قائد انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں جو 20 تیر 1394 ہجری شمسی مطابق 11 جولائی 2015 برابر 25 رمضان المبارک 1436 ہجری قمری کو شام چھے بجے شروع ہوئی اور نماز مغربین اور افطاری کے بعد تک جاری رہی، ماہ رمضان کے آخری دنوں کی حسرت کا ذکر کیا اور فرمایا: روحانیت و صفائے باطن کی اس بہار میں جو انسان بھی لطف و رحمت خداوندی کی بارش سے اپنے دل کو معطر کر لے وہ مستقبل میں اس روحانی کھیتی کی فصل سے بہرہ مند ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے لوگوں کو مطمئن کئے بغیر جبرا اپنے نظریات مسلط کرنے کی مارکسسٹ اور کمیونسٹ گروہوں کی روش کا ذکر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر بعض یونیورسٹیوں میں مارکسسٹ حلقوں کے دوبارہ سرگرم ہو جانے سے متعلق کچھ رپورٹیں صحیح ہیں تو یقینی طور پر ان حلقوں کی مالیاتی مدد امریکا کی طرف سے ہو رہی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ طلبہ میں انتشار پیدا ہو اور ان کے حصے بخرے ہو جائیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے طلباء یونینوں کو یہ سفارش بھی کی کہ اقدار پر یقین رکھنے والے اساتذہ کی مدد لی جائے اور غیر مطمئن افراد کی ملک و قوم کے لئے خدمات لینے سے گریز کیا جائے۔ آپ نے فرمایا: ایسے عناصر جنھوں نے سنہ 2009 میں آشوب برپا کر دیا تھا اور بغیر عقلی و منطقی دلیل کے انھوں نے نظام کی اسلامی اور جمہوری پہچان کی مخالفت شروع کر دی تھی، ہرگز بھروسے کے لایق نہیں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے یمن پر سعودی عرب کی سو دنوں سے جاری بمباری اور ان حملوں میں مظلوم و بے گناہ عوام کے قتل عام کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: لبرل مغربی دنیا جو آزادی کی حمایت کے دعوے کرتی ہے، سعودیوں کے ان جرائم پر مہر بلب ہے اور سلامتی کونسل نے اپنی ایک انتہائی شرمناک قرارداد میں بمباری کرنے والوں کے بجائے بمباری کا نشانہ بننے والوں کی سرزنش کی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق یمن کے عوام کے گھربار پر جاری اس بمباری کی اصلی وجہ علاقے میں ایران کا اثر و نفوذ بڑھنے پر سعودیوں اور ان کے حامیوں کی برہمی ہے۔ آپ نے فرمایا: جو دعوے کئے جا رہے ہیں ان کے بالکل برخلاف علاقے میں اسلامی مملکت ایران کا اثر و نفوذ ایک خداداد عطیہ ہے، یہ کوئی مادی اور اسلحوں کے زور پر ملنے والی کامیابی نہیں ہے اور ہم بھی شہید بہشتی کی طرح اس قوم کے دشمنوں سے یہی کہیں گے کہ تم اپنے اسی غم و غصے میں مر جاؤ!
قائد انقلاب اسلامی نے طلباء یونینوں اور تنظیموں کی نمائندگی کرنے والے 9 طلباء کی گفتگو سننے کے بعد جب تقریر شروع کی تو ایک طالب علم کے ذریعے بیان کئے گئے اس نکتے کا حوالہ دیا کہ عمل کے بغیر نعرہ بے سود ہے، آپ نے فرمایا کہ بیشک پرمغز اور مضمون کا حامل نعرہ جو توسیع کی صلاحیت رکھنے والی فکری حقیقت کی عکاسی کرتا ہو، وہ لوگوں کو میدان عمل میں لاکر انھیں مطلوبہ سمت اور جذبہ عطا کر سکتا ہے۔ ایک طالب علم نے ایٹمی مذاکرات کے بعد سامراج کے خلاف جدوجہد کی نوعیت کے تعلق سے سوال کیا جس کے جواب میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ استکبار اور تسلط پسندانہ نظام کے خلاف جدوجہد، قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہے اور آج امریکا استکبار کا سب سے مکمل مصداق ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مذاکرات کرنے والے حکام سے بھی ہم نے کہہ دیا ہے کہ آپ کو صرف ایٹمی مسئلے میں گفتگو کرنے کا حق ہے، حالانکہ مذاکرات کے دوران امریکی فریق کبھی کبھی علاقائی مسائل منجملہ شام اور یمن کا موضوع بھی اٹھاتا ہے لیکن ہمارے عہدیداران یہی جواب دیتے ہیں کہ ان مسائل کے بارے میں ہم گفتگو نہیں کریں گے۔ قائد انقلاب نے چند سال قبل ایک یورپی نوجوان کے حملے میں تقریبا اسی بچوں کے قتل اور خود کش حملے کے ذریعے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کے مقصد سے داعش میں شامل ہونے کے یورپی نوجوانوں کے بڑھتے رجحان کو یورپی نوجوانوں کے ڈپریشن کا نمونہ قرار دیا۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ شب قدر میں رات بھر عبادت کے بعد اگلے دن روزہ رکھ کر شدید گرمی میں یوم القدس کے جلوسوں میں شرکت کرنے والا ایرانی نوجوان زندہ دل اور امید و نشاط سے بھرا ہوا نوجوان ہے جو ڈپریشن سے کوسوں دور ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌ (۱)
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و ءاله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

میرے عزیزو اور میرے پیارے نوجوانو! خوش آمدید! میں اس نشست سے واقعی گہری قلبی مسرت محسوس کرتا ہوں۔ ملک کے گوناگوں مسائل کے میدان میں پرجوش و بانشاط نوجوانوں کی شراکت بہت اہم چیز ہے، بہت اہم پیشرفت ہے۔ میں نے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں جو بیان کروں گا۔ یہیں یہ بھی کہتا چلوں کہ ایرانی نوجوان خوش قسمتی سے جوش و جذبے سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے عین برخلاف جو بعض شماریاتی ادارے اعداد و شمار دیتے ہیں، جن کا ربط عام طور پر بیرون ملک سے ہوتا ہے یا وہ سرے سے غیر ملکی ادارے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایرانی نوجوان ڈپریشن میں ہیں۔ وہ درجہ بندی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایرانی نوجوان ڈپریشن کی فلاں اسٹیج پر ہے، کوئی بہت اونچی اسٹیج بیان کرتے ہیں۔ یہ خباثت آمیز جھوٹ ہے جو آج پھیلایا جا رہا ہے اور جو بہت سی غیر قانونی حرکتوں کا بہانہ ہے۔ ایرانی نوجوان ڈپریشن میں ہے تو اس کے لئے مسرت کا ماحول فراہم کیا جانا چاہئے۔ کس طرح؟ موسیقی کے پروگراموں کے ذریعے، لڑکے لڑکیوں کی مخلوط کیمپنگ کے ذریعے، اس قسم کی بے لگام آزادی کے ذریعے، یہ ڈپریشن کے بعد کے لوازمات ہیں۔ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ آج ایرانی نوجوان انتہائی فعال، زندہ دل اور امید و نشاط سے بھرا ہوا نوجوان ہے۔ آپ مغربی دنیا پر نظر ڈالئے۔ دپریشن میں تو یورپی نوجوان ہیں۔ وہاں خودکشی کے اعداد و شمار بہت زیادہ ہیں۔ ڈپریشن وہاں ہے جہاں ایک نوجوان شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے بندوق اٹھاتا ہے، کسی پرسکون ساحل پر جاتا ہے، بظاہر پرسکون نظر آنے والے اس ساحل پر 80 بچوں کو گولیوں سے بھون دیتا ہے۔ یہ واقعہ دو تین سال قبل ایک یورپی ملک میں ہوا تھا، جس سے سب مطلع ہوئے اور دنیا میں یہ خبر عام ہوئی۔ یہ ہے ڈپریشن۔ ڈپریشن یہ ہے کہ یورپی نوجوان خود کشی کرنے کے لئے داعش میں بھرتی ہو جاتا ہے۔ ہمارے پاس جو رپورٹیں ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ داعش کے خودکش حملہ آوروں میں بڑی تعداد یورپی نوجوانوں کی ہے، جو خود کشی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس خودکشی میں زیادہ ہیجان ہے اور یہ خودکشی کسی یورپی ملک کے کسی دریا میں غرق ہو چانے سے بہتر ہے۔ اس وجہ سے یہاں آتے ہیں۔ شدید ڈپریشن میں ہیں اور انھیں ہیجان کی تلاش ہے۔ ڈپریشن میں وہ ہیں۔ ایرانی نوجوان جو 23 رمضان کے دن بیتی شب عبادت میں گزارنے کے بعد، روزے کے عالم میں، موسم گرما کی شدید تپش میں سڑک پر نکلتا ہے اور جلوس میں شرکت کرتا ہے، اس کے بعد تمازت آفتاب میں نماز جمعہ ادا کرتا ہے، وہ افسردگی سے کوسوں دور ہے۔ وہ زندہ دل ہے، وہ نشاط و امید سے بھرا ہوا ہے۔
آپ کی آج کی یہ نشست اور میرے عزیز فرزندوں نے، پیارے نوجوانوں نے جو باتیں کیں اور جن میں مسائل کے کافی بڑے حصے کا احاطہ کیا گیا، وہ سب زندہ دلی کی علامتیں ہیں۔ اس کا اثر تو مجھ جیسے افراد پر بھی پڑتا ہے۔ یعنی آپ کے اس جوش و جذبے کا اثر آپ کے سامعین پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ بہرحال آج کی نشست سے میں بہت خوش ہوں اور جن افراد نے تقریریں کیں ان سب کا شکر گزار ہوں۔
میں نے بھی بیان کرنے کے لئے کچھ نکات نوٹ کئے ہیں اور طلبا و طالبات نے یہاں جو گفتگو کی اسی کے ذیل میں کچھ باتیں ذکر کروں گا۔ معلوم نہیں دامن وقت میں اس سب کی گنجائش ہوگی یا نہیں۔
ایک طالب علم نے یہ جملہ کہا کہ نعرے سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ جی بالکل، اگر نعرے کا مطلب بس یہ ہو کہ ہم ہمیشہ نعرے بازی کریں اور اس سلسلے میں کوئی عملی اقدام نہ کریں تو آپ کی بات درست ہے۔ صرف نعرے بازی سے کوئی کام نہیں ہوتا۔ لیکن نعرے کے اثر کو آپ کم نہ سمجھئے۔ نعرے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے؛ انقلاب سے کئی سال قبل مشہد میں، طلبا کی ایک نشست منعقد ہوا کرتی تھی جس میں میں تفسیر قرآن کا درس دیتا تھا۔ اس وقت یونیورسٹی طلبا کی جو تعداد تھی اس اعتبار سے اس نشست میں شرکت کرنے والے طلبا کی تعداد کافی زیادہ تھا۔ کئی سو طالب علم شرکت کرتے تھے۔ میں تفسیر کا درس دیتا تھا۔ اس سلسلے میں بڑی تفصیلات ہیں۔ ایک طالب علم نے اس کلاس میں نعرہ لگایا، میں اس نشست میں خاص ترتیب کے ساتھ خاص تخمینوں کی بنیاد پر مطالب کو بیان کرتا تھا۔ یعنی انقلاب کی اساسی اور اصولی بحث کو آیات کریمہ کی تفسیر کے دوران بیان کر دیتا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ظاہری حرکات و سکنات کی وجہ سے انتظامیہ متوجہ ہو جائے اور نشست پر پابندی لگا دے۔ میں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میری گزارش ہے کہ نعرہ نہ لگائیے۔ نعرہ نہ تو 'حرف' ہے اور نہ اقدام۔ 'حرف' اس لئے نہیں ہے کہ یہ لفظ ہوتا ہے۔ اقدام اس لئے نہیں ہے کہ یہ بس ایک آواز ہے جو گلے سے نکلتی ہے۔ یہ بات میں نے وہاں تقریر میں کہی۔ اگلے ہفتے جب کلاس کا دن آیا تو ایک طالب علم نے کہا کہ گزشتہ ہفتے آپ نے جو بات بیان کی تھی اس پر مجھے اعتراض ہے۔ میں نے کہا کہ اعتراض کیا ہے؟ اس نے کہا کہ آپ کا کہنا تھا کہ نعرہ نہ 'حرف' ہے اور نہ اقدام۔ جبکہ نعرہ 'حرف بھی ہے اور اقدام بھی ہے۔ حرف اس لئے ہے کہ یہ ایسا لفظ ہے جس سے اہم مضمون وابستہ ہے۔ یہ بظاہر ایک لفظ اور ایک جملے کا ہوتا ہے لیکن اس میں مضمون اور مندرجات کا مجموعہ پنہاں ہوتا ہے۔ بنابریں آپ جو کہ اہل سخن بھی ہیں، ظاہر ہے ہم اہل سخن تھے، تقریریں کرتے تھے، تو آپ اس حرف کو غنیمت جانئے! نعرہ عمل بھی ہے، اس لئے کہ یہ متحرک کرنے والا ہوتا ہے۔ نعرے انسانوں کو میدان میں لے آتے ہیں، ان کی صفوں میں نظم و ترتیب پیدا کر دیتے ہیں، انھیں سمت و جہت دکھاتے ہیں۔ بنابریں نعرہ عمل بھی ہے۔ اس طرح استاد کے موقف کے برخلاف، استاد سے ان کی مراد میں تھا، جنھوں نے یہ فرمایا کہ نعرہ نہ 'حرف' ہے اور نہ عمل، نعرہ 'حرف' بھی ہے اور عمل بھی۔ وہ طالب علم جس نے اس دن یہ بات کہی تھی آج وہ ملک کے اہم عہدیداروں میں سے ایک ہیں جنھیں آپ سب پہچانتے بھی ہیں۔ میں وہاں بیٹھا ہوا تھا اور اپنی گفتگو کا آغاز کرنا چاہتا تھا، میں نے یہ بات سن کر کہا کہ یہ حق بجانب ہیں، یہ بالکل صحیح فرما رہے ہیں۔ نعرہ 'حرف' بھی ہے اور اقدام بھی ہے۔ میں آج بھی آپ کی خدمت میں یہی عرض کروں گا کہ اگر نعرہ ایسا چنا جائے جو اچھا، پرمغز اور فکری سطح پر وسعت حاصل کرنے والی حقیقت کا عکاس ہو تو یہ نعرہ 'حرف' بھی ہے اور عمل بھی ہے۔ اس نعرے کو پیش کرنا جذبات کو متحرک کرنے اور ذہن و فکر کو سمت و جہت دینے کا کام کرے گا۔ لہذا مثال کے طور پر اگر کوئی 'مزاحمتی معیشت' کی اصطلاح جسے ہم نے بیان کیا ہے، بار بار بس دہراتا رہے اور اس پر عمل نہ کرے تو پھر یہ بات بالکل درست ہے کہ صرف زبانی جمع خرچ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ لیکن اگر 'مزاحمتی معیشت' کا یہی نعرہ ملک کے کارکنوں کے دل و زبان پر، جن میں سب سے اہم آپ طلبا ہیں، بار بار دہرایا جائے، اس کا ذکر آئے تو یہ بہت اہم بات ہوگی، اگر اذان سے پہلے وقت میں گنجائش رہی تو اس بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
اسی طرح کچھ اور باتیں بھی ذکر کی گئی جن میں انقلابی تنظیموں کے ساتھ سختی برتے جانے کا معاملہ بھی ہے۔ یہ بات یہاں ہمارے کئی عزیز نوجوانوں نے کہی اور مجھے رپورٹ بھی مل چکی ہے۔ میں یہیں پر جو محترم حکام تشریف فرما ہیں، جو وزرائے محترم (2) تشریف رکھتے ہیں، ان سب سے کہہ رہا ہوں کہ ہرگز یہ موقع نہ دیجئے کہ جن افراد کے ہاتھوں میں اہم امور اور عہدے ہیں وہ اسلامی تنظیموں اور انقلابی تنظیموں پر سختی کریں۔ ہرگز اس بات کی اجازت نہ دی جائے، ان تنظیموں کی سرگرمیوں کو محدود نہ کیا جائے۔ اسلامی تنظیموں اور انقلابی تنظیموں کو کام کرنے دیجئے۔ یہی باتیں جو یہاں بیان کی گئیں، خود ہمارے دل کی باتیں ہیں، یہ وہی ساری باتیں ہیں جو ہمیں کہنی چاہئے، یہ وہی کام ہیں جو ہمیں کرنا چاہئے۔ یہ نوجوان بھی یہی باتیں کہہ رہے ہیں اور میں طلبا کی جانب سے ان باتوں کو بیان کئے جانے اور دوبارہ اور تیسری دفعہ انھیں دہرائے جانے کا کیا اثر ہوتا ہے، یہ بیان کروں گا۔ انھیں اپنی بات رکھنے دیجئے، انھیں کام کرنے دیجئے۔ آپ طلبا یونینوں کو، طلبا کی اسلامی و انقلابی تنظیموں کو، میں خاص طور پر تاکید کروں گا انقلابی تنظیموں کے سلسلے میں، کام کرنے کی آزادی دیجئے، انھیں وسائل فراہم کئے جانے چاہئے، ان کی سرگرمیوں کو محدود نہ کیا جائے۔
ایک مسئلہ یونیورسٹی میں کنسرٹ کا بھی ہے جس کا ذکر ایک عزیز طالب علم نے کیا اور کہا کہ یونیورسٹی کنسرٹ کی جگہ نہیں ہے۔ یہ بات صحیح ہے۔ اسے میں نے بھی نوٹ کیا ہے۔ اگر ہم بخیال خویش طلبا کے ماحول میں شادمانی و مسرت بکھیرنے کے مقصد سے لڑکے لڑکیوں کی مخلوط کیمپنگ کروا رہے ہیں، یونیورسٹی میں کنسرٹ وغیرہ کے پروگرام رکھ رہے ہیں تو یہ انتہائی غلط کام ہوگا۔ طلبا کے مشغلے کے لئے ان کے اندر سعی و کوشش کا جذبہ اور امید و نشاط پیدا کرنے کے لئے دوسرے راستے موجود ہیں، لہذا انھیں گناہ کی طرف نہیں لے جانا چاہئے۔ انھیں تقوا کے حجاب کو چاک کرنے کی دعوت نہیں دینی چاہئے جس کی حفاظت پر آج کا دیندار نوجوان اصرار کر رہا ہے۔ انھیں جنت کی طرف لے جانا چاہئے، دوزخ کی جانب نہیں۔ بالکل، ان چیزوں کا یونیورسٹیوں کے اندر کوئی جواز نہیں ہے۔ میں نے اس مشکل کے آثار کئی سال قبل جب اس وقت کی ایک اسٹوڈنٹس یونین نے یونیورسٹی کے اندر اس طرح کا ایک کام انجام دیا تھا، محسوس کر لئے تھے اور میں نے خبردار بھی کیا تھا، لیکن افسوس کہ اس پر عمل نہیں ہوا اور نتیجتا اس کا نقصان ہمیں اٹھانا پڑا۔ اب ہمیں اس طرح کی چیزوں کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ یہ فیصلہ آزادی کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ کیونکہ اس قسم کے کاموں کی انجام دہی یا ان کی طرف رجحان آزادی کی علامت نہیں ہے۔ یہ وہی برائیاں ہیں جو ایرانی معاشرے کے دشمن، مسلم معاشرے کے دشمن، اسلامی تمدن کے دشمن اور خاص طور پر ایرانی طلبا کے دشمن پھیلانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان طلبا میں کوئی اور شہریاری (ممتاز جوہری سائنسداں) پیدا ہو، کوئی اور ڈاکٹر چمران پرورش پاکر باہر آئے۔ ان لوگوں نے پاکیزگی کی زندگی بسر کی، تقوا کے ساتھ زندگی گزاری۔ یہ صرف ایٹمی مسئلے کی بات نہیں ہے۔ یہ تمام شعبے جن کے بارے میں آپ سنتے ہیں اور اعداد و شمار میں بیان کیا جاتا ہے کہ ہم دنیا میں آٹھویں مقام پر ہیں، نو اہم ترین ملکوں میں سے ایک ہمارا ملک ہے، دس ملکوں کے زمرے میں ہمارا ملک شامل ہے؛ ان شعبوں میں ملنے والی کامیابیوں کے میر کارواں عام طور پر دیندار طلبا رہے ہیں، انقلابی نوجوان رہے ہیں۔ ایٹمی شعبے میں بھی یہی صورت حال ہے، نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی یہی ہوا ہے اور اسی طرح دوسرے متعدد تحقیقاتی شعبوں میں جن پر آج کام ہو رہا ہے، سب میں دیندار، صاحب ایمان اور انقلابی نونہالوں کا بنیادی کردار ہے۔ بڑے کام انھیں نوجوانوں نے انجام دئے ہیں۔ کیا پھر بھی ہم اپنے بچوں کو انقلابی رجحان سے، دینی و اسلامی رجحان سے، روحانیت کی جانب میلان سے دور کر دیں ان غلط کاموں میں پڑ کر؟ یہ بہت بری بات ہوگی۔ البتہ دونوں محترم وزرا میرے معتمد افراد ہیں، مگر وہ اپنے ما تحت افراد کی جانب سے ہوشیار رہیں۔ ان افراد پر پوری طرح نظر رکھیں جن کے ہاتھوں میں اس طرح کے امور کی ذمہ داریاں ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ تھا۔ ایک اور مسئلہ ہے جس کا ذکر ہمارے ایک عزیز طالب علم نے کیا اور وہ یہ کہ حقیقی معنی میں آزاد فکری فورم کی تشکیل ہو۔ یہ بالکل صائب مطالبہ ہے۔ میں بھی اس سے اتفاق رکھتا ہوں کہ آزاد فکری فورم تشکیل پائے۔ ہم نے جب اس فورم کی تشکیل کی تجویز رکھی تو شروع ہی سے ہماری رائے یہی تھی کہ ہر شخص کو آزادی ہو اور مخالف رائے رکھنے والا شخص بھی آکر اپنا موقف بیان کرے۔ مگر آپ دیندار اور انقلابی طلبا کے اندر منطق و استدلال کی وہ طاقت موجود ہو جس کی مدد سے آپ اس کا منطقی اور مدلل جواب دیں اور اطمینان کے ساتھ اس کا سامنا کریں اور اس کے دلائل کی خامیوں کی نشاندہی کریں۔ یہ اچھی چیز ہے اور یہی صحیح بھی ہے، یہ چیز آج ممکن بھی ہے۔ شاید دس سال پہلے، بارہ سال پہلے، پندرہ سال پہلے یہ ممکن نہیں تھا لیکن آج ہے۔ اس وقت دینی میدان میں کام کرنے والے اور اچھی فکری توانائی رکھنے والے طلبا کی تعداد اچھی خاصی ہے تو اب اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ البتہ اس کے کچھ آداب و ضوابط ہیں۔ متعلقہ اداروں کے عہدیداران بیٹھیں اور ان آداب و ضوابط کا تعین کریں جن کی مدد سے آزاد فکری فورم مناسب انداز میں اپنا کام انجام دے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ تھا۔
ایک اور نکتہ یہ بیان کیا گیا کہ کچھ افراد رہبر انقلاب کے نمائندے کی حیثیت سے رہبر انقلاب کی طرف سے بیان دیتے ہیں۔ ظاہر ہے ابھی الحمد للہ میری زبان نے کام کرنا بند نہیں کیا ہے۔ میرا اپنا بیان ان کے بیان پر مقدم ہے۔ جو میں خود بیان کرتا ہوں وہ میری بات ہے، رہ گیا وہ بیان جو رہبر انقلاب کے نمائندے اور رہبر انقلاب کی جانب سے منصوب افراد دیتے ہیں اور ایسے افراد کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، وہ رہبر انقلاب کی بات نقل نہیں کرتے، اس نکتے پر آپ توجہ رکھیں۔ یہی مسئلہ جس کا خاص طور پر ابھی ذکر ہوا اور جس شخص کا نام لیا گیا، ان صاحب نے خود اپنی بات کہی تھی۔ رہبر انقلاب کی طرف سے کچھ نقل نہیں کیا تھا۔ میں نے بھی ان کے بیان سے پہلے بھی اور بعد میں بھی اپنا موقف بیان کیا، تو ایسے میں آپ میرا موقف میری زبان سے سنئے! بیشک یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص رہبر انقلاب کی جانب سے منصوب کردہ ہو مگر کسی خاص مسئلے میں رہبر انقلاب سے مختلف رائے رکھتا ہو۔ اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے۔ رہبر انقلاب کی جانب سے منصوبہ کردہ انہیں افراد میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو کسی خاص سیاسی، سماجی یا دینی مسئلے میں ممکن ہے کہ رہبر انقلاب کے موقف سے ہٹ کا الگ نظریہ رکھتے ہوں۔ ہمارے نقطہ نگاہ سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہمارے لئے جو چیز اہم ہوتی ہے وہ انقلابی طر‌ز فکر اور انقلابی سمت و جہت ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم بیٹھ کر ہر مسئلے میں یہ ہم آہنگی کریں کہ ہم سب کے موقف ایک ہی ہیں یا نہیں۔ اس شخص نے اپنا نظریہ بیان کیا ہے۔ یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ کہیں بھی ہمارا کوئی نمائندہ کوئی بات کہتا ہے تو ہم فورا کہیں کہ جناب! آپ نے یہ بات غلط کہی ہے، فلاں بات صحیح تھی۔ یا رابطہ عامہ کا شعبہ بیان جاری کرے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی میری طرف سے کوئی بات نقل کر رہا ہے اور اس حقیر کو اس کی اطلاع ملے اور وہ بات میرے موقف سے مختلف ہو تو ہم فورا اسے متنبہ کرتے ہیں۔ ایسا کئی بار ہوا ہے کہ ہم نے انتباہ دیا اور کہا کہ آپ خود ہی اس کی اصلاح کر لیجئے! اور اس شخص نے اصلاح کی۔ مجھے یہ مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ اگر کوئی شخص کچھ کہتا ہے تو ہم فورا اس پر بیان جاری کریں کہ فلاں صاحب نے غلط بیانی کر دی ہے (3)۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ جب بھی ہمارے موقف کے خلاف کوئی بات ہمارے حوالے سے نقل کی گئی، اگر خود اپنا موقف بیان کیا ہے تب نہیں، میرے حوالے سے کوئی بات کہی گئی ہے تو ہم اطلاع دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جناب ہم نے سنا ہے کہ آپ نے فلاں بات ہمارے حوالے سے بیان کی ہے، آپ خود اس کی اصلاح کر لیجئے! یہ بھی ایک نکتہ تھا۔
