بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌

میری بڑی اچھی یادیں وابستہ ہیں چہار محال و بختیاری سے۔ 1980 کی دہائی میں جب میں صدر تھا، اس وقت عوام کو دفاع کے محاذوں پر جانے کی ترغیب دلانے کے لئے شہرکرد گیا تھا۔ یہ صوبائی دورہ تھا۔ ہم اس وقت مختلف صوبوں میں جاتے تھے، شہرکرد بھی گئے تھے۔ ویسے تو ہر جگہ ہی لوگ جمع ہوتے تھے اور ہماری ترغیب کا اثبات میں جواب دے رہے تھے، مگر میرے ذہن میں شہرکرد ہمیشہ کے لئے نقش ہو گیا۔ سردی کا زمانہ تھا۔ وہ یوں بھی ٹھنڈے علاقے ہیں۔ ہماری تقریر کے لئے وہ جگہ چنی گئی تھی جہاں سے دو سڑکیں نکلتی ہیں۔ میں نے یونہی نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ ان دونوں سڑکوں پر تا حد نگاہ لوگ مقامی لباس میں، گوناگوں پرچموں کے ساتھ واقعی دل سے اس اجتماع میں شریک ہوئے ہیں، یعنی صرف جسمانی طور پر نہیں۔ تعاون کا یہ جذبہ اتنا نمایاں تھا اور عوام کے جذبات اتنے واضح تھے کہ انسان ایک ہی نگاہ میں اس علاقے اور یہاں کے عوام کے بارے میں بہت سی چیزیں سمجھ سکتا تھا۔ میں کبھی نہیں بھول سکتا، یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ البتہ میں اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی شہرکرد گیا ہوں۔ وہاں عوام سے ملاقات ہوئی، اجتماعات دیکھنے کو ملے۔ لیکن وہ سفر بڑا عجیب تھا۔ حقیر کے ذہن میں اس کا اثر ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا۔ اس سے پہلے ایک بار میں قمر بنی ہاشم بریگیڈ سے ملاقات کے لئے شہرکرد گیا۔ میں بریگیڈ کے مرکز میں گیا تھا۔ وہ سفر بھی کبھی نہیں بھولتا۔ میں سپاہ پاسداران انقلاب کے جو مراکز ہیں ان میں بیشتر جگہوں کا دورہ کر چکا ہوں۔ میں جاتا تھا، ان کے ساتھ بیٹھتا تھا، بات چیت ہوتی تھی، بحث و گفتگو کا سلسلہ رہتا تھا۔ ان مراکز میں بعض جگہوں پر کچھ ایسی خصوصیات نظر آ جاتی تھیں جو ذہن میں باقی رہنے والی ہوتی تھیں۔ ان میں سے ایک یہی شہرکرد کی قمر بنی ہاشم بریگیڈ ہے۔ اسے میں کبھی نہیں فراموش کر سکتا۔ میں وہاں گیا۔ جو جوان نظر آئے وہ بڑے مخلص، مومن نوجوان تھے، غربت کا عالم، جس جگہ یہ لوگ تھے واقعی وہاں وسائل بہت محدود تھے، لیکن اس کے باوجود جوش و جذبہ اپنے اوج پر تھا۔ ہم وہاں گئے اور کئی گھنٹے ان کے ساتھ رہے۔ اب ٹھیک سے یہ یاد نہیں ہے کہ کتنے گھنٹے وہاں ہمنے گزارے۔ بہرحال ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا بھی کھایا۔ میں وہاں سے بہت مطمئن ہوکر لوٹا۔
احباب نے اس وقت جو چیزیں علمی، عسکری اور سیاسی ماضی کے تعلق سے بیان کیں وہ سب اپنی جگہ پر درست اور بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ جو نکتہ جناب نکونام صاحب نے بیان کیا (1) چہار محال و بختیاری کے لوگوں کی بختیار سے اظہار بیزاری کے لئے تہران آمد کے تعلق سے وہ بہت اہم ہے۔ ممکن ہے کہ شیراز، مشہد یا تبریز کے عوام بھی آکر بختیار سے اظہار بیزاری کریں۔ لیکن جب بختیاری عوام آکر ایک اہم بختیاری سیاسی رہنما سے جو انقلاب کے مقابلے میں اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے مقابلے میں آ گیا تھا، اظہار بیزاری کریں تو یہ ایک الگ چیز ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ محترم کی یہ بات بھی بجا ہے کہ عوام کو یہ توقع ہے کہ اس دن کو ایک خاص دن قرار دیا جائے۔ یہ واقعی بہت اہم بات ہے۔ کیونکہ قبائل کے درمیان یہ قبیلائی رشتے اور وابستگی معمولی بات نہیں ہوتی، بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو آئینی انقلاب کے دوران شہرکرد سے، جو اس وقت دہ کرد تھا، اٹھ کھڑے ہوئے اور اصفہان پہنچ گئے، اصفہان پر قبضہ کرنے کے بعد تہران آ گئے اور انھوں نے بڑے اہم کام انجام دئے۔ اس طرح کے اکثر کارنامے وہ مقامی رشتوں اور روابط کی بنیاد پر کرتے تھے۔ یعنی لوگوں پر قبائلی ماحول اور رسم و رواج کا بڑا اثر تھا جس کی وجہ سے وہ ان چیزوں کے لئے باہر نکلتے تھے۔ لیکن جب دین کا معاملہ ہو یا انقلاب کا مسئلہ سامنے ہو، یا امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا معاملہ ہو تو پھر یہ روابط اور رشتے اپنا رنگ کھو دیتے ہیں، انھیں فراموش کر دیا جاتا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ لہذا آپ نے قدردانی اور خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ جو سلسلہ شروع کیا ہے، یہ واقعی بہت مناسب عمل ہے۔
