10 تیر 1394 ہجری شمسی مطابق یکم جولائی 2015 کو حسینیہ امام خمینی تہران میں منعقد ہونے والی اس محفل سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کی اور کہا کہ شعر کی گہری تاثیر کی وجہ سے شاعر کے دوش پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ باطل محاذ اور دنیا پر اس کے تشہیراتی اداروں کے تسلط کے مقابلے میں اشعار کے ذریعے محاذ حق کے پروقار دفاع کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انقلابی شاعری ایسی شاعری ہے جو اسی سمت میں اور انقلاب کے اہداف یعنی انصاف، انسانیت، اتحاد، قومی وقار، ملک کی ہمہ جہتی ترقی اور انسان سازی کے لئے کام کرتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق شاعری سامعین کو ہدایت کے راستے پر بھی لے جا سکتی ہے اور کجروی سے بھی دوچار کر سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا: آج مواصلاتی ذرائع کا دائرہ وسیع ہو جانے کے بعد کچھ ہاتھ نوجوانوں کی شاعری کو لطیف، جذباتی اور انقلابی وادی سے ہٹا کر بے لگام کلچر کی سمت لے جانے کے لئے کوشاں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے سردشت علاقے پر عراق کی صدام حکومت کی جانب سے کی جانے والی کیمیائی بمباری کا حوالہ دیتے ہوئے ملت ایران کی مظلومیتوں کو دنیا کے سامنے شعر کی زبان میں پیش کرنے کے لئے بہت موزوں اور اہم موضوع قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں ماہ رمضان کی برکتوں سے بہرہ مند ہونے اور بارگاہ خداوندی میں خضوع و خشوع کی مدد سے اور ماہ رمضان کی دعاؤں کے معانی میں تدبر کرکے دل پر جمی آلودگی کو دور کرنے کی سفارش کی۔
محفل کے آغاز میں بیس شعراء نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم ‌(۱)

حضرت امام مجتبی، حضرت امام حسن علیہ الصلاۃ و السلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بقول حسن مجسم، جنھوں نے اس مولود کا نام ہی حسن رکھا، اس ہستی کی ولادت بڑا اہم واقعہ ہے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بچے کا نام حسن رکھیں، اس عظیم ہستی کی ولادت با سعادت آپ سب کو مبارک ہو۔
میں آپ کے حساس دلوں، آپ کی لطیف روحوں اور آپ کے نرم جذبات کو رمضان کی برکتوں کی جانب متوجہ کرنا چاہوں گا۔ واقعی برکتوں کے اس عظیم خرمن سے زیادہ بہرہ مند ہونے کی بات ہے تو جو لوگ سب سے زیادہ اس خرمن سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں ان میں صاحب ذوق افراد ہیں، اہل دل افراد ہیں، جو جذبات کی لطافت رکھتے ہیں، یعنی آپ لوگ۔ قرب پروردگار کے حصول کے اس مہینے میں، دلوں کی پاکیزگی اور لطافت کے اس مہینے میں، اللہ سے انس حاصل کرنے کے اس مہینے میں، ذکر و مناجات اور خضوع و خشوع کے اس مہینے میں، اس مہینے کے روز و شب، ساعتوں اور لمحات سے آپ سے زیادہ کون محظوظ ہو سکتا ہے، آپ سے زیادہ مناسب کون ہو سکتا جو پہلے ہی سے پاکیزہ دل اور لطیف جذبات رکھتے ہیں۔
