بسم الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و آلہ الطاھرین و لعنۃ اللہ علی اعدائھم اجمین۔ قال اللہ الحکیم ؛ شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ، ھدی للناس و بینات من الھدی و الفرقان۔ (1)
روزہ دار کو جن باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے، ان میں کھانا پینا بھی ہے جن سے پرہیز روزے کا واضح تریں پہلو ہے۔ جو چیز کھائی یا پی ہے، چاہے وہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، کھانے یا پینے کا اطلاق اگر اس پر ہو، تو اگر عمدا ہوگا تو روزہ باطل ہو جائے گا۔ بعض چیزیں ایسی ہیں جن پر کھانے پینے کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن مراجع تقلید نے انہیں بھی ان چیزوں میں شامل کیا ہے جن سے روزہ باطل ہو جاتا ہے۔ جیسے کیا؟ جیسے وہ ڈرپ چڑھانا جس میں غذائیت ہو۔ اس کو لوگ کھانا اور پینا نہیں کہتے لیکن اس سے بھی روزہ باطل ہو جاتا ہے۔ یا حتی طاقت کے انجیکشن، چاہے مسکولر انجیکشن ہوں یا رگ میں لگوائے جائیں، اس سے بھی رزہ باطل ہو جاتا ہے۔ البتہ وہ انجیکشن جو ویٹامن کے یا طاقت کے نہ ہوں، ان کو روزے کی حالت میں لگوانے میں مراجع تقلید نے کوئی حرج نہیں بتایا ہے اور بظاہر کوئی حرج ہے بھی نہیں۔ لیکن بعض نے اس قسم کے انجیکشن سے بھی پرہیز کو احتیاط واجب قرار دیا ہے۔ منہ کا پانی نگلنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر برش کیا اور وہ منہ کے پانی سے بھیگ گيا، پھر اس کو باہر نکالا اور دوبارہ منہ کے اندر لیا اور اس پانی کو نگل لیا تو روزہ باطل ہو جائے گا۔ یعنی کھانے اور پینے کا مسئلہ بہت باریک ہے اور روزہ کا واضح ترین پہلو بھی کھانے اور پینے سے پرہیز ہے۔ اگرچہ دیگر امور بھی ہیں اور اس مہینے کے دوران یقینا ان کے مسائل بھی حضرات بیان کریں گے ۔
ہم خام مال کی طرح ہیں۔ اگر اپنے اوپر ہم نے کام کیا اور خام مال کو کسی اچھی اور بہتر حالت میں ڈھال لیا تو گویا زندگی کا ضروری کام ہم نے انجام دیا ہے اور مقصد حیات بھی یہی ہے۔ وائے ہو ان لوگوں پر جو علم و عمل کے لحاظ سے اپنے اوپر کوئی کام نہ کریں اور جیسے دنیا میں آئے تھے ویسے ہی، بلکہ بوسیدگی، خرابیوں اور برائیوں کے ایک اضافی بوجھ کے ساتھ جو زندگی میں پیش آتی ہیں، اس دنیا سے چلے جائیں۔
مومن کو مستقل طور پر اپنی ذات پر کام کرنا چاہئے۔ دائمی طور پر۔ یہ نہ کہئے کہ دائمی طور پر یہ عمل بہت زیادہ اور مشکل ہوگا، یا یہ کہ مستقل طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ نہیں، یہ زیادہ نہیں ہے اور اگر کوئی اپنے اعمال پر نظر رکھے، غلط اور ممنوعہ کام انجام نہ دے اور سنجیدگی کے ساتھ راہ خدا پر چلے تو کامیاب ہوگا۔ یہی تو مستقل خود سازی ہے۔ اسلام کے پروگرام اسی مستقل خود سازی کے لئے ہیں۔ یہ پنجگانہ نمازیں، پانچ وقت نماز پڑھنا، ذکر خدا کرنا، ایاک نعبد و ایاک نستعین کو بار بار کہنا، رکوع کرنا، خاک پر سجدہ کرنا، خدا کی حمد کرنا، تسبیح پڑھنا، تہلیل کرنا، یہ سب کس لئے ہے؟ اس لئے ہے کہ انسان مستقل طور پر خود سازی میں مشغول رہے۔ البتہ مسائل بہت ہیں اور سارے ہی لوگ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ زندگی کی پریشانیاں، روزی روٹی کے مسائل، ذاتی امور، آل اولاد کے مسائل اور انواع و اقسام کی پریشانیاں رکاوٹ بن جاتی ہیں اور ہمیں جس طرح اپنے اعمال کا خیال رکھنا چاہئے اس طرح نہیں رکھ پاتے۔ لہذا خدا نے ایک مہینہ جو رمضان کا قرار دیا ہے، اس کو غنیمت جانئے۔ اس کو ہاتھ سے نہ جانے دیجئے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم مستقل طور پر اپنا خیال نہیں رکھ سکتے اور مستقل خود سازی نہیں کر سکتے تو کم سے کم رمضان کے مہینے کو غنیمت سمجھیں۔ رمضان المبارک میں حالات ساز گار ہوتے ہیں۔ سب سے اہم تو یہیں روزہ ہے جو ہم رکھتے ہیں۔ یہ خدا کی عظیم توفیقات میں سے ہے۔ توفیق یعنی کیا؟ توفیق یعنی یہ کہ خداوندعالم کسی کے لئے کسی چیز کو مناسب قرار دے ۔ روزے کو واجب کرکے خداوند عالم نے ہمارے اور آپ کے لئے حالات فراہم کر دیئے ہیں کہ اس مہینے میں تھوڑا سا اپنا خیال رکھیں۔ روزہ بہت بڑی نعمت ہے۔ پیٹ خالی ہوتا ہے، روزے کی حالت میں نفس سے جہاد مختلف پہلوؤں سے موجود ہوتا ہے۔ بہت سی چیزیں آپ کو پسند ہیں، لیکن نہیں کھاتے اور نہیں پیتے اور چند گھنٹوں کے لئے بہت سے خواہشات کی تکمیل کو اپنے اوپر ممنوع کرلیتے ہیں۔ یہ نفس سے جہاد ہے۔ نفسانی خواہشات سے جہاد ہے جو اعلی ترین نیکی اور خود سازی کے کام ہیں۔
رمضان المبارک بہت اچھا موقع ہے اور خداوندعالم نے یہ بہترین موقع ہمیں اور آپ کو عطا کیا ہے کہ ان حالات کو خود سازی کے لئے استعمال کریں۔ رمضان المبارک کی گھڑیاں با برکت ہونے اور اس کے ساتھ ہی کہ خداوندعالم نے فطری لحاظ سے ان لمحوں اور گھڑیوں کو ایسا قرار دیا ہے، یہ گھڑیاں بہت غنیمت بھی ہیں۔ اس مہینے میں ایک رکعت نماز، ایک بار سبحان اللہ کہنا، تھوڑا سا صدقہ دینا اور تھوڑی سی نیکی کرنا دیگر ایام سے کئی گنا زیادہ اہمیت اور کئی گنا زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ یہ بہت اچھا موقع ہے۔ بہت اچھا موقع ہے کہ انسان اپنے اوپر توجہ دے۔ جیسے وہ ڈاکٹر جس کا سابقہ کسی ایسے بیمار سے ہو جس کو بہت سی بیماریاں لاحق ہوں؛ شوگر بھی ہے، بلڈ پریشر بھی ہے، خون میں چربی بھی ہے، ہڈیوں میں درد بھی رہتا ہے، گٹھیا بھی ہے، السر بھی ہے۔ مختصر یہ کہ انواع و اقسام کی بیماریاں اس کو لاحق ہیں۔ وہ ماہر ڈاکٹر جو اس کے امراض سے واقف ہے اور ان کے علاج کا طریقہ بھی جانتا ہے، اس بیمار کے ساتھ کیا کرے گا؟ پہلے کوشش کرے گا کہ اس کی بیماریاں ایک کاغذ پر لکھے اور دیکھے کہ کون کون سی بیماریوں میں وہ مبتلا ہے۔ اگر ڈاکٹر اس کی بعض بیماریوں کو نہ سمجھ سکے اور کسی ایک بیماری کے علاج کے لئے کوئی ایسی دوا دیدے جو دوسری بیماری سے سازگار نہ ہو، تو ممکن ہے کہ اس کا علاج کرنے کے بجائے اس بیچارے کو بعض دوسری بیماریوں میں مبتلا کر دے۔ مثال کے طور پر اس کو یہ نہ معلوم ہو کہ اس کو معدے کا السر بھی ہے اور گٹھیا کے لئے اسپرین دیدے۔ اسپرین گٹھیا کا علاج ہے مگر السر کے لئے بہت مضر ہے۔ اگر ڈاکٹر اس بیماری کو نہ سمجھ سکے اور اس کو یہ نہ معلوم ہو کہ اسے یہ بیماری بھی ہے تو ممکن ہے کہ اس کا علاج کرنے کے بجائے اس کو ایسی حالت کو پہنچا دے کہ اس کے معدے میں بلیڈنگ ہونے لگے۔ بنابریں سب سے پہلے ضروری ہے کہ ڈاکٹر پوری دلجمعی اور توجہ کے ساتھ اس کی بیماریوں کا پتہ لگائے، انہیں ایک کاغذ پر لکھے اور پھر یہ دیکھے کہ ان میں سے کس بیماری کا علاج پہلے کرنا چاہئے۔ سب سے اہم اور بنیادی بیماری کون سی ہے۔ فرض کریں کہ اگر کسی کو معدے کا السر ہے تو جو دوا بھی اس کو دیں گے معدہ اس کو جذب نہیں کرے گا۔ یا اس کی آنتوں میں کوئی خرابی ہے تو اس کو جو بھی مقوی غذائیں دی جائیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گی۔ طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس بیماری کا علاج کیا جائے جس کی منفی تاثیر دوسری بیماریوں سے زیادہ ہے اور اگر یہ ٹھیک ہو جائے تو اپنے آپ اس کا مثبت اثر دوسری بیماریوں پر پڑے گا اور شفا جلدی ملے گی۔
آپ خود اپنے طبیب بن جایئے۔ بھائیو! کوئی بھی انسان خود بیمار سے بہتر اپنی بیماریوں کو نہیں پہچان سکتا۔ بعض بیماریاں ایسی ہیں کہ مثلا اگر آپ مجھ سے کہیں کہ تمہیں یہ بیماری ہے تو مجھے برا لگ جائے گا۔ اگر کہیں جناب آپ حاسد ہیں کوئی یہ برداشت کرے گا کہ اس کو حاسد کہا جائے؟ وہ کہے گا حاسد تم خود ہو۔ میری توہین کیوں کرتے ہو؟ بیکار کی بات کیوں کرتے ہو؟ ہم دوسروں سے یہ سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ لیکن اگر خود کو پرکھیں تو دیکھیں گے کہ ہاں افسوس کہ ہمارے اندر یہ بیماریاں ہیں۔ انسان دوسروں کو دھوکہ دے سکتا ہے، دوسروں سے اپنی حقیقت چھپا سکتا ہے لیکن خود سے تو اپنے آپ کو نہیں چھپا سکتا۔ بنابریں اپنی بیماری کو سب سے بہتر ہم خود تشخیص دے سکتے ہیں۔ لایئے کاغذ پر اپنی بیماریاں لکھیں؛ حسد، لکھئے؛ بخل، لکھئے؛ دوسروں کا برا چاہنا، جب کسی کا بھلا ہوتا ہے تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے، لکھئے؛ کام میں کاہلی، لکھئے؛ صالح اور نیک لوگوں کی نسبت بدگمانی، لکھئے؛ فرائض کی طرف سے غفلت، لکھئے؛ خود پسندی، ہم شدید خود پسندی کا شکار رہتے ہیں،
