قائد انقلاب اسلامی نے اس نکتے کی یاددہانی کرائی کہ حکام کی رپورٹیں ایسی ہونی چاہئیں کہ عوام اپنی زندگی کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی تصدیق کر سکیں۔ آپ نے حکومت کے بعض مثبت اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ افراط زر کی شرح میں کمی، اقتصادی میدان میں نسبتا استحکام اور تیز اتار چڑھاؤ پر قابو حکومت کے اچھے اقدامات اقدامات ہیں جنھیں آئندہ بھی جاری رکھنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم دو ہندسوں والے افراط زر پر مطمئن نہیں ہیں بلکہ سالانہ افراط زر دس فیصدی سے نیچے آنا چاہئے۔
اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے گزشتہ دو سال کے دوران مختلف میدانوں میں حکومت کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی۔ صدر مملکت نے اقصادی اور سماجی میدانوں میں استحکام و ثبات کی فضا کو حکومت کی گزشتہ دو سال کی سب سے بڑی کامیابی اور بہت اہم سرمایہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت افراط زر کی شرح کو کم کرنے سمیت اپنے وعدوں پر عملدرآمد کے لئے تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لا رہی ہے۔
کابینہ کے ارکان نے بھی اپنے اپنے شعبوں کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی۔ (1)
بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

یہ بڑا اور مبارک حسن اتفاق ہے کہ یہ ملاقات آٹھویں امام علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقع پر انجام پا رہی ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اس پاک و پاکیزہ اور عظیم ہستی کی برکتوں سے ہم سب بہرہ مند ہوں۔ ہمارے ملک کا ایک اہم افتخار اور اہم سرمایہ اس عظیم ہستی کی قبر مطہر کا ہمارے ملک کے اندر موجود ہونا ہے۔ اس عالی مرتبت ہستی کی بارگاہ میں جتنا ہو سکے خراج عقیدت پیش کریں اور دلوں کو اس بارگاہ کی جانب متوجہ رکھیں، یقینا اس سے ہماری روحانیت و معنویت میں اضافہ اور ملک کو فائدہ ہوگا۔ مثال کے طور پر جناب آخوندی صاحب (2) اس علاقے کی سڑکوں کے بارے میں، وہاں کے لئے تیز رفتار ٹرینیں چلانے کے بارے میں غور و فکر کر سکتے ہیں، کام کر سکتے ہیں، تاکہ عوام بہت کم وقت میں بھی وہاں جاکر لوٹ سکیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو ان شاء اللہ باعث برکت واقع ہوں گی۔
ہم اپنے عزیز شہیدوں؛ شہید رجائی (سابق صدر) اور شہید با ہنر (سابق وزیر اعظم) کو بھی خراج عقیدت پیش کریں گے۔ برسوں سے ہفتہ حکومت منایا جا رہا ہے۔ یہ ایک روایت رہی ہے جس سے یہ موقع ملتا ہے کہ حکومت میں شامل محنتی و جفاکش عہدیداران اپنی کاوشوں اور محنتوں کی رپورٹ پیش کریں، اپنی کامیابیوں کے بارے میں بتائيں، آئندہ ایک سال یا چند سال کے بارے میں اپنے منصوبوں سے آگاہ کریں اور ان کی قدردانی کی جائے، جو کام حکام کی طرف سے انجام دئے گئے، عوام کی جانب سے اس کا شکریہ ادا کیا جائے، قدردانی کی جائے، یا ضرورت کے مطابق کچھ ہدایات دی جائيں، یا اگر کچھ کمیاں رہ گئی ہیں تو انھیں پورا کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ ہفتہ حکومت انھیں چیزوں کی خاطر منایا جاتا ہے۔ لیکن یہاں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ہفتہ حکومت در حقیقت حکومت کے لئے عید کا موقع بھی ہے۔ یعنی ایک خاص مناسبت کی سالانہ واپسی ہے۔ عید کے معنی بھی واپسی کے ہی ہیں۔ یہ کہنے اور بیان کرنے وغیرہ کا موقع ہوتا ہے۔
اس ہفتہ حکومت کے لئے جو مناسبت رکھی گئی ہے وہ وطن عزیز کی انتہائی جانکاہ مناسبت ہے۔ یہ شہید باہنر اور شہید رجائی جیسے دو عظیم انسانوں کی شہادت کا موقع ہے۔ اس سال اتفاق سے یہ مناسبت ہفتہ کرامت (حضرت معصومہ قم اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے ایام ولادت کو ایران میں ہفتہ کرام کے طور پر منایا جاتا ہے) کے موقع پر آئی ہے، ورنہ عام طور پر یہ ہفتہ حکومت ان دو عظیم ہستیوں کی رحلت کے عظیم غم کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ میرا تصور یہ کہتا ہے کہ حکام کے دل و زبان پر حکمت الہیہ جاری ہوئی اور انھوں نے جو یہ فیصلہ کیا اور اس خاص مناسبت کو ہفتہ حکومت قرار دیا، اس کا مقصد یہ تھا کہ شہید رجائی اور شہید باہنر کو کبھی بھلایا نہ جائے اور یہ دونوں ہمیشہ دو معیاروں اور کسوٹیوں کی صورت میں ہماری نگاہوں کے سامنے موجود رہیں۔ یہ دونوں افراد معیار اور کسوٹی ہیں تو اپنی انتظامی صلاحیتوں کی خاطر نہیں کہ مثال کے طور پر انھوں نے غیر معمولی توانائیوں اور اختراعات کا مظاہرہ کیا ہو، کیونکہ دونوں ہی عزیز ہستیاں زیادہ دن تک عہدے پر نہیں رہ سکیں۔ باہنر مرحوم تو بہت کم مدت اس عہدے پر رہے جبکہ مرحوم رجائی بھی صرف چند مہینے یا تقریبا ایک سال کے لئے صدارت کے عہدے پر تھے۔ لہذا ان دونوں کا معیار اور کسوٹی قرار پانا ان کے طرز سلوک اور ان کی شخصیت اور اخلاقیات کی وجہ سے ہے۔ ہمیں یہ چیز ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہئے۔
ظاہر ہے، زمانہ بدلتا رہتا ہے۔ گوناگوں ثقافتیں اور اقدار وغیرہ آتی جاتی ہیں۔ زمانے کا مزاج ہی یہی ہے۔ ذہنوں میں اور فکروں میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ لیکن کچھ دائمی اصول بھی ہیں جنھیں ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے۔ مقدس اسلامی جمہوری نظام کے اندر ہم عہدیداروں کو انھیں دونوں شخصیتوں کے اندر موجود دائمی اصولوں کو تلاش اور حاصل کرنا چاہئے۔ ہم برسوں ان دونوں سے اور خاص طور پر شہید باہنر سے بہت قریب رہے ہیں۔ رجائی مرحوم سے بھی بہت مانوسیت تھی۔ انقلاب سے قبل کے دور سے ہی اور پھر پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر مختلف عہدوں پر کام کرنے کے دوران۔ واقعی ان کے اندر بڑی خصوصیات تھیں، جنھیں ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ میری نظر میں اس راستے اور ان اہداف پر، جن کا خاکہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے کھینچا اور اسلامی جمہوریہ جس کا آئینہ ہے، ان کا گہرا ایقان و عقیدہ، بہت اہم خصوصیت ہے۔ ان کے اندر ایسا خلوص اور خدمت کا ایسا جذبہ موجزن تھا کہ واقعی وہ نہ دن دیکھتے تھے نہ رات دیکھتے تھے بس عوام کی خدمت کے لئے کاموں میں مصروف رہتے تھے۔