ایک اور نکتہ جس کے بارے میں سوال کیا گیا، یہ تھا کہ مذاکرات کے بعد اب استکبار کے خلاف جدوجہد کا کیا بنے گا؟ سوال یہ ہے کہ کیا استکبار کے خلاف جدوجہد کسی بھی صورت میں ترک کی جا سکتی ہے؟ استکبار کے خلاف جدوجہد اور توسیع پسندانہ نظام سے مقابلہ ختم ہونے والی چیز نہیں ہے۔ یہ بھی ان نکات میں شامل ہے جنھیں میں نے آج بیان کرنے کے لئے نوٹ کیا تھا۔ یہ ہماری مہم کا حصہ ہے، یہ ہمارے اساسی اقدامات کا جز ہے، یہ انقلاب کے بنیادی اصولوں کا جز ہے۔ یعنی اگر استکبار کے خلاف جدوجہد ختم ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم قرآن کے ماننے والے نہیں ہیں۔ استکبار کے خلاف جدوجہد تو کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتی۔ استکبار کے مصادیق کی بات کی جائے تو امریکا اس کا مصداق کامل ہے۔ ایٹمی مسئلے میں جو عہدیداران مذاکرات کر رہے ہیں، ظاہر ہے اس وقت حکام کے درمیان براہ راست مذاکرات ہو رہے ہیں، البتہ پہلے بھی مذاکرات ہو چکے ہیں، مگر اس سطح کے نہیں بلکہ اس سے نچلی سطح پر۔ اس سطح پر پہلی بار مذاکرات ہوئے۔ ہم نے کہہ دیا ہے کہ آپ کو صرف ایٹمی مسئلے میں مذاکرات کا حق ہے، کسی اور مسئلے کے بارے میں مذاکرات کا حق نہیں ہے اور وہ مذاکرات کر بھی نہیں رہے ہیں۔ فریق مقابل نے بعض اوقات علاقائی مسائل، شام، یمن اور دیگر مسائل کو اٹھایا بھی مگر ہمارے مذاکرات کار صاف کہہ دیتے ہیں کہ ان موضوعات کے بارے میں آپ سے ہمارے کوئی مذاکرات نہیں ہیں، دیگر مسائل کے بارے میں کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔ مذاکرات صرف ایٹمی مسئلے تک محدود ہیں۔ اس کی وجہ وہی ہے جس کا ذکر میں کئی بار کر چکا ہوں کہ ایٹمی مسئلے میں ہم نے اس رخ اور اس پالیسی کا انتخاب کیوں کیا۔ میں اس کی مکمل تشریح کر چکا ہوں۔ تو استکبار کے خلاف جدوجہد کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ یہ مسئلہ پوری طرح واضح ہے اور آپ اس جدوجہد کے لئے خود کو تیار کیجئے۔
ایک اور موضوع جو آخر میں زیر بحث آیا، نوجوانوں کی شادی کا موضوع ہے، ظاہر ہے لڑکے اور لڑکیاں یقینا اس سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ میں اس عزیز نوجوان کی درخواست پر جنھوں نے مجھ سے والدین کو متنبہ کرنے کی سفارش کی ہے، والدین سے یہ گزارش کروں گا، اپیل کروں گا کہ شادی کے عمل کو قدرے آسان بنائیے۔ والدین سخت گیری کرتے ہیں، جبکہ کسی سخت گیری کی ضرورت نہیں ہے۔ بیشک کچھ مشکلات عام طور پر ہوتی ہیں، جیسے مکان کا مسئلہ ہے، روزگار کا مسئلہ ہے، اس طرح کے مسائل موجود ہیں۔ لیکن؛ «اِن یَکونوا فُقَرآءَ یُغنِهِمُ اللهُ مِن فَضلِه»(۴) یہ قرآن کہہ رہا ہے۔ ممکن ہے کہ نوجوان ابھی اچھے مالی حالات میں نہیں ہے، مگر ان شاء اللہ شادی کے بعد اللہ تعالی گشائش پیدا کرے گا۔ نوجوانوں کی شادی روکئے مت۔ میں والدین سے گزارش کروں گا کہ اس مسئلے پر توجہ دیں۔
البتہ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ رشتہ لیکر جانے اور وساطت کرنے کی رسم بہت پھیکی پڑ چکی ہے۔ حالانکہ یہ ضروری چیز تھی۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، پرانے زمانے میں تو یہ معمول تھا، اب جب ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے تو یہ رواج بھی بڑھنا چاہئے، تو کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو لڑکوں سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ لڑکی کے گھر والوں کو ان کے بارے میں بتاتے ہیں۔ لڑکیوں کے بارے میں با خبر ہوتے ہیں اور لڑکوں کے گھر والوں کے ان کے بارے میں مطلع کرتے ہیں۔ سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں، شادی کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں۔ یہ کام انجام پانا چاہئے۔ ہم معاشرے میں اپنے نوجوانوں کے شادی کے مسئلے کو حل کرنے میں جتنا کامیاب ہوں گے وہ ہمارے معاشرے کی دنیا و آخرت دونوں کے لئے اتنا ہی اچھا ہوگا۔ یہ ہمارے ملک کی دنیا و آخرت کے لئے اچھا ہے۔ اسی طرح آبادی میں اضافے کے لئے بھی کہ جس پر میں بہت زیادہ تاکید کرتا ہوں، یہ موثر ہے۔ میں یہیں پر محترم وزیر صحت کی خدمت میں عرض کروں گا کہ مجھے ایسی رپورٹیں مل رہی ہیں جن کے مطابق آپ کا مطالبہ جو در حقیقت ہمارا بھی مطالبہ ہے، یعنی آبادی کی روک تھام کا سلسلہ ختم کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا گیا ہے کہ آبادی کی روک تھام کی جو پالیسی تھی اس کا سد باب ہو۔ مگر اس پر صحیح طریقے سے عمل نہیں ہو رہا ہے۔
عزیزو! رمضان کا مہینہ، معنویت و روحانیت کا یہ موسم، صفائے قلب کی یہ بہار اپنے اختتامی ایام میں ہے۔ اس مہینے میں آپ کے دلوں کی زرخیز زمین اور آپ کی پاکیزہ روحوں پر رحمت و لطف خداوندی کی بارش کی بوندیں پڑی ہوں گی تو آئندہ دنوں میں اس کے ثمرات حاصل ہوں گے۔ البتہ نوجوانوں کے لئے روحانی نمو و بالیدگی کا موسم کبھی ختم نہیں ہوتا۔ بیشک ماہ رمضان کی اپنی الگ خصوصیت ہے، اپنی منفرد فضیلت ہے، لیکن نوجوان کے اندر قلبی و روحانی شکوفائی کے حالات ہمیشہ فراہم رہتے ہیں۔ نوجوان ہمیشہ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں، اپنے خطوط میں اور دستیاب مواصلاتی ذرائع کی مدد سے، روحانیت کے بارے میں، روحانی ارتقاء کے سلسلے میں نصیحت کا مطالبہ کرتے ہیں۔
بہت سے لوگ ہیں جو عرفانی سیر کرانے کے مراکز کھول کے بیٹھے ہیں۔ یہ سب قابل بھروسہ نہیں ہیں۔ ان لوگوں نے ایک طرح کی دوکان کھول رکھی ہے۔ ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے جو کچھ بزرگوں سے سنا ہے اور آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ روحانی ارتقاء اور معنوی بلندی کا بہترین راستہ ہے گناہوں سے اجتناب۔ یہ سب سے اہم عمل ہے۔ کوشش کیجئے کہ گناہ سرزد نہ ہو۔ گناہوں کی مختلف قسمیں ہیں۔ زبان کا بھی گناہ ہوتا ہے، ایسے گناہ بھی ہیں جن کا تعلق آنکھوں سے ہے، کچھ گناہ ہیں جو ہاتھوں سے مربوط ہوتے ہیں۔ تو انواع و اقسام کے گناہ ہیں۔ گناہوں کو پہچانئے اور اپنے حرکات و سکنات کی نگرانی کرتے رہئے۔ تقوی اسی کو کہتے ہیں۔ تقوی کا مطلب ہے نگرانی۔ اگر آپ کسی پرخطر راستے پر گامزن ہیں تو بہت احتیاط سے قدم بڑھائیں گے۔ یہی تقوی ہے۔ نگرانی رکھئے۔ گناہ سے پرہیز کیجئے۔ یہ روحانی ارتقاء کا سب سے اہم راستہ ہے۔ البتہ اس کے بعد فورا واجبات کی ادائیگی کا مرحلہ آتا ہے۔ واجبات میں سب سے اہم ہے نماز۔ اول وقت حضور قلب کے ساتھ نماز۔ حضور قلب یعنی یہ کہ آپ جب نماز پڑھیں تو اس بات پر توجہ رکھیں کہ کسی سے ہمکلام ہیں، کوئی ہے جس سے آپ مخاطب ہیں۔ اس پر توجہ رکھئے۔ کبھی کبھی انسان کی توجہ ہٹ جاتی ہے، تو کوئی بات نہیں، جیسے ہی آپ دوبارہ متوجہ ہوں، وہی حالت اپنے اندر پھر پیدا کیجئے کہ گویا آپ کسی سے ہمکلام ہیں، پھر اس حالت کو قائم رکھئے۔ یہی حضور قلب ہے۔ نماز حضور قلب کے ساتھ ہو، نماز اول وقت پڑھی جائے، حتی المقدور نماز جماعت سے ادا کی جائے۔ ان چیزوں کو ملحوظ رکھئے تو آپ روحانی ارتقاء کی منزلیں طے کریں گے۔ آپ فرشتہ بن جائیں گے، بلکہ فرشتوں سے بھی زیادہ بلندی حاصل کر لیں گے۔ اس پر آپ یقین رکھئے! آپ نوجوان ہیں۔ آپ کے دل پاکیزہ ہیں۔ آپ کی روحیں طاہر ہیں۔ آپ کے اندر یا تو آلودگی ہے ہی نہیں، یا پھر بہت کم ہے۔ ہماری عمر کو پہنچنے کے بعد انسان کی مشکلات بہت زیادہ ہو جاتی ہیں۔ بنابریں اگر ان چیزوں کو آپ ملحوظ رکھیں تو کسی اور نصیحت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ کسی خاص ورد وغیرہ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ ہاں یہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ قرآن سے مانوس ہوں۔ کچھ آیتیں ہی پڑھئے مگر قرآن کی تلاوت روزانہ کیجئے۔ یہ چیز بہت اچھی ہے۔ فرائض کو خاص اہمیت دیجئے۔
کچھ فرائض ایسے ہیں جو طلبہ سے متعلق ہوتے ہیں۔ طلبا کا طبقہ بہت اہم طبقہ ہے، ایک خاص طبقہ ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں جن کا ذکر میں گزشتہ برسوں میں ماہ رمضان میں طلبا سے ہونے والی اپنی ملاقاتوں میں کرتا رہا ہوں، چنانچہ اس وقت ان کا اعادہ نہیں کرنا چاہتا۔ کچھ فرائض ہیں۔ طلبا کا پہلا فریضہ ہے اعلی اہداف و مقاصد رکھنا۔ کچھ لوگ یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اعلی اہداف و مقاصد کے بارے میں سوچنا حقیقت پسندی کے منافی ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اعلی اہداف و مقاصد کے بارے میں سوچنا حقیقت پسندی کے منافی نہیں بلکہ کنزرویٹیو سوچ کے خلاف ہے۔ اعلی اہداف و مقاصد رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ حقائق کو دیکھئے، انھیں بخوبی سمجھئے، مثبت حقائق کو استعمال کیجئے اور منفی حقائق کا مقابلہ کیجئے، ان کے خلاف لڑئے۔ یہ ہے اعلی اہداف و مقاصد پر مرکوز سوچ۔ آپ کی نگاہیں اعلی اہداف پر مرکوز رہنی چاہئیں۔ یہ طلبا کی اولیں ذمہ داری ہے۔
ہمارے اعلی اہداف و مقاصد کیا ہیں؟ میں نے یہاں کچھ اعلی اہداف و مقاصد نوٹ کئے ہیں۔ ایک ہے اسلامی معاشرے اور اسلامی تمدن کی تشکیل۔ یعنی اسلام کے سیاسی پہلوں سے متعلق افکار کا احیاء۔ کچھ لوگوں نے صدیوں سے یہ کوشش کی کہ اسلام کو زندگی سے، سیاست سے، معاشرے کے انتظامی شعبے سے جہاں تک ممکن ہو دور کر دیں اوراسے صرف ذاتی مسائل تک محدود کر دیں اور پھر رفتہ رفتہ ذاتی امور میں بھی اسے صرف قبرستان، قبر، نکاح وغیرہ تک محدود کر دیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اسلام اس لئے آیا ہے کہ «الّا لِیُطاعَ بِاِذنِ الله» (۵) یہ صرف اسلام کی بات نہیں ہے، سارے پیغمبروں کا یہی مقصد تھا۔ ادیان الہیہ اس لئے بھیجے گئے کہ معاشرے میں ان کا نفاذ ہو۔ معاشرے میں حقیقی معنی میں ان پر عملدرآمد ہو۔ یہ ہدف پورا ہونا چاہئے۔ ایک اہم ہدف و مقصد یہی ہے۔
