27 تیر 1394 ہجری شمسی مطابق 18 جولائی 2015 کو ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی استکباری طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکا کی پالیسیوں کے بالکل برعکس ہے اور امریکا پر ایران کو ذرہ برابر اعتماد نہیں ہے کیونکہ امریکی رہنما ناانصافی اور بد دیانتی کے نقطہ اوج پر ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے داعش کی سرگرمیوں کے آغاز اور توسیع میں امریکی حکومت کا ہاتھ ہونے سے متعلق بعض امریکی حکام کے اعترافات کا حوالہ دیتے ہوئے داعش کے خلاف تشکیل پانے والے اتحاد کو ناقابل اعتماد قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ علاقے میں استکباری طاقتوں کی پالیسیاں کھلے عام خیانت ہے اور سب کو چاہئے کہ اس حقیقت کی طرف متوجہ رہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ دنیائے اسلام کی مشکلات کا علاج اور اسی طرح ہر ملک کے مسائل کا انفرادی طور پر علاج اتحاد و یگانگت کی حفاظت ہے۔ آپ نے فرمایا: ملت ایران بھی متحد رہے اور ایٹمی مسائل ملک کے اندر اختلاف کا باعث نہ بننے پائيں، کیونکہ ایٹمی مسئلے کو متعلقہ حکام دیکھ رہے ہیں اور حکام کو قومی مفادات کی فکر ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملک میں اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کی بیرونی میڈیا کی وسیع مہم کا حوالہ دیتے ہوئے زور دیکر کہا کہ ان سازشوں کے مقابلے کا واحد طریقہ، ملی و عمومی تقوا نیز ایمان، علم، صنعت اور ثقافت کی تقویت کے ذریعے داخلی قوت و اقتدار کا تحفظ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے خطاب سے پہلے صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی نے اپنی تقریر میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو عید فطر کی مبارکباد دی اور ماہ رمضان کو ایمان کے امتحان کا مہینہ، استقامت کا مہینہ اور مزاحمت و بردباری کا مہینہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس سال کا ماہ رمضان ہم دلی و ہم زبانی اور پاکیزہ فطرت کی جانب بازگشت کا مہینہ تھا۔ (۱)
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛  

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
 
الحمد لله ربّ ‌العالمین، و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین سیّما بقیّة الله فی ‌الارضین و علی صحبه المنتجبین.

آپ عزیز بہنوں اور بھائیوں کو عید سعید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو یہاں تشریف فرما ہیں۔ خاص طور پر محترم حکام اور مہمانوں یعنی اسلامی ملکوں کے سفیروں کو۔ اسی طرح تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں تمام ملت ایران اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی، جیسا کہ ہم نے اس دعا میں پڑھا؛«اَلَّذی جَعَلتَهُ لِلمُسلِمینَ عیداً» (۲) ، اس دن کو خداوند عالم تمام مسلمانوں کے لئے عید کا دن قرار دے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ آج ایسا نہیں ہے۔