عوام دوست ہونا، عوام سے دائمی رابطہ رکھنا، قریب سے عوام کی باتوں کو سننا، بند راستوں کو کھولنا، عموما ہم جب کسی عہدے پر ہوتے ہیں تو کچھ محدودیتیں ہو جاتی ہیں، ایک حصار سا بن جاتا ہے اور عوام کی زندگی کو قریب سے محسوس کرنے اور لمس کرنے کے لئے ایک گزرگاہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ میں نے صدر محترم سے بھی یہ بات کئی بار کہی ہے کہ یہ صوبائی دورہ بہت اچھی چیز ہے۔ یہ انتہائی مثبت اور تعمیری کاموں میں سے ایک ہے۔ گزشتہ حکومتوں کو بھی میں ہمیشہ اس کی سفارش کرتا تھا۔ ایک راہ حل یہ بھی ہے۔ عوام کے گھروں میں جانا، شہدا کے گھر جانا، بحمد اللہ یہ چیز رائج ہو گئی ہے جو بہت اچھی بات ہے۔ یہ چیزیں عوام سے رابطہ رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ یہ چیزیں انسان کے اندر عام لوگوں کی شناخت اور عوام دوستی کے جذبے کو قائم رکھتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسان معاشرے کی حالت سے غافل ہو جاتا ہے اور اس کی نظریں بس موٹی موٹی باتوں تک محدود ہوکر رہ جاتی ہیں، بالکل اس شخص کی مانند جو ہوائی جہاز کے ذریعے کسی شہر کے اوپر سے گزر رہا ہو۔ ایسا انسان شہر کا مجموعی خاکہ تو ان لوگوں سے بہتر انداز میں دیکھتا ہے جو نیچے شہر کے اندر موجود ہیں۔ لیکن گلیوں کے اندر کیا ہے، سڑکوں پر کیا صورت حال ہے، گھروں میں کیا حالات ہیں، دوکانوں میں کیا ہو رہا ہے، کون سے افراد رجوع کر رہے ہیں؟ یہ چیزیں تو وہی سمجھ سکتا ہے جو ان گلیوں میں قدم رکھے۔ خواہ اسی محدود مقدار میں کیوں نہ ہو جو حد امکان میں ہے۔ تو عوامی ہونا بہت اہم ہے۔
ان دونوں عزیزوں نے، جن عہدوں پر تھے ان سے اپنی کمائی کا کوئی بندوبست نہیں کیا تھا۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر ہمیں کوئی عہدہ مل گیا ہے تو اسے مستقبل کی ساری ضرورتیں پوری کرنے کا ذریعہ بنا لیں جو دنیا کے بہت سے عہدیداروں میں عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے۔ وہ اس عہدے کو ذریعہ بناتے ہیں کہ مستقبل میں کسی بڑی کمپنی کے مینیجنگ بورڈ کی رکنیت مل جائے یا کسی اہم مالیاتی مرکز کے شیئرز حاصل ہو جائیں۔ انقلاب کے اصولوں کا پابند رہنا، ان دونوں افراد کی ایک اور اہم خصوصیت تھی۔ ان چیزوں کو ہمیں مد نظر رکھنا چاہئے اور خود کو انھیں خصوصیات کے مطابق ڈھالنا چاہئے۔
حکام کے طرز عمل کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ معاشرے میں اسی کے مطابق ماحول سازی ہوتی ہے۔ یعنی ہماری روش، ہمارا انداز گفتگو، ہمارا طرز زندگی، ہماری کس کے ساتھ معاشرت ہے اور ہم نے کس سے رابطہ منقطع کر لیا ہے، یہ چیزیں معاشرے کے اندر ماحول سازی کرتی ہیں۔ لہذا آپ جو بھی عمل انجام دے رہے ہیں، جو خدمت کر رہے ہیں، خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو، اگر وہ اس نہج پر ہے جس کی توقع کی جاتی ہے اور بحمد اللہ کافی حد تک توقع کے مطابق عمل ہو رہا ہے، یعنی خلوص عمل کا جذبہ بھی ہے، کثرت سے کام انجام دیا جا رہا ہے، دردمندی کے ساتھ وہ کام کیا جا رہا ہے تو زمین پر اس کام کا جو اثر اور نتیجہ ہوگا اس کے علاوہ اس کا ایک طولانی مدت ثمرہ بھی ہوگا اور وہ ہے ماحول سازی۔ عوام کی نظر ہمارے اوپر رہتی ہے۔ وہ آپ کو دیکھتے ہیں۔ ہمارے طرز عمل کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہمارا طور طریقہ معاشرے کے اندر ماحول سازی کرتا ہے۔ ہم ایک بار پھر ان دونوں عظیم اور سعادت حاصل کرنے والی ہستیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں ان کے راستے پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
ضروری ہے کہ حکومت کے ارکان اور خاص طور پر صدر محترم کا ان کی زحمتوں پر شکریہ ادا کروں۔ آج جو رپورٹیں پیش کی گئیں، بہت اچھی تھیں۔ مناسب ہوگا کہ یہ رپورٹیں منظر عام پر آئیں اور عوام کے سامنے آپ انھیں پیش کریں۔ میں جناب سرافراز صاحب (3) سے گزارش کروں گا کہ خود ان حضرات کی آواز میں ان رپورٹوں کو نشر کریں۔ یعنی عوام خود جناب نعمت زادہ، جناب زنگنے، جناب چت چیان اور بقیہ برادران گرامی کی زبان سے ان کاموں کی تفصیلات سنیں جو انجام دئے گئے ہیں۔ یہ بہت اچھی چیز ہوگی۔ عوام کو اطمینان ہوگا کہ یہ برادران گرامی کام کر رہے ہیں، زحمتیں اٹھا رہے ہیں، سب مصروف عمل ہیں۔
بہت سے مثبت کام انجام پائے ہیں، تاہم یہ بات ہمیشہ ہمارے ذہن نشین رہنی چاہئے کہ وہی چیز بیان کریں کہ اگر عوام الناس اپنی زندگی کے حقائق کو دیکھیں تو اس کی تصدیق کریں۔ یعنی وہ مشاہدہ کریں کہ ہاں یہ کام انجام پایا ہے۔ جب (وزیر صحت و میڈیکل ایجوکیشن) ڈاکٹر ہاشمی صاحب نے 'ہیلتھ پروگرام' کا آغاز کیا تو میں نے قصدا کچھ لوگوں سے سوال کیا، یعنی ملنے جلنے والوں سے، عام لوگوں سے، دوستوں اور رشتہ داروں سے، کبھی مشہد میں اور کبھی کچھ اور جگہوں پر، تو میں نے دیکھا کہ واقعی عوام اسے باقاعدہ محسوس کر رہے ہیں۔ یعنی وہ بتاتے تھے کہ 'ہاں ہم ہاسپٹل گئے تو یہ دیکھنے میں آیا۔' یہ بہت اچھی چیز ہے۔ بعض کام ایسے ہیں جو عوام کی دسترسی سے دور رہتے ہیں، عوام انھیں نہیں دیکھ پاتے، ان کے ذیلی اثرات ہی عوام تک پہنچتے ہیں، لیکن بعض کام وہ ہوتے ہیں جن کا عوام سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے۔ ایسے کاموں کے بارے میں گفتگو کرنا چاہئے۔ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ اقتصادی میدان میں نسبتا استحکام و ثبات ہے جو باقاعدہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کی رپورٹ ہر کوئی دے رہا ہے۔ مختلف جگہوں سے ہمیں جو رپورٹیں ملتی ہیں، ان میں بھی بتایا جاتا ہے کہ یہ ثبات موجود ہے۔ یہ مثبت چیز ہے کہ تلاطم کی کیفیت پر قابو پا لیا گیا ہے۔ اس صورت حال کو اسی طرح قائم رکھا جانا چاہئے۔
افراط زر کی شرح میں کمی بھی بہت اچھی کامیابی ہے۔ البتہ افراط زر کی موجودہ شرح بھی ہمارے لئے اطمینان بخش نہیں ہے۔ ابھی ڈبل ڈیجٹ انفلیشن ہے۔ جناب صدر محترم نے ذکر کیا کہ افراط زر کی شرح اس وقت کم ہوکر تیرہ اعشاریہ کچھ فیصدی رہ گئی ہے، البتہ معیار سالانہ شرح ہے۔ پوائنٹ ٹو پوائنٹ انفلیشن ریٹ کو معیار نہیں بنایا جا سکتا ہے، یہ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ معیار سالانہ انفلیشن ریٹ ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جہاں انفلیشن ریٹ ڈبل دیجٹ میں ہے بس گنتی کے ہیں اور ہم انھیں ملکوں میں شامل ہیں جہاں انفلیشن ریٹ ڈبل ڈیجٹ میں ہے۔ ہمیں انفلیشن ریٹ کو دس فیصدی کے نیچے لانا ہوگا۔ یعنی ہمارا عزم یہی ہونا چاہئے۔ ہمیں اس منزل تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بعض اوقات کچھ خاص وجوہات کی بنا پر جن میں بعض انسان کے اختیار میں نہیں ہوتیں اور بعض انسان کے اختیار کے اندر ہوتی ہیں، انفلیشن ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ صورت حال ہمیشہ قائم رہنے والی نہیں ہے۔ ہائی انفلیشن ریٹ کبھی دائمی نہیں رہا ہے۔ اسے آخر کار کسی طرح نیچے لایا جاتا ہے اور آپ بحمد اللہ اسے نیچے لائے بھی ہیں، آپ اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن اتنے پر ہی اکتفا نہ کیجئے۔ افراط زر کی شرح اور بھی نیچے لائیے! لیکن کل ملاکر اچھی صورت حال ہے۔ انفلیشن ریٹ تیرہ اور چودہ فیصدی تک آ گیا ہے تو یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہے۔
اقتصادی جمود سے باہر نکلنے کی جو کوششیں ہیں، البتہ میں اقتصادی جمود کے بارے میں کچھ باتیں ابھی عرض کروں گا، میں صدر محترم سے اپنی الگ ملاقات میں کچھ چیزیں عرض کر چکا ہوں، آپ اقتصادی جمود سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ کیونکہ اقتصادی جمود کا منفی اثر افراط زر پر بھی پڑتا ہے اور روزگار کے مواقع بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ اقتصادی کساد بازاری کا مسئلہ ملک کا اہم مسئلہ ہے۔ اچھی کوششیں انجام دی جا رہی ہیں۔
