رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے رضاکار فورس 'بسیج' کے ڈھائی ہزار کمانڈروں سے ملاقات میں اس ادارے کو بابرکت اور بالیدگی کی منزلیں طے کرنے والا ملت ایران کا نمائندہ ادارہ قرار دیا اور ملت ایران سے استکباری طاقتوں کی دشمنی کی روشوں کی تشریح کرتے ہوئے زور دیکر کہا کہ خود مختاری اور تشخص کی حفاظت کے لئے کوشاں محاذ کے خلاف استکباری محاذ کی حقیقی جنگ میں ملت ایران مظلومین بالخصوص شجاع ملت فلسطین اور غرب اردن کی تحریک انتفاضہ کی حمایت کے اپنے فریضے پر عمل کرے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے25 نومبر 2015 کو اپنے اس خطاب میں پانچ آذر مطابق چھبیس نومبر کے دن کی مبارک باد دی جس دن رضاکار فورس 'بسیج' کی تشکیل کا فرمان جاری ہوا تھا اور اس فرمان کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ہنرمندی اور ایک بابرکت و تخلیقی حقیقت سے تعبیر کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بعض ملکوں میں گھٹن کے ماحول میں مزاحتمی گروہوں کی تشکیل کا ماضی رہا ہے، لیکن یہ چیز کہ مزاحمتی گروہ تحریک کی فتح کے بعد بھی باقی رہیں، بالیدگی کی منزلیں طے کریں اور تعداد اور معیار کے اعتبار سے ان میں توسیع پیدا ہو، صرف رضاکار فورس 'بسیج' کا طرہ امتیاز ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عوامی رضاکار فورس 'بسیج' کی صحیح تعریف پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'بسیج' کا ادارہ عوام کے اندر سے نکلا ہے اور عوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ 'بسیجی' عوام الناس کا حصہ ہوتے ہیں جو عظیم خدائی اہداف کے لئے اور ہر تھکن سے نابلد جذبے کے ساتھ، ہر اس میدان میں جہاں ان کی ضرورت پڑے، اتر پڑتے ہیں، اپنی استعداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس راستے کے خطرات سے بھی نہیں گھبراتے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم ‌(۱)
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.

آپ برادران و خراہران عزیز نے یہاں تشریف لاکر ہمیں شرف بخشا اور اس حسینیہ کو اپنی سانسوں کی خوشبو، دلوں میں امڈتی محبت اور عزیز کمانڈروں نے اپنی تقاریر سے معطر فرمایا، رضاکار فورس کی خوشبو سے معمور کر دیا۔ رضاکار فورس کی خوشبو کو محسوس کرنا چاہئے، اس سے محظوظ ہونا چاہئے، اس حیرت انگیز اور بابرکت ادارے کی حقیقت کا صحیح طور پر ادراک کرنا چاہئے۔ رضاکار فورس کے یوم تشکیل کی سالگرہ کی آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دعا کرتا ہوں کہ آپ تمام برادران و خواہران گرامی اور آپ کی ماتحتی میں کام کرنے والے تمام افراد حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی خوشنودی کا باعث بنیں گے، آقا آپ سب سے راضی ہوں گے، آپ کے لئے دعا فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ آپ دنیا و آخرت میں اپنے دلوں کے ان مقدس انوار کے ساتھ، اپنے اس جسم و جان کے ساتھ محشور ہوں گے۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں یہاں چند باتیں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا۔ پہلی چیز یہ عرض کرنی ہے کہ رضاکار فورس ایک اختراعی حقیقت ہے، اس معنی میں نہیں کہ دیگر ممالک میں اور دوسری جگہوں پر عوامی مزاحمتی فورس تشکیل نہیں پائی، بیشک تشکیل پائی ہے، ہم اس سے واقف ہیں، لیکن دنیا کے مختلف ملکوں میں، مشرق و مغرب میں تشکیل پانے والی عوامی مزاحتمی فورس، عام طور پر گھٹن کے ماحول میں، دباؤ اور سختیوں کے حالات میں، جدوجہد کے دور میں نظر آتی ہے۔ جب جدوجہد کا مرحلہ ختم ہو جاتا ہے تو یا تو یہی گروہ اقتدار میں پہنچ جاتے ہیں، یا ان کی مدد سے دوسرے لوگوں کو اقتدار مل جاتا ہے اور یہ مزاحمتی فورس وہیں ختم ہو جاتی ہے اور یہ عوامی نیٹ ورک منتشر ہو جاتا ہے۔ دنیا میں یہی چیز رائج ہے۔ افریقا، یورپ اور ایشیا کے مختلف ملکوں میں عوام مزاحمتوں سے جو لوگ واقف ہیں، انھیں یہ حقیقت معلوم ہے۔ مثال کے طور پر الجزائر پر فرانس کے قبضے کے دوران، عوامی مزاحمتی تنظیمیں تشکیل پائیں۔ انھوں نے برسوں لڑائی لڑی۔ شاید تقریبا آٹھ دس سال جنگ چلی۔ انھوں نے بڑی سختیاں اٹھائیں، لیکن جب انقلابی حکومت تشکیل پا گئی تو پھر ان تنظیموں کا کہیں کوئی نام و نشان باقی نہیں رہا۔ ان میں بعض اقتدار میں پہنچ گئیں۔ بعض نے پارٹیاں بنا لیں، مگر ان مزاحمتی تنظیموں کا نام باقی نہیں رہا۔ اسی طرح فرانس پر جرمنی کے قبضے کے دوران مزاحمتی تنظیمیں بنی تھیں۔ لیفٹسٹ، رائٹسٹ، میانہ رو۔ سب نے خوب جنگیں بھی لڑیں۔ لیکن جب قبضہ ختم ہوا اور حکومت تشکیل پا گئی تو پھر ان مزاحمتی تنظیموں کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں رہا۔ سب ختم ہو گئیں، لوگ چلے گئے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ تنظیمیں یا تو اقتدار میں پہنچ گئیں اور اقتدار میں پہنچنے کے بعد ان مصیبتوں میں گرفتار ہو گئیں جو اقتدار سے جڑی ہوتی ہیں۔ یہ چیز اس حقیر نے بعض ملکوں میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ وہی لوگ جو محاذوں پر برسوں لڑے، زمین پر بیٹھے، گرد و خاک کی چادر اوڑھی، وہی اقتدار میں پہنچے تو اپنی حکومت کے زمانے میں انھوں نے بھی وہی رویہ اور طرز عمل اختیار کر لیا جو مثال کے طور پر ان کے اقتدار میں پہنچنے سے قبل (قابض) پرتگالی کمانڈر کا رویہ تھا۔ ان کا طور طریقہ بھی ویسا ہی ہو گیا۔ کوئی فرق نہیں رہا۔ جدوجہد کا مقصد اقتدار کا حصول تھا۔ میں نے متعدد مقامات پر خود اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے۔ حالات یہ ہو جاتے تھے کہ یہ لوگ گویا اپنی ماہیت ہی تبدیل کر لیتے تھے۔ یا پھر کچھ دوسرے لوگ اقتدار میں پہنچتے تھے اور یہ تنظیمیں سیاسی جماعتیں تشکیل دیتی تھیں۔ انھیں کچھ ملکوں میں یہ پارٹیاں موجود ہیں، ان کی جدوجہد بھی اقتدار کے حصول کی لڑائی تھی۔ اس وقت مغربی ملکوں کی جماعتوں اور انھیں کے نہج پر دنیا کے دیگر ملکوں میں سیاسی جماعتوں کا ایک ہی مقصد ہے اقتدار کا حصول۔ یعنی ایک جماعت جدوجہد کرتی ہے اس لئے کہ اسے اقتدار مل جائے۔ پھر دوسری پارٹی یہی اقتدار اپنے قبضے میں کرنے کے لئے جدوجہد میں مصروف ہو جاتی ہے۔ یعنی آج دنیا میں جن تنظیموں کو سیاسی پارٹی کہا جاتا ہے وہ اپنے نقطہ نگاہ کے مطابق کچھ خاص اعلی مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں نہیں ہیں۔ اوائل انقلاب میں ہمارے ذہنوں میں جماعت کے یہی معنی ہوا کرتے تھے۔ آج دنیا میں وہ ذہنیت نہیں ہے۔ آج اصلی ہدف یہ ہے کہ ایک گروہ تشکیل پائے جو ڈٹ کر محنت کرے اقتدار کے حصول کے لئے۔ جب اقتدار مل جائے تو پھر گزشتہ حکومت کے ڈھرے پر وہ بھی چل پڑے، کہیں کوئی بنیادی تبدیلی نہ ہو۔ مختصر یہ کہ مزاحمتی تنظیمیں فتح ملنے کے بعد منحل ہو جاتی تھیں، ناپید ہو جاتی تھیں، ختم ہو جاتی تھیں۔ یہ چیز کہ مزاحمتی تنظیمیں، پانی کے بہاؤ کی طرف، بہتی ہوئی ندی کی مانند، فتح کے بعد بھی باقی رہیں اور روز بروز ان میں شگوفائی پیدا ہو، ان کی آگاہی میں اضافہ ہو، ملک کی ضرورت کے مطابق مختلف میدانوں میں تنظیمی سطح پر شرکت کریں، تعداد اور کوالٹی کے اعتبار سے ان میں فروغ پیدا ہو، نئی نئی چیزیں حاصل کریں۔ نئے مقابلوں میں اپنا کردار ادا کریں، جیسا کہ ہماری رضاکار فورس کر رہی ہے۔ دنیا میں یہ اپنی مثال آپ ہے۔ ساری دنیا کے لئے یہ ایک نئی چیز ہے۔