آج دنیائے اسلام میں بڑی مشکلات ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کے آپسی اتحاد و یگانگت اور اخوت و بھائی چارے پر بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ یہاں تک کہ حبل اللہ کو مضبوطی سے تھام لینے کی جو تاکید ہے اس میں یہ نہیں ہے کہ ہر کوئی علاحدہ طور پر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے، بلکہ اسلام کہتا ہے؛ وَ اعتَصِموا بِحَبلِ اللهِ جَمیعًا (۳) سب لوگ ایک ساتھ مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں، سب لوگ ساتھ رہیں اتنی زیادہ تاکید اور ہدایت کے باوجود آج ہم مسلمان افسوس کا مقام ہے کہ اس پر عمل نہیں کر رہے ہیں اور اس کا جو نتیجہ نکلا ہے وہ آپ خود دیکھ رہے ہیں۔ میں تمام مسلمانوں سے، خاص طور پر علمائے کرام سے، مفکرین اور دانشوروں سے، حکومتی عمائدین سے، سیاسی رہنماؤں سے، تمام ملکوں کی ممتاز شخصیات سے درخواست کرتا ہوں کہ امت اسلامیہ کے دشمنوں کے خیانت آمیز اقدامات کو اس تفرقے اور تنازعے کے اندر تلاش کریں اور ان پر نظر رکھیں۔ جو تفرقہ پھیلا ہے وہ فطری نہیں ہے، یہ باہر سے مسلط کردہ تفرقہ ہے، یہ وہ تفرقہ ہے جس کی تلقین باہر سے کی جا رہی ہے۔ فطری زاوئے سے دیکھا جائے تو مسلمان آپس میں مل جل کر ایک ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ جب تک دشمن کا وسوسہ اور دشمن کی خباثت کا دخل نہیں ہوا اس وقت تک سب بھائی چارے کے ساتھ زندگی گزارتے رہے۔ اس کا مشاہدہ ہم نے اپنے ملک میں کیا ہے۔ یہ چیز ہم نے عراق میں دیکھی ہے، دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی ہم نے حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
عالم اسلام میں یہ تفرقہ باہر سے داخل کر دیا جاتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ بڑی طاقتوں کے مفاد کی تکمیل کا راستہ یہی تفرقہ ہے۔ وہ نہيں چاہتیں کہ امت اسلامیہ کے اندر اتحاد و یگانگت پیدا ہو۔ وہ نہیں چاہتیں کہ یہ عظیم قوت عالمی طاقتوں کے افق پر نمودار ہو اور خود کو پیش کرے۔ انھیں یہ برداشت نہیں۔ اگر امت اسلامیہ میں اتحاد ہوتا، اگر وہ اپنے اشتراکات کو بنیاد بناتی تو بلا شبہ عالمی سیاست کے آسمان پر عدیم المثال قوت بن کر ابھرتی، اپنی اس عظیم آبادی کی وجہ سے، دنیا کے حساس مقامات پر واقع اپنے ان ملکوں کی مدد سے، زیر زمین ذخائر کی اس بہتات کی وجہ سے، اپنی اس قدرتی ثروت کی وجہ، افرادی قوت کی اپنی اس دولت کی وجہ سے۔ اگر ہماری صفوں میں اتحاد ہو جاتا تو دنیا کے سامنے یہ عظیم حقیقت نمودار ہوتی۔ دشمن نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔ انھوں نے اس علاقے میں صیہونی حکومت کی تشکیل کر دی ہے کہ اختلافات کے بیج بوئیں اور علاقے کے ملکوں کو آپس میں دست و گریباں کئے رہیں۔
قومیں صیہونی حکومت کے سامنے مزاحمت کرتی رہیں، یعنی وہ جھکی نہیں ہیں، اس نکتے پر توجہ رکھئے! ان دسیوں برسوں میں جن کے دوران برطانیہ کی مدد اور پشت پناہی سے اور بعد میں امریکا کی حمایت سے صیہونی حکومت نے مسلسل اپنی طاقت میں اضافہ کیا، اسلامی ملکوں کے اندر کچھ کمزور حکومتیں اور کچھ حکومتوں کے اندر موجود ضعیف العقیدہ افراد صیہونی حکومت کی جانب مائل ہوئے۔ بہت سی مسلم حکومتیں اور عالم اسلام کے بعض سیاستداں منجملہ خود ہمارے ملک کا منحوس سابقہ (شاہی) نظام اور بعض دیگر حکومتیں صیہونیوں کے ساتھ ہو گئی تھیں، جو ہمارے دشمن تھے، جو جارح تھے، جو قاتل تھے، جو توسیع پسند تھے، جو 'نیل سے فرات تک' کے علاقے پر قبضہ کرنے کی بات کرتے تھے۔ اسی صیہونی حکومت سے کچھ حکومتوں اور افراد نے روابط قائم کئے اور اس کی دشمنی کو یکسر نظر انداز کر دیا، لیکن قوموں نے ایسا نہیں کیا۔ قوموں کے دلوں میں غاصب صیہونیوں اور صیہونی حکومت کے خلاف نفرت کے شعلے بدستور بھڑک رہے ہیں۔ اس مسئلے میں قومیں اپنی حکومتوں کے نقش قدم پر نہیں چلیں۔ ظاہر ہے یہ چیز امریکا کی ہمنوا حکومتوں اور صیہونی حکومت کے اتحادیوں کے لئے نا خوشائند تھی، ناقابل برداشت تھی۔ انھوں نے قوموں کا رخ موڑنے کی کوشش کی، عوام کی توجہ صیہونزم سے ہٹانے کی کوشش کی۔ اس کے لئے انھوں نے کیا کیا؟ یہ خانہ جنگی چھیڑ دی۔ شیعہ سنی جنگ کے شعلے بھڑکا دئے۔ القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو تیار کیا گيا تا کہ ہمیں آپس میں الجھا دیں اور قوموں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیں۔ اس سلسلے میں جارح اور خیانت کار ہاتھ اپنا کام کر رہا ہے۔
بعض امریکی رہنماؤں نے اپنی کتابوں میں اعتراف کیا ہے کہ داعش کو وجود بخشنے میں، داعش کو تقویت پہنچانے میں اور داعش کی تشکیل میں انھوں نے کردار ادا کیا ہے (4)، آج بھی وہ اس تنظیم کی مدد کر رہے ہیں۔ کہنے کو تو داعش مخالف اتحاد بھی تشکیل دے دیا گیا ہے۔ میں ہرگز یقین نہیں کرتا کہ واقعی حقیقت میں داعش مخالف کوئی اتحاد بنا ہے۔ اب اگر بفرض محال یہ مان لیں کہ واقعی اس گروہ کے خلاف کوئی اتحاد تشکیل پایا ہے تو بھی یہ سوال ہے کہ کیا صرف داعش ہی ہے؟ اسلامی ملکوں کے اطرف میں گوناگوں تنظیمیں یکبارگی ہاتھ لگ جانے والی ثروت کی مدد سے کام کر رہی ہیں، ریشہ دوانیاں کر رہی ہیں، دہشت گردی پھیلا رہی ہیں، دھماکے کرتی ہیں، انسانوں کو قتل کرتی ہیں، کوچہ و بازار میں، مساجد میں، چوراہوں پر، اسی طرح دوسرے مقامات پر حملے کر رہی ہیں۔ قوموں کو الجھا کر رکھ دیا۔ شیعوں کو اہل سنت کے خلاف، اہل سنت کو اہل تشیع کے خلاف اکساتے ہیں۔ ایک مسلک کے اندر کسی ایک گروہ کو انتہا پسند، تند مزاج اور بدزبان بنا دیتے ہیں اور پیسے کے ذریعے اس سے یہ سارے کام کرواتے ہیں، دوسری جانب دوسرے مسلک کے اندر بھی فحش کلامی کرنے والا انتہا پسند گروہ تشکیل دیتے ہیں تاکہ یہ دونوں آپس میں لڑ پڑیں اور دونوں گروہوں کے پیچھے عوام الناس کی ایک بڑی بھیڑ اسی سب میں مصروف ہو جائے۔ صیہونیوں کے لئے اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟ صیہونی حکومت کے لئے اس سے بہتر کیا صورت ہو سکتی ہے؟ ہمیں بیدار ہونا چاہئے! ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہمارے خطے میں کیا ہو رہا ہے؟!
اس علاقے میں استکباری طاقتوں کی پالیسی خائنانہ رہی ہے۔ انھوں نے کھل کر خیانت کی ہے۔ عراق میں استکباری طاقتوں کی پالیسی یہ ہے کہ انتخابات، اکثریت کے فیصلے اور جمہوری عمل کے نتیجے میں تشکیل پانے والا نظام سرنگوں ہو جائے۔ وہ اس کوشش میں ہیں۔ اس نظام کو کمزور کرنا چاہتی ہیں، اس کے اندر رخنہ اندازی کرنا چاہتی ہیں، اسے کام نہیں کرنے دینا چاہتیں، وہ عراق میں شیعہ سنی جنگ کے لئے کوشاں ہیں۔ ان مسائل کے پیش آنے سے قبل بھی ہم نے عراق کو دیکھا ہے۔ شیعہ اور سنی پرامن زندگی بسر کرتے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے، آپس میں شادیاں بھی ہوتی تھیں، آج وہی لوگ ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں، ایک دوسرے پر بندوقیں تان لیتے ہیں! ان طاقتوں کا آخری ہدف عراق کی تقسیم ہے۔ ہماری حکمت عملی اس کے عین مخالف سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ عراق میں انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت کو مضبوط کیا جانا چاہئے۔ ہماری یہ پالیسی ہے کہ ان لوگوں کا مقابلہ کیا جانا چاہئے جو داخلی اختلافات کی آگ بھڑکاتے ہیں، عراق کی ارضی سالمیت کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ یہ پالیسی عراق میں استکبار کی اسٹریٹیجی کے عین مخالف ہے۔