ذکر و انس و اشتیاق کی بہشت میں قدم رکھنے کے لئے، بہترین وسیلہ و ذریعہ وہ دعائیں ہیں جو اس مہینے کے لئے نقل ہوئی ہیں۔ وہ دعائیں بھی جو اس مہینے سے مختص ہیں اور وہ دعائیں بھی جو ہمیشہ حساس مواقع پر پڑھی جاتی ہیں۔ جیسے مناجات شعبانیہ، جیسے صحیفہ سجادیہ کی دعائیں۔ ان دعاؤں سے استفادہ کرنا بہت اہم ہے۔ وَ اسمَع دُعائی اِذا دَعَوتُک، وَ اسمَع نِدائی اِذا نادَیتُک، وَ اقبِل عَلَیَّ اِذا ناجَیتُک (۲) ان مفاہیم کو آپ کے حساس دل زیادہ خضوع کے ساتھ اور زیادہ توجہ کے ساتھ منعکس کر سکتے ہیں۔ فَقَد هَرَبتُ اِلَیکَ وَ وَقَفتُ بَینَ یَدَیک (میں بھاگ کر تیری سمت آیا ہوں اور تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں) یہ ایسے جملے ہیں، ایسے کلمات ہیں جو لطیف ترین دلوں اور فصیح ترین زبانوں سے نکلے ہیں، کون ہے جو آپ سے بہتر انداز میں اور آپ کے پاکیزہ و لطیف دلوں سے زیادہ ان کا ادراک کر سکتا ہے، ان کو محسوس کر سکتا ہے، ان سے استفادہ کر سکتا ہے؟ اس مہینے میں دعا سے ہرگز غافل نہ ہوئیے۔ مناجات شعبانیہ میں ہے؛ هَب لی قَلباً یُدنیهِ مِنکَ شَوقُهُ وَ لِساناً یُرفَعُ اِلَیکَ صِدقُهُ وَ نَظَراً یُقَرِّبُهُ مِنکَ حَقُّه (یا اللہ مجھے ایسا دل عطا کر جس کا اشتیاق اسے تیرے قریب لے جائے، ایسی زبان عطا کر جس کی صداقت بلندیاں طے کرکے تیری بارگاہ میں پہنچے، ایسی نظر عطا کر جس کی حق بیانی اسے تیرا قرب دلائے) ایسا دل عطا کر کہ جس کے اندر پایا جانے والا اشتیاق اسے بلندیوں پر لے جائے، رفعت عطا کرے، ذات ربوبی کے قریب لے جائے۔ انسان اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا مانگتا ہے۔ کون ہے جو آپ کے حساس اور لطیف دل سے زیادہ، اس کے لئے آمادہ ہے؟ بحمد اللہ آپ کے اندر یہ خصوصیات موجود ہیں۔
دعائے ابو حمزہ ثمالی میں ہے؛ بِکَ عَرَفتُکَ وَ اَنتَ دَلَلتَنی عَلَیکَ وَ دَعَوتَنی اِلَیکَ وَ لَولا اَنتَ لَم اَدر ما اَنت؛ ( میں نے تیری مدد سے تیری معرفت حاصل کی، تونے خود مجھے اپنی ذات کی شناخت عطا کی اور اپنی جانب مجھے بلایا، اگر تو نہ ہوتا تو مجھے معلوم نہ ہو پاتا کہ تو کیا ہے) باری تعالی سے، ذات حق تعالی سے، محبت و عزت کے سرچشمے سے یہ لطیف روحانی رابطہ! کتنا عظیم مرتبہ ہے! یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔ یہ چیزیں حساس دلوں میں گرمی حیات پیدا کر دیتی ہیں، اس میں امید کی کرن پیدا کرتی ہیں، ان کے لئے پناہ اور تکیہ گاہ بن جاتی ہیں۔ مجھے اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ اخوان مرحوم نے یہ شعر کس کے لئے کہا اور کیوں کہا؟ میں تو اس شعر کو صحیفہ سجادیہ کے لئے سمجھتا ہوں۔ میں اس شعر کو دعائے ابو حمزہ ثمالی کے بارے میں پڑھتا ہوں؛
«ای تکیه ‌گاه و پناه زیبا ترین لحظه‌های پرعصمت و پرشکوهِ تنهایی و خلوت من ای شطّ شیرین پرشوکت من»
(اے میری خلوت و تنہائی کے پاکیزہ و پرشکوہ لمحات کی پرکشش ترین پناہ و تکیہ گاہ، اے میری شیرین و باشکوہ نہر)
یہ ہے دعا۔ اسے ہرگز ترک نہ کیجئے۔ دعا سے کبھی روگرداں نہ ہوئیے۔ دعا بڑی اہم اور قیمتی شئے ہے۔ دعا وہ اکسیر ہے جو قنوطیت سے آلودہ، بدگمانی میں مبتلا، غلط جذبات سے بوجھل دلوں کو منقلب کر دیتی ہے، راہ راست کی جانب ان کی ہدایت کرتی ہے۔ دعا ایسی چیز ہے۔ ان شبوں سے بھرپور استفادہ کیجئے۔ آپ دعا پڑھنے اور اس سے حقیقی معنی میں محظوظ اور مستفیض ہونے والے سب سے زیادہ شائستہ اور موزوں افراد ہیں۔ البتہ دعا کے الفاظ کو دہرا لینا تو دعا پڑھنے کا سب سے نچلا مرتبہ ہے؛ کہ انسان بس ان الفاظ کو پڑھ لے اور ان کے معانی کو پوری طرح نہ سمجھے اور اگر سمجھے بھی تو صرف ظاہری معانی کو سمجھے۔ دعا میں ضم ہو جانا، اس کے مضامین کی گہرائی میں اتر جانا اور ان سے آمیختہ ہو جانا، یہ بہت با ارزش کیفیت ہوتی ہے۔