اگر ہماری بیماریاں یہ ہیں تو انہیں کاغذ پر لکھ لیں۔ ماہ رمضان ایک ایک کرکے ان بیماریوں کو دور کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اگر انہیں دور نہ کریں گے تو یہ مہلک ہو جائیں گی۔ روحانی اور حقیقی ہلاکت سے دوچار کر دیں گی۔ جسمانی ہلاکت تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر ہمیں کوئی مہلک بیماری ہو جائے، یا اس کا احتمال ہو تو ہم کتنا پریشان ہو جاتے ہیں؟ رات کو سو نہیں پاتے۔ بہترین ڈاکٹروں کی جستجو میں لگ جاتے ہیں۔ دل ہی دل میں ڈرے رہتےہیں کہ یہ جو گلٹی میرے بدن میں ہے، یہ گلٹی جو ہاتھ میں کھال کے نیچے ہے، کہیں کینسر نہ ہو۔ اس تصور سے وحشت زدہ ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں آخرکار مرنا ہی ہے۔ ابھی نہیں تو ایک سال بعد، دوسال بعد، دس سال بعد۔
نظامی گنجوی کے بقول؛
اگر صد سال مانی ور یکی روز
بباید رفت از این کاخ دل افروز
اس دنیا میں باقی تو نہیں رہیں گے۔ تھوڑا کم یا زیادہ، ایک دن سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ یہ جسمانی ہلاکت ہے اور اس سے اتنا ڈرتے ہیں۔ روحانی ہلاکت کا مطلب ہے دائمی لاچاری اور عذاب الہی۔ یعنی جاودانی اور ابدی زندگی میں، ان تمام لذتوں، نعمتوں اور آسائشوں سے محرومی جو خداوند عالم نے ہمارے اور آپ کے لئے مقرر کی ہیں۔ انسان جب قیامت پر نظر ڈالے گا اور دیکھے گا کہ خداوند عالم اپنے بعض بندوں کو، انہیں افراد میں سے جن کے درمیان ہم اٹھتے بیٹھتے ہیں، کوچہ و بازار میں انہیں دیکھتے ہیں، ہمارے کلیگ کو، طالب علمی کے زمانے کے ہمارے دوست کو، اس دوست کو جس کے پاس ہم اٹھتے بیٹھتے تھے، اس دنیا میں بعض کاموں اور مجاہدت کی وجہ سے اعلی درجات عطا کر رہا ہے، بہشت میں لے جا رہا ہے، عذاب سے انہیں نجات دے رہا ہے، انہیں قیامت کی سختیوں سے بچا رہا ہے جبکہ ہم اپنی کاہلی، اپنی بے توجہی اور ایک لمحے کی غفلت کی وجہ سے، ان تمام چیزوں سے محروم رہ گئے ہیں تو انسان کو حسرت ہوگی؛ و انذرھم یوم الحسرہ اذ قضی الامر (2) اور اب کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا۔ اب حسرت کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔ یہ روحانی ہلاکت ہے۔
بھائیو اور بہنو! اگر ہم نے اپنا خیال نہ رکھا تو انجام بد بختی ہے، روسیاہی ہے، محرومیت ہے، خدا کی نگاہوں میں گر جانا ہے، روحانی درجات اور ابدی خدائی نعمتوں سے محرومی ہے۔ لہذا ہمیں اپنا خیال رکھنا چاہئے۔ ماہ رمضان اچھا موقع ہے۔ اخلاقیات کی کتابیں بھی خوش قسمتی سے ہماری دسترس میں ہیں۔ لیکن جو چیز مجموعی طور پر انسان سمجھتا ہے اور اہم ہے، وہ یہ ہے کہ خواہشات نفس پر غلبہ اور قابو حاصل کرے۔ یہ بنیادی چیز ہے۔
ایک خصوصیت جو خود سازی کے لئے بہت اہم ہے اور شاید اس کو ترجیحی پہلو بھی حاصل ہے 'اخلاص' ہے۔ اخلاص کا مطلب ہے کام کو خلوص نیت سے انجام دینا، یعنی ہم کوئی کام بغیر خلوص کے انجام نہ دیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان عبادت نہیں کرتاہے اور کبھی عبادت کرتا ہے مگر خلوص کے بغیر، تو یہ بھی پہلے ہی جیسا ہے۔ عبادت اور کسی عمل کی پرخلوص انجام دہی یہ ہے کہ صرف خدا کے لئے ہو۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں میں بہت رواج ہے کہ اپنے اچھے کاموں کا بڑا تذکرہ کرتے ہیں، خوب بڑھ چڑھ کر بیان کرتے ہیں۔ گویا اس بات پر توجہ ہی نہیں ہے کہ نیک کام کو زبان پر نہیں لانا چاہئے۔ یہ نہیں کہنا چاہئے کہ ہم یہ کام کرنا چاہتے ہیں یا ہم یہ کام کرتے ہیں۔ البتہ بعض جگہوں پر استثنا ہے۔ بعض جگہوں پر بعض کاموں کو اعلانیہ کرنا چاہئے۔ روایات میں صدقہ کے بارے میں آیا ہے کہ خفیہ طور پر صدقہ دینے کا ثواب یہ ہے اور 'اعلانیہ صدقہ' کا ثواب یہ ہے۔ یا مثلا اجتماعی عبادت، جو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے انجام دی جاتی ہے اور لوگوں کی آنکھوں کے سامنے انجام دینا چاہئے۔ یہ شعائر الہی ہے۔ لیکن بہت سی عبادات، بلکہ اکثر عبادتیں، جو انسان اور خدا کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہوتی ہیں جیسے ذکر خدا، توجہ، دعا، نافلہ، راتوں کو عبادت، سحر خیزی، نیکی اور اچھے کاموں کو انسان اور خدا کے درمیان ہی رہنا چاہئے۔ دوسروں کو دکھانے کے لئے کوئی کام نہیں کرنا چاہئے۔ جو کام انسان دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کرے، وہ نہ کرنے سے زیادہ برا ہے۔ کیونکہ کام نہ کرنا یعنی انسان کوئی کام نہ کرے۔ لیکن جو کام انسان دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کرے گویا اس نے وہ کام کیا ہی نہیں۔ یہ اس لحاظ سے بد تر ہے کہ اس نے شرک آلود کام کیا اور شرک آلود کام حرام ہے۔ بنابریں ہم سب جہاں بھی ہیں، جس حیثیت میں بھی ہیں، ہمیں بہت کوشش کرنی چاہئے کہ کام کو خالصانہ انجام دیں۔ اگر کام خدا کے لئے ہو اور نیت خدا کے لئے خالص ہو تو عام طور پر کاموں میں جو برائیاں نظر آتی ہیں وہ نہیں رہیں گی۔ لیکن جب آپ چار لوگوں کا خیال کرکے حقیقی مصلحتوں کو قربان کر دیتے ہیں تو یہ کام بھی گویا آپ نے چار لوگوں کے لئے ہی انجام دیا ہے۔ جب انسان خدا کے لئے کام کرتا ہے تو یہ دیکھتا ہے کہ اس کا فریضہ کیا ہے۔ یہ نہیں دیکھتا کہ کس کو اچھا لگے گا اور کس کو برا لگے گا۔ کس کی نگاہ میں عزت بڑھے گی اور کس کی نگاہ میں بے عزتی ہوگی۔ آج اسلامی جمہوریہ میں تمام شعبوں میں کام خدا کے لئے انجام دیا جا رہا ہے۔ اس ملک اور اس نظام میں ہرشخص جو کام بھی کرتا ہے، اسے خدا کے لئے انجام دیکر، خدا سے اجر و ثواب حاصل کر سکتا ہے اور اس کے نزدیک عزت و وقار پا سکتا ہے۔
اخلاص کے بارے میں ایک روایت میں نے نوٹ کی ہے جو اس وقت آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں۔ پیغمبر اکرم صلوات اللہ و سلامہ علیہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا؛ انّ لکلّ حقّ حقیقتا ہر بر حق چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے، ہر چیز ایک روح، معنی اور حقیقت رکھتی ہے، وما بلغ عبد حقیقت الاخلاص کوئی بھی بندہ اخلاص اور اخلاص کے حقیقی معنی تک نہئیں پہنچ سکتا سوائے اس کے کہحتّی لا یحب ان یحمد علی شئی من عمل للہ ( یہ بہت دشوار مرحلہ ہے، یہ بہت اعلی مدارج میں سے ایک ہے) اس کے اندر ہرگز یہ خواہش پیدا نہ ہو کہ جو کام بھی وہ خدا کے لئے انجام دیتا ہے ان میں سے کسی بھی کام پر لوگ اس کی تعریف کریں۔ مثال کے طورپر کوئی شخص دوسروں کے لئے کام انجام نہیں دیتا۔ نماز صرف خدا کے لئے پڑھتا ہے۔ قرآن کی تلاوت کرتا ہے، اچھے کام کرتا ہے، لوگوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرتا ہے، ان کی مدد کرتا ہے، صدقہ دیتا ہے اور خدا کی راہ میں جدوجہد کرتا ہے۔ لیکن دل ہی دل میں چاہتا ہے کہ لوگ کہیں؛ یہ کتنا اچھا آدمی ہے۔ حالانکہ اس نے کام لوگوں کے لئے نہیں کیا ہے، کام خدا کے لئے کیا ہے لیکن اس کو اچھا لگتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ اخلاص کا اعلی مرتبہ نہیں ہے۔ اخلاص کا اعلی مرتبہ یہ ہے کہ اسے پسند ہی نہ آئے کہ اللہ کے لئے کئے گئے کام پر لوگ اس کی تعریف کریں۔ لوگوں سے کوئی واسطہ ہی نہ رکھے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے یا نہیں، اچھا لگتا ہے یا اچھا نہیں لگتا۔ اس کی نگاہ صرف خدا پر ہونی چاہئے کہ وہ کیا چاہتا ہے، اور جو وہ چاہتا ہے وہی انجام دے۔
میں نے یہ صفت اور خاصیت امام خمینی رضوان اللہ علیہ میں بہت نمایاں دیکھی ہے۔ متعدد معاملات میں میں نے ان میں یہ خصوصیت دیکھی ہے۔ وہ اس کی پروا نہیں کرتے تھے کہ کسی کو اچھا لگے گا یا اچھا نہیں لگے گا۔ اپنا فریضہ انجام دیتے تھے۔ جب فریضہ سنگین ہو، کام بڑا ہو، کام میں خطرات ہوں تو اخلاص اور بھی زیادہ کام آتا ہے۔ جیسے آج کہ اسلامی جمہوریہ کی یہ حالت ہے۔ اگر ہم اخلاص سے کام لیں تو خدا کے مخلص بندے ہوں گے، عمل اور نیت میں اخلاص سے کام لینے والے خدا کے مخلص (لام پر زیر کے ساتھ) بندے ہیں لیکن ان سے برتر خدا کے مخلص (لام پر زبر کے ساتھ) بندے ہوتے ہیں۔ مرحوم سید بحرالعلوم رضوان اللہ تعالی علیہ روحانی سیر و سلوک کے بارے میں ایک رسالے میں جو ان سے منسوب ہے، مخلص اور مخلص کا فرق بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مخلص (لام پر زیر کے ساتھ) وہ ہے جو کوئی عمل صرف خدا کے لئے انجام دیتا ہے اور دوسروں سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا۔ لیکن مخلص (لام پر زبر کے ساتھ) وہ ہے جو اپنے پورے وجود کو صرف اور صرف خدا کے لئے وقف کر دے۔ اس کی پوری ہستی صرف خدا کے لئے ہوتی ہے۔ یہ بہت اعلی مرتبہ ہے جو واقعی دسترس سے دور ہے۔ مگر میری نظر میں اس زمانے میں، بعض نوجوان اور وہ لوگ جو عمل، مجاہدت اور جہاد کے میدانوں میں سرگرم ہیں، اس مرتبے تک پہنچ سکتے ہیں۔ البتہ ہم جیسے لوگوں کے لئے یہ مشکل اور بہت دشوار ہے۔ ہم بہت دور ہیں۔ لیکن نوجوان، بالخصوص مومن، پاکیزہ اور خالص نوجوان، اپنے طاہر اور منور دلوں کے ساتھ وہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔ البتہ مذکورہ رسالہ بحرالعلوم مرحوم سے منسوب ہے۔ یقینی نہیں ہے کہ انہیں کا ہو۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ خداوند عالم نے ان مخلصین (لام پر زبر کے ساتھ) سے تین باتوں کا وعدہ کیا ہے، تین عظیم امتیازات ۔ ایک یہ ہے کہ فرمایا ہے؛ فانّھم لمحضرون الا عباد اللہ المخلصین (3) یعنی قیامت میں، محشر میں سب لوگ حاضر ہوں گے اور ان کا حساب کتاب ہوگا۔ لیکن خدا کے مخلص (لام پر زبر کے ساتھ) بندے اس سے معاف ہیں۔ چونکہ ان کے عمل، ان کے حرکات وسکنات اور ہر سانس خدا کے لئے رہی ہے ، اس لئے وہ اس میدان حشر میں آنے اور سوال و جواب سے معاف ہیں۔
دوسرا امتیاز یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے؛ و ما تجزون الا ما کنتم تعملون الا عباد اللہ المخلصین (4) یعنی سب لوگوں کو جزا عمل کی مناسبت سے ملے گی مگر خدا کے مخلص (لام پر زبر کے ساتھ) بندوں کو ان کے اعمال کی جزا عمل کی مناسبت سے نہیں ملتی، ان کا عمل جو بھی ہو، ان کی جزا اور انعام بے پناہ ہے۔ کیونکہ وہ وجود خدا سے متعلق ہے، خدا کے لئے ہے، سر تا پا اہداف الہی کی خدمت میں ہے۔ اس کا پورا وجود خدا کے لئے خالص ہو چکا ہے۔
میں نے ایک روایت میں دیکھا ہے، البتہ موقع نہیں ملا کہ اس کی سند کو دیکھتا کہ اس کی سند کیسی ہے، مضمون اس روایت کا یہ ہے کہ خداوندعالم فرماتا ہے کہ اگر بندہ مخلص (لام پر زبر کے ساتھ) یا مخلص (لام پر زیر کے ساتھ) کو پوری دنیا دیدی جائے تب بھی اس کا حق ادا نہیں ہوگا۔ بنابریں اس کی جزا، اس عمل کی مناسبت سے نہیں ہے جو وہ انجام دیتا ہے۔ اس کی نماز پر خدا کے اچھے بندوں کی ہزاروں نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔
تیسرا امتیاز جو ان سب سے بڑا ہے، یہ ہے کہ سبحان اللہ عما یصفون الا عباد اللہ المخلصین (5) یعنی خداوند عالم ان تمام چیزوں سے پاک اور منزہ ہے، جن سے اس کے بندے اس کی توصیف کریں سوائے اس کے جس سے اس کے مخلص(لام پر زبر کے ساتھ) بندے توصیف کرتے ہیں۔ یعنی وہ حق توصیف الہی ادا کر سکتے ہیں۔ دوسرے بندے اس سے بہت چھوٹے اور کمتر ہیں اور پروردگار کے بارے میں جو بھی کہیں مگرماعرفناک حق معرفتک (6) انسانوں کی زبان سے خدا کی توصیف ناقص ہے الا یہ کہ اس کے مخلص (لام پر زبر کے ساتھ) بندے اس کی توصیف کریں۔ وہ خدا کی توصیف اس طرح کر سکتے ہیں جو حق ہے۔ اسی بناء پر اگر انسان آئمہ علیہم السلام سے منقول دعاؤں سے انس پیدا کر لے ،خود کو ان سے مرتبط کر لے، تو امید ہے کہ خداوندعالم سے صحیح مناجات کر سکے گا اور خدا سے اس طرح ہم کلام ہو سکے گا جو مناسب طریقہ ہے۔ رمضان دعاؤں کا مہینہ ہے۔ دعاؤں کو فراموش نہ کریں۔ ماہ رمضان کے بارے میں وارد ہونے والی دعاؤں کو غنیمت سمجھیں۔ یہ دعائے ابوحمزہ، دعائے افتتاح، دعائے جوشن اور دوسری دعائیں جو دن میں رات میں سحری کے وقت، اور دیگر اوقات میں، رمضان کی مخصوص گھڑیوں کے لئے وارد ہوئی ہیں، واقعی بہت عظیم نعمتیں ہیں۔ اس موقع کو غنیمت سمجھیں۔