صحت عامہ کا مسئلہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ علمی شعبے میں جو کام ہو رہا ہے وہ بھی بہت باارزش ہے۔ زمینوں کی آبپاشی کا موضوع کہ جس میں اب محترم نائب صدر خود بھی سرگرم عمل ہو گئے ہیں اور خوزستان، ایلام، زابل اور دیگر جگہوں پر آپ بذات خود گئے ہیں، ( زابل نہیں گئے؟ اچھا تو زابل آپ ضرور جائيے، بہت اچھا ہوا کہ اس کا ذکر ہو گیا) یہ سب بہت اچھے کام ہیں جو انجام دئے گئے ہیں۔
اسی طرح ایٹمی مسئلہ بھی ہے۔ ایٹمی مسئلے کے تعلق سے ہم کافی کچھ کہہ چکے ہیں۔ بہت سی باتیں ہم نے کہیں اور سنیں۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ مذاکرات کار حضرات اس کام کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ کیونکہ مذاکرات کو طول دیتے رہنا ایک مسئلہ تھا جسے ان حضرات نے اختتام تک پہنچا دیا۔ یہ بہت اہم کام ہوا ہے۔ اب اگر اس میں کہیں گوشہ و کنار میں کچھ مشکلات بھی ہوں تو آپ لوگوں اور دوسرے افراد کی دانشمندی اور مدبرانہ اقدامات کے ذریعے انھیں دور کیا جا سکتا ہے۔ تمام برادران و خواہران گرامی جو مصروف عمل ہیں ان کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میں ایک نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں ایٹمی مسئلے کے تعلق سے۔ میرے ذہن میں ہے کہ ایٹمی مسئلے کا ختم ہونا ان چیزوں میں ہے جن کی بابت مجھے تشویش ہے، یہ میری فکرمندی کے مسائل میں سے ایک ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ ہم اس بات پر توجہ دیں کہ اسلامی جمہوریہ کے کھلے ہوئے دشمن اپنے ذہنوں میں کون سے اہداف رکھے ہوئے ہیں اور کیا اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ انقلاب کے اوائل سے اب تک کبھی بھی اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کے عناد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ بیشک بعض اوقات اس دشمنی اور مخاصمانہ اقدامات پر کچھ کنٹرول کر لیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دشمنی میں کوئی کمی آ گئی ہے۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ ہمارے خلاف جعلی و غاصب صیہونی حکومت یا ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت کی دشمنی میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ ان دونوں میں ہر ایک اپنی خاص وجوہات کی بنا پر ہم سے دشمنی برت رہا ہے۔ صیہونی حکومت کچھ وجوہات کی بنا پر ہماری دشمن ہے اور امریکی کچھ اور وجوہات کی بنا پر ہمارے دشمن ہیں۔ اس دشمنی میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ اوائل انقلاب میں جو حرکتیں وہ کرتے تھے، آج بھی کر رہے ہیں۔ البتہ اب حالات کافی بدل چکے ہیں تو ان کے طریقہ کار میں بدلاؤ آ گیا ہے۔ اب کافی پیشرفت ہو چکی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب دشمنی برتنے اور وار کرنے کا طریقہ کچھ اور ہوا کرتا تھا، اب یہی وار الگ وسائل کے ذریعے، دوسرے حربوں کی مدد سے کیا جا رہا ہے۔ اسے کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ تمام شعبوں کے عہدیداران یعنی یہ صرف وزارت خارجہ اور جناب ڈاکٹر ظریف سے مختص بات نہیں ہے، بلکہ سارے شعبے، اقتصادی و ثقافتی ادارے سب توجہ دیں کہ ہم کہیں دشمن کے بچھائے ہوئے جال میں گرفتار تو نہیں ہو رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم کوئی فیصلہ کریں، سیاسی میدان میں، اقتصادی میدان میں، تجارت کے میدان میں یا ثقافتی میدان میں، ہمارے اس فیصلے سے دشمن کے طے شدہ اہداف کی مدد ہو۔ ہم ان کے بیانوں سے، ان کی تحریروں سے اور ان کے اظہار خیال سے ان کے اہداف و مقاصد کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یعنی میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ دشمنی کی یہ بات کوئی توہماتی، تخیلاتی اور غیبی بات نہیں ہے، یہ کوئی خواب کی بات نہیں ہے۔ بلکہ ایسی حقیقت ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ ممکن ہے ان کے بیان الگ انداز کے ہوں لیکن زمین پر موجود حقائق جو دیکھے جا سکتے ہیں اور محسوس کئے جا سکتے ہیں، وہ اس دشمنی کو ظاہر کرتے ہیں، وہ دشمنی کی نشانی ہیں۔ البتہ دشمنی کا مخصوص طریقہ ہے۔ اس دشمنی کے سلسلے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے، یہ ایک الگ بحث ہے۔ تاہم اتنا ضروری ہے کہ دشمنی کو نظر انداز نہ کریں، میرا یہ کہنا ہے۔ اگر آپ نے یاد رکھا کہ آپ کے مد مقابل ایک محاذ موجود ہے، جہاں بنکروں میں دشمن چھپ کر بیٹھے ہوئے ہیں، انھوں نے اپنے ہتھیاروں کو آمادہ کر رکھا ہے تو آپ اس صورت حال کے تقاضوں کے مطابق عمل کریں گے۔ کبھی آپ کو یہ محسوس ہوگا کہ فائرنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ کبھی یہ محسوس ہوگا کہ ابھی خاموش رہنا ضروری ہے، بنکروں میں چھپے رہنا بہتر ہے اور کبھی یہ محسوس ہوگا کہ اب بنکروں سے باہر نکلنے کا وقت آ گیا ہے۔ یہ ساری بعد کی بحثیں ہیں۔ اولیں ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ہرگز نہ بھولیں کہ ہمارے سامنے ایک دشمن محاذ موجود ہے جو دشمنی و عناد پر تلا ہوا ہے۔ یہ میں صرف حکومتی عہدیداروں سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ عوام کے لئے بھی میری یہ سفارش ہے اور انقلاب سے ہمدردی رکھنے والے افراد اور انقلاب کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے افراد کے لئے بھی میری یہ سفارش ہے کہ توجہ دیں۔ تاہم اس سلسلے میں حکومتی عہدیداروں کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ انقلاب کے دوسرے وفاداروں کے مقابلے میں ان کا فریضہ زیادہ ہے۔
میری نظر میں سر دست یہ کرنا چاہئے کہ انقلابی موقف اختیار کرنے میں پوری صراحت و وضاحت سے کام لیا جائے۔ یعنی کسی طرح کے تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ انقلابی نظریات کو اور امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بنیادی اصولوں کو آشکارا بیان کریں، بالکل نہ شرمائيں، کوئی تکلف نہ کریں، بالکل نہ ڈریں اور یاد رکھیں کہ؛ وَ للهِ‌ جُنودُ السَّمٰواتِ وَ الاَرضِ وَ کانَ اللهُ عَزیزًا حَکیمًا» (۴) دنیا کے تمام وسائل اور قدرتی تغیرات اللہ کی فوج ہے۔ اس خدائی فوج سے مدد لی جا سکتی ہے اور اسے اپنی مدد کے لئے بلایا جا سکتا ہے، اللہ کی ذات پر توکل کرکے اور راہ خدا پر ثابت قدم بن کے۔ ہمیں بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔ میں نے چند روز قبل اپنی تقریر میں کہا کہ دشمن دراندازی کی کوشش میں ہے۔ ہماری صفوں میں رخنہ ڈالنے کی کوشش میں ہے، مختلف جگہوں پر دشمن ہماری صفوں میں رخنہ ڈالنے کر کوشش کر رہا ہے۔ بہت ہوشیار رہئے۔ مثال کے طور پر کبھی یہ سننے میں آ سکتا کہ بیرون ملک سے فلاں ادارہ آیا ہے اور ہمارے کسی خاص تعلیمی شعبے جیسے کنڈر گارڈن کو کسی خاص روش کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پہلی نظر میں تو یہ اچھی چیز معلوم ہوتی ہے لیکن جب انسان قریب سے اس کا جائزہ لیتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ بہت خطرناک کام ہو رہا ہے جس کی طرف ہماری توجہ نہیں تھی۔ یہی دراندازی ہے۔ گوناگوں میدانوں میں، اقتصادی میدانوں میں، مختلف اداروں میں، آمد و رفت کے مختلف پروگراموں کی مدد سے۔ تو ایک مسئلہ موقف کو صریحی طور پر بیان کرنے کا ہے۔
