6 اردیبہشت 1394 ہجری شمسی مطابق 26 اپریل سنہ 2015 کو اپنی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے معاشرے میں شخصی، سماجی، اخلاقی، ذہنی اور نفسیاتی طمانیت و آسودگی قائم کرنے کو محکمہ پولیس کی سب سے اہم ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا: سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے پولیس کا مقتدر ہونا ضروری ہے تاہم مقتدر ہونے کے ساتھ ہی انصاف، مروت اور رحمدلی بھی لازمی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہالیوڈ، مغربی معاشروں اور امریکی انداز کا پولیس اقتدار ہمارا ہدف نہیں ہے کیونکہ یہ اقتدار نہ صرف یہ کہ امن و استحکام قائم نہیں کریگا بلکہ اس سے بدامنی پیدا ہوگی۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم ‌(۱)

سب سے پہلے تو میں آپ تمام عویز بھائیوں اور بہنوں کو، محکمہ پولیس کے اعلی رتبہ حکام و افسران کو جو اہم ترین اور بنیادی ترین قومی ضرورتوں کی تکمیل کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور اس عظیم ذمہ داری کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں، اسی طرح وزیر محترم (2) کو جو یہاں تشریف رکھتے ہیں، خوش آمدید کہتا ہوں۔ اللہ آب سب کو کامیاب اور آپ کی تائید فرمائے۔
ہمیں آپس میں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرنا چاہئے اس عظیم توفیق الہیہ پر کہ ہمیں ایک بار پھر ماہ رجب کی آغوش میں جگہ پانے کا موقع ملا ہے۔ ماہ رجب الوہی اقدار سے خود کو قریب کرنے، ذات مقدس پروردگار کا قرب حاصل کرنے اور خود سازی کا سنہری موقع ہے۔ یہ ایام جو ہماری روایتوں میں نمایاں ایام کے طور پر متعارف کرائے گئے ہیں، یہ سب بڑے اہم مواقع ہیں۔ ہر موقع ایک نعمت ہے اور ہر نعمت پر شکر و سپاس ضروری ہے۔ نعمت کا شکریہ یہ ہے کہ انسان اس نعمت کو پہچانے اور اس نعمت کے تقاضوں کے مطابق عمل کرے، اس سے بنحو احسن استفادہ کرے، اس حقیقت کو سمجھے کہ نعمت، اللہ تعالی کا عطیہ ہے اور اسے راہ خدا میں استعمال کرے۔ ماہ رجب انھیں نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اس کے بعد ماہ شعبان ہے۔ وہ بھی ایک عظیم نعمت ہے۔ یہ دونوں مہینے 'کُمَّلین' (۳) کی نظر سے، اہل توحید و اہل سیر و سلوک کی نگاہ میں ماہ رمضان کا مقدمہ ہیں۔ ماہ رمضان، عروج کا مہینہ ہے، سفر معراج کا مہینہ ہے، تزکیہ نفس کا مہینہ ہے، صفائے باطنی حاصل کرنے کا مہینہ ہے، جس کی ہم سب کو ضرورت ہے۔ ماہ رجب کی قدر و منزلت کو سمجھئے! اس مہینے میں پروردگار عالم کی بارگاہ میں دعا و مناجات اور توسل جتنا زیادہ ہو سکے کیجئے! ذکر خدا میں مصروف رہئے! ہر کام خوشنودی پروردگار کے لئے کیجئے! آپ جو بھی کام انجام دے رہے ہیں، جو زحمتیں اٹھا رہے ہیں انہیں فی سبیل اللہ قرار دیجئے!
