رہبر انقلاب اسلامی نے 20 آبان 1394 ہجری شمسی مطابق 11 نومبر 2015 کو یونیورسٹیوں، ہائیر ایجوکیشن کے مراکز، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارکس اور ریسرچ سینٹرز کے سربراہوں سے ملاقات میں اسلام کی آمد سے پہلے اور بعد کے ادوار میں ایران کی علمی میراث اور تاریخ کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے، نیز معاصر تاریخ میں بالخصوص اسلامی تحریک کے دوران اور اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد یونیورسٹیوں کے کردار اور مقام و منزلت کی تشریح کرتے ہوئے جدید اسلامی تمدن کی تشکیل میں شراکت کے لئے وسیع علمی تجربات سے استفادے کے لئے یونیورسٹیوں اور علمی مراکز کی منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے استعمار اور ایٹم بم کو علم و دانش کو غلط سمت میں استعمال کئے جانے کے منفی عواقب کے دو تاریخی نمونوں سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے کہ علم و دانش کے ساتھ روحانیت و اخلاقیات بھی ضرور موجود رہیں۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ یورینیم افزودگی کا سب سے دشوار مرحلہ بیس فیصدی کے گریڈ تک کی افزودگی کا مرحلہ ہوتا ہے اور بیس فیصدی کے بعد ننانوے فیصدی کے گریڈ تک کی افزودگی آسانی کے ساتھ انجام دی جا سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا: اس مسئلے میں مغربی حکومتوں کی سراسیمگی کی یہی وجہ تھی۔ البتہ اگر انھوں نے اسی وقت تہران ری ایکٹر کے لئے ایندھن فراہم کر دیا ہوتا تو ہم 20 فیصدی کے گریڈ کی افزودگی کی طرف قدم نہ بڑھاتے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بیانات در دیدار رؤسای دانشگاه‌ها، پژوهشگاه‌ها، مراکز رشد و پارک‌های علم و فناوری
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌ (۱)
الحمد لله ربّ العالمین و صلّی الله علی محمّد و آله الطّاهرین.

برادران و خواہران عزیز خوش آمدید! یہ علم، دانشور اور یونیورسٹی سے متعلق نشست ہے اور اس حقیر کے لئے یہ بہترین اور شیریں ترین نشستوں میں سے ایک ہے۔ دونوں محترم وزرا کی رپورٹیں میں نے توجہ سے سنیں۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ ان نشستوں سے اور اس گفت و شنید سے ملک کو کچھ فائدہ پہنچا سکیں۔ یہ صرف نشست و برخاست کی حد تک محدود نہ رہے۔
علم کی اہمیت اور یونیورسٹی کی افادیت کے بارے میں ہم بہت کچھ بیان کر چکے ہیں۔ ہم نے بھی بیان کیا ہے اور دوسروں نے بھی روشنی ڈالی ہے۔ برسوں سے علم کی اہمیت اور اس کے ذیل میں یونیورسٹی کی اہمیت کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر ہاشمی صاحب نے ابھی اشارہ کیا، ہماری یہ آروز تھی کہ علم و دانش کی اہمیت اور حصول علم کی ضرورت کا احساس ملک کے اندر ایک عمومی موضوع بحث اور مہم میں تبدیل ہو جائے۔ اس وقت تقریبا ایسا ہی ماحول ہے۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
علم و دانش قومی اقتدار اور پیشرفت کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اسے مسلمہ حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا چاہئے، یہ عین حقیقت ہے۔ علم و دانش کسی بھی قوم کے لئے وقار، پیشرفت اور اقتدار کا سب سے اہم ذریعہ ہے اور یونیورسٹیاں ملک کے مستقبل کے عہدیداروں کی تربیت کا گہوارا ہیں۔ اب اس سے زیادہ اہم کون سا ادارہ ہو سکتا ہے؟ آپ ملک کے مستقبل کے عہدیداران کی تربیت کر رہے ہیں۔ اگر آپ نے بنحو احسن تربیت کی، اور مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ آپ بہترین انداز میں یہ کام انجام دیں گے، تو مستقبل میں ملک کا انتظام بہترین انداز میں چلے گا۔ لیکن اگر تربیت کا یہ کام ہم نے کما حقہ انجام نہ دیا اور کوتاہی برتی تو ظاہر ہے کہ ان کوتاہیوں کا اثر ملک کے مستقبل پر پڑے گا۔ تو یہ ہے یونیورسٹی کی اہمیت۔ البتہ یونیورسٹی کی موجودہ شکل مغرب کی دین ہے، یہ ہم سب جانتے ہیں۔ لیکن نابغہ افراد اور ممتاز صلاحیتوں کو پروان چڑھانے والے علمی مرکز کی نظر سے دیکھا جائے تو یونیورسٹی کسی طرح بھی مغربی نہیں کہی جا سکتی کیونکہ ہمارے ملک میں یہ سلسلہ ہزار سال سے جاری ہے۔ بیشک جو موجودہ شکل ہے وہ تو مغرب سے آئی ہے۔ لیکن ہمارے اس ملک میں ایسی درسگاہیں تھیں جن سے ابن سینا، فارابی، محمد بن زکریا رازی اور خوارزمی جیسی ہستیاں نکلی ہیں، ہمارے اسی ملک کے اندر۔ یہ نام جو ہم لیتے ہیں، یہ تو خیر بڑے معروف نام ہیں، ان کے علاوہ اور بھی ہزاروں غیر معروف ڈاکٹر، انجینیئر، موجد، ادیب، فلسفی اور عارف اسی ملک میں پرورش اور تربیت کے مراحل سے گزرے ہیں۔
جارج سارٹن کا میں ایک جملہ نقل کرنا چاہوں گا۔ کیونکہ اغیار جب کوئی بات کہتے ہیں تو اس پر زیادہ یقین کیا جاتا ہے، ہماری باتوں کے مقابلے میں۔ اس لئے میں یہ بات نقل کر رہا ہوں۔ ورنہ مغربی ملکوں سے تعلق رکھنے والے دوسرے افراد اور فرنگیوں کی باتیں نقل کرنا میری عادت نہیں ہے۔ جارج سارٹن جس نے 'تاریخ علم' لکھی ہے جو بہت مشہور ہے اور اس کا ترجمہ بھی چھپ چکا ہے اور لوگوں نے دیکھا بھی ہوگا، وہ کہتا ہے کہ اس تمدن میں ایرانی دانشوروں کا سب سے زیادہ کردار اور تعاون رہا ہے۔ اگر ہم فرزانہ ایرانی شخصیات کی تخلیقات کو اس مجموعے سے نکال دیں تو گویا ہم نے اس کے سب سے خوبصورت باب کو الگ کر دیا ہے۔ یہ علم و دانش کا تاریخ نگار ہے۔ میں اپنی یادداشت کے سہارے ایک اور بات نقل کرنا چاہوں گا، البتہ چونکہ بہت پہلے میں نے اسے دیکھا تھا، لہذا عبارت کے کلمات کو من و عن بیان نہیں کر سکتا۔ یہ پیئر روسو نے کہا ہے، وہ بھی علوم کا تاریخ نگار ہے، اس کی کتاب کا بھی برسوں پہلے فارسی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے اور سب کے پاس موجود بھی ہے۔ میں نے برسوں پہلے اسے پڑھا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ ایک بار اور کتاب سے رجوع کر لوں گا لیکن در اصل مجھے وقت نہیں مل پایا۔ البتہ میں نے اس کا حوالہ نوٹ کر لیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک جگہ یہ حوالہ لکھ لیا تھا کہ یہ بات کتاب میں کس جگہ پر لکھی گئی ہے۔ یہ اسی کتاب تاریخ علوم میں ہے۔ وہ ایک یورپی تاجر کی جو اطالوی یا فرانسیسی ہے، اس زمانے کی کسی علمی ہستی کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو نقل کرتا ہے۔ یہ قرون وسطی کا واقعہ ہے۔ اس سے مشورہ کرتا ہے، کہتا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنے بچے کو پڑھنے بھیجوں تاکہ عالم بن جائے! تو کس ملک میں بھیجوں، کس یونیورسٹی میں بھیجوں؟ اس شخص نے جواب دیا کہ اگر صرف 'جمع تفریق، ضرب اور تقسیم' کی حد تک پڑھانا چاہتے ہو تو یورپ کے کسی بھی اسکول میں ڈال دو، کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن اگر اس سے زیادہ چاہتے ہو تو اندلس جاؤ۔ اس زمانے میں اندلس مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ یہ اسلام کی تاریخ علم ہے۔ پہلا واقعہ ایران سے متعلق تھا اور یہ اسلام سے مربوط ہے۔ یعنی ہماری تاریخ یہ رہی ہے۔ ہمارے پاس اس طرح کی میراث موجود ہے۔ اسلامی دور میں بھی اور ایرانی فضا میں بھی۔ میں یہ بھی عرض کر دوں، البتہ اسے قوم پرستی اور نشنلسٹ جذبات پر محمول نہ کیا جائے، کہ اسلامی ممالک کے درمیان علم و دانش کی پیداوار کی بلند چوٹی ایران ہے۔ یعنی کوئی اور جگہ ایسی نہیں ہے جہاں اتنی عظیم شخصیتیں مثال کے طور پر 'کندی' جیسی شخصیات جو فلاسفہ کے درمیان اپنی مثال آپ ہیں، ایران میں کئی ایک ہیں۔ یعنی اگر ہم اسلامی تاریخ علوم کی بات کریں تب بھی اس کی بلند چوٹی ایران سے ہی منسوب ہے۔ یہ ہمارا ورثہ ہے۔ یہ ہمارا ماضی ہے۔ یہ ہماری تاریخ ہے۔
