رہبر انقلاب اسلامی نے 9 جنوری 1978 کو شہر قم کے تاریخ ساز عوامی قیام کی سالگرہ کے موقع پر قم سے آنے والے ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب میں اہل قم کے اس تاریخی قدم کی ستائش کی اور اسلامی انقلاب کے دوام کے عوامل پر روشنی ڈالی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے شاہی حکومت کے خلاف علما اور مراجع تقلید کی قم کے عوام کی طرف سے حمایت کی قدردانی کرتے ہوئے اہل قم کو اسلامی انقلاب کے ہراول دستے سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ برسوں کی جدوجہد، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بیانوں اور علمائے دین اور مراجع کرام کے مقام و منزلت کی وجہ سے ظالمانہ شاہی حکومت کے خلاف عوامی جدوجہد کا سازگار ماحول فراہم ہو گیا تھا اور 9 جنوری کے قیام نے اس حیاتی تحریک کا آغاز کر دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ عوام کی شجاعت، بصیرت اور میدان میں اترنے کے سلسلے میں بروقت احساس ذمہ داری 9 جنوری کے قیام کے بنیادی عناصر تھے۔ آپ نے فرمایا کہ عوام کا وہ قیام امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی حمایت میں انجام پایا اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات اسلامی انقلاب کی فتح پر منتج ہوئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ موجودہ حالات میں اسلامی جمہوریہ ایران کا مقابلہ امریکا، صیہونی حکومت، استکبار کے آلہ کاروں، تکفیری عناصر اور داعش پر مشتمل دشمنوں کے بہت وسیع محاذ سے ہے، اب اگر سنت الہیہ کے تقاضوں یعنی استقامت، بصیرت اور بروقت اقدام کی بنیاد پر عمل کیا جائے تو ہم اسلامی انقلاب کی فتح کی طرح اس وسیع محاذ کو بھی جیت سکتے ہیں۔

بسم‌ الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

قم کے رہنے والے اپنے عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ تاریخ میں شہر قم کا نام وہاں کے عوام کی ہمت و شجاعت کے باعث رقم ہوا جو پیش پیش رہنے والے اور دوسروں کے لئے مشعل راہ بننے والے عوام ہیں۔ ان تاریخی ایام کو جیسے جیسے وقت گزرا واقعات و اہل قم کے اقدامات نے اس حقیقت کو اور بھی اجاگر کیا اور اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ بحمد اللہ قم انقلاب کا مرکز، انقلاب کا محور، انقلاب کا سرچشمہ ثابت ہوا ہے اور انقلاب کے دوام اور روز افزوں استحکام کا مرکز بھی بنا رہے گا۔ آپ سب کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ اللہ تعالی آپ سب کو اجر عنایت فرمائے۔ آپ نے جو خوبصورت ترانہ پیش کیا اس کا وہ 'ترجیع' والا حصہ صرف اور صرف امام زمانہ سے مختص ہونا چاہئے کسی اور سے نہیں۔ ہمیں عادت ڈالنی چاہئے کہ سارا اخلاص، ساری فداکاری، ساری محبت اور اپنا دل ان بزرگوار کی بارگاہ میں نثار کریں۔ حضرت کے لئے دعا کیجئے تو مولا آپ کے لئے دعا کرتے ہیں۔ یہ ہماری روایتوں میں نقل ہوا ہے۔
9 جنوری کے واقعے کے بارے میں جس کی مناسبت سے آپ عزیزوں کا یہ گرمجوشی سے مملو اجتماع منعقد ہوا ہے، بہت سی باتیں بیان کی جا چکی ہیں۔ ان گزشتہ برسوں کے دوران ہم نے بھی بیان کیں اور دوسروں نے بھی روشنی ڈالی۔ بعض باتیں تو تکرار مکررات ہیں ان میں کوئی نیا پہلو نہیں ہے، لیکن اس سب کے باوجود 9 جنوری کا واقعہ ہرگز پرانا ہونے والا نہیں ہے۔ اگر ہم کسی واقعے کے تعلق سے کچھ باتیں بار بار بیان کریں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس واقعے پر کہنگی کی گرد جمنے لگی ہے۔ جیسے واقعہ عاشورا ہے۔ البتہ ہم اس سے موازنہ نہیں کرنا چاہتے۔ واقعہ عاشورا کی اہمیت دیگر واقعات سے بالکل مختلف ہے، لیکن واقعہ عاشورا کو مثال بنایا جا سکتا ہے۔ تیرہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے کہ واقعہ عاشورا کا تذکرہ جاری ہے۔ ساری باتیں بارہا بیان کی جا چکی ہیں، لیکن یہ واقعہ ہرگز کہنہ نہیں ہوتا۔ چمکتے سورج کی مانند یہ واقعہ ہر روز اور ہمیشہ نگاہوں کے سامنے رہتا ہے لیکن کہنہ نہیں ہوتا۔ ہر سال اور ہر مہینے یہ واقعہ اس سماج اور اسلامی معاشروں پر نورافشانی کرتا ہے، روشنی دیتا ہے، توانائی عطا کرتا ہے، قوت دیتا ہے۔ یہ 9 جنوری کا واقعہ بھی اسی انداز کا واقعہ ہے۔ 9 جنوری کو جو کارنامہ انجام دیا گيا وہ بہت عظیم کارنامہ تھا۔ یہ ایسا کرنامہ تھا کہ جب بھی کسی قوم میں اور کسی آبادی کے اندر اس طرح کا کارنامہ انجام دیا جاتا ہے تو بڑے متحیر کن اثرات سامنے آتے ہیں۔ ملت ایران کے اندر اس کے لئے زمین ہموار ہو چکی تھی۔ جب تک مقدمات فراہم نہ ہوں کوئی بھی کام نتیجے تک نہیں پہنچتا۔ اس سے پہلے برسوں تک امام خمینی کی جدوجہد، دوسرے افراد کی کاوشیں، انقلابی افکار و نظریات کی پورے ملک میں ترویج۔ ان سب کے علاوہ صدیوں سے عوام کے اندر علمائے دین کا خاص احترام و اکرام، یہ سارے مقدمات موجود تھے لیکن انجن کو اسٹارٹ کرنے والی چابی کی ضرورت تھی اور وہ چابی اہل قم نے گھمائی۔ یہ ایک اہم کارنامہ تھا۔ امام خمینی کی حمایت میں لوگ میدان میں اترے، یہ میدان کوئی عام میدان نہیں تھا۔ وہاں گولیوں کی بوچھار تھی، فائرنگ تھی، دہشت تھی، سرکوبی کے اقدامات تھے، مگر سب بے خوف ہوکر پوری شجاعت کے ساتھ اور بروقت ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے، میں اس جملے پر خاص تاکید کرنا چاہوں گا، ضرورت کا بروقت احساس کرتے ہوئے، ذمہ داری کو بروقت محسوس کرکے، یعنی تاخیر سے نہیں، اہل قم میدان میں اتر پڑے۔ 9 جنوری کو بہائے جانے والے شہدا کے خون ناحق، اہل قم کی شجاعت، ان کے بروقت اقدام اور احساس ذمہ داری نے اپنا رنگ دکھایا۔ یہ انجن کو اسٹارٹ کرنے والی چابی تھی۔ وہیں سے بہاؤ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک اٹھ کھڑا ہوا۔ بنابریں اہل قم کے اس کارنامے کو ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
