10 ستمبر 1996 کے رہبر انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں آپ کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ آپ نے اس عظیم کام کو پہچانا، اس کو اپنے ذمہ لیا اور صحیح طور پر اس کو انجام دیا۔ خداوند عالم آپ کو جزائے خیر دے اور وعدہ الہی اور اپنے کرم کے مطابق اس راہ میں آپ کی ہدایت اور حمایت کرے تاکہ آپ اس راستے کو اچھی طرح طے کر سکیں اور ان شاء اللہ اس کے نتیجے تک پہنچیں۔
میں خاص طور پر جناب آقائے جنتی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اسی طرح جناب آقائے صدر اور بقیہ حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنھوں نے یہ ذمہ داری سنبھالی ہے، اس ادارے کو تشکیل دیا اور اس کام کو یہاں تک پہنچایا۔
یونیورسٹیوں میں علمائے کرام کی موجودگی، یونیورسٹیوں میں علم و دین کی نمائندگی کے مترادف ہے۔ یعنی یونیورسٹیاں علم کے مراکز ہیں اور متدین افراد کی موجودگی کے نتیجے میں دین کا مرکز بھی بھی بن گئی ہیں۔ علمائے کرام علم دین کو یونیورسٹیوں میں وہاں کے ماحول اور فضا کے تقاضے کے مطابق اور یونیورسٹیوں کے حضرات کی سطح فہم کی مناسبت سے پیش کرتے ہیں۔ یہ اس مسئلے کا علمی پہلو ہے۔ چونکہ دینی علوم اعلی ترین علوم اور سماجی مسائل کے اہم ترین شعبوں میں قوی ترین ذہنی، عقلی اور فلسفیانہ مباحث اور زندگی کے مسائل ہیں، ان کو علمی طور پر اور قویترین انداز میں پیش کیا جائے۔ بیان میں استدلال کی کمزوری سے، شدت کے ساتھ پرہیز کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ اس کے اثرات الٹے ہوں گے؛ یعنی تبلیغ الٹی ہو جائے گی۔ کمزور دفاع، جارحانہ اور سرکوبی کی روشوں سے بچنا چاہئے۔
بنابریں یونیورسٹیوں میں علمائے کرام اور طلبا و فضلا کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو تمام شعبوں میں مناسب، منطقی اور محکم انداز میں اور استدلال کے ساتھ بیان کریں۔ یہ اس مسئلے کا علمی پہلو ہے۔ دینی پہلو کا مطلب ایمان کی تقویت ہے یعنی جو کچھ علمی ادراک کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، اس سے فطری طور پر ایمان کی تقویت ہوتی ہے، لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ علمائے کرام اور مبلغین دین کی رفتار و گفتار اور حرکات وسکنات کو دینی اقدار کا مظہر ہونا چاہئے۔
علمائے دین ہدایت کے ایسے چراغ ہیں جو اپنے کردار اور روش زندگی سے لوگوں کو دین کی دعوت دیتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا ہوں کہ استثنا نہیں ہے! کیوں نہیں، استثنا بھی ہے۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو اس کے برعکس عمل کرتے ہیں۔ دین کے تئیں لوگوں میں نفرت پیدا ہونے کا موجب بنتے ہیں؛ لیکن اصولی طور پر علمائے کرام کو ویسا ہی ہونا چاہئے جیسا کہ عرض کیا گیا۔ الحمد للہ آج علمائے کرام کی اکثریت ایسی ہی ہے۔
بنابریں یونیورسٹیوں میں علمائے کرام کی موجودگی ایک ثمربخش ضرورت ہے؛ اس کا مطلب یونیورسٹیوں میں علمائے کرام کی مداخلت نہیں ہے۔ کوئی اس کا مطلب یہ نہ نکالے کہ علما یونیورسٹیوں میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ یونیوسٹیوں کو اس کا مینیجمنٹ چلاتا ہے۔ یونیوسٹیوں کی پالیسیاں طے کرنے والے ماہرین ہیں جو یہ کام کرتے ہیں۔ اساتذہ ہیں جو پڑھاتے ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو یہاں کے دفتری امور انجام دیتے ہیں۔ سبھی امور یہاں کے اپنے خاص لوگ انجام دیتے ہیں۔ علمائے کرام یونیورسٹیوں میں مداخلت کی غرض سے نہیں جاتے۔ البتہ یونیورسٹیوں میں علمائے کرام کی موجودگی، جب تک وہاں کے اصول و ضوابط انھیں کام کی اجازت نہ دیں، بے فائدہ اور بیکار ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ فرض کر لیں کہ یونیورسٹیوں میں علمائے کرام اصول و ضوابط اور قاعدے قانون سے بالاتر ہے۔ نہیں، کسی بھی جگہ اصول و ضوابط کے بغیر اور اختیارات اور سہولتوں کے بغیر کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کام کے لئے ہاتھ کھلے ہونے چاہئيں، بندھے نہیں ہونے چاہئیں، تاکہ کام کیا جا سکے۔
بنابریں اگرچہ یونیورسٹیوں میں آپ حضرات کی موجودگی اگرچہ اختیارات اور ذمہ داریوں کے ساتھ ہے لیکن اسی نیت اور قصد کے ساتھ ہے جس کا ذکر کیا گیا۔ ''دین کی علمی تشریح اور اپنے وجود سے مذہبی ایمان اور عملی کردار کی تبلیغ۔ یہ اصلی مقصود ہے۔ البتہ جب یہ حاصل ہو جائے تو ایک تیسری چیز سامنے آتی ہے جس کی اہمیت ان دونوں سے کمتر نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ علمائے کرام کو یونیورسٹیوں میں نوجوان طلبا کے لئے پناہ گاہ ہونا چاہئے، ان کا رازداں اور ان کے روحانی جذبات کی تسکین کا مرکز ہونا چاہئے۔ نوجوان احساسات و جذبات کا مرکز ہوتے ہیں اور ان کی روح جلدی متاثر ہوتی ہے جس طرح کہ ان کا ذہن جلدی متاثر ہوتا ہے ۔ انہیں ایک ایسی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ ایک عظیم روح، قوی اور ضروری تحمل رکھنے والے قلب اور خیراندیش و مہربان ہستی کی پناہ حاصل کر سکیں۔ یہ کافی تحمل رکھنے والا قلب، بلند فکر اور خیر اندیش ہستی یہی علما ہیں جو مشکلات ومسائل کو سنتے ہیں اور ضروری رہنمائی کرتے ہیں اور ہمدردی و مہربانی کے ساتھ معنوی اور روحانی علاج کرتے ہیں۔ جو عالم دین یہاں تک پہنچ جائے، اس کو جان لینا چاہئے کہ یونیورسٹی میں اس کی موجودگی کامیاب رہی ہے۔ اگر ابھی اس منزل تک نہیں پہنچے ہیں تو جان لیں کہ کام میں کہیں کمی رہ گئی ہے۔ ورنہ عالم دین، مذکورہ دونوں خصوصیات کے ساتھ جہاں بھی ہوگا، خاص طور نوجوانوں کے درمیان، لامحالہ مذکورہ تیسری خصوصیت اس کے اندر وجود میں آ ہی جائے گی۔
بنابریں میں اس آرگنائزیشن کو ضروری سمجھتا ہوں۔ اس آرگنائزیشن کو باقی رہنا چاہئے۔ میں ایسے اصول و ضوابط بنانے پر تاکید کرتا ہوں جس سے اس آرگنائزیشن کو ضروری حد تک اختیارات حاصل ہو سکیں۔ زیادہ نہیں چاہتا۔ یہ کام ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل اور دیگر متعلقہ اداروں کو کرنا ہے۔ جو اب تک کیا ہے بہت اچھا ہے، جو نہیں کیا ہے وہ بھی انجام دیں۔ علمائے کرام خلوص اور دینی جذبے کے ساتھ یونیورسٹیوں میں اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے گئے ہیں۔ انھیں رقیب، دخل اندازی کرنے والا، نمائشی اور فضول نہ سمجھا جائے۔ یہ غلط نقطہ نگاہ ہوگا۔ ان شاء اللہ جیسے جیسے وقت گزرےگا آپ کے کام کے اثرات زیادہ نمایاں ہوں گے۔