ایک اور اہم چیز ہے عوام کے اندر موجود یکجہتی کی حفاظت۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ یکجہتی ہے تو اس سے یہ ذہن میں نہ آئے کہ معاشرے کے سارے افراد بھائیوں کی طرح ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ یہاں مراد کلی اور عمومی طور پر پایا جانے والا رجحان ہے۔ مثال کے طور پر آپ 11 فروری (اسلامی انقلاب کی سالگرہ) کے جلوسوں کو لے لیجئے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ سب ایک ہی سمت میں بڑھ رہے ہیں، تو کیا یہ سب ایک جیسے ہیں؟ سب ایک ہی دھڑے سے تعلق رکھتے ہیں؟ سب کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہے؟ نہیں، لیکن رخ سب کا ایک ہے۔ ایک سمت میں پیش قدمی کی صورت حال کی ہمیں قدر کرنا چاہئے اور اسے اہمیت دینا چاہئے۔ فروعی مسائل میں نہیں الجھنا چاہئے۔ بعض فروعی مسائل اختلاف پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔ یعنی اسی یکجہتی کو ختم کر دیتے ہیں۔ ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہئے۔
میں نے موجودہ حالات کے سلسلے میں ترجیحات کے طور پر کچھ باتیں نوٹ کی ہیں جو آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔ البتہ آج جن حضرات نے رپورٹیں پیش کیں انھوں نے اسی سے متعلق کچھ نکات بیان کئے جو میں خود بھی نوٹ کرکے لایا ہوں، لیکن اسی پر مزید تاکید کے لئے یہ باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ ان میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو پہلے بھی بیان کی جاتی رہی ہیں، لیکن انھیں ایک بار پھر دہرا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کیونکہ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ انھیں بار بار بیان کیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ ایک طرح کی یاددہانی ہوتی ہے جو ہمارے ذہنوں کو متوجہ رکھتی ہے اور ہمارے اندر موجود جذبات کو تقویت پہنچاتی ہے۔ ایک ہے علمی و سائنسی پیشرفت کی موجودہ رفتار کو قائم رکھنا۔ درجہ بندی میں ہمارا جو مقام ہے ہم اسی پر باقی ہیں، اس سے نیچے نہیں آئے ہیں۔ ہم سولہویں اور سترہویں مقام پر تھے جو بہت اچھا اور بلند مقام ہے، مگر ہماری رفتار میں کمی آئی ہے۔ میں نے یہ بات یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد سے بھی کہی ہے اور عرض کیا کہ علمی و سائنسی پیشرفت کی رفتار کو علمی وژن کے دوسرے عشرے میں جس میں ہم اس وقت داخل ہو چکے ہیں، کم نہ ہونے دیجئے۔ اگر ہم اسی رفتار سے آگے بڑھتے رہے تو یقینی طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کی رینکنگ میں ہمارا مقام اور بہتر ہوگا۔ یعنی شاید ہم سنگل ڈیجٹ والی پوزیشن حاصل کر لیں۔ میری نظر میں یہ چیز بہت اہم ہے۔ علم و سائنس ملک کی اصلی بنیاد ہے۔ یہ تمام مسائل جن کا ہمارے دوستوں نے ذکر کیا ہے، اگر ہم ان تمام مسائل میں، صنعت میں، زراعت میں، پیٹرولیم میں، الیکٹریسٹی میں، صحت عامہ اور معالجے میں اسی طرح دیگر شعبوں میں علم و سائنس کا استعمال بڑھائيں، نئی اختراعات و ایجادات پر توجہ دیں، سائنسدانوں اور محققین کو ان امور میں دخیل کریں تو یقینی طور پر حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے، آپ ایک جست اور برق رفتاری کا مشاہدہ کریں گے۔ ہمیں ان چیزوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ میرا نظریہ ہے۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ علم و سائنس کے میدان میں، ریسرچ اور تحقیق کے میدان میں ہم جو بجٹ صرف کرتے ہیں وہ ایک طرح کی سرمایہ کاری ہے۔ یعنی اس میدان میں بجٹ صرف کرنے سے ہرگز گھبرانا نہیں چاہئے۔ کچھ میدان ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں سرمایہ ہرگز ضائع نہیں ہوتا۔ ان میں سے ایک یہ میدان بھی ہے۔ ہم جتنا بھی بجٹ صرف کریں گے، جو سرمایہ کاری کریں گے وہ مستقبل کے لئے ایک تعمیری عمل ہوگا جو ہم اپنے پیسے کے ذریعے اور اپنے وسائل کی مدد سے آج انجام دے رہے ہیں۔ جس وقت ہم نے علمی تحریک کا آغاز کیا، اس پہلے عشرے کے دوران جب ہم نے یہ مہم شروع کی اور عالمی اعداد و شمار کے مطابق آج سائنس و ٹیکنالوجی کے اس میدان پر پہنچے ہیں، اس وقت ایک بنیادی چیز یہ ہوئی کہ علمی تحریک ایک عمومی بحث اور مطالبے میں تبدیل ہو گئی۔ یعنی یہ مہم چند سرکاری محکموں پر منحصر نہیں رہی بلکہ یونیورسٹیوں اور طلبہ کے اندر یہ عمومی بحث میں تبدیل ہو گئی۔ حالیہ چند برسوں میں یونیورسٹیوں سے وابستہ عہدیداران اور طلبہ سے میری جو ملاقاتیں ہوئیں، ان کے دوران میں نے غور کیا کہ طلبا اور اساتذہ مجھ سے جن چیزوں کا مطالبہ کرتے تھے اور جن باتوں پر زور دیتے تھے وہ کم و بیش وہی باتیں تھیں جو چند سال قبل میں نے یونیورسٹی سے متعلق حلقوں کے سامنے رکھی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ باتیں عمومی بحث میں تبدیل ہو گئی ہیں، یہ عمومی مطالبے میں تبدیل ہو گئی ہیں اور ان کے لئے ذہن ہموار ہو گئے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ ہمیں اس ماحول کو اسی طرح باقی رکھنا چاہئے۔ میری تاکید ہے کہ متعلقہ حلقے، یونیورسٹیوں سے وابستہ حلقے، تعلیم و تربیت کے ادارے اس سلسلے میں کام کریں اور علمی پیشرفت کے اس ماحول کو اسی طرح قائم رکھیں۔
نالج بیسڈ کمپنیوں کے بارے میں رپورٹ دی گئی جو بہت اچھی تھی۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی صنعت کاری ضروری ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی پارک ضروری اور بہت اچھی چیز ہے۔ ہماری اقتصادی مشکلات میں ایک تو یہی روزگار کا مسئلہ ہے۔ روزگار کے مواقع ایجاد کرنے کا ایک طریقہ یہی سائنس و ٹیکنالوجی پارک بنانا ہے جہاں طلبہ ایسی ٹیکنالوجی پر کام کریں جس کی مدد سے ثروت حاصل کی جا سکے۔ ان پارکوں کی مدد کی جانی چاہئے، ان کی رہنمائی کی جانی چاہئے، انھیں عملی پروجیکٹ دئے جانے چاہئیں۔ یہ سب مشغول ہو جائیں گے۔ یہ تصور کہ جو بھی فارغ التحصیل ہو اسے کسی سرکاری محکمے کی نوکری ملنی چاہئے، غلط ہے۔ یہ فکرمندی کہ فارغ التحصیل افراد کی تعداد زیادہ ہوتی جا رہی ہے، ہمارے پاس انھیں کام دینے کے امکانات نہیں ہیں، غلط ہے۔ صحیح سوچ یہ ہے کہ ہمیں نئے راستے کھولنا چاہئے۔ اس کے لئے فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے کہ ہمارا طالب علم اپنی پڑھائی کے دوران ہی، ہائیر ایجوکیشن کے دوران ہی اپنے سامنے راستہ کھلا ہوا پائے اور وہ علمی کام انجام دے سکے۔ واقعی لا تعداد کام موجود ہیں۔ میرے خیال میں نالج بیسڈ روزگار کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ ہمارے پاس جتنے بھی افراد ہوں ہم ان کے لئے علمی کام اور روزگار فراہم کر سکتے ہیں۔ البتہ اس کی شرط یہ ہے کہ اس پہلو پر محنت کریں۔ تو یہ ایک مسئلہ ہے علم و دانش کا۔