یہ امام (خمینی رحمۃ اللہ) کا کارنامہ تھا۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے عوامی حلقوں کی مدد سے رضاکار فورس کی تشکیل کی۔ یہ عوام سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ رضاکار فورس یہی مختلف عوامی طبقات میں موجود افراد ہیں۔ وہی افراد جو یونیورسٹیوں میں ہیں، کھیتوں میں مصروف عمل ہیں، بازاروں میں ہیں، مختلف اداروں میں کام کرتے ہیں، رضاکار فورس کا حصہ ہیں۔ یہی لوگ رضاکار دستوں کا حصہ ہیں۔ رضاکار فورس در حقیقت افراد ملت کے درمیان سے انجام پانے والا خاص انتخاب ہے۔ یہ قوم کا نمائندہ گروہ ہے۔ یہ ہے رضاکار فورس کی ماہیت ہے۔ اس کی تشکیل امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے کی اور پھر اس میں روز بروز وسعت پیدا ہوتی گئی۔ اس کے اندر سے بڑی عجیب، عظیم اور بڑی نمایاں چیزیں نکلیں۔ پاسداران انقلاب فورس کے ہمارے بہت سے کمانڈر جو شہید ہوئے یا بحمد اللہ بقید حیات ہیں اور آپ ان کے بارے میں مبہوت کن باتیں سنتے ہیں یا تحریروں میں پڑھتے ہیں، یہ سب رضاکار فورس کے کارکن ہیں۔ یہ لوگ رضاکار فورس کے کارکن کی حیثیت سے وارد میدان ہوئے۔ ان کے لئے لازمی نہیں تھا، مگر وہ پھر بھی رضاکارانہ طور پر مقدس دفاع کے میدان میں اترے، ان کی صلاحیتیں پروان چڑھیں اور وہ مایہ ناز کمانڈر بن گئے۔ جیسے شہید باقری، شہید کاظمی، شہید بروجردی اور دوسرے بے شمار افراد۔ یہ میدان جنگ کی بات ہے۔ دوسرے میدانوں میں بھی یہی چیز نظر آئی۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں عظیم کارنامے انجام دینے والوں میں بڑی تعداد یا ماضی میں رضاکار فورس کا حصہ تھی، یا آج بھی اس فورس کے کارکنوں میں شامل ہے۔ خواہ ان کا نام رضاکار فورس کے کارکنوں کی فہرست میں شامل نہ ہو۔ مگر وہ پھر بھی خود کو رضاکار مانتے ہیں۔ یہی جوہری سائنسداں جو شہید ہو گئے؛ رضائی نژاد، احمدی روشن، شہریاری، علی محمدی اور دوسرے بہت سے افراد جنھوں نے جوہری ٹیکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی امور میں موثر کردار ادا کیا۔ یہ چیز ہم نے قریب سے دیکھی ہے۔ حقیقت میں یہ سب رضاکار ہیں۔ بسیج (رضاکار فورس) کی واضح تعریف ہے؛ وہ عام افراد جو بلند الہی اہداف کے لئے، بلند ہمتی کے ساتھ، جہاں ضرورت پڑ جائے بیچ میدان میں نظر آئیں، اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں، جو کچھ ان کے پاس ہے پیش کر دیں، اس راہ کے خطرات سے ذرہ برابر نہ ڈریں، یعنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہوں۔ ظاہر ہے یہ چیزیں زبان سے کہہ دینا آسان ہے کہ فلاں اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہے، لیکن عملی طور پر یہ کام آسان نہیں ہے۔ رضاکار وہ انسان ہے جو اس دشوار کام کے لئے، یعنی جان قربان کرنے کے لئے، بلکہ وہ چیزیں بھی نچھاور کرنے کے لئے آمادہ ہو جو اسے جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ یہ ہیں بسیج (رضاکار فورس) کے معنی۔ یہ ہمارے ملک کی انفرادی خصوصیت ہے، یہ اسلامی انقلاب کی خصوصیت ہے، اس کا تعلق اسلامی جمہوریہ سے ہے۔
رضاکار فورس کی ایک اہم خصوصیت، وسیع پیمانے پر اس کی شراکت ہے، جسے اسی طرح قائم رکھنا چاہئے، ہر جگہ؛ فوجی میدانوں میں، علم و دانش کے میدانوں میں، فن و ہنر کے میدانوں میں۔ شہید آوینی بھی ایک رضاکار ہی ہیں۔ اسی طرح آرٹ اور فنون لطیفہ کے مختلف میدانوں میں سرگرم انسان ایک رضاکار ہو سکتا ہے۔ اسی طرح سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان اور معروضی حالات میں اقتصادی میدان میں بھی (رضاکار اپنا کردار ادا کر سکتا ہے)۔ میں نے حکومتی عمائدین سے بھی سفارش کی اور کہا کہ رضاکار فورس مزاحمتی معیشت کے میدان میں تعاون کرنے اور سرگرمیاں انجام دینے کے لئے آمادہ ہے۔ البتہ رضاکار فورس اور پاسداران انقلاب فورس کے ہمارے عزیز کمانڈر بہت محتاط رہیں! اقتصادی سرگرمیوں کے میدان میں قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔
«چو گِل بسیار شد پیلان بلغزند» (۲)
اس کا خیال رہے۔ میں بعد میں بھی اس پر گفتگو کروں گا۔ دشمن کا ایک جال یہی مالیاتی و اقتصادی اور اس جیسے دیگر امور ہیں، لہذ بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ انسان ہمیشہ امتحان کی منزل میں رہتا ہے۔ اسے آپ جان لیجئے! خیر، آپ یہ بخوبی جانتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں یہ چیز بالکل واضح ہے۔ یعنی انسان اگر 'بلعم باعورا' بھی ہو جائے، کہ بارگاہ خداوندی میں جس کی دعا ہرگز رد نہیں ہوتی، جو دعا بھی وہ کرتا ہے مستجاب ہوتی ہے، اس مقام پر پہنچ جائے تب بھی، اس کے قدم ڈگمگا جانے کا اندیشہ باقی رہتا ہے، ممکن ہے اس کے قدم بھی لڑکھڑا جائیں۔ ایک راستہ ہے جس سے آپ چڑھائی چڑھ رہے ہیں۔ اس راستے سے اوپر جاتے وقت ہر لمحہ، ہر آن اور ہر قدم آپ کے سقوط کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ہر لمحہ، آپ جتنی زیادہ بلندی پر پہنچیں گے سقوط اتنا زیادہ خوفناک، خطرناک اور سخت ہوگا۔ بہت محتاط رہنا چاہئے۔ اس احتیاط کی بابت بھی میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ مختصر یہ کہ رضاکار فورس کی ان تمام میدانوں میں جس کا ہم نے ذکر کیا اور جن کا ذکر نہیں کیا مگر وہ رضاکار فورس کی سرگرمیوں کے لئے مناسب ہیں، وسیع سطح کی شرکت بھی اس ادارے کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ رضاکار فورس کی شرکت کا مطلب ہے عوام کی شراکت۔ اگر کسی جگہ رضاکار فورس موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں عوام موجود ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا؛ 'بسیج' در حقیقت ملت ایران کا نمونہ اور آئینہ ہے۔ یہ پوری قوم کا ایک نمونہ اور نشانی ہے۔ یہ موجودگی ظاہر ہے کہ اعلی اہداف اور آرزوؤں کی حفاظت کے لئے ہے، اقدار کے دفاع کے لئے ہے، انقلابی تشخص اور ملی شناخت کی حفاظت کے لئے ہے۔ اس ملت اور اس ملک کو اس کے شایان شان مقام و منزل تک پہنچانے کے لئے ہے۔ اس مقام تک جس کا تعین انقلاب کی برکت سے ہوا ہے اور قوم جس کی جانب رواں دواں ہے۔ رضاکار فورس کی شراکت اور موجودگی کا یہ مطلب ہے۔ اسے دفاع کرنا ہے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ رضاکار فورس کو دفاع کرنا ہے تو ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ کیا کہیں سے کوئی حملہ ہو رہا ہے جو دفاع کرنا ہے؟ کیا کوئی دشمن سامنے ہے جس کی مزاحمت کرنی ہے؟ یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے۔ آپ اس سوال کا جواب بخوبی جانتے ہیں۔ بیشک دشمن موجود ہے۔ یہ عیار، چالاک، وسائل سے لیس، دھوکے باز اور شیطان صفت دشمن ہے جو اس عظیم تحریک کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ وہ دشمن کون ہے؟ استکبار!