قاجاریہ اور پہلوی ادوار بھی درخشاں تاریخ کے حامل ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ، کتابیں پڑھنے والا طبقہ ہماری عصری اور ماضی قریب کی تاریخ کے بارے میں خواہ وہ قاجاریہ دور کی تاریخ ہو یا پہلوی دور کی تاریخ ہو، بہت کم اطلاعات رکھتا ہے، ان کی معلومات بہت محدود ہیں، ان میں وسعت نہیں ہے۔ تفصیلات کا عام طور پر علم نہیں ہوتا۔ قاجاریہ دور کے اواسط سے لیکر پہلوی دور تک، پہلوی دور اس درمیانی وقفے کا بدترین دور تھا، اس پورے درمیانی وقفے میں خاص وجوہات کی بنا پر اس روحانی ورثے سے استفادہ نہیں کیا گيا حالانکہ وہ دنیا میں علم و دانش کی بالیدگی کا دور تھا۔
آپ جانتے ہیں کہ ہمارا یہ دور یعنی یہی گزشتہ صدی، یہی حالیہ سو سالہ دور دنیا میں علم و دانش کے نمو اور پروان چڑھنے کا دور ہے۔ جو ملک بھی کسی مقام پر پہنچا ہے، اسی 100 سال اور 120 سال کے دوران پہنچا ہے۔ ہماری یونیورسٹی کی عمر اسی سال سے زیادہ ہے، تو ہم بھی اس عرصے میں جب مغربی اور یورپی یونیورسٹی کو اپنے ملک مین لائے تھے، اس ورثے سے استفادہ کر سکتے تھے۔ اپنے ملک کے اندر موجود صلاحیتوں، سازگار پس منظر اور استعداد و جذبے کو بروئے کار لا سکتے تھے۔ یونیورسٹی کو ایرانی رنگ میں ڈھال سکتے تھے۔ یونیورسٹی کو مقامی بنا سکتے تھے۔ ہم یہ کام کر سکتے تھے لیکن نہیں کیا۔ اس کی خاص وجوہات ہیں جن کا تعلق پہلوی حکومت اور قاجاریہ اقتدار سے ہے۔ یعنی ملک میں مغربی دانش کی آمد کے وقت اس گراں قیمت ورثے سے استفادہ نہیں کیا گيا۔ آج ہمارے ملک میں، یونیورسٹی کے ماحول میں، علمی طبقے کے اندر، خود اعتمادی، خود انحصاری، تعمیری کاموں کا جذبہ، اپنا نظریہ رکھنا، اپنی بات پیش کرنا، ایسے معتبر ریسرچ پیپر تیار کرنا کے دوسرے اسے ماخذ قرار دیں، یہ چیزیں آج ملک میں بہت عام ہیں، مگر اس وقت نہیں تھیں۔ اس زمانے میں ہم نہ تو اپنے علمی اخلاقیات سے استفادہ کر سکتے تھے اور نہ علمی ورثے کو بروئے کار لا سکتے تھے۔ ہم اپنے علمی ماحول کی اخلاقیاتی میراث اور روحانی ورثے سے استفادہ نہیں کر سکے۔ اس کی بڑی تفصیلات ہیں لیکن میں اس وقت ان تفصیلات میں نہیں جاؤں گا کہ زمانہ ماضی میں ہمارے علمی حلقے کے اندر علمی اخلاقیات کی کیا کیفیت تھی اور جب مغربی انداز ملک کے اندر آیا تو اس کے بعد علمی اخلاقیات کی کیا حالت ہوئی؟! ماضی میں شاگرد اپنے استاد کے سامنے دو زانو بیٹھتا تھا۔ اپنے استاد کی ہرگز توہین نہیں کر سکتا تھا۔ حالانکہ علمی ماحول بہت آزادانہ ہوا کرتا تھا۔ آج بھی دینی درسگاہوں میں وہی ماحول ہے۔ جب ہم درس دے رہے ہوتے ہیں تو درس میں شامل تمام شاگردوں کو علمی اعتراض کا حق ہوتا ہے۔ وہ اعتراض کرتے ہیں۔ بلند آواز میں بولتے ہیں، بحث کرتے ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسے کوئی عیب نہیں سمجھتا۔ استاد کا فرض ہوتا ہے کہ مودبانہ انداز میں جواب دے۔ یہ ماضی سے رائج ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی شاگرد استاد کے سامنے انکساری اور خاکساری کے ساتھ پیش آتا تھا۔ یہ ہمارے علمی ماضی کے اخلاقیات اور ہماری درسگاہوں کے طور طریقے رہے ہیں۔ لیکن نئے زمانے میں اسکولوں اور یونیورسٹیوں دونوں میں اپنے شاگردوں کے ہاتھوں مار کھانے والے اساتذہ کی تعداد یا شاگردوں کی چاقو زنی کا نشانہ بننے والے اور قتل ہو جانے والے اساتذہ کی تعداد کم نہیں ہے! یعنی علمی فضا کے اخلاقیات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ نہ تو ہمارا علمی ورثہ منتقل ہوا، نہ علمی توانائیاں منتقل ہوئیں اور نہ ہمارے علمی ماحول اور درسگاہوں کے اخلاقیات منتقل ہوئے۔ اس کیفیت میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔
مغربی حکومتوں نے ہماری یونیورسٹی کے لئے پہلے ہی منصوبہ بندی کر لی تھی۔ میں یہ بات جو عرض کر رہا ہوں پختہ اطلاعات اور تخمینوں کی بنیاد پر ہے۔ یہ خطابت کا نکتہ نہیں ہے۔ بکہ یہ تحقیق ہے۔ سماجیات اور عمرانیات کے مسائل کے جو محققین ہیں یا خارجہ پالیسی کے جو ماہرین ہیں، انھوں نے باقاعدہ تحقیق کی ہے۔ مغربی حکومتیں جس خطے کو تیسری دنیا کہتی ہیں، اس کے لئے منصوبہ بندی کر چکی تھیں کہ یہاں کے ملکوں میں ایسے افراد کی تربیت کرنی ہے جو ان کے اخلاقیات، ان کی روش اور ان کے طرز زندگی کے مطابق پلیں بڑھیں اور ان ملکوں کا انتظام سنبھالیں۔ یہ منصوبہ انھوں نے تیار کیا تھا۔ ہماری یونیورسٹی کے لئے بھی انھوں نے ایسی ہی منصوبہ بندی کی تھی۔ یعنی ان کی خواہش یہ تھی کہ ہماری یونیورسٹی ان تمام چیزوں کو ایران پہنچانے والے راستے کا کام کرے جو مغربی ملکوں کے پیش نظر ہوں۔ یہ تھی ان کی منشا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ یعنی ہماری یونیورسٹی عملی طور پر مغربی اہداف کی تکمیل کا ذریعہ نہیں بنی۔ یہ ہمارے ملک کی بہت اہم بات اور بڑی اہم خصوصیت ہے۔ وہ چاہتی تھیں کہ یونیورسٹی مغربی افکار اور طرز زندگی کا سرچشمہ بن جائے، انھیں کہیں کہیں تھوڑی بہت کامیابی بھی ملی، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ جو لوگ اعلی عہدوں پر تھے، خاص طور پر رضاخان کے دور میں یونیورسٹی کے قیام کے وقت، وہ ایسے افراد تھے جو مغرب اور مغربی تمدن کے شیدائی تھے۔ ان کی باتیں آپ سن بھی چکے ہیں۔ لیکن آخرکار وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ کیونکہ ایرانی تشخص نے اپنا کام کر دکھایا۔ تاریخ میں ایرانی تشخص ایک حیرت انگیز چیز ہے۔ ہمارے ملک کی منفرد خصوصیت ہے۔ اس معاملے میں بھی یہی ہوا اور ایرانی تشخص نے اپنا اثر دکھایا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یونیورسٹی کے اندر ایسے افراد موجود تھے جو دینی وضع قطع میں رہتے تھے۔ حالانکہ فریق مقابل اس کی سختی سے مخالفت کرتا تھا۔ یعنی رضاخان دینی وضع قطع کو بالکل پسند نہیں کرتا تھا۔ جن لوگوں نے ایران میں یونیورسٹی قائم کی، میں اس وقت ان افراد کے نام نہیں لینا چاہوں گا، وہ لوگ خود بھی رضاخان کی ہی فکر کے حامل تھے۔ بلکہ یہ افکار انھیں لوگوں نے رضاخان کے مغز میں بھر دئے تھے۔ یہ لوگ بالکل نہیں چاہتے تھے کہ یونیورسٹی کے اندر کوئی نماز پڑھے۔ یونیورسٹی کے اندر کوئی اللہ کا نام لے۔ لیکن یہی ہوا۔ جیسا کہ ابھی ذکر کیا گیا، اسلامی تنظیمیں تشکیل پائیں۔ یونیورسٹی کے اندر کچھ (دیندار) مسلمان استاد بھی بنے اور انھوں نے دین کی ترویج بھی کی۔ دین مخالف نظریات کا مقابلہ کیا۔ یعنی یہیں سے شروعات ہوئی۔ جیسے جیسے وقت گزرا یونیورسٹی کے اندر یہ دینی و ایمانی جذبہ قوی تر ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ سنہ 1962 کی تحریک شروع ہو گئی۔ اس موڑ پر پہنچ کر یونیورسٹی نے دینی و ایمانی ماہیت کی جانب بہت اہم پیش قدمی کی۔ حالانکہ اس زمانے میں کمیونسٹ بھی تھے۔ اس زمانے میں یونیورسٹی کے اندر کمیونسٹ اور مارکسسٹ بہت سرگرم تھے۔ مشہد میں میرا زیادہ رابطہ رہتا تھا، لہذا وہاں میں نے قریب سے دیکھا ہے۔ دوسری جگہوں پر بھی، تہران میں اور بعض دیگر شہروں میں بھی میں جاتا تھا اور طلبا سے ملتا تھا، تو وہاں بھی مارکسسٹ نظریات یونیورسٹیوں کے اندر باقاعدہ نظر آتے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ جو لوگ مارکسسٹ نظریہ رکھتے تھے وہ بھی یونیورسٹی کے اندر لگاتار نمو پانے والے اسلامی طرز فکر کے خلاف حکومت سے تعاون کر رہے تھے! ان کی کتابیں شائع ہوتی تھیں، آزادانہ بکتی تھیں۔ حالانکہ مسلمان انقلابیوں اور مسلم نوجوانوں کی کتابوں پر، خواہ وہ کتابیں ہوں جو وہ خود لکھتے تھے، جن کی تعداد بہت کم ہوتی تھی، یا وہ کتابیں ہوں جن کا وہ مطالعہ کرنا چاہتے تھے، بڑی سخت روک لگی ہوئی تھی۔ انھیں بڑی دشواری سے یہ کتابیں مل پاتی تھیں۔ اسلامی تحریک کے دوران پہلوی حکومت کی ساری توجہ اسی اسلامی تحریک پر لگی ہوئی تھی اور وہ اس کی مخالفت میں مصروف تھی۔ جبکہ مارکسسٹوں وغیرہ کے ساتھ وہ رواداری برتتی تھی۔ تو یہ مارکسسٹ بھی جوابا رواداری سے پیش آتے تھے۔ ان میں بہت سے افراد جاکر فرح پہلوی کے دفتر کے رکن بن گئے تھے! بہت سے عناصر ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے کا حصہ بن گئے اور کام کرنے لگے۔ 1950 کے عشرے کا سخت گیر بایاں محاذ 1960 کے عشرے میں حکومت کا خدمت گزار بن گیا۔ لیکن اسلامی نظریات کی جانب یونیورسٹی کا رجحان و میلان روز بروز زیادہ مستحکم، پائیدار اور عمیق ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ ہم انقلاب کی منزل تک پہنچے۔ یہ تحریک ایک اسلامی مزاحمتی تحریک تھی، جس کی جڑیں گہری تھیں، خاص نظرئے کی حامل تھی۔ مرحوم مطہری یونیورسٹی میں طلبا کے درمیان جو حالات تھے اس کا آئینہ تھے۔ اسلامی انقلاب 1979 میں کامیاب ہوا اور اس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ یعنی واقعی انقلاب کی شکل میں اسلام کی فتح اور پھر اسلام کی بنیاد پر ایک حکومت کی تشکیل نے حقیقت میں مشرق و مغرب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یونیورسٹی پر بھی اس کا اثر پڑنا تھا اور وہ پڑا۔ یونیورسٹی کے اندر سے نکلنے والے عناصر بشمول طلبا و اساتذہ کے، انقلاب کے سچے اور جاں نثار حامیوں میں شامل تھے۔ یہ ہماری یونیورسٹی کی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس وقفے کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے، کبھی بھولنا نہیں چاہئے۔ تو یہ ہے ماضی کی صورت حال۔
اس کے بعد کے ان 37 برسوں میں ہم نے بڑے نشیب و فراز دیکھے۔ بہت سے کام انجام دئے گئے۔ یونیورسٹی نے پیشرفت حاصل کی اور کبھی تنزلی بھی ہوئی۔ ایک زمانے میں گوناگوں فکری حلقے یونیورسٹی پر حکمفرما ہوئے اور یونیورسٹی میں اتار چڑھاؤ آئے۔ یہ بھی فطری ہے۔ یعنی اگر باریکی سے جائزہ لیا جائے تو یہ خلاف توقع نہیں ہے کہ جب حکومت اسلام کے اختیار میں ہو تو وہ لوگ جو اسلامی نہج پر سوچتے ہیں، ان کے اندر بھی گوناگوں رجحان اور مزاج کے افراد پیدا ہوں اور نتیجتا یونیورسٹی کے اندر گوناگوں موجیں اور لہریں پیدا ہوں۔ البتہ نظریاتی مخالفین یہاں تک کہ مارکسسٹ بھی یونیورسٹی کے اندر سرگرم ہو گئے! میں چونکہ کتابیں زیادہ پڑھتا ہوں، جو کتابیں مجھے ملتی ہیں، میں بیٹھ کر ان کا مطالعہ کرتا ہوں۔ میں نے کچھ ایسی کتابیں دیکھیں جن سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کچھ لوگ یونیورسٹی کے اندر مارکسسٹ نظرئے کو ایک بار پھر رائج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ بھی کب؟ سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد، دنیا میں مارکسزم نظرئے اور مارکسی حکومتوں کے زوال کے بعد!ظاہر ہے یہ مہم ناکام ثابت ہوئی ہے۔ یونیورسٹی نے اسے ناپسند کر دیا۔ بہرحال اس 37 سالہ دور میں یونیورسٹی گوناگوں مراحل سے گزری۔ بہر حال اس وقت یہ ہم ہیں اور یہ ہماری یونیورسٹی ہے۔
یہ دیکھنا ہوگا کہ اس یونیورسٹی سے ، جس کا یہ ریکارڈ ہے، یہ تاریخ ہے، یہ تاریخی پس منظر ہے، یہ ورثہ ہے، یہ تجربات ہیں، جس نے ان تمام مشکلات کے باوجود جو یونیورسٹی کے اندر پیش آئیں انقلاب کے دوران دشوار امتحانوں میں کامیابی حاصل کی ہے، ہم کس طرح جدید اسلامی تمدن کی تشکیل میں مدد لے سکتے ہیں؟ کیونکہ نصب العین تو یہی ہے۔ ہدف ایسی اسلامی حکمرانی کو وجود میں لانا ہے جو معاشرے کو اسلام کے مد نظر سماج میں تبدیل کر دے۔ ہم پہلے مرحلے میں اسی ہدف کے لئے تو کوشاں ہیں۔ ہم دوسرے ملکوں اور بین الاقوامی و عالمی مسائل کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ یہ ملک ایسا بن جائے جو اسلام کے مطلوبہ خطوط پر استوار ہو۔ وہ اسلامی خطوط جو ہر صاحب فکر انسان کے لئے پسندیدہ اور شیریں ہیں۔ یعنی جو بھی بیٹھ کر غور کرے اور مطالعہ کرے وہ ارمانوں کے اس اسلامی سماج کی صورت حال سے لطف اندوز ہو۔ ایسا معاشرہ جہاں علم بھی ہو، ترقی بھی ہو، عزت بھی ہو، انصاف بھی ہو، عالمی تلاطم کا سامنا کرنے کی توانائی بھی ہو، دولت بھی ہو، کچھ اس طرح کا ایک خاکہ ہے جسے ہم جدید اسلامی تمدن کہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک اس مقام پر پہنچے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی کیا کردار ادا کر سکتی ہے، اسے کیا کرنا چاہئے؟ پہلی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں یونیورسٹی کا کردار ضروری ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اسے کیا کرنا ہے؟ ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ اس منزل پر پہنچ جائیں؟ البتہ آج یہ میرا موضوع گفتگو نہیں ہے۔ کیونکہ یہ نشستوں کی بحث اور تقریر میں پیش کی جانے والی بحث نہیں ہے۔ ان چیزوں کے لئے مفصل تحقیقاتی کاموں کی ضرورت ہے۔ میں صرف یاددہانی کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری یونیورسٹی کو اس پہلو پر غور کرنا ہے۔ یونیورسٹیوں کے اعلی عہدیداران کی حیثیت سے اور ملک کے ہائیر ایجوکیشن کے اداروں کے ذمہ داران کی حیثیت سے آپ اس پر غور کریں۔ یونیورسٹیوں کی ذمہ داریوں کو اسی بنیاد پر معین کیجئے۔ اسی بنیاد پر منصوبہ بندی کیجئے کہ یونیورسٹی جس کا یہ ماضی ہے، جس کی جڑیں تاریخ میں اتنی گہرائی تک پیوست ہیں، جس نے انقلاب کے دوران بڑی کامیابی سے امتحان دئے ہیں، یہ یونیورسٹی جدید اسلامی تمدن کی تشکیل میں ایسے معاشرے اور ایسے ایران کی تعمیر میں کیا رول ادا کر سکتی ہے؟ اس پر غور کیجئے۔ یعنی تمام امور اسی محور پر انجام دیجئے۔