ایک اور اہم ہدف ہے خود اعتمادی۔ یعنی یہی جذبہ کہ ہم کر سکتے ہیں جس کا ذکر آپ نے بھی اپنی گفتگو میں کیا۔ یہ ایک اہم ہدف ہے۔ قومی خود اعتمادی اور قومی توانائی پر بھروسے کے بارے میں سوچنا چاہئے اور ایک اہم ہدف کی حیثیت سے اس کے لئے کام کرنا چاہئے۔ البتہ اہداف کے حصول کے کچھ تقاضے اور لوازمات ہیں جن پر عمل ہونا چاہئے۔
ایک اور ہدف و مقصد جو میں نے نوٹ کیا ہے، توسیع پسندانہ نظام اور استکبار سے جدوجہد ہے۔ توسیع پسندانہ نظام یعنی وہ سسٹم جو دوسروں پر غلبہ اور تسلط حاصل کرنے پر قائم ہو۔ یعنی دنیا کے ممالک اور دنیا کی آبادی سامراجی قوت اور سامراج کے زیر تسلط ملک یا قوم میں بٹے ہوئے ہیں۔ آج دنیا میں یہی ہوا ہے کہ کچھ لوگ توسیع پسند طاقت بن گئے ہیں اور بقیہ ان کے تسلط کا شکار ہیں۔ ایران سے سارا جھگڑا اسی بات کا ہے۔ آپ یہ بات ذہن نشین کر لیجئے! اسلامی جمہوریہ سے تنازعہ اس بات پر ہے کہ اس نے توسیع پسند اور تسلط کے شکار جیسے دو گروہوں پر استوار سسٹم کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ توسیع پسند اور سامراجی طاقت تو نہیں ہے لیکن دوسروں کے زیر تسلط رہنے پر آمادہ بھی نہیں ہے بلکہ اس نے خود کو اس تسلط سے آزاد کر لیا ہے اور اپنے اس موقف پر ثابت قدم ہے۔ اگر ایران کامیاب ہو جائے اور اسے پیشرفت حاصل ہو، علمی پیشرفت، صنعتی میدان میں پیشرفت، اقتصادی شعبے میں پیشرفت، سماجی شعبے میں پیشرفت اور اس کا علاقائی و عالمی اثر و رسوخ بڑھے تو اس سے قوموں کو یہ دکھایا جا سکتا ہے کہ سامراجی طاقتوں کے تسلط سے آزاد رہ کر اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر ترقی کی منزلیں طے کرنا ممکن ہے۔ سامراجی طاقتیں یہی نہیں ہونے دینا چاہتیں۔ سارا جھگڑا اسی بات کا ہے۔ باقی باتیں تو صرف بہانہ ہیں۔
اعلی اہداف و مقاصد میں سے ایک عدل و مساوات کا مطالبہ ہے۔ یعنی وہی باتیں جن کا بعض احباب نے یہاں ذکر بھی کیا۔ انصاف و مساوات کا معاملہ بہت اہم ہے۔ اس کے مختلف پہلو اور ابواب ہیں۔ اس سلسلے میں صرف برائے نام اقدامات پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے، بلکہ حقیقت میں اس ہدف کے لئے عملی کوشش کرنا چاہئے۔ اس کا ایک باب ہے اسلامی طرز زندگی، اس کا ایک اور باب ہے آزادی۔ آزادی مغرب میں رائج غلط اور گمراہ کن معنی میں نہیں۔ وہاں تو آزادی کا بس یہ مطلب ہے کہ 'لڑکی اس طرح زندگی بسر کرے اور لڑکا اس طرح زندگی گزارے۔' لعنت ہو ان لوگوں پر جو اسلامی رسومات کے خلاف اور شادی کی سنت کے خلاف عمل کرتے ہیں، شادی کی روایت کی صریحی طور پر مخالفت کرتے ہیں اور ہمارے بعض اخبار و جرائد اور ثقافتی ادارے بھی، افسوس کی بات ہے کہ، اس کی ترویج کرتے ہیں۔ اس کا سد باب ہونا چاہئے۔ آزادی تفکر و تدبر میں ہونی چاہئے، شخصی و ذاتی عمل میں ہونی چاہئے، سیاسی اقدامات میں ہونی چاہئے، سماجی اعمال میں ہونی چاہئے۔ آزادی سماج کی سطح پر ہونی چاہئے، جو در حقیقت خود مختاری سے عبارت ہے۔
اعلی اہداف و مقاصد میں ایک علمی و سائنسی نمو ہے۔ ان اعلی اہداف میں سعی و کوشش اور کاموں کو ادھورا چھوڑ دینے اور تساہلی برتنے سے اجتناب ہے۔ اعلی اہداف میں اسلامی یونیورسٹی کا قیام ہے۔
ممکن ہے آپ میں کوئی یہ کہے کہ ہم ان اہداف و مقاصد کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ ملک میں ہمارا تو کوئی اثر و رسوخ ہے نہیں۔ کچھ اعلی عہدیداران ہیں جو اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور ہم یہاں بیٹھے رائزنی کر رہے ہیں، نعرے لگا رہے ہیں! یہ سوچ معاملے کو سمجھنے میں غلطی کا نتیجہ ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ طالب علم فیصلہ ساز ہوتا ہے، طالب علم ماحول ساز ہوتا ہے۔ جب آپ کسی اہم ہدف کی کوشش کا آغاز کرتے ہیں تو اس پر گفتگو کرتے ہیں، اسے بار بار دہراتے ہیں اور پوری توجہ کے ساتھ اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اس طرح معاشرے میں ایک ماحول بنتا ہے اور ایک بحث کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ چیز فیصلہ سازی کا باعث بنتی ہے۔ ملک کے کسی اہم ادارے میں کوئی بڑا عہدیدار اس مسئلے کے بارے میں فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائے گا جس کے لئے سماج میں ماحول بن گیا ہے۔ اس کی ایک سامنے کی مثال ہے علمی تحریک اور سافٹ ویئر موومنٹ، جسے پہلے زیر بحث لایا گیا اور پھر بار بار اسے دہرایا گیا۔ خوش قسمتی سے اس کو پذیرائی ملی اور یہ ایک عمومی مطالبہ بن گيا۔ اسی کی بنیاد پر معاشرے کی سطح پر تحریک کا آغاز ہوا۔ پندرہ سال سے ہم بدستور علمی و سائنسی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ دوسرے میدانوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ وہاں بھی طالب علم موثر واقع ہو سکتا ہے۔ دوستوں میں سے ایک صاحب نے مرحوم شہید بہشتی کا معروف جملہ نقل کیا کہ؛ طالب علم معاشرے کا موذن ہے، اگر وہ سوتا رہ گیا تو باقی لوگ بھی سوتے رہ جائیں گے۔ یہ بہت اچھی تشبیہ ہے۔ آپ بیدار کرنے والے بن سکتے ہیں، آپ ماحول سازی کرنے والے بن سکتے ہیں۔ آپ ہرگز یہ تصور نہ کیجئے کہ آپ کے کاموں اور اقدامات کا کوئی اثر نہیں ہے۔
آپ اپنا وقت ضائع نہ ہونے دیجئے۔ ہمارے بہت سے نوجوان جن میں طالب علم اور غیر طالب سب شامل ہیں، اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹوں وغیرہ میں گھومتے پھرتے ہیں، بعض بلا وجہ کی بحثوں میں پڑ جاتے ہیں۔ آپ اپنا وقت ہرگز ضائع نہ ہونے دیجئے۔ وقت کا صحیح استعمال کیجئے۔ درس بھی پڑھئے اور ساتھ ہی یونینوں وغیرہ کے جو انتظامی امور ہیں انھیں بھی انجام دیجئے۔ دونوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔
اذان بھی ہو گئی۔ میں جو باتیں عرض کرنا چاہتا تھا اس کا بہت چھوٹا سا حصہ ہی عرض کر سکا ہوں۔ زیادہ بڑا حصہ باقی رہ گیا ہے۔ آپ کے خیال میں اب کیا کرنا چاہئے؟..... آپ روزہ افطار کرنے کے بعد آمادہ رہئے، اگر مجھ میں تاب رہی تو گفتگو کے اس سلسلے کو پھر آگے بڑھائيں گے۔ البتہ اس وقت اگر میں کچھ بیان کروں گا تو بہت اختصار کے ساتھ بیان کروں گا (6)۔
***
نماز مغربین اور افطار کے بعد
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم
میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اگر طلبا کے ماحول میں کسی موضوع کے سلسلے میں پختہ یقین کی کیفیت پیدا ہو جائے اور اس پر کام شروع ہو جائے، طلبا کی جانب سے گوناگوں سرگرمیاں شروع ہو جائیں تو یہ چیز ملک کے مستقبل پر بڑے اثرات مرتب کرے گی۔ یہ تصور درست نہیں ہے کہ ہم طالب علم ہونے کی حیثیت سے اگر یہ کام کر رہے ہیں تو یہ عبث ہے اور اس کا کیا اثر ہونے والا ہے؟ اس کا ملک کے حقائق پر کیا اثر پڑنے والا ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ اثر ہوتا ہے، کافی اثر ہوتا ہے۔ اسے اثر انگیز بنانے کا طریقہ یہی ہے جو میں نے عرض کیا۔ یہ چیز عمومی مطالبہ بن جاتی ہے، پہلے طلبا کے درمیان، پھر رفتہ رفتہ ملکی سطح پر۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد یہ فیصلہ ساز عنصر بن جائے گا۔ ہم مانتے ہیں کہ مثال کے طور پر آپ کسی سسٹم میں فیصلہ کرنے کی پوزیشن کے حامل نہیں ہیں، لیکن فیصلے کی زمین ہموار کرنے والے بن سکتے ہیں۔ تو ہمیں چاہئے کہ اعلی اہداف و مقاصد پر توجہ دیں۔ میں نے ان اعلی اہداف میں سے چند کا ذکر کیا ہے مگر سارے اہداف یہی نہیں ہیں، آپ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی تقاریر میں تلاش کیجئے، اسلامی انقلاب کے معارف پر نظر دوڑائیے، قرآن و نہج البلاغہ کا باریک بینی سے مطالعہ کیجئے اور اعلی اہداف کی فہرست تیار کیجئے، ان کی درجہ بندی کیجئے، گروہ بندی کیجئے، ان پر کام کیجئے اور ان اعلی مقاصد پر ثابت قدم رہئے۔ یعنی زمینی حقائق و حالات ہمیں اعلی اہداف و مقاصد سے دور نہ کرنے پائیں! حقائق کو ہم اعلی اہداف سے قریب کرنے والے زینے کے طور پر استعمال کریں۔ اگر کوئی ایسی سچائی ہے جو ہمارے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے تو اس کا علاج کریں، رکاوٹ کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کریں۔ اسے کہتے ہیں اعلی مقاصد سے لگاؤ۔ اس کے بر عکس صورت حال جیسا کہ میں نے عرض کیا، کنزرویٹیو روش اختیار کرنا ہے، یعنی جو حقائق ہیں ہم انھیں کے مطابق خود کو ڈھال لیں، جو بری چیزیں ہیں انھیں بھی قبول کر لیں۔ اسی طرح اچھی باتیں بھی تسلیم کر لیں۔ یہ کہہ دیں کہ؛ صاحب کیا کیا جا سکتا ہے، کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ اسی طرح زندگی کاٹنی ہے۔ اس طرح کی فکر رکھنے والی قوم کا مستقبل کیا ہوگا، یہ بالکل واضح ہے۔
اگر طلبا یونینیں اور تنظیمیں اپنے اندر اس طرح کی تاثیر پیدا کرنا چاہتی ہیں تو اس کے کچھ تقاضے ہیں۔ ان تقاضوں کو ہمیں پورا کرنا ہوگا۔ ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ اسلامی مفاہیم پر کام کیا جائے۔ یعنی گوناگوں موضوعات و مسائل پر گہرائی کے ساتھ ہمیں کام کرنا ہوگا، سطحی فکر سے نقصان ہوتا ہے۔ آج دوستوں نے یہاں جو تقریریں کیں، سب تو نہیں لیکن کچھ ایسی تھیں کہ ان میں تدبر اور گہرائی سے سوچنے کے آثار مجھے نظر آئے۔ میں نے محسوس کیا کہ طالب علم مسائل کا عمیق نگاہ سے جائزہ لے رہا ہے۔ یہ پہلی شرط ہے۔