آج استکبار کا مظہر امریکا ہے، ایک زمانے میں برطانیہ ہوا کرتا تھا۔ یہ دشمن کبھی بیکار نہیں بیٹھتا، ہمیشہ مصروف رہتا ہے، دائمی طور پر اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔ جناب جنرل جعفری صاحب نے اپنی تقریر کی ابتدا میں جو تجزیہ پیش کیا وہ بالکل درست تجزیہ ہے۔ آج دنیا میں استکباری مہم سے اقدار، قومی شناخت اور خود مختاری کی مہم کا، جس کا مظہر اسلامی انقلاب یا اسلامی جمہوریہ ہے، تصادم جاری ہے۔ آج دنیا میں یہ تنازعہ چل رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دوسرے تنازعات نہیں ہیں، دوسرے جھگڑے بھی ہیں، ظاہر ہے کہیں کوئی مردار پڑا ہوگا تو اس کے لئے کتوں میں لڑائی بھی ہوگی، وہ آپس میں لڑیں گے۔ یہ تو ہے ہی، لیکن اصلی جھگڑا وہی ہے۔ اصلی محاذ اور اصلی صف آرائی وہی ہے۔ تو دشمن موجود ہے اور یہ دشمن بہت چوکنا بھی ہے۔ آج اس استکبار کا مظہر امریکا ہے، البتہ یہ استکبار کا سیاسی پہلو ہے، کیونکہ استکبار صرف سیاسی پہلو تک محدود نہیں ہے، استکبار کے مالیاتی پہلو بعض اوقات زیادہ موثر اور اہم ہو جاتے ہیں۔ جیسے یہ دنیا کی بڑی کمپنیاں ہیں جن کے پاس بہت زیادہ دولت ہے اور ان میں اکثریت کے مالک صیہونی ہیں، یہ استکباری نیٹ ورک ہے۔ یہ دائمی طور پر مصروف کار ہیں۔ یعنی در حقیقت پیسہ اور طاقت دونوں چیزیں ہیں۔ یہ جو 'زر زور اور تزویر' (بالترتیب دولت، طاقت اور عیاری) کے مثلث کی بات کہی گئی ہے بالکل بجا ہے۔ قدیم زمانے میں جب ہم کہتے تھے؛ 'زر زور تزویر' تو تزویر سے ہماری مراد ہوتی تھی دین کی آڑ لیکر اپنا کام انجام دینا۔ یعنی کچھ عناصر دین کا لبادہ اوڑھ کر آتے تھے اور میدان صاف کرتے تھے، راستہ ہموار کرتے تھے زر و زور کے لشکر کی پیش قدمی کا۔ مگر اب 'تزویر' سے مراد صرف دین کے نام پر عیاری کرنا نہیں ہے، بلکہ اس میں سیاسی عیاری بھی شامل ہو گئی ہے۔ یعنی سیاسی ادارے، سفارتی ادارے بڑی شد و مد سے عیاری، سازش اور منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ چہرے پر مسکراہٹ سجائے نمودار ہوتے ہیں، پرتپاک انداز میں آپ کی سمت لپک کر آتے ہیں اور عین اسی وقت، جیسا کہ آپ نے بعض فلموں میں دیکھا ہوگا، فریق مقابل کو گلے لگاتے ہیں اور اپنا خنجر اس کے دل میں پیوست کر دیتے ہیں۔ یعنی آج اس عیاری کے دائرے میں سیاسی اور سفارتی عیاری کا بھی اضافہ ہو گیا ہے، لہذا اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے یہ دشمنی ہے۔ یہ دشمنی مختلف شکلوں میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ ان چیزوں پر ہماری توجہ رہنی چاہئے۔ یعنی ان باتوں کو ہم بار بار دہرائیں اور مشق کریں تاکہ کبھی فراموش نہ کریں اور وہی اقدام کریں جو کرنا چاہئے۔ ہم سب کو، ملک کے سیاسی رہنماؤں کو، اعلی عہدیداران کو، آپ عزیز رضاکاروں اور دوسرے سرگرم عناصر جو کام کر رہے ہیں، فکر و تدبر میں مصروف ہیں، سب کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے۔
دشمنی کا ایک انداز یہ ہے کہ ہتھیار سے حملہ کیا جائے، بم ھماکہ کر دیا جائے، فائرنگ کر دی جائے، دہشت گرد بھیج دئے جائیں۔ دشمنی کی ایک اور قسم ہے جس میں نفسیاتی اور تشہیراتی حربے استعمال ہوتے ہیں۔ میں نے کچھ عرصے سے 'دراندازی' کا موضوع اٹھایا ہے۔ دراندازی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ ہم جب دراندازی کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ چیں بجبیں ہو جاتے ہیں کہ جناب! یہ دراندازی کا مسئلہ جماعتی مسئلہ بن گیا ہے، اس سے ایک خاص سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ مجھے ان باتوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ اس کا جماعتی مفاد کے لئے استعمال نہ کیا جائے، دراندازی کے مسئلے میں عبث بحثیں نہ کی جائیں، بے جا اور بے محل اس موضوع کو نہ اٹھایا جائے۔ لیکن یہ اہم ہے کہ جو بات بھی کی جائے اور جو اقدام بھی انجام دیا جائے، اصلی قضیئے کی جانب سے غفلت نہیں برتی جانی چاہئے۔ ہمیں ہرگز غافل نہیں ہونا چاہئے کہ دشمن دراندازی کی کوشش میں ہے۔ میں دراندازی کے بارے میں تھوڑی تشریح کرنا چاہوں گا کہ یہ دراندازی ہے کیا اور اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ اصلی ماجرا کی جانب سے غفلت نہیں برتی جانی چاہئے۔ مختلف دھڑے آپس میں ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی نہ کریں کہ جناب آپ نے جو یہ بات کہی تو آپ کی مراد یہ تھی، دوسرا کہے کہ نہیں، بلکہ تم نے جو بات کہی تھی تو تمہاری مراد یہ تھی۔ مراد جو بھی ہو، لیکن یہ خیال رہے کہ اس قضیئے کے سلسلے میں غفلت نہ ہونے پائے۔ دشمن اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے میں مصروف ہے۔
دراندازی دو طرح سے ہوتی ہے۔ ایک دراندازی کسی خاص شخص اور فرد تک محدود ہوتی ہے اور ایک دراندازی پارٹی اور دھڑے کی سطح پر ہوتی ہے۔ کسی خاص شخص کی حد تک دراندازی کی مثالیں بہت ہیں۔ مثال کے طور پر آپ فرض کیجئے کہ آپ کا ایک ادارہ ہے جس میں آپ عہدیدار ہیں۔ آپ کے اس ادارے میں دشمن کسی شخص کو ماسک پہنا کر، میک اپ کرکے بالکل الگ شکل میں بھیجتا ہے۔ آپ یہ خیال کریں گے کہ وہ آپ کا دوست ہے۔ جبکہ وہ آپ کا دوست نہیں ہے۔ وہ بھیجا گیا ہے کہ اپنا کام انجام دے۔ کبھی اس کا کام جاسوسی کرنا ہوتا ہے، یہ سب سے کمترین چیز ہے۔ یعنی سب سے کم اہمیت جاسوسی کی ہے؛ معلومات حاصل کرنا اور انھیں منتقل کرتے رہنا۔ کبھی اس کی مہم جاسوسی سے بھی بالاتر ہوتی ہے۔ وہ آپ کا فیصلہ تبدیل کر دیتا ہے۔ آپ بڑے عہدیدار ہیں، ڈائریکٹر جیسا عہدہ رکھتے ہیں، اہم فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ کوئی بڑی کارروائی انجام دینا آپ کے اختیار میں ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ یہی کارروائی کسی خاص انداز سے انجام دیں تو اس سے دشمن کو فائدہ پہنچنے کے امکانات ہوں، اب وہ آتا ہے اور ایسے حالات بنا دیتا ہے، ایسے اقدامات انجام دیتا ہے کہ آپ خود بخود کارروائی کو اسی خاص انداز میں انجام دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یعنی فیصلے کے مقدمات فراہم کر دیتا ہے۔ تمام اداروں میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ یہ چیز صرف سیاسی شعبے تک محدود نہیں ہے۔ دینی و مذہبی اداروں میں بھی یہ چیز دیکھنے میں آئی ہے۔ جناب حسن تہامی مرحوم ہمارے ملک کے بڑے علما میں سے تھے، جو بیرجند کے رہنے والے تھے۔ وہیں جاکر رہنے لگے تھے۔ بہت بڑے علما میں تھے۔ اگر وہ قم یا نجف میں سکونت پذیر ہوتے تو یقینا بڑے مراجع تقلید میں قرار پاتے۔ بڑے دانا انسان تھے۔ انھوں نے مجھے خود بتایا کہ جس زمانے میں عراق کے لوگ انگریزوں کے خلاف جنگ کر رہے تھے، یہ 1918 کی بات ہے، تقریبا سو سال پرانی بات ہے۔ مراجع تقلید میں سے کسی کے یہاں ایک خادم ہوا کرتا تھا جو بڑا اچھا انسان تھا۔ طلبہ سے بڑے تپاک سے ملتا تھا، گفتگو کا دور رہتا تھا۔ سب سے جان پہچان اور دوستی تھی۔ انھوں اس شخص کا نام بھی بتایا تھا، لیکن مجھے یاد نہیں رہا۔ انھوں نے بتایا کہ جب انگریزوں کو غلبہ حاصل ہو گیا اور وہ عراق پر قابض ہو گئے۔ سب سے آخر میں وہ نجف اشرف میں داخل ہوئے تو طلبا کو معلوم ہوا کہ یہی آدمی جو ایک عالم دین کا خادم تھا در حقیقت ایک انگریز افسر ہے! انھوں نے کہا کہ مجھے یقین نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کے بعد انھوں نے بتایا کہ حویش بازار سے میں گزر رہا تھا جو نجف کا معروف بازار ہے، تو میں نے دیکھا کہ آٹھ دس انگریز افسر اور فوجی، گھوڑے پر سوار چلے آ رہے ہیں۔ اس زمانے میں آمد و رفت کے لئے گھوڑے استعمال ہوتے تھے۔ ان کے آگے آگے ایک بڑا افسر چل رہا تھا۔ میں کنارے کھڑا ہو گيا کہ یہ لوگ گزر جائیں۔ جب یہ لوگ قریب آئے تو جو افسر آگے آگے چل رہا تھا؛ گھوڑے کے اوپر سے بولا؛ جناب سید حسن صاحب! کیسا مزاج ہے؟! اب جو میں نے دیکھا تو واقعی یہ تو وہی آدمی تھا جو ایک مرجع تقلید کا خادم ہوا کرتا تھا۔ میں اسے برسوں سے دیکھ رہا تھا۔ تو کبھی دراندازی اس طرح کی ہوتی ہے۔ شخصی اور ایک فرد کی سطح پر ہوتی ہے۔ کسی کے گھر میں پہنچ جاتے ہیں، یا کسی ادارے میں گھس جاتے ہیں۔ سیاسی اداروں میں بھی اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ آج بھی ممکن ہے کہ ایسے افراد ہوں۔ یہ بھی خطرناک چیز ہے لیکن اس سے زیادہ خطرناک نیٹ ورک اور تنظیم کی سطح کی دراندازی ہے۔ نیٹ ورک کی سطح کی دراندازی سے مراد یہ ہے کہ کسی قوم کے اندر ایک نیٹ ورک تیار کر لینا۔ پیسے کے ذریعے، اور یہیں پر پیسے اور اقتصادی امور کا کردار واضح ہوتا ہے۔ بنیادی حربے دو ہیں؛ ایک ہے پیسہ اور دوسرے جنسیات۔ کچھ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرکے، ایک جگہ جمع کرکے کوئی فرضی اور جھوٹا ہدف پیش کر دیا جاتا ہے اور بااثر افراد کو، ایسے افراد کو جو معاشرے میں اپنا خاص اثر رکھتے ہیں، انھیں اپنے مطلوبہ اہداف کی سمت کھینچا جاتا ہے۔ مطلوبہ اہداف کیا ہیں؟ مطلوبہ اہداف ہیں؛ عقائد، نظریات، اعلی مقاصد، طرز فکر اور طرز زندگی کو تبدیل کرنا۔ ایسا جال بچھاتے ہیں کہ وہ شخص جس پر کام کیا جا رہا ہے، اس طرح متاثر ہوتا ہے کہ اسی انداز میں سوچنے لگتا ہے جس انداز میں ایک امریکی سوچ رہا ہے۔ یعنی ایسے انتظامات کرتے ہیں کہ آپ جب ایک خاص معاملے پر نظر ڈالیں تو اسی انداز سے سوچیں جس انداز سے ایک امریکی سوچتا ہے۔ البتہ امریکی سیاستداں اور امریکی عوام کا معاملہ الگ الگ ہے۔ یعنی آپ اس طرح سوچنے لگیں، جس طرح سی آئی اے کا اعلی افسر سوچتا ہے اور نتیجتا آپ بھی وہی چاہیں جو اس افسر کی مرضی ہو۔ اس طرح وہ خاطر جمع ہو جاتا ہے۔ اسے نہ خود کو خطرے میں ڈالنے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ میدان میں آنے کی احتیاج ہوتی ہے، کیونکہ آپ خود اس کا کام انجام دے رہے ہیں۔ یہی ہدف ہے۔ دراندازی کا مقصد یہی ہے۔ جماعت اور نیٹ ورک کی سطح کی وسیع دراندازی کا یہی ہدف ہے۔ کسی ایک شخص تک محدود رہنے والی دراندازی کا معاملہ الگ ہوتا ہے۔ اگر دراندازی کرکے ان لوگوں پر دشمن اثر انداز ہو جائے جن کے ہاتھ میں ملک کے فیصلے ہیں، ملک کی سیاست ہے، ملک کے مستقبل کے تعلق سے جو بااثر افراد ہیں تو آپ اندازہ کر لیجئے کہ کیا نتیجہ نکلے گا؟ اعلی اہداف و مقاصد تبدیل ہو جائیں گے۔ اقدار تبدیل ہو جائیں گے۔ مطالبات بدل جائیں گے۔ نظریات دگرگوں ہو جائیں گے۔
آج جب آپ غور کرتے ہیں تو مسئلہ فسلطین کے بارے میں آپ یقین کے ساتھ یہ مانتے ہیں کہ ایک قوم پر کھلے عام ظلم ہو رہا ہے۔ اسے آپ دیکھ رہے ہیں۔ آپ کا یہ زاویہ نگاہ ہے۔ مگر جب ایک عرب فلسطینی خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اپنے گھر کے اندر حملے کا نشانہ بن رہا ہے تو وہ ایک امریکی کی نگاہ میں قابل مذمت ہے۔ آپ کی نگاہ میں وہ مظلوم ہے۔ اب اگر وہ آپ کی فکر بدلنے میں کامیاب ہو جائیں تو آپ بھی اسی امریکی کے زاوئے سے سوچیں گے اور کہیں گے کہ اسرائیل اپنے تشخص کا دفاع کر رہا ہے۔ کیا اوباما نے یہی نہیں کہا؟! اسی دوران جب یہ (صیہونی) غزہ کے عوام کے سروں پر شب و روز بم برسا رہے تھے، نہتے عوام کو، ان کے گھروں کو، ان کی زندگی کو، ان کی کھیتیوں کو، ان کے بچوں کو، ان کے اسکولوں کو، ان کے اسپتالوں کو اپنے حملوں کی آماجگاہ بنائے ہوئے تھے، اسی دوران امریکی صدر نے کہا کہ اسرائیل اپنا دفاع کر رہا ہے! یعنی یہ طرز فکر ہے! نیٹ ورک سازی ہو جاتی ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مثال کے طور پر جو شخص ایران کے اندر زندگی بسر کر رہا ہے، یا کسی اور ملک میں رہتا ہے، اس کا طرز فکر بدل کر کچھ اور ہی ہو جائے۔ یہ ہے نفوذ اور دراندازی کا مطلب۔ آپ ذرا غور کیجئے یہ کتنی خطرناک چیز ہے؟!