میں تاریخ نہیں بیان کرنا چاہتا۔ ہمارے سامنے معروضی مسائل ہیں۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ آئندہ ہمیں کون سی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔ بہرحال انقلاب کامیاب ہوا۔ دنیا کے عام اندازوں اور تخمینوں کے مطابق انقلاب کی کامیابی تقریبا محال تھی۔ کوئی بھی یقین نہیں کر سکتا تھا کہ ایران جیسے ملک میں جس پر استکباری طاقتوں کی گہری نظر تھی، جہاں صیہونیوں کی استراحت گاہ تھی، جہاں امریکی مشیروں کا اڈہ تھا، جہاں اغیار آکر سکون و چین کا احساس کرتے تھے، 9 جنوری کا واقعہ رونما ہونے سے دس دن پہلے امریکی صدر نے تہران میں تقریر کی اور اس تقریر میں کہا کہ ایران استحکام کا جزیرہ ہے۔ ایران کے بارے میں انھیں اتنا اطمینان تھا۔ ایسی حساس جگہ پر، ایسے اہم ملک میں، جہاں عوام پر بے تحاشا ظلم اور ان کی بری طرح سرکوبی کرنے والی حکومت قائم تھی، جس ملک پر امریکا اس طرح اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھا، وہاں عام اندازوں اور تخمینوں کے مطابق دین کی بنیاد پر عقائد کی اساس پر اور عوام کے جذبہ ایمانی کے سہارے، خود عوام کے ہاتھوں اور ایک روحانی پیشوا اور مرجع تقلید کی قیادت میں انقلاب کا کامیاب ہو جانا محال بات تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا کی کوئی بھی خفیہ ایجنسی یہ اندازہ نہیں لگا سکی کہ ایسا ہو جائے گا۔ کیونکہ عام اندازوں کے مطابق انقلاب کی کامیابی محال معلوم ہوتی تھی۔ ایسے ملک میں اس طرح کا انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہو اور کامیاب ہونے کے بعد دوبارہ ناکامی سے دوچار نہ ہو، دوسرے بہت سے ملکوں کے برخلاف جن کے بارے میں ابھی میں تقابلی جائزہ پیش کروں گا، پھر یہ انقلاب نظام حکومت تشکیل دے، نظام سازی کرے، اسلامی جمہوریہ وجود میں آئے، پھر یہ اسلامی جمہوریہ دوام حاصل کر لے اور روز بروز اس کا استحکام بڑھتا جائے، اس کی جڑیں زیادہ گہری ہوتی جائیں، زیادہ مضبوط ہوتی جائیں۔ مادی اندازوں اور تخمینوں میں ہرگز اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا، اسے ممکن نہیں مانا جا سکتا، لیکن ایسا ہوا۔ یہ جو تبدیلی رونما ہوئی اس سے ثابت ہو گیا کہ اس عالم کون و مکاں میں، اس کائنات پر ایسے قوانین حکمفرما ہیں جنھیں مادہ پرست لوگ نہیں پہچانتے، ان قوانین کو نہیں دیکھ پاتے؛ سُنَّةَ اللهِ فِی الَّذینَ خَلوا مِن قَبل(۱) ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے؛ سُنَّةَ اللهِ الَّتی قَد خَلَت مِن قَبل(۲) سنت خدا سے مراد قوانین الہی ہیں۔ اس عالم وجود میں، اس کائنانت میں کچھ قوانین موجود ہیں۔ طبیعی قوانین کی طرح جیسے قانون کشش ثقل، ستاروں اور ماہ و خورشید کا قانون، ماہ و خورشید کی آمد و رفت کا قانون، یہ سب قانون ہیں، یہ طبیعی قانون ہیں۔ اسی طرح انسانی معاشروں میں بھی کچھ قوانین ہیں، ان قوانین کو مادہ پرست افراد کی نگاہیں محسوس نہیں کر پاتیں حالانکہ یہ قوانین موجود ہوتے ہیں۔ جب ہم ان خاص قوانین کے لئے سازگار حالات فراہم کر لیتے ہیں تو اللہ تعالی پھر اس قانون کو پورے استحکام سے نافذ کر دیتا ہے۔ آگ میں جلا دینے کی خاصیت ہوتی ہے، یہ ذمہ داری آپ کی ہے کہ آگ روشن ہونے کے مقدمات فراہم کریں۔ جلتی آگ پر کوئی سوکھی چیز رکھئے تاکہ آگ کا دائرہ بڑھے۔ یعنی آپ مقدمات فراہم کیجئے تو قوانین الہیہ اور طبیعی قوانین اپنا کام کریں گے۔ زمین ہموار ہونا ضروری ہے۔ ملت ایران نے زمین ہموار کی۔ یہ باتیں ہمارے بزرگوں نے بھی بیان کی ہیں اور قرآن میں بھی اس کا مکرر ذکر کیا گيا ہے۔ ائمہ علیہم السلام کے اقوال میں بھی، رسول خدا کے اقوال میں بھی یہ نکات موجود ہیں؛ فَلَمّا رَأَی اللهُ صِدقَنا اَنزَلَ بِعَدُوِّنَا الکَبتَ وَ اَنزَلَ عَلَینا النَّصر (۳) امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ صدق دلی کے ساتھ میدان میں اترو، استقامت کا مظاہرہ کرو تو اللہ تعالی تمہارے دشمن کی سرکوبی کر دیگا، تمہاری مدد کرے گا۔ یہ کلی قاعدہ ہے اور طبیعی قانون ہے۔ اسلامی انقلاب میں بھی یہ قاعدہ اور یہ قانون نافذ ہوا۔ عوام الناس خلوص اور صدق دلی کے ساتھ میدان میں اترے اور انھوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔
ہم یہیں پر ایک نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک وسیع دشمن محاذ ہے۔ اس وسیع دشمن محاذ میں صیہونی حکومت کے عمائدین، امریکی حکومت کے عمائدین، عالمی استکبار کے آلہ کار، تکفیری عناصر اور داعش وغیرہ شامل ہیں۔ آپ دیکھئے کہ یہ کتنا وسیع محاذ ہے۔ آپس میں عدم مماثلت رکھنے والے یہ گروہ سب اسلامی جمہوری نظام کے دشمن ہیں۔ یعنی بہت وسیع محاذ ہے۔ یہ محاذ بہت کچھ کر سکتا ہے۔ وہ پروپیگنڈا کرتا ہے، دنیا کے ابلاغیاتی ادارے اس کے اختیار میں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کے خلاف جس طرح سے وہ چاہتے ہیں زہر اگلتے ہیں۔ معیشت کی چابیاں ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ سیاسی قوت ان کے پاس ہے۔ سیکورٹی ادارے ان کے ہاتھ میں ہیں۔ انٹیلیجنس ادارے ان کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ سب اسلامی جمہوری نظام کے مقابل کھڑے ہیں۔ کچھ لوگ جب اس وسیع محاذ کو دیکھتے ہیں تو لرز اٹھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سنت الہیہ نام کی عظیم حقیقت سے غافل ہیں۔ یہی دشمنی بلکہ اس سے بھی بڑی دشمنیاں انقلاب سے برتی گئیں مگر یہ تحریک کامیاب ہوئی۔ آج بھی وہی عناد موجود ہے اور اگر آپ اس کے لوازمات اور تقاضوں پر عمل کریں تو آج بھی آپ کو فتح ملے گی، اس میں تو کوئی شک و تردد ہے ہی نہیں؛ فَلَمّا رَأَی اللهُ صِدقَنا اَنزَلَ بِعَدُوِّنا الکَبت یہ اصول آج بھی قائم ہے۔ ہم اور آپ جب صدق دلی سے میدان میں اتریں گے، اس کے تقاضوں کو پورا کریں گے، پائيداری کا ثبوت دیں گے، بصیرت سے کام لیں گے، بروقت اقدام کریں گے، صحیح بات کریں گے، صحیح عمل کریں گے تو وہی ہوگا جو امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا؛ اَنزَلَ بِعَدُوِّنا الکَبتَ وَ اَنزَلَ عَلَینا النَّصر فتح ہمارا مقدر بنے گی اور کبت (4) اور سرکوبی دشمن کا مقدر قرار پائے گی۔ اس طرح انقلاب ایک اساسی اور روشن نکتے کی حیثیت سے ہمیں مستقبل کے لئے بہترین درس دے رہا ہے۔
ہم نے عرض کیا کہ یہ انقلاب دوسرے انقلابات کے مقابلے میں یا اسی ملک کے اندر رونما ہونے والے دیگر واقعات یا عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کے مقابلے میں دیکھیں تو بالکل بے مثل واقعہ نظر آئے گا۔ اگر اس وقت میں یہ بحث چھیڑوں اور دیگر انقلابات سے اسلامی انقلاب کا موازنہ کروں تو بحث کافی طویل ہو جائے گی۔ پہلے میں اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض کر چکا ہوں۔ اس وقت ہم انقلاب کا موازنہ ملک کے اندر ہی رونما ہونے والے بعض دیگر واقعات سے کریں، مثال کے طور پر تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک سے اس کا موازنہ کریں جو اپنی جگہ ملک کے اندر رونما ہونے والا ایک بڑا واقعہ تھا۔ اس مسئلے میں بھی عوام میدان میں اتر پڑے تھے، وہ بھی عوام کا کارنامہ تھا، چنانچہ اسے قومی تحریک کہا جاتا ہے۔ سیاسی حلقوں میں اسے قومی تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس قومی تحریک کا مطالبہ کیا تھا؟ ایک کم ترین مطالبہ تھا۔ یہ تحریک اقتصادی خود مختاری، سیاسی خود مختاری اور ہمہ گیر خود مختاری کے لئے نہیں چلائی گئی تھی۔ ہمارا تیل پوری طرح برطانیہ کے ہاتھ میں تھا۔ تیل کو قومیانے کی تحریک میں مطالبہ یہ تھا کہ تیل کی صنعت کو برطانیہ کے قبضے سے نکال کر اپنے اختیار میں لیا جائے۔ یہ کوئی بہت زیادہ مطالبہ نہیں تھا، مگر ایک اہم مطالبہ ضرور تھا، تاہم مکمل خود مختاری کا مطالبہ نہیں تھا۔ اس تحریک میں بھی عوام میدان میں اترے، کچھ واقعات پیش آئے، مگر تحریک دو تین سال سے زیادہ جاری نہ رہ سکی۔ دو تین سال سے زیادہ نہیں چل سکی۔ دشمن اس تحریک کو کچل کر اپنا راستہ طے کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جب تحریک کچل دی گئی تو پھر تیل کی صنعت کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئی۔ یعنی 19 اگست کے واقعے کے بعد جو کنسرشیئم بنا اس کی حالت پہلے کے دور سے کہیں زیادہ ابتر تھی۔ پہلے تیل کی صنعت برطانیہ کے قبضے میں تھی اور اب اس پر برطانیہ اور امریکا کا مشترکہ قبضہ تھا۔ تیل کے تمام معاملات دشمنوں کے ہاتھ میں تھے۔ یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا۔ انقلاب سے قبل تک یہی صورت تھی۔ آپ دیکھئے کہ اسلامی انقلاب کا اصلی مسئلہ تیل کی صنعت سے متعلق نہیں تھا۔ یہاں تو مکمل خود مختاری کی بات تھی، سیاسی خود مختاری، اقتصادی خود مختاری، ثقافتی خود مختاری۔ ان نعروں کے ساتھ یہ انقلابی تحریک معرض وجود میں آئی، لہذا اس کا موازنہ قومی تحریک سے نہیں کیا جا سکتا۔ مگر آپ دیکھئے کہ تیل کو قومیانے کی تحریک جاری نہیں رہ سکی، جبکہ یہ تحریک اور یہ انقلاب کامیاب بھی ہوا، باقی بھی رہا اور اسے دوام بھی حاصل ہوا۔
