15 مہر 1394 ہجری شمسی مطابق 7 اکتوبر 2015 کو سپاہ پاسداران انقلاب کی بحریہ کے کمانڈروں، اہلکاروں، ان کے اہل خانہ اسی طرح اس فورس کے شہدا کے اہل خانہ سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے بحری علاقوں کی حفاظت اور دشمن پر اپنا رعب بٹھانے میں سپاہ پاسداران انقلاب کی بحریہ سے وابستہ انقلابی جوانوں اور جنوبی خطے کے شجاع افراد کے کردار کی تعریف کی۔ اپنے خطاب میں بحری علاقوں کی سیکورٹی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ تیاری ہمیشہ ایسی رہنی چاہئے کہ قرآن کے فرمان کے مطابق دشمن کے اندر رعب و وحشت ایجاد کرے اور اس سے جارحیت کی جرئت سلب کر لے کیونکہ اگر محاذوں میں دراندازی کی گنجائش ہوئی تو دشمن فورا دراندازی کرے گا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں علاقے کے لئے استکباری طاقتوں کی خطرناک سازش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ طاقتیں بے گناہ انسانوں کے قتل عام کے لئے انتہائی خطرناک اور غیر انسانی طریقے استعمال کرنے میں بھی کوئی تامل نہیں کرتیں اور انسانی حقوق اور شہری حقوق کے ان کے دعوے حقیقت کے خلاف، بالکل بے بنیاد اور کھوکھلے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے اندر اور علاقے کی سطح پر دشمن کی ناکامیوں کو انقلابی نوجوانوں کے عزم و ارادے، آمادگی و ہوشیاری اور اسلامی جمہوریہ کی قوت و استحکام کی برکت قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ یہی وجہ ہے کہ استکباری طاقتوں کی سب سے زیادہ کوششیں اور منصوبے ایران کے اسلامی نظام سے عناد پر مبنی ہیں اور ایران سے مذاکرات کا امریکا کا دعوی بھی دراندازی کرنے کی اس کی کوشش ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛ 
بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین.

پیارے بھائیو اور بہنو! آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ کے یہ پرعزم چہرے جو ارادہ و ایمان کے جذبے کا آئینہ ہیں، یہ عظیم قومی سرمایہ ہے۔ دولت ایمان سے مالامال یہ افراد بھی اور ان کے جذبات و احساسات بھی۔ کسی بھی ملک میں کارآمد اور لیاقت مند افرادی قوت سے بڑا کوئی سرمایہ قابل تصور نہیں ہے۔ یہ ایام بھی بڑے اہم ہیں۔ مباہلہ کے حیرت انگیز واقعے کی سالگرہ بھی ہے، 'سورہ ھل اتی' کے نزول کی سالگرہ بھی ہے، ایام محرم بھی قریب ہیں۔ اسی طرح علاقے کے جو حالات ہیں اور رونما ہو رہے حساس واقعات و تغیرات، ان کی وجہ سے یہ وقت بڑی اہمیت کا حامل بن گیا ہے۔
سپاہ پاسداران انقلاب کی بحریہ کے تعلق سے جو چیز بڑی اہم ہے وہ بحری علاقوں میں فرزندان انقلاب اور انقلابی فورسز کی موجودگی ہے۔ یہ بڑا اساسی اور اہم نکتہ ہے۔ امن و سلامتی کسی بھی قوم کی پیشرفت و ترقی کا بنیادی ڈھانچہ شمار ہوتی ہے۔ اگر امن و سلامتی نہ ہو تو نہ معیشت رہے گی، نہ ثقافت بچے گی، نہ شخصی خوشحالی ہوگی اور نہ معاشرہ آسودگی و کامیابی حاصل کر پائے گا۔ جن ملکوں میں سمندری ساحل ہے ان کے لئے سیکورٹی کا مسئلہ اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ سمندر ایک بین الاقوامی رابطے کا عمومی ذریعہ ہے۔ سمندری علاقوں میں قوموں کی سرگرمیاں کوئی حیرت انگیز اور نادر چیز نہیں ہے، یہ ایک رائج اور معمول کی چیز ہے۔ اگر کسی ملک میں سمندری ساحل ہے مگر وہ اپنی سرحدوں کے قریب بحری علاقوں کو پرامن اور محفوظ نہ رکھ پائے تو اس نے در حقیقت داخلی سیکورٹی کے ستونوں کی گویا تعمیر نہیں کی ہے۔ اس لئے بحری حدود کی سیکورٹی بہت اہم ہے۔ اس بنا پر بحری حدود کی سیکورٹی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب میں ہمارے نوجوانوں نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے، بڑے نمایاں اور قابل قدر کام انجام پائے ہیں۔ انقلاب کے بعد کی حساس تاریخ میں اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔
اس وقت جنوبی علاقے میں اہلکاروں کے اہل خانہ کا قیام پذیر ہونا بھی بہت عظیم کام اور جہاد ہے۔ میں محترم اہل خانہ کی موجودگی میں یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ چیز بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب کی بحریہ بندر عباس میں، ساحلی علاقوں میں اور دشوار گزار وادیوں میں تعینات ہوتی ہے اور اہلکاروں کے اہل خانہ بھی وہاں جائیں اور سختیاں تحمل کریں۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے انسان آسانی سے نظر انداز کر دے۔
خود جنوبی علاقہ، صوبہ بوشہر، بندر عباس، یہ علاقے جو بحری حوادث کی زد پر رہتے ہیں، انھوں نے انقلاب کی تحریک کے دوران بھی بڑی کامیابی سے اپنا امتحان دیا ہے۔ شروع میں تو بحری خطوں میں انقلاب کے آثار کچھ زیادہ نمایاں نہیں تھے، لیکن رفتہ رفتہ انقلاب کے گہوارے میں پرورش پانے والے اور انقلاب کے گرویدہ نوجوانوں کے قدم ان علاقوں میں پہنچے اور حالات بالکل تبدیل ہو گئے۔ جب حالات سازگار ہو گئے تو علاقے کے عوام اور نوجوان اور اس علاقے میں پہلے سے موجود جوش و جذبہ سب کچھ صحیح سمت و جہت کی طرف مڑ گيا۔ نتیجتا آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ بوشہر کے علاقے میں مثال کے طور پر شہید نادر مہدوی جیسے نمایاں انسان نکلے جو شہادت و جہاد جیسے امور سے قلبی وابستگی رکھتے ہیں۔ اس طرح کے چہرے، نادر مہدوی اور ان کے رفقائے کار جنہوں نے عظیم کارنامہ انجام دیا، دشمن کو سبق سکھایا، ملت ایران کے وقار میں اضافہ کیا، اسلامی نظام کی طاقت اور اسلامی جمہوریہ کی توانائیوں کا لوہا منوایا۔ ان کی یادیں ہمیشہ زندہ رہنی چاہئیں۔ مکتوب تاریخ میں اور لوگوں کی زبانوں پر ان کے نام اور ان کی یادیں نمایاں رہنی چاہئیں۔ اسی طرح دشمنوں کی دشمنیاں اور عناد بھی پیش نظر رہنا چاہئے۔
خلیج فارس کے علاقے میں جو لوگ اس منحوس اور بدبخت شخص یعنی صدام کی حمایت کرتے تھے، اس کا دفاع کرتے تھے، یہی لوگ جو انسانی حقوق کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور جو بعد میں صدام کے خلاف صف آرائی کرتے دکھائی دئے، انھوں نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف برسوں اس کی پشت پناہی کی، ان سب کی یہ کوشش تھی کہ خلیج فارس کا علاقہ اسلامی جمہوریہ کے لئے غیر محفوظ ہو جائے۔ اس سے خلیج فارس کے علاقے میں امن و سلامتی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے کی سیکورٹی کتنی اہم ہے کہ دشمن نے اس کو نشانہ بنایا تھا اور کوشش کی تھی کہ اس علاقے کو ایران کے لئے غیر محفوظ بنا دے، جس کا اس علاقے میں سب سے زیادہ طویل ساحل ہے۔ وہ خلیج فارس اور بحیرہ عمان کو بدامنی سے دوچار کر دینا چاہتے تھے۔
