رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین۔ و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدییّن المعصومین۔ سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

یہ پرشکوہ اور عظیم اجتماع ان معدودے چند عظیم اجتماعات میں سے ہے، جو ہمارے وطن کی ایثار پیشہ خواتین کی قدردانی کے لئے انجام پائے ہیں۔ اس عظیم اجتماع اور اہواز کی خواتین سے اس ملاقات کا پہلا مقصد یہ ہے کہ ایرانی خواتین بالخصوص اس خونبار علاقے کی خواتین کی قدردانی اور ان کے قابل احترام مرتبے کی ستائش کی جائے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ ایرانی خواتین اور مسلمان عورتوں کے بارے میں، خود خواتین کے اجتماع میں کچھ باتیں عرض کی جائيں جو مسلمان خواتین اور ان کے تعلق سے اسلامی نقطہ نگاہ کے بارے میں ایرانی قوم اور مسلمین عالم کے نظریات کی تصحیح میں موثر واقع ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ اجتماع ایرانی خواتین کی خودمختاری اور سیاسی و انقلابی میدان میں ان کی سرگرم موجودگی کا مظہر ہے اور اسی طرح دنیا والوں کی آںکھوں کے سامنے ایرانی قوم خصوصا خواتین کی قوت و عظمت کی نشاندہی کرتا ہے۔
میں اپنے معروضات اس بات سے شروع کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی ملک کی تعمیر کے دور میں جس میں عوام اور حکام اس کوشش میں ہیں کہ عظیم ایران کی مادی لحاظ سے بھی، معنوی اعتبار سے، نیز سماجی نظم و ضبط کے نقطہ نگاہ سے بھی، حقیقی معنی میں تعمیر کریں، اس دور میں زیادہ بھروسہ افرادی قوت پر ہے۔ یعنی کوئی ملک اگر حقیقی معنی میں اپنی تعمیر کرنا چاہے تو اس کو سب سے زیادہ افرادی قوت پر توجہ دینی ہوگی۔ جب بات افرادی قوت کی ہو تو اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک کی نصف افرادی قوت خواتین کی ہے۔ اگر خواتین کے بارے میں غلط نظریہ پایا جائے تو حقیقی معنی میں ملک کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ خواتین کو بھی اس بات کا مکمل علم ہونا چاہئے کہ ان کے بارے میں اسلام کا نقطہ نگاہ کیا ہے؟ تاکہ دین مقدس اسلام کے اعلی نظریات کی بنیاد پر اپنے حقوق کی حفاظت کر سکیں اور اسلامی ملک کے مردوں کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ خواتین، عرصہ زندگی میں خواتین کی موجودگی، ان کی سرگرمیوں، خواتین کے حصول علم ، سماجی، سیاسی ، اقتصادی اور علمی فعالیت، خاندان کے اندر اور خاندان سے باہر خواتین کے کردار کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے۔ ان تمام باتوں کے بارے اسلام کا نقطہ نگاہ واضح اور شفاف ہے۔ اگر ہم دوسری تہذیبوں، منجملہ مغربی تہذیب سے اس کا موازنہ کریں تو اسلام کا نظریہ زیادہ پیشرفتہ ہے اور اسلام کی بینش آج کے مردوں میں جو کچھ پایا جاتا ہے اس سے زیادہ پرانی ہے۔ اسلام کا نظریہ، ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی نیز ملک کی خواتین کی ترقی کے اسباب فراہم کرتا ہے۔
میں اس اجتماع کے تقاضے کے مطابق کچھ باتیں اختصار کے ساتھ عرض کروں گا، خواہران عزیز! توجہ فرمائيں؛ بالخصوص نوجوان اور وہ خواتین جن میں جوش و خروش زیادہ ہے، وہ پوری توجہ سے سنیں!