میں کچھ ہدایات دینا چاہوں گا۔ البتہ صاحبان نے جو رپورٹیں پیش کیں، خاص طور پر ڈاکٹر فرہادی صاحب کی جو رپورٹ تھی، ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہمارے جو بھی مطالبات اور آرزوئیں ہیں وہ یونیورسٹی کے اندر عملی جامہ پہن چکی ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عزم و ہمت موجود ہے۔ مگر ثمرات کا جائزہ لینا ہوگا۔ میں رپورٹوں کے معاملے میں رفتہ رفتہ تجربہ کار آدمی بن گیا ہوں۔ رپورٹیں صرف وہی نہیں ہوتیں جو اس حقیر کو یا کسی اعلی عہدیدار کو پیش کی جاتی ہیں۔ کچھ حاشئے بھی ہوتے ہیں، گوشہ و کنار کے متعدد مسائل بھی ہوتے ہیں جو بسا اوقات رپورٹ کے متن کو بالکل تبدیل کر سکتے ہیں۔ اگر ہمیں حقائق کا صحیح ادراک کرنا ہے تو میدان میں جاکر جائزہ لینا ہوگا۔ یعنی مثال کے طور پر آپ فرض کیجئے کہ جو رپورٹ ڈاکٹر فرہادی صاحب نے سائنس اور تحقیقات، ریسرچ اور ٹیکنالوجی پارکوں کے بارے میں اسی طرح دینی و اخلاقیاتی کاموں کے بارے میں پیش کی، انھیں چاہئے کہ جاکر زمین پر جائزہ لیں کہ یہ اہداف کس حد تک اور یہ آرزوئیں کس حد تک زمینی سطح پر عملی جامہ پہن سکی ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ بعض اوقات ایسی رپورٹیں ملتی ہیں کہ انسان ان اہداف کی تکمیل کے سلسلے میں اور ان رپورٹوں کے بارے میں شک میں پڑ جاتا ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ میرے زیادہ تر انتباہات انھیں پہلوؤں کے بارے میں ہیں۔ یہی چیزیں جو انھوں نے یا ڈاکٹر ہاشمی صاحب نے بیان کیں، یہ چیزیں بہت ضروری ہیں۔ ان پر عمل ہونا چاہئے، مگر اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ 'ہم یہ انجام دینا چاہتے ہیں، یا ' ہم نے اس کی انجام دہی کا حکم دے دیا ہے۔' یا 'رپورٹ ملی ہے کہ یہ انجام پا گیا ہے۔' اگر انسان ان رپورٹوں پر خوش ہو جائے تو بعد میں جب آنکھ کھولے گا تو وہ دیکھے گا کہ ہمارے اہداف اور زمینی حقائق کا فاصلہ تو اور بڑھ گیا ہے۔ میرے انتباہات ان چیزوں کے بارے میں ہیں۔
میں دو حصوں میں یہ ہدایات دینا چاہوں گا۔ ایک حصے میں علم و سائنس سے متعلق مسائل ہیں اور دوسرے حصے میں اخلاقی امور اور اقدار کا موضوع ہوگا جو در حقیقت انسان سازی اور افرادی قوت کی تعمیر کا موضوع ہے۔ کیونکہ افرادی قوت کی بڑی اہمیت ہے۔ کل ہمارے احباب میں سے ایک صاحب نے جو اس نشست میں بھی تشریف فرما ہیں اور انتہائی باخبر افراد میں ہیں، مجھ سے کہا کہ ہمارا ملک مستعد افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا بھر میں صف اول کے چار پانچ ملکوں میں سے ایک ہے۔ یعنی وہ ممالک جن کی آبادی ہمارے ملک سے دگنا ہے، یا ہمارے ملک کی تین گنا ہے، وہاں بھی اس تعداد میں تعلیم یافتہ افرادی قوت نہیں ہے۔ انھوں نے تین کروڑ کی تعداد بتائی۔ اب تعداد میں ممکن ہے کہ کچھ کمی بیشی ہو۔ مگر یہ چیز بہت اہم ہے۔ اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ہم اس افرادی قوت کو کس طرح سمت و جہت دینا چاہتے ہیں؟ سمت کا تعین بہت اہم ہے۔ کیونکہ اگر علم ہو لیکن سمت صحیح نہ ہو تو یہی ہوگا جو آج کی اس صاحب علم دنیا میں، اہل تحقیق اور علمی پیشرفت کی دنیا میں آج اور اس سے پہلے دیکھنے میں آیا ہے۔ آپ غور کیجئے! استعمار بہت بڑی مصیبت کی طرح ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے ملکوں پر نازل ہوا۔ کس چیز نے اس استعمار کو وجود بخشا ہے؟ علم نے۔ یورپی طاقتوں کو کامیابی ملی اور وہ دوسرے ملکوں سے چند روز پہلے ہی آٹومیٹک آتشیں ہتھیار بنا لے گئے۔ بس یہی چیز سبب بنی کہ برطانیہ جیسا ملک جو ایک دور افتادہ جزیرے میں واقع ہے، ہندوستان جیسے عظیم ملک پر مسلط ہو گیا۔ آپ جائیے نہرو (2) کی تحریر کردہ کتاب Glimpses of World History کا مطالعہ کیجئے۔ پڑھئے کہ ہندوستان پر کیا گزری۔ البتہ صرف یہی ایک کتاب نہیں ہے۔ اس موضوع پر بہت سی کتابیں ہیں۔ یہی برما، یہی ملک آج جس کا نام میانمار ہے۔ یہ دولت و ثروت کا مرکز رہا ہے۔ ایک انگریز ایک بندوق اور کمر سے لٹکے ہتھیار کی مدد سے درجنوں لوگوں کو اسیر کر لے جاتا تھا کہ اس کے لئے کام کریں۔ کیا مجال تھی کہ کوئی چوں تک کرتا۔ وہاں کاؤچو کے درخت اور انواع و اقسام کی قیمتی لکڑیاں پیدا ہوتی تھیں۔ انگریز ان سب کو لوٹ کر لے گئے۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ موجود ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ معاصر تاریخ پر اہل مطالعہ حضرات کی توجہ بہت کم مبذول ہوتی ہے۔ آپ مطالعہ کیجئے اور دیکھئے کہ ہندوستان پر استعمار کی وجہ سے کیا گزری، برما پر کیا بیتی، افریقا کے خطے میں کیا کیا ہو، لاطینی امریکا میں کیا ہوا، الجزائر میں کیا ہوا، تیونس وغیرہ میں اسی فرانس نے جو ظاہری طور پر بہت صاف ستھرا، منظم اور مرتب نظر آتا ہے، کیا کیا ہے؟ استعمار نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ اس استعمار کو کس نے وجود بخشا؟ علم و سائنس نے۔ علم کی اگر سمت درست نہ ہو تو وہی استعمار بن جاتا ہے۔ کروڑوں انسانوں کو اسی علم کے ذریعے تباہ کرکے رکھ دیا گیا۔ وہ علم جس کی سمت درست نہ ہو، وہ علم جو روحانی و اخلاقی منطق سے بے بہرہ ہو، اس کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ ہمیں ضرورت ہے اس بات کی کہ اپنے ادارے کا انتظام چلائیں، اپنے انتظامی امور دیکھیں، اپنا محاسبہ کرتے رہیں، خیال رکھیں کہ ہمارا علم بھی اسی سمت میں نہ چلا جائے۔ علم جب غلط راستے پر چل پڑے تو ایٹم بم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ اس کرہ ارض کو درجنوں دفعہ نابود کر دینے کی قوت موجود ہے۔ یعنی وہ صورت حال جس کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں قیامت کے سلسلے میں کیا ہے، آج امریکا، روس اور دیگر ملکوں نے جو ایٹم بم بنائے ہیں ان کے ذریعے وہی سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔ انسانیت کے لئے، تہذیب و تمدن کے لئے، انسان کے لئے مادیت و روحانیت کے لئے یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ سب کچھ علم کی دین ہے۔ تو علم کبھی یہ صورت بھی اختیار کر لیتا ہے۔ لہذا ہمیں اپنے علمی اداروں کے سلسلے میں بہت محتاط رہنا چاہئے اور علم و دانش کے لئے ایک نیا راستہ تعمیر کرنا چاہئے۔ وہ راستہ کیا ہے؟ وہ راستہ ہے علم و دانش کے ساتھ اخلاقی و روحانی تربیت۔ لہذا ہمارے کچھ انتباہات علم و دانش سے متعلق ہیں اور کچھ کا تعلق افرادی قوت کی اخلاقی و روحانی تعمیر و تربیت اور اخلاقیات سے ہے۔
