رہبر انقلاب اسلامی نے سرکاری ملازمت کے طور پر عوام کی خدمت کے لئے ملنے والے موقع کو بہت اہم قرار دیا اور اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھائے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب ملاحظہ فرمائیے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ملک کے زحمت کش اور خدمتگزار سرکاری ملازمین کے طبقے سے تعلق رکھنے والے برادران و خواہران عزیز! خوش آمدید۔ سرکاری ملازمین کے نام سے ایک دن کو معین کرنا بہت مفید اقدام ہے۔ امید ہے کہ یہ دن اور یہ مناسبت ارباب حل وعقد کو یہ موقع فراہم کرے گی کہ ملک کے سرکاری ملازمین سے متعلق اہم مسائل پر توجہ دیں، سرکاری ملازمین کی قدر کریں، سرکاری محکموں میں ملازمت کی شناخت حاصل کریں اور اس کام کی اہمیت کو بیان کریں۔
آج اس مناسبت سے زحمت کرکے یہاں تشریف لانے والے آپ عزیزوں کے درمیان پہلی بات جو عرض کرنی ہے وہ آپ کی قدردانی ہے۔ آپ اسلامی جمہوری حکومت کے فعال اور متحرک جسم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سرکاری ملازمین سے یہ میری طرف سے انسیت اور ارادت مندی کا اظہار ہے؛ لیکن ملک کے زحمت کش اور خدمتگزار ملازمین پر خدا کا فضل، برکات، قبولیت اور ثواب اس سے بہت زیادہ ہے۔ جو چیز زیادہ اہم ہے، وہ یہ ہے کہ خود سرکاری ملازمین بھی اور عوام بھی، اس بات کو جان لیں کہ نظام حق اور عوامی نیز عادلانہ نظام حکومت میں سرکاری ملازمت کتنی اہم ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔
بہت فرق ہو جاتا ہے اس بات سے کہ انسان کس کی ملازمت کرتا ہے اور کس نظام کے لئے کام کرتا ہے۔ جب کوئی شخص، اس کی تعلیم کی سطح جو بھی ہو، اسلامی نظام کے لئے ، عوامی نظام کے لئے کام کرتا ہے جس کا مقصد عدل و انصاف پھیلانا اور سلامتی و رفاہ فراہم کرنا ہے اور ان سب کا ہدف بھی اسلام کی سربلندی ہے، یعنی اسلامی حکومت، وہ حکومت جو لوگوں کی دینداری کو بھی اوپر لے جاتی ہے انسانی معاشرے کو آگے بڑھاتی ہے، عدل و انصاف اور سلامتی کو فروغ دیتی ہے اور عوام کے مختلف طبقات کو آسائش فراہم کرتی ہے؛ ایسے نظام کے لئے کام کرنا، کام کی نوعیت چاہے جو بھی ہو، بہت اہمیت رکھتا ہے اور اسلامی و انسانی اصولوں کے مطابق بہت ممتاز ہے۔
البتہ بعض کام ایسے ہیں جن کی قدر و منزلت زیادہ ہوتی ہے؛ ایسے کاموں کا ثواب بھی زیادہ ہوتا ہے۔ بعض ملازمین زیادہ محنت کرتے ہیں؛ زیادہ دلجمعی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ یقینا ان لوگوں کے کام کی اہمیت خدا کے نزدیک زیادہ ہے۔ مجموعی طور پر سرکای کام، سرکاری ملازمت اسلامی نظام کے لئے جس سطح پر بھی ہو، جیسا کہ میں نے عرض کیا، یہ عوامی اورعادلانہ نظام ہے، اسلام کی سربلندی، دینداری کے فروغ اور لوگوں کے لئے رفاہ و آ‎سائش فراہم کرنے کا نظام ہے، اس میں کام کرنا باعث فخر ہے۔ جو بھی اس نظام میں کام کرتا ہے اس کو فخر محسوس کرنا چاہئے کہ ایسے نظام میں کام کر رہا ہے۔ یہ کہاں اور خیانتکارانہ اہداف کے حامل کسی مجموعے میں جو دشمنان اسلام سے وابستہ ہو، کام کرنا کہاں؟! ان دونوں میں بہت فرق ہے۔