آئینی انقلاب سے موازنہ؛ آئیے تقابلی جائزہ لیتے ہیں اس انقلاب اور آئینی انقلاب کا۔ آئینی انقلاب بھی ملک کے اندر رونما ہونے والا بڑی اہمیت کا حامل واقعہ ہے۔ آئینی انقلاب کا مطالبہ کیا تھا؟ بادشاہوں کی مستبدانہ مطلق العنانیت کو قدرے محدود کرنا، یعنی بادشاہ باقی رہے، بس جو مطلق العنانیت بادشاہ کے ہاتھ میں تھی وہ کسی حد تک محدود ہو جائے۔ مثال کے طور پر ایک پارلیمنٹ تشکیل پا جائے۔ یہ تھا آئینی انقلاب کا مطالبہ۔ عوام میں سے بہت سے لوگ میدان میں آئے، گوناگوں طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد آئے، قتل کئے گئے، شہید ہوئے، مگر دشمن اس تحریک پر مسلط ہو گیا اور اس نے اسے اپنی مٹھی میں لیکر مسل دیا۔ آئينی انقلاب کے کچلے جانے کے بعد ڈکٹیٹر شپ اور بھی سخت ہو گئی۔ آئینی انقلاب کے پندرہ سال بعد رضاخان اقتدار میں آ گیا۔ وہ رضاخان جس کی آمریت کا ماضی کی کسی بھی ڈکٹیٹرشپ سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ظالم، گستاخ، حقیقی معنی میں دشمن اور اغیار کا غلام۔ دوسرے حکمراں اگر ڈکٹیٹر بھی تھے تو اغیار کی غلامی کا طوق انھوں نے اس انداز سے گلے میں نہیں ڈالا تھا۔ اغیار کے حکم پر اسے اقتدار بھی ملا اور اغیار کے حکم سے ہی اقتدار چھن گیا۔ انگریز ہی ہر سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ایک موقع ایسا آیا کہ اس نے ذرا سی سرپیچی کی کوشش کی تو انگریزوں نے فورا اس کی بساط لپیٹ دی۔ آئینی انقلاب کمترین مطالبات کی تحریک تھی لیکن یہ جاری رہنے والی نہیں تھی اور جاری رہ بھی نہیں سکی، ختم ہو گئی۔
مگر اسلامی انقلاب نے کیا کیا؟ اسلامی انقلاب نے یہ نہیں کہا کہ ہم سلاطین کی حکومت کو محدود کریں گے۔ اس تحریک نے سیدھے یہ سوال اٹھایا کہ سلطنت کا کیا مطلب ہوتا ہے؟! ایک قوم آباد ہے، یہ سرزمین اسی قوم کی ہے تو کوئی شخص اس قوم کے سر پر کیوں مسلط رہے اور اس کا فرمان عوام کی زندگی پر کیوں نا‌فذ ہو؟ اسلامی انقلاب نے آکر خود سلطنت کو اور مطلق العنان حکومت کو ختم کر دیا۔ یہ انقلاب باقی بھی رہا۔ آپ دیکھئے کہ اس انقلاب کے دوام اور بقا کے تعلق سے بہت اہم تجزیہ ہے کہ یہ کیسے باقی رہا؟ کیا وجہ تھی کہ تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک میں بھی عوام موجود تھے، سارے نہیں لیکن پھر بھی کافی تعداد میں موجود تھے، اس کے باوجود وہ تحریک باقی نہیں رہ سکی حالانکہ مطالبات کمترین سطح کے تھے۔ مگر اسلامی انقلاب حد اکثر سطح کے مطالبات کے ساتھ دوام حاصل کرنے میں کامیاب رہا؟ اپنے کمترین مطالبات کے باوجود وہ آئینی انقلاب باقی نہیں رہ سکا، جانبر نہ ہوا، مگر اسلامی انقلاب اپنے بڑے مطالبے کے ساتھ یعنی ملک میں سلطنتی نظام کی بیخ کنی کے مطالبے کے ساتھ شروع ہوا، کامیاب ہوا اور باقی بھی رہا۔
اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تجزیہ آپ نوجوانوں کو کرنا ہے، مجھے تو اس تجزئے کا علم ہے۔ نوجوان جائیں بیٹھیں، غور کریں اور دیکھیں کہ اس کی پشت پر کون سے عوامل کار فرما رہے؟ کون سے عناصر اور عوامل تھے جن کی وجہ سے وہ تحریکیں باقی نہیں رہ سکیں اور اپنے حتمی اہداف تک نہیں پہنچ پائیں، مگر اسلامی انقلاب پورے استحکام کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہنے میں کامیاب ہو گیا؟ کیا وجہ تھی؟ نوجوانوں کو بیٹھ کر ان پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہئے۔ اگر ان واقعات کا صحیح تجزیہ ہمارے پیش نظر ہو تو عوام کے دلوں میں بعض لوگ جو خوف و ہراس اور ناامیدی کے بیج بوتے ہیں وہ بالکل بے اثر ہو جائیں گے۔ اگر ہم صحیح ادراک پر قادر ہو گئے تو ملک کا مستقبل کا راستہ بالکل واضح اور روشن ہو جائے گا۔ کسی سماجی واقعے کا دوام، پائيداری اور باقی رہ جانا بہت بڑی بات ہے۔ دنیا میں بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں بعض بڑی عظمت والے بھی ہوتے ہیں مگر پھر بھی انھیں مٹا دیا جاتا ہے۔ دشمن اسے اپنے کنٹرول میں لے لیتے ہیں اور پھر ختم کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی انقلاب دوام حاصل کر لیتا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ البتہ اس کے لئے طولانی بحثوں کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ تھوڑا مطالعہ کریں۔
آپ فرانس کے معروف انقلاب کی مثال لے لیجئے جسے فرانس کا عظیم انقلاب کہا جاتا ہے۔ یہ حقیقت میں انقلاب تھا، کامل اور ہمہ جہتی انقلاب تھا جو عوام کی شراکت سے رونما ہوا۔ متعدد تلخ واقعات کے بعد یہ انقلاب کامیاب ہوا، لیکن اس کی عمر پندرہ سال بھی نہیں رہی۔ یہ سلطنتی نظام کے خلاف انقلاب تھا۔ انقلاب کے آغاز کو پندرہ سال کا عرصہ ابھی نہیں گزرا تھا کہ نپولئن کی سلطنت کا دوبارہ آغاز ہو گیا۔ یہ مکمل آمرانہ حکومت تھی۔ اس کے بعد انقلاب کو بالکل فراموش کر دیا گیا۔ وہی لوگ جو بے دخل کر دئے گئے تھے، جن خاندانوں کو انقلاب نے اکھاڑ پھینکا تھا وہی لوٹ آئے اور انھوں نے ہی حکومت کی، برسوں تک حکومت چلی۔ ایک بار پھر عوام کی طرف سے صدائے احتجاج بلند ہوئی اور پھر وہی سب کچھ ہوا۔ فرانس میں یہ کشمکش تقریبا سو سال تک جاری رہی۔ نوے یا سو سال بعد فرانس میں وہ جمہوریت قائم ہو پائی جس کے لئے یہ ملک کوشاں تھا۔ تو وہ انقلاب کو قائم نہیں رکھ پائے۔ سوویت یونین کے انقلاب کا بھی ایک الگ طرح سے یہی انجام ہوا۔ لہذا اس بات کی حد درجہ اہمیت ہے کہ کوئی انقلاب باقی رہ جائے، خود کو قائم رکھے، اپنے دشمنوں سے لوہا لے، ان پر غلبہ حاصل کرے۔ ہمارا انقلاب واحد انقلاب ہے جو اس میں کامیاب ہوا اور ان شاء اللہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