دوسرا مسئلہ ثقافت کا ہے۔ جو احباب یہاں تشریف فرما ہیں، خاص طور پر ثقافتی شعبے کے حکام اور خود صدر محترم بھی ثقافت اور کلچر کے تعلق سے اس حقیر کی توجہ اور حساسیت سے واقف ہیں۔ کبھی کبھی ثقافتی مشکلات و مسائل کی وجہ سے ایسا بھی ہوا کہ مجھے رات کو نیند نہیں آئی، ثقافتی مسائل کے باعث۔ ثقافتی مسائل کی اہمیت اتنی زیادہ ہے۔
دو اصلی اور بنیادی کام ہیں جنھیں انجام دیا جانا چاہئے۔ ایک ہے مختلف میدانوں میں صحتمند کلچرل اور ثقافتی سرگرمیاں اور دوسرے ثقافتی اعتبار سے مضر چیزوں کا سد باب۔ میری نظر میں یہ بنیادی کام ہیں۔ ساری دنیا میں کتابوں اور دیگر ثقافتی تخلیقات اور سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ دنیا میں کون سی جگہ ایسی ہوگی جہاں ان چیزوں پر نظر نہ رکھی جائے؟ آپ مجھے کوئی ایک جگہ بتائیے! محترمہ ابتکار صاحبہ یہاں تشریف فرما ہیں۔ خود انھوں نے مجھے بتایا کہ جو کتاب انھوں نے لکھی تھی وہ امریکا میں چھپ نہیں پائی۔ کوئی پبلشر تیار نہیں ہوا۔ ایسا نہیں تھا کہ سارے ناشرین نے تعصب کی وجہ سے انکار کر دیا۔ کتاب اگر بکنے والی ہو تو کوئی بھی ناشر اس کی طباعت کے لئے تیار ہو جائے گا۔ ان کے انکار کی وجہ وہی نگرانی تھی۔ بعد میں کینیڈا میں شاید کوئی ناشر ملا اس نے بھی شاید بہت ڈر ڈر کے یہ کتاب چھاپی یا شاید نہیں چھاپی۔ مجھے اب تفصیلات یاد نہیں ہیں کیونکہ کئی سال پہلے محترمہ نے مجھے یہ بات بتائی تھی۔ آپ ان چیزوں کو بیان کیجئے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم کسی کتاب کی اشاعت روک دیتے ہیں تو ایسا صرف جناب جنتی صاحب (5) کر رہے ہیں۔ جی نہیں امریکا میں بھی یہ کام ہوتا ہے، یورپ میں بھی ہوتا ہے۔ ہولوکاسٹ کے بارے میں کوئی ایک لفظ نہیں کہہ سکتا۔ ہولوکاسٹ تو مذہبی معاملہ نہیں ہے۔ ہاں اگر اسلام کے دینی مقدسات کی توہین کی بات آئے تو یہ صاحبان بڑے حریت نواز بن جاتے ہیں! جیسے ہی ہولوکاسٹ کا معاملہ آتا ہے آزادی اظہار خیال دم توڑ جاتی ہے۔ حجاب کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ بیشک ہر ملک کے کچھ اصول ہوتے ہیں جنھیں ملحوظ رکھنا ہوتا ہے اور حکومتی ادارے اس کی پاسبانی کرتے ہیں اور ان اصولوں کے معاملے میں وہ کسی سے کوئی رواداری برتنے کے قائل نہیں ہیں۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی ڈراما، کوئی فلم، کوئی کتاب اور کوئی میگزین انقلاب کے اصولوں اور اسلام کے اصولوں سے متصادم ہے تو اسے روکئے، اس کے خلاف کارروائی کیجئے۔ کارروائی کس طرح کی جائے یہ ایک الگ بحث ہے۔ اس کا انحصار متعلقہ اداروں پر ہے۔ آپ دیکھئے کہ آپ کے قوانین اور ضوابط کیا کہتے ہیں۔ کوئی تکلف مت کیجئے آشکارا طور پر اپنا موقف پیش کیجئے۔ صحتمند ثقافتی غذا کی پیشکش اور مضر ثقافتی غذا کا سد باب بنیادی کام ہے۔
ثقافت کے مسئلے کو یونہی چھوڑ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ ثقافتی شعبے کو منظم رکھنا بہت ضروری ہے، اس شعبے کا انتظام و انصرام بھی انقلاب کے نعروں اور انقلاب کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ یعنی یہ خیال رکھا جائے کہ انقلاب کے اصول اور امام خمینی کی سرزمین کے خود محتاری کے اصولوں کی پاسبانی کی جا رہی ہے۔ یہ دوسرا نکتہ تھا جو میری نظر میں اس وقت ترجیحات میں شامل ہے۔
تیسری ترجیح جسے بڑی فوریت حاصل ہے اقتصادی مسئلہ ہے۔ جناب جہانگیری صاحب (نائب صدر) نے آج کی اس نشست کی ترتیب اس انداز کی رکھی کہ اس کا ارتکاز اقتصادی مسئلہ رہے۔ ملک کی حقیقی پیشرفت اور ملک کے مستقبل کے اعتبار سے بھی آج معیشت کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اسی طرح ملک کے ظاہری پیرائے کے اعتبار سے بھی یہ موضوع بڑی اہمیت رکھتا ہے اور عوام کی زندگی کے حقائق کے اعتبار سے بھی اس کی بڑی کلیدی حیثیت ہے۔ اس طرح اقتصاد کا معاملہ ملک کی بنیادی ترجیح ہے۔ اس میدان میں جتنا بھی کام کیا جائے، محنت کی جائے، لوگوں کو متنبہ کیا جائے مناسب اور بجا ہے۔
اقتصادیات کے معاملے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ اقتصادی ترقی مساوات اور انصاف کے ساتھ ہونی چاہئے۔ انصاف و مساوات سے عاری معیشت سے ہم اتفاق نہیں رکھتے۔ یعنی انقلاب اس کو قبول نہیں کرتا، اسلامی جمہوری نظام اسے قبول نہیں کرتا۔ آپ اس بات کا خیال رکھئے کہ طبقاتی فاصلہ نہ پیدا ہو۔ غرباء پامال نہ ہو جائیں۔ یہ بڑے اقتصادی منصوبوں کے سلسلے میں ہمارے بنیادی اصول ہیں، میں ابھی مزاحمتی معیشت کے تعلق سے بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔ مزاحمتی معیشت میں اسی مساوات اور 'کمترین سطح' کو یقینی بنانے کے طریقوں کو مد نظر رکھا گیا ہے۔
کام اور محنت کو ایک کلچر میں تبدیل کر دیا جانا میری نظر میں اقتصادی میدان میں ایک بنیادی کام ہے۔ روزانہ کے کاموں میں باارزش اقدامات میں اضافہ ہونا چاہئے، کام میں کمی ایک عیب اور نقص ہے۔ ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ تساہلی، بیکاری، اور بے پروائی کو لوگوں کی نظر میں موہون (6) بنا دیں۔ یعنی بیکاری کو پست سمجھا جائے اور کام اور محنت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ روایت میں بھی ہے کہ پیغمبر اکرم نے ایک نوجوان کو دیکھا جو آپ کو بہت پسند آیا۔ آپ اس نوجوان سے مخاطب ہوئے نام وغیرہ پوچھا اور یہ سوال بھی کیا کہ تم کرتے کیا ہو؟ نوجوان نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی کام نہیں میں خالی رہتا ہوں۔ آنحضرت نے فورا فرمایا کہ ؛ سَقَطَ مِن عَینی (۷) یہ میری نظر سے گر گیا۔ یعنی کام کی اتنی اہمیت ہے۔ پیغمبر اکرم کسی سے کوئی تکلف نہیں کرتے تھے۔ ایسا ہی ہونا چاہئے۔ البتہ اس مسئلے میں دونوں ہی فریق اپنا اپنا موقف رکھتے ہیں۔ کام کا متلاشی کہتا ہے کہ مجھے کام دو، کام دینے والا فریق کہتا ہے کہ تم خود محنت کرکے کام تلاش کرو۔ اس درمیان ایک بیچ کی کڑی بھی ہے جس کا ذکر شاید میں اپنی گفتگو کے دوران کر سکوں گا۔ کام کے لئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور ملک کے اندر سرمایہ پیدا کرنے کی رغبت کو عام کرنا چاہئے۔ حکومتی عہدیداران بھی اسے بیان کریں، اسی طرح وہ لوگ بھی جو اخبارات و جرائد کی شکل میں اچھا پلیٹ فارم اپنے اختیار میں رکھتے ہیں وہ اپنی اس پوزیشن کو بروئے کار لاتے ہوئے ان حقائق کو بیان کریں۔ کام کے مسئلے میں یہ ایک بڑا اہم نکتہ ہے۔