آج اسلامی نظام میں ملازمت کا مسئلہ یہ ہے۔ آج الحمد للہ ایران کے عوام دیکھ رہے ہیں کہ خدمت گزار حکومت نے پورے ملک میں اپنی تعمیری سرگرمیوں میں کافی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یعنی اگر کوئی انصاف پسند ہو اور اپنے اطراف پر نظر ڈالے تو اس ملک کے ہر گوشے میں تعمیر و ترقی کے آثار نظر آئيں گے۔ بالخصوص ان امور میں جن کا تعلق ملک کے مستقبل سے ہے، بہت زیادہ کام انجام پائے ہیں۔ حتی کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے بعض کام ایسے ہیں جو ایک قوم کی زندگی بدل سکتے ہیں اور اس کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ یہ خدمت گزار حکومت کے قابل فخر کارنامے ہیں۔
یہ کام کون کر رہا ہے؟ یہ وہ نکتہ ہے جس پر پوری ایرانی قوم کو توجہ دینا چاہئے۔ آج ملک کو چلانے والے اور مختلف سطح پر ملک میں کام کرنے والے کون ہیں؟ وہی لوگ ہیں جو مختلف اداروں اور وزارتوں میں ملازم ہیں، کام کرتے ہیں، محنت کرتے ہیں۔ افسران کسی انداز سے، عام ملازمین کسی اور انداز سے، ان میں سے ہر ایک اپنے طور پر محنت کر رہا ہے۔ یعنی مختلف سطح پر، اعلی ترین سطح سے لیکر صدر مملکت، وزرا، اعلی سرکاری حکام سے لیکر، مختلف شعبوں کے ایک ایک ملازم تک سبھی ان قابل فخر کارناموں میں شریک ہیں۔ عوام سرکاری محکموں میں ملازمت کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں ۔
البتہ ہر طبقے میں ایسے لوگ ہیں جو اپنی حیثیت کی قدر نہیں جانتے ہیں یا ان کی کوئی حرکت اور کام ، دوسروں کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ علما میں، فوجیوں میں، مختلف طبقات میں ایسے لوگ ہیں، سرکاری ملازمین میں بھی ہیں۔ خود سرکاری محکموں اور اداروں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ غلط افراد کو مجبور کریں کہ اپنی بری حرکتوں سے، سرکاری محکموں سے عوام الناس کے مایوس ہونے کے اسباب فراہم نہ کریں اور محنتی، زحمتکش، خدمتگزار اور دلجمعی سے کام کرنے والے ملازمین کو اپنے برے کاموں سے بدنام نہ کریں۔ اس بات پر توجہ رکھیں کہ سرکاری ملازمت کا ماحول، شرافت و پاکدامنی کا ماحول ہے اور سرکاری ملازمت اسلام و مسلمین کے لئے کام کرنا ہے۔
سرکاری ملازم کے کام کی ماہیت، خدمت ہے۔ البتہ ایک صحتمند نظام میں، حتی وہ لوگ بھی، جو اپنا نجی کاروبار کرتے ہیں، وہ بھی ممکن ہے کہ ایک طرح سے معاشرے کی خدمت کریں؛ لیکن وہ کہاں اور جو اپنی پوری عمر اور سارا وقت، امور مملکت میں لگا دیتا ہے، وہ کہاں؟ سرکاری ملازمت یہ ہے۔ ایک سرکاری ملازم، چاہے عورت ہو یا مرد، اپنی توانائی بھر پوری زندگی امور مملکت کو آگے بڑھانے میں لگا دیتا ہے۔ اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
البتہ میں آپ عزیزوں کو دو باتوں کی سفارش کروں گا، توجہ فرمائیں:
ایک یہ ہے کہ جان لیں کہ آج اسلامی جمہوری حکومت، معمولی حکومت نہیں ہے؛ یہ ایسی حکومت ہے جس کے اہداف عظیم اور کام نمایاں ہیں۔ اس ملک میں جس کے حکام چاہتے ہیں کہ جیسے بھی ہو، امور مملکت کو چلائيں اور اس ملک میں بہت فرق ہے جس کے حکام چاہتے ہیں کہ ملک میں بنیادی تبدیلی لائیں، لوگوں کو زندگی کے ان المناک حالات سے جو شاہی اور استبدادی حکومتوں کے دور میں بالخصوص قاجاری دور کے اواخر اور فاسد پہلوی دور میں پیدا ہوئے ہیں، نجات دلائيں۔ ان استبدادی اور شاہی حکومتوں نے واقعی ایران اور ایرانیوں کی عزت و آبرو خاک میں ملا دی تھی اور ملک میں ہر چیز کو پستی میں لے گئے تھے۔ ان حالات میں، کچھ لوگوں نے کمر ہمت باندھی، امور مملکت کو اپنے ہاتھوں میں لیا، سنگین بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا اور چاہتے ہیں کہ لوگوں کی زندگی اس المناک حالت سے نکال کے بین الاقوامی سطح پر ایک ترقی یافتہ اور باعزت ملک میں تبدیل کریں اور اس ملک کو اور ایرانی قوم کو اس مرتبے تک پہنچا دیں جس کی یہ مستحق ہے؛ اس لئے کہ آپ ایرانی بھی ہیں اور مسلمان بھی ہیں۔ مسلمان ہونا بھی بہت سے نمایاں امتیازات رکھتا ہے اور ایرانی ہونا بھی درخشان صلاحیتوں اور استعداد کی علامت ہے۔