البتہ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ یونیورسٹیوں میں نمائندہ دفاتر برسوں سے کام کر رہے ہیں؛ لیکن گزشتہ دو تین سال میں ہدف کی طرف بہت بہتر انداز میں پیشرفت ہوئی ہے۔ ماضی میں بھی زحمتیں اٹھائی گئی ہیں اور اچھے کام ہوئے ہیں؛ لیکن گزشتہ دو تین سال میں جو تدابیر اختیار کی گئی ہیں، ہم ان سے زیادہ مطمئن ہیں۔ البتہ ممکن ہے کہ کم و بیش کچھ نقائص ہوں؛ میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی کمی اور نقص نہیں رہا ہے لیکن انہیں دور کیا جا سکتا ہے۔ آج جو بنیاد اور ڈھانچہ ہے وہ زیادہ صحیح ہے۔ سب کو مدد کرنی چاہئے۔ البتہ میں نے جو دیکھا اور محسوس کیا ہے وہ یہ ہے کہ اعلی تعلیم اور صحت عامہ نیز میڈیکل سائنس کی وزارتوں کے ذمہ داروں نے بھی اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ یونیورسٹیوں میں یہ آرگنائزیشن رہے۔ وزرا اور ذمہ دارعہدیداران بھی ، جو میں نے ان کی باتوں سے محسوس کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بھی آپ حضرات کی یونیورسٹیوں میں موجودگی کے حق میں ہیں اور اس کو بہتر سمجھتے ہیں۔
اسلامی ماہیت پیدا کرنے کا مسئلہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا، بہت عمیق اور کثیر الجہتی مسئلہ ہے۔ جیسا کہ جناب آقائے جنتی نے بیان کیا ہے اور جناب آقائے صدر نے اپنی متین اور اعلی مفاہیم سے بھر پور تحریر پڑھ کر سنائی ہے، یہ وہ کام ہے جس سے ملک اور انقلاب کا مستقبل وابستہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ابتدائے انقلاب سے ہم اس کام کی فکر میں نہیں تھے؛ کیوں نہیں۔ ابتدائے انقلاب میں انقلابی اور مومن طلبا نے اس مسئلے پر توجہ دی اور ہمارے پاس آئے اور ہم سے اصرار کے ساتھ درخواست کی کہ اس سلسلے میں اقدام کیا جائے اور پھر اوائل انقلاب میں یونیورسٹیوں میں جو کام ہوئے ان سے آپ حضرات واقف ہیں۔ اس کے بعد امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ نے ثقافتی انقلاب کی کمیٹی بنائی اور اسی بنیاد پر ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل تشکیل دی گئی۔ یہ سارے کام اسی مقصد کے تحت انجام دیئے گئے ہیں۔
اگر آج ہم یہ محسوس کررہے ہیں کہ یونیورسٹیوں میں اس جہت میں قابل ملاحظہ اور ہماری توقع کے مطابق پیشرفت نہیں ہوئی ہے تو ہمیں جان لینا چاہئے کہ جو کام کئے گئے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی نقص اور کمی رہ گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کام کی نیت نہ رہی ہو اور اب ہم نے یہ نیت شروع کی ہے! جی نہیں، یہ نیت انقلاب کی نیت ہے؛ سب کی نیت ہے۔ ہم جو آج یہ بات کر رہے ہیں، ابتدائے انقلاب میں ان لوگوں میں شامل رہے ہیں جو امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ کی پیروی میں، انقلاب کی پیروی میں، اس کام کی فکر میں رہے ہیں۔ چونکہ میں محسوس کر رہا ہوں کہ آج اس کے لئے زیادہ سنجیدگی سے کام کی ضرورت ہے اس لئے اس کو الگ سے بیان کر رہا ہوں اور اس کے لئے کوشاں ہوں۔
میں نے محترم وزیر سے بھی جو خود ایک سچے مسلمان ہیں اور واقعی دل سے چاہتے ہیں کہ یہ کام بہترین طریقے سے انجام پائے، کہا کہ اگر آپ اعلی تعلیم کے شعبے میں بنیادی کام کرنا چاہتے ہیں تو یہ کام کریں، ورنہ اعلی تعلیم اور یونیورسٹیوں کے امور کو چلانا تو معمول کا کام ہے، جو ہر وزیر کرتا ہے؛ اگر کوئي وزیر بنیادی کام کرنا چاہے تو اس کو یہ کام کرنا ہوگا۔ میں نے محسوس کیا کہ انہوں نے اس کا بھرپور خیرمقدم کیا ۔ لیکن میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس قضیے میں یونیورسٹیوں میں نمائندہ دفاتر اور ان دفاتر کے سربراہوں کی پوزیشن بہت اعلی ہے۔