کبھی کبھی کچھ نعرے سنائی دیتے ہیں۔ ایسے نعرے جو بظاہر تو اسلامی ہیں لیکن در حقیقت اسلامی نہیں ہیں۔ حالیہ عرصے میں جو چیز بہت رائج ہو گئی اور تحریروں میں اور تقریروں میں بار بار نظر آتی ہے، 'رحمانی اسلام' کی اصطلاح ہے۔ یہ لفظ تو بڑا اچھا ہے۔ لفظ اسلام بھی پرکشش ہے اور لفظ رحمانی بھی بہت خوبصورت ہے۔ لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟ رحمانی اسلام کی تعریف کیا ہے؟ اللہ تعالی رحمان و رحیم بھی ہے اور سخت سزا دینے والا بھی ہے۔ بہشت کا بھی مالک ہے اور جہنم کو بھی اس نے خلق کیا ہے۔ اللہ تعالی نے مومنین اور غیر مومن افراد کو ایک ہی زمرے اور حساب میں نہیں رکھا ہے؛ اَفَمَن کانَ مُؤمِنًا کَمَن کانَ فاسِقًا لا یَستَوون (۷) جس رحمانی اسلام کی بات کی جا رہی ہے مومن و غیر مومن کے بارے میں، کافر کے بارے میں، دشمن کے بارے میں، اس کافر کے بارے میں جو دشمن نہیں ہے، اس کا موقف کیا ہے؟ گہرائی کو اندازہ لگائے بغیر یونہی زبان سے ایک لفظ ادا کر دینا غلط اور بسا اوقات گمراہ کن عمل ہوتا ہے۔ بعض افراد جو اپنی تقریر و تحریر میں 'رحمانی اسلام' کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں، انسان اسے دیکھ کر بخوبی یہ محسوس کرتا ہے کہ 'رحمانی اسلام' علامتی لفظ ہے ایسے نظریات اور مفاہیم کا جن کا سرچشمہ لبرلزم ہے۔ یعنی وہی چیز جو مغرب میں لبرلزم کہلاتی ہے۔ البتہ مغربی تمدن کے لئے، مغربی ثقافت کے لئے اور مغربی آئيڈیالوجی کے لئے جو لبرلزم کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے وہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ وہ حقیقت میں نہ تو لبرل ہیں اور نہ ہی حقیقی معنی میں لبرلزم پر ان کا عقیدہ و ایمان ہے۔ لیکن بہرحال ایک اصطلاح ہے لبرلزم کی۔ اگر 'رحمانی اسلام' کی اصطلاح بھی اسی سمت میں ایک اشارہ ہے تو پھر یہ نہ تو اسلام ہے اور نہ ہی رحمانی۔ لبرل فکر کا سرچشمہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں یورپ میں رائج عام سوچ تھی جو ذات خدا کے انکار اور الحاد سے عبارت ہیومنسٹ مکتب فکر کی بنیاد قرار پائی۔ جب خدا کی ہی نفی کر دی گئی تو پھر سب کچھ اپنی مرضی پر منحصر ہو گیا۔ انسان سے تعلق رکھنے والی چیزوں کا یہی عالم ہوتا ہے۔ آپ سائنس اور تجربہ گاہوں سے تعلق رکھنے والے امور کے بارے میں دیکھئے کہ فکر اور سوچ کا فرق کتنا زیادہ اور نمایاں رہتا ہے۔ آج کسی مادے کے بارے میں کوئی تحقیق ہوتی ہے کہ یہ فلاں بیماری میں اور فلاں مشکل کو دور کرنے کے لئے مفید ہے، چند روز گزرے نہیں کہ کچھ سائنسداں اعلان کرتے ہیں کہ؛ جی نہیں، یہ مفید نہیں ضرر رساں ہے! یعنی جن امور کا تعلق وحی پروردگار سے نہیں ہے ان کا یہ عالم ہے۔ اس طرح کی غلطیاں ہوتی ہیں اور سوچنے کے انداز میں اتنا زیادہ فرق ہوتا ہے۔ یعنی سوچ اور فکر اگر خدائی نہیں ہے تو پھر اپنی اپنی پسند والی بات ہو جاتی ہے اور جب یہ صورت حال ہو جائے تو طاقتور گروہوں کے مفادات کے مطابق اقدار وضع کئے جاتے ہیں۔
آجکل امریکی اقدار کی اصطلاح رائج ہو گئی ہے۔ آپ امریکیوں کے بیانوں میں سنتے ہیں کہ؛ امریکی اقدار، ہمارے اقدار! اٹھارہویں صدی میں جب امریکا برطانوی استعمار سے آزاد ہوا اور اسے دنیا کے دوسرے سرے پر ایک خود مختار ملک کی حیثیت حاصل ہو گئی تو آزاد امریکا کے بانیوں نے، اس زمانے میں جو رہنما تھے جیسے جارج واشنگٹن اور ان کے گرد و پیش کے افراد اور ان کے جانشین، انھوں نے کچھ اقدار طے کئے اور ان کا نام امریکی اقدار رکھ دیا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو خود ان اقدار کے اندر بھی خامیاں نظر آتی ہیں، یہ ایسے اقدار ہیں جن کا نتیجہ آج دنیا میں تسلط پسندانہ نظام کی 'جہان خوری' کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ جبکہ خود ان اقدار کی مثبت چیزیں اور ان کے مثبت پہلو بھی آج امریکی معاشرے میں اور امریکی سیاسی نظام میں فراموش کر دئے گئے ہیں۔ کچھ سال پہلے میں مطالعہ کر رہا تھا دو سال یا دو سال سے کچھ زیادہ عرصہ پہلے کے انھیں حضرات یعنی امریکا کے بانیوں کے بیانوں کا۔ ان باتوں کو جو انھوں نے کیں، جو منشور انھوں نے تیار کیا جسے انھوں نے امریکی منشور اور امریکی اقدار کا نام دیا، ان چیزوں اور باتوں کو میں آج کے امریکی حکام کے طور طریقوں میں تلاش کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ بہت سی باتوں اور اصولوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ امریکی قوم کے سامنے یہ موضوع اٹھانے کی ضرورت ہے کہ آپ جن اقدار کی بات کرتے ہیں، آج امریکی حکومت، ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت کے طرز عمل میں وہ ناپید ہے، بہرحال صورت حال یہی ہے۔ اگر 'رحمانی اسلام' کی اصطلاح کا اشارہ اس طرح کی کسی چیز کی جانب ہے تو پھر یہ سو فیصدی غلط ہے۔
اگر 'رحمانی اسلام' سے مراد یہ ہے کہ ہم دنیا کے تمام موجودات کو نگاہ رحمت سے دیکھیں، محبت کی نظر سے دیکھیں، تو یہ بھی درست نہیں ہے۔ یہ بھی قرآن کے خلاف ہے۔ قرآن کا صریحی بیان اس طرز فکر کے برخلاف ہے۔ بیشک وہ محبت، الفت اور انصاف کو مسلمانوں سے مختص نہیں مانتا، قرآن کہتا ہے کہ اگر توانائی ہے تو غیر مسلموں کے ساتھ بھی محبت و انصاف سے پیش آؤ! اس شرط پر کہ انھوں نے تمہارے ساتھ دشمنی کا برتاؤ نہ کیا ہو اور آئندہ بھی دشمنی برتنے والے نہ ہوں۔ امیر المومنین علیہ السلام اپنے معروف خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں؛ بَلَغَنی اَنَّ الرَّجُلَ مِنهُم کانَ یَدخُلُ عَلَی المَرأَةِ المُسلِمَةِ وَ الاُخری‌ المُعاهِدَة (8)۔ اس کے بعد آخر میں مولا فرماتے ہیں کہ ایسے میں کوئی مسلمان شخص تپ دق سے مر جائے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔ آخر تپ دق سے کیوں مر جائے؟ اس لئے کہ معاویہ کے سپاہی 'معاہد' خواتین یعنی ان یہودی عورتوں کے گھروں میں گھس گئے اور ان کی توہین کی، مثال کے طور پر ان کے دست بند اتار لئے، جن کی حفاظت اسلام کے ذمے تھی۔ حضرت فرماتے ہیں کہ اگر اس پر کوئی انسان تپ دق سے مر جائے تو کچھ برا نہیں ہے۔ یہ اس غیر مسلم کے بارے میں ہے جو مسلمانوں سے دشمنی کا برتاؤ نہیں کرتا۔ قرآن کہتا ہے؛ لا یَنهکُمُ اللهُ عَنِ الذَّینَ لَم یُقاتِلوکُم فِی الدّینِ وَ لَم یُخرِجوکُم مِن دِیارِکُم اَن تَبَرّوهُم وَ تُقسِطوا اِلَیهِم؛ (9)۔ (جو لوگ) کافر ہیں مگر انھوں نے تم سے دشمنی کا برتاؤ نہیں کیا ہے، ان کے ساتھ نیکی کرو، ان کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آؤ۔ لیکن دوسری جانب یہ بھی ارشاد ہوتا ہے؛ اَلا تُقاتِلونَ قَومًا نَکَثوا اَیمنَهُم وَ هَمّوا بِاِخراجِ الرَّسولِ وَ هُم بَدَءوکُم اَوَّلَ مَرَّة» (10) ان لوگوں کے ساتھ جو عہد شکنی کرتے ہیں، جو آپ کی اور آپ کے پیغمبر کی زندگی کے تاروپود منتشر کر دینے پر تل جاتے ہیں، جو دشمنی کی شروعات کرنے والے ہیں، کیا ان کے خلاف بھی تم جدوجہد نہیں کرنا چاہتے؟ یہ قرآن کی آیت ہے۔ شکایت آمیز، ملامت آمیز اور اعتراض آمیز لہجے میں آیت کہتی ہے؛ اَتَخشَونَهُم کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے؛ فَاللهُ اَحَقُّ اَن تَخشَوه، اگر تم سچ کہتے ہو، اگر تم صاحب ایمان ہو تو اللہ سے ڈرو ان لوگوں سے نہیں! یہ رہا قرآن کا موقف۔ اگر رحمانی اسلام کا مطلب یہ ہےکہ ہم ان دشمنوں کے ساتھ جو اسلام کے خلاف، جو ایران کے خلاف، جو ملت ایران کے خلاف اور ایران کی تعمیر و ترقی کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں اور کوئی دقیقہ فروگزار نہیں کرتے، محبت آمیز طریقے سے، بالکل صاف دل سے پیش آئیں، تو یہ اسلام نہیں ہے۔ میں اس طرح کے من گڑھت اصولوں کا مشورہ ہرگز نہیں دوں گا۔ ہاں میں حقیقی اسلامی معارف و تعلیمات پر عمل کرنے کی سفارش کرتا ہوں۔ طلبا تنظیمیں اسلامی معارف و تعلیمات پر کام کریں۔ کتابوں کی کوئی کمی نہیں ہے، کتابیں ہمارے یہاں بہت ہیں۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ہم لے دیکر شہید مطہری کی کتابوں سے رجوع ہونے کا مشورہ دیا کرتے تھے، البتہ آج بھی وہ کتابیں اپنی قدر و اہمیت کے اوج پر باقی ہیں، مگر آج ان کے علاوہ بھی بہت کتابیں موجود ہیں۔ طلبا مطالعاتی روشوں اور طریقوں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ وہ مطالعہ کریں، بحث کریں، کام کریں، تقریروں کے پروگرام رکھیں، کانفرنسیں کروائیں، گول میز بحث کے پروگرام رکھیں۔ یعنی معیار کو بلند کریں۔ یہ بھی ایک اہم ضرورت ہے۔
اثر پیدا کرنے کے لازمی تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپ طلبا کی صنف کو اپنی جانب متوجہ کریں۔ طلبہ یونینیں تو ایک اقلیت ہیں۔ اگر آپ تمام اسٹوڈنٹس یونینوں کے ارکان کو جمع کر لیجئے تب بھی ان کی مجموعی تعداد طلبا کی اکثریت نہیں ہوگی۔ آپ کے اندر ایسی کشش ہونی چاہئے کہ طلبہ کی پوری صنف آپ کی جانب متوجہ ہو۔ کشش کیسے پیدا ہوتی ہے؟ میرے خیال میں اس کے متعدد راستے موجود ہیں۔ آپ نوجوان ہیں۔ آپ کے اندر خلاقانہ صلاحیتیں اور جدت عملی کی توانائی ہم سے زیادہ ہے۔ جوانی کے ایام میں ہمارے ذہن بھی ہر مسئلے کے لئے دس راہ حل تلاش کر لیتے تھے، مگر اب آپ کے اذہان بہتر انداز میں کام کر رہے ہیں۔ آپ طلبا کی صنف کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے نئے طریقے اور روشیں تلاش کیجئے۔
البتہ لڑکے اور لڑکیوں کی مشترکہ اور مخلوط کیمپنگ کے ذریعے دلچسپی اور کشش پیدا کرنے کی کوشش غلط ہے۔ کچھ لوگ اس طریقے سے کشش پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ طلبہ کے ایک گروہ کو کسی خاص علمی اور سائنٹیفک عنوان کے تحت یہاں تک کہ اسلامی عناوین کے تحت لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ساتھ پہاڑ پر لے جانا چاہتے ہیں، سفر پر لے جاتے ہیں، یورپ کی سیر پر لے جانے کی بات کرتے ہیں، غیر ممالک میں پکنک کے لئے لے جانے کی بات کرتے ہیں! اس میں دو رائے نہیں کہ یہ طلبا کے ماحول کے ساتھ خیانت ہے، یہ ملک کی آئندہ نسل کے ساتھ خیانت ہے۔ کشش اور دلچسپی پیدا کرنے کا راستہ یہ نہیں ہے۔ جیسا کہ کچھ طلبا نے بھی کہا اور میں نے بھی تاکید کی ہے کہ آپ طلبا کو اپنی جانب کھینچنے کا طریقہ موسیقی کی محفلیں نہیں ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ برسوں پہلے ایک زمانے میں اسٹوڈنٹس یونینوں نے ایسا ہی کچھ کیا تھا۔ ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ طلبا کے اس گروہ نے یہ کام کیوں کیا؟ میرے لئے یہ بڑی حیرت کی بات تھی۔ جب ہم نے سوال کیا تو جواب ملا کہ ہم طلبا کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بعد میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