انسان کی زندگی اور خواتین کے بارے میں اسلام کے نقطہ نگاہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ میں بارہا یہ بات عرض کر چکا ہوں؛ لیکن میری تاکید ہے کہ ملک کی خواتین کے تعلق سے یہ بات زیادہ سے زیادہ بیان کی جائے۔ اس تعلق سے سب سے زیادہ خود خواتین کو فعال ہونا چاہئے۔
میری بہنو اور بیٹیو! میرا نظریہ یہ ہے کہ اگر معاشرے کے ایک حصے میں چاہے ایران میں ہو یا کسی دوسرے ملک میں، مسلم خواتین کے تعلق سے کوتاہی ہوتی ہے تو اس میں جہاں مرد قصوروار ہوتے ہیں وہیں تھوڑی بہت تقصیر خود خواتین کی بھی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ سب سے پہلی ذمہ داری خود خواتین کی ہے کہ وہ عورتوں کے بارے میں اسلام کے نظریئے کو سمجھیں اور اس کا دفاع کریں۔ انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا، قرآن اور اسلام ان کے بارے میں کیا کہتا ہے اور ان سے کیا چاہتا ہے اور ان کی ذمہ داری کیا معین کی ہے اور پھر جو کچھ اسلام نے چاہا ہے اور کہا ہے اس کو طلب کریں اور اس کا دفاع کریں۔ اگر انھوں نے یہ نہ کیا تو جو لوگ کسی اصول اور اقدار کے پابند نہیں ہیں وہ خود کو خواتین پر ظلم کرنے کا مجاز سمجھیں گے۔ چنانچہ آج مغربی دنیا میں اور وہاں کے مادی نظاموں میں خواتین کے بارے میں جو سلوگن دیئے جاتے ہیں، ان کے برعکس مرد، عورتوں پر بدترین ظلم کرتے ہیں؛ باپ بیٹی پر، بھائی بہن پر اور شوہر زوجہ پر۔ دنیا میں موجود اعداد وشمار کے مطابق مردوں کی جانب سے خواتین، بیویوں، بہنوں حتی بیٹیوں پر سب سے زیادہ ظلم، زیادتی اور جارحیت مغربی نظام میں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن نظاموں میں معنوی اور دینی اقدار اور دلوں میں یاد خدا نہ ہو، وہاں مرد اپنی جسمانی قوت کے سہارے عورتوں پر ظلم و زیادتی کے دروازے کھول لیتا ہے۔ اس ظلم زیادتی میں دو چیزیں مانع ہوتی ہیں: ایک خدا، قانون اور ایمان وغیرہ پر توجہ ہے اور دوسرے خود عورت ہے جس کو چاہئے کہ خدا کے عطا کردہ اپنے انسانی حقوق کو صحیح طور پر پہچانے، ان کا دفاع کرے اور ان کو طلب کرے۔
اس سلسلے میں اسلام نے افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ایک معتدل اور متوازن حد معین کی ہے۔ اسلام نہ خواتین پر ظلم کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی دونوں کی فطرت کو نظرانداز کرتا ہے۔ صراط مستقیم، سیدھا راستہ وہی اسلام کا راستہ ہے جس کی میں یہاں اختصار کے ساتھ تشریح کروں گا۔
اسلام میں خواتین کی فعالیت کے لئے تین میدان معین کئے گئے ہیں۔ پہلا خود خواتین کے معنوی رشد و ارتقا کا میدان ہے۔ معنوی رشد و ارتقا کے میدان میں عورتوں اور مردوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یعنی معنوی لحاظ سے مرد بھی اعلی ترین مرتبے تک پہنچ سکتا ہے اور عورت بھی اعلی ترین روحانی درجہ حاصل کر سکتی ہے۔ مرد علی بن ابیطالب علیہ السلام کے مرتبے تک پہنچ سکتا ہے تو عورت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مرتبے تک جا سکتی ہے۔
خداوند عالم جب مثالی باایمان انسانوں کا ذکر کرنا چاہتا ہے تو ان کی مثال مردوں سے نہیں بلکہ خواتین کے ذریعے پیش کرتا ہے؛ و ضرب اللہ مثلا للذین آمنوا امراۃ فرعون(سورہ تحریم آیت نمبر11) خداوند عالم یہاں، دو مثالی خواتین نہیں بلکہ دو مثالی مومن انسانوں کا ذکر کر رہا ہے۔ یعنی انسانیت اور ارتقائے کمال کی منزل میں خداوند عالم جب ممتاز نمونے بیان کرنا چاہتا ہے تو مردوں میں سے عظیم دینی اور علمی شخصیات اور اپنے پیغمبروں کا ذکر نہیں کرتا بلکہ دو خواتین کا ذکر کرتا ہے جن میں ایک فرعون کی زوجہ ہے؛ اذ قالت رب ابن لی عندک بیتا فی الجنۃ (سورہ تحریم آیت نمبر11)؛ یہ وہ عورت ہے جو اپنے شوہر کے طاغوتی اقتدار کے خلاف مجاہدت کرتی ہے۔ وہ ایسی آزاد اور خود مختار عورت ہے جو اپنے ظالم ، فرعون صفت شوہر بلکہ جو خود فرعون تھا، اس کا ظلم و زیادتی برداشت نہیں کرتی ہے۔ اس عورت کی عظمت یہ ہے کہ اس کا شوہر اس پر گمراہی مسلط نہیں کر سکا۔ اگر چہ اس کا شوہر فرعون تھا اور اس کے پاس فرعونی طاقت تھی۔ دسیوں لاکھ افراد فرعون کے تابع تھے۔ لیکن گھر کے اندر خود اس کی بیوی اس کی پیروی نہیں کرتی۔ وہ آزاد ہے۔ خدا پر ایمان لاتی ہے۔ راہ فرعون کو ترک کرتی ہے اور راہ خدا کا انتخاب کرتی ہے، لہذا صرف عورتوں کے درمیان سے ہی نہیں بلکہ پوری بنی انسان کے درمیان سے ممتاز انسان کی حیثیت سے چنی جاتی ہے۔