آپ کے فرائض منصبی ایسے ہیں کہ ان کی انجام دہی میں بڑی آسانی سے قصد قربت کیا جا سکتا ہے۔ تمام کاموں کو فی سبیل اللہ انجام دیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ روزی کی تلاش بھی قصد قربت کے ساتھ اور خوشنودی خدا کی نیت کے ساتھ انجام دی جا سکتی ہے۔ تاہم بعض کام ایسے ہیں جن میں قصد قربت کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ انھیں کاموں میں ایک آپ کا کام بھی ہے۔ کیونکہ آپ کا کام معاشرے کی خدمت کرنا ہے، عوام الناس کی خدمت سے عبارت ہے، اسلامی جمہوریہ کی خدمت سے عبارت ہے، اسلام کی خدمت ہے اور اسلام کی نصرت ہے۔ یہی آیہ کریمہ جس کی تلاوت ہمارے اس عزیز نوجوان نے کی؛ «یا اَیُّهَا الَّذینَ ءامَنوا کونوا اَنصارَ الله» (۴) اللہ کی نصرت کی کیجئے! خدا کے ناصر، مددگار اور نصرت کرنے والے بنئے! اس کا ایک مصداق یہی ہے۔ آپ کا کام واقعی ایسے کاموں میں ہے جسے حقیقت میں اسلام کی نصرت قرار دیا جا سکتا ہے، یہ دین کی نصرت قرار پا سکتا ہے، عوام کی مدد قرار پا سکتا ہے۔ بنابریں قصد قربت یہ ہے کہ آپ اس طرح کہئے کہ پالنے والے! میں جو یہ خدمت کر رہا ہوں، یہ وقت جو میں ادارے میں گزار رہا ہوں، یہ گھنٹے جو میں اپنی پوسٹ پر گزار رہا ہوں، امور کی بہتری کے لئے جو محنت کر رہا ہوں، دفتر میں معینہ وقت سے پانچ منٹ زیادہ جو رکا ہوں اور کام انجام دے رہا ہوں، یہ تیرے لئے ہے۔ یہ بہترین موقع ہے کہ آپ کا یہ کام خوشنودی پروردگار کے لئے انجام پائے۔ اس مہینے کی برکتوں سے بہرہ مند ہوئیے، جن میں ایک یہی ہے جس کا میں نے ذکر کیا۔
ضروری ہے کہ میں محکمہ پولیس کا شکریہ ادا کروں۔ بڑے اچھے کام انجام پا رہے ہیں۔ ممکن ہے کسی ایک مسئلے میں، دو معاملات میں یا چار پانچ معاملات میں کوئی خامی بھی نظر آ جائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملکی سطح پر محکمہ پولیس جس طرح سے محنت کر رہا ہے، وہ واقعی قابل قدردانی و سپاس گزاری ہے۔ اس کا ایک نمونہ عید (نوروز) کے ایام میں آپ کی قابل تعریف خدمات ہیں۔ عید کے ایام میں ہر کوئی اپنے گھر میں ہوتا ہے، اہل خانہ اور اعزاء کے درمیان ہوتا ہے، اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن آپ کے محکمے کے نوجوان، اس محکمے کے افراد، اس محکمے کے اہلکار شاہراہوں پر، شہر کے اندر مختلف جگہوں پر تعینات ہوتے ہیں اور دیگر افراد کے بارے میں فکرمند اور ان کی آسائش و آسانی کے لئے محو خدمت ہوتے ہیں۔ بیرون شہر سڑکوں پر الگ انداز سے، شہر کے اندر الگ طریقے سے، پولیس اسٹیشنوں میں کسی اور طریقے سے، سڑکوں پر ایک الگ صورت میں۔ ان چیزوں کی بڑی قدر و قیمت ہے، اس پر شکریہ ادا کرنا چاہئے اور میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
محکمہ پولیس کی اہمیت جس پر ہم بہت بھروسہ کرتے ہیں، اس کے فرائض کی اہمیت کی وجہ سے ہے۔ ہر انسان کی قدر و منزلت اس ذمہ داری کے مطابق ہوتی ہے جو اس کے دوش ڈالی گئی ہے۔ کوئی بھی شخص اور کوئی بھی گروہ اسی ادارے کی اہمیت کے مطابق خود بھی اہم ہو جاتا ہے۔