ایک اور مسئلہ کاموں کی انجام دہی کے لئے صحیح مکینزم کے تعین کا ہے۔ یہ بالکل درست خیال ہے، یہ بذات خود بہت بڑا اور اہم کام ہے۔ کاموں کے لئے ہمیں صحیح طریقہ کار تیار کرنا ہے۔ جب انسان کام اور روزگار کے بارے میں بات کرتا ہے اور اس کی ترغیب دلاتا ہے، جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا، تو لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ ہم بے روزگار ہیں، ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ہمیں عوام کو روزگار اور کام کی تلاش کا صحیح طریقہ اور راستہ دکھانا ہے۔ میں نے چند روز قبل ٹیلی ویژن پر ایک پروگرام دیکھا جو بڑا اچھا پروگرام تھا۔ ایک رپورٹ تیار کی گئی تھی۔ ایک شخص آکر کہتا ہے کہ میں نے 10 ملین تومان (تقریبا تین ہزار ڈالر) سے ایک کام شروع کیا ہے جس کی اتنی آمدنی ہے۔ پھولوں کا کوئی کام تھا۔ وہ شخص بتا رہا تھا کہ وہ پھول کی کھیتی کر رہا ہے۔ یہی شخص آگے بتاتا ہے کہ جو لوگ اس کام میں دلچسپی رکھتے ہیں فلاں فلاں جگہوں پر سرکاری زمینیں موجود ہیں جو حکومت لوگوں کو دے رہی ہے، وہاں جاکر دلچسپی رکھنے والے لوگ یہ کام شروع کر سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ آپ سے پہلے والی حکومت کے زمانے میں اقتصادی میدان میں کام کرنے والے افراد آئے تھے اور ایک بحث یہ ہوئی تھی کہ کتنے پیسے میں ایک کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مثال ہے۔ ایک اور مثال بھی ہے، اتفاق سے وہ بھی ٹی وی کی رپورٹ میں نظر آئی۔ ایک خاتون تھیں جو کچھ چیزیں بنا رہی تھیں۔ وہ اس رپورٹ میں بتاتی ہیں کہ میں نے 20 ملین تومان (تقریبا 6 ہزار ڈالر) کا سرمایہ لگایا اور یہ کام شروع کر دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ استعداد اور ظرفیت موجود ہے۔ یہیں ایک اور نشست ہوئی تھی جس میں یہ گفتگو ہوئی کہ اقتصادی شرح نمو میں اضافہ ہونا چاہئے۔ ہم نے کہا کہ بعض پیشرفتہ یورپی ملکوں کی اقتصادی نمو کی شرح دو، ایک یا ڈیڑھ فیصدی سالانہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انھوں نے تمام تر صلاحیتوں اور استعداد کو استعمال کر لیا ہے۔ یا اسی طرح آپ چین کے مثال لے لیجئے جس نے دس گیارہ بارہ فیصدی کی شرح سے ترقی کی، مگر اب اس کی شرح نمو گر گئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ صلاحیتوں اور ظرفیتوں کو استعمال کیا جا چکا ہے۔ لہذا شرح نمو میں اور بھی گراوٹ آئے گی۔ ہمارے یہاں ابھی ظرفیت وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب چھٹے ترقیاتی منصوبے میں طے کئے گئے مطلوبہ چھے فیصدی اقتصادی شرح نمو پر جب کچھ لوگ اعتراض کرتے تھے، سوال اٹھاتے تھے، تو انھیں اس شعبے کے ماہرین کی طرف سے یہی جواب دیا گيا تھا کہ ہم چھے فیصدی شرح نمو کا ہدف حاصل کر سکتے ہیں اور ملک کے زمینی حقائق سے ہمارا یہ ہدف مطابقت رکھتا ہے۔ جناب صدر محترم نے بھی آج یہی بات کہی۔ لہذا کام کے لئے زمین اور مکینزم تیار کرنا بھی بہت اہم ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کوئی نیا کام کیسے شروع کیا جا سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ذمہ داری کس حکومتی شعبے کے دوش پر ہے؟ جناب ربیعی صاحب (8) تو ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ روزگار وغیرہ کے امور میرے ذمے بالکل نہیں ہیں، وہ تو اپنی گلو خلاصی کر لیتے ہیں، لیکن بہرحال کوئی نہ کوئی محکمہ اور شعبہ تو اس سلسلے میں جوابدہ ہے ہی۔ البتہ وزارت خزانہ بھی ایک اعتبار سے کچھ جگہوں پر جوابدہ ہے۔ البتہ اگر ہم وزارت خزانہ کو کچھ چیزوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسروں کی اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ کچھ چیزیں وزارت خزانہ سے متعلق ہیں اور کچھ کا تعلق بینک سے ہے، چنانچہ ابھی (سنٹرل بینک کے سربراہ) جناب سیف صاحب (9) کا بھی ہم رخ کریں گے۔
اقتصادیات سے متعلق ایک اور مسئلہ بھی ہے جس پر میں تاکید کرنا چاہوں گا، وہ غیر ملکی تجارت کے پوری سنجیدگی کے ساتھ مینیجمنٹ کا مسئلہ ہے۔ غیر ملکی تجارت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بیرونی ممالک ان گزشتہ برسوں کے دوران اس بات کے عادی ہو گئے تھے کہ ہمارے ملک سمیت جن ممالک کے ساتھ وہ تجارت کرتے ہیں، انھیں خام مال کا ذخیرہ تصور کرتے تھے۔ خام مال لے جاتے تھے اور اس سے منافع کماتے تھے، ان کا یہ مطالبہ بھی ہوا کرتا تھا کہ ہم اپنے ملک میں ان کے لئے بازار فراہم کریں جہاں وہ اپنا سامان سپلائی کریں۔ انقلاب سے پہلے ملکی انتظامیہ نے یہ شرط قبول کر لی تھی۔ ایک بار اتفاق سے ایک جگہ ہماری ملاقات اس زمانے کے رکن پارلیمنٹ سے ہو گئی۔ اس رکن پارلیمنٹ نے صاف لفظوں میں خود مجھ سے کہا تھا کہ یہی بہترین صورت حال ہے! یہی ہونا چاہئے کہ ہم پیسے دیں اور یورپی حکومتیں نوکروں کی طرح ہمارے لئے ضرورت کے سامان فراہم کریں۔ یعنی اس صورت حال کے لئے ان کے پاس دلیل اور نظریہ بھی موجود تھا، جو کہ ابلہانہ اور احمقانہ نظریہ تھا جس نے ملک کو تباہی کا راستہ دکھایا۔ انقلاب کے بعد اب ہماری سوچ اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارا اب یہ نظریہ ہے کہ ہمارے بازار کا ایک حصہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے ہو سکتا ہے، لیکن اس کے بدلے میں اس غیر ملک کے بازار کا ایک حصہ ہمیں بھی ملنا چاہئے۔ یعنی ایک منصفانہ اور مساویانہ لین دین انجام پائے۔ یہ اچھی چیز ہے۔
درآمدات کے مسئلے میں جناب نعمت زادے صاحب نے اشارہ کیا، البتہ واقعی شرمندگی ہوتی ہے کہ جناب نعمت زادہ صاحب پر چار چار وزارتوں کا بوجھ ڈال دیا گيا ہے۔ یعنی در حقیقت یہ چار وزارتیں تھیں، انڈسٹری، ہیوی انڈسٹری، مائینز اور کامرس۔ ایک عجیب و غریب اقدام جو انجام پایا اور اب تک میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ایسا کیوں کیا گيا؛ انڈسٹری اور مائینز کی وزارت سے کامرس کی وزارت کو متصل کر دیا جانا تھا۔ یہ چیز میں اب تک نہیں سمجھ سکا ہوں۔ جس وقت یہ کام انجام دیا جا رہا تھا اس وقت بھی میری سمجھ میں نہیں آيا کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔ بہرحال حکومت اور پارلیمنٹ کی یہی صوابدید تھی تو انھوں نے ایسا کیا۔ واقعی بہت دشوار کام ہے۔ ان کا کہنا بالکل صحیح ہے کہ کافی سخت کام ہے لیکن بہرحال اسے انجام دیا جانا ہے۔ غیر ملکی تجارت کو کنٹرول کرنا واقعی بہت اہم مسئلہ ہے، اس اعتبار سے کہ ایران صرف غیر ملکی مصنوعات کا بازار بن کر نہ رہ جائے۔ گاڑیوں کا بازار اور دیگر مصنوعات کا بازار سب غیر ملکی کمپنیوں کو دے دیا جائے۔ اس سے زیادہ بڑا مسئلہ بینکوں کا ہے۔