اس وقت دنیائے استکبار کے تمام تھنک ٹینک اور فکری مراکز، امریکا میں بھی اور اسی طرح دیگر استکباری ممالک میں بھی، اس فکر میں لگے ہوئے ہیں کہ ایسا کیا کریں کہ یہ درخت، یہ تناور درخت جو کسی زمانے میں نازک سا پودا تھا مگر اس وقت بھی اسے کچلا نہیں جا سکا، اب وہی پودا تنومند درخت بن چکا ہے، کس طرح اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں؟! کس طرح اسے کاٹ کر گرا دیں؟! ان کا سارا ہم و غم یہی ہے۔ توجہ سے سنئے تاکہ یہ بات ذہن میں بیٹھ جائے۔ جو اطلاعات ہمارے پاس ہیں اور جو تجزئے ہمیں مل رہے ہیں ان لوگوں کی طرف سے جو دشمن کے تجزیوں کو ہم تک پہنچاتے ہیں ان کے مطابق یہ لوگ ہر آن اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کس طرح اس انقلاب کو ختم کیا جائے۔ مگر یہ انقلاب توفیق خداوندی کے طفیل میں، آپ عوام کی بلند ہمتی کے سائے میں مسلسل آگے بڑھتا جا رہا ہے، روز بروز اس کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے اور روز بروز ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔
ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ اس دوام اور تسلسل کو کسی صورت سے ختم کر دیں، لہذا ہماری اور آپ کی پوری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اس دوام اور استقلال کو اور بھی مستحکم کریں۔ انقلاب کے اوائل سے بھی دشمن اس فکر میں تھے کہ کسی طرح انقلاب کو ختم کر دیں۔ مسلط کردہ جنگ کا مقصد بھی یہی تھا۔ ملک کے گوشہ و کنار میں قومیتوں کے نام پر جنگ کا ہدف بھی یہی تھا، اقتصادی ناکہ بندی بھی اسی مقصد کے تحت کی گئی تھی، ان حالیہ برسوں کے دوران جو شدید پابندیاں لگائی گئیں ان کا بھی مقصد یہی تھا۔ ہمارے وطن عزیز کے مغرب اور مشرق میں تکفیری تنظیموں کی تشکیل کرنا بھی اسی مقصد کے تحت ہے کہ اسلامی انقلاب کو ختم کر دیا جائے۔ وہ اس دوام اور تسلسل کو ختم کر دینا چاہتے ہیں جو ان کے لئے بہت مبہوت کن، سخت اور تکلیف دہ ہے۔ وہ اسے ختم کر دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
آئے دن وہ کوئی نیا شگوفہ چھوڑتے ہیں۔ انھوں نے سنہ 2009 میں جو حرکتیں کیں، یہ نئی چال تھی، یہ امریکیوں کی نئی سازش تھی۔ انھوں نے دوسری کچھ جگہوں پر اس سازش کا تجربہ پہلے بھی کیا تھا، یہ صرف ہمارے ملک سے مختص نہیں تھا، اس کا وہ کئی ملکوں میں تجربہ کر چکے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے وہی تجربہ ہمارے ملک میں دہرانے کی کوشش کی مگر انھیں منہ کی کھانی پڑی۔ نئی چال یہ تھی کہ انتخابات کے بہانے ایک ایسے ملک میں جہاں انتخابات بھی ہو رہے ہیں لیکن انتخابات سے جو حکومت تشکیل پا رہی ہے وہ امریکا کو پسند نہیں ہے، وہ امریکی مفادات کی اس طرح خدمت کرنے پر تیار نہیں ہے جس طرح امریکی چاہتے ہیں، اس ملک میں الیکشن ہوئے ہیں اور اسی حکومت کو ووٹ ملے ہیں، اب وہ آتے ہیں اس اقلیت کو جسے ووٹ نہیں ملے ہیں میدان میں لاکر کھڑا کر دیتے ہیں کہ وہ سڑکوں پر نکل پڑیں۔ اس اقلیت کو زیادہ نمایاں کرنے کے لئے ایک رنگ طے کرتے ہیں، بیگنی، سبز، گلابی، وغیرہ۔ ہمارے یہاں سبز رنگ آیا تھا۔ اس سے پہلے دوسری جگہوں پر لال، نارنگی وغیرہ رنگ استعمال کئے گئے کہ بڑی اکثریت کے مقابلے میں جو اقلیت ہے اسے سڑکوں پر لے آئيں۔ کیونکہ یہ عوام ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ عوام کا حصہ تھے۔ البتہ یہ وہ لوگ تھے جن کے پسندیدہ کینڈیڈیٹ کو مینڈیٹ نہیں ملا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ بھی عوام الناس کا حصہ تھے۔ کوشش یہ تھی کہ یہ افراد جہاں بھی ہوں بس ڈٹ جائيں اور منصوبہ ساز ان کی مدد کرتے رہیں۔ اگر ضرورت پڑے تو دولت بھی فراہم کر دی جائے، سیاسی مدد بھی کی جائے۔ یہی نہیں ضرورت کے مطابق ہتھیار بھی سپلائی کئے جائيں تاکہ انتخابات کے نتیجے کو تبدیل کر دیا جائے۔ یہ کام انھوں نے کئی ملکوں میں کیا اور کامیاب بھی ہو گئے۔ یہاں بھی انھوں نے وہی سب کچھ دہرانا چاہا۔ مگر کامیاب نہیں ہوئے۔ یہاں بھی وہی معاملہ تھا۔
البتہ ہمارے احباب نے اس زمانے میں جب یہ مسئلہ در پیش تھا، ہمیں سفارش کی کہ رنگین انقلاب کا نام زبان پر نہ لائيے۔ میں بھی چونکہ مشاورت کا قائل ہوں اور مشیر حضرات اہل فکر اور اہل نظر ہیں، لہذا میں نے رنگین انقلاب کا نام نہیں لیا، مگر یہ رنگین انقلاب ہی تھا۔ رنگین بغاوت تھی، ایک ناکام رنگین کودتا۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ جو واقعہ دوسرے چار پانچ ملکوں میں پیش آیا، وہاں امریکیوں نے پیسے دیکر، وسائل فراہم کرکے کامیابی حاصل کر لی۔ اسلامی جمہوریہ میں ان کو منہ کی کھانی پڑی۔ حالانکہ انھوں نے خوب پشت پناہی کی تھی۔
ان مسائل کے پیش آنے سے کچھ ہی دن پہلے امریکی صدر نے مجھے ایک خط ارسال کیا تھا۔ یہ دوسرا خط تھا۔ اس میں اس حقیر کے تعلق سے اور اسلامی جمہوری نظام کے بارے میں بڑی موافق باتیں لکھی تھیں۔ میں بھی جواب ارسال کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، میں نہیں چاہتا تھا کہ خط کا جواب نہ دوں۔ لیکن جب یہ مسائل پیش آئے تو انھوں نے فورا ان افراد کی حمایت شروع کر دی جو تہران کی سڑکوں پر اسلامی نظام کے خلاف، انقلاب کے خلاف، اسلامی جمہوریہ میں لفظ اسلام کے خلاف احتجاج کے لئے نکلے۔ مخالفین نے جو بھی اقدامات کئے انھوں نے سب کی حمایت کی۔ البتہ ان کی تو مرضی تھی کہ اور بھی بہت کچھ ہوتا، لیکن یہ ان کے بس میں نہیں تھا۔ آج بھی موجودہ امریکی صدر کے ناقدین کہتے ہیں کہ آپ نے 2009 میں اسلامی جمہوریہ کے مخالفین کی پوری طرح حمایت نہیں کی۔ حالانکہ انھوں نے حمایت تو خوب کی تھی لیکن ملت ایران نے بروقت میدان میں اتر کر سب کچھ ٹھیک کر دیا۔