اس دراندازی کا نشانہ کون لوگ بنتے ہیں؟ عام طور پر اہم شخصیات، با اثر افراد، عام طور پر وہ افراد جو اہم فیصلے کرتے ہیں یا اہم فیصلوں کے مقدمات تیار کرتے ہیں۔ ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے افراد پر کام کیا جاتا ہے۔ لہذا یہ دراندازی بہت خطرناک ہے، یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ اب اگر کوئی کہتا ہے کہ صاحب! 'دراندازی کے مسئلے کو کچھ لوگ جماعتی مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔' تو یہ کہہ دینے سے اس قضیئے کی اہمیت کم نہیں ہو جائے گی۔ کوئی استعمال کرے یا نہ کرے، یہ حماقت ہے کہ کوئی اسے جماعتی مفاد کے لئے استعمال کرے۔ مگر یہ عین حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
فروعی جھگڑے اس دراندازی کا کام آسان کر دیتے ہیں۔ اس دراندازی کی تکمیل میں مددگار واقع ہونے والی چیزوں میں سے ایک ان افراد کی کردار کشی کرنا ہے جو صحیح زاویہ فکر، اصولوں اور اقدار پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اس سے دراندازی میں مدد ملتی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ جو لوگ 'بسیج' کو غلط کہتے ہیں، اس پر انتہا پسندی اور نہ جانے کس کس چیز کا الزام لگاتے ہیں، وہ عمدا دراندازی کرنے والے عناصر سے تعاون کر رہے ہیں، ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ میں یہ دعوی نہیں کرتا۔ مجھے ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ اس سے مدد پہنچ رہی ہے۔ جو لوگ مختلف جگہوں پر، الگ الگ انداز سے 'بسیج' پر انتہا پسندی کے اور دوسرے گوناگوں الزامات لگاتے رہتے ہیں، وہ در حقیقت دراندازی کی سازش کی تکمیل کا کام کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی مدد سے دراندازی کا منصوبہ مکمل ہو رہا ہے۔ کیونکہ 'بسیج' فولادی محاذوں میں سے ہے، اس محکم محاذ کو کمزور نہیں کرنا چاہئے۔
میں سفارش کروں گا، نصیحت کروں گا ان تمام افراد کو جن کے پاس پلیٹ فارم ہیں اور وہ اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے ہیں، وہ انقلاب کے بنیادی اصولوں کو، ملک کے بنیادی اقدار کو کمزور نہ کریں۔ یہ ٹھیک نہیں کہ جیسے ہی کوئی اقدار اور اصولوں کی بات کرے فورا اس پر انتہا پسندی کا الزام لگا دیا جائے۔ یا محاذ بندی اور دھڑے بندی کا الزام لگا دیا جائے۔ ایسا نہیں ہے۔ اصولوں کو غلط نہ ٹھہرائیں، انتہا پسندی کا الزام نہ لگائیں۔ انقلاب کے مسلّمہ اصولوں کا انکار نہ کریں۔ انقلاب میں کچھ مسلّمہ حقائق ہیں۔ اس انقلاب میں محکمات اور مسلّمات ہیں۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی تقاریر اور بیانوں کا بیس سے زیادہ جلدوں پر مشتمل یہ مجموعہ موجود ہے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) انقلاب کا آئینہ تھے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) انقلاب کے ترجمان تھے، انقلاب کے حقائق بیان کرنے والے تھے۔ لوگوں کو چاہئے کہ جاکر دیکھیں کہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے کن چيزوں پر تاکید فرمائی ہے۔ انقلاب کے مسلّمہ اصولوں کا انکار نہ کریں۔ یہ ان چیزوں میں ہے جن کی بڑی اہمیت ہے۔
میں رضاکار فورس کو بہت اہم مانتا ہوں۔ 'بسیج' کو حد درجہ اثر انگیز، بابرکت، اہم اور اچھے مستقبل کا ادارہ مانتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ جو کوششیں انجام دی جا رہی ہیں، جو کام انجام پا رہے ہیں، جو کردار کشی ہو رہی ہے، اس سے رضاکار فورس میں کوئی کمزوری آنے والی نہیں ہے۔ رضاکار فورس کی جڑیں ان شاء اللہ روز بروز زیادہ گہری ہوں گی۔ 'بسیج' کا ادارہ ایک زمانے میں نازک پودے کی مانند تھا، مگر آج ایک تناور درخت بن چکا ہے اور فضل پروردگار سے اس میں اور بھی بہتری آئے گی۔ مگر آپ کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ اس تناور درخت کو کوئی بیماری نہ لگنے پائے۔ یہ بات میں آپ لوگوں سے عرض کروں گا، آپ بہت محتاط رہئے۔ کبھی کچھ لوگ آری لیکر کسی تنومند درخت کو کاٹنے آتے ہیں تو انھیں روکا جا سکتا ہے۔ لیکن کبھی کوئی بیماری اس درخت کو اندر سے کھوکھلا کرنے لگتی ہے۔ اس کا علاج بہت دشوار ہوتا ہے۔
'بسیج' کی ایک ممکنہ بیماری غرور ہے۔ یہ سوچنا کہ ہم تو رضاکار ہیں، چنندہ افراد میں سے ہیں، گلدستے میں سجے پھولوں کی مانند ہیں، ہماری تعریفیں ہو رہی ہیں، ہم نے کتنی تعریفیں کیں! تو اب ہم دوسروں کی تحقیر کر سکتے ہیں۔ نہیں، یہ بیماری ہے۔ یہ مرض ہے۔ آپ جتنے بڑے ہوتے جائیں، جتنی زیادہ بلندی پر پہنچتے جائیں، آپ کے تواضع میں اتنا ہی اضافہ ہونا چاہئے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں آپ کا خضوع و خشوع اتنا ہی بڑھ جانا چاہئے۔ آپ دیکھئے کہ ہم اور آپ بھی استغفار کرتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں؛ استغفرالله ربّی و اتوب الیه آپ اس استغفار کو دیکھئے اور ایک نظر امام زین العابدین علیہ السلام کے طریقہ استغفار پر ڈالئے۔ دعا ہم بھی پڑھتے ہیں، مگر ان دعاؤں کے دوران ہمارے تضرع کو آپ دیکھئے اور پھر حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا تضرع آپ کی مناجاتوں میں دیکھئے یا امام حسین علیہ السلام کا تضرع دعائے عرفہ میں دیکھئے، یا امام زین العابدین کا تضرع صحیفہ سجادیہ میں دیکھئے۔ وہ ہستیاں کہاں ہیں اور ہم کس مقام پر ہیں! لیکن ان کا تضرع اور گریہ و زاری ہم سے ہزارہا گنا زیادہ سنجیدہ ہے۔ ان کے استغفار میں بے حد گہرائی ہے۔ اپنی اس بے مثال عظمت و مرتبت کے باوجود، اس بندگی و تقوی کے باوجود امیر المومنین علیہ السلام د‏عائے کمیل میں عذاب الہی سے اپنا خوف ظاہر کرتے ہیں۔ آپ جتنی زیادہ بلندی پر پہنچ جائيں گے۔ اللہ کے سامنے اور خلق خدا کے سامنے خود کو اتنا ہی زیادہ حقیر اور ناچیز محسوس گے۔ دعائے مکارم الاخلاق میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دوسروں کی نظر میں ہم جتنی بلندی اور رفعت حاصل کریں، اپنی نظر میں؛ اِلّا حَطَطتَنی عِندَ نَفسی مثِلَها (3) دوسروں کی نظر میں ہماری منزلت جتنی زیادہ ہو، خود اپنی نگاہ میں ہمیں خود کو اتنا ہی خاکسار تصور کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں پر اتنی ہی زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ اپنی کوتاہیوں کا اتنی ہی باریکی سے جائزہ لینا چاہئے۔ اپنی خامیوں پر اور اپنے نقائص پر اتنی ہی گہری نظر رکھنی چاہئے۔ میں اپنی بات کر رہا ہوں۔ آپ نوجوان ہم سے بہت بہتر ہیں، لیکن بہرحال کچھ نقائص باقی رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے ان نقائص پر اور زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ غرور اور خود پسندی ایک بیماری ہے۔ بہت محتاط رہئے۔ اس تصور کی بنیاد پر کہ آپ رضاکار ہیں، قربانی کے لئے تیار ہیں، جان ہتھیلی پر رکھتے ہیں، آپ کے اندر غرور نہیں پیدا ہونا چاہئے۔