ظاہر ہے شعر ایک اثر انگیز چیز ہے۔ ادب کی گوناگوں صنفوں میں شعر کا اثر بہت زیادہ ہے۔ یعنی کوئی صنف سخن، کتنی ہی فصیح، کتنی ہی پرکشش، کتنی ہی پرمغز کیوں نہ ہو، اگر وہ شعر کے پیرائے میں نہیں ہے تو اس کے اندر وہ اثرانگیزی پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس طرح کی صنف سخن کا نام شعر ہے، اس طرح کی منفرد شئے کا نام شعر ہے۔ شعر اگر جذبات کو حرکت میں لانے کا مقام ہو تو جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے، اگر سمت و جہت دینی ہو تو شعر رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے، شعر خود پڑھنے والوں کو اور سننے والوں کو خاص سمت میں لے جاتا ہے۔ جب یہ خصوصیات ہیں تو ان کی وجہ سے کچھ ذمہ داریوں کا عائد ہونا بھی فطری ہے۔ جب آپ کے پاس ایک سرمایہ ہے، ذریعہ ہے، جسے آپ بڑے کاموں کی انجام دہی کے لئے استعمال کر سکتے ہیں، مگر آپ اسے بروئے کار نہیں لا رہے ہیں تو گویا آپ نے اپنے فریضے کے برخلاف عمل کیا ہے۔ اپنی فرض شناسی کے خلاف عمل کیا ہے۔ یہ تاثیر او خاصیت، انسان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کر دیتی ہے۔ اللہ تعالی نے یہ نعمت آپ کو عطا کی ہے۔ دیگر نعمتوں کی مانند اس نعمت کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔ الہی عطیئے کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ آپ سے سوال کیا جائے گا کہ اس نعمت کا آپ نے کیا کیا؟
شعر کی شکل میں دستیاب وسیلے سے مخاطب افراد کی راہ راست اور صراط مستقیم کی جانب رہنمائی کی جا سکتی ہے، اسی طرح اسے گمراہی میں مبتلا کرکے تنزل کی جانب بھی لے جایا جا سکتا ہے۔ شعر انسان کو پستی کی طرف بھی لے جا سکتا ہے، ایسے اشعار بھی موجود ہیں۔ خاص طور پر آج کے دور میں جب انسانی و اخلاقی ضوابط سے عاری بے لگام کلچر نئے مواصلاتی ذرائع کی مدد سے بہت زیادہ عام ہوتا جا رہا ہے، تو کبھی شعر لغزش، سقوط اور انحراف کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ یعنی شعر سے دونوں طرح کا کام لیا جا سکتا ہے۔ شاعر اپنے لطیف احساسات کی مدد سے امر واقعہ کا ادراک بھی کرتا ہے، اس کے اندر اشتیاق کی کیفیت بھی پیدا ہوتی ہے اور کبھی رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہوتا ہے اور شعر نذر کرتا ہے۔ شاعر کا شعر اس کے قلبی واردات و کیفیات کا انعکاس ہوتا ہے، کسی چیز کے مشاہدے، ادراک یا احساس کا نتیجہ ہوتا ہے، جن پر عموما دوسروں کی نگاہ نہیں پڑ پاتی۔ اس کے دو پہلو ہو سکتے ہیں۔ یہ شعر نیکی کا باعث بھی بن سکتا ہے اور اس کے برعکس نتائج کا حامل بھی ہو سکتا ہے۔ اگر اسی شعر کو نفسانی خواہشات کے زیر اثر نظم کیا جائے، جو بد قسمتی سے ہمارے ملک کے اندر بھی بعض حلقوں کے یہاں دیکھنے میں آتا ہے تو یہ بہت بری بات ہوگی۔ پاکیزہ و لطیف فضا، پرکشش روحانی ماحول اور انقلابی جوش و خروش کے ماحول میں ہمارے نوجوان اب تک آگے بڑھتے رہے ہیں، اب کچھ جگہوں پر اور خاص طور پر سائبر اسپیس میں، اس کے علاوہ بھی کچھ جگہیں ہیں، بعض عناصر شاعری کے ذریعے نوجوانوں کو بے لگام جنسیات کی جانب دھکیل رہے ہیں، یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ کبھی تو یہ صورت ہوتی ہے اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ذاتی مفادات کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے، کبھی مظالم کی تعریف کی جاتی ہے، ہماری تاریخ میں ظلم اور ظالم کی تعریف کی مثالیں اچھی خاصی ہیں۔ البتہ آج اس رجحان کے عین مقابل سمت کا رجحان بھی موجود ہے۔ الحمد للہ ہم نے دیکھا کہ ہمارے ان عزیز شعراء میں سے جو ہمارے سامنے کھڑے ہیں، جناب سیار (3) وغیرہ کے منہ سے میں نے پہلے بھی یمن کے بارے میں اشعار سنے اور پڑھے ہیں۔ واقعی بہت اچھے اشعار ہیں۔ یہ جو اشعار آپ نے کہے ہیں اور آج کی شب یہاں احباب نے جو اشعار پیش کئے، بہت اچھے تھے، یہ بالکل درست عمل ہے، یہ بالکل صحیح اقدام ہے، یہ وہی فرض ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی سوال کرے گا۔ دعائے مکارم الاخلاق کا ایک فقرہ اس طرح ہے؛ وَ اسْتَعْمِلْنِی بِمَا تَسْأَلُنِی غَداً عَنْهُ (اور مجھے ان چیزوں پر عمل کروا جن کے بارے میں تو کل مجھ سے سوال کرے گا) (۴) اس فکر میں رہنا چاہئے کہ کل کچھ چیزوں کے بارے میں ہم سے سوال کیا جانے والا ہے۔ بندہ کہتا ہے کہ اے پروردگار جس چیز کے بارے میں تو کل سوال کرنے والا ہے، آج اس پر توجہ دینے اور اسے انجام دینے والے وسائل مجھے فراہم کر! آپ کے پاس اس کے وسائل موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہوں جن کا دل بھرا ہوا ہو مگر قوت بیان نہ ہو۔ آپ الحمد للہ قوت بیان رکھتے ہیں، اپنی بات کہہ سکتے ہیں، تو آپ بیان کیجئے، اس کا اثر ہوگا۔ یہ اشعار جو آپ بحرین کے لئے کہتے ہیں یا یمن کے لئے کہتے ہیں، یا لبنان کے لئے کہتے ہیں، یا غزہ کے لئے کہتے ہیں یا فلسطین کے لئے کہتے ہیں یا شام کے لئے کہتے ہیں، آپ امت اسلامیہ کے اہداف کی خدمت کے لئے جو شعر بھی کہتے ہیں اس کا ایک ایک حرف اپنا اثر رکھتا ہے اور اس سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اگر شاعری ان میدانوں میں ہو تو «انَّ مِنَ الشِّعرِ لَحِکمَه»(۵) کا اطلاق آپ کے اشعار پر ہوگا۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں، البتہ پہلے بھی اسی نشست میں اور دیگر جلسوں میں کہہ چکا ہوں کہ حق و باطل کی لڑائی میں غیر جانبداری کا کوئی مفہوم نہیں ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تنازعہ مشکوک اور غیر واضح ہوتا ہے تو ایسی صورت میں بات الگ ہوتی ہے۔ مگر جب حق و باطل کا معاملہ ہو تو ایسی صورت میں غیر جانبدرای کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ ہمیں حق کی حمایت کرنی چاہئے، باطل کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ کوئی عسکری طریقے سے مقابلہ کرتا ہے، کوئی سیاسی انداز میں مقابلہ کرتا ہے، اس مقابلے کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں، اسی طرح کوئی اپنی زبان اور اپنے بیان سے، اپنی فکر اور اپنے خیال سے مقابلہ کر سکتا ہے۔ شاعر حق و باطل کی جنگ میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔ اگر شاعر اور فنکار لا تعلق ہو گیا تو گویا اس نے نعمت خداداد کو ضائع کیا ہے اور اگر اس نے خدانخواستہ باطل کی حمایت کی ہے تب تو وہ خیانت اور جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ کیونکہ یہ تساہلی کا معاملہ نہیں جرم کا مسئلہ ہے۔ ان گزشتہ برسوں میں آپ کی قوم پر بڑے مظالم ہوئے ہیں، اس مظلومیت کو بیان کرنے کی ضرورت ہے، اسے عالمی سطح پر منعکس کرنے کی ضرورت ہے۔