ایک اور مسئلہ مستحکم مزاحمتی معیشت کا ہے۔ یہ مزاحمتی معیشت کا دوسرا سال ہے۔ یعنی گزشتہ سال مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں کے نفاذ کی شروعات کا سال تھا۔ حکومت میں کچھ احباب نے مجھے کچھ رپورٹیں دی ہیں، جس پر میں نے خود جناب جہانگیری صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ اس وقت جناب جہانگیری نے پندرہ اداروں کو نوٹیفکیشن جاری کیا کہ وہ یہ کام انجام دیں۔ اس کے بعد انھوں نے ایک تفصیلی رپورٹ بھیجی جس کا خلاصہ کرکے مجھے دیا گيا اور میں نے وہ خلاصہ پورا پڑھا۔ مزاحمتی معیشت کے تعلق سے جو کام انجام پائے ہیں ان میں بعض تو مقدماتی کام ہیں۔ اگر میں ان کی مثالیں پیش کروں تو بڑا وقت لگ جائے گا، وقت گزرتا جا رہا ہے، بعض کام ایسے ہیں جن کا تعلق مزاحمتی معیشت سے نہیں ہے۔ اگرچہ ان کاموں کو اس سے جوڑ دیا گيا ہے، لیکن وہ اداروں کے امور جاریہ ہیں۔ محکموں کے اپنے معمول کے کچھ کام ہوتے ہیں، انھیں کاموں کی رپورٹ آپ کو پیش کر دی کہ ہم نے یہ کام انجام دئے ہیں اور یہ کام ان اداروں کے مزاحمتی معیشت سے متعلق فرائض کے زمرے میں شامل کر دئے گئے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ بعض کام ایسے ہیں جن کا اقتصادی شعبے سے ہی کوئی تعلق نہیں ہے۔ تو اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ مزاحتمی معیشت کی پالیسیاں ایک مکمل اور بہم مربوط پیکیج ہے۔ یہ پیکیج کسی کی ذاتی فکر کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ اجتماعی عقلی مساعی کا ثمرہ ہے۔ ایک جماعت بیٹھی، ان نشست میں موجود بعض اقتصاد داں بھی باخبر ہیں اور جانتے ہیں۔ اس پر بڑا تفصیلی کام ہوا جس کے بعد اس پیکیج کو یہاں لایا گیا، پھر اس پر مزید کام ہوا، بحث ہوئی، مطالعہ کیا گیا۔ اس کے بعد اسے تشخیص مصلحت نظام کونسل کو بھیجا گیا، وہاں بھی اس کا مطالعہ ہوا۔ یہ سارے مراحل طے ہو جانے کے بعد نتیجے کے طور پر یہ پالیسیاں سامنے آئی ہیں۔ یعنی یہ ایک مدبرانہ اور معقول عمل کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزاحمتی معیشت کی سب نے تائید بھی کی۔ مجھے ماہرین اقتصادیات میں اور ان لوگوں میں جو ہم سے اچھے روابط رکھتے ہیں، ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آیا جس نے ان پالیسیوں کو غلط قرار دیا ہو۔ سب نے اس سے اتفاق کیا۔ یہ ایک منظم پیکج ہے، اس پورے پیکج پر عمل ہونا چاہئے۔ پورے پیکج پر عمل کیسے ہوگا؟ اس وقت ہوگا جب اس کے لئے ایک منظم اور مربوط اجرائی پروگرام ترتیب دیا جائے گا۔ میں نے اس سے قبل ڈاکٹر روحانی سے بھی کہا تھا اور یہ طے پایا تھا کہ وہ احکامات جاری کریں گے تاکہ متعلقہ افراد یہ پروگرام تیار کریں۔ ان شاء اللہ یہ کام ہوگا، یہ بہت ضروری ہے۔ ہمیں ایک آپریشنل پروگرام کی ضرورت ہے۔ اس پروگرام میں واضح ہونا چاہئے کہ گوناگوں اداروں کے فرائض کیا ہیں؟ کس ادارے کی کیا ذمہ داری ہے؟ اس کے ساتھ ہی مہلت کا بھی تعین ہونا چاہئے۔ وقت کا تعین بہت اہم ہے۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کس مدت میں کتنا کام ہونا ہے۔ ورنہ اگر وقت معین نہ کیا گیا تو کوئی گیرنٹی نہیں ہے کہ یہ کام آپ کی حکومت کے دوران انجام پا سکے گا یا نہیں۔ اگر آپ اسے عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں، اگر آپ اسے اجرائی مرحلے میں لے جانا چاہتے ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس کا فائدہ عوام کو پہنچے تو وقت ضرور معین کیجئے۔ اس پروگرام کی ہر شق کے لازمی عملی اقدامات کا تعین ہونا چاہئے، یہ بھی طے ہونا چاہئے کہ کون سے اقدامات کس ادارے کو انجام دینے ہیں اور ہر شق کے لئے وقت معین کیا جائے۔ یہ بھی طے کیا جائے کہ اس کے لئے کیا وسائل درکار ہیں اور ان وسائل کو کہاں سے فراہم کیا جائے گا۔ یہ پالیسیاں ایک عملی اور میدانی تحرک سے عبارت ہیں۔ جب آپ طریقہ کار معین کرتے ہیں تو در حقیقت زمینی سطح پر اتر کر سرگرمیاں انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے کچھ لوازمات ہیں۔ لوازمات کیا ہیں؟ ان کو کیسے فراہم کیا جائے؟ ان لوازمات کی فراہمی کا طریقہ واضح ہونا چاہئے۔ جب یہ سارے کام انجام پا جائیں گے تب آپ نگرانی کا کام شروع کر سکتے ہیں، کنٹرول کر سکتے ہیں کیا کام انجام پایا ہے۔ فلاں ادارے نے اپنے حصے کا کام انجام دیا کہ نہیں؟ اس طرح کام آگے بڑھے گا۔
مزاحمتی معیشت کے بارے میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حکومت کے تمام اقتصادی منصوبے مزاحمتی معیشت کے اس پیکج اور ان پالیسیوں کے دائرے کے اندر رہیں۔ یہاں تک کہ چھٹا ترقیاتی منصوبہ اور سالانہ بجٹ اور پروگرام، سب مزاحمتی معیشت کے پیکج کے مطابق انجام پائیں۔ یعنی کوئی بھی پروگرام کسی بھی حصے میں، مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں کے دائرے سے غیر ہم آہنگ نہ ہو۔ مخالف ہونا تو دور کی بات ہے۔ پوری طرح ہم آہنگی اور مطابقت ہونی چاہئے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ حکومت سے باہر کے شعبوں کا بھی جائزہ لیا جائے۔ آپ ممکن ہے کہ وزارتوں اور مختلف سرکاری محکموں کے لئے ان پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیں، لیکن کچھ محکمے حکومت کے باہرے ایسے بھی ہیں جو مزاحمتی معیشت میں بہت موثر رول ادا کر سکتے ہیں۔ منجملہ رضاکار فورس ہے۔ میں نے ایک رپورٹ بھی دیکھی ہے۔ میری نظر میں تو ضروری ہے کہ اگر وقت ملے تو جناب صدر محترم ورنہ نائب صدر جناب جہانگیری صاحب دیکھیں اور جائزہ لیں کہ مزاحمتی معیشت کے میدان میں رضاکار فورس کیا کام انجام دے سکتی ہے، اس کے پاس استعداد اور ظرفیت موجود ہے، اس کے پاس کافی صلاحیتیں ہیں۔ رضاکار فورس کوئی معمولی ادارہ نہیں ہے، کوئی چھوٹی چیز نہیں ہے۔ رصاکار فورس کام کے لئے آمادہ اور صاحب استعداد ادارہ ہے۔ ان سے آپ مطالبہ کیجئے اور دیکھئے کہ وہ آپ سے کیا تعاون کر سکتے ہیں؟ رضاکار فورس کے لوگ آئیں گے اور اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کے بارے میں بتائیں گے، وہ کہیں کہ ہم فلاں فلاں کام انجام دے سکتے ہیں۔ میری نظر میں کافی وسائل و امکانات موجود ہیں۔ میں نے رضاکار فورس کا نام مثال کے طور پر پیش کیا، ورنہ دوسرے بھی بہت سے شعبے اور ادارے ہیں۔ حکومت کے باہر بھی بہت سے ماہرین اقتصادیات ہیں اور اقتصادی میدان میں کامیاب افراد ہیں۔ ان میں کچھ کے پاس کمپنیاں ہیں، وہ کام کر رہے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ساری چیزیں اس کلی پروگرام میں آنی چاہئیں۔ یعنی کلی پروگرام صرف حکومتی محکموں تک محدود نہ رہے۔ تو سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ یہ پروگرام ان تمام خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جائے۔
