5 مہر سنہ 1394 ہجری شمسی مطابق 27 ستمبر 2015 کو اپنے درس فقہ میں رہبر انقلاب اسلامی نے منی کے تلخ سانحے اور اس کی وجہ سے امت اسلامیہ کی عید الاضحی کے عام سوگ میں بدل جانے کا حوالہ دیا اور زور دیکر کہا کہ یہ واقعہ فراموش نہیں کیا جائے گا اور قومیں سنجیدگی سے اس پر توجہ دیں گی اور سعودیوں کو چاہئے کہ عذر لنگ پیش کرنے اور دوسروں پر الزام دھرنے کے بجائے اس ذمہ داری کو قبول کریں اور سوگوار خاندانوں اور امت مسلمہ سے معافی مانگیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله‌ الرّحمن‌ الرّحیم‌

لمبی تعطیلات کے بعد آج ہم اپنی بحث کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ مگر ہمارے دل غم و اندوہ سے بھرے ہوئے ہیں، اس تلخ سانحے کی وجہ سے جو منی میں رونما ہوا اور حقیقی معنی میں اس سانحے نے عید کو سوگ میں تبدیل کر دیا۔ ہر سال موسم حج میں، آجکل کے ایام میں جب مناسک حج مکمل ہو چکے ہوتے ہیں، پورے ملک میں مسرت و شادمانی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ حجاج کرام کی واپسی شروع ہوتی ہے۔ گھر والوں کی خوشیوں کا ٹھکانا نہیں رہتا۔ ماں باپ، بچے، بیوی سب جمع ہوتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں کہ ان کے حاجی واپس آ گئے۔ حج ادا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ہر سال یہی سماں ہوتا ہے۔ یہ پرمسرت لمحات ہوتے ہیں۔ اس سال خوش کے یہ ایام غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ملک کے بہت سے صوبوں میں واقعی اس وقت لوگ غم سے نڈھال ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اب ان کے جنازے لائے جائیں گے۔ اس غم سے ایک لمحے کے لئے بھی ذہن نہیں ہٹتا۔ ان چند دنوں کے دوران یہ غم ہمارے اور دوسرے افراد کے دلوں پر طاری رہا۔ اس وقت تو بس یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس عظیم سانحے کی ذمہ داری سعودی حکام کے دوش پر ہے۔ انھیں چاہئے کہ اس سانحے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری قبول کریں۔ اگر دوسروں کے خلاف الزام تراشی کریں گے، کبھی کسی کو اور کبھی کسی کو الزام دیں گے اور بار بار بس اپنی تعریفیں کئے جائیں گے تو اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ یہ چیزیں بے سود ہیں۔ دنیائے اسلام سوال کر رہی ہے۔ ایک سانحے میں مختلف اسلامی ممالک کے ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کا جاں بحق ہو جانا، کوئی مذاق ہے؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارے ملک کے کتنے افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ جو لوگ لاپتہ ہیں ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ وہ کہاں ہیں۔ ممکن ہے کہ ان لاپتہ افراد میں بھی کچھ جاں بحق ہونے والوں میں شامل ہوں۔ حج کے دوران کسی سانحے میں کئی سو لوگوں کا مارا جانا معمولی بات ہے؟ مذاق ہے؟ عالم اسلام کو چاہئے کہ اس کے لئے راہ حل تلاش کرے۔ پہلی بات یہی ہے کہ سعودی حکام اپنی ذمہ داری قبول کریں اور پھر اس کے لازمی تقاضوں پر عمل کریں۔ امت اسلامیہ سے معذرت کرنے کے بجائے، متاثرہ خاندانوں سے معافی مانگنے کے بجائے اگر یونہی باتیں بناتے رہیں گے اور دوسروں کے سر الزام ڈالتے رہیں گے تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ قومیں سنجیدگی سے اس مسئلے میں اقدام کریں گی۔ یہ واقعہ فراموش نہیں کیا جائے گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی جو بہتر ہے وہ کرے۔