آپ نے اپنے دوش پر جو ذمہ داری اٹھائی ہے وہ ملک کے اندر امن و سلامتی قائم رکھنے کی ذمہ داری ہے۔ سیکورٹی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ سیکورٹی کی قدر و منزلت کا احساس لوگوں کو وہاں اور زیادہ ہوتا ہے جہاں امن و سلامتی نہیں ہے۔ ایسی جگہوں پر جہاں مرد گھر سے نکلتا ہے، عورت گھر سے باہر نکلتی ہے، نوجوان اور بچے گھر سے باہر جاتے ہیں تو انہیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ دوبارہ گھرہ واپس آنا نصیب ہوگا یا نہیں! سڑکیں غیر محفوظ ہیں، گلیاں مخدوش ہیں، صحرا و بیابان بدامنی کا شکار ہیں، حادثہ اور سانحہ لوگوں کی گھات میں رہتا ہے۔ ایسی جگہوں پر جہاں لوگ گھر کے اندر بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ ایسے حالات میں انسان امن و سلامتی کی قدر و قیمت کو سمجھتا ہے۔ ایسے پرامن حالات پیدا کرنا، اس طرح سے استحکام قائم کرنا، سب کو تحفظ فراہم کرنا، آپ کا کام ہے۔ اس عظیم فریضے کو جس ادارے اور جس محکمے نے اپنے دوش پر لیا ہے وہ پولیس کا محکمہ ہے۔ یہ بہت اہم ذمہ داری ہے۔ بنابریں اس اہم ذمہ داری کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس محکمے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
سیکورٹی اور تحفظ کوئی تشہیراتی اور زبان سے بیان کر دینے والی چیز نہیں کہ کوئی بیان کرے کہ جناب! ہم نے امن و سلامتی قائم کر دی ہے۔ آپ بیانوں میں، اعلامیوں میں اور تقاریر میں لاکھ کہئے کہ ہم نے فلاں سڑک کو پرامن بنا دیا ہے اور رات کے وقت جب عوام اس سڑک سے گزریں تو انہیں بدامنی کے اثرات کا سامنا ہو تو پھر ان باتوں اور بیانوں کا کوئی اثر نہیں رہے گا۔
«دوصد گفته چون نیم کردار نیست»
عوام کو خود احساس تحفظ ہونا چاہئے۔ احساس تحفظ کا دارومدار حقیقی معنی میں امن و سلامتی کے قیام پر ہے۔ واقعی امن و سلامتی ہونی چاہئے۔ البتہ بہت اچھے اقدامات انجام دئے گئے ہیں۔ محترم کمانڈر نے جو اعداد و شمار پیش کئے، میں نے بھی رپورٹوں میں یہ اعداد و شمار دیکھے ہیں۔ یہ بہت اہم کامیابی ہے۔ لیکن آپ اسی پر اکتفا نہ کیجئے۔ آپ کا ارادہ اور آپ کا عزم یہ ہونا چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہے تحفظ اور سلامتی کی سطح کو بہتر سے بہتر بنائیے۔ سڑک حادثات کی شرح میں مثال کے طور پر یہ کہ 'ہم نے فلاں فیصدی تک کمی کر دی ہے، کافی نہیں ہے۔ آپ کے اندر یہ عزم پیدا ہونا چاہئے کہ کوئی سڑک حادثہ رونما ہی نہ ہو، چوری کا ایک بھی واقعہ نہ ہو، شہروں کے اندر بدامنی کے واقعات اور حادثات رونما ہی نہ ہوں۔ یہ عزم ہونا چاہئے۔ جب آپ یہ عزم کریں گے تو بلا شبہ بہت تندہی کے ساتھ کام انجام دیں گے، یعنی یکسوئی کے ساتھ جو کام انجام دیا جا رہا وہ اسی رفتار سے جاری رہے گا۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جب ہم انفرادی اور اجتماعی امن و تحفظ کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ آپ گھر سے باہر نکلے ہیں تو دفتر، دوکان، اسکول یا کام کی جگہ پر پہنچنے تک کوئی آپ پر چاقو سے حملہ آور نہ ہو۔ بیشک تحفظ اور سیکورٹی کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ کوئی بھی جسمانی طور پر تعرض نہ کرے۔ بے شک یہ بھی سیکورٹی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی سیکورٹی کے کچھ اور بھی ظریف اور باریک مسائل ہیں جو بسا اوقات زیادہ خطرناک ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر منشیات کے رائج ہو جانے سے پیدا ہونے والی بدامنی۔ اگر ہمارے تفریحی مقامات، ہمارے پارک، ہماری سڑکیں اور ہمارے اسکول ایسے ہوں کہ اگر کوئی وہاں جائے، خاص طور پر نوجوان، تو منشیات کی اس ترویج کے سامنے محفوظ نہ ہوں۔ یہ عدم تحفظ بہت خطرناک ہے۔ فرض کیجئے کہ اگر ہمارے نوجوان فحاشی اور دیگر برائیوں سے محفوظ نہ ہوں تو یہ بڑی خطرناک بدامنی ہوگی۔ آپ یقینا جانتے ہیں، ہمارے پاس بھی رپورٹیں ہیں کہ کچھ افراد پیسے خرچ کرکے، کچھ مراکز کی ہدایات کو مد نظر رکھتے ہوئے، اس کوشش میں رہتے ہیں کہ نوجوانوں کو مختلف جگہوں پر راتوں کی محفلوں میں فحاشی و دیگر اخلاقی برائیوں سے آلودہ کر دیں۔ کبھی کوئی نوجوان کوئی خلاف شریعت غلط فعل انجام دیتا ہے، یہ اس سے بالکل الگ صورت حال ہے۔ یہ نوجوانوں کو اخلاقی برائیوں کی جانب راغب کرنے کا مسئلہ ہے۔ آپ یہ نہ ہونے دیجئے! آپ اسے روکئے! مثال کے طور پر اگر ہماری سڑکیں جسمانی حوادث کے اعتبار سے محفوظ ہوں لیکن مختلف وسوسوں کے ذریعے اسکولوں سے، یونیورسٹیوں کے اندر سے، پارکوں کے اندر سے، خریداری کے مراکز سے، سڑکوں پر ہو جانے والی دوستیوں کی ذریعے ہمارے نوجوان کو رات کی پارٹیوں میں کھینچا جائے اور اسے فحاشی اور اخلاقی برائیوں میں مبتلا کر دیا جائے، یا اس سے جنسی زیادتی کی جائے، تو یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جنہیں امن و سلامتی کے شعبے میں انتہائی اہم مسائل کا نام دیا جاتا ہے۔ یعنی اگر ہمارے یہاں امن و سلامتی تو ہو لیکن ان چیزوں پر توجہ نہ دی جائے تو یہ در حقیقت سیکورٹی نہیں ہے۔ ظاہر ہے، منشیات، ناموس کو نشانہ بنانا، اخلاقی برائیوں میں مبتلا کر دینا، یہ سب بڑے اہم مسائل ہیں۔
ایک اہم مسئلہ اور بھی ہے؛ میں نے سنا ہے کہ بعض اوقات دولت کے نشے میں ڈوبے ہوئے نوجوان، ثروت کے گھمنڈ میں چور نوجوان، مہنگی گاڑیوں میں بیٹھ کر سڑکوں کو اپنی جولان گاہ بنا دیتے ہیں اور سڑکوں پر عدم تحفظ کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح کی بدامنی ہے۔ ہر طرح کی بدامنی کے سد باب کے لئے پروگرام ہونا چاہئے، اقدام کیا جانا چاہئے۔ یہ سیکورٹی کے مختلف پہلو ہیں۔
ایک اور اہم نکتہ بھی ہے جسے میں کئی بار ذکر کر چکا ہوں؛ یہ پولیس فورس کی قدرت کا مسئلہ ہے۔ پولیس محکمہ اپنے فرائض یعنی قیام امن کے مسئلے میں اسلامی جمہوریہ کی مقتدرانہ پوزیشن کا مظہر ہے۔ یعنی اسلامی جمہوریہ کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ معاشرے میں امن قائم کرے۔ اخلاقی تحفظ، سماجی تحفظ، جیسا کہ میں نے ابھی تشریح کی۔ یہ ہمارے فرائض ہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ کے فرائض میں شامل ہے۔ ہم اس مسئلے کو اس کے حال پر نہیں چھوڑ سکتے۔ اس سیکورٹی کا مظہر اور اس سیکورٹی کے تعلق سے میدان عمل میں سرگرم سب سے اہم فورس، پولیس فورس ہے۔ بنابریں ضروری ہے کہ آپ کے پاس قدرت ہو، ‏آپ مقتدرانہ انداز میں اقدام کر سکیں، پوری قطعیت کے ساتھ عمل کر سکیں۔ لیکن یہاں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مقتدرانہ انداز میں عمل کرنے اور ظلم کا ارتکاب کرنے میں فرق ہے۔ مقتدرانہ اقدام کے سلسلے میں یہ غلط تصور نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ ہر قید و شرط سے آزاد ہوکر اور بے قابو ہوکر اقدام کیا جائے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھئے کہ بعض ملکوں میں، جیسے امریکا میں، پولیس بہت طاقتور ہے۔ فلموں میں غضبناک افراد کو دکھایا جاتا ہے جو پولیس کا رول کرتے ہیں، کارروائياں انجام دیتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ بے گناہوں کو قتل کرتے ہیں۔ کسی شخص کو اس بات پر کہ وہ اسلحہ نکالنے جا رہا تھا، پندرہ سولہ گولیاں مارتے ہیں اور اسے ڈھیر کر دیتے ہیں، اس کا کام تمام کر دیتے ہیں۔ اس طرح کا اقتدار پسندیدہ نہیں ہے۔ یہ ایسی طاقت ہے جس کے ساتھ ظلم وابستہ ہے۔ یہ ایسی طاقت ہے جس کے نتیجے میں امن قائم نہیں ہوتا بلکہ بدامنی پھیلتی ہے۔ خود یہ صورت حال بدامنی کا باعث بنتی ہے۔ جب عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے، تو عدالت ان اہلکاروں کو بری کر دیتی ہے۔ بد قسمتی سے اس طرح کے واقعات دینی اقدار سے عاری دنیا میں کثرت سے دکھائی پڑتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ امریکا میں جہاں کے صدر بھی سیاہ فام ہیں، سیاہ فاموں کے سلسلے میں یہ حالات ہیں اور یہ برتاؤ کیا جا رہا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے جب ایک شخص نے، ایک صدر نے بردہ فروشی کا نظام ختم کیا تھا، ہر سال جشن مناتے ہیں، حالانکہ خود اس میں بھی اشکال ہے، اس میں بھی ایک بنیادی اشکال ہے؛ کہا جاتا ہے کہ ابراہم لنکن نے بردہ فروشی کو ختم کروایا، لیکن جن لوگوں نے تاریخ کا بغور مطالعہ کیا ہے ان کے مطابق حقیقت ماجرا یہ نہیں ہے، بردہ فروشی کی رسم کو ختم کرنے کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ شمال و جنوب کا مسئلہ تھا۔ یہ امریکا میں شمال و جنوب کی برسوں سے جاری جنگوں کا مسئلہ تھا، یہ زمینداری و زراعت اور صنعتوں کے درمیان تنازعے کا معاملہ تھا۔ جھگڑا ان باتوں کا تھا۔ یہ مسئلہ نہیں تھا کہ انسان دوستانہ جذبات کی بنیاد پر یہ اقدام کیا گیا ہو۔ لیکن اس کے باوجود بھی سیاہ فاموں کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے، ان سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے، ان کی تحقیر کی جاتی ہے، اوپر سے ان کی زندگیاں بھی خطرے میں رہتی ہیں۔ پولیس کی یہ طاقت اور اقتدار اسلام کو پسند نہیں ہے۔ یہ چیز ہرگز پسندیدہ نہیں ہے کہ ہم بھی فلمی انداز میں اور ہالی وڈ کی طرز پر اپنی پولیس کی تربیت شروع کر دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حقیقت میں کام انجام دیا جائے۔ یعنی قطعیت و اقتدار ہو لیکن انصاف، مروت اور رحمدلی کے ساتھ۔ بسا اوقات اس قطعیت و اقتدار کے ساتھ رحمدلی لازمی ہے۔ یہ اسلامی مظہر ہے۔ ذات مقدس پروردگار عالم ایک طرف رحمان و رحیم ہے اور دوسری جانب مالک عذاب الیم بھی ہے۔ یعنی یہ دونوں خصوصیتیں ایک ساتھ ہونی چاہئیں۔ یہ چیز اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر ہماری زندگی میں، ہمارے طرز سلوک میں اور ہمارے جملہ اقدامات میں ضروری ہے، پولیس کے اندر یہ صورت حال ہونی چاہئے۔
ایک اور مسئلہ بھی جو میری نظر میں بہت اہم ہے، قانون پر عملدرآمد کا ہے۔ قانون پر عملدرآمد کے دو میدان ہیں۔ ایک تو عوام سے پیش آنے کا طریقہ ہے؛ یعنی آپ نظر رکھئے کہ کہاں قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے؟ آپ فورا اس کا سد باب کیجئے! دوسرا میدان خود آپ کے محکمے کی اندرونی فضا ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پولیس فورس کا اہلکار محکمے کے اندر بھی حقیقی معنی میں قانون کا پابند ہو اور پوری طرح قانون پر عمل کرے۔ دوسری تمام جگہوں کی نسبت یہاں قانون کی زیادہ پابندی کی جانی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ اہلکار کا باکردار ہونا بھی لازمی ہے۔ میں نے گزشتہ برسوں کے دوران تمام افسران اور کمانڈروں سے بار بار یہ سفارش کی ہے اور آج بھی پولیس فورس کے افسران اور کمانڈروں سے تاکید کے ساتھ یہ سفارش کروں گا کہ اہلکار کی پاکیزگی کے مسئلے کو کم نہ سمجھئے۔ دیگر فورسز اور آپ کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ آپ عوام کے درمیان رہتے ہیں، آپ عوام کے رابطے میں رہتے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر کوئی خلاف ورزی، کوئی غلطی، کوئی اشکال، کوئي کج رفتاری، کوئی بد عملی سرزد ہوئی تو وہ فورا عوام کے درمیان منعکس ہوگی، دوسرے اداروں کے مقابلے میں اس کا انعکاس زیادہ ہوگا۔ بہت کم محکمے ایسے ہیں جو اس طرح عوام سے آمیختہ ہیں، اس طرح عوام کے درمیان موجود رہتے ہیں، بنابریں اگر خدانخواستہ کوئی بھی خامی اور خرابی پیدا ہوئی، کسی طرح کی غلطی یا خیانت ہوئی، کسی طرح کی کوئی مشکل پیش آ گئی تو فورا پورے سماج میں اس کی خبر پھیل جائے گی۔ جب یہ خبر پورے سماج میں پھیلی تو صرف محکمہ پولیس کی عزت نیلام نہیں ہوگی بلکہ سب کی آبرو چلی جائے گی کیونکہ میں نے عرض کیا؛ محکمہ پولیس اسلامی اقتدار کا نمائندہ محکمہ ہے، اسلامی جمہوری نطام کا نمائدہ ادارہ ہے، عوام کے درمیان۔ اس لئے اہلکاروں کے اعلی کردار کا مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ پولیس اسٹیشن کے اندر، سڑکوں پر، شاہراہوں پر، ہر جگہ اس مسئلے پر پوری توجہ دی جانی چاہئے کہ محکمہ پولیس کے اہلکاروں کا اعلی کردار نمایاں رہے۔ حقیقت میں پولیس فورس اسلامی جمہوری نظام کی عزت بڑھا سکتی ہے۔ یعنی اگر دوسرے پانچ یا دس ادارے اپنے فرائض پر بخوبی عمل نہ کریں تب بھی محکمہ پولیس کی کارکردگی اگر اچھی، درست، محکم، قطعیت کے ساتھ اور جملہ لازمی شرطوں کے دائرے میں رہی تو عوام الناس کی نظر میں اسلامی نظام کا وقار بڑھے گا۔ اس طرح یہ ادارہ عزت و آبرو کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا ان باتوں پر توجہ دی جانی چاہئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود ادارے کو صحتمند اور پاکیزہ بنایا جائے۔ محکمے کے اندر اس پر عمل ہوگا تو باہر بھی اس کے اثرات دکھائی دیں گے۔
پولیس کے محترم کمانڈر کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ روحانی، اخلاقیاتی، دینی و عقیدتی پہلوؤں پر توجہ دی جا رہی ہے، اس کے لئے منصوبہ بندی کی گئی ہے، یہ بہت اچھی بات ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے کارکردگی میں بہتری لانا، سائنسی ایجادات اور جدت عملی کو بروئے کار لانا، بہت ضروری ہے۔ اس سے ادارے کا معیار بلند ہوتا ہے۔ اللہ پر توکل کیجئے، اللہ کے لئے کام کیجئے، بنحو احسن انجام دیجئے، ان شاء اللہ خداوند عالم برکت دیگا۔ آپ کی کارکردگی میں بھی برکت دیگا اور خود آپ کے وجود کو اسلامی جمہوری نطام کے لئے مایہ برکت قرار دیگا۔ میں آپ سب کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب فرمائے، لازمی اقدامات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ مختلف شعبوں میں بہت سے امور ایسے ہیں جو مشترکہ طور پر انجام دئے جانے ہیں، چنانچہ حکام کو چاہئے کہ تعاون کریں اور باہمی تعاون کے ذریعے آپ بڑے کام انجام دینے میں کامیاب ہوں۔

و السّلام‌ علیکم ‌و رحمة الله‌ و برکاته‌

۱) محکمہ پولیس کے افسران کی بیسویں کل ایران کانفرنس کے موقع پر یہ ملاقات انجام پائی۔ کانفرنس کا انعقاد 25 اور 26 اپریل 2015 کو ہوا۔ قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل محکمہ پولیس کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل حسین اشتری نے ایک رپورٹ پیش کی۔
۲) جناب عبد الرضا رحمانی فضلی (وزیر داخلہ اور محکمہ پولیس میں مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر کے نمائندے)
۳) انسان کامل
۴) سوره‌ صف، آیت نمبر ۱۴ کا ایک حصہ