بنابریں پہلے مرحلے میں، یعنی انسان کے معنوی، روحانی اور نفسانی ارتقا کے مرحلے میں عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ عورت مرد کی طرح اور مرد عورت کی طرح، دونوں معنویت اور تقرب الہی کے اعلی مدارج طے کر سکتے ہیں۔ لہذا قرآن فرماتا ہے: ان المسلمین و المسلمات و المومنین و المومنات و القانتین و القانتات والصّادقین و الصّادقات و الصّابرین و الصّابرات و الخاشعین و الخاشعات و المتصدّقین و المتصدّقات و الصّائمین و الصّائمات و الحافظین فروجھم و الحافظات و الذّاکرین اللہ کثیرا و الذّاکرات(سورہ احزاب آیت نمبر 35) یہ وہ پہلا میدان ہے جس میں عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔
دوسرا میدان، سماجی سرگرمیوں کا میدان ہے؛ اس میں اقتصادی اور سیاسی سرگرمیاں، اپنے خاص معنی میں سماجی سرگرمیاں، علمی سرگرمیاں، پڑھنا، پڑھانا، راہ خدا میں سعی و کوشش کرنا، مجاہدت کرنا اور سماجی زندگی کے تمام دوسرے میدان، سبھی شامل ہیں۔ یہاں بھی عورت اور مرد دونوں کو سبھی میدانوں میں مختلف سرگرمیوں کی اجازت ہے اور اسلام کی نظر میں عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر کوئی کہے کہ مرد تعلیم حاصل کر سکتا ہے عورت نہیں حاصل کر سکتی، مرد پڑھا سکتا ہے عورت نہیں پڑھا سکتی، مرد اقتصادی امور انجام دے سکتا ہے عورت نہیں انجام دے سکتی، مرد سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے عورت نہیں لے سکتی، تو اس نے اسلام کا نظریہ نہیں بیان کیا ہے بلکہ اسلام کے خلاف بات کی ہے۔ اسلام کے نقطہ نگاہ سے یہ سبھی امور انسانی معاشرے اور زندگی کی سرگرمیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور عورت اور مرد دونوں، مشترکہ اور مساویانہ طور پر ان میں حصہ لے سکتے ہیں۔ البتہ بعض امور خواتین کے لئے مناسب نہیں ہیں اس لئے کہ ان کی جسمانی ساخت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اسی طرح بعض کام مردوں کے لئے مناسب نہیں ہیں، اس لئے کہ ان کے مزاج اور جسمانی صورت حال سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ عورت سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے یا نہیں۔ عورتوں اور مردوں کے درمیان کاموں کی تقسیم، امکانات، شوق اور کاموں کے خاص تقاضوں کے مد نظر ہے۔ اگر عورت میں شوق ہو تو معاشرے سے متعلق گوناگوں سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے۔ البتہ ان میدانوں میں سرگرمیوں کے لئے اسلام نے بعض حدود کا تعین کیا ہے لیکن ان حدود کا تعلق عورت ہونے اور فعالیت کی اجازت سے نہیں ہے، بلکہ عورت اور مرد کے اختلاط سے ہے جو اسلام کی رو سے بہت حساس مسئلہ ہے۔ اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کو ہر جگہ، سڑک پر دفاتر میں، تجارتی مراکز میں ، ہر جگہ اپنے درمیان فاصلہ رکھنا چاہئے۔ مسلمان عورتوں اور مردوں کے درمیان حجاب اور حد معین کی گئی ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان اختلاط، مردوں کے آپسی اختلاط اور عورتوں کے آپسی اختلاط کی طرح نہیں ہے۔ اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ مردوں کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہئے اور عورتوں کو بھی ۔ اگر عورتوں اور مردوں کے میل جول اور ان کے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں اسلام کے احکام کی پابندی کی جائے تو سماجی زندگی کے وہ تمام امور جو مرد انجام دے سکتے ہیں عورتیں بھی اگر ان کے اندر جسمانی توانائی، شوق، اور وقت ہو تو انجام دے سکتی ہیں۔
