6 تیر 1394 ہجری شمسی مطابق 27 جون 2015 برابر 10 رمضان المبارک 1436 ہجری قمری کو ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی برکتوں میں سے ایک اسلامی معارف کا از سر نو احیاء اور معاشرے میں اس کا نفاذ ہے۔ آپ نے فرمایا: ان اساسی معارف میں سے ایک شہادت سے متعلق معرفتوں کا نظام ہے جو ہمارے معاشرے میں رو بہ عمل آیا۔ چنانچہ شہدا میدان عمل میں اترے اور ان کی پرخلوص سعی و کوشش پر عظیم الہی جزا اور انعام شہادت سے وابستہ ہو گیا اور وہ بے خوفی اور بے فکری کے ساتھ اپنے پروردگار سے ملاقات کے لئے آگے بڑھے اور ان شہادتوں کے روحانی اثرات معاشرے میں نمودار ہوئے۔
اٹھائیس جون 1981 کا سانحہ، 28 جون 1987 کو سردشت پر کیمیائی بمباری، 2 جولائی 1982 کو شہید صدوقی کی ٹارگٹ کلننگ، 3 جولائی 1988 کو ایران کے مسافر بردار طیارے کو میزائل سے تباہ کر دینا، امریکا اور اس کے مہروں کے دہشت گردانہ اقدامات کے چند نمونے قرار دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: کچھ لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ 'تیر' مہینے (22 جون الی 23 جولائی) کے ان ایام کو امریکی انسانی حقوق کے ہفتے سے موسوم کر دیا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دشمن کی شناخت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: قوم کو چاہئے کہ دشمن کی مکمل شناخت کے ساتھ نرم جنگ کے میدانوں منجملہ ثقافتی، سیاسی اور سماجی شعبوں میں اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌ (1)
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الأرضین.

عزیز بہنو اور بھائیو! خوش آمدید۔ آپ نے اس حسینیہ کو، ہمارے کام کی اس جگہ کو شہیدوں کی یادوں کی خوشبو سے معطر کر دیا۔
اسلامی انقلاب کی ایک برکت اس دور میں بھی کلیدی اسلامی معارف و تعلیمات کا احیاء ہے۔ ان معارف و تعلیمات میں بہت سی ایسی تعلیمات ہیں جو کتابوں میں اور ہمارے ذہنوں میں ہوا کرتی تھیں، مگر اسلامی انقلاب نے انھیں مجسم کر دیا، وجود خارجی عطا کر دیا۔ ان معارف و تعلیمات کا ایک بڑا حصہ شہادت سے متعلق تعلیمات کا نظام ہے۔ یعنی وہی چیز جس کا ذکر اس آیہ شریفہ میں ہے جس کی تلاوت کی گئی؛ وَ لا تَحَسَبَنَّ الَّذینَ قُتِلوا فی سَبیلِ اللهِ اَمواتًا بَل اَحیآءٌ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقون * فَرِحینَ بِمآ ءاتهُمُ اللهُ مِن فَضلِه‌ وَ یَستَبشِرونَ بِالَّذینَ لَم یَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم اَلّا خَوفٌ عَلَیهِم وَ لا هُم یَحزَنون (۲) یہ ایک معرفت ہے، یہ عظیم اسلامی تعلیمات میں سے ایک ہے۔ مسلم سماجی نظام کے اندر شہادت کے جذبے کو زندہ اور برانگیختہ کرنے کا کردار ادا کرنے والی تعلیم اور معرفت۔ شہدا انھیں جو شہدا کے زمرے میں شامل نہیں ہوئے ہیں، جیسے ہم اور آپ، بشارت دیتے ہیں کہ اس راستے میں نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی غم ہے۔ جو کچھ ہے وہ سب مسرت ہے، ابتہاج (3) ہے، نشاط ہے، جوش و جذبہ ہے، امید ہے، یہ بہت اہم درس ہے۔ اسلامی جمہوریہ کی تاریخ میں اس درس کا بار بار اعادہ ہوتا رہا ہے۔ ہمارے شہدا بے مثال جذبے اور حوصلے کے ساتھ اس میدان میں اترے، انھوں نے جانفشانی کی، اخلاص کے ساتھ انجام پانے والی ان کی ان مساعی پر اللہ تعالی نے بہترین صلہ عطا فرمایا، انھیں شہادت کا درجہ نصیب ہوا۔ یہ شہادت بیشک وہ عظیم صلہ و جزا ہے جو اللہ تعالی کی جانب سے ان مخلص، پاکیزہ اور طاہر بندوں کو حاصل ہوئی۔ شہدا شادمانی و اشتیاق کے ساتھ اس میدان میں اترے، اللہ سے انھوں نے ملاقات کی، مرضی پروردگار حاصل کی، موت کے بعد شروع ہونے والی زندگی میں نہ انھیں کوئی غم ستاتا ہے اور نہ ان پر کوئی خوف طاری ہوتا ہے۔ اس صورت حال کو وہ معاشرے میں منعکس کرتے ہیں، اسے وہ ان لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں جو ابھی ان کی صف میں شامل نہیں ہو پائے ہیں۔ ہم نے ان گزشتہ برسوں کے دوران اسی حقیقت کا مشاہدہ کیا ہے کہ جہاں بھی کوئی شہادت ہوئی تو اس کے بعد شہید کے خاندان نے اظہار فخر کیا، شہید کے پسماندگان کے اندر وقار کا جذبہ پیدا ہوا، عوام الناس میں روحانی و معنوی مسرت کی کیفیت پیدا ہوئی اور اس کے گہرے سماجی اثرات دیکھنے کو ملے۔ شہادت کے جو واقعات بہت نمایاں رہے ان میں ایک 28 جون کو پیش آنے والا واقعہ ہے۔
اٹھائیس جون کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ اسلامی نظام میں نمایاں اور اساسی کردار رکھنے والے عہدیداران میں سے بہتر کو یکجا اور یکلخت ختم کر دیا جانا! ان میں شہید بہشتی جیسی شخصیت بھی شامل تھی۔ شہید بہشتی نادر الزمن ہستی کے مالک تھے، ان افراد میں تھے جن کی نظیر کئی نسلیں گزر جانے کے بعد مشکل سے مل پاتی ہے۔ ایسی ہستی کو، انتہائی اہم وزرا کو، ارکان پارلیمان کو، سیاسی و انقلابی کارکنان کو یکبارگی عوام سے چھین لینے کا طبعی اور فطری اثر کیا ہوگا؟ قوم کی شکست، انقلاب کی ناکامی، فطری طور پر تو یہی نتیجہ نکلنا چاہئے تھا، لیکن اس کے بر عکس نتیجہ نکلا۔ اس سانحے کا نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا جس کی توقع دشمن کو تھی۔ عوام اور بھی متحد ہو گئے، اسلامی انقلاب اور بھی استحکام کے ساتھ اپنی ڈگر پر آگے بڑھنے لگا، صحیح سمت میں پیش قدمی کرنے لگا، قوم کے دشمن بے نقاب اور رسوا ہو گئے۔
اس عظیم سانحے کو انجام دینے والوں میں بعض ایسے افراد تھے جو برسوں سے عوام کے درمیان تھے اور نوجوانوں کے درمیان اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے خود کو آزادی اور اقدار کے حمایتی کے طور پر پیش کرتے آئے تھے، ان کی حقیقت بھی کھل گئی۔ پتہ چل گیا کہ یہ مٹھی بھر دہشت گرد ہیں جو ہر طرح کی فکری، انقلابی اور دینی اقدار سے بیگانہ ہیں۔ یہی افراد جو اس سانحے کو کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد صدام حسین جیسے شخص کی پناہ میں چلے گئے اور عراق کے عوام کے خلاف بھی انھوں نے جرائم کا ارتکاب کیا اور ملت ایران کے خلاف بھی ریشہ دوانیاں کیں۔ میدان جنگ میں اتر پڑے اور خود اپنی قوم کے خلاف جنگ کرنے لگے۔ اس سے بڑا انکشاف کیا ہوگا؟! یہ افراد براہ راست اس سانحے میں ملوث تھے۔ کچھ عناصر تھے جو پردے کے پیچھے تھے، ان کی حقیقت بھی سامنے آ گئی۔ کچھ افراد تھے جو اس مجرمانہ فعل کے حامی تھے وہ بھی پہچان لئے گئے۔ ملک کے اندر اور باہر سب سمجھ گئے کہ ایران میں کیا ہو رہا ہے اور ملت ایران کے مقابل کون سے افراد ہیں۔ کچھ لوگ تھے جو خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے، رضامندی کا اظہار کرنے والی خاموشی؛ سَمِعَت بِذلِکَ فَرَضِیَت بِه - (۴) ان کی حقیقت بھی آشکارا ہو گئی۔
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اس سانحے کی مدد سے انقلاب کے اصلی دھارے کا تعین کر دیا۔ اس راستے کو ملت ایران کے سامنے پیش کیا، انقلاب کے صحیح راستے کا، جسے شروع میں ہی اصلی راستے سے منحرف کر دینے اور مغرب یا مشرق سے چسپاں کر دینے کی کوششیں شروع ہو گئی تھیں، تعین کر دیا۔ انقلاب کو نجات دلا دی۔ یہ اس سانحے کی برکت سے ہوا۔ بیشک ہم نے بہت بڑی بڑی قیمتیں چکائی ہیں، بڑی عظیم ہستیوں سے محروم ہوئے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ 1400 سال کی اس تاریخ میں اب تک مسلمان قوم شہدائے کربلا کے خون کی مقروض ہے۔ حسین ابن علی (علیہما السلام) کی جان سے بڑھ کر کیا قیمت ہوگی؟ امام حسین کے اصحاب کی جان سے زیادہ عزیز اور اہم کوئی زندگی ہو سکتی ہے؟ یہ قربانیاں دی گئیں، یہ قیمت چکائی گئی، مگر اس کے بدلے اسلام کو بقا ملی، قرآن کو زندگی ملی، معاشرے میں ایمان کی حقیقی شکل محفوظ ہو گئی۔ یہی صورت حال اٹھائيس جون کے واقعے میں بھی ہے، ہمارے دیگر شہدا کے واقعات میں بھی ہے۔
اس واقعے کے اثرات میں عوام کے اندر پیدا ہونے والی روحانی مسرت اور منعوی نشاط ہے۔ اس واقعے کے اثرات و ثمرات میں انقلاب کی قوت و توانائی اور گہرے رسوخ کا نمودار ہونا ہے جو معاشرے کی گہرائیوں میں موجود تھا۔ دشمنوں نے اندازہ لگا لیا تھا، انھیں یہ محسوس ہوا تھا کہ یہ واقعہ جس ملک میں بھی ہوگا وہاں کا نظام حکومت بکھر جائے گا، مگر ایران میں اس سے قوم کے اندر استحکام بڑھا اور دشمنوں کی بھی سمجھ میں یہ حقیقت آ گئی کہ اس انقلاب کو تشدد سے دبایا نہیں جا سکتا۔ اس روش کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ انھیں معلوم ہو گیا۔
اس واقعے کے ان اثرات و نتائج میں جو آج تک لگاتار سامنے آ رہے ہیں، حقائق کی پردہ کشائی ہے۔ انسانی حقوق کے تعلق سے بڑے بڑے دعوے کرنے والی استکباری طاقتوں کی حقیقت کو سامنے لانا ہے؛ وہی افراد جنھوں نے اس ملک کے اندر اس مجرمانہ فعل اور دیگر دہشت گردانہ کارروائیوں کا ارتکاب کیا آج یورپی ملکوں اور امریکا میں آزادانہ سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ ان ملکوں کے حکام اور عمائدین سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ان کے لئے انسانی حقوق پر تقریر کے پروگرام رکھے جاتے ہیں۔ تو یہ سانحہ جس طرح حقیقت سے پردہ کشائی کرتا ہے اس سے زیادہ انکشاف کیا ہو سکتا ہے؟ اس سانحے نے ثابت کر دیا کہ انسانی حقوق کے ٹھیکیدار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعویدار منافقت، دوغلے پن اور دروغگوئی کی کس انتہا کو پہنچے ہیں؟! یہ چیز آج ساری دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہے۔