شام میں استکبار کی پالیسی یہ ہے کہ اس حکومت کو کسی بھی قیمت پر سرنگوں کر دیا جائے جو صیہونزم کے مقابلے میں اپنی مثالی مزاحمت و استقامت کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔ ہماری پالیسی اس کے برخلاف ہے۔ البتہ ہم عراق کے بارے میں، شام کے بارے میں، یمن کے بارے میں، بحرین کے بارے میں اور لبنان کے بارے میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ فیصلہ وہاں کی اقوام کے ہاتھوں ہونا چاہئے۔ باہر سے نہ تو ہمیں اور نہ ہمارے علاوہ کسی کو یہ حق ہے کہ قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کرے۔ یہ ہمارا نظریہ ہے۔ شام کے بارے میں استکبار کی پالیسی یہ ہے کہ عوام کی مرضی اور ارادے سے بالاتر ہوکر اس حکومت کے بارے میں یہ فیصلہ سنائیں کہ اسے اقتدار میں باقی نہیں رہنا چاہئے جو صیہونیوں کے مقابلے میں اپنی استقامت و مزاحمت کی وجہ سے مشہور ہے۔ وہاں کے موجودہ صدر بھی (5) اور سابق صدر بھی (6) جعلی صیہونی حکومت کے مقابلے میں ثابت قدمی سے ڈٹے رہے ہیں۔ ہمارا کہنا ہے کہ نہیں! جس حکومت کا نعرہ، جس کی نیت اور جس کا ہدف صیہونیوں کے مقابلے میں استقامت پر مرکوز ہے، وہ حکومت عالم اسلام کے لئے بہت مفید ہے۔ شام یا عراق میں ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ ہمیں دنیائے اسلام کی فکر ہے، ہمیں امت اسلامیہ کی فکر ہے، اسی وجہ سے ہماری پالیسی استکبار کے منصوبوں سے متصادم ہے۔
لبنان کے ایک بڑے علاقے پر برسوں سے صیہونی حکومت نے قبضہ کر رکھا تھا اور امریکا کی سرکردگی میں استکباری محاذ اس پر مہر بلب تھا، رضامندی کا عندیہ دینے والا سکوت اختیار کر رکھا تھا۔ اسی اثنا میں ایک فداکار اور صاحب ایمان مزاحتمی گروہ نمودار ہوا، واقعی عالمی سطح پر قومی و ملی دفاع و مزاحمت سے تعلق رکھنے والی تنظیموں میں سب سے باشرف اور معزز گروہ حزب اللہ لبنان ہے۔ ایسے مزاحتمی گروہ شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں جو اس پاکیزگی، ایمان اور جذبہ قربانی کے ساتھ کامیابی سے عمل کرتے ہوں۔ استکباری طاقتوں نے اسی گروہ کو ختم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے، اس پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگاتی ہیں۔ حزب اللہ دہشت گرد تنظیم ہے؟ لبنان کی سب سے عظیم ملی دفاعی فورس دہشت گرد تنظیم ہے؟ اس کا نام دہشت گردی ہے؟ تو پھر تاریخ کی جن مزاحمتی تنظیموں پر آپ اہل یورپ اور دوسرے لوگ بڑا فخر کرتے ہیں جو فرانس اور دیگر ملکوں میں رہی ہیں اور جنھوں نے اپنے وطن کی حفاظت کے لئے جان کی بازی لگا دی، کیا وہ بھی دہشت گرد تھیں؟ جو فورس جارح قوت کے سامنے ڈٹ جائے، جو استکباری طاقتوں کے مہروں کا سامنا کرے اور اس راستے میں قربانیاں دے، کیا وہ دہشت گرد ہے؟ یہ طاقتیں طفل کش، ظالم و جابر صیہونی حکومت کو دوست اور بھائی مانتے ہوئے گلے لگاتی ہیں، یہ ہے ان کی سیاست۔