عورتیں اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لڑکیوں کو نہیں پڑھنا چاہئے۔ یہ غلط ہے۔ لڑکیوں کو جن شعبوں میں دلچسپی اور شوق ہو اور جو شعبے ان کے لئے مفید ہوں، ان میں ان کو تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔ معاشرے کو جس طرح لڑکوں کی تعلیم کی ضرورت ہے اسی طرح لڑکیوں کی تعلیم کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن تعلیم کا ماحول صحیح ہونا چاہئے۔ لڑکیوں کے لئے بھی اور لڑکوں کے لئے بھی۔ یونیورسٹیوں کا ماحول سماج کے بچوں کے لئے، لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لئے، پر امن اور محفوظ ہونا چاہئے۔ سڑکوں اور گلیوں میں اخلاقی امور اور ناموس کے لحاظ سے، لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے لئے امن و سلامتی ہونی چاہئے۔ اگر یہ امن و سلامتی ہو، کوچہ و بازار میں، یونیورسٹیوں اور کالجوں میں فکری اور اخلاقی امن و سلامتی ہو تو امن کے اس ماحول میں مسلمان لڑکے اور لڑکیاں مرد اور عورت سبھی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ والدین اور ذمہ دارعہدیداروں کو مل کے یہ امن و سلامتی فراہم کرنی چاہئے۔
عورتوں اور مردوں کے اس اختلاط کو روکنے کے لئے جس کا میں نے پہلے ذکر کیا اور اخلاقی حدود کے تحفظ کی غرض سے اسلام نے خواتین کے لئے حجاب معین کیا ہے۔ عورت کا یہ حجاب بذات خود سلامتی کا ایک وسیلہ ہے۔ مسلمان خاتون کے حجاب سے خود مسلمان خاتون کے لئے بھی اور مردوں کے لئے بھی امن و سلامتی فراہم ہوتی ہے۔ جن جگہوں پر خواتین کا پردہ ختم کیا جا رہا ہے، جہاں عورتوں کو عریانی اور برہنگی کی طرف لے جایا جا رہا ہے، وہاں پہلے مرحلے میں خود خواتین کی سلامتی اور اس کے بعد مردوں اور نوجوانوں کی سلامتی سلب کی جا رہی ہے۔ اسلام نے حجاب اس لئے معین کیا ہے کہ ماحول سالم اور محفوظ رہے، معاشرے میں عورتیں اپنا کام کر سکیں اور مرد اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکیں۔ حجاب اسلام کے اہم اور ممتاز احکام میں سے ہے اور اس کا ایک فائدہ وہی ہے جو میں نے عرض کیا۔ اس کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں، بعد میں اگر مجھے یاد آیا اور وقت رہا تو ان کی طرف اشارہ کروں گا۔
بنابریں سماجی، سیاسی اور علمی سرگرمیوں کے میدان بھی مسلمان مردوں کی طرح مسلمان خواتین کو بھی حق حاصل ہے کہ زمانے کے تقاضوں کے لحاظ سے جس کمی اور جس فریضے کا وہ احساس کریں اس کو انجام دیں۔ ۔چنانچہ اگر کوئی لڑکی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے، اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہتی ہے، علمی کام کرنا چاہتی ہے، یونیورسٹیوں میں پڑھانا چاہتی ہے یا سیاست کے میدان میں آنا چاہتی ہے یا صحافی بننا چاہتی ہے تو اس کے لئے میدان کھلا ہوا ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ عفت کا خیال رکھا جائے اور عورت اور مرد کے عدم اختلاط کی پابندی کی جائے، اسلامی معاشرے میں عورتوں اور مردوں دونوں کے لئے میدان کھلا ہے۔ اس سلسلے میں پائے جانے والے تمام اسلامی کتب اور اسی طرح اسلام نے سماجی امور میں عورتوں اور مردوں، دونوں کی یکساں طور پر جو ذمہ داریاں بیان کی ہیں، وہ ہماری اس بات کے ثبوت ہیں۔ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ من اصبح و لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم(الکافی، ثقۃ الاسلام کلینی جلد 2 صفحہ 164) مردوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ خواتین کو بھی امور مسلمین، اسلامی معاشرے، عالم اسلام کے امور اور ان تمام مسائل پر جو دنیا کو در پیش ہیں، غور کرنا اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ اس کا اسلامی فریضہ ہے۔
سورہ احزاب کی آیہ شریفہ کی بنیاد پر، چاہے اسلام ہو، چاہے ایمان ہو، چاہے قنوت ہو، چاہے خضوع و خشوع ہو، چاہے صدقہ دینے کی منزل ہو، چاہے روزہ ہو، چاہے صبر و استقامت ہو، چاہے حفظ ناموس ہو اور چاہے ذکر خدا ہو، سب میں عورت اور مرد برابر ہیں۔ سماجی امور میں خواتین کی فعالیت مکمل طور پر مباح ہے اور مناسب، پسندیدہ اور جائز ہے کہ اسلامی حدود میں رہتے ہوئے، خواتین ان امور کو انجام دیں اور سماج کی نصف فعال افرادی قوت سماج کی خدمت میں مصروف رہے۔ اگر سماج میں عورتیں اور مرد دونوں تعلیم حاصل کریں تو تعلیم یافتہ آبادی، اس صورتحال کی دوگنی ہوگی جس میں صرف مرد تعلیم حاصل کریں۔ اگر خواتین بھی پڑھائيں تو سماج میں ٹیچروں اور معلمین کی تعداد اس صورتحال کی دوگنی ہوگی جس میں صرف مرد پڑھائیں۔ تعمیری اور اقتصادی سرگرمیوں میں، منصوبہ بندی اور غور و فکر میں، امور مملکت، شہر کے امور، گاؤں کے امور اور خاندان کے امور میں، اسٹڈی اور مطالعے میں، عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں ذمہ دار ہیں اور دونوں کو یہ امور انجام دینے چاہئیں۔