علمی مسائل کے بارے میں میں نے کچھ نکات نوٹ کئے ہیں۔ البتہ یہ نکات میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں، پہلے بھی بارہا انھیں نکات کا ذکر کر چکا ہوں۔ صاحبان کی آج کی گفتگو میں بھی غالبا یہ نکات موجود تھے۔ لیکن پھر بھی میں تاکید کروں گا کیونکہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ انھیں بیان کرنے اور عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ ایک مسئلہ نفع بخش علم کا ہے۔ ہمیں ایسے علم کی تلاش میں رہنا چاہئے جو ملک کے لئے ضروری اور فائدہ مند ہو۔ صرف موجودہ زمانے کے لئے نہیں بلکہ دس سال بیس سال بعد کے دور کے لئے بھی مفید ہو۔ ممکن ہے کہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت بیس سال بعد پڑے تو اس کے سلسلے میں تحقیق و مطالعہ ابھی سے شروع ہو جانا چاہئے۔ اگر ہم نے آج ریسرچ کا کام انجام نہ دیا، اگر ہم نے آج خود کو آمادہ نہ کیا تو جب ضرورت کا وقت آئے گا تو ہم خالی ہاتھ ہوں گے۔ مستقبل کی ضرورتوں کی بھی نشاندہی کی جائے اور آج کی ضرورتیں بھی پوری کی جائیں۔ ابتدائی اور اعلی تعلیم، درس و تدریس کا نظام علم کی ضرورت اور علم کی منفعت پر مبنی ہونا چاہئے۔ مجھے رپورٹ ملتی ہے کہ جو تحقیقی مقالے لکھے جاتے ہیں، جن کی تعداد بہت زیادہ ہے، ان میں بہت سے مقالے ایسے ہیں جو وطن عزیز کے لئے کسی کام کے نہیں ہیں۔ یعنی تحقیقی کام ہوا ہے، ریسرچ پیپر تیار ہوا ہے، لیکن اس سے ملک کی بلکہ کسی کی کوئی ضرورت پوری نہیں ہونے والی ہے۔ یا پھر وہ مقالہ اس غیر ملکی کمپنی کے لئے مفید ہے جس کے مطالبے پر اسے لکھا گیا ہے۔ شاید خود ریسرچ پیپر تیار کرنے والے محقق کو بھی اس کا علم نہ ہو کہ اس ریسرچ پیپر کا مطالبہ کس نے کیا ہے۔ مگر اس سے کسی خاص کمپنی کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اس طرح کی تحقیق کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہاں تک کے پی ایچ ڈی کے تھیسس کے بارے میں بھی مجھے جو رپورٹ ملی ہے، البتہ میں اسے دلیل نہیں بناؤں گا اور یہ نہیں کہوں گا بالکل یہی صورت حال ہے، مگر مجھے جو رپورٹ ملی ہے اس کے مطابق اگر بہت فراخدلی سے فیصلہ کیا جائے تب بھی صرف دس فیصدی تھیسس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ملکی مسائل سے مطابقت رکھتے ہیں۔ پی ایچ ڈی کے تھیسس ملک کا خزانہ اور سرمایہ ہیں۔ تھیسس کا موضوع کیا ہو کہ ملک کو اس سے فائدہ پہنچے؟ یہ بنیادی مسئلہ ہے۔ روایتوں میں بھی 'علم نافع' پر تاکید کی گئی ہے۔ ماہ رمضان میں نشستیں ہوتی ہیں اور ہر سال ایک نشست یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے ساتھ ہوتی ہے اور اساتذہ تقریریں کرتے ہیں، مجھے یاد ہے کہ ان نشستوں میں کئی اساتذہ نے ملک کے اندر بعض تحقیقاتی کاموں کے نفع بخش نہ ہونے کی بابت خبردار بھی کیا تھا۔ میں بھی کئی بار یہ بات عرض کر چکا ہوں۔ تو سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ علمی کام آج کی ضرورتوں کے مطابق بھی ہو اور مستقبل کی ضرورتیں بھی پوری کرے۔ مستقبل کے بارے میں آپ تخمینہ لگائيے، اندازہ کیجئے کہ کن چیزوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ایٹمی انرجی کے بارے میں تین چار سال قبل بحث ہو رہی تھی۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ ہمارے پاس تو کافی مقدار میں تیل موجود ہے۔ خود امریکی بھی یہی دلیلیں دے رہے تھے۔ امریکی حکام بھی کہتے تھے کہ ایران کے پاس تو تیل کے اتنے بڑے ذخائر موجود ہیں، وہ ایٹمی انرجی حاصل کرکے کیا کرے گا؟! میں نے کہا کہ چلئے ہم مان لیتے ہیں کہ آج ایٹمی انرجی کے شعبے میں کچھ بھی نہیں کریں گے، لیکن کل اگر ہمارا تیل ختم ہو گیا تو اس وقت ہمیں کشکول لیکر ایٹمی انرجی کی بھیک مانگنی ہوگی۔ اگر ایک چیز ایسی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے اور وہ ہمارے پاس نہیں، جبکہ وہی چیز ان ملکوں کے پاس موجود ہے تو وہ ہماری درگت کر دیں گے۔ آپ نے دیکھا کہ اسی 20 فیصدی کے گریڈ تک افزودہ یورینیم کے معاملے میں انھوں نے کیا کیا؟ ہمیں 20 فیصدی کے گریڈ تک افزودہ یورینیم کی ضرورت تھی، تہران کے اسی ری ایکٹر کے لئے، اسی چھوٹے سے ری ایکٹر کے لئے جو تہران میں ہے اور نیوکلیئر میڈیسن بناتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں ضرورت تھی۔ کیونکہ ایندھن ختم ہونے کے قریب تھا۔ انھوں نے سوچا کہ یہ تو بس چند مہینے کے اندر ختم ہونے والا ہے۔ پھر کیا تھا، مغربی ملکوں نے وہ اکڑ دکھانی شروع کی، ایسی شرطیں عائد کر دیں جو واقعی شرمناک تھیں! میرے خیال میں یہ 2010 یا 2011 کی بات ہے۔ البتہ یہ پورا قضیہ ہمارے حق میں گیا۔ یعنی ہمارے نوجوانوں نے جب دیکھا کہ یہ ممالک 20 فیصدی کے گریڈ تک افزودہ یورینیم فروخت کرنے میں جس کے بدلے انھیں پیسے بھی ملنے والے ہیں، اتنے نخرے دکھا رہے ہیں، اتنا پریشان کر رہے ہیں، تو انھوں نے خود ہی یورینیم کو 20 کے گریڈ تک افزوہ کرنے کی ٹھان لی۔ وہ جی جان سے جٹ گئے اور بے تکان محنت کرکے آخرکار 20 فیصدی کے گریڈ تک یورینیم افزوہ کر لیا۔ اصلی محنت اسی 20 فیصدی کے گریڈ تک کی افزودگی میں ہے۔ یعنی یورینیم کی افزودگی کا معاملہ یہ ہے کہ خام یورینیم کو 20 فیصدی تک افزودہ کرنے میں ہی ساری محنت ہے، یہ چڑھائی چڑھنے کی مانند ہے۔ 20 فیصدی کے بعد 99 فیصدی تک کی افزودگی مسطح راستے پر آگے بڑھنے کی مانند ہے۔ یعنی جو 20 فیصدی تک پہنچ گیا اس کے لئے 50 فیصدی، 80 فیصدی اور 90 فیصدی تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مغربی ممالک سراسیمگی میں مبتلا ہو گئے۔ خیر وہ جہنم میں جائیں! اگر چاہتے تھے کہ ہم 20 فیصدی کے گریڈ تک یورینیم افزودہ نہ کریں تو یہ ایندھن ہم کو فروخت کر دیتے! میں نے کہا کہ یہ تیل جو آج ہمارے پاس ہے اگر نہ ہوتا اور ان کے پاس ہوتا اور ہمیں اس کی ضرورت ہوتی تو یہی تیل وہ ہمیں ایک ایک لیٹر کرکے بیچتے! جبکہ ہم بیرل کے حساب سے اور ٹن کے حساب سے فروخت کر رہے ہیں۔ اگر ہمیں ضرورت ہوتی اور ان سے خریدنا ہوتا تو وہ اسی سیاہ تیل کو ہمیں لیٹر کے حساب سے فروخت کرتے۔ اسی طرح اگر کبھی ہمیں ایٹمی انرجی کی ضرورت پڑ جائے، تیل ختم ہو جانے کی وجہ سے یا کوئی اور مشکل پیش آ جانے کے باعث مثلا آپ فرض کیجئے کہ تیل کی قیمت اتنی نیچے چلی جائے کہ تیل کی پیداوار اور زمین سے تیل نکالنے میں کوئی منفعت نہ رہ جائے، جیسا کہ آپ آج دیکھ رہے ہیں کہ تیل کی قیمت کتنی آسانی سے گر گئی۔ ایسا ہو جائے تو انسان کیا کرے؟! ظاہر ہے کہ تیل کی امید تو چھوڑ دینی ہوگی۔ اس وقت ہمیں ایٹمی انرجی کی ضرورت پیش آئے گی۔ تب ہم کہاں سے حاصل کریں گے؟ کون ہمیں یہ انرجی دےگا؟ ممکن ہے دس سال بعد، پندرہ سال بعد اس طرح کی صورت حال پیش آ جائے۔ ہمیں ابھی سے اس بارے میں سوچنا چاہئے۔ ہمیشہ فکر میں رہنا چاہئے۔ یعنی زمانہ حال اور مستقبل کی ضرورتیں تلاش کرتے رہئے۔ اور اس سلسلے میں نفع بخش علم ہی کام آئے گا، وہ علم جو ضرورتوں کی تکمیل کرے۔ یہ ایک اہم نکتہ تھا جسے بیان کرنا میں نے ضروری سمجھا۔