مختصر یہ کہ پائیداری اور دوام بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس دوام کو ایک ہدف کے طور پر مد نظر قرار دینا چاہئے اور ہمیشہ اس فکر میں رہنا چاہئے کہ کس طرح اس ہدف کو پورا کیا جائے۔ آپ نظر ڈالئے اور غور کیجئے کہ انقلاب کی پائيداری کے عوامل و اسباب کیا ہیں۔ ان میں ایک ایک عنصر کو ہمیں تقویت پہنچانا چاہئے۔ البتہ ایک نکتہ اور بھی عرض کرتا چلوں، اس کا تجزیہ آپ نوجوانوں کے ذمے ہے۔ ایٹمی مذاکرات کے بعد کے اس دور کا نام خود امریکیوں نے رکھا ہے 'ایران کے سلسلے میں سخت گیری کا دور۔' وہ سخت گیری کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ سخت گیری اس سے زیادہ دشوار تو نہیں جو انھوں نے ماضی میں کی ہے۔ ایران کے عوام، نوجوانوں اور حکام کو چاہئے کہ دشمنوں کی دشمنی کا آگاہی و ہوشیاری کے ساتھ، شجاعت و بہادری کے ساتھ، امید و نشاط کے ساتھ، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کے ساتھ اور دوسرے بے شمار مثبت عوامل کی مدد سے، ڈٹ کا مقابلہ کریں۔ دشمنوں کے عناد کے سامنے ثابت قدمی کے ساتھ جم جائیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ ہر لمحے کے لئے آپ کی ایک خاص ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس فریضے کو پہچاننا چاہئے اور انجام دینا چاہئے۔ اس نکتے پر گفتگو تھوڑی طولانی ہو گئی۔
اب انتخابات کے بارے میں چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔ الیکشن بہت اہم ہے۔ انتخابات در حقیقت ملت ایران کو تازہ دم کرنے کا ایک موقع ہوتا ہے۔ ملت ایران تازہ دم ہو جاتی ہے۔ انتخابات کا مزاج ہی یہی ہوتا ہے۔ ایک ایک شہری آتا ہے اور ووٹ ڈالتا ہے کہ جناب میری رائے یہ ہے کہ فلاں صاحب یہ منصب سنبھالیں ، چاہے وہ صدارتی الیکشن ہوں، پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے الیکشن ہوں یا ماہرین اسمبلی کے الیکشن ہوں، ان میں سے ہر ایک کی اپنی خاص اہمیت ہے۔ عوام الناس کے اندر جو کوئی بھی اس ذمہ داری کا احساس کرے وہ انقلاب کی پاسداری کرنے والا ایک عنصر ہے۔ عوام کی شراکت ان بنیادی عوامل میں سے ایک ہے جو دشمن کو ناکم بنا دیتے ہیں۔ ہم جو اتنی تاکید کرتے ہیں، بار بار کہتے ہیں کہ انتخابات میں سب شرکت کریں، میں نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے، کتنی بار کہا ہے یہ مجھے یاد نہیں ہے، کہ جو لوگ اسلامی نظام کو قبول نہیں کرتے وہ بھی ملک کی حفاظت کے لئے، ملک کا اعتبار و وقار بڑھانے کے لئے آئیں اور آکر اپنا ووٹ ڈالیں۔ ممکن ہے کوئی اس حقیر کو پسند نہ کرتا ہو تو کوئی بات نہیں۔ مگر الیکشن رہبر انقلاب کا نہیں اسلامی مملکت ایران کا ہے، اسلامی جمہوری نظام کا ہے۔ سب کو چاہئے کہ انتخابات میں شرکت کریں۔ اس سے اسلامی نظام کی قوت بڑھے گی، اس کی پائيداری و دوام کو ضمانت ملے گی جو اس وقت بحمد اللہ حاصل بھی ہے۔ اس کے نتیجے میں دیگر اقوام کی نگاہ میں ملت ایران کا وقار بڑھے گا، اس کا اعتبار بڑھے گا۔ دشمنوں کی نگاہ میں ملت ایران کی ہیبت بڑھے گی۔ یہ ہے الیکشن کی حقیقت۔ الیکشن میں سب سے بنیادی چیز ہے عوام کا پولنگ مراکز پر پہنچنا اور اپنا ووٹ ڈالنا۔ سب شرکت کریں۔ انتخابات میں شرکت، اسلامی نظام کی آبرو ہے، ملت ایران کی آبرو ہے، ملک کی آبرو ہے۔
دوسری چیز ہے درست انتخاب کرنا۔ نظریات اور آراء میں ممکن ہے فرق ہو۔ اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ مگر سب کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ انتخاب صحیح ہو۔ ہم اپنی کوشش ضرور کر لیں۔ ممکن ہے کہ ہماری یہ کوشش نتیجہ خیز ثابت ہو اور ہمارا انتخاب درست ہو اور ممکن ہے کہ ہماری کوشش نتیجہ بخش نہ ہو بلکہ ہمارا انتخاب غلط ثابت ہو، تو اس میں کوئی بری بات نہیں ہے۔ اللہ تعالی ہماری اس سعی کو قبول فرمائے گا۔ کیونکہ ہم نے اپنا کام انجام دیا ہے۔ اپنے طور پر ہم نے پوری کوشش کر لی ہے۔ ہم نے محنت کی ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے دو الیکشن ہیں۔ ایک تو پارلیمنٹ کے انتخابات ہیں اور دوسرے ماہرین اسمبلی کے انتخابات ہیں۔
پارلیمنٹ کی اہمیت بہت کلیدی ہے؛ قوانین کے اعتبار سے بھی اور حکومتوں کے آگے بڑھنے کے لئے 'پٹری بچھانے' کے عمل کے اعتبار سے بھی۔ پٹری بچھانے کا کام پارلیمنٹ کرتی ہے تاکہ یہ 'ریل' آگے بڑھے اور مطلوبہ منزل کی جانب پیش قدمی کرے، یہاں تک کہ بین الاقوامی امور میں بھی۔ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ بحمد اللہ ہماری موجودہ پارلیمنٹ نے عالمی مسائل کے تعلق سے بڑے اچھے موقف اختیار کئے۔ یہ ملک کے لئے بہت اچھی بات ہے۔ یہ پارلیمنٹ کہاں اور وہ پارلیمنٹ کہاں جو بین الاقوامی دشمنوں کے سامنے، دشمن کے متحدہ محاذ کے سامنے انھیں کی باتیں دہرانے لگے۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایسی پارلیمنٹ میں جو ایٹمی مسئلہ ہو یا دیگر امور ہوں، دشمنوں کی باتیں رٹتی رہے اور اس پارلیمنٹ میں جو آزاد ہو، خود مختار ہو، شجاع ہو، جو نعرے عوام الناس کے منہ سے سنائی دیتے ہیں، وہی نعرے ایوان کے اندر گونجیں، ایوان میں وہی موقف اختیار کیا جائے جو عوام کو پسند ہے، بہت فرق ہے۔ یہ چیز بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس طرح ملک کے داخلی مسائل کے سلسلے میں بھی اور وطن عزیز کے عالمی و بین الاقوامی اعتبار کے لحاظ سے بھی پارلیمنٹ کی بڑی اہمیت ہے اور اس میں ایک ایک رکن پارلیمنٹ کا عمل دخل ہے۔ آپ ووٹ دینے جا رہے ہیں، اب ممکن ہے کہ کسی شہر میں ایک سیٹ ہے اور کسی شہر یا علاقے میں دس سیٹیں ہیں، ان میں ہر ایک رکن پارلیمان کی فعالیت کی اہمیت ہے۔ لہذا آپ کو چاہئے کہ اطمینان بخش طریقے سے نتیجے تک پہنچیں۔ چونکہ ہر امیدوار کو فردا فردا پوری طرح سمجھنا اور پرکھنا شاید ممکن نہ ہو، میرے سامنے بھی جب فہرست آتی ہے تو ممکن ہے کہ میں امیدواروں کی اس فہرست میں بعض کو بخوبی نہ جانتا ہوں، تاہم میں ان لوگوں پر بھروسہ کرتا ہوں جنہوں نے اس فہرست کے امیدواروں کا تعارف کروایا ہے۔ ان کی باتوں پر اعتماد کرتا ہوں اور ان کے ذریعے جاری کی جانے والی فہرست کے ناموں کو ووٹ دیتا ہوں۔ اگر میں دیکھتا ہوں کہ ان امیدواروں کی فہرست جاری کرنے والے افراد ایسے ہیں جو انقلاب کے امور کو، دین کے امور کو اور ملکی خود مختاری کے مسائل کو کچھ خاص اہمیت نہیں دیتے، امریکا اور دوسرے ملکوں کے چاہنے والے ہیں تو میں ان کی فہرست پر بھروسہ نہیں کرتا۔ میرے خیال میں یہ مناسب روش ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ پارلیمنٹ کے لئے یا ماہرین اسمبلی کے لئے جو فہرست ہمیں دی جا رہی ہے اس فہرست کو تیار کرنے والے کون لوگ ہیں۔ ہمیں ان افراد پر اعتماد کرنا چاہئے جن کی دینداری پر اور جن کے التزام پر ہمیں بھروسہ ہو، ہمیں معلوم ہو کہ یہ دیندار افراد ہیں، انقلابی لوگ ہیں، امام خمینی کی لائن پر چلنے والے ہیں، امام خمینی کے راستے پر گامزن رہنے والے ہیں، امام خمینی کو دل سے چاہتے ہیں۔ مناسب طریقہ یہ ہے کہ ہم ان چیزوں کو سمجھ لیں۔ اگر اس طرح عمل کیا اور اس طرح تحقیق کی تو آپ نے اپنا کام انجام دے دیا ہے۔ اللہ تعالی آپ کو اجر عطا کرے گا، خواہ کسی جگہ کوئی غلطی ہی کیوں نہ ہو گئی ہو۔ مثال کے طور پر جس شخص کے بارے میں ہم نے یہ خیال کیا کہ اچھا انسان ہے اور اسے ووٹ دیا، اتفاق سے اچھا انسان نہ ہو۔ مگر ہم نے اپنی طرف سے پوری محنت کی تو اللہ تعالی ہمیں اجر عطا کرے گا۔
ماہرین اسمبلی کی بھی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ماہرین اسمبلی کو اگر ہم ظاہری طور پر دیکھیں تو ہر سال دو بار اس کے ارکان جمع ہوتے ہیں۔ بیٹھ کر سیاسی و غیر سیاسی بحثیں کرتے ہیں اور پھر اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ اس اسمبلی کو اس نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ ماہرین اسمبلی کی ذمہ داری رہبر انقلاب کا انتخاب کرنا ہے۔ کیا یہ معمولی چیز ہے؟ جس دن موجودہ رہبر اس دنیا میں نہ رہے یا جب رہبر نہ ہو تو اسی اسمبلی کو رہبر کا انتخاب کرنا ہے۔ وہ کس شخص کا انتخاب کریگی؟ اس شخص کا انتخاب کریگی جو دشمن کی یلغار کے سامنے ڈٹ جائے، اللہ پر توکل کرے، شجاعت کا مظاہرہ کرے اور امام خمینی کے نقش قدم پر چلے؟ ایسے شخص کا انتخاب کرے یا اس کا انتخاب کرے جو دوسرے انداز کا ہو؟ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ آپ ماہرین اسمبلی کے لئے ایسے افراد کا انتخاب کر رہے ہیں جو در حقیقت اس رہبر انقلاب کا انتخاب کریں گے جس کے ہاتھ میں انقلاب کی باگڈور ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ یہ کو‏ئی معمولی بات نہیں ہے۔ لہذا بہت ضروری ہے کہ پہلے تحقیق کر لی جائے۔ بنابریں خود انتخابات اور انتخابات میں شرکت ایک چیز ہے اور سب سے زیادہ اہل شخص کا انتخاب بھی ایک اہم بات ہے۔ اس پرتوجہ رہنی چاہئے۔
انقلابی ہونے کے معیارات کا مسئلہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یعنی واقعی ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ معیار کیا ہیں، ہمیں انقلابی ہونے کے معیاروں کا بخوبی ادراک ہونا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے طور پر بھی غور کریں اور باخبر افراد سے مشاورت بھی کریں۔ اگر یہ سب کچھ انجام دیا گیا تو انقلاب کا دوام اور اس کی پائيداری کی ضمانت مل جائے گی۔
ان فرائض پر عمل کیجئے تو دو ثمرات ملتے ہیں۔ ایک ثمرہ تو یہ ہے کہ انقلاب کو پائیداری حاصل ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کچھ پتے گرتے ہیں تو کچھ نئی کونپلیں بھی نکلتی ہیں۔ میں یہ بات بارہا عرض کر چکا ہوں۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو کسی زمانے میں انقلابی تھے۔ بعد میں کوئی ایسی چیز پیش آئی کہ جس کی وجہ سے انقلاب سے روگرداں ہو گئے۔ بعض افراد ہوتے ہیں کہ کچھ کام ان کی توقع کے خلاف ہو جاتے ہیں، مثال کے طور پر کسی جگہ ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہو گئی، ایسے میں ظاہر ہے کہ ان کی بات صحیح ہے، مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ انقلاب سے روگرداں ہو جایا جائے۔ یہ عمل درست نہیں ہے۔ بعض لوگ کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر، خاندانی مسائل کی وجہ سے یا دیگر وجوہ کی بنیاد پر انقلاب سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ اسے آپ پتوں کی ریزش کہہ سکتے ہیں، شجر انقلاب کے پتوں کا گرنا کہہ سکتے ہیں۔ ایسا تمام انقلابات کے ساتھ ہوتا ہے۔ تمام سماجی تحریکوں میں اسی انداز سے پتے الگ ہوتے ہیں اور گرتے ہیں۔ لیکن جہاں یہ پتے گرتے ہیں وہیں نئی کونپلیں بھی نکلتی ہیں۔ میرے پاس کم اطلاعات نہیں ہیں۔ مجھے بہت ساری جگہوں کی خبر ہے۔ میں جب نظر دوڑاتا ہوں تو نئی کونپلیں مجھے گرنے والے پتوں سے بہت زیادہ نظر آتی ہیں۔ اتنے سارے مومن نوجوان، یہ با ایمان تعلیم یافتہ نوجوان، یہ صاحب ایمان تجزیہ کار، سائنسی و فنی میدانوں کے یہ ماہر دیندار افراد، یہ سب شجر انقلاب کی نئی کونپلیں ہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ ہمارے ملک میں یونیورسٹیوں میں تدریس کی صلاحیت رکھنے والے تمام افراد کی مجموعی تعداد پانچ ہزار بھی نہیں تھی۔ انقلاب کے اوائل میں یہی صورت حال تھی۔ کچھ لوگ ملک سے چلے گئے تھے، کچھ لوگ تدریس کے لئے آنا نہیں چاہتے تھے، کچھ تھے جن کے اندر صلاحیت نہیں تھی۔ مگر آج ہم یونیورسٹی کی سطح کی تدریس کے لئے دسیوں ہزار اساتذہ سے بہرہ مند ہیں۔ مومن اساتذہ، حقیقی معنی میں انقلاب کے پابند اساتذہ، انقلاب پر اپنے پورے وجود سے یقین رکھنے والے اساتذہ موجود ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان کی تربیت انقلاب کی آغوش میں ہوئی ہے۔ اس بڑی تعداد میں صاحب ایمان قلمکار، فنکار، عالم، سائنسداں، مبلغ، مقرر نوجوان، سبھی میدانوں میں اور داخلی و عالمی سبھی امور میں۔ یہ انقلاب کی نئی کونپلیں ہیں۔ یہ سرسبز کونپلیں ہیں۔ یہ بہت قیمتی چیز ہے۔ بنابریں اگر ہم انقلاب کے تعلق سے اپنے فرائض پر عمل کریں تو اس کا نتیجہ ان کونپلوں کی کثرت میں مسلسل اضافے اور ان کی پائیداری کی صورت میں نکلے گا۔
دوسرا ثمرہ وہ طمانیت و آسودگی ہے جو انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں پیغمبر کی بیعت کے تعلق سے فرماتا ہے؛ لَقَد رَضِیَ اللهُ عَنِ المُؤمِنینَ اِذ یُبایِعونَکَ تَحتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ ما فی قُلوبِهِم فَاَنزَلَ السَّکینَةَ عَلَیهِم (۵) اے ہمارے پیغمبر! جن لوگوں نے آپ سے بیعت کی، اللہ جانتا تھا کہ ان کے دلوں میں کیا ہے، جب سچے جذبے کے ساتھ بیعت کی گئی تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے ان کے دلوں پر طمانیت و آسودگی نازل فرمائی۔ جب دل میں طمانیت پیدا ہو گئی تو تشویش ختم ہو جاتی ہے۔ اضطراب دور ہو جاتا ہے، مایوسی زائل ہو جاتی ہے۔ اس وقت دشمن کا ایک اہم حربہ مایوسی اور قنوطیت پھیلانا ہے۔ مختلف شعبوں میں نوجوانوں کو مایوس کرتے ہیں، سن رسیدہ افراد کو مایوس کرتے ہیں، سابق انقلابی شخص کو مایوس کرتے ہیں۔ مگر یہ الہی طمانیت و آسودگی انسان کے اندر امید پیدا کرتی ہے۔ پیغمبر سے بیعت کا یہ نتیجہ ہوتا ہے۔ آج آپ جب انقلاب سے بیعت کرتے ہیں اور اس بیعت کی تجدید کرتے رہتے ہیں تو گویا آپ پیغمبر سے بیعت کر رہے ہیں۔ آج جو امام خمینی کی بیعت کرتا ہے وہ در حقیقت پیغمبر کی بیعت کر رہا ہے۔ اگر آپ امام خمینی کے انقلابی راستے کو زںدہ رکھیں گے اور اس میں کہنگی پیدا نہیں ہونے دیں گے، اسے بوسیدہ نہیں ہونے دیں گے تو در حقیقت آپ پیغمبر سے بیعت کے تقاضے پورے کریں گے، گویا آپ پیغمبر اسلام سے بیعت کر رہے ہیں اور پھر نتیجے میں؛ اَنزَلَ اللهُ سَکینَتَهُ عَلی‌ رَسولِه وَ عَلَی المُؤمِنینَ (۶) یہ ایک اور آیت میں بھی ہے۔ اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے؛ فَاَنزَلَ السَّکینةَ عَلَیهِم، اللہ تعالی دلوں میں راحت و سکون پیدا کرے گا۔ اگر آپ آسودہ خاطر ہیں، اطمینان قلب رکھتے ہیں تو دشمن کا سامنا ہونے پر بے دست و پا نہیں ہوں گے، مایوسی میں مبتلا نہیں ہوں گے، تزلزل کا شکار نہیں ہوں گے۔ آج اس طمانیت اور آسودگی کی بنیاد پر انسان یہ یقین حاصل کر سکتا ہے کہ ملت ایران امریکا اور اس کی تمام سازشوں پر غالب آئے گی۔ (۷)
اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب فرمائے۔ ہم سب کو اس راستے میں ثابت قدم رکھے۔ ہمیں ان سپاہیوں میں قرار دے جو انقلاب کی پائیداری کے لئے کوشاں ہیں اور اپنی زندگی کا سارا سرمایہ اس راہ میں خرچ کرنے میں دریغ نہیں کرتے۔ پالنے والے! بحق محمد و آل محمد اس قوم پر اپنے الطاف کا نزول فرما، امام خمینی کی روح کو ہم سے راضی فرما، امام زمانہ کے قلب مبارک کو ہم سے خوشنود فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) منجملہ سورہ احزاب، آيت نمبر 38 کا ایک حصہ؛ یہ سنت خدا ہے جو بہت پہلے سے پیشروؤں کے درمیان رائج رہی ہے۔
۲) سوره‌ فتح، آیت نمبر 23 کا ایک حصہ؛ پہلے سے سنت الہیہ یہی رہی ہے۔
۳) نهج ‌البلاغه، خطبه‌ نمبر 56
۴) زمین پر پٹخ دینا، توڑ دینا
۵) سوره‌ فتح، آیت نمبر 18 کا ایک حصہ؛ بیشک جب مومنین اس درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے اللہ خوشنود ہوا اور ان کے دلوں میں جو کچھ تھا اس سے آگاہ ہوا اور ان پر طمانیت نازل کی۔
۶) سوره‌ توبه، آیت نمبر 26 کا ایک حصہ؛ اس وقت اللہ تعالی نے اپنے رسول اور مومنین پر طمانیت نازل فرمائی۔
۷) حاضرین کی طرف سے تکبیر اور امریکا مردہ باد کے نعرے