مسلمان لڑکیو اور مومن خواتین! میں یہ بھی عرض کر دوں کہ جس یورپ میں آج یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ عورت وہاں آزاد ہے، پچاس سال پہلے تک وہاں عورت کو خود اپنی ذاتی دولت میں بھی تصرف کا حق نہیں تھا۔ یعنی مثال کے طور پر اگر پچاس ساٹھ سال پہلے امریکا یا یورپ میں کسی عورت کے پاس دسیوں لاکھ کی دولت تھی تب بھی اس کو اپنی اس دولت میں سے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق خرچ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ اپنی دولت اپنے شوہر، باپ یا بھائی کے اختیار میں دیتی تھی۔ وہ اپنی مرضی سے اس دولت کو اس عورت پر یا خود اپنے اوپر خرچ کرتے تھے۔ اسلام میں ایسا نہیں ہے۔ اسلام میں عورت اپنی دولت کی مالک ہے۔ شوہر راضی ہو یا راضی نہ ہو، باپ راضی ہو یا راضی نہ ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ اپنی دولت اور ثروت کو اپنی مرضی سے خرچ کر سکتی ہے اس کا کسی دوسرے سے تعلق نہیں ہے۔ اسلام کا نظریہ یہ ہے۔ عورتوں کی اقتصادی خود مختاری اور آزادی کے تعلق سے دنیا، اسلام سے تیرہ صدی پیچھے ہے۔ اسلام نے یہ بات تیرہ سو سال پہلے کہی ہے۔ لیکن یورپ میں چالیس پچاس سال اور بعض ملکوں میں تو اس سے بھی کم عرصہ پہلے عورت کو اپنی ملکیت اور دولت میں حق تصرف اور خرچ کرنے کی اجازت دینا شروع کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے بھی اسلام آگے ہے۔
تیسرا میدان خاندان ہے، یہ بھی بہت اہم ہے۔ ہم نے معنوی بلندی اور ارتقا میں خواتین کے کردار کی طرف اشارہ کیا اور ہر قسم کے سماجی امور اور سرگرمی کے بارے میں اسلام کے احکام بیان کئے۔ اس حصے میں، ہم خاندان میں خواتین کے کردار کو بیان کریں گے۔ یعنی زوجہ اور ماں کے کردار میں (اسلام میں) عورت کی حیثیت کیا ہے۔ اس منزل میں واقعی اسلام کے احکام اتنے درخشاں اور افتخارآمیز ہیں کہ ان احکام کو دیکھ کر فخر محسوس ہوتا ہے۔
ایک زوجہ اور شریک حیات کے عنوان سے مختلف مراحل میں خواتین پر اسلام نے خصوصی توجہ دی ہے۔ پہلے مرحلے میں شوہر کے انتخاب کا مسئلہ ہے۔ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورت شوہر کے انتخاب میں آزاد ہے۔ شوہر کے انتخاب کے تعلق سے کوئی بھی کسی عورت پر زبردستی کوئی بات مسلط نہیں کر سکتا۔ یعنی رشتے داروں کو چھوڑیئے، حتی عورت کا باپ اور اس کے بھائی بھی، عورت کو اپنی پسند کے کسی مرد سے شادی کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ان کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ یہ اسلام کا نظریہ ہے۔ البتہ اسلامی معاشرے میں، زمانہ گزرنے کے ساتھ، بعض غلط اور جاہلانہ رسومات رائج ہو گئيں۔ آج بھی بعض ملکوں میں خود ہمارے ملک میں بعض جگہوں پر جیسے ہمارے ملک کے صوبہ مرکزی کے اضلاع کے بعض علاقوں میں، خوزستان کے بعض علاقوں میں بعض دوسری جگہوں پر غلط رواج پایا جاتا ہے۔ فرض کریں، جیسا کہ مجھے اطلاع ہے، بعض قبیلوں میں، ہر لڑکی کے چچازاد بھائی کو اس سے شادی کا حق ہے۔ یہ غلط ہے۔ اسلام کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیتا۔ جو کام جاہل مسلمان کرتے ہیں، ان کو اسلام سے نہیں جوڑنا چاہئے۔ یہ جاہلیت کے رواج ہیں۔ جاہل مسلمان، جاہلیت کے رسم و رواج کی بنیاد پر ایسے کام کرتے ہیں جن کا اسلام اور اس کے نورانی احکام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی کسی لڑکی کو چچازاد بھائی سے شادی پر مجبور کرتا ہے تو اس کا یہ کام غلط ہے۔ اگر کوئی کسی لڑکی کے چچا کے بیٹے کے عنوان سے اس لڑکی کو شادی سے روک دے اور یہ کہے کہ چونکہ تم نے مجھ سے شادی نہیں کی ہے، اس لئے میں تمہیں کسی سے بھی شادی کی اجازت نہیں دیتا ہوں، تو یہ چچازاد بھائی اور جو بھی اس کام میں اس کی مدد کرے وہ شریعت کی خلاف ورزی اور فعل حرام کا مرتکب ہوگا۔ یہ شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اس مسئلے میں فقہائے اسلام کی رائے میں اختلاف نہیں ہے۔