ایک اور نکتہ پیشرفت کی رفتار کا ہے۔ ان اداروں کے بارے میں جو بتایا گیا کہ وہ دنیا میں ایران کو انیسویں یا سترہویں مقام پر رکھتے ہیں، تو یہ صحیح ہے۔ یہ ادارے یہی کہتے ہیں۔ ہم علم و دانش کے میدان میں مسلسل ترقی کر رہے ہیں اور اس پر ہمیں فخر ہے۔ اگر کوئی اس کا انکار کرتا ہے تو ہمیں برا لگتا ہے کہ کیوں انکار کیا جا رہا ہے۔ ضمنا یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ بعض افراد جو یونیورسٹی سے وابستہ ہیں، افسوس کی بات ہے کہ وہ بھی یونیورسٹیوں میں جاکر طلبا کے درمیان تقریریں کرتے ہیں۔ وہ بھی اس سائنسی ترقی کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ غلط ہے! اس میں کیا غلط ہے؟ صیہونی حکومت کا تحقیقاتی مرکز ایران کی سائنسی ترقی پر اظہار تشویش کرتا ہے۔ یہ چیز ساری دنیا میں عام ہو چکی ہے، یہ بات ہم نے نہیں کہی ہے، یہ تو اس نے کہی جس پر آپ کو بڑا اعتماد ہے، صیہونی حکومت نے کہی ہے! کم از کم آپ اسی کی بات کا اعتبار کر لیجئے! جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ 'جی نہیں، یہ جو علمی و سائنسی ترقی کی باتیں کی جا رہی ہیں، صحیح نہیں ہیں۔' نہیں، بلا شبہ علمی ترقی ہو رہی ہے اور اس کی رفتار بھی اچھی ہے۔ لیکن اتنی ترقی ہو جانے کے باوجود ہم ابھی پیچھے ہیں! ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے، ہم کافی پیچھے ہیں۔ ہمیں برسوں سے پیچھے رکھا گیا۔ مثال کے طور پر امریکا میں کوئی نئی ٹیکنالوجی ہے جس پر تقریبا 130 سال یا 140 سال سے کام شروع ہوا ہے۔ امریکا کی خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد جو 1860 سے 1864 یا 65 تک چلی۔ اس وقت تک امریکی سب کچھ یورپ سے امپورٹ کرتے تھے۔ اس کے بعد سے امریکی اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے اور جدید ٹیکنالوجیوں پر انھوں نے کام کیا۔ اس طرح وہ ہم سے ڈیڑھ سو سال آگے ہیں۔ 130 یا 140 سال ہم سے آگے ہیں۔ علم و دانش کی یہی صورت ہوتی ہے۔ جب انسان ایک قدم آگے بڑھا لیتا ہے تو دوسرا قدم دگنی رفتار سے آگے بڑھتا ہے۔ میں نے بارہا مثال دی ہے، میں نے عرض کیا کہ دو لوگ ایک ساتھ راستہ طے کر رہے ہیں۔ ایک شخص کو اتفاق سے سائیکل مل جاتی ہے، ظاہر ہے کہ وہ شخص آپ سے آگے نکل جائے گا۔ آپ کے اور اس کے درمیان ایک فاصلہ ہوگا۔ سائیکل کی مدد سے آگے نکل جانے کے بعد اسے ایک گاڑی مل جاتی ہے، جبکہ آپ کو اب جاکر سائیکل ملی ہے۔ جب آپ کو سائیکل ملی ہے تو وہ گاڑی میں ہے۔ ظاہر ہے کہ گاڑی کی رفتار سائیکل سے کئی گنا زیادہ ہے۔ وہ اسی طرح آگے بڑھتا جائے گا۔ اس کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا اور یہ درمیانی فاصلہ روز بروز بڑھتا جائے گا۔ تو فاصلہ موجود ہے۔ ہمیں ترقی کی رفتار پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ ہماری ترقی کی رفتار نے دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا ہے۔ علمی و سائنسی ترقی کی ہماری یہی رفتار دیکھ کر انھوں نے کہا کہ علم و دانش کے میدان میں اسلامی جمہوریہ کی رفتار دنیا کی اوسط رفتار سے تیرہ گنا زیادہ ہے۔ تیرہ گنا! یہ صحیح بات تھی۔ البتہ مجھے نہیں معلوم کہ اب کتنی ہے، یہ میں تین چار سال پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ یہ بات انھیں بین الاقوامی اداروں نے کہی ہے، یہ ہمارا دعوی نہیں ہے۔ ہمیں اس رفتار کو قائم رکھنا چاہئے۔ اگر ہماری رفتار ٹوٹ گئی اور اس میں کمی آ گئی تو پھر کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہوگا۔ ہم پیچھے رہ جائیں گے۔ لہذا ترقی کی رفتار بہت اہمیت رکھتی ہے۔
ایک اور مسئلہ ریسرچ اور تحقیق کا ہے۔ تحقیق بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ہمارے یہاں تحقیقاتی مراکز ہیں اور اچھے مراکز ہیں، لیکن خود یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام ہونا چاہئے۔ وہاں تجربہ گاہیں قائم کی جائیں اور یونیورسٹی کی سرگرمیاں تحقیق اور ریسرچ کے محور پر انجام پائیں۔ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے کہ باہر بھی تحقیقاتی مراکز ہوں، ریسرچ سینٹر ہوں اور یونیورسٹی کے اندر بھی تجربہ گاہیں موجود رہیں۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔
ایک اور مسئلہ جامع علمی روڈ میپ کا ہے۔ بڑے نشیب و فراز کے بعد جامع علمی روڈ میپ منظور ہوا، اس کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا اور اس پر عمل آوری شروع ہوئی۔ اب اس جامع علمی روڈ میپ کے اہم اجزا کو نافذ کرنا چاہئے۔ یہ ان چیزوں کی مانند ہے کہ جن کا اندازہ اس وقت تک آپ کو نہیں ہو پاتا جب تک آپ خود میدان میں نہیں قدم رکھتے اور زمینی طور پر جائزہ نہیں لیتے کہ جامع علمی روڈ میپ پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے۔ کن سبجیکٹس کو ترجیح حاصل ہے؟ ترجیحی سبجیکٹس کے لئے طلبا کی کیا تعداد درکار ہے؟ اور جن سبجیکٹس کو ترجیح حاصل نہیں ہے ان کے لئے کس تعداد میں طلبا کی ضرورت ہے؟ یہ سب کچھ جامع علمی روڈ میپ کے ذریعے معین کیا جانا چاہئے۔ ملک کے کن خطوں میں مقامی ضرورتوں کے مطابق کن سبجیکٹس پر توجہ دی جانی چاہئے؟ اس کے لئے وزارت علوم کی جانب سے 'Spatial planning' کی ضرورت ہے۔ وزارت علوم کے پاس اپنی 'Spatial planning' ہونی چاہئے تاکہ وہ سمجھ سکے کہ کس علاقے میں یونیورسٹی کو کس چیز کی ضرورت ہے۔ وزرائے محترم جنھوں نے رپورٹیں پیش کیں اور یونیورسٹیوں کو طے شدہ مہم پر مرکوز کرنے کے بارے میں بحث کی، آپ کی یہ فکر بہت اچھی ہے۔ میں تاکید کے ساتھ کہوں گا کہ یہ کام ضرور کیا جائے! لیکن اس کام کے لئے کچھ مقدمات کی ضرورت ہے۔ دور یا نزدیک کے کسی علاقے میں، کسی صوبے میں یونیورسٹی کو مہمات کے محور پر کام کرنے پر کیسے مرکوز کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایسے موضوعات ہیں جن کی تشریح ہمیں جامع علمی روڈ میپ سے ملنی چاہئے۔
ایک چیز اور عرض کرنا چاہتا ہوں ہائیر ایجوکیشن کی کوالٹی کے تعلق سے۔ ہم نے مقدار اور تعداد کے اعتبار سے اچھی پیشرفت کی ہے، لیکن کوالٹی کے اعتبار سے خامیاں موجود ہیں۔ کوالٹی کے لئے انڈیکس کا تعین ہونا چاہئے۔ البتہ دنیا میں انڈیکس موجود ہیں۔ لیکن یہ انڈیکس ضروری نہیں ہیں کہ ہماری ضروریات کے مطابق ہوں۔ ان کے بعض انڈیکس تو اچھے ہیں، لیکن بعض انڈیکس ایسے ہیں جو ہمارے وطن عزیز کی ضرورتوں اور حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وزارت علوم کے عہدیداروں کو چاہئے کہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوالٹی کی پیشرفت کے لئے خود اپنے طور پر انڈیکس تیار کریں۔