ہم جو لبنان کی مزاحتمی تنظیم کا دفاع کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حقیقی معنی میں مزاحتمی تنظیم ہے، جو دشمن کا مقابلہ کر رہی ہے، جو دفاعی تنظیم ہے، ایک شجاع تنظیم ہے، قربانیاں دینے کے لئے تیار رہنے والی قوم ہے، دشمنوں کے مقابلے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ اگر یہ تنظیم نہ ہوتی تو اسرائیل جو ایک زمانے میں صیدا اور اس کے آگے تک بلکہ خود بیروت تک پہنچ چکا تھا، آج بیروت کو ہڑپ چکا ہوتا، لبنان نام کا ملک باقی نہ رہتا۔ اسی مزاحتمی تنظیم نے اس کی پیش قدمی کو روکا۔ امریکیوں کا، امریکا کے سچے اور راستگو سیاسی رہنماؤں(!) کا حال یہ ہے کہ اس تنظیم کو دہشت گرد اور اس کی حمایت کی وجہ سے ایران کو دہشت گردی کا پشت پناہ قرار دیتے ہیں! دہشت گردی کے محافظ تو خود آپ ہیں۔ آپ ہی نے داعش کو وجود عطا کیا ہے، آپ ہی دہشت گردوں کو ٹریننگ دے رہے ہیں، آپ ہی خبیث اور دہشت گرد صیہونیوں کو پناہ دیتے ہیں تو دہشت گردوں کے محافظ خود آپ ہیں۔ دہشت گردوں کی مدد و حمایت کی وجہ سے آپ پر مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔ یہی صورت حال یمن کے تعلق سے بھی ہے، یہی بحرین کے سلسلے میں بھی ہے اور یہی دوسرے ملکوں کا بھی مسئلہ ہے۔
یمن میں وہ صدر (7) جو انتہائی نازک حالات میں مستعفی ہو جاتا ہے، اس مقصد کے تحت کہ سیاسی خلاء پیدا ہو جائے۔ اس کے بعد یہی صدر زنانہ لباس میں اپنے ملک سے فرار ہو جاتا ہے کیا وہ قانونی صدر ہے؟ کیا اس صدر کو یہ حق حاصل ہے کہ کسی اور ملک سے اپنے وطن پر حملے کی درخواست کرے، عوام الناس کو قتل کروائے؟ چار مہینے یا تین مہینے اور کچھ دن ہوئے ہیں کہ یمن کو کچلا جا رہا ہے، وہ کسے نشانہ بنا رہے ہیں؟ مساجد کو نشانہ بناتے ہیں، اسپتالوں کو نشانہ بناتے ہیں، شہروں پر حملے کرتے ہیں، مکانات کو مسمار کرتے ہیں، بے گناہ عوام کا قتل عام کرتے ہیں، بچوں کو مارتے ہیں، آخر ان لوگوں کا جرم کیا ہے؟
امریکا ان حملہ آوروں کی حمایت کر رہا ہے۔ میں نے ابھی نماز ( کے خطبوں) میں کہا کہ آپ ایک بار پھر غلط سمت میں جا رہے ہیں۔ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں کی بات کرتے ہیں، 28 مرداد (مطابق 19 اگست) کے واقعے کا ذکر کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم نے غلطی کی تھی۔ جی ہاں، بیشک آپ نے بہت بڑی غلطی کی تھی، لیکن آپ ایک بار پھر غلطی کر رہے ہیں۔ دنیا کی انتہائی مستبد حکومت سے ہاتھ ملا رہے ہیں، آپ اس سے ساز باز کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اسلامی جمہوریہ کو جس کا پورا وجود انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے، استبدادی اور آمرانہ نظام قرار دیتے ہیں۔ کیا یہی آپ کا انصاف ہے؟ آپ امریکی، آپ امریکی سیاستداں حد درجہ ناانصافی کا فیصلہ کرتے ہیں، حتی بالکل نمایاں اور بدیہی حقائق کے بارے میں بھی۔ واقعی تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ کتنے ڈھیٹ ہیں! ان حکومتوں کے ساتھ جو اپنے عوام کو انتخابات کا نام تک سننے سے محروم رکھتی ہیں، بعض ممالک ایسے ہیں جہاں کوئی اگر سڑک پر الیکشن کا نام بھی لے لے تو اسے پکڑ کے جیل بھیج دیا جاتا ہے اور پھر ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل پاتا کہ ان کا انجام کیا ہوا، ایسی حکومتوں کے ساتھ ان کی دوستی اور بے تکلفی ہے، ان کے ساتھ برادرانہ اور دوستانہ تعلقات ہیں، جبکہ دوسری جانب اسلامی جمہوریہ ایران کو جہاں چھتیس سال کے دوران تیس سے زائد انتخابات ہو چکے ہیں، استبدادی نظام قرار دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ اس قابل ہیں کہ ان پر بھروسہ کیا جائے۔ ہم جو کہتے ہیں کہ ان لوگوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تو اس کی وجہ یہی ہے۔
ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ جن کی زبان سے سچائی بھی نکلتی ہے۔ ان کے اندر صداقت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہی دشوار امتحان جس کا ذکر صدر محترم نے کیا (8) اور جس میں واقعی جناب عالی نے بڑی محنت کی اور دوسرے متعلقہ افراد نے بھی بڑی زحمت اٹھائی، بعض اوقات تو حقیقت میں انقلابی انداز میں اقدام کیا اور ایک نتیجے تک پہنچ بھی گئے ہیں اب دیکھنا ہے کہ آئندہ کیا ہوتا ہے۔
دنیائے اسلام کے پاس آج ایک ہی راہ حل ہے اور وہ ہے اتحاد۔ ملکوں کے اندر انفرادی طور پر بھی یہی نسخہ کارگر ہے۔ قوموں کو چاہئے کہ متحد ہو جائیں۔ ملت ایران کو چاہئے کہ اپنا اتحاد قائم رکھے۔ یہ ایٹمی اور غیر ایٹمی مسائل گروہ بندی کا باعث نہ بننے پائیں جس کے نتیجے میں ہر گروہ الگ انداز کی بات کرے۔ بہرحال ایک کام ہے جو انجام دیا جا رہا ہے، کچھ متعلقہ حکام ہیں جو اس کام کو دیکھ رہے ہیں، اگر خدا نے چاہا تو وہ ملی مفادات کے مکمل ادراک کے ساتھ ہر قدم اٹھائیں گے۔ تو عوام میں انتشار کی کیفیت پیدا نہیں ہونی چاہئے۔ دشمن یہی چاہتا ہے۔ اگر کوئی اغیار کی جانب سے کئے جا رہے پروپیگنڈوں کا جائزہ لے، ان کی ریڈیو اور ٹی وی نشریات پر نظر رکھے جن میں لگاتار وسعت آتی جا رہی ہے اور مسلسل وہاں سے نئی نئی باتیں پیش کی جاتی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ عوام کے اندر دو گروہ بن جائیں۔ آپ یہ نہ ہونے دیجئے، اپنے اتحاد و یگانگت کو قائم رکھئے، آپس میں متحد رہئے۔
ملک کے اندر سے قوت و طاقت کا چشمہ ابلنا چاہئے۔ اجتماعی اور عمومی تقوی بھی شخصی اور انفرادی تقوے کی مانند ہوتا ہے۔ شخصی و انفرادی تقوے کے ذریعے اور ماہ رمضان تقوائے پروردگار حاصل کرنے کا مہینہ ہے، اس تقوے کے نتیجے میں آپ اندرونی طور پر محفوظ ہو جاتے ہیں، جیسے ویکسین لگ جانے کے بعد انسان محفوظ ہو جاتا ہے اور اگر کبھی آلودہ ماحول میں چلا جائے تب بھی میکروب اس پر اثر انداز نہیں ہو پاتے، تقوی بھی ایسا ہی ہے۔ تقوی بیرونی ماحول کو آپ پر اثر انداز نہیں ہونے دیتا۔ کم از کم اتنا تو ہے ہی کہ آسانی سے اس کا اثر نہیں پڑتا۔ انفرادی اور شخصی تقوی کا یہ اثر ہوتا ہے۔ ملی تقوی بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم اندر سے خود کو قوی بنائے، اپنے علمی و سائنسی شعبے کو، اپنی صنعت کو، اپنے ایمان کو، اپنی ثقافت کو مضبوط بنائے تو بیرونی طاقتیں اس پر اثر انداز نہیں ہو پاتیں۔ یہ بڑا اہم نسخہ ہے جس پر آج ہم سب کو عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیائے اسلام کو چاہئے کہ اس نسخے پر عمل کرے۔
پالنے والے! ہمیں توفیق عطا فرما کہ راہ راست کی ہم شناخت حاصل کریں اور اس پر گامزن رہیں۔

و السّلام‌ علیکم‌ و رحمة الله‌ و برکاته

1) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر محترم حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی نے تقریر کی اور اہم نکات کا ذکر کیا۔
2) مصباح کفعمی، صفحہ ۴۱۶؛ نماز عید فطر کے قنوت کی دعا
3) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۰۳ کا ایک حصہ؛ « اور سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو»
4) منجملہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی کتاب
5) بشار اسد
6) حافظ اسد
7) عبد ربّه منصور هادی‌
8) ایٹمی مذاکرات اور ایٹمی معاہدے کے بارے میں صدر محترم کی تقریر