سنہ 1987 میں انھیں ایام میں سردشت کے علاقے پر کیمیائی بمباری ہوئی تھی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایک شہر پر کیمیائی بمباری کر دی جائے، ہزاروں لوگ، بچے، بوڑھے، پیر و جواں، عورت مرد سب نابود ہو جائیں اور دنیا مہر بلب رہے! وہی دنیا کہ بسا اوقات کوئیں میں بلی گر جائے تو یہ اس کے لئے بہت بڑا ایشو بن جاتا ہے، نیوز ایجنسیوں میں، اخبارات میں، ٹی وی چینلوں پر اسے دکھایا جاتا ہے کہ کوئیں کے اندر بلی گر گئی ہے یا لومڑی گر گئی ہے۔ فلاں ادارہ، فلاں محکمہ اور فلاں ٹیم سب جمع ہو گئے کہ اسے کوئیں سے زںدہ باہر نکالا جائے۔ یا کوئی آبی جانور ساحل پر آ پڑا ہے اور مرنے کے قریب ہے۔ اسے کسی صورت سے پانی میں واپس پہنچاتے ہیں۔ اس واقعات پر دنیا آسمان سر پے اٹھا لیتی ہے، لیکن جب ایک شہر پر کیمیائی بمباری ہوتی ہے تو یہی دنیا خاموش تماشائی بن جاتی ہے! ہم دنیا جو کہہ رہے ہیں تو ہماری مراد قومیں نہیں ہیں۔ قوموں کے پاس وسائل و ذرائع نہیں ہیں، میری مراد تشہیراتی وسائل پر قابض طاقتوں سے ہے، بالفاظ دیگر امریکا، برطانیہ، مغرب کی تسلط پسند طاقتیں، صیہونی قوتیں۔ دنیا کے تشہیراتی شعبے پر انھیں کا غلبہ ہے۔ وہ اپنی مرضی کے خلاف کچھ بھی نہیں ہونے دیتیں۔ اس وقت یمن کو مسمار کیا جا رہا ہے، شب و روز۔ لیکن کہیں سے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ کل غزہ مسمار کیا جا رہا تھا، اس سے کچھ عرصہ قبل لبنان کو تباہ کیا گیا، کسی کے منہ سے کوئی آواز نہیں نکلی۔ لیکن آپ ذرا یہ فرض کیجئے کہ کسی جگہ دو اسمگلروں پر مقدمہ چلایا جائے اور انھیں پھانسی دے دی جائے تو کیسا تشہیراتی آشوب برپا ہو جاتا ہے؟ یہ ہے دنیا کا عالم۔ اس دنیا کے ساتھ انسان کیا کرے؟ اس طرح کے طریق کار، اس بے شرمی اور اس خباثت پر انسان کیا کرے؟ دینی و ایمانی عقیدے کی بات جانے دیجئے۔ ایک شریف انسان، باضمیر انسان، انسانی جذبہ رکھنے والا آدمی اس بارے میں کیا فیصلہ کرے گا؟ یہ انسان کے دوش پر سنگین بوجھ ہے۔
البتہ میں اسلامی انقلاب کے بعد ملک میں شعر کے ارتقائی عمل سے مطمئن ہوں۔ واقعی بہت بہتر صورت حال ہے۔ آج جن نوجوانوں نے اشعار پیش کئے، وہ دس سال قبل اپنا کلام پیش کرنے والے نوجوانوں سے بہت الگ ہیں، فرق بالکل واضح اور نمایاں ہے۔ یعنی واقعی پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ شعر کی کیفیت بہت اچھی ہے۔ مگر ہمارے ملک میں شعر کی وادی میں ابھی بہت کچھ کرنے کی گنجائش باقی ہے۔ موجودہ صورت حال سے کہیں زیادہ بہتر حالات ہو سکتے ہیں۔ آپ ذرا غور کیجئے۔ اس کمسن طالبہ کو دیکھئے (6)، میں نے سنا ہے کہ 'شہرستان ادب' نے اسکولی طلباء کی سطح پر کام شروع کیا ہے، بہت سے افراد کو جمع کیا گیا ہے (7)۔ ہمارے اسکولی طالب علم، ہمارے نوجوان، ہمارے جوان، ہماری بچیاں، ہمارے بچے شعر کہیں وہ بھی اتنا معیاری شعر، ایسے اعلی مضامین کا شعر، ایسے قوی تخیل پر مبنی شعر، تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ البتہ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کی ہماری اس وقت جو عمومی شعری سطح ہے وہ ایران کے شایان شان عمومی شعری سطح تک نہیں پہنچی ہے۔ یعنی ہمارے ملک میں، بہت زیادہ پرانی بات نہیں ہے، ایسے ادوار گزرے ہیں جن میں شعر کی عمومی سطح، یعنی شاعری کے میدان میں جو اوج اور بلندی نظر آتی تھی، وہ ہماری موجودہ سطح سے زیادہ تھی۔ بڑے نمایاں افراد تھے، شعراء تھے، قصیدے کے میدان کے بھی، غزل کے میدان کے بھی، مختلف شعری اصناف سے تعلق رکھنے والی ہستیاں تھیں۔ ہمیں ایسی ہستیوں کی ضرورت ہے تاکہ یہ سطح بلند ہو۔ اس کے لئے سعی پیہم کی ضرورت ہے، محنت و جفاکشی کی احتیاج ہے۔
وسعت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو واقعی ہماری وسعت کافی زیادہ ہے، ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ یہ وسعت جاری رہے، لیکن اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں فن و ہنر کے شعبے کی بھی ذمہ داریاں ہیں اور دیگر مختلف اداروں کے بھی کچھ فرائض ہیں۔ حکومتی اداروں اور اسلامی نظام سے وابستہ اداروں جیسے قومی نشریاتی ادارے آئي آر آئی بی اور دیگر اداروں کی ذمہ داریاں ہیں۔ شاعری کی قدر کرنا چاہئے، شعر بڑی عظیم چیز کا نام ہے، بڑی اہم صنف سخن کا نام ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے نظام کے اندر، ہمارے ملک کے اندر جن لوگوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے ان میں سے بعض، البتہ میں سب کو نہیں کہہ رہا ہوں، گویا شعر کی اہمیت کی گہرائی سے واقف ہی نہیں ہیں، انھوں نے شعر کی قدر و منزلت کو سمجھا ہی نہیں ہے۔ شعر کی جس طرح قدر کرنا چاہئے انھوں نے نہیں کی ہے۔ شعر کی قیمت و منزلت کو سمجھے ہی نہیں ہیں۔ شعر میں بڑی عجیب تاثیر ہوتی ہے۔ بعض اوقات ایک شعر یا ایک غزل یا ایک قطعہ کی تاثیر، ایک صاحب علم اور ماہر فن مقرر کی ایک گھنٹے اور دو گھنٹے کی تقریر سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بڑی اہم چیز ہے۔ یہ بڑا قیمتی گوہر ہے۔ شعر کی یہ اہمیت ہے۔ اس کی قدر و قیمت کو سمجھنا چاہئے۔
ضمنا یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ایک اور بڑی اچھی چیز جو ہمارے ملک میں ہے، بحمد اللہ اس نشست میں بھی نظر آئی، اس سے پہلے بھی نظر آتی رہی ہے اور میں جس سے بہت خوش ہوں، واقعات و تغیرات پر ہمارے نوجوان شعرا کا فوری رد عمل ہے۔ یہ بڑی اہم چیز ہے، یہ بہت اچھی بات ہے۔ کوئی ہرگز یہ خیال نہ کرے کہ یہ غیر تعمیری چیز ہے، یہ بڑی مثبت چیز ہے۔ پوری تاریخ میں، ماضی قریب اور عصر حاضر میں ہم نے دیکھا کہ اسی فوری رد عمل کے نتیجے میں بہترین تخلیقات وجود میں آئیں۔ جب اسرائیلی طیارے کو اس لڑکی نے اغوا کر لیا تو امیر فیروز کوہی مرحوم نے ایک قصیدہ کہا تھا۔ امیر فیروز کوہی کو ہمارے جو احباب پہچانتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ وہ کوئی نوجوان اور انقلابی شاعر نہیں تھے، لیکن اس واقعے سے ان پر جو کیفیت طاری ہوئی، اس کے تناظر میں انھوں نے اسی وقت، یہ ساٹھ کے عشرے کی بات ہے، بڑا خوبصورت اور معیاری قصیدہ کہا۔ موقع و محل کے اعتبار سے بڑا موزوں تھا۔
«آنجا غزاله‌ای...»