ایک اور مسئلہ ہے جسے میں اختصار کے ساتھ عرض کروں گا، وہ ہمارے تعلیم یافتہ افراد کے روزگار کا مسئلہ ہے۔ ہمارے تعلیم یافتہ افراد کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہی یونیورسٹی اور صنعت کے درمیان رابطہ قائم کرنا ہے۔ صنعت اور یونیورسٹی کے مابین رابطہ ہونا چاہئے۔ یہ صنعت کے لئے بھی اچھا ہے، یونیورسٹی کے لئے بھی بہت اچھا ہے، یونیورسٹی کی انتظامیہ کے لئے بھی بہت اچھا ہے اور طلبا کے لئے بھی بہت مفید ہے۔ یہ چیز ابھی ہمارے ملک میں شروع نہیں ہو سکی ہے۔ جو کام انجام پائے ہیں ان کی اطلاعات مجھے ہیں اور بعض چیزوں کو ڈاکٹر فرہادی صاحب نے بھی بیان کیا۔ مثال کے طور پر دفاعی امور کے میدان میں جس سے براہ راست میرا رابطہ ہے اور مجھے معلوم ہے کہ دفاعی امور میں مختلف یونیورسٹیوں سے بڑا اچھا تعاون انجام پا رہا ہے۔ ایگریمنٹ کئے گئے ہیں، بڑا اچھا کام ہوا ہے۔ لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ میں نے دیکھا تو نہیں لیکن سنا ہے کہ پیشرفتہ ممالک میں، طلبا کے تھیسس پریزینٹیشن کے پروگراموں میں صنعتوں کے مالکان شریک ہوتے ہیں، پریزینٹیشن کو سنتے ہیں اور وہیں سے اس طالب علم سے جو اپنا تھیسس پریزینٹ کر رہا ہوتا ہے، ایگریمنٹ کر لیتے ہیں۔ یعنی فارغ التحصیل اور کام کے لئے آمادہ طالب علم کو اس طرح اچک لیتے ہیں۔ ہماری صنعتوں کو بھی اس طرف توجہ دینا چاہئے۔ اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام حکومت کے وزرا کی طرف سے اقدامات کا متقاضی ہے۔ انھیں چاہئے کہ صنعتوں کے مالکان کے ساتھ بیٹھیں، نجی سیکٹر کے صنعت کاروں کے ساتھ میٹنگ کریں، حکومتی سیکٹر سے بات کریں۔ ایسے اقدامات کریں کہ حقیقی معنی میں ملک کی صنعتوں اور یونیورسٹیوں کے درمیان ایک جامع تعاون انجام پائے۔ صرف صنعتوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ نجی اور سرکاری سیکٹر کے مختلف انتظامی شعبوں کو بھی یونیورسٹیوں میں انجام پانے والی ریسرچ کی ضرورت ہے۔ لہذا یہ کام ہر جگہ ہونا چاہئے۔ یہ بھی ایک اہم موضوع ہے۔
ایک اور مسئلہ ہے مزاحمتی معیشت میں کردار ادا کرنے کا جس کا ایک اہم ستون ہے نالج بیسڈ معیشت۔ اس بارے میں بھی بہت کچھ کہا جا چکا ہے، ابھی دوستوں نے بھی کچھ باتیں بیان کیں اور دوسرے افراد بھی بہت کچھ کہہ چکے ہیں، لیکن عملی میدان میں جو انجام پانا چاہئے اب تک انجام نہیں پا سکا ہے۔ ابھی چند روز پہلے مجھے مزاحمتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے سے متعلق اجرائی پروگرام کی رپورٹ حکومتی عہدیداروں کی طرف سے ملی ہے۔ یعنی عملی میدان میں مزاحمتی معیشت کے تعلق سے جو انجام پانا چاہئے ابھی ہم اس سے کافی دور ہیں۔ آپ یونیورسٹی کے اندر اس سلسلے میں اپنا کام کیجئے۔ یعنی واقعی آپ جائیے اور تلاش کیجئے کہ کہاں آپ کردار ادا کر سکتے ہیں اور پھر تندہی کے ساتھ اپنے حصے کا کام کیجئے۔
یہ علم و دانش سے متعلق کچھ باتیں تھیں۔ البتہ دوسرے بھی بہت سے مسائل ہیں۔ میں بارہا ان چیزوں کو بیان کر چکا ہوں اور آپ بھی جانتے ہیں، لہذا اسے دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
گفتگو کا دوسرا حصہ یونیورسٹیوں کی ثقافتی سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ کچھ لوگ ثقافتی سرگرمیوں کا مطلب کنسرٹ اور لڑکوں، لڑکیوں کی مشترکہ کیمپنگ سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس خیال میں ہیں کہ یہی کلچرل پروگرام ہے۔ کہتے ہیں کہ اسٹوڈنٹس کو خوش رہنا چاہئے! خوش ہونا تو ہر ماحول اور صنف کے لئے ضروری ہے۔ لیکن کس طرح؟ کس قیمت پر؟ لڑکوں اور لڑکیوں کے بے لگام اختلاط سے مغربی ملکوں کو کیا ملا ہے جو ہم بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ایک زمانے میں یورپ کی بڑی مثالیں دی جاتی تھیں، کہتے تھے کہ یورپ میں حجاب نہیں ہے، عورتیں اور مرد مل جل کر رہتے ہیں، جنسی ہوس بھی وہاں کنٹرول میں رہتی ہے۔ مگر آج آپ دیکھئے اور بتائیے کہ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟! کیا نفسانی ہوس کنٹرول میں آ گئی ہے یا اور بے قابو ہو گئی ہے؟ آج امریکا میں اور یورپ میں آئے دن کتنے جنسی جرائم رونما ہو رہے ہیں؟! مرد اور عورتیں صرف مخالف صنف پر اکتفا نہیں کر رہے ہیں! حالات ابھی اور بھی ابتر ہوں گے۔ اسلام نے انسان کے بارے میں اپنی شناخت کی بنیاد پر حجاب کا حکم دیا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو ممنوع قرار دیا ہے۔ اسلام ہمیں اور آپ کو پہچانتا ہے۔ اسلام اللہ کا بھیجا ہوا ہے اور اللہ ہمارا خالق ہے۔ لڑکوں لڑکیوں کی مخلوط کیمپنگ کا کیا مطلب ہے؟ کبھی مخلوط کیمپنگ، کبھی مخلوط کوہ پیمائی، کبھی غیر ملکی سفر! جی نہیں، کلچرل پروگراموں کی ماہیت کچھ اور ہے۔ اس کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے۔ یونیورسٹیوں کے عہدیداروں کو سمجھنا چاہئے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
یونیورسٹیوں کے اندر ثقافتی کام اس انداز سے انجام پانے چاہئے کہ ان کے نتیجے میں صاحب ایمان، خلیق اور انقلابی افراد تربیت پاکر نکلیں۔ ثقافتی پروگراموں سے یہ ہدف حاصل ہونا چاہئے۔ صحیح کلچرل پروگرام وہی ہے جس سے انقلابی نوجوان پیدا ہوں۔ یہ ملک انقلاب لایا ہے، اسے انقلاب کا پابند رہنا چاہئے۔ انقلاب کی فکری بنیادوں کو اپنی زندگی کے اصولوں میں شامل کر لینا چاہئے تاکہ ہم آگے بڑھ سکیں۔ ہمیں اعلی اہداف پر یقین، ملک سے محبت، حقیقی معنی میں ملک سے پیار ہونا چاہئے۔ ہمیں اسلامی نظام سے محبت ہونی چاہئے۔ ہمارے اندر سیاسی و دینی بصیرت ہونی چاہئے۔ نوجوان کے اندر دینی و سیاسی فکر کی گہرائی پیدا ہونی چاہئے۔ تاکہ چھوٹے چھوٹے شبہات سے اس کے قدموں میں لغزش پیدا نہ ہو، یا سیاسی مسائل کے سلسلے میں اس سے غلطیاں سرزد نہ ہونے لگیں۔ یہی سنہ 2009 کے فتنوں کے دوران بہت سے افراد کے قدم لڑکھڑا گئے۔ یہ برے انسان نہیں تھے۔ لیکن بہرحال بصیرت کی کمی کی وجہ سے ان کے قدم لڑکھڑا گئے۔ جب آپ ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سن رہے ہیں کہ؛ «انتخابات بهانه است، اصل نظام نشانه است» (یعنی انتخابات تو بہانہ ہے اصلی ٹارگٹ خود اسلامی نظام ہے) تو اس موقع پر آپ کو کیا کرنا چاہئے؟! آپ جو اسلامی نظام پر ایقان و اعتقاد رکھنے والے ہیں، آپ جو اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے اپنی جان نچھاور کرنے پر آمادہ ہیں، اگر ایک جماعت کو اس طرح کے نعرے لگاتے دیکھیں تو آپ کو کیا کرنا چاہئے؟ بر وقت فرائض کی طرف متوجہ نہ ہو پانا بصیرت کے فقدان کی علامت ہے۔ ایسے افراد کی تربیت ہونی چاہئے جو خود اعتمادی، جوش و خروش اور امید و نشاط سے مملو ہوں۔ بالکل بجا کہا گیا ہے کہ مایوسی سب سے بڑا خسارہ ہے۔ مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ ملک کے مستقبل کے تعلق سے امید کا جذبہ بیدار رہنا چاہئے۔ پرامید رہنے کی بات بھی ہے، مایوسی کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ کتنی توانائياں اور صلاحیتیں موجود ہیں؟! اس دن میں نے کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں کہا (3)، یہ ایک دو مہینہ پہلے کی بات ہے۔ سب سے تصدیق بھی کی۔ میں نے عرض کیا کہ جو کہتے ہیں کہ فلاں یورپی ملک کی اقتصادی شرح نمو ڈیڑھ فیصدی یا ایک فیصدی ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ جبکہ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہماری اقتصادی ترقی کی شرح آٹھ فیصد اور نو فیصد ہو، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپی ممالک اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لا چکے ہیں۔ کوئی صلاحیت ایسی نہیں ہے جو ہنوز استعمال نہ ہوئی ہو۔ جبکہ ہماری صلاحیتیں اب بھی غیر استعمال شدہ یونہی باقی ہیں۔ لہذا ہم دس فیصدی کی شرح نمو تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس گنجائش کو بھرنے کی ضرورت ہے۔ ان توانائیوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ جب ملک کے اندر اتنے وسیع پیمانے پر صلاحیتیں موجود ہیں تو یہ امید افزا بات نہیں ہے؟
ایسے افراد کی تربیت کی جانی چاہئے جو ملک کی موجودہ پوزیشن کا ادراک کر سکیں، سمجھ سکیں کہ اس وقت کیا صورت حال ہے۔ آج ساری دنیا، دوست اور دشمن سب اپنے اپنے انداز میں یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایک طاقتور ملک ہے۔ لیکن کوئی صاحب ملک کے اندر کسی جگہ جاکر تقریر کرتے ہیں کہ جناب! ہم تو کسی شمار میں ہی نہیں ہیں، ہم تو کوئی چیز ہی نہیں ہیں، ہم تو بالکل الگ تھلگ پڑے ہوئے ہیں۔ یہ احساس کمتری ہے۔ اگر اپنی ذات کی حد تک احساس کمتری ہے تو کوئی بات نہیں، پوری قوم کو کیوں اتنا کمتر سمجھا جاتا ہے؟ اسلامی جمہوری نظام اور ملک کو کمتر سمجھنے کی کیا وجہ ہے؟ یہ احساس کمتری بڑی خطرناک شئے ہے۔ احساس حقارت (بہت خطرناک ہے)۔ ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ بڑا پروقار ملک ہے، بڑا مقتدر ملک ہے، شکوے ہو رہے ہیں، اضطراب ہے کہ ایران نے اتنا اثر و رسوخ قائم کر لیا ہے، سب کچھ اپنے اختیار میں کرتا جا رہا ہے اور یہ صاحب ملک کے اندر بیٹھ کر اخبارات میں یا یونیورسٹیوں میں طلبا کے درمیان اپنی تقاریر میں فرماتے ہیں کہ نہیں، ہم تو کچھ بھی نہیں ہیں، ہم کسی شمار میں ہی نہیں ہیں!
خود مختاری پر یقین رکھنے والے افراد کی تربیت کی جانی چاہئے۔ فکری خود مختاری، سیاسی خود مختاری، ثقافتی خود مختاری اور اقتصادی خود مختاری پر یقین رکھنے والے افراد (کی تربیت کی جانی چاہئے)۔ ثقافتی پروگراموں کے ذریعے ایسے نوجوانوں کی تربیت ہو جو حقیقی معنی میں اپنے ملک کی خود مختاری پر یقین رکھتا ہو۔ جو انقلاب اور نظام کے بنیادی اصولوں کا پابند ہو، جو اسلامی ‍ثقافت پر ایمان رکھتا ہو، جو اچھی سوچ رکھتا ہو، جو جوش و جذبے سے سرشار ہو۔ اسے کہتے ہیں کلچرل پروگرام۔ ظاہر ہے کہ یہ آسان کام نہیں ہے۔ بہت دشوار کام ہے۔ اس کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
مجھے بعض یونیورسٹیوں کے بارے میں جو رپورٹیں مل رہی ہیں ان سے اس چیز کا عندیہ نہیں ملتا۔ آپ ایسا انتظام کیجئے کہ ماحول پر گرفت مومن، انقلابی، دیندار، عزت نفس کا احساس رکھنے والے اور جوش و جذبے سے سرشار نوجوانوں کی ہو۔ غلبہ اس طرح کے نوجوانوں کا ہو۔ یہ آپ کے فرائض میں شامل ہے۔
برادران و خواہران گرامی آپ توجہ رکھئے، یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد توجہ رکھیں! مجھے یونیورسٹی سے بڑا لگاؤ ہے۔ میں بہت پہلے سے یونیورسٹیوں کے سلسلے میں گہرا یقین رکھتا ہوں۔ مجھے بہت لگاؤ ہے۔ آپ یقین جانئے کہ یونیورسٹیاں اور طلبا سب سے خطرناک سازشوں کی آماجگاہ ہیں۔ اس چیز سے دشمن ہراساں ہیں کہ ہمارے یہاں یونیورسٹیاں ایسی ہوں کہ ان میں پرورش پانے والے نوجوان انقلابی جذبات کے ساتھ اور اقدامی جرئت کے ساتھ میدان عمل میں قدم رکھیں، دشمنوں کی بنائی ہوئی ریڈ لائنوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں اور ملک کو بھی بلندیوں کی سمت لے جائیں، علم و دانش کا پرچم بلند مقام پر نصب کریں، انقلابی نعروں میں نیا رنگ اور نیا جوش بھر دیں۔ ایسا نہ ہونے پائے اس کے لئے وہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں، پیسے خرچ کر رہے ہیں۔ دشمن مستقبل میں اپنا تسلط قائم کرنے اور اپنی توسیع پسندی کا راستہ ہموار کرنے میں لگے ہیں۔ استعمار کی وہ قدیمی شکل اب قابل عمل نہیں رہی ہے۔ جس چیز کو جدید استعمار کہا جاتا تھا وہ بھی رفتہ رفتہ پرانا ہو چلا ہے۔ اب وہ اس کوشش میں ہیں کہ ملکوں کے اندر فعال، ممتاز اور باہوش افراد کا طرز فکر تبدیل کر دیں تاکہ یہی افراد دشمنوں کے اہداف پورے کرنے لگیں۔ اس ہدف کے حصول کے لئے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اس کے لئے پیسے خرچ کر رہے ہیں۔ ان تشویشناک چیزوں پر توجہ دینی چاہئے۔
اقدار کی پابندی کرنے والے اچھے اساتذہ کی کمی نہیں ہے۔ خوش قسمتی سے ہزاروں کی تعداد میں مومن، انقلابی اور ہمدرد اساتذہ موجود ہیں۔ پہلے بھی تھے، مقدس دفاع کے دوران بھی تھے، لیکن آج بحمد اللہ انقلابی اور مومن اساتذہ کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ان کی قدردانی کی جانی چاہئے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اس قسم کے کاموں کی انجام دہی کی توفیق عطا فرمائے۔
اب دامن وقت میں گنجائش نہیں ہے۔ آج میں نے بہت باتیں کر ڈالیں اور آپ نے بھی خوب سنا۔ جب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ سامع دلچسپی سے ہماری بات سن رہا ہے، جیسا کہ آج آپ بحمد اللہ پوری توجہ سے سن رہے تھے، تو ایسے میں ہم بھی بس بولتے چلے جاتے ہیں۔ البتہ میں نے جو چیزیں نوٹ کی تھیں وہ بیان کی گئی باتوں سے کہیں زیادہ تھیں۔ مگر اب باقی باتوں کے لئے مزید وقت نہیں ہے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ آپ سب کو کامیابیاں عطا فرمائے، آپ کی تائید کرے، آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔ آپ کے دوش پر جو ذمہ داریاں ہیں، خواہ یونیورسٹی کے اندر اس ادارے کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے یا وزارت خانوں کے متعلقہ شعبوں کے اندر، یا ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے اندر، یا پارلیمنٹ میں یا پھر دیگر نمائندہ اداروں میں جہاں کہیں بھی جو ذمہ داریاں بھی آپ کے دوش پر ہیں، اس کی انجام دہی کے تعلق سے آپ بارگاہ خداوند میں سرخرو ہوں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله‌

۱) اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی سے قبل وزیر صحت و علاج و طبی تعلیم سید حسن قاضی زادہ ہاشمی اور وزیر علوم و تحقیقات و ٹیکنالوجی ڈاکٹر محمد فرہادی نے اپنی اپنی رپورٹ پیش کی۔
۲) آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو
۳) صدر مملکت اور کابیہ کے ارکان سے خطاب مورخہ 26 اگست 2015