مجھے ایک واقعہ یاد گیا جو سید قطب نے اپنی ایک کتاب میں نقل کیا ہے۔ میں نے بھی کئی سال پہلے، یہ انقلاب سے پہلے کی بات ہے، اپنی ایک تحریر میں سید قطب کے حوالے سے اسے نقل بھی کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں امریکا کے ایک شہر میں راستہ چل رہا تھا کہ ایک کلیسا نظر آیا۔ میں نے دیکھا کہ چرچ سے متصل ایک کانفرنس ہال ہے۔ وہاں رات کا شیڈول لکھا ہوا تھا۔ میں نے شیڈول پڑھا تو دیکھا کہ وہاں لکھا ہے؛ فلاں موسیقی، اس کے بعد فلاں موسیقی، اس کے بعد فلاں گانا، پھر ہلکا سا عشائيہ اور اس کے بعد فلاں نشست۔ مجھے دلچسپی ہوئی کہ دیکھوں ماجرا کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ میں رات کے وقت گیا۔ دیکھا تو ایک ہال ہے، کسی کیبرے ہال کی مانند۔ وہاں لڑکے لڑکیاں آتے ہیں، نوجوان آتے ہیں، بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے سے آشنائی حاصل کرتے ہیں۔ پھر وہاں اسٹیج پر کچھ پروگرام پیش کئے گئے میوزک وغیرہ کے۔ میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس کے بعد ہلکا سا ڈنر دیا گیا، میں نے وہ کھا لیا۔ اس کے بعد پینے پلانے کا سلسلہ (11)، واقعے کا دلچسپ حصہ یہی ہے؛ وہ کہتے ہیں کہ رات کئی گھنٹے گزر چکی تھی۔ رات کے آخری حصے میں میں نے دیکھا کہ پادری، اس کلیسا کے پادری جس سے یہ ہال ملحق تھا، پورے وقار کے ساتھ اسٹیج پر نمودار ہوئے اور ایک گوشے میں جاکر انھوں نے کئی بٹن دبا کر کچھ لائٹیں بند کر دیں اور وہاں سے چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ پھر میں وہاں نہیں رک سکا، باہر نکل گیا (12)۔ کہتے ہیں کہ اگلے دن میں پادری کے پاس گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ ماجرا کیا ہے؟ آپ روحانی پیشوا ہیں، آپ عالم دین ہیں، مبلغ دین ہیں، پھر یہ کیا طریقہ تھا کہ گزشتہ شب آپ ان نوجوانوں کے درمیان اس قسم کے پروگرام میں موجود تھے؟ پادری نے کہا کہ بھائی آپ کو نہیں معلوم ہے۔ میں نوجوانوں کو کلیسا کی طرف راغب کرنے کے لئے یہ کام کرتا ہوں۔ سید قطب نے کہا، البتہ میں اپنے الفاظ میں ان بات کہہ رہا ہوں کہ؛ بھاڑ میں جائے یہ کلیسا (13)، انھیں کیبرے میں ہی جانے دو! اگر یہ وہی حرکتیں جو کیبرے میں کرتے ہیں، یہاں بھی کریں تو پھر کیبرے ہی جائیں کلیسا آنے کی کیا ضرورت ہے؟
اسی طرح اگر ہم نوجوانوں کو فسق و فجور، عیش و عشرت، حرام موسیقی اور اس طرح کی چیزوں میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تو پھر اپنے اوپر اسلامی کا ٹائٹل لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کہاں سے اسلامی ہے، یہ تو غیر اسلامی ہے، یہ اسلام مخالف ہے۔ اسی لئے میں جو طلبہ یونینوں میں اسلامی کشش اور جاذبیت کی بات کرتا ہوں تو وہ اس طرح کی کشش اور جاذبیت نہیں ہے۔ یہ تو خلاف مصلحت ہوگی، خلاف حق ہوگی، یہ طلبہ کی فضا کے ماحول کے ساتھ خیانت ہوگی۔ کشش اور جاذبیت صحیح راستوں سے پیدا کی جانی چاہئے۔ ایک طرح کا پرکشش اور تفریحی کام یہ ہے کہ کوئی نئی چیز تلاش کیجئے! «سخن نو آر که نو را حلاوتیست دگر» (14)۔ نیا خیال ہو، البتہ نئے خیال سے مراد من گڑھت باتیں نہیں ہیں۔ بہت سے حقائق ایسے ہیں جو قرآن کا مطالعہ کرنے سے، نہج البلاغہ کا مطالعہ کرنے سے، روایات کے بارے میں تدبر سے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ میں ساٹھ، ستر سال سے ان موضوعات سے وابستہ رہا ہوں، کام کرتا رہا ہوں۔ مگر بعض اوقات ٹی وی چلاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کوئی صاحب کچھ بیان کر رہے ہیں، یکبارگی کوئی ایسا نکتہ بیان کرتے ہیں جو مجھے بالکل نیا معلوم ہوتا ہے۔ میں اب تک اس نکتے کو نہیں سمجھ سکا تھا۔ میں نے اس زاوئے سے نہیں دیکھا تھا، اب مجھے یہ زاویہ سمجھ میں آیا ہے۔ یعنی ایسے شخص کے لئے جو مثال کے طور پر ساٹھ سال یا اس سے زیادہ عرصے سے، میں ساٹھ سال سے زیادہ عرصے سے عمامہ پہن رہا ہوں، علم دین کے ماحول میں رہا ہے، بہت سی باتیں بالکل نئی ہیں۔ ہم قرآن کی اتنی تلاوت کرتے ہیں۔ روایتوں سے میرا ربط رہتا ہے، برسوں میں نے قران کا درس دیا ہے، برسوں نہج البلاغہ کا درس دیا ہے، لیکن اس کے باوجود کوئی نوجوان طالب علم ٹی وی پر آتا ہے اور ایسی بات بیان کرتا ہے جو میرے لئے بالکل نئی ہوتی ہے، مجھے اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ تو نئی باتیں بہت ہیں۔ لوگ تلاش کریں اور نئی باتیں ڈھونڈیں۔ البتہ یہ کام ایسے افراد کریں جو اس کام کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ نئی بات صرف دینی امور سے متعلق نہیں ہے۔ نئی بات سیاسی بھی ہو سکتی ہے، سماجی بھی ہو سکتی ہے، نیا خیال بین الاقوامی مسائل سے متعلق بھی ہو سکتا ہے۔ آپ جب اپنی یونین کے اندر کوئی نئی بات پیش کرتے ہیں، کوئی نیا خیال پیش کرتے ہیں تو نوجوانوں کے لئے اس میں کشش ہوتی ہے، نئی بات کی اپنی جاذبیت ہوتی ہے۔
ایک اور روش فن و ہنر کا استعمال ہے جس پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر اسٹیج ڈراما، طلبہ کا اسٹیج ڈراما۔ ہمارے ہاں آرٹ کے میدان میں بد قسمتی سے اسٹیج ڈرامے کا آغاز بہت کمزور انداز میں ہوا۔ ہمارے یہاں کا اسٹیج ڈراما عبث اور صرف وقت گزاری کی چیز بن کر رہ گیا۔ یا پھر اس میں سمت و جہت کا تعین کئے بغیر صرف اعتراض ہوتا تھا کسی چیز پر، اس کی زبان ابہام آمیز ہوتی ہے۔ یہ تصور پایا جاتا ہے کہ تھیئیٹر کی زبان کا ابہام آمیز، علامتی اور رازدارانہ ہونا ضروری ہے۔ جبکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اسٹیج ڈراما کا مطلب یہ ہے کہ اداکار بذات خود ناظرین کے سامنے ہو، فلم کے برخلاف۔ فلم میں آپ پردے پر بس سین دیکھتے ہیں۔ تھیئیٹر میں سامعین کے سامنے کچھ انسان اسٹیج پر موجود ہوتے ہیں، سامعین ان کی بات خود ان کے منہ سے سنتے ہیں۔ اس میں بہت سے تعمیری پہلو نکل سکتے ہیں۔ اسٹیج ڈراما طلبا کا بھی ہونا چاہئے۔ فنکاروں کی ٹیمیں سامنے آئیں اور حقیقی معنی میں اسلامی مفاہیم کو پیش کریں۔ اسی حسینیہ میں کئی سال پہلے، شاید بیس سال پہلے کی بات ہے، ہمارے لئے ایک اسٹیج ڈراما پیش کیا گیا تھا۔ پیغمبر حضرت ایوب کے بارے میں تھا، کافی وقت بھی لگا تھا، ایک دو گھنٹے لگے تھے۔ جب وہ ختم ہوا تو میں نے ڈائریکٹر سے کہا کہ قرآن میں حضرت ایوب کا واقعہ میں نے سو بار بلکہ شاید سیکڑوں بار اب تک پڑھا ہے، لیکن آپ کے اسٹیج ڈراما سے حضرت ایوب کے واقعے کا صحیح ادراک مجھے ہوا، اس مدت میں قرآن پڑھنے سے وہ ادراک مجھے نہیں ہوا تھا۔ یہ کوئی معمولی بات ہے؟
کیریکیچر اور کارٹون، کیریکیچر بھی بڑا موثر فن ہے۔ طنز نگاری، نوجوانوں نے بحمد اللہ طنز نگاری کے میدان میں بڑی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ یہ سب بڑے اچھے کام ہیں۔ طلبا کے سرگرمیاں انجام دینے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی بیانیہ جاری کرکے موقف کا اظہار کر دیا جائے۔ یہ تو ایک طرح سے یکسانیت والا کام بن چکا ہے، ممکن ہے اس میں کوئی کشش بھی نہ ہو۔ یا مثال کے طور پر کوئی کتاب ضبط تحریر میں لائیں، یا طلبا کا کوئی جلسہ کریں۔ صرف یہی ایک طریقہ نہیں ہے۔ بیشک یہ چیزیں بھی اچھی ہیں، مگر کچھ نئے کام بھی انجام دئے جا سکتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ کوئی ترانہ ہو، کوئی آڈیو ایلبم ہو، ترانے سے متعلق بحث، شعر پر بحث، کوئی آرٹ، ان چیزوں پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ ایسے مسائل ہیں کہ شعر کی مدد سے، شعری پیرائے میں بیان کرکے تاثیر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ان روشوں کو استعمال کیا جائے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر میں جدت عملی کا ذکر کروں تو یہی سات آٹھ چیزیں بیان کر سکوں گا، مگر آپ نوجوان ہیں، آپ بیٹھئے، غور کیجئے، ممکن ہے آپ کو بیس چیزیں نظر آئیں۔ ممکن ہے آپ کے ذہن میں بیس تیس طرح کی جدت عملی کا خیال پیدا ہو۔ آپ ان روشوں کو استعمال کیجئے تاکہ ان کی کشش بڑھے۔
طلبا تنظیموں کو موثر اور دلچسپ بنانے کا ایک طریقہ فکری آسودگی فراہم کرنا ہے۔ مخاطب افراد کو آپ فکری اعتبار سے مطمئن اور آسودہ بنائیں۔ اس کا لازمہ یہ ہے کہ آپ خود اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دیجئے۔ جب ایک حقیقت آپ کی فکر اور آپ کے ذہن سے جڑ جاتی ہے تو پھر آپ دوسروں کو اس کے بارے میں مطمئن کر سکتے ہیں، اپنے مخاطب افراد کو مطمئن کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ڈانٹ پھٹکار کے، دھمکی دیکر اور ڈرا کر کسی کے ذہن پر کوئی چیز مسلط کرنا چاہتے ہیں تو ممکن کہ وہ انسان شور شرابے کی وجہ سے وقتی طور پر آپ کی بات تسلیم کر لے مگر اس میں دوام نہیں رہے گا۔
کمیونسٹوں کا جو زمانہ تھا اس میں انھوں نے طاقت کا استعمال کرکے اپنا کام انجام دیا، مگر دنیا میں کمیونزم کا نظریہ شکست سے دوچار ہوا تو مارسی سوچ کی بھی شکست ہوئی اور یہ فطری بات بھی ہے۔ البتہ میں نے سنا ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں کچھ حلقے دوبارہ مارکسی فکر کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر یہ تو خاموش ہو چکے تنور میں پھونک مارنے جیسا عمل ہے، پانی پر نقش و نگار بنانے کی کوشش ہے۔ اب یہ حربہ بے اثر ہو چکا ہے۔ کس طمطراق سے دعوے کئے جاتے تھے، کیا شور و ہیجان ہوا کرتا تھا، اس سلسلے میں کتنی جانیں چلی گئیں۔ دنیا کے کمیونسٹ نظام ساٹھ سال بعد، ستر سال بعد فضیحت کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں دے سکے۔ یعنی ان کے نعروں کی قلعی کھل گئی، ان کا ناقص اور ناکارآمد ہونا ثابت ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان کا اعادہ نہیں کیا جاتا۔ مگر ہم نے سنا ہے کہ کچھ لوگ پھر اس کوشش میں لگ گئے ہیں۔ اگر رپورٹیں صحیح ہیں تو ہماری یونیورسٹیوں میں مارکسی تحریک ایک بار پھر متحرک ہو رہی ہے۔ یقینا اس کے پیچھے امریکیوں کا پیسہ ہے۔ اس لئے کہ اس نظریئے میں اب فکری کشش باقی نہیں رہ گئی ہے تو پیسہ دیا جاتا ہے تاکہ طلبا کو گروہوں میں تقسیم کر دیا جائے، یہ تقسیم ان کے لئے بہت بڑی نعمت ہوگی۔ ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا ایک راستہ یہی ہے کہ مارکسسٹوں کو دوبارہ متحرک کر دیا جائے۔