میں نے بارہا کہا ہے کہ بنیادی کاموں میں دینی تعلیم کے مرکز کو یونیورسٹیوں کی مدد کرنا چاہئے اور کچھ ذمہ داریاں اپنے ذمے لینا چاہئے۔ آپ حضرات یونیورسٹیوں میں موجود ہیں، اس کا بڑا حصہ آپ انجام دے سکتے ہیں۔ ورنہ وہ فرد جو دینی تعلیم کے مرکز میں تو فعال ہو لیکن یونیورسٹیوں کے مسائل سے زیادہ سروکار نہ رکھتا ہو، پتہ نہیں وہ اس کام کے لئے بہترین، قریبی ترین اور مطمئن ترین راہ کا انتخاب کرکے یہ کام بہترین انداز میں انجام دے سکے گا یا نہیں ۔ لیکن آپ وہاں موجود ہیں تو اس کام میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میں عرض کروں گا کہ یونیورسٹیوں کو اسلامی بنانے کے لئے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد، دونوں طرح منصوبے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی ہم نہ ایسے ہیں کہ یہ کہیں کہ تیس سال میں یہ کام ہونا چاہئے اور قلیل المیعاد پروگرام کو درخور اعتنا نہ سمجھیں اور نہ ہی ایسے ہیں کہ قلیل المیعاد پروگرام پر ہی اکتفا کر لیں اور طویل المیعاد پروگرام سے غافل ہو جائيں۔ پروگرام جتنی مختصر مدت کا ہوگا اس کی گہرائی اور پائیداری اتنی ہی کم ہوگی۔ ہم دونوں پروگرام ایک ساتھ چاہتے ہیں۔ قلیل المیعاد بھی اور طویل المیعاد بھی؛ لیکن چاہتے ہیں کہ کام بنیادی اور حقیقی ہو اور گہرائي کے ساتھ انجام پائے۔
اگر مجھے یہ اطلاع دی جائے کہ فرض کریں کہ کسی یونیورسٹی میں آدھی آستین کی شرٹ پہننے پر کسی ٹیچر کا گریبان پکڑ لیا اور کہا کہ یہ اسلامی یونیورسٹی ہے، اس وضع قطع میں یہاں کیوں آئے ہو؟ ہم یہ ہرگز نہیں چاہتے ہیں۔ ان مسائل میں الجھ جانے کا مطلب اصلی اور حقیقی مسائل سے دور ہو جانا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یونیورسٹیوں کا ماحول اسلامی ہو اور اسلامی اہداف کے لئے کام ہو۔ اسلامی اور ایمانی اہداف یہ ہیں کہ علم اعلی ترین کیفیت کے ساتھ ہو اور علمی مظاہر جدید ترین شکل میں ہوں۔ علمی کاوشیں، کامیاب ترین نوعیت کے ساتھ ہوں اور دینی اخلاق اور اسلامی ایمان شفاف اور روشن ترین شکل میں ہوں۔ سب ایک ساتھ ہوں۔ ہم یہ چاہتے ہیں۔ اب اگر ہم ان اہداف تک پہنچنا چاہتے ہیں تو فطری طور پر اس کے لئے ضروری طریقے اپنانے پڑیں گے۔
ذمہ داروں، اساتذہ اور نصاب میں، بالخصوص ہیومن سائنسز میں بنیادی کام کی ضرورت ہے۔ ان کاموں کی تفصیلات ماہرین کی کمیٹیوں اور تحقیقاتی ٹیموں کے اراکین کی میٹنگوں میں طے کی جائيں۔ ہم جو چاہتے ہیں وہ یہ سب ہے۔
اب اگر کوئی آئے اور اپنے عمل یا قول میں، جو کچھ ہم نے کہا ہے اس کو ایک یا دو سطحی نوعیت کے چھوٹے کاموں تک محدود کر دے تو اس نے اس بڑے ہدف اور عظیم تحریک کے ساتھ زیادتی کی ہے۔
اجمال کے ساتھ عرض کروں کہ میں ان شاء اللہ یہ کام دیکھوں گا اور اب یونیورسٹیوں اور ثقافتی مراکز کے مینیجمنٹ میں معیار یہ ہونا چاہئے کہ یہ کام بہترین انداز میں انجام پائے۔ اس لئے کہ اسلامی کام ہوگا تو محکم علمی کام بھی اس کے دائرہ کار میں موجود ہوگا، محکم اس لئے کہا گیا کہ کمزور علمی کام اسلامی نہیں ہو سکتا۔ اس علم کو ملک کا حال اور مستقبل دونوں سنوارنا چاہئے، کمزور علم سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ ملک میں بہترین علوم حاصل کئے جائيں، جو ملک و قوم کو علمی اور عملی خود کفالت تک پہنچا دیں اور ہمارا کردار، اخلاق، انتخاب کی کفیت اور یونیورسٹیوں میں لوگوں کے لئے جو امتیازات مد نظر رکھے جائیں اور بقیہ متعلقہ چیزیں بھی ( سب اعلی ترین معیار کی ہوں) میری امیدیں آپ سے وابستہ ہیں۔ خدا سے مدد طلب کیجئے کہ ان شاء اللہ اس کام کو پوری توانائی کے ساتھ انجام دے سکیں۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