فرض کریں کہ کوئی قبیلہ کسی دوسرے قبیلے سے، اختلافات ختم کرنے کے لئے، فرض کریں کہ ان کے درمیان اختلاف، لڑائی اور خونریزی رہی ہے، اس اختلاف اور لڑائی کو ختم کرنے کے لئے یہ طے کریں کہ اس قبیلے کی ایک لڑکی کی شادی اس قبیلے میں کر دی جائے، اگر یہ کام اس لڑکی کی اجازت کے بغیر انجام دیں تو یہ شریعت کے خلاف ہے۔ البتہ اگر لڑکی کی اجازت سے یہ کام کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ کوئی لڑکی اگر خود چاہتی ہے اور اس کو دوسرے قبیلے کے کسی نوجوان سے شادی پر اعتراض نہیں ہے اور ضمنی طور پر اس شادی سے ان کے درمیان اختلاف اور تنازعہ بھی دور ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بسم اللہ! لیکن کسی لڑکی کو اس پر مجبور کریں تو شریعت اور اسلامی احکام کے خلاف ہے۔
ملاحظہ فرمائيں کہ شوہر کے انتخاب کے تعلق سے اسلامی احکام، تشکیل خاندان کے آغاز سے ہی، عورت کے حق میں ہیں۔ بعض مرد عورتوں پر ظلم اور ان کے ساتھ زیادتی کرتے تھے۔ اسلام نے اس ظلم اور زیادتی کی مخالفت کی۔ جب ازدواجی زندگی تشکیل پاتی ہے تو اس میں عورت اور مرد، دونوں ایک دوسرے کے شریک زندگی ہوتے ہیں، انھیں ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے پیش آنا چاہئے۔ نہ مرد کو عورت کے ساتھ زیادتی کا حق ہے اور نہ عورت کو مرد کے ساتھ زیادتی کا حق حاصل ہے۔ خاندان اور ازدواجی زندگی میں، عورت اور مرد کے تعلقات کے بارے میں اسلام کے احکام بہت ظریف اور دقیق ہیں۔ خداوند عالم نے عورت اور مرد کی فطرت، اسلامی معاشرے کی مصلحتوں اور عورت اور مرد کی بھلائي کے پیش نظر یہ احکام معین کئے ہیں۔
مرد صرف چند مواقع پر عورت کو حکم دے سکتا ہے اور عورت کا فرض ہے کہ اس کے حکم پر عمل کرے۔ ان میں سے ایک موقع کی میں تشریح کروں گا اور ایک دو مواقع کی تشریح نہیں کروں گا۔ وہ موقع جس کی تشریح کروں گا یہ ہے کہ مرد اپنی اجازت کے بغیر عورت کو گھر سے نکلنے سے روک سکتا ہے، البتہ اگر عقد کے وقت اس سلسلے میں کوئی شرط نہ رکھی گئی ہو تو۔ اگر کوئی شرط نہ ہو تو مرد عورت کو روک سکتا ہے۔ یہ احکام الہی کے باریک رموز میں سے ہے۔ یہ حق صرف شوہر کو دیا گیا ہے۔ حتی باپ کو بھی یہ حق نہیں دیا گیا ہے۔ باپ اپنی بیٹی کا یہ فرض معین نہیں کر سکتا کہ جب بھی گھر سے نکلنا ہو تو اس سے اجازت لے۔ باپ کو یہ حق نہیں ہے۔ بھائی کو بہن کے سلسلے میں یہ حق نہیں ہے۔ لیکن شوہر کو زوجہ کے تعلق سے یہ حق دیا گیا ہے۔ لیکن عورتیں عقد کے وقت، شادی کے لئے بعض شرائط رکھ سکتی ہیں۔ ان شرائط پر عمل کرنا عورت اور مرد دونوں کا فریضہ ہے۔ بنابریں اگر شرط رکھ لی ہے (کہ زوجہ کو جب وہ چاہے گھر سے نکلنے کی اجازت ہوگی) تو اور بات ہے۔ لیکن پہلے درجے میں یہی حکم ہے۔ ( یعنی عورت شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی۔) ایک دو مواقع اور ہیں جہاں عورت کے لئے شوہر کی اطاعت لازمی ہے۔
یہ احکام عورت اور مرد کی فطرت کی وجہ سے ہیں۔ عورت اور مرد دونوں میں سے ہر ایک کی خاص فطرت ہے۔ خاندان میں مرد کے کام اور جذبے کی توقع عورت سے نہیں رکھنی چاہئے۔ عورت کے کام اور جذبے کی توقع مرد سے نہیں رکھنی چاہئے۔ دونوں میں سے ہر ایک کی فطرت اور جذبات کی خصوصیات الگ الگ ہیں۔ بشریت، معاشرے اور سماجی نظام کی بھلائی اس میں ہے کہ خاندان کے اندر عورت اور مرد کے روابط میں ان کے مزاج اور فطرت کی خصوصیات کا پوری طرح خیال رکھا جائے۔ اگر خیال رکھا گیا تو دونوں کی خوش قسمتی اور کامیابی کے اسباب فراہم ہوں گے۔ لیکن ان میں سے کسی کو بھی دوسرے پر ظلم کرنے، زیادتی کرنے اور اس کو اپنا خدمتگار سمجھنے کا حق نہیں ہے۔ بعض مرد یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کا فریضہ ہے کہ ان کے سارے کام انجام دے۔ البتہ خاندان کے اندر عورت اور مرد جو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، خوشی اور شوق سے ایک دوسرے کے کام کرتے ہیں؛ لیکن خوشی سے کام کرنے کی بات اور ہے اور اگر کوئی یہ احساس کرے یا اس طرح عمل کرے کہ جیسے عورت کا فریضہ ہے کہ خدمتگار کی طرح مرد کی خدمت کرے، اس کی بات اور ہے۔ اسلام میں یہ نہیں ہے۔