میرے ذہن میں آیا کہ یہ سفارش بھی کرتا چلوں کہ یہ چونتیس رکعت نوافل جو رات اور دن کی نمازوں کے لئے بیان کئے گئے ہیں بہت اہم ہیں۔ رمضان اچھا موقع ہے۔ ہم اکثر نوافل نہیں پڑھتے۔ لیکن رمضان میں پڑھ سکتے ہیں۔ کیا رکاوٹ ہے؟ روزے کی حالت میں نماز پڑھنے سے زیادہ اہم کام اور کیا ہو سکتا ہے۔ نماز ظہر چار رکعت ہے ، اس سے پہلے آٹھ رکعت نافلہ ہے۔ دو دو رکعت کی چار نمازیں۔ نماز عصر چار رکعت ہے۔ ان چار رکعتوں سے پہلے آٹھ رکعت نافلہ نماز عصر ہے۔ ان نوافل کو پڑھیں۔ اسی طرح مغرب اور عشاء کے نوافل۔ یہ بہت اہم ہیں اور نافلہ شب جو گیارہ رکعت ہے۔ اسی طرح نافلہ نماز صج جو دو رکعت ہے۔ بعض لوگ ہیں جن کے لئے سال کے عام دنوں میں نماز صبح سے پہلے اٹھنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن ان راتوں میں، فطری طور پر اور مجبورا اٹھنا پڑتا ہے۔ یہ ایک توفیق الہی ہے۔ اس توفیق سے فائدہ کیوں نہ اٹھائیں؟ ان شاء اللہ ہم ماہ رمضان کے اوقات سے بھرپور استفادہ کریں گے۔
میں کچھ دعائیں کرتا ہوں آپ آمین کہیں۔ نسئلک اللھم و ندعوک باسمک العظیم الاعظم الاعز الاجل الاکرم یا اللہ! پالنے والے تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، ہمیں اس مہینے کے قدردانوں میں قرار دے۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، ہمیں اس مہینے میں ان اعمال کی انجام دہی میں کامیابی عطا فرما جو تونے مومنین کے لئے قرار دیئے ہیں۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، اس مہینے میں اپنی رضا و مغرفت ہمارے شامل حال کر۔
پالنے والے! ہمیں ہمارے اعمال کے ساتھ اس مہینے میں حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کی ولایت کے نزدیک کر، آپ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی فرما، ہمیں نیک اعمال کی جن کے لئے یہ مہینہ بہترین موقع ہے، توفیق عنایت فرما۔
پالنے والے! اسلام اور مسلمین کو سربلندی عطا فرما۔ مسلمانوں کے تمام امور کی اصلاح فرما۔ اسلامی علاقوں اور مسلم اقوام کو مخصوصا ان علاقوں میں جہاں زیادہ ظلم و جور ہو رہا ہے، کفار اور دشمنوں کے شر سے نجات دلا۔
پالنے والے! مسائل کو مسلمانوں کے حق میں ختم کر۔ اسلامی جمہوریہ کو ظہور حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ تک پائیدار اور مبارک رکھ اور ہمارے عوام پر اپنی برکات نازل فرما۔
والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
1- سورہ بقرہ، آیت نمبر 185
2- سورہ مریم، آیت نمبر 39
3- سورہ صافات آیات 127 اور 128
4- سورہ صافات آیات 39 اور40
5- سورہ صافات آیات 159 اور160
6- بحارالانوار ؛ جلد 69،صفحہ 292