اگلا قدم یہ ہے کہ ایک مضبوط، مستعد اور بااثر کمیشن تشکیل دیا جائے۔ البتہ مجھے اطلاع ہے کہ جناب صدر محترم نے ایک کونسل تشکیل دی ہے، جس میں خود آپ بھی شامل ہوتے ہیں، یہ بہت اچھا کام ہے۔ لیکن یہ وہ اعلی کمان نہیں ہے۔ جناب صدر محترم کو دوسرے بھی بہت سے کام ہیں، لہذا یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنا پورا وقت اور ساری توانائی اسی ایک کام پر صرف کریں۔ ایک آپریشنل کمان کی ضرورت ہے۔ جیسے ہم زمانہ جنگ میں آپریشنل کمان تشکیل دیتے تھے اور دوسرے بھی بہت سے امور کے لئے آپریشنل کمانڈ تشکیل دی گئی۔ خود جناب ڈاکٹر روحانی بھی ان امور کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ایک کمانڈ کی ضرورت ہے جو دائمی طور پر نگرانی کرے، جائزہ لے، دیکھے کہ کون سا ادارہ پیشرفت کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور کہاں مشکلات در پیش ہیں۔ کیونکہ کہہ دینا آسان ہوتا ہے، اسی طرح منصوبہ بندی بھی کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے، لیکن عملدرآمد کا مرحلہ آتا ہے تو ہو اس سے الگ ہوتا ہے۔ انسان کو میدان میں اترنا ہوتا ہے اور آگے بڑھنا ہوتا ہے، اس وقت کچھ ایسی رکاوٹیں پیش آ جاتی ہیں جن کے بارے میں پہلے سے اندازہ نہیں ہوتا۔ بعض کے بارے میں اندازہ ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ رکاوٹیں پیدا ہو ہی جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں وہ آپریشنل کمانڈ فوری طور پر وارد عمل ہو اور رکاوٹوں کو برطرف کرے، راستہ کھول دے اور آگے بڑھے۔ اس کا بااثر ہونا بھی ضروری ہے۔ یعنی اس کی بات سنی جائے۔ اس طرح نہ ہو جیسا آج ہوا کہ جناب جہانگیری صاحب بار بار کہے جا رہے تھے کہ ہر شخص صرف پانچ منٹ بولے، لیکن جنابان نے پانچ کے بجائے سات منٹ اور دس منٹ بھی گفتگو کی۔ وہ آپریشنل کمانڈ جو کہہ دے سب اسے مانیں۔
اس کے علاوہ آپ امور کی پیشرفت سے عوام کو آگاہ کرتے رہئے۔ پھر آپ دیکھئے کہ کیا ہوتا ہے! آپ مثال کے طور پر چھے مہینہ اسی انداز سے عمل کریں جو ہم نے عرض کیا، یعنی ٹائم فریم تیار کر لیا گیا، کمیشن بھی تشکیل پا گیا، چھے مہینہ اس نے کام بھی کیا اور قابل لحاظ پیشرفت حاصل ہوئی تو اب آئیے عوام کو پوری صورت حال سے آگاہ کیجئے۔ بتائیے کہ ہم نے یہ کام انجام دئے ہیں، ان امور کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ اس سے عوام کی زندگی میں وہ امید اور حسن ظن پیدا ہوگا جو آپ چاہتے ہیں کہ عوام کے اندر رہے۔ یعنی عوام کو رپورٹ دی جانی چاہئے۔ البتہ جائزہ لینے اور پرکھنے کے معیارات بھی معین ہونے چاہئے۔
مزاحمتی معیشت کے پورے نظام میں کچھ قانونی تقاضے اور التزامات بھی ہیں۔ دوسرے دونوں شعبے (عدلیہ اور مقننہ) بھی تعاون کے لئے تیار ہیں۔ مقننہ بھی اس سلسلے میں تعاون کے لئے آمادہ ہے، یعنی اگر کوئی ایسا قانون ہے جسے تبدیل کرنا ہے، یا اس میں اصلاح ہونی ہے یا نیا قانون وضع کرنے کی ضرورت ہے، ان چیزوں کی یقینا ضرورت پیش آئے گی، یا عدلیہ کی جانب سے کوئی اقدام انجام دئے جانے کی ضرورت ہے تو یہ دونوں ہی شعبے مزاحمتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے کے تعلق سے تعاون کے لئے آمادہ ہیں۔
کساد بازاری کا ذکر ہوا۔ یہ جو تین فیصدی اقتصادی شرح نمو ہوئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کساد بازاری کی برف پگھلی ہے۔ یعنی جنبش پیدا ہوئی ہے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ نمو کن کن میدانوں میں ہوا ہے اور کن میدانوں میں شرح نمو مائنس میں ہے۔ مجموعی طور پر تخمینہ لگایا گیا ہے تو تین فیصدی کی شرح نمو سامنے آئی ہے۔ اگر کساد بازاری کا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ نہ کیا گيا تو یہ تین فیصدی شرح نمو بھی خطرے میں پڑ جائیگی اور افراط زر کی شرح اوپر چلی جائے گی، بے روزگاری کی مشکل بڑھے گی۔ یہاں میں یہ بھی کہتا چلوں کہ جناب نعمت زادہ صاحب اگر اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو ان کارخانوں کے اعداد و شمار، جو کام نہیں کر رہے ہیں، یعنی کارخانہ موجود ہے، سب کچھ آمادہ ہے، لیکن اب اس میں کام نہیں ہو رہا ہے، ہمیں بتائے گئے ہیں۔ اس کی صحیح تعداد بتائی گئی ہے۔ ان کارخانوں کی بھی تعداد جہاں پچاس فیصدی سے بھی کم کام ہو رہا ہے اور ان کارخانوں کی تعداد بھی جہاں ستر فیصد سے کم پروڈکشن ہو رہا ہے۔ ستر فیصدی پروڈکشن تو خیر ایک الگ چیز ہے، لیکن پچاس فیصدی سے بھی کم! ان میں بعض کے سامنے نقدی کی مشکلات ہیں۔ یعنی سرمائے کی گردش میں مشکلات ہیں۔ ان مشکلات کو دور کرنا بینکوں کی ذمہ داری ہے۔ بینکوں کو چاہئے کہ اس سلسلے میں راہ حل پیش کریں۔ مزاحمتی معیشت کے مسئلے میں اگر وہ بنیادی اور آپریشنل کمان تشکیل پا جاتی ہے تو اس طرح کے تمام مسائل سے نمٹ سکے گی۔ البتہ ان میں بعض کارخانوں کی مشکل نقدی کی کمی نہیں ہے۔ انھیں وسائل فراہم کئے جا چکے ہیں۔ کارخانہ پوری طرح تیار ہے۔ کسی طرح کی مشکل نہیں ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا، ان میں بعض کارخانوں کی تو مشینیں بھی بالکل نئی ہیں۔ لیکن پھر بھی کارخانہ کام نہیں کر رہا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ جو قرضہ دیا گیا تھا اسے کہیں اور صرف کر دیا گيا ہے! ظاہر ہے اس پر تو قانونی چارہ جوئی ہونی چاہئے۔ اس پر کارروائی ہونی چاہئے۔ ایسے لوگوں کو آپ طلب کیجئے۔ ہم جو آپریشنل کمانڈ کی بات کر رہے ہیں تو اس کا یہی مقصد ہے۔ ان مسائل پر اسی طرح نظر رکھی جا سکتی ہے۔ اگر کساد بازاری پر توجہ نہ دی گئی تو اس کا اثر تمام اقتصادی انڈیکیٹرز پر پڑے گا۔ البتہ یہ حالیہ قانون جس کا ابھی ذکر ہوا، بہت اچھا ہے، لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ پیداواری یونٹوں کی حمایت، نقدی کی فراہمی، آپریٹنگ کیپیٹل کی فراہمی، ان لوگوں کے خلاف کارروائی جنھوں نے تیار پیداواری یونٹوں کو جمود کا شکار بنا دیا ہے، یہ سب بہت ضروری اقدامات ہیں۔ میں نے اس سے پہلے والے اجلاس میں بھی کہا تھا اور ایک بار پھر تاکید کرتا ہوں کہ بینکنگ سسٹم کو اپنا رول ادا کرنا چاہئے۔ یعنی بینکنگ سسٹم کو پوری طرح میدان میں آنا چاہئے۔
ایک کام کے سلسلے میں ہمیں تجویز دی گئی ہے، ہم سے کہا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کے لئے زمین ہموار ہے، اور وہ ہے بعض پروجیکٹوں کو نجی سیکٹر کے حوالے کرنا۔ البتہ نجی سیکٹر کے لئے ترغیبی منصوبے بنائے جائیں۔ کیونکہ اس وقت 'منی فلو' ہے، یقینی طور پر 'منی فلو' ہے۔ جو رپورٹ مجھے دی گئی ہے اس کے مطابق ہمارے پاس اس وقت چار لاکھ ارب تومان کے پروجیکٹ ہیں اور یہ سارے سرکاری پروجیکٹ ہیں، اگر ہم ان میں سے دس فیصدی بھی نجی سیکٹر کو دے دیں تو پھر آپ دیکھئے کہ کیا ہوتا ہے؟! چالیس ہزار ارب تومان یکبارگی 'آپریٹنگ منی' میں تبدیل ہو جائے گا جو بہت اہم تبدیلی ہوگی۔ یعنی یہی پروجیکٹ جو اس وقت ہمارے پاس موجود ہیں، یعنی اسی چار لاکھ ارب تومان میں سے اگر دس فیصدی کو نجی سیکٹر کو دے دیا جائے تو بہت اہم بدلاؤ آئے گا۔ یہ ایسا کام ہے جس پر واقعی سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
زراعت کا شعبہ بھی بہت اہم ہے۔ البتہ مجھے یقین ہے کہ جناب حجتی صاحب واقعی کام کر سکتے ہیں۔ میری نظر میں یہ بہت اچھے ریکارڈ والے وزرا میں ہیں جو واقعی کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ البتہ آپ سے اور آپ کی ٹیم سے ہمیں جو توقع ہے وہ یہ ہے کہ اساسی چیزوں کی پیداوار میں خود انحصاری کی منزل تک پہنچا جائے، خود کفائی کی کیفیت پیدا ہو۔ ہمیں یہ نہیں دیکھنا ہے کہ فلاں ایسا کہہ رہا ہے کہ گندم بیرون ملک بہت سستا ہے! ہمیں خود کفائی کی منزل تک پہنچنا ہے۔ اساسی چیزوں میں ہمیں خود کفائی حاصل کرنا ہے۔
ہمیں زراعت کے شعبے کے ماہرین کی خدمات لینا