنگین بتایا اور کہا کہ اس دنیا میں بھی اقوام اس غداری کو فراموش نہیں کریں گی۔ انھوں نے اسی کے ساتھ کہا کہ صیہونی حکومت کا سہارا، کسی بھی حکومت کو محفوظ نہیں بنا سکتا کیونکہ خود یہ حکومت، اللہ کے اٹل فیصلے سے بکھر رہی ہے اور ان شاء اللہ اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