اب مجھے اس کے بہت سے اشعار یاد نہیں رہے، اس زمانے میں اس کے بہت سے اشعار یاد تھے۔ میں نے خود ان کی زبان سے سنا تھا (8)۔ بہرحال یہ بہت اچھی خصوصیت ہے۔ کسی واقعے پر فوری طور پر رد عمل سامنے آئے اور اس کی تشریح کی جائے، یہ بہت اجھی چیز ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ انقلابی شاعری روز بروز زیادہ بلندی اور رفعت حاصل کرے گی۔ البتہ انقلابی شاعری سے میری مراد ایسی شاعری نہیں ہے کہ جو انقلاب کے زمانے میں کی جائے، خواہ وہ انقلاب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ انقلابی شاعری سے یہ مراد نہیں ہے۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جنگی شاعری وہ ہے جو جنگ کے بارے میں ہو، خواہ جنگ کے خلاف اشعار کہے جائیں۔ یہ جنگ کی شاعری نہیں ہے۔ یہ جنگ مخالف شاعری ہے۔ انقلابی شاعری یعنی ایسی شاعری جو انقلاب کے اہداف کی خدمت کرے۔ اسے کہتے ہیں انقلابی شاعری۔ میری مراد انقلاب کے زمانے کی شاعری نہیں ہے۔ انقلابی شاعری وہ ہے جس سے انقلاب کے مقاصد کی تکمیل ہو، جس سے انصاف کی حمایت ہو، جس سے انسانیت کی خدمت ہو، جس سے دین کی خدمت کی جائے، جس سے اتحاد و یکجہتی کو مدد ملے، جس سے قومی وقار بلند ہو، جس سے ملک کی ہمہ جہتی ترقی میں مدد ملے، جس سے ملک کے اندر حقیقی معنی میں انسان سازی میں مدد ملے۔ یہ ہے انقلابی شاعری جو انقلاب کے اہداف کی خدمت کرنے والی ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب فرمائے، طول عمر و سلامتی عطا فرمائے، آپ کے نوجوان برسوں اسی صراط مستقیم پر گامزن رہیں اور وطن عزیز کو، اس کے مستقبل کو، نسلوں کو بہرہ مند کریں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله

۱) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل کچھ شعراء نے اپنے اشعار پڑھے۔
۲) مناجات شعبانیہ
۳) محمّد مہدی سیّار
۴) صحیفه‌ سجّادیّه، دعائے مکارم‌ الاخلاق‌
۵) من ‌لا یحضره ‌الفقیه، جلد ۴، صفحہ ۳۷۹
۶) معصومه فراہانی نام کی طالبہ جس نے اس نشست میں اشعار پڑھے۔
۷) 'شہرستان ادب' نامی ثقافتی و فنی ادارے کی جانب سے شعر و افسانہ نگاری کی ورکشاپ کے انعقاد کی جانب اشارہ ہے۔
۸) یہ حوالہ ہے امیر فیروز کوہی کے قصیدے؛ «آنجا غزاله‌ ای بین خورشید در حبالش / عزمش ز هفت مردان، رزمش به هفت میدان» کا ہے۔ یہ قصیدہ انھوں نے 'شادیہ ابو غزالہ' کے بارے میں کہا تھا۔ فلسطینی تنظیم عوامی محاذ برائے ازادی فلسطین کے اندر لیلی خالد کو شادیہ ابو غزالہ کا نام دیا گیا تھا۔ شادیہ ابو غزالہ شہید ہونے والی پہلی فلسطینی خاتون تھیں۔ لیلی خالد یا شادیہ ابو غزالہ نے سنہ 1969 میں اس خیال کے تحت کہ روم سے ایتھنز جانے والے طیارے میں اسحاق رابن موجود ہیں، اس طیارے کا اغوا کر لیا اور اسے دمشق کے ایئرپورٹ پر اتار لیا تھا۔