وہ چیز جو ہمارے ایرانی اور مسلمان ہونے کا تقاضا ہے، کہاں ہے؟ دنیا میں، ماضی میں، انقلاب سے پہلے کی ستّر اسّی اور سو سال کی تاریخ میں ان عظمتوں کی نشانیاں کہاں نظر آتی ہیں؟ انقلاب سے پہلے کی اسّی نوّے سال کی تاریخ میں دیکھیں، یا حکام کی بدعنوانیاں اور خیانتیں ہیں، یا بیرونی طاقتوں کی مداخلت ہے یا ایرانی قوم کی تحقیر ہے۔ ہماری موجودہ صدی کی گزشتہ تاریخ میں، اسلامی و ایرانی عظمت کہیں نظر نہیں آتی۔ آج انقلاب کی برکت سے زحمتکش اور خدمتگزار حکام کی برکت سے اسلامی نظام بہت تیزی کے ساتھ اس منزل کی طرف بڑھ رہا ہے جو اس قوم کے شایان شان ہے۔ آپ ایسی حکومت کے ملازم ہیں۔ یہ اس حکومت سے بہت مختلف ہے جو روزمرہ کی معمولی زندگی کے امور چلاتی ہے۔ بنابریں جب ہدف عظیم ہو تو کام کی اہمیت اور حساسیت بھی بڑھ جاتی ہے۔
میں آپ برداران و خواہران گرامی سے جو یہاں ہیں اور ملک کے تمام سرکاری ملازمین سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کام کے وقت کوشش کریں کہ اپنی پوری توانائی، استعداد اور خلاقیت سے استفادہ کریں۔ یہ ضروری ہے۔ اپنی پوری فکری اور عملی توانائی بروئے کار لائیں۔ اپنے کام کے اوقات کا کوئی لمحہ بھی سستی میں نہ گزاریں اور بیکار نہ جانے دیں۔ جہاں آپ کام کرتے ہیں، وہاں یہ صورتحال نہ پیدا ہونے دیں۔ سرکای محکموں میں کام کرنے والے سبھی لوگ خلوص کے ساتھ اپنی پوری فکری و عملی توانائی اور خلاقیت بروئے کار لائیں تو حکومت کے کام کاج میں تیزی آ جائے گی ، کارکردگی بہتر ہوگی، پیشرفت بڑھ جائے گی اور اسی سرعت کے ساتھ ، اسلامی جمہوری حکومت اور مقدس اسلامی نظام کے عظیم اقدامات کے تناسب سے جاری رہے گی۔ یہ آپ سرکاری ملازمین سے میری پہلی سفارش ہے کہ اپنے وقت، استعداد اور توانائیوں سے استفادہ کریں۔ مختلف سطح پر سبھی سرکاری ملازمین، اوپر سے نیچے تک ، سب، حتی نچلے درجے کے ملازمین جو کسی محکمے اور ادارے میں معمولی اور چھوٹے کام کرتے ہیں، سبھی دلجمعی، توجہ اور خلاقیت کے ساتھ کام کرکے، کارکردگی اور نتائج میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
میری دوسری سفارش یہ ہے کہ میرے عزیزو! اسلامی جمہوریہ کے دشمن اس نظام کی ممتاز شخصیات اور بڑے حکام پر ہی الزام لگانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اسلامی جمہوری نظام کے پورے سسٹم پر تہمت لگاتے ہیں۔ آپ خیال رکھیں کہ سرکاری محکموں اور اداروں کو ان تہمتوں سے پاک رکھیں۔ جن لوگوں کو نہ خدا کی پرواہ ہے، جو نہ اپنے ضمیر اور انسانی اخلاق و شرافت کو اہمیت دیتے ہیں، نہ انہیں اپنے انجام کی فکر ہے اور نہ ہی دوسرے سرکاری ملازمین کی، انہیں سرکاری ملازمین کو بدنام کرنے کی اجازت نہ دیں کہ ان کی وجہ سے یہ تہمت لگے کہ سرکاری ملازمین کام نہیں کرتے اور لالچی ہیں۔