وہی لوگ جو کبھی 'حزب تودہ' پارٹی کے رکن تھے اور بیس سال کی جیل بھی کاٹ چکے ہیں، ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ کے ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے، بغیر کسی دباؤ کے انھوں نے یہ جملہ لکھا کہ 'ہم سے بڑی حماقت اور غلطی ہوئی' اور اس تحریر کو ٹی وی پر پڑھا۔ یہ بات شاید آپ لوگوں کو یاد نہ ہو۔ یہ 1980 کے ابتدائی برسوں کی بات ہے۔ 'حزب تودہ' پارٹی کے دس بارہ عناصر اسلامی جمہوریہ ایران کے ٹی وی پر آئے، اس وقت میں صدر تھا، مجھے تعجب ہوا۔ ملک کے صف اول کے حکام اور کارکنان کو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ افراد کیسے تیار ہو گئے۔ ان میں بعض کو ہم قریب سے جانتے تھے۔ بعض وہ تھے جو جیل میں ہمارے ساتھ تھے۔ بعض دیگر کو ہم نے جیل سے رہا ہونے کے بعد دیکھا تھا اور انھیں پہچانتے تھے۔ ان کے دعوے تو بام ثریا کی بلندی رکھتے تھے، یہی لوگ صف لگائے ہوئے آئے، کرسی پر بیٹھے، ان کے اپنے افراد میں سے ایک شخص نے میزبان کی حیثیت سے سوالات کا سلسلہ شروع کیا، ایسی چیزوں کے بارے میں سوال جو وطن عزیز سے 'حزب تودہ' کی خیانت کو ثابت کرتی تھیں۔ جب ان میں سے کوئی رہنما کسی بات سے کتراتا تھا اور کسی خاص چیز کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرتا تھا تو اینکر جو کہ خود بھی انھیں میں سے تھا، فورا بول پڑتا تھا کہ جناب فلاں وقت آپ نے فلاں کام کیا تھا، فلاں بات کہی تھی، اسے مجبورا اعتراف کرنا پڑتا تھا۔ یعنی ہم ان سے اقبالیہ بیان نہیں لے رہے تھے، وہ خود اعتراف کر رہے تھے۔ یہ قومی نشریاتی ادارے (آئي آر آئی بی) کے انتہائی اہم دستاویزات میں سے ایک ہے۔ اسے ہرگز ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ یہ بڑی قیمتی چیزیں ہیں۔ یہ سب کہہ چکنے کے بعد آج یہی لوگ مارکسزم کے دفاع میں کتاب لکھتے ہیں، کتابچہ شائع کرتے ہیں، یہ تو مسخرہ پن ہے۔
جن جگہوں پر مارکسسٹوں کے انقلابات کامیاب ہوئے اور انھیں حکومت ملی وہاں انھوں نے زد و کوب کرکے اپنا مشن آگے بڑھایا۔ حتی طلبا کے ساتھ بھی (یہی روش اختیار کی)۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے اسی ہمسایہ ملک افغانستان میں ظاہر شاہ کے بعد اور پھر داؤود کے بعد ایک مارکسی حکومت اقتدار میں آئی۔ اس کا آغاز ہمارے اسلامی انقلاب کی فتح سے پہلے ہوا تھا، پھر اسلامی انقلاب کے دوران اور انقلاب کامیاب ہونے کے بعد کے برسوں میں یہ حکومت جاری رہی۔ جس وقت کمیونسٹ حکومت کا اعلان کیا گیا، میں ایرانشہر میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا۔ وہاں میں نے سنا کہ افغانستان میں کمیونسٹ حکومت بن گئی ہے۔ مجھے تمام معاملات کا علم نہیں تھا۔ اب رفتہ رفتہ خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ کابل یونیورسٹی کے اندر ایسے گروہ جن کا تعلق کودتا کرکے اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے والی 'حزب خلق' جماعت سے تھا، طلبہ کے کمروں میں داخل ہوتے تھے اور مخالف فکر رکھنے والے طلبہ کو گھسیٹ کر باہر نکالتے تھے اور انھیں اس قدر زدوکوب کرتے تھے کہ ان کی موت واقع ہو جاتی تھی یا مردہ سمجھ کر چھوڑتے تھے۔ یہی گروہ طلبہ کو پکڑ کر لے جاتے تھے اور سیکورٹی فورسز کے حوالے کر دیتے تھے کہ انھیں جیلوں میں محبوس کر دیا جائے۔ یعنی انھوں نے یونیورسٹی کی فضا میں بھی اس قدر تشدد اور سختی کا بازار گرم رکھا تھا۔ ہمارے درمیان اس طرح کی چیز نہیں تھی۔ یہی تہران یونیورسٹی زور آزمائی کی جگہ بن گئی مگر مارکسی گروہوں کی طرف سے، منافقین کی جانب سے، مجاہدین خلق (دہشت گرد تنظیم) کی جانب سے، انھوں نے یونیورسٹی کو اسلحہ ڈپو میں تبدیل کر دیا تھا، مسلم مجاہدین نے نہیں۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے شروعاتی مہینوں میں، میں ہر ہفتہ تہران یونیورسٹی کی مسجد میں جاتا تھا، طلبہ کے درمیان تقریر بھی کرتا تھا، ان کے سوالات کے جواب دیتا تھا، ہر ہفتے۔ یہ طلبہ، انقلابی و مومن بچے آتے تھے اور آرام سے بیٹھ جاتے تھے، تقریر سنتے تھے اور چلے جاتے تھے۔ تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ نہ کہیں کوئی تصادم تھا، نہ بندوقیں تھیں، نہ ناشائستہ نعرے تھے۔ اوائل انقلاب کا دور، طلبہ کا ماحول، تہران جیسا شہر، مجھ جیسا شخص جو اس وقت صدر بھی نہیں تھا، انقلابی کونسل کا رکن تھا۔ یعنی ایک انقلابی ہونے کے تمام اوصاف مجتمع تھے۔ اس کے باوجود میں یونیورسٹی میں جاتا تھا۔ طلبہ کے درمیان تقریر کرتا تھا۔ بڑا پرسکون ماحول ہوتا تھا، ایک معقول فضا ہوتی تھی۔ شاید اس زمانے میں جو طلبہ و طالبات تھے آج بھی آپ کے درمیان موجود ہوں اور انھیں وہ دور یاد ہو۔ جب کمیونسٹ گروہوں نے یونیورسٹی کو قرق کر دیا تھا اور نابودی کا خطرہ مڈلانے لگا تھا۔ ٹھیک سے یاد نہیں ہے کہ اتوار کا دن تھا یا پیر کا دن تھا، بہرحال ایسا دن تھا جس دن میں تہران یونیورسٹی جاتا تھا۔ میں حسب معمول پہنچ گیا۔ کچھ محافظ میرے ساتھ تھے۔ کہنے لگے کہ جناب نہ جائیے! خطرہ ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ کیسا خطرہ؟ ہم تو جائیں گے۔ ہم مسجد کے اندر پہنچے تو دیکھا کہ کوئی نہیں ہے۔ ظاہر ہے پھر ہم لوٹ آئے۔ جو گروہ یونیورسٹی کی فضا میں بدامنی پھیلا رہے تھے، آشوب برپا کر رہے تھے، طاقت کا استعمال کرکے اور کبھی کبھی فائرنگ کرکے اپنی فکر اور سوچ دوسروں پر مسلط کرنے کی کوششیں کرتے تھے وہ اسلامی گروہ نہیں تھے۔ بلکہ وہ یا تو مارکسی تنظیمیں تھیں یا 'مجاہدین خلق' تنظیم کے عناصر تھے جو مارکسی تنظیموں کی ہی ایک متبادل جماعت تھی۔ ان کا نام اسلامی تھا لیکن ان کا باطن، ان کی فکر، ان کی آئيڈیالوجی، سب کچھ خالص مارکسی نہج پر تھا۔ اسلام میں ان چیزوں کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام میں لوگوں کو قائل اور مطمئن کرنے کی بات کی گئی ہے۔ «لآ اِکراهَ فِی الدّین» (15) جو قرآن میں آیا ہے، اس کا مفہوم یہی ہے۔ یعنی دینی افکار کو دوسروں تک منتقل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انھیں فکری طور پر مطمئن کیا جائے۔ اگر آپ دوسروں کو مطمئن کر لے گئے تو آپ کی بات میں کشش پیدا ہوگی۔ کشش کا ایک اہم عنصر یہی ہے۔
ایک اور اہم چیز اقدار کی پاسداری کرنے والے اساتذہ کی موجودگی ہے۔ آپ ان اساتذہ سے استفادہ کیجئے۔ اس دن یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے اجتماع میں جو یہیں منعقد ہوا تھا میں نے یہ بات کہی (16)۔ اوائل انقلاب میں ایک دن ایسا بھی تھا جب ملک بھر میں یونیورسٹیوں کے اکیڈمک بورڈز کے رکن اساتذہ کی کل تعداد تقریبا چار پانچ ہزار بتائی جاتی تھی، خوش قسمتی سے آج اکیڈمک بورڈ کے رکن اساتذہ کی تعداد تقریبا اسی ہزار یا اس سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ان اسی ہزار میں اکثریت اچھے، انقلابی اور دیندار اساتذہ کی ہے۔ البتہ بعض لا ابالی مزاج کےافراد بھی ہیں۔ ہماری اپنی یونیورسٹیوں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں۔ ہمیں اس کی اطلاع ہے۔ ایسے افراد بھی تھے، کہ خدا کرے اب نہ ہوں، جو با صلاحیت طلبا کو اپنے جال میں پھنساتے تھے، ان سے ملتے تھے اور بیرون ملک ہجرت کی ترغیب دلاتے تھے۔ کہتے تھے؛ تم یہاں کیوں پڑے ہو؟ کیا فائدہ ہے؟ تم چلے جاؤ۔ یعنی خود استاد اپنے طالب علم کو ملک میں موجود رہنے کی ترغیب دلانے کے بجائے ملک سے باہر ہجرت کے لئے ورغلاتے تھے۔ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں۔ لیکن بہرحال ان کی تعداد بہت کم ہے۔ بیشتر اساتذہ اقدار کا پاس و لحاظ کرنے والے اور مومن و دیندار ہیں۔ وزارت علوم میں بھی یہی صورت حال ہے اور میڈیکل تعلیم کے شعبے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ بڑے اچھے افراد ہیں۔ آپ اپنی تنظیموں کے لئے ان کی خدمات حاصل کیجئے۔ ان سے درخواست کیجئے کہ کچھ وقت دیں۔ چاہے یونیورسٹی کے باہر ہی بلائیں۔ ہمارے ایک برادر عزیز کا نام یہاں لیا گيا، جو نماز جمعہ کے خطبے میں بڑی اہم باتیں بیان کرتے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے، ان سے اور ان جیسے دیگر افراد سے استفادہ کیجئے۔ اپنی یونینوں کے پروگراموں میں انھیں بلائیے!
البتہ یہ قضیئے کا اثباتی پہلو ہے۔ اس کا سلبی پہلو یہ ہے کہ جو افراد یہ ظاہر اور ثابت کر دیں کہ وہ قابل اطمینان نہیں ہیں، ان کی خدمات بالکل نہ لیجئے۔ ان سے بالکل استفادہ نہ کیجئے۔ کچھ لوگ ہیں جنھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ قابل اطمینان افراد نہیں ہیں۔ کس کے لئے قابل اطمینان نہیں ہیں؟ اس حقیر کے لئے؟ نہیں، میں تو گوناگوں افراد اور ہر مزاج کے آدمی کا سامنا کر لیتا ہوں۔ میرے اندر رابطہ عامہ کی بڑی اچھی صلاحیت موجود ہے۔ مجھ سے ہر کسی کے اچھے روابط ہو سکتے ہیں، ہاں اگر عقیدے اور نظریات کا مسئلہ ہو تو پھر الگ بات ہوگی۔ کچھ لوگوں نے اسلامی نظام کے سلسلے میں، ملک کے سلسلے میں اپنی بے اعتمادی کا ثبوت پیش کر دیا۔ اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں اپنے عدم یقین کا ثبوت پیش کیا، اس کی اسلامی ماہیت کے سلسلے میں بھی اور جمہوری پہلو کے سلسلے میں بھی۔ یہی افراد جنہوں نے سنہ 2009 میں (صدارتی انتخابات کے بعد) ایک ڈراما شروع کر دیا تھا۔ ان لوگوں نے اسلامی جمہوری نظام کی جمہوری ماہیت کی مخالفت کی تھی۔ بغیر کسی منطقی دلیل کے، بغیر کسی قابل قبول توجیہ کے۔ یہ لوگ قابل اطمینان نہیں ہیں۔ میں ان کی مدد لئے جانے کی قطعی سفارش نہیں کروں گا۔ ہرگز مشورہ نہیں دوں گا۔ نہ آپ کو، نہ کسی اور طالب علم کو اور نہ ہی کسی یونیورسٹی کو۔ اچھے اساتذہ موجود ہیں، آپ ان کی خدمات حاصل کیجئے۔
طلبا یونینیوں کے لئے میرے خیال میں ایک اور چیز جو بہت ضروری ہے اور اچھی ہے، وہ ملک کی موجودہ صورت حال کا صحیح ادراک ہے۔ ملک کے موجودہ حالات سے مراد صرف داخلی صورت حال، در پیش مشکلات اور دیگر باتیں جو بیان کی گئیں، جن میں دیہی علاقوں سے متعلق مسائل بھی تھے، سماجی انصاف کا مسئلہ بھی تھا، مزاحمتی معیشت کا بھی موضوع شامل تھا، دوسری بھی جو مشکلات ہیں، مینیجمنٹ کی مشکلات، مجاہدانہ انتظامی اقدامات کا مسئلہ وغیرہ ہی نہیں ہے۔ بیشک یہ بھی زمینی حقائق کا جز ہیں۔ برادران و خواہران گرامی، اس کے علاوہ بھی بعض بڑے اہم حقائق ہیں، آپ ذرا توجہ سے سنئے!
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی رحلت کے بعد اس ملک میں ایک گروہ نے بڑی تندہی سے یہ کوشش کی کہ انقلاب کی امنگوں اور اہداف سے بالکل کنارہ کشی کر لی جائے۔ ان میں بعض سے غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے شروع ہی میں اپنی منشا ظاہر کر دی۔ اخبار میں مقالہ لکھا، تقریر کی۔ یہی ان سے بڑی اسٹریٹیجک غلطی ہوئی۔ انھوں نے اپنے پتے کھول دئے کہ اعلی اہداف اور امنگوں کو پوری طرح نظر انداز کر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ البتہ اب ان کے یہاں پختگی آ گئی ہے۔ اب وہ زبان سے کہتے نہیں ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو اعلی اہداف و مقاصد کو پس پشت ڈال دینے کے متمنی ہیں۔ لیکن صاف طور پر یہ بات کہتے نہیں۔ وہ کہنے کے بجائے عمل کرتے ہیں۔ اس زمانے میں جو نادان تھے (17)، انھوں نے عمل کرنے سے پہلے ہی کہنا شروع کر دیا تھا۔ نتیجتا انھوں نے ایسے افراد کو بھی بیدار کر دیا جو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس قسم کے عزائم بھی موجود ہیں۔ یہ سلسلہ اسی وقت شروع ہو گیا تھا اور لگاتار جاری ہے۔ انھوں نے صرف ملک کے اندر کام نہیں کیا ہے، ملک کے باہر بھی کام کیا ہے اور اندر بھی اقدامات انجام دئے ہیں۔ فکری عناصر سے بھی استفادہ کیا ہے، علمی عنصر کا بھی سہارا لیا ہے، فن و ہنر کی بھی مدد لی ہے، سیاسی توانائیاں بھی استعمال کی ہیں، مقصد یہ تھا کہ ملک میں ان اعلی اہداف و مقاصد کو ختم کر دیں۔ یعنی نئی نسل ان اعلی اہداف و مقاصد کو یکسر فراموش کر دے۔ لیکن آپ جائزہ لیجئے اور دیکھئے کہ اس سب کے باوجود ملک کے اندر اعلی اہداف کے تعلق سے جوش و جذبہ اور امید و نشاط کا کیا عالم ہے۔ مغرب سے پہلے اپنی گفتگو میں میں نے عرض کیا کہ ہماری بیشتر نمایاں علمی و سائنسی ترقی میں انقلابی اقدار کے پابند نوجوانوں کا محوری کردار رہا ہے۔ بیشتر دینی و روحانی نشستیں نوجوانوں کے دم سے تشکیل پاتی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ اور اسلامی انقلاب سے مربوط مظاہروں میں شرکا کی اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ ان نوجوانوں کی کہ جنھوں نے نہ تو آٹھ سالہ جنگ دیکھی ہے، نہ امام خمینی کو دیکھا ہے، نہ انقلابی تحریک کا زمانہ دیکھا ہے اور نہ ہی ان چیزوں کی کما حقہ ان کے سامنے تشریح کی گئی ہے۔ آپ عزیزوں میں سے بعض میرے بیٹوں کے سن کے ہیں اور بعض میرے پوتوں کے سن کے ہیں۔ آپ کو بہت سے واقعات کی خبر تک نہیں ہے، ان تمام تر باتوں کے باوجود جو بیان کی جاتی رہتی ہیں۔ یعنی اوائل انقلاب کے مسائل، انقلابی تحریک کے مسائل، انقلاب کی تفصیلات، مقدس دفاع کے زمانے کی تفصیلات کی کما حقہ تشریح بھی نہیں کی جا سکی ہے۔ بیشک کتاب بھی لکھی گئی ہے، لیکن دو ہزار نسخے، تین ہزار نسخے، پانچ ہزار نسخے، دس ہزار نسخے بس۔ میں مقدس دفاع سے متعلق مسائل کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں پر ایک نظر ڈالنے کی فرصت نکال ہی لیتا ہوں، انھیں پڑھتا ہوں۔ یہ ساری کتابیں حقائق کا بہت معمولی سا حصہ ہے۔ پورے حقائق سے آپ باخبر نہیں ہیں۔ مگر یہی نوجوان جو حد درجہ درخشاں، جاذب اور پرکشش حقائق سے پوری طرح آگاہ بھی نہیں ہے، اعلی اہداف و مقاصد سے اس طرح قلبی طور پر وابستہ ہو جاتا ہے! یعنی ان عناصر کی لاکھ کوشش کے باوجود جو چاہتے تھے کہ ملک میں اعلی اہداف و مقاصد کی بات ختم ہو جائے، امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی رحلت کے بعد ان اہداف کو بھی اہمیت دی جانے لگی ہے۔ یہ ملک کے اندر موجود زمینی سچائی ہے۔
ایک اور اہم حقیقت علاقے میں اسلامی جمہوریہ کا حیرت انگیز اثر و نفوذ ہے۔ یہ مادی و جسمانی موجودگی اور اثر نہیں ہے۔ یہ روحانی و معنوی اثر و نفوذ ہے۔ امریکی اپنے مذاکرات میں، اپنے پنہاں مذاکرات میں، پردے کے پیچھے انجام پانے والی گفتگو میں، اس علاقے کے حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ہونے والی اپنی ملاقاتوں میں، انھیں بعض رجعت پسند عربوں سے اپنی ملاقاتوں میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور در حقیقت درد دل بیان کرتے ہیں؛ (18)۔ یہ لوگ ایران کی شکایتیں کرتے ہیں اور امریکا سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ دباؤ ڈالے، امریکا جواب میں کہتا ہے کہ میں بھی کیا کر سکتا ہوں؟! میرے بس کے باہر ہے! (19)۔ یہ ہے ان کی گفتگو! سارے شکوے، گلے اور ملال کی وجہ یہ ہے کہ ایران کا اثر بہت وسیع پیمانے پر نظر آ رہا ہے۔ سو دن سے زیادہ ہو گئے ہیں کہ یمن پر سعودیوں کی بمباری جاری ہے۔ یمن کے فوجی مراکز پر نہیں کیونکہ وہاں تک ان کی کچھ زیادہ رسائی نہیں ہے، اسپتالوں پر، مساجد پر، مکانات پر، بازاروں پر، عوامی مقامات پر! عورتوں، مردوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کر رہے ہیں! سو دن سے، سو دن کوئی معمولی مدت نہیں ہے۔ لبنان کی تینتیس روزہ جنگ تینتیس دن میں ختم ہوئی۔ گزشتہ چند سال کے دوران صیہونی حکومت نےعلاقے میں جو سب سے طویل جنگ لڑی ہے وہ گزشتہ سال غزہ کی جنگ تھی جو پچاس دن سے کچھ زیادہ مدت تک چلی۔ سعودی حکومت سو دن سے بمباری کر رہی ہے۔ ضمنا یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ لبرل مغربی دنیا یعنی حریت پسند اور حریت کی حامی مغربی دنیا مہر بلب ہے! اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جو اقوام متحدہ کی انتہائی شرمناک قراردادوں میں سے ایک ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ بمباری کرنے والے کی مذمت کرنے کے بجائے، اس قوم کی مذمت کی گئی ہے جس پر بمباری ہو رہی ہے! حالانکہ یہ لوگ لبرل ہیں، لبرل ازم کا یہی مطلب ہے! ہمارے ملک کے اندر کچھ سادہ لوح افراد سینہ چاک کئے لیتے ہیں، مقالے پر مقالے لکھتے ہیں، اس طرز حکومت کی حمایت میں تصاویر چھاپتے ہیں، معاشرے کو چلانے کی ان کی روش کی حمایت کرتے ہیں جو جھوٹ، فریب، خیانت اور ظلم پر خاموشی بلکہ اس میں شرکت پر مبنی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ حقائق میں سے ایک، اسلامی جمہوریہ کا وسیع و گہرا اثر و رسوخ ہے۔ میں نے اپنے محترم صدور سے، موجودہ صدر محترم سے بھی اور ان سے پہلے کے محترم صدور سے بھی، جن کا میں احترام کرتا ہوں، ان سب کی مدد کرتا ہوں، ان سب کی، عوام کے ذریعے منتخب ہونے والے اور اقتدار میں آنے والے ہر صدر کی پشت پناہی کرتا ہوں، ہمیشہ کہا ہے، میں نے یہ کہا ہے کہ آپ آج کسی بھی اسلامی ملک میں جائیے، اگر اس ملک کے عوام کو آزادی ملے اور اجازت دی جائے اور آپ ان کے درمیان چلے جائیں تو عوام آپ کا ایسا استقبال کریں گے جیسا استقبال وہ خود اپنے ملک کے رہنماؤں کا بھی نہیں کرتے۔ یہ ہے اثر و رسوخ، اسی کو کہتے ہیں نفوذ۔
اسی اثر و رسوخ پر اپنی تلملاہٹ میں وہ سو دن سے یمن کو مسمار کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ یمن میں آپ کا اثر و رسوخ ہے۔ بتائیے کہ ہم نے یمن میں کیا کیا؟ ہم نے اسلحہ یمن بھیجا ہے؟ یمن پر لشکر کشی کی ہے؟ یہ لوگ دوسرے ملکوں سے کرائے کے افراد لیکر آتے ہیں، انھیں ؛پیٹرو ڈالر' دیتے ہیں، سعودی فوج کی وردی پہناتے ہیں اور انصار اللہ کے طمانچے کھانے کے لئے انھیں پیش کر دیتے ہیں (20)۔ مداخلت تو وہ لوگ کر رہے ہیں۔ ہم یمن میں کون سی مداخلت کر رہے ہیں؟!
ہمارا اثر و رسوخ خداداد اثر و رسوخ ہے۔ کیا اس کا بھی کوئی کچھ بگاڑ سکتا ہے؟ مثال کے طور پر فرض کیجئے کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ یہاں بیٹھ کر بیان دیتے ہیں اور ان کا بیان سینہ بہ سینہ افریقا کے دور دراز کے علاقوں تک اور ایشیا کے دور دراز کے علاقوں تک پہنچ جاتا ہے اور اس کا اتنا گہرا اثر ہوتا ہے کہ بہت دور واقع افریقی یا ایشیائی ملک کا رہنے والا شخص اپنے بچے کا نام 'روح اللہ' رکھ دیتا ہے، تو اسے کہتے ہیں حقیقی اثر و رسوخ۔ اس کے لئے ایک صفحہ بھی لکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ جب بیان میں اثر پیدا ہو جائے، جب بات بالکل صائب اور حق ہو، جب بات دل سے نکلے اور دل میں اتر جائے، تو اس کا کوئی سد باب کیونکر کر سکتا ہے؟! قُل موتوا بِغَیظِکُم (21) جب تم کچھ نہیں کر پا رہے ہو، تو شہید بہشتی مرحوم کے بقول جن کے حوالے سے یہ جملہ نقل کیا گیا ہے کہ اسی برہمی میں مر جاؤ! ہم کیا کر سکتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ سے وابستہ ایک زمینی حقیقت ہے۔ ان چیزوں پر آپ توجہ رکھئے۔ یعنی ہر چیز کو منفی نقطہ نگاہ سے نہ دیکھئے۔
بیشک ہم سے توقعات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ مجھے اپنے آپ سے بھی اور دوسروں سے کافی توقعات ہیںا۔ ہمیں زیادہ کام کرنا چاہئے۔ ہمیں زیادہ پیشرفت حاصل کرنا چاہئے۔ 'مساوات و پیشرفت کے عشرے' کو ہمیں حقیقت میں پیشرفت اور مساوات کے ساتھ مکمل کرنا چاہئے۔ یہ بات میں بھی مانتا ہوں۔ مگر قضیئے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ پیشرفت اور کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں طلبا یونینیں کام کر سکتی ہیں، بیٹھئے اور اسلامی جمہوریہ کے بین الاقوامی امور پر کام کیجئے، یمن کے مسئلے پر، عراق کے مسئلے پر، شام کے امور پر، اچھا تجزیہ کیجئے، مستقبل کا جائزہ لیجئے! اگر آپ چاہتے ہیں کہ طلبا کے ماحول کا اثر پورے ملک پر اس انداز سے مرتب ہو جس کا میں نے ذکر کیا تو اس کا راستہ یہی ہے۔ آپ طلبا کے ماحول کو متاثر کیجئے، طلبا کے ماحول کا اثر پورے ملک پر پڑے گا۔
البتہ کچھ طلبا تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو ڈسپوزیبل برتن کی طرح صرف الیکشن کے وقت تشکیل دی جاتی ہیں۔ ان کا استعمال صرف انتخاباتی اہداف کے لئے ہوتا ہے۔ کچھ تنظیمیں ایسی بھی ہوتی ہیں۔ اس طرح کی تنظیمیں بناتے ہیں اور انھیں شرم بھی نہیں آتی، (22)۔ کہتے بھی ہیں کہ ہم نے یہ تنظیم اس لئے بنائی ہے کہ الیکشن میں فلاں جگہ پر ہمارے کام آئے۔ یہ تو طالب علم کی توہین ہے! طالب علم کو ایک حربے کے طور پر دیکھنا وہ بھی ممتاز طلبا کو جو کسی تنظیم میں شامل ہو رہے ہیں، یہ طلبا کی توہین ہے۔ انتخابات کی آخر کیا قیمت ہے کہ اس کے لئے طالب علم کی تحقیر کی جائے، وہ بھی 'نخبہ' (الیٹ) طالب علم کی۔ میں اس طرح کی تنظیموں کی تشکیل کا مشورہ نہیں دوں گا۔ ہاں جو واقعی اسلامی تنظیمیں ہیں، انقلاب، اسلام اور ملک کے مستقبل سے لگاؤ رکھتی ہیں، خدمت کرنا چاہتی ہیں، وہ بیشک بہت مفید واقع ہو سکتی ہیں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل 9 طلبہ نے اپنی تقاریر میں متعدد نکات پیش کئے۔
۲) نشست میں وزیر علوم، تحقیقات و ٹیکنالوجی ڈاکٹر محمد فرہادی، وزیر صحت اور میڈیکل ایجوکیشن ڈاکٹر سید حسن قاضی زادہ ہاشمی بھی موجود تھے۔
۳) حاضرین کی ہنسی
۴) سوره‌ نور، آیت نمبر ۳۲ کا ایک ٹکڑا؛ « اگر وہ تنگ دستی میں ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انھیں مستغنی بنا دے گا۔»
۵) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۶۴ کا ایک ٹکڑا؛ «سوائے ان لوگوں کے جو توفیق خداوندی سے اس کی اطاعت کریں۔»
۶) نماز مغربین با جماعت ادا کی گئ اور روزہ افطار کیا گيا اور اس کے بعد نشست آگے بڑھی۔
۷) سوره‌ سجده، آیت نمبر ۱۸؛ «کیا مومن اور کافر یکساں ہو سکتے ہیں۔»
8) نهج ‌البلاغه، خطبه‌ نمبر ۲۷
9) سوره‌ ممتحنه، آیت نمبر ۸ کا ایک جز
10) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۱۳ کا ایک جز
11) حاضرین کی ہنسی
12) حاضرین کی ہنسی
13) حاضرین کی ہنسی
14) فسانه گشت و کهن شد حدیث اسکندر /سخن نو آر که نو را حلاوتیست دگر (فرخی سیستانی، شاعر کہتا ہے؛ سکندر اعظم کے قصے پرانے ہو چکے اور افسانہ بن چکے ہیں، کوئی نئی بات کرو کہ نئی بات میں ایک الگ حلاوت ہوتی ہے۔)
15) سورہ بقره، آیت نمبر ۲۵۶ کا ایک ٹکڑا؛ « دین میں کوئی بھی چیز جبرا نہیں منوائی جاتی...»
16) ۱۳۹۴/۴/۱۳ ہجری شمسی مطابق 4 جولائی 2015
17) حاضرین کی ہنسی
18) حاضرین کی ہنسی
19) حاضرین کی ہنسی
20) حاضرین کی ہنسی
21) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۱۹ کا ایک جز « کہہ دیجئے کہ اپنے اسی غصے میں مر جاؤ»
22) حاضرین کی ہنسی