ایک اور بیماری غفلت ہے۔ غرور کے نتیجے میں جو چیزیں پیش آتی ہیں، ان میں ایک یہی غفلت ہے۔ جب انسان اپنی طاقت پر، اپنی توانائیوں پر، اپنے اقدار پر غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے، گویا ایک طرح سے اطمینان ہو جاتا ہے تو وہیں وہ غفلت میں دوچار ہوتا ہے۔ آپ غافل نہ ہوئیے، غفلت میں نہ پڑئے۔ ہمیشہ آپ کی آنکھیں کھلی رہنی چاہئیں، آنکھیں جاگتی رہیں، نظر باریک بینی کی عادی رہے۔
ایک اور بیماری زندگی کے زرق و برق میں مبتلا ہو جانا ہے۔ میں اتنے ہی پر اکتفا کرنا چاہوں گا۔ یہ بھی ایک طرح کا مقابلہ ہوتا ہے۔ زندگی کی زرق و برق کی جانب دوڑنا، تجملاتی اشیاء کی سمت بھاگنا، بہتر زندگی اور زیادہ آمدنی کی جانب دوڑنا۔ دوڑنا ایک طرح کا مقابلہ ہے۔ اہل دنیا اس مقابلے میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ افراد زیادہ چالاک ہوتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں تاکہ اربوں ہڑپ لیں، دوسرے افراد اتنے زیادہ زیرک نہیں ہوتے۔ لیکن اس دوڑ میں اہل دنیا جو دنیا پرست ہیں وہی شامل ہیں۔ آپ اس دوڑ میں شامل نہ ہوئیے! آپ یہ نہ کہئے کہ فلاں کے پاس تو ہے، فلاں نے کما لیا ہے، میرے ہاتھ خالی ہیں، میرے پاس بھی ہونا چاہئے۔ نہیں، یہ صرف رضاکار فورس کے لئے ایک بیماری نہیں بلکہ ہر مومن کو پیش آنے والی آفتوں میں سے ہے۔ ہم نے بہت سے افراد کو دیکھا جو اچھے انسان تھے، ہمدردی رکھنے والے افراد تھے، مگر جب وہ دنیا کے زرق و برق میں پڑ گئے تو رفتہ رفتہ زور ٹوٹتا گیا، توانائیاں کم ہوتی گئيں، جذبات ماند پڑتے گئے، جذبات کمزور ہو جائیں تو ارادے بھی کمزور ہو جاتے ہیں۔ ارادے کمزور ہو جائیں تو اس کا اثر انسان کے عمل میں ظاہر ہونے لگتا ہے۔ وہ ختم ہوکر رہ گئے۔ یہ ہیں آفتیں۔
اس وقت عوامی رضاکار فورس کی ترجیحات کیا ہیں؟ سب سے پہلی چیز ہے تقوا و پاکیزگی، تقوی و طہارت۔ جتنے بھی 'اہل معنی' گزرے ہیں، بزرگ اہل معنی اور جن میں بعض کی خدمت میں کبھی کبھی ہم حاضر ہوتے تھے، ان کی سفارش یہی رہتی تھی کہ گناہ نہ کیجئے! بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ کون سا 'ورد' پڑھا جائے کہ جو بہت اچھا ہو اور ہم بلند مقامات تک پہنچیں؟ وہ کہتے تھے کہ سب سے پہلا 'ورد' یہ ہے کہ گناہ نہ کیجئے۔ پہلا قدم یہی ہے۔ اگر یہ انجام دے دیا گيا تو آپ کی بہت سی مشکلات، روحانی مشکلات، معنوی مشکلات اور مادی مشکلات، رفع ہو جائیں گی۔ ہم سب گناہ کی زد پر ہیں، ہمارے قدم بہک جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ بہت محتاط رہئے۔ اگر آپ اس احتیاط اور نگرانی میں کامیاب ہو گئے، تو یہی اپنے نفس کی نگرانی ہی تقوی ہے۔ تقوی جس کا قرآن میں بار بار ذکر ہوا ہے، اس سے مراد یہی ہے کہ اپنی نگرانی کیجئے کہ گناہ سرزد نہ ہو، کوئی خلاف ورزی نہ ہونے پائے۔ اللہ تعالی آپ کی مدد کرے گا۔ آپ کے قدموں کو ثبات عطا کرے گا۔ یہی احتیاط اور محاسبہ نفس رحمت خداوندی کے نزول کی تمہید بھی ہے، یہ زندگی میں برکتوں کا سبب بھی ہے۔ انسان کی زندگی، انسان کی عمر، انسان کی زندگی کے لمحات اور گھڑیاں تقوی کے نتیجے میں برکتوں سے مملو ہو جاتی ہیں۔ یہ میری پہلی سفارش ہے۔
دوسری سفارش ہے بصیرت۔ میں نے اپنی تقریروں میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا یہ جملہ بارہا نقل کیا ہے؛ الا ... وَ لا یَحمِلُ هَذَا العَلَم اِلّا اَهلُ البَصَرِ و الصَّبر (4) سب سے پہلے 'اہل بصر' یعنی وہ لوگ جن کی نظر ٹھیک ہے، جن کے اندر بصیرت ہے، جو ماحول کو سمجھتے ہیں۔ بصیرت کو مسلسل بڑھاتے رہئے۔ ہمیں داخلی منظرنامے کا ادراک ہونا چاہئے، یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اندرونی سطح پر کیا حالات ہیں۔ کون سی جگہیں ہیں جہاں انسان دشمن کی ریشہ دوانیوں کو محسوس کر رہا ہے، وہ کون سے میدان ہیں جن کے تعلق سے انسان خاطر جمع ہے اور سکون سے اپنا کام کر رہا ہے۔ بصیرت یعنی ہم دنیا میں اپنی پوزیشن سے باخبر ہوں اور یہ سمجھیں کہ ہم کس منزل پر ہیں؟
کچھ لوگوں کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنوں کو، خود کو حقیر قرار دیں، قوم کو حقارت سے دیکھیں۔ جناب ہم تو کسی شمار میں ہی نہیں ہیں! اس بات کو وہ الگ الگ انداز سے بیان کرتے ہیں۔ کسی ملک کی، کسی ملک کے عوام کی یا کسی ملک کے طرز عمل کی تعریفوں کے پل باندھنے لگتے ہیں، بڑائیاں کرتے ہیں اور ان میں بیشتر باتیں خلاف واقع ہوتی ہیں، زیادہ تر باتیں فلموں کی باتوں جیسی ہوتی ہیں۔ فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ پولیس آتی ہے اور کسی کو گرفتار کرنا چاہتی ہے تو شروع ہی میں کہہ دیتی ہے کہ ہوشیار ہو جاؤ، جو بھی کہوگے ممکن ہے تمہارے خلاف عدالت میں ثبوت کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یعنی یہ پولیس اہلکار بڑا پاک صاف آدمی ہے کہ ملزم کو جو ممکن ہے مجرم ثابت ہو، شروع ہی میں یہ نصیحت کر دیتا ہے کہ خبردار! بہت زیادہ بولنے کی کوشش نہ کرو! ورنہ عدالت میں تمہارے خلاف اسے ثبوت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ ایسی ہوتی ہے مغربی ملکوں کی پولیس؟! امریکی پولیس اس مزاج کی ہے؟ یہ صرف ہالیووڈ کی فلموں میں ہوتا ہے۔ امریکی پولیس تو پہلے ہتھکڑی پہناتی ہے، ہتھکڑی پہنا لینے کے بعد اس کی پٹائی کرتی ہے، فائرنگ کرتی ہے، قتل کر ڈالتی ہے، کسی شخص کو اس وجہ سے کہ اس کی جیب میں کھلونا بندوق تھی گولی مار کر قتل کر دیتی ہے۔ پولیس ایسی ہوتی ہے۔ فلموں میں عدالت کو، پولیس کو، حکومتی اداروں کو، اسی طرح دوسری چیزوں کو بڑی شائستہ شکل میں پیش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ تو ایک فلم ہے۔ اب کچھ لوگوں کی مقالہ نگاری کا انداز، ان کی تحریریں، ان کے بیانات، انھیں ہالیوڈ فلموں کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسروں کی وہ خوبیاں بھی بیان کریں جو ان میں موجود نہیں ہیں، انھیں بہت سجا کر پیش کرتے ہیں، تاکہ ہمارے عوام کے اندر احساس کمتری پیدا کریں! جی نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہماری قوم بڑی عظمتوں کی مالک ہے۔ بڑے امتحانات سے کامیابی کے ساتھ سرخرو ہوکر باہر نکلی ہے۔ اس نے عظیم کارنامے رقم کئے ہیں۔ ہماری قوم تو وہ عظیم قوم ہے کہ جنگ کے دوران جب دشمن فوجی کو قیدی بنا لیتی تھی تو اسے زدوکوب نہیں کرتی تھی۔ اس قیدی کو قتل نہیں کرتی تھی۔ بلکہ اس کا علاج کرتی تھی، اپنے فلاسک سے اسے پانی پلاتی تھی۔ ہمارے عوام ایسے باکردار ہیں۔ کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ سمندر سے کسی ملک کے شہری کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور اس کے جاسوس ہونے کے امکانات بھی بہت زیادہ تھے، مگر اس کے باوجود اسے نئے کپڑے دیکر وطن واپس بھیج دیا گیا ہے۔ ہمارے عوام اس مزاج کے ہیں۔ یہ ہے ان کا برتاؤ، یہ ہے ان کی مہربانی کا عالم، ان کی انصاف پسندی اور ان کی شجاعت۔ ہماری قوم تو وہ قوم ہے جس نے صدیوں کے احساس حقارت سے خود کو باہر نکالا اور عزت و وقار کی چوٹیوں پر قدم رکھے۔ ہمارا تعلق ایسی قوم سے ہے۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ مختلف ممالک، وہ ممالک جو دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمار ہوتے ہیں، آپس میں سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں یہ جائزہ لینے کے لئے کہ اسلامی مملکت ایران سے کیسے نمٹا جائے۔ ظاہر ہے یہ اس قوم کی قوت و طاقت کا ہی نتیجہ ہے۔ مادی قوت، عسکری قوت، سیاسی قوت، عقل و منطق کی قوت اور اخلاقیات کی قوت۔ البتہ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے اندر اب کوئی کمزوری باقی نہیں رہی۔ بیشک کمزوریاں بھی کافی ہیں۔ لیکن ہماری توانائياں، ہمارے باارزش کارنامے اور ہمارے روشن پہلو بھی کم نہیں ہیں۔ کچھ لوگ قوم کی تحقیر کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ کچھ لوگوں کو تو عادت سی ہو گئی ہے کہ ہمیشہ تحقیر کرتے ہیں۔ ملک کی، قوم کی، حکومت کی تحقیر کرتے ہیں۔ بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان حقائق سے باخبر ہو، حقائق کا اسے ادراک ہو، اپنی پوزیشن سے آگاہ ہو، اپنے ملک کے مقام و مرتبے سے آشنا ہو، اپنی قوم کی پوزیشن کا علم رکھتا ہو، اسلامی انقلاب کی منطق کی منزلت کو جانتا ہو، ملک میں ہمارے عظیم قائد (امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے جو 'صراط مستقیم تعمیر کیا اس کے مقام و مرتبے سے آگاہ ہو۔ انسان کو ان چیزوں کا علم ہو، اسے کہتے ہیں بصیرت۔
آمادہ رہنا، کمربستہ رہنا اور مستعد رہنا بھی اہم شرطوں میں ہے اور یہ بھی ان لازمی سفارشات میں ہے جو آپ 'رضاکار' بھائیوں اور بہنوں سے مجھے کرنی ہیں۔ آمادہ رہنا چاہئے (5)۔ بہت شکریہ، بہت شکریہ، ہم جانتے ہیں کہ آپ آمادہ ہیں (6)، اچھی بات ہے، بس کافی ہے۔ اس طرح آپ نے بھی اپنی تھکن دور کر لی (7)۔ دیر سے آپ خاموش تھے (8)، کچھ نعرے لگائے، تھکن دور ہو گئی، اب توجہ فرمائيے؛
آج دنیا میں یہ جو جھگڑا ہے، یہ ایک حقیقی تنازعہ ہے۔ متصادم فریق ایسے ہیں کہ جو انسانی اقدار سے بہت دور ہیں، بہت زیادہ دور۔ لہذا ہمارے گرد و پیش کے اسی علاقے میں جو تغیرات رونما ہو رہے ہیں ہم ان معاملات سے خود کو لا تعلق نہیں رکھ سکتے۔ سب سے پہلے فلسطین کا قضیہ ہے، مسئلہ فلسطین ہے۔ مسئلہ فلسطین کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ سرزمین فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو ساٹھ سال یا اس سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس قوم کی، ان فلسطینیوں کی کئی نسلیں گزر چکی ہیں لیکن فلسطین کے اہداف اپنی جگہ قائم ہیں، دشمن کی کوشش یہ ہے کہ فلسطین کے اہداف کو مٹا دے۔ مگر یہ اہداف بدستور باقی ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ عرب حکومتیں دوسرے امور میں اس طرح الجھی ہوئی ہیں کہ انھیں یا تو فرصت ہی نہیں یا وہ چاہتیں ہی نہیں، تکلف کی وجہ سے یا کچھ اور وجوہات کی بنا پر، امریکا اور دوسروں کی اتحادی ہونے کے باعث، کہ مسئلہ فلسطین پر توجہ دیں۔ فلسطین کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ ہم مسئلہ فلسطین سے دست بردار نہیں ہو سکتے۔ اس وقت غرب اردن میں فلسطینی عوام کی تحریک انتفاضہ شروع ہو چکی ہے۔ عوام لڑ رہے ہیں۔ استکباری تشہیراتی اداروں کا اس بارے میں فیصلہ بالکل ظالمانہ ہے۔ جس کا گھر ہڑپ لیا گیا ہے، جسے اپنے گھر کے اندر بھی جان و مال کا تحفظ حاصل نہیں ہے؛ بلڈوزر لیکر آتے ہیں گھر کو منہدم کر دیتے ہیں، وہاں (صیہونی) بستیاں تعمیر کرتے ہیں، کھیتوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ ایسا شخص جب پتھر سے حملہ کرتا ہے تو کہنے لگتے ہیں کہ یہ تو دہشت گرد ہے! لیکن وہ حکومت جس نے اس انسان کی زندگی، اس کا امن و چین، اس کی عزت و آبرو، اس کی دولت اور اس کی دنیا سب کچھ نابود کرکے رکھ دیا ہے، اس حکومت کو مظلوم کہتے ہیں، کہ وہ تو اپنا دفاع کر رہی ہے!! یہ بڑی عجیب بات ہے۔ یہ تو ہماری آج کی دنیا کا ایک عجوبہ ہے۔ ایک شخص آتا ہے اور ایک گھر غصب کر لیتا ہے۔ صاحب خانہ کو باہر نکال دیتا ہے اور اسے مسلسل ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتا ہے۔ جبکہ اس مظلوم شخص کو کہا جاتا ہے کہ تم اپنے دفاع میں کوئی اقدام نہ کرو۔ اپنا دفاع نہ کرو۔ اس مظلوم صاحب خانہ کو جس کا امن چین چھن گیا، جس کا گھر ہڑپ لیا گيا، جس کے بیوی بچے اور آبرو سب کچھ خطرے میں پڑ گیا۔ اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ تو دہشت گرد ہے!! کیا یہ معمولی بات ہے؟ کیا یہ معمولی زیادتی ہے؟ یہ چھوٹی غلطی ہے؟ کیا یہ معمولی ظلم ہے کہ جسے آسانی سے نظر انداز کر دیا جائے؟ اسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم فلسطینی عوام کی تحریک کا اپنی پوری توانائی سے اور جب تک ممکن ہوگا اور جیسے بھی ممکن ہوگا دفاع کریں گے۔