ہمارے ملک میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے شہیدوں کی تعداد سترہ ہزار ہے۔ سترہ ہزار افراد کی ٹارگٹ کلنگ! یہ تعداد معمولی ہے؟! یہ کوئی مذاق ہے؟! جن لوگوں نے یہ ٹارگٹ کلنگ کی آج مغربی ملکوں میں آزادی سے گھوم رہے ہیں۔ اس ٹارگٹ کلنگ میں کن لوگوں کو نشانہ بنایا گيا؟ تاجروں کو نشانہ بنایا گیا، کاشتکاروں کو قتل کیا گیا، علمائے دین کو قتل کیا گيا، یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو قتل کیا گيا، مومن و پرہیزگار افراد کو قتل کیا گيا، بچوں کو مارا گیا، عورتوں کی جانیں لی گئیں، اسلامی انقلاب کی تاریخ میں سترہ ہزار شہیدوں کے نام درج ہیں۔ اس حقیقت کے دو پہلو ہیں؛ ایک طرف تو یہ حقیقت ان چہروں کی نقاب ہٹاتی ہے جو دہشت گردی کی مخالفت کے دعوے کرتے نہیں تھکتے، یہ ان کے جھوٹے دعوؤں کے لئے آئينہ ہے جس میں نظر آتا ہے کہ وہ کتنے بڑے جھوٹے ہیں، کتنے عیار ہیں، کس قدر خباثت رکھتے ہیں، کتنے پست ہیں کہ خوں آشام دہشت گردوں کی اس طرح حمایت کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ دہشت گردی کی مخالفت کے دعوے بھی کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف ہیں، قضیئے کا ایک پہلو تو یہ ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جس قوم نے سترہ ہزار شہیدوں کی قربانی پیش کی ہے، یہ ان شہیدوں کے علاوہ ہیں جو مقدس دفاع کے دوران وطن عزیز کے کام آئے، وہ قوم آج انقلاب کی خدمت میں، انقلاب کے راستے پر اور دشمنان انقلاب کے مقابلے پر پوری استقامت و ثابت قدمی سے کھڑی ہوئی ہے۔ اس انقلاب کی عظمت، اس قوم کی عظمت ان شہادتوں سے پوری طرح نمایاں ہے۔ یہ؛ «وَ یَستَبشِرونَ بِالَّذینَ لَم یَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم اَلّا خَوفٌ عَلَیهِم وَ لا هُم یَحزَنون»،(۵) بشارت ہے۔ یہ بشارت ملت ایران کو دی جا رہی ہے۔ یہ بشارت مسلمانوں کو دی جا رہی ہے۔ یہ تعلیمات اس سے پہلے تک کتابوں میں ہوا کرتی تھیں، ذہنوں میں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن ہمارے ان عزیز شہیدوں نے، آپ کے ان فرزندوں نے، آپ کے شوہروں نے، آپ کے والد نے، خارجی حقیقت کے طور پر اس کی مثال پیش کی، اس کی عملی تصویر پیش کی، ہمیں اس سے روشناس کرایا اور آئندہ نسلوں کو اس کی جھلک دکھائی۔
آج بھی شہدا ملت ایران کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ ابھی چند روز قبل 270 شہیدوں کو تہران لایا گیا اور آپ نے دیکھا کہ کیا سماں بندھ گیا۔ کیسا جوش و جذبہ پیدا ہوا! سرد مہری کے ماحول، قنوطیت کی فضا اور جمود کے حالات کے بالکل برخلاف شہدا شوق و عشق و اہداف کے لئے آمادگی، تحرک اور وابستگی کی فضا پیدا کرتے ہیں۔