البتہ ذرائع ابلاغ کو بھی توجہ رکھنی چاہئے کہ مختلف عناوین سے سرکاری ملازمین کے بارے میں ہر بے بنیاد بات کو نشر نہ کریں اور اس زحمت کش اور خدمتگزار طبقے کے افراد کی، جن کے کندھوں پر امور مملکت کا سنگین بوجھ ہے اور جو حکومت کی گاڑی چلا رہے ہیں، ان کی حیثیت کو داغدار نہ کریں۔ اس تعلق سے خود آپ کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ خیال رکھیں اور لالچی لوگوں کو اس قناعت پسند، آبرومند، زحمت کش اور دلجمعی سے کام کرنے والے اس طبقے کو بدنام کرنے کی اجازت نہ دیں۔ دشمن دشمنی کے لئے بہانے کی تلاش میں ہے۔
منحوس اور بدعنوان شاہی نظام میں اوپر سے نیچے تک، معدودے چند افراد کو چھوڑ کے، ہر جگہ بدعنوانی تھی۔ البتہ اس زمانے کے سرکاری ملازمین میں بھی شریف انسان موجود تھے۔ ہم سرکاری محکموں میں بھی، عدلیہ میں بھی اور مسلح افواج میں بھی ایسے لوگوں کو جانتے تھے جو پاکدامن اور شریف تھے؛ لیکن ان پاکدامن اور شریف لوگوں کو اپنے محکمے میں، اپنی شرافت کی حفاظت کے لئے مجاہدت کرنی پڑتی تھی۔ یعنی کیا؟ یعنی محکموں کا ماحول بد عنوانی کا متقاضی تھا ۔ کیوں؟ اس لئے کہ اوپر سے نیچـے تک بدعنوانی تھی ۔ جب وزیر بدعنوان ہو، جب ملک کے اعلی ترین عہدیدار کا ہاتھ اغیار کے ہاتھ میں ہو، جب ملک کا سربراہ، جو خود بادشاہ تھا، دوسروں سے اور اپنے عوام سےاور جن لوگوں سے بھی رشوت لی جا سکتی ہو، ان سے رشوت ستانی کرتا ہو تو باقی لوگوں کا حال معلوم ہے کیا ہوگا۔
اس دور میں سرکای محکموں کو عمدا بدعنوان بناتے تھے۔ اس بدعنوان نظام میں، بدعنوانی کی بیماری ہر جگہ پھیلی ہوئی تھی، لیکن بین الاقوامی نقادوں نے اپنے ہونٹ سی رکھے تھے۔ لیکن آج آپ غیر ملکی ریڈیو جو صیہونیوں کے ایجنٹ ہیں اور ان کے لئے کام کرتے ہیں، کھولیں تو دیکھیں گے کہ وہ حکومت کے کارکنوں اور ملازمین پر حملہ کرنا فراموش نہیں کرتے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس نظام کے مخالف ہیں۔ اس لئے کہ سرکاری ملازمین کو جو اس خدمتگزار حکومت کے دست و بازو ہیں، انہیں مایوس کرکے کام سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔
آج عالمی سامراج ایرانی عوام کی مخالفت و دشمنی پر کمربستہ ہے۔ وہ خود کو ایرانی قوم کا دشمن کہتے تو نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ پکے دشمن ہیں۔ چند سال قبل امریکی حکومت کے ایک وزیر نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ ہمیں ایرانی قوم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے۔ یہ کیسی حماقت آمیز بات ہے؟ کیا اس قوم کو جڑ سے ختم کر دینا ممکن ہے؟ سامراج کی خصلت یہی ہے۔ ایک قوم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی آرزو لئے بیٹھے ہیں۔ خود جڑسے ختم ہو جائيں گے۔ وہ سامراجی طاقت خود جڑسے ختم ہو جائے گی جو آپ کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ آج وہ صراحت کے ساتھ یہ نہیں کہنا چاہتے کہ ایرانی قوم کے مخالف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اسلامی جمہوری نظام اور حکومت کے مخالف ہیں۔ لیکن اسلامی جمہوری نظام کی مخالفت اس لئے کرتے ہیں کہ انقلاب کے بعد ایرانی قوم نے اسلامی نظریئے اور مکتب کی اساس پر، قرآن کی عادلانہ تعلیمات کی بنیاد پر معاشرے کی تعمیر کی جو تحریک شروع کی ہے توحیدی اور خدائی فکر کی اساس پر قوم کی سطح زندگی کو اوپر اٹھانے کا جو کام شروع کیا ہے، وہ نہ ہو۔ اس لئے کہ یہ تحریک دنیا میں ان کی زور زبردستی اور تسلط پسندی کی بساط کو کمزور کر رہی ہے اور ان کی سامراجی سلطنت کی بنیادیں متزلزل کر رہی ہے۔ اس لئے دشمن ہیں، اس لئے بقول خود، ایران کی تنبیہ کا قانون پاس کرتے ہیں۔ تم ہو کون کہ تنبیہ کروگے؟ کیا تم دنیا کے سربراہ ہو کہ دنیا کے عوام کو سزا دوگے؟ تو یہ ہے عالمی سامراج۔