ہمارے گرد و پیش اور بھی مسائل ہیں، ان کا بھی یہی عالم ہے۔ آج جو بیشتر واقعات رونما ہو رہے ہیں، وہ ایسے مسائل ہیں کہ جن کے بارے میں ایک منصفانہ اور انسان دوستانہ فیصلہ کچھ ہوتا ہے جبکہ مغرب، وہاں کے سیاسی رہنماؤں اور تشہیراتی اداروں کا فیصلہ بالکل خباثت آمیز اور خود غرضی پر مبنی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مسئلہ بحرین، مسئلہ یمن اور مسئلہ شام ہے۔
بحرین کا مسئلہ؛ بحرین کے عوام کیا چاہتے ہیں؟ بحرین کے عوام کہتے ہیں کہ جناب اس قوم کے ہر فرد کو حکومت کے انتخاب کے سلسلے میں ایک ووٹ دینے کا حق دیا جائے۔ ہر شہری کو ایک ووٹ کا حق۔ کیا آپ (اہل مغرب) جمہوریت کی باتیں نہیں کرتے؟ کیا آپ یہ نہیں کہتے کہ ہم جمہوریت کا مظہر ہیں، ہم جمہوریت کے محافظ و پاسباں ہیں؟ اچھا! تو اس سے زیادہ واضح جمہوریت اور کیا ہوگی؟ یہ حق ان (بحرینی عوام) کو دینا تو در کنار، الٹے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، ان کی توہین کی جا رہی ہے، ان کی تحقیر ہو رہی ہے۔ ایک قوم کی اکثریت کو، یہ اکثریت ہے، جو لوگ یہ مطالبہ کر رہے ہیں، وہ ستر فیصدی، اسی فیصدی ہیں، اس اکثریت کو ظالم اقلیت جس کے پاس اقتدار ہے، ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، اس کے مقدسات کی توہین کر رہی ہے۔ اس سال محرم میں جو بھی منبر پر بیٹھا، جس نے مرثیہ خوانی کی، جس نے عزاداری کے علم اٹھائے، جس نے تقریر کی اس کے خلاف کارروائی کی گئی۔ جس نے یزید پر لعنت بھیجی اس کے خلاف کارروائی کی گئی کہ تم یزید پر لعنت کیوں بھیجتے ہو۔ ان کی آبرو اور حیثیت کا اندازہ لگانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ یزیدی ہیں۔ یزید کے طرفدار ہیں۔ وہ خبیث یزید جس کے اتنا بے غیرت شخص پوری تاریخ اسلام میں کہیں نہیں ہے، کیا اس پر لعنت نہیں بھیجنی چاہئے؟ اللہ کی لعنت ہو ان لوگوں پر جنھوں نے پیغمبر کو، اولاد پیغمبر کو اور خاندان پیغمبر کو اذیتیں پہنچائیں۔ تو یہ ہے ان (بحرینی حکام) کا رویہ۔ یہ ہے بحرین ( کا قضیہ)۔
یمن میں کئی مہینوں سے لگاتار عوام پر بم برسائے جا رہے ہیں۔ گھربار، اسپتال، اسکول، ہر جگہ بم گرائے جا رہے ہیں۔ ان عوام پر جن کی کوئی خطا نہیں ہے، جن کا کوئی گناہ نہیں ہے، بمباری کر رہے ہیں۔ مگر جمہوریت، انسانی حقوق اور اس طرح کی چیزوں کے بلند بانگ دعوے کرنے والے ادارے ان حملہ آوروں کی حمایت کرتے ہیں، ان کا دفاع کرتے ہیں۔ یہ ہے دنیا! یہ ہے ظالم دنیا! وہ دنیا جس کے مقابل آپ ڈٹے ہوئے ہیں، یہی وہ استکبار ہے جس کے خلاف آپ نعرے لگاتے ہیں۔
شام کے قضیئے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ ہم نے ان چند دنوں کے دوران شام کے مسئلے کے بارے میں کچھ باتیں بیان کیں جو ذرائع ابلاغ میں نشر بھی ہوئیں۔ یہ لوگ بے رحم ترین دہشت گردوں کا دفاع کر رہے ہیں۔ ان کی مدد کر رہے ہیں۔ شام میں بھی اور عراق میں بھی۔ براہ راست مدد کر رہے ہیں یا بالواسطہ طور پر مدد پہنچا رہے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ شام میں حکومت ایسی ہونی چاہئے، ویسی ہونی چاہئے۔ یہ مطالبہ کس حق کی بنیاد پر ہے؟ ہر قوم کو یہ حق ہے کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ اور اپنی حکومت کا فیصلہ خود کرے، اپنی حکومت خود منتخب کرے۔ اس بیچ آپ کون ہوتے ہیں دخل دینے والے؟ دنیا کے دوسرے سرے سے اٹھ کر آئے ہیں اپنے خبیثانہ اغراض و مقاصد کی برآری کی خاطر۔ دنیائے استکبار کا یہی مزاج ہوتا ہے۔ اس دنیا کے مقابلے میں، صاحب بصیرت انسان کو خوب معلوم ہے کہ کیا کرنا چاہئے۔ اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا کون سا موقف حق بجانب ہوگا۔
رضاکار فورس دوسروں کو یہ سمجھا سکتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی موقف ایسے معقول اور منطقی موقف ہیں جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان پسند کرتا ہے۔ آج شام کے مسئلے میں، عراق کے معاملے میں، بحرین کے سلسلے میں، یمن کے تعلق سے، فلسطین کے بارے میں ہمارے سرکاری عہدیداران اور اداروں کے سیاسی موقف بالکل واضح اور نمایاں ہیں۔
عوامی رضاکار فورس اسلامی جمہوری نظام کے لئے بہت بڑی نعمت ہے، ایک سرمایہ اور خزانہ ہے۔ یہ کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔ اس لئے کہ خود یہ ملت ایک خزانہ اور کبھی نہ ختم ہونے والا سرمایہ ہے۔ میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ توفیق خداوندی سے ملت ایران سب سے پہلے درجے میں تو اس خزانے کی حفاظت کرے گی، پھر اسے باہر نکالے گی اور تیسرے مرحلے میں یہ بلند ہمتی اور یہ قوت ارادی مطلوبہ انداز میں اپنے اوج تک یقینا پہنچے گی۔ دشمن مجبور ہیں کہ یہ منظر دیکھیں اور ملت ایران کی پیشرفت کا مشاہدہ کریں، ان کے بس میں اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ان شاء اللہ یہی ہوگا۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے عظیم قائد امام خمینی پر جنھوں نے ہمارے لئے اس راستے کی تعمیر کی۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں عزیز شہدا پر جنھوں نے اپنی قربانیوں سے ہمیں عملی طور پر درس دئے اور ہمیں یہ بتایا کہ کس طرح عمل کیا جاتا ہے۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں آپ عزیزوں پر، آپ اپنی اس آمادگی سے ملت ایران کے دلوں کو خوشی اور امید کی روشنی عطا کر رہے ہیں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) یہ ملاقات رضاکار فورس 'بسیج' کی تشکیل کی سالگرہ کی مناسبت سے ہوئی جو 5 آذر 1358 ہجری شمسی مطابق26 نومبر 1979 کو عمل میں آئی۔ ملاقات کے آغاز میں پاسداران انقلاب فورس کے سربراہ جنرل محمد علی جعفری اور 'ادارہ بسیج' کے سربراہ جنرل محمد رضا نقدی نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔
۲) گلستان سعدی، باب پنجم؛ «بگفت آنجا پری‌ رویان نغزند / چو گِل بسیار شد پیلان بلغزند»
3) صحیفہ سجّادیّه‌
4) نهج ‌البلاغه، خطبه‌ نمبر ۱۷۳
5) حاضرین کے نعرے؛ 'اے رہبر آزادہ آمادہ ایم آمادہ'
6) حاضرین کے نعرے
7) حاضرین کی ہنسی
8) رہبر انقلاب نے بھی مسکراتے ہوئے اپنی بات آگے جاری رکھی۔