ہم نے شہدا کے موضوع پر واقعی بہت کم کام کیا ہے۔ 28 جون کے سانحے کے اندر واقعی حیرت انگیز توانائياں ہیں جن کا تعارف کرانا چاہئے، ان ہستیوں کو متعارف کرانا چاہئے جو جرائم کی اس لہر کی زد پر آئیں۔ اسی طرح ملت ایران کا بھی تعارف کرانا چاہئے کہ کس طرح اس قوم نے تہہ و بالا کر دینے والے اس واقعے کو تحمل کیا اور اپنی جگہ پر ثابت قدم رہی۔ میدان سے باہر نکلنا تو در کنار اس کے اندر اور بھی مستحکم جذبہ پیدا ہوا۔ یہ سانحہ دشمن کی حقیقت بھی سامنے لاتا ہے کہ وہ کتنا پست ہے اور کیسی خباثت آمیز پالیسیاں ان واقعات کے پیچھے کارفرما ہیں، ان دشمنوں کے جرائم آلود ہاتھ کس طرح کام کرتے ہیں۔ 28 جون کے واقعے میں اور اس جیسے دیگر واقعات میں بھی، البتہ 28 جون کا سانحہ سب سے اہم ہے، یہ توانائی بدرجہ اتم موجود ہے۔ ہم نے کوتاہی برتی۔ ہم نے ان توانائیوں کا تعارف نہیں کرایا۔ بہت سے کام کئے جا سکتے تھے اور کئے جانے چاہئے۔ متعلقہ ادارے اور ہم سارے ہی لوگ کوتاہی کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ذمہ داری بھی رضاکار عوامی انقلابی و ثقافتی دھڑے کو سونپ دینا چاہئے۔ یہ نوجوان جو آپ کو ملک میں جگہ جگہ رضاکارانہ طور پر مختلف کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، ثقافتی کام کرتے ہیں، فنی کام انجام دیتے ہیں، حقائق کا احیاء کرتے ہیں، صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں، موجودہ توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہیں، وہی نوجوان یہ ذمہ داری بھی اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ فن کی زبان میں، تصویر کشی کے ذریعے، جدید وسائل کی مدد سےو اس سانحے کو اور ان شخصیات کو متعارف کرائیں۔ شہید بہشتی جیسی شخصیت کو دنیا میں متعارف کرائیں، شہید رجائی جیسی ہستی کو پیش کریں، شہید باہنر جیسے عظیم انسان کو روشناس کرائیں۔ 28 جون کے سانحے میں اور اسی طرح دیگر واقعات میں شہید ہونے والی ان شخصیات میں ہر ایک اس مقام پر ہے کہ اس کی عظیم تصویر اور با عظمت چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہے۔
شہدا کی زندگی کے موضوع پر جو کتابیں ہیں، میں بعض اوقات ان کا مطالعہ کرتا ہوں۔ حقیقت میں بڑی سبق آموز ہیں۔ میں ان سے سبق حاصل کرتا ہوں۔ مجھے یہ کتابیں پڑھ کر حوصلہ ملتا ہے۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کیسی عظیم ہستیاں تھیں، کیسے جذبات رکھتی تھیں، کیسی عظیم منزلت رکھتی تھیں، اپنے ایثار و قربانی سے کیسی عظیم خدمات انجام دے گئیں، جان ہتھیلی پر رکھ پر میدان عمل میں اتر گئیں۔ کیا 28 جون کے سانحے کے شہیدوں کو نہیں معلوم تھا کہ ایسا بڑا سانحہ انھیں پیش آنے والا ہے؟ انھیں معلوم تھا۔ اس زمانے میں اس میدان میں قدم رکھنے والا ہر انسان بارودی سرنگوں سے بھرے میدان جنگ میں پیش قدمی کرنے والے انسان کی مانند تھا۔ ہر طرف گوناگوں سانحے رونما ہو رہے تھے۔ لیکن اس کے باوجود لوگ شجاعانہ انداز میں میدان میں اترتے تھے اور آگے بڑھتے تھے۔ شہدا کی برکتیں لا متناہی ہیں۔ یعنی واقعی ان الفاظ کے ذریعے شہدا کا قرض نہیں اتارا جا سکتا۔ جو کام وہ کر گئے اور جو خدمات وہ انجام دے گئے اس کا صلہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔
شہدا کے اہل خانہ بھی ایسے ہی ہیں۔ ہماری آج کی اس نشست میں ایسے خاندان بھی تشریف فرما ہیں جنھوں نے تین تین شہیدوں کی قربانی پیش کی ہے۔ تین شہیدوں کی یا اس سے زیادہ قربانی پیش کرنے والے خاندان۔ انسان کے گوشہ جگر اور عزیز ترین افراد کا جدا ہو جانا! یہ صرف کہنے میں آسان معلوم ہوتا ہے۔ ایسے خاندان بھی ہیں جن کے دو ہی فرزند تھے اور انھوں نے یہ دونوں فرزند راہ خدا میں، مقدس دفاع کے میدان میں قربان کر دئے۔ یہاں ایسی خواتین تشریف فرما ہیں جنھوں نے اپنے شوہر کی بھی قربانی دی اور اپنے بیٹے کو بھی قربان کر دیا! ان کا زبان سے ذکر کر دینا آسان ہے! ہم صدر اسلام کی تاریخ میں پڑھتے تھے کہ جنگ احد میں ایک خاتون تین شہیدوں کے جنازے ایک چوپائے کی پشت پر لادے ہوئے میدان احد سے مدینہ لا رہی تھی۔ ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی کہ یہ کیونکر ممکن ہے! واقعی انسان سوچتا ہے کہ یہ کوئی افسانہ ہوگا۔ مگر آج ہم افسانہ معلوم ہونے والے یہ حقائق اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ حوصلے بلند ہیں، بہترین جذبات و احساسات کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، ایسے جذبات کا مظاہرہ جو جوش و جذبے کی کمی والے افراد کو بھی وجد میں لا دیتا ہے، ان کی بھی ہمت بندھاتا ہے، انھیں بھی عزم و حوصلہ عطا کرتا ہے، ان کے ارادوں کو مستحکم بناتا ہے، تقویت پہنچاتا ہے۔ آج ہمارے ملک کو اس عزم راسخ کی شدید ضرورت ہے۔
یہ سب جان لیں! آج ملک کو دشمن کی مکمل شناخت کی ضرورت ہے۔ دشمن کو بخوبی پہچانیں! ان عالمی دشمنوں کو پہچانیں جو گوناگوں تشہیراتی و ابلاغیاتی وسائل کی مدد سے اپنے چہرے کا رنگ بدل کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ امریکا کو خوب پہچان لیں۔ انہی حالیہ چند دنوں کے تغیرات پر آپ غور کیجئے۔ کل 'ہفتم تیر' (مطابق 28 جون) ہے۔ اس دن 'جمہوری اسلامی' پارٹی کا سانحہ پیش آیا۔ 1987 میں بھی اسی دن سردشت پر کیمیائی حملے کا المیہ رونما ہوا۔ بیشک یہ حملہ صدام نے کیا تھا، لیکن صدام کی پشت پر کون لوگ تھے؟ امریکی تھے۔ مغربی حکومتیں تھیں۔ وہی لوگ تھے جنھوں نے اسے کیمیائی بم دیا تھا۔ اس انسانیت سوز جرم پر اس بھیانک قتل عام پر وہ مہر بلب رہے۔ 11 تیر (مطابق 2 جولائی) کو شہید صدوقی کی ٹارگٹ کلنگ کی برسی ہے۔ یہ جرم بھی انھیں پیشہ ور مجرموں نے کیا۔ اس کے چند دن بعد بارہ تیر (مطابق 3 جولائی) کو خلیج فارس میں ایران کے مسافر بردار ایئر بس طیارے کو مار گرانے کا سانحہ رونما ہوا۔ ہفتم تیر (28 جون) سے لیکر بارہ تیر (3 جولائی) تک آپ غور کیجئے کہ کتنے قتل عام ہوئے، ٹارگٹ کلنگ کے کیسے واقعات رونما ہوئے۔ کتنے بچے، عورتیں، علماء اور سیاستداں، امریکی ایجنٹوں کے ہاتھوں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے؟! ان مجرمانہ واقعات کی منصوبہ سازی اگر امریکی اور مغربی خفیہ ایجنسیوں نے خود نہیں کی تھی تو کم از کم انھوں نے ان میں مدد ضرور کی تھی، ترغیب تو انھوں نے ضرور دلائی تھی۔ ان دشمنوں کو ہمیں پہچاننا چاہئے۔ بعض دوستوں نے بہت خوب کہا کہ 7 سے 12 تیر (مطابق 28 جون سے 3 جولائی) تک کے ایام کو 'امریکی انسانی حقوق' کے ہفتے سے موسوم کر دینا چاہئے۔ واقعی ہمارے ملک میں ان چند ایام کے دوران امریکی انسانی حقوق بہت نمایاں اور واضح شکل میں نظر آتے ہیں۔ اس کی اور بھی بے شمار مثالیں ہیں۔ تو ہمیں دشمن کی شناخت ہونی چاہئے۔ آج کچھ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ اس ہیولا یعنی امریکا اور اسی طرح اس کے کچھ تابعداروں کی پالیسیوں کو قابل قبول شکل میں پیش کریں، جبکہ یہ خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، یہ خائنانہ اقدام کر رہے ہیں۔ جو لوگ ان روشن حقائق پر پردہ ڈال رہے ہیں، جو لوگ اس خبیثانہ دشمنی کو گوناگوں بہانوں کے پردے میں چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ لوگ اس ملت کے خلاف خیانت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کو، ہماری قوم کو چاہئے کہ دشمن کو خوب پہچان لے اور دشمنی کی گہرائی کو بخوبی سمجھے۔ اسے چاہئے کہ خود کو مقابلے کے لئے آمادہ کرے۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ مقابلہ ہمیشہ توپ اور ٹینک سے ہو، ہمیشہ فوجی جنگوں کی صورت میں ہو، اس سے بھی زیادہ سخت مقابلہ آرائی نرم جنگ کے میدان میں ہوتی ہے، ثقافت کے میدان میں ہوتی ہے، سیاست کے میدان میں ہوتی ہے، سماجی زںدگی کے میدان میں ہوتی ہے۔ عزیز ملت ایران کو آج شہدا کے پیغام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اسے اس پیغام کی شدید احتیاج ہے۔ ہماری قوم کو اس امید بخش پیغام کو، حقائق سے پردہ ہٹانے والے پیغام کو اور روحانی و معنوی سرور سے بھرے ہوئے اس پیغام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری قوم شہدا کی احسان مند ہے، ان کے خاندانوں کی احسان مند ہے، سب احسان مند ہیں۔ جو لوگ بھی اس حقیقت کو چھپائیں، جو لوگ اس بات پر آمادہ نہ ہوں کہ شہدا کا ذکر اس عظمت کے ساتھ کیا جائے، جو شہدا کے ذکر سے اور شہدا کی قدردانی سے پیچ و تاب کھانے لگتے ہیں وہ در حقیقت اس قوم کے مفادات سے بیگانہ ہیں، انھیں اس قوم کے مفادات کی خبر ہی نہیں ہے۔ بیشک ان کے پاس شناختی کارڈ تو ایرانی ہے لیکن در حقیقت وہ پرائے ہیں، ایرانی عوام کے دل سے ان کے دل نہیں ملتے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے شہید فاؤنڈیشن کے سربراہ حجت الاسلام سید محمد علی شہیدی محلاتی نے اپنی تقریر میں کچھ نکات بیان کئے۔
۲) سورہ آل عمران آیت نمبر 169 اور 170 (راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو ہرگز مردہ گمان نہ کرنا۔ بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کی بارگاہ سے روزی پاتے ہیں۔ اللہ نے اپنے فضل سے انھیں جو عطا کیا ہے اس پر مسرور ہیں اور جو لوگ ان کی راہ پر چل رہے ہیں مگر ہنوز ان سے ملحق نہیں ہوئے ہیں، انھیں خوشخبری دیتے ہیں کہ انھیں کوئی خوف نہیں ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔)
۳) شادمانی
۴) اقبال الاعمال، جلد ۱، صفحہ ۳۳۳
۵) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۷۰ کا ایک حصہ