اس نکتے پر آپ توجہ دیجئے؛ ہمیں ایک غیر اعلانیہ ہمہ جہتی ثقافتی، دینی اور سیاسی یلغار کا سامنا ہے۔ میں جو عرض کر رہا ہوں وہ آپ یقینا میرے کہنے سے قبول کر لیں گے، لیکن جو کچھ ہو رہا ہے اس کی اطلاع آپ کو نہیں ہے، مجھے اس کی اطلاعات ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے؟ دشمن کا سیاسی لشکر اور ثقافتی فوج ان تمام وسائل کے ساتھ جن کا حصول اس کے لئے ممکن تھا، ہمارے اوپر حملہ آور ہوا ہے کہ ہمارے دینی عقائد کو کمزور کر دے، ہمارے سیاسی نظریات کو کمزور کر دے، ملک کے اندر بے اطمینانی اور ناراضگی کی کیفیت کو ہوا دے۔ نوجوانوں کو خاص طور پر ایسے نوجوانوں کو جو سرگرم ہیں اور مختلف سطحوں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، دشمن اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس کے مقابلے کے لئے کچھ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ مومن عوام، انقلابی نوجوان اور فرض شناس عہدیداران بہت اچھے اقدامات انجام دے رہے ہیں، لیکن اس سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم چیز یہی ہے کہ جہاد، شہادت، شہید اور شہید کے خاندان جیسے مفاہیم اور اللہ تعالی کے لئے صبر و ضبط جیسی گراں قدر تعلیمات کو زندہ رکھا جائے۔
ظاہری طور پر نظر آنے والے بعض کاموں کی مدد سے ان تعلیمات کو زندہ رکھنے کا ہدف کسی حد تک حاصل ہو سکتا ہے۔ یعنی میں سڑکوں کے نام شہیدوں کے نام پر رکھے جانے جیسے اقدامات کا مخالف نہیں ہوں۔ یہ سب ہونا چاہئے، بہت ضروری اور بہت اچھی چیزیں ہیں۔ لیکن یہ ہرگز کافی نہیں ہیں۔ جو کام ہمیں کرنا ہے یہ اس کا بہت معمولی سا حصہ ہے۔ گہرائی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ ذہن و فکر کو متاثر کرنے کی کوشش کیجئے۔ اپنی صحیح اور بجا باتوں سے سامعین کو مطمئن کیجئے۔ ایسا کرنے کے لئے پہلے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ صاحبان نظر، وہ مدبر افراد جو مسائل کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں، فنکاروں کی مدد سے اور ایسے افراد کی مدد سے جن کے پاس اپنی بات دوسروں تک منتقل کرنے کا فن ہے، جیسے شاعر، مصور، فلم ساز، مصنف وغیرہ، یہ سب لوگ شانے سے شانہ ملا کر اس طرح کاوشیں انجام دیں کہ اس کا اثر لوگوں کی سوچ اور فکر پر پڑے۔ یعنی وہ سازش جس پر اس وقت عمل ہو رہا ہے، یعنی منصوبہ بندی نہیں ہو رہی ہے، منصوبہ بندی تو بہت پہلے کی جا چکی ہے، اس وقت ملک کے اندر اس سازش پر عمل ہو رہا ہے، اسے بے اثر بنا دیں۔ یہ ذمہ داری حکومتی عہدیداروں کی بھی ہے، صاحب ایمان عوام کی بھی ہے، سرکاری حکام کے دوش پر بھی عائد ہوتی ہے اور غیر سرکاری ذمہ داران کے دوش پر بھی عائد ہوتی ہے۔ جسے بھی ذمہ داری کا احساس ہے اس سلسلے میں کام کرے۔ ایک قلمکار کا کام یہ ہے کہ شہادت کے مفہوم کا احیا کرے، شہادت کی قدر و قیمت اور شہید کی منزلت کو بیان کرے۔ آپ اس میدان میں کام کیجئے، اللہ تعالی یقینی طور پر آپ کی مدد فرمائےگا۔

و السّلام علیکم و رحمة الله‌

1) صوبہ چہار محال و بختیاری میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور شہرکرد کے امام جمعہ حجت الاسلام و المسلمین محمد علی نکونام نے اس واقعے کا حوالہ دیا کہ 8 فروری 1979 کو صوبے کے لوگ تہران پہنچ کر امام خمینی قدس سرہ الشریف کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پہلوی حکومت کے آخری وزیر اعظم شاپور بختیار سے اپنی بیزاری کا اعلان کیا۔