گھر کے اندر عورتوں کے جملہ فرائض میں سے ایک اولاد کی تربیت ہے۔ جو خواتین باہر کام کرنے کی وجہ سے بچہ پیدا کرنے سے گریز کرتی ہیں، وہ اپنی بشری فطرت کے خلاف عمل کر رہی ہیں۔ خدا اس سے راضی نہیں ہے۔ جو خواتین بچوں کو ان کی تربیت، انھیں دودھ پلانے اور اپنی آغوش محبت میں ان کی پرورش کو ان کاموں کی وجہ سے جن کا ان کی ذات پر بہت زیادہ انحصار نہیں ہے، چھوڑ دیتی ہیں، وہ غلطی کرتی ہیں۔ بچوں کی تربیت کی بہترین روش یہ ہے کہ ماں کی آغوش اور اس کی محبت کے سائے میں ان کی پرورش ہو۔ جو خواتین اپنے بچوں کو اس نعمت الہی سے محروم کر دیتی ہیں، وہ غلطی کرتی ہیں۔ یہ کام بچوں کے نقصان میں بھی ہے اور خود ان کے اور سماج کے نقصان میں بھی ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ عورت کا سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ اپنے بچوں کی محبت کے ساتھ صحیح تربیت کرے اور اس طرح ان کی پرورش کرے کہ چاہے وہ بیٹیاں ہوں یا بیٹے، جب بڑے ہوں تو نفسیاتی لحاظ سے صحیح و سالم انسان ہوں، ان میں بغض و کینہ نہ ہو، کوئی نفسیاتی پریشانی نہ ہو، ذلت، حقارت، غربت اور فرمائیگی کا احساس نہ ہو اور ان مصیبتوں سے محفوظ ہوں جن میں آج مغرب، یورپ اور امریکا کے نوجوان مبتلا ہیں۔
عزیزخواتین! آپ ملاحظہ فرمائيں کہ مغرب میں خواتین نے خاندان کو اہمیت نہیں دی ، بچوں کی تربیت کو اہمیت نہیں دی تو آج مغربی معاشروں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ امریکا اور یورپی ملکوں میں، اس مادی تمدن، بلند و بالا محلوں، ایٹمی اڈوں اور ایک سو کچھ منزلہ فلک شگاف عمارتوں کے زیر سایہ اور سائںس و ٹیکنالوجی کی اس پیشرفت و ترقی میں، امریکا اور یورپی ملکوں میں دسیوں لاکھ بگڑے ہوئے تخریب کار نوجوان موجود ہیں جو دس بارہ سال کی عمر سے ہی تخریبی کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں، چوری کرتے ہیں، قتل کرتے ہیں، اسمگلر بن جاتے ہیں، منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں، سگریٹ پیتے ہیں، چرس پیتے ہیں۔ یہ کس وجہ سے ہے؟ اس لئے ہے کہ مغرب میں عورت نے خاندان کو اہمیت نہیں دی۔
ماضی میں مغربی عورتیں ایسی نہیں تھی۔ چالیس پچاس سال سے، خاص طور پر امریکا اور بعض یورپی ملکوں میں مغربی عورتوں کی حالت روز بروز بدتر ہوئی ہے۔ جب مغرب میں عورتوں نے اس غلط راستے پر چلنا شروع کیا تھا تو انھوں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ تیس سال، چالیس اور پچاس سال میں ان کے ملک اور سماج کی یہ حالت ہو جائےگی کہ بارہ سال کا بچہ پستول لیکر چلے گا، کھٹکے والا چاقو اپنی جیب میں رکھے گا اور نیویارک، لندن یا دوسرے مغربی شہروں کی سڑکوں کے گوشہ و کنار میں رات اور دن میں کسی بھی وقت جب بھی اس کو موقع ملےگا وہ کسی کو قتل کرنے میں ایک لمحے کے لئے بھی تامل نہیں کرےگا۔ ان کی حالت یہ ہوگئی ہے۔ جب خاندان کا شیرازہ بکھر جائے تو حالت یہ ہوجاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خاندان کو عورت ہی تشکیل دیتی ہے اور وہی اس کو چلاتی ہے۔ اس کو جان لیجئے! خاندان کی تشکیل کا بنیادی عنصر مرد نہیں، عورت ہے۔ مرد کے بغیر خاندان رہ سکتا ہے۔ یعنی اگر فرض کریں کہ کسی خاندان میں گھر کا مرد موجود نہ ہو یا مر گیا ہو تو عورت اگر عقلمند اور صاحب تدبیر ہو اور گھرداری جانتی ہو تو خاندان کو محفوظ رکھتی ہے۔ لیکن عورت اگر خاندان سے چلی جائے تو مرد کنبے کی حفاظت نہیں کر سکتا۔ بنابرین کنبے اور خاندان کی حفاظت عورت کرتی ہے۔
اسلام جو خاندان میں عورت کے کردار کو اتنی اہمیت دیتا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ عورت اگر خاندان کی پابند ہو، خاندان سے محبت کرے، بچوں کی تربیت کو اہمیت دے، اپنے بچوں کا خیال رکھے، انھیں دودھ پلائے، اپنی آغوش محبت میں ان کی پرورش کرے، ان کی فکری اور ثقافتی تربیت کے اسباب فراہم کرے، قرآنی حکایات اور سبق آموز داستانیں سنائے، احکام بتائے، جسمانی غذا کی طرح فکری اور ‍ثقافتی غذائيں بھی انھیں دے تو معاشرے کی آئندہ نسلیں سالم اور ذی فہم ہوں گی۔ یہ عورت کا کام ہے جو اس کے پڑھنے، پڑھانے، کام کرنے اور سیاست وغیرہ میں حصہ لینے کے منافی نہیں ہے۔