میں ان لوگوں سے جنہوں نے آج ایران اور لیبیا کے تیل پر پابندی کے قانون کے مقابلے میں، جو امریکی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے، استقامت دکھائی ہے، ان یورپی اور ایشیائی حکومتوں سے جنھوں نے دنیا میں اس امریکی قانون کی مخالفت کی ہے، ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ اسلامی انقلاب کا پیغام، سامراج مخالف پیغام یہی ہے۔ اسلامی انقلاب کے مفہوم کو سمجھیں۔ بین الاقوامی سطح پر اسلامی انقلاب کا پیغام یہ ہے کہ کسی بھی حکومت اور قوم کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنی سرحدوں سے باہر نکل کے دوسری اقوام اور دوسرے ملکوں کی کمپنیوں کے لئے فرائض کا تعین کرے۔ ہم اسی کو سامراج کہتے ہیں، اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے خلاف مجاہدت کرتے ہیں۔
ایرانی قوم نے پروردگار کی مدد سے ، اتنی آگاہی، بینش اور بصیرت حاصل کرلی ہے کہ سامراج کے مقابلے میں ڈٹ جائے اور سامراج کی غنڈہ گردی سے خوفزدہ نہ ہو۔ پروردگار کی مدد سے ایران کی قوم اور حکومت سامراجی اداروں کے ان تمام ہنگاموں کے مقابلے میں متانت کے ساتھ اپنے راستے پر گامزن رہے گی۔
آج ملک میں ایک منظم، مستحکم اور متین تحریک شروع ہوئی ہے۔ یعنی ابتدائے انقلاب سے ہر دور کے حالات میں، اس کے مقتضا کے لحاظ سے چاہے وہ دور رہا ہو جب ہم پر حملہ کیا گیا اور ایرانی قوم کے دفاع کا مقدس دور تھا، یا جنگ کے بعد سے آج تک کا دور ہو، ایرانی قوم اپنے راستے پر گامزن ہے۔ ملک کے حکام نے ہنگامہ آرائیوں پر کوئی توجہ دیئے بغیر متانت کے ساتھ اپنی تحریک جاری رکھی ہے اور محکم قدموں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
ایک زمانے میں کہتے تھے کہ غیر ملکی ماہرین کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ کہتے تھے تمھارے بس کا نہیں ہے۔ ایک زمانے میں کہتے تھے کہ ایرانیوں میں صلاحیت نہیں ہے۔ البتہ آج بھی ملک کے اندر اور باہر اغیار کے زرخرید یہی کہتے ہیں؛ لیکن ایرانی قوم نے اور ملک کے حکام نے ثابت کر دیا ہے کہ اسلام کی برکت سے ان کے اندر توانائی بھی ہےاور صلاحیت بھی ہے۔ خلاقیت بھی ہے اور ہمت بھی ہے۔ فوجی طاقت بھی ہے اور سیاسی قوت بھی ہے۔ آگے بڑھ رہے ہیں اور اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔ ایرانی عوام اور حکام پروردگار کے فضل سے اپنے تعمیری کاموں، استقامت اور شجاعت سے اس بار بھی بین الاقوامی سطح پر زور زبردستی کی بات کرنے والوں کو محکم انقلابی اور سیاسی جواب دیں گے۔
امید ہے کہ خداوند عالم آپ کو توفیق عنایت فرمائے گا۔ امید ہے کہ خدوند عالم امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روح مطہر کو جنہوں نے ایرانی قوم کو یہ راستہ دکھایا اپنی برکات سے سرافراز کرے گا، اس راستے کے شہیدوں کو بالخصوص حکومت کے شہیدوں کو شہید رجائی اور شہید باہنر کو جو اس راہ کی ممتاز ہستیاں ہیں، اپنی مغفرت، رحمت اور لطف وکرم عنایت فرمائےگا۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