انقلابی نوجوانوں، سپاہ پاسداران انقلاب اور بحریہ کے اہلکاروں کی اس علاقے میں موجودگی، سپاہ پاسداران انقلاب کی بحریہ کی تشکیل اور اس علاقے میں اس کی تعیناتی اس بات کا باعث بنی کہ یہ علاقہ خود ان لوگوں کے لئے غیر محفوظ ہو جائے۔ ان کی کشتیوں کو نقصان پہنچا، ان کے ہیلی کاپٹر کو نقصان پہنجا، ان کے بحری تیل ٹینکر کو نقصان پہنچا۔ ان کی سمجھ میں بھی آ گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایسا ملک نہیں ہے کہ جس کے مستقبل کے ساتھ جیسا چاہیں کھلواڑ کر سکتے ہیں۔ یہ اسلامی نظام کی روحانی و معنوی قوت ہے۔ قرآن نے ہمیں جو یہ حکم دیا ہے کہ ؛ وَ اَعِدّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعتُم مِّن قُوَّةٍ وَ مِن رِّباطِ الخَیلِ تُرهِبونَ بِه‌ عَدُوَّ اللهِ وَ عَدُوَّکُم (۱)، اس کی بنیاد پر آپ کی موجودگی، آپ کی پوزیشن، آپ کی سرگرمیاں ایسی ہونی چاہئے کہ دشمن پر رعب طاری رہے۔ جارحیت دشمن کی سرشت کا حصہ ہے۔ 'جہاں خوروں' کی فطرت میں جارحیت، تجاوز اور پنجہ مارنا ہے۔ اگر آپ کے مورچے اور بنکر کمزور ہیں تو وہ اندر گھس آئیں گے۔ لہذا آپ کی نقل و حرکت ایسی ہونی چاہئے کہ دشمن کو یقین ہو جائے کہ دراندازی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جنوبی علاقوں میں انقلابی محاذوں کی تشکیل، سپاہ پاسداران انقلاب کی بحریہ کی شکل میں انقلابی نوجوانوں کا وہاں تعینات ہونا، ساحلی صوبوں کے فرزندوں کی موجودگی، ان شجاع نوجوانوں اور حب دنیا سے پاک دل رکھنے والے جوانوں کا وارد ہونا اس قرآنی ہدف کے حصول کا باعث بنا؛ تُرهِبونَ بِه‌ عَدُوَّ اللهِ وَ عَدُوَّکُم۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہئے۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہم کبھی جنگ کا آغاز نہیں کریں گے۔ ہمارے پاس اس کی خاص وجوہات ہیں۔ ہم کوئی جنگ شروع نہیں کریں گے۔ لیکن دشمن سے بھی جنگ شروع کرنے کی جرئت سلب کر لینا ضروری ہے۔ دشمن کی شناخت ہونی چاہئے، اس کی فطرت سے آگاہ ہونا چاہئے۔
آج اس علاقے میں استکباری طاقتوں نے بڑے خطرناک اہداف معین کئے ہیں۔ یہ ایسے اہداف ہیں جن کا براہ راست تعلق قوموں کے مستقبل سے ہے۔ ان اہداف کے لئے وہ جن حربوں کا استعمال کر رہی ہیں وہ بھی بے حد خطرناک، غیر انسانی اور وحشیانہ ہیں۔ یعنی انھیں ایسے حربوں کے استعمال کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں جن سے بے گناہ انسانوں کی جانیں تلف ہوتی ہیں۔ آپ ہمارے مغرب میں واقع ملکوں میں دیکھئے! عراق میں، شام میں یا ہمارے مشرق میں واقع ممالک افغانستان میں اور پاکستان میں وہ کیا کر رہے ہیں؟ انھیں ذرہ برابر ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔ یعنی ان کی نظر میں انسانی جان کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔ یہ جو انسانی حقوق، شہری حقوق وغیرہ کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں وہ سب محض زبانی جمع خرچ ہے۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی مثال یہی واقعات ہیں جو آپ کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔ اسپتال پر حملہ کرتے ہیں، بمباری کرکے درجنوں بیماروں کا قتل عام کر دیتے ہیں، اس کے بعد بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ معاف کیجئے غلطی ہو گئی! کبھی کبھی تو 'معاف کیجئے' بھی کہنا گوارا نہیں کرتے۔ غزہ میں، یمن میں، بحرین میں، شام میں، عراق میں اور دیگر ملکوں میں ایسے وحشتناک واقعات ہو رہے ہیں کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے اس طرح کے جرائم انجام دینے والوں کی بے رحمی اور سنگدلی کو دیکھ کر۔ آخر ان کا ضمیر کیسے گوارا کرتا ہے؟ ایک آدمی کو پنجرے میں بند کرتے ہیں اور پھر اسے زندہ جلا دیتے ہیں، آگ لگا دیتے ہیں!! انسانی حقوق کی تنظیمیں بیٹھ کر بس تماشا دیکھ رہی ہیں۔ دوسری طرف اگر کہیں کوئی کتا یا بلی کسی کنویں میں گر جائے تو تمام وسائل و امکانات کو استعمال کرکے اسے کنویں سے باہر نکالا جاتا ہے۔ یہ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے کہ ہم جانداروں کے بڑے طرفدار ہیں۔ دنیا کو سب سے زیادہ خطرہ اسی ریاکاری سے ہے، اسی دروغگوئی اور منافقت سے ہے۔ یہ ہے دشمن کا اصلی چہرہ۔ وہ اس خطے میں اپنے خاص اہداف کی تکمیل کے لئے کوشاں ہیں۔ البتہ اسلامی جمہوریہ کافی حد تک توفیق خداوندی سے دشمن کی دراندازی کو روکنے میں بھی کامیاب ہوئی ہے اور علاقے میں بھی دشمن کی سازشوں کو بار بار ناکام بنا رہی ہے۔ یہ توفیق پروردگار ہے، یہ قدرت الہیہ ہے، یہ آپ جوانوں کے اندر موجزن عزم و ارادے کی قوت کی برکت ہے۔ ان میں بہت سی سازشیں اس لئے ناکام ہو گئيں کہ اسلامی جمہوریہ وہاں موجود تھی اور سرگرم عمل تھی جہاں اسے موجود اور مصروف کار ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوری نظام کی دشمنی میں لگے ہوئے ہیں اور جو بھی بن پڑ رہا ہے کر رہے ہیں۔ یہ جو وہ مذاکرات اور گفتگو کا بہت دم بھر رہے ہیں، یہ اسلامی جمہوریہ کے اندر اثر و نفوذ بڑھانے کی کوشش ہے۔
مذاکرات کے مسئلے میں اس قضیئے میں کچھ لوگ لا پرواہی اور تساہلی برت رہے ہیں۔ معاملے کو صحیح طریقے سے سمجھ نہیں رہے ہیں۔ بعض تو بے پروا ہیں، معاشرے کے ایسے بے پروا افراد جنھیں فکر ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے، ملک کے مفادات خطرے میں پڑ رہے ہیں یا قومی مفادات نابود ہو سکتے ہیں۔ ایسے افراد سے ہمیں کوئی مطلب نہیں ہے۔ بعض لوگ ہیں جو اس طرح لا پروا تو نہیں ہیں مگر سادہ لوح ہیں۔ مسائل کی گہرائی کو سمجھ نہیں پاتے۔ جب امریکا سے مذاکرات کی بات ہوتی ہے تو اعتراض کرتے ہیں کہ آپ امریکا سے مذاکرات کے کیوں مخالف ہیں؟ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے بھی تو فلاں سے مذاکرات کئے تھے، امام حسین علیہ السلام نے بھی مذاکرات کئے تھے۔ یہ باتیں سادہ لوحی کی علامت ہیں، یہ مسائل کی گہرائی کے عدم ادراک کی نشانی ہے۔ ملکی مسائل کا اس طرح تجزیہ نہیں کیا جاتا۔ اس عامیانہ طرز فکر اور سادہ لوحی سے ملکی مفادات کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے زبیر سے اور حضرت امام حسین علیہ السلام نے ابن سعد سے بات کی تو اسے نصیحت کرنے کے لئے۔ آج کل جس طرح مذاکرات ہوتے ہیں، اس طرح مذاکرات نہیں کئے۔ آجکل مذاکرات کا مطلب ہے لین دین، ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے لو۔ کیا امیر المومنین علیہ السلام زبیر سے کوئی لین دین کر رہے تھے؟ کیا امام حسین علیہ السلام ابن سعد سے لین دین کرنا چاہتے تھے کہ ایک ہاتھ سے لو اور دوسرے ہاتھ سے دو؟ گفتگو کا یہ مقصد تھا؟ آپ اس طرح تاریخ کا تجزیہ کرتے ہیں؟ اس طرح ائمہ علیہم السلام کی زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں؟ امام حسین علیہ السلام تشریف لے گئے اور پھٹکارا، نصیحت کی کہ اللہ سے ڈر! امیر المومنین علیہ السلام نے نصیحت کی اور پیغمبر اسلام کا زمانہ یاد دلایا اور فرمایا کہ خدا کا خوف کرو۔ اس نصیحت کا اثر بھی ہوا۔ زبیر نے خود کو جنگ سے الگ کر لیا۔ آج جو مذاکرات ہو رہے ہیں ان کا یہ انداز نہیں ہے۔ امریکا جو شیطان اکبر ہے اس سے ہمارے مذاکرات کے سلسلے میں واقعی کچھ لوگ بڑے عامیانہ انداز میں اور سادہ لوحی کے ساتھ اور حقیقت ماجرا کی تہہ میں جائے بغیر مثالیں دینے لگتے ہیں۔ اخبارات میں لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ویب سائٹوں پر لکھتے ہیں، تقریروں میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین نے تو زبیر سے مذاکرات کئے تھے تو آپ امریکا سے مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟ یعنی مسئلے کے ادراک میں اتنی غلطی! وہ مذاکرات اس معنی میں نہیں تھے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آج کے معنی و مفہوم میں مذکرات کے بھی ہم مخالف نہیں ہیں۔ ہم اس وقت ساری دنیا سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ ہم یورپی حکومتوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ لاطینی امریکا کی حکومتوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ یہ سب مذاکرات ہی تو ہیں۔ مذاکرات سے ہمیں کوئی مشکل نہیں ہے۔ ہم جو کہتے ہیں کہ امریکا سے مذاکرات نہیں کریں گے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سرے سے مذاکرات کے ہی خلاف ہیں۔ نہیں، ہم امریکا سے مذاکرات کرنے کے خلاف ہیں اور اس کی ایک وجہ ہے۔ ذی فہم انسان کی سمجھ میں یہ بات آ جانی چاہئے کہ ہم کیوں ایسا کر رہے ہیں۔ ورنہ ہم دوسروں سے تو مذاکرات کر ہی رہے ہیں۔ ظاہر ہے سب ہمارے جگری دوست تو نہیں ہیں۔ ان میں بعض دشمن ہیں، بعض لا تعلق رہنے والے ہیں، ایسے ملکوں سے بھی ہم مذاکرات کر رہے ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ مگر امریکا سے اسلامی جمہوریہ ایران کے مذاکرات کا مطلب ہے غلبہ اور تسلط۔ امریکیوں نے مذاکرات کا جو مفہوم اپنے ذہن میں بٹھا رکھا ہے وہ یہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنی مرضی مسلط کرنے کا کوئی راستہ نکال لیں۔ آج میڈیا کا سامراج امریکا کی مٹھی میں ہے۔ آج صیہونی نیٹ ورک جو پوری انسانیت کا دشمن ہے، جو فضیلت و کمالات کا دشمن ہے وہ امریکا کی معیت میں ہے۔ دونوں ایک ہی رنگ میں نظر آتے ہیں، دونوں ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ ان سے مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے لئے راستہ کھول دیجئے تاکہ وہ اقتصادی میدان میں بھی، ثقافتی میدان میں بھی، سیاسی میدان میں بھی اور سیکورٹی کے میدان میں بھی اپنے پاؤں جما لیں۔