صدر اسلام میں (اسلام کے ابتدائی دور میں) عورت میدان جنگ میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کے ساتھ ہی جو زیادہ تر عورتوں کے ہی ذمہ تھا، حتی بعض اوقات نقاب لگا کر اس زمانے کے سخت میدان جنگ میں تلوار بھی چلاتی تھی۔ اسی کے ساتھ گھر کے اندر اپنی آغوش تربیت میں بچوں کی پرورش بھی کرتی تھی، ان کی اسلامی تربیت بھی کرتی تھی۔ اپنے حجاب کی حفاظت بھی کرتی تھی؛ اس لئے کہ یہ امور ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔ اگر کوئی صحیح توجہ کرے تو دیکھے گا کہ ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ بعض لوگ افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ چونکہ سماجی سرگرمیوں کے باعث خواتین اپنے گھر، شوہر اور بچوں کو نہیں دیکھ سکتیں اس لئے، سماجی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ بعض کہتے ہیں کہ گھر، شوہر اور بچوں کی وجہ سے سماجی امور انجام دینے کا وقت نہیں ملتا اس لئے شوہر اور بچوں کو چھوڑ دینا چاہئے۔ دونوں غلط ہیں۔ نہ اس کے لئے ان کو چھوڑنا چاہئے اور نہ ہی ان کے لئے اس کو چھوڑنا چاہئے۔ ازدواجی زندگی میں مسلمان عورت کے کچھ فرائض ہیں؛ خاندان کی بنیاد اور ستون کا کردار ادا کرنا، بچوں کی پرورش و تربیت اور نفسیاتی لحاظ سے شوہر کو تقویت پہنچانا، حوصلہ افزائی کرنا۔ ایران میں طاغوتی (شاہی) حکومت کے خلاف جدوجہد کے دور میں بہت سے جدوجہد کے میدان میں آئے لیکن عورتوں نے انھیں جدوجہد جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی؛ اس لئے کہ ان کے اندر سختیاں برداشت کرنے کی توانائي نہیں تھی اور ایثار کا جذبہ بھی نہیں تھا۔ بہت سی خواتین اس کے برعکس جدوجہد میں استقامت کے تعلق سے اپنے شوہروں کی حوصلہ افزائي کرتی تھیں۔ ان کی مدد کرتی تھیں۔ ان کی حمایت اور نفسیاتی تقویت کرتی تھیں۔
انیس سو ستتر اور اٹھہتر اناسی میں جب سڑکیں لوگوں کے اجتماعات سے بھری رہتی تھیں، خواتین نے اپنے شوہروں اور بچوں کو جدوجہد کے میدان میں بھیجنے اور مظاہروں میں حصہ لینے میں اور ان کی حوصلہ افزائی میں بنیادی کردار ادا کیا۔
انقلاب اور مسلط کردہ جنگ کے دوران ماؤں نے اپنے بچوں کو راہ اسلام و مسلمین میں بہادر اور جانباز سپاہی بنا دیا۔ خواتین نے انقلاب اور مسلط کردہ جنگ کے دوران، اپنے شوہروں کو محکم اور با استقامت مردوں میں تبدیل کر دیا۔ شوہر اور بچوں پر عورت کی تاثیر اور اس کا کردار یہ ہے۔ یہ وہ بنیادی کردار ہے جو عورت گھر کے اندر اور خاندان میں ادا کر سکتی ہے۔ یہ بہت عظیم کردار ہے اور میری نظر میں عورت کے تمام کاموں سے اہم تر ہے۔ عورت کے تمام کاموں میں سب سے اہم بچوں کی پرورش اور بڑے میدانوں میں قدم رکھنے کے لئے شوہروں کی حوصلہ افزائی ہے۔ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایران کی مسلم خواتین نے اس میدان میں بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے۔
البتہ ایران کی بہادر، صابر، محکم اور آگاہ خواتین نے انقلاب کے دوران بھی اور جنگ کے دوران بھی، محاذ پر بھی، محاذ کی پشت پناہی کے مراکز میں بھی، گھر کے اندر بھی اور مجموعی طور پر ہر جگہ اور ہر میدان میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ آج بھی سیاست کے میدان میں، ثقافت و علم کے میدان میں، انقلاب کے میدان میں، عالمی دشمنوں کے آنکھوں کے سامنے گوناگوں سرگرمیوں میں ہماری خواتین بھرپور حصہ لے رہی ہیں۔ آج آپ کے اس عظیم اجتماع کا ایک ثقافتی مفہوم بھی ہے، ایک سیاسی مفہوم بھی ہے اور ایک سماجی مفہوم بھی ہے۔ جو لوگ ہمارے ملک اور اسلامی جمہوری نظام کے امور و معاملات کا تجزیہ کرتے ہیں، جب ایسے عظیم اجتماع کو، آپ کے محکم ارادوں کو، آپ کی آگاہی اور اس ذوق و شوق کو دیکھیں گے تو ان کے اندر عظیم مملکت ایران، ایران کی عظیم الشان قوم اور اسلامی جمہوریہ کے مقدس نظام کے تئیں تعظیم اور ستائش کا جذبہ پید ہوگا۔
میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ آپ تمام خواہران و دختران عزیز، خوزستان، شہر اہواز اور اس صوبے کے دیگر شہروں اور قریوں کی محترم خواتین کے لئے توفیقات میں اضافے کی دعا کرتا ہوں۔ امید ہے کہ پرودگار عالم کا لطف و کرم آپ کے شامل حال ہوگا۔

و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