اسی ایٹمی انرجی کے مسئلے میں ہونے والے مذاکرات میں بھی جہاں انھیں موقع ملا اور ان کے لئے راستہ کھلا، البتہ ایرانی فریق بحمد اللہ بہت چوکنا رہتا تھا، مگر پھر بھی کچھ جگہوں پر انھیں موقع مل ہی گیا اور انھوں نے مداخلت کی اور قومی مفادات کے خلاف کچھ حرکتیں کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ممانعت اسی چیز کی ہے۔ امریکا سے مذاکرات اگر ممنوع ہیں تو اس کی وجہ یہ بے شمار نقصانات ہیں، جبکہ اس میں کہیں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ مذاکرات دوسری کسی حکومت سے ہونے والے مذاکرات سے الگ ہیں۔ ان مذاکرات میں جذبہ الگ ہوتا ہے۔ اس کو کچھ لوگ نہیں سمجھ پاتے۔
وطن عزیز کی موجودہ مشکلات بد قسمتی سے ایسے افراد کی وجہ سے ہیں جن میں بعض بے فکر اور بعض سادہ لوح ہیں۔ البتہ ان کی تعداد بہت کم ہے، یہ لوگ اقلیت میں ہیں۔ ان کے مقابلے میں ایک عظیم تعداد ملک کے آگاہ، انقلابی اور صاحب بصیرت افراد کی ہے جن کے مقابلے میں وہ لوگ بہت کم ہیں، مگر وہ کام کرتے رہتے ہیں؛ لکھتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں، اپنی بات دہراتے رہتے ہیں، بار بار کہتے ہیں۔ دشمن بھی ایسے لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کی سرگرمیوں کا ایک بڑا حصہ اسی بات پر مرکوز ہے کہ حکام کے تخمینوں کو بدل دیا جائے، عوام کی سوچ تبدیل کر دی جائے اور اپنی باتوں کو نوجوانوں کے دماغ میں بٹھا دیا جائے۔ انقلابی افکار کو، دینی افکار کو، ملکی مفادات سے متعلق افکار کو بدل دیا جائے۔ البتہ اس کی ہمیں اطلاع ہے اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ ان کے نشانے پر خاص طور سے نوجوان ہیں۔ ان حالات میں ہمارے نوجوانوں کو بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ الحمد للہ سب بیدار ہیں۔ یونیورسٹی سے وابستہ افراد بھی چوکنے ہیں، مسلح فورسز بھی بیدار ہیں۔ ہماری مسلح فورسز، جن میں فوج بھی ہے، سپاہ پاسداران انقلاب بھی ہے، بسیج (رضاکار فورس) بھی ہے، پولیس کا محکمہ بھی ہے، پوری مستعدی سے اپنا کام کر رہی ہیں۔ اس طرف سے تو مجھے کوئی تشویش نہیں ہے۔ آپ انقلابی جوانوں سے، انقلاب کے فرزندوں سے، جو بحمد اللہ ملک کے بہت اہم شعبے یعنی بحری علاقوں کی سیکورٹی پر مامور ہیں اور خدمات انجام دے رہے ہیں، میری گزارش یہ ہے کہ آپ اس وقت اپنے کام کی اہمیت و کلیدی حیثیت کو سمجھئے اور جانئے۔ جس طرح مباہلہ کے موقع پر کفر کے مقابل کل ایمان آیا تھا، آج بھی اسلامی جمہوری نظام میں کل ایمان، کفر کے مقابلے پر کھڑا ہے۔ جس طرح پیغمبر اکرم اور آپ کے پاکیزہ خاندان کی روحانیت، صفائے باطن اور ہیبت نے دشمن کو میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا، اسی طرح بفضل پروردگار اور نصرت خداوندی کے طفیل میں ملت ایران اپنی قوت اور اپنی روحانی طاقت سے دشمن کو میدان سے باہر کر دیگی۔ بحری علاقوں میں سپاہ پاسداران انقلاب کا رول بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جنوبی علاقے کے نوجوانوں کی سرگرمیوں کی بڑی اہمیت ہے۔ جنوبی علاقوں میں صوبہ بو شہر اور دوسرے ساحلی صوبوں کے نوجوانوں کی فعالیت بہت نمایاں ہے۔ جنوبی علاقوں کے نوجوان واقعی امتحان پر کھرے اترے اور انھوں نے ثابت کر دیا کہ اپنے ملک کے وقار و اعتبار کا، اپنے انقلاب کا اور اپنے اسلامی نظام کا حقیقی معنی میں دفاع کر سکتے ہیں۔ اسی طرح گھر والوں کا کردار جو وہاں سکونت پذیر ہونے پر تیار ہوئے اور وہاں جاکر رہ رہے ہیں، بہت قابل قدر ہے۔ اگر گھر کے مرد کو گھر والوں کا سپورٹ اور ساتھ نہ ملے، ہم فکری و ہم خیالی نہ ہو تو کام انجام نہیں پائیں گے۔ آج خوش قسمتی سے ہمارے ملک کی عورتیں، ہمارے ملک کی محترم خواتین بڑے شفاف، پرتپاک اور آگاہانہ جذبات کی مالک ہیں۔ آٹھ سالہ جنگ کے دوران بھی یہی صورت حال تھی۔ حقیر کو کبھی کبھی یہ توفیق ملتی ہے کہ شہدا کے اہل خانہ سے ملاقات کرے اور ان سے بات چیت کرے۔ عام طور پر شہدا کی مائیں اگر ان شہدا کے والد سے زیادہ جوش و جذبے کی مالک نہیں ہیں تو ان سے کم بھی نہیں ہیں۔ بسا اوقات ان ماؤں کی بصیرت اور ان کا جوش و جذبہ زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی خواتین ہیں۔ یہ ملک کے لئے بڑی گراں قدر خصوصیت ہے۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی آمادگی میں اضافہ کرتے رہئے۔ علمی آمادگی میں بھی، یعنی علم و سائنس کے میدان میں، تحقیقات اور ریسرچ کے میدان میں، اسی طرح جنگی وسائل اور ساز و سامان سے متعلق آمادگی میں بھی اضافہ جاری رکھئے۔ جیسا کہ محترم کمانڈر (2) نے ذکر کیا؛ میدان میں نظر آنے والے سپاہ پاسداران انقلاب کے دفاعی ساز و سامان کو دیکھ کر دشمن اس کوشش میں لگ گئے کہ جنگی اسٹریٹیجی کو تبدیل کریں۔ یعنی بحری علاقوں میں موجودگی کے ساتھ نت نئی جدت عملی کی وجہ سے دشمن اپنی اسٹریٹیجی تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔ بنابریں فوجی وسائل اور دفاعی ساز و سامان کے تعلق سے آپ کی یہ جدت عملی، یہ اختراعات و ایجادات، اسی طرح آپ کی یہ موجودگی، فوجی میدان میں اور جنگی ساز و سامان کے میدان میں دشمن کی علمی و سائنسی سرگرمیوں کے مقابلے میں اسی طرح جاری رہنی چاہئے اور ان میں اضافہ ہونا چاہئے۔ یہ پوری طرح ممکن بھی ہے۔ انسانی ایجادات اور تخلیقی عمل ختم ہونے والا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک زمانے میں سپاہ پاسداران انقلاب نے اسٹریٹیجی بنائی کہ اسے تیز رفتار چھوٹی کشتیاں تیار کرنی چاہئیں۔ اسی طرح وہ اس سے بھی بالاتر، اس سے بھی بہتر اور زیادہ کارآمد چیزوں کے بارے میں غور کر سکتی ہے، تحقیقات انجام دے سکتی ہے اور اسے تیار کرکے میدان میں لا سکتی ہے۔ آپ ہمیشہ فکر و تدبر کرتے رہئے۔ اپنی فوقیت قائم رکھئے؛ «تُرهِبونَ بِه‌ عَدُوَّ الله»(۳). دشمن اگر مرعوب اور خوفزدہ نہیں رہے گا تو تعرض کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر ڈرےگا نہیں تو جارحیت کی گستاخی کرے گا۔ تو یہ تھی دوسری سفارش۔
تیسری سفارش تعاون ہے۔ بحمد اللہ آج کی بحریہ اور انقلاب کے ابتدائي برسوں کی بحریہ کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ میں اس زمانے کی بحریہ کو تمام تفصیلات کے ساتھ جانتا ہوں اور آج کی بحریہ کو بھی پوری طرح پہچانتا ہوں۔ ( آج بحریہ کے اندر) جذبہ ایمانی سے آراستہ اور کام کی لگن رکھنے والے جوان موجود ہیں۔ ان کے ساتھ آپ تعاون کیجئے، ان سے ہم فکری قائم کیجئے، ایک دوسرے کی مدد کیجئے، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کیجئے۔ یہ باہمی تعاون بڑا مددگار واقع ہوگا۔ یہ قومی سرمائے میں اضافے کا باعث بنے گا۔ بس یہی ہمارے معروضات تھے جو آپ کی خدمت میں ہم نے پیش کر دئے۔
آپ یقین رکھئے کہ خداوند عالم آپ کی مدد کر رہا ہے۔ اس میں ذرہ برابر شک نہ کیجئے کہ؛ «اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکم» (۴) ہمارے اندر یہ عزم ہونا چاہئے کہ 'ان تنصرو اللہ' کے تقاضے پر پورے اتریں، پھر اللہ ہماری مدد فرمائے گا۔ اگر ہماری نیت، ہمارا عمل اور ہماری سرگرمیاں 'ان تنصروا اللہ' کے معیار پر پوری اتریں گی تو 'ینصرکم' یقینی ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو یقینا پورا ہوگا۔ اس عمل کو جاری رکھئے، اس مہم کو جاری رکھئے، یہ سنجیدگی قائم رکھئے، مستقبل آپ کا ہے۔ اسلام و مسلمین کے دشمن مغربی ایشیا کے علاقے میں بھی شکست سے دوچار ہوں گے اور دوسرے خطوں میں بھی ہزیمت اٹھائیں گے۔ سیکورٹی کے شعبے میں بھی اور دفاعی میدان میں بھی، اسی طرح توفیق خداوندی سے اقتصادی میدان میں بھی اور ثقافتی میدان میں بھی۔ مگر اس کی شرط یہ ہے کہ ہم کام کریں۔ اگر ہم مصروف عمل رہیں گے، اگر ہم حقیقی معنی میں صحیح طریقے سے میدان میں موجود رہیں گے، کام کرتے رہیں گے، تو دشمن کی شکست یقینی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں آپ کی توفیقات میں اضافے کی دعا کرتا ہوں، آپ کی کامیابیوں میں اللہ تعالی روز افزوں اضافہ کرے اور ملت ایران کی پیشرفت و ترقی کا سلسلہ جاری رکھے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اور انقلاب کے شہدا، سپاہ پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والے شہدا اور سپاہ پاسداران انقلاب کی بحریہ سے تعلق رکھنے والے شہدا کی پاکیزہ ارواح کے درجات بلند کرے۔

و السّلام علیکم‌ و رحمة الله و برکاته‌

۱) سوره‌ انفال، آیت نمبر ۶۰ کا ایک حصہ؛ « جتنا استطاعت میں ہے ان (دشمنوں) کے خلاف قوت اور گھوڑے مہیا کرو تاکہ (اپنی اس تیاری سے) دشمن خدا کو اور اپنے دشمن کو خوفزدہ کر دو۔
۲) سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کے کمانڈر جنرل علی فدوی
۳) سوره‌ انفال، آیت نمبر ۶۰ کا ایک حصہ «... تاکہ (اپنی اس تیاری سے) دشمن خدا کو اور اپنے دشمن کو خوفزدہ کر دو۔...»
4) سورہ محمد آیت نمبر 7 کا ایک حصہ؛ اگر تم اللہ تعالی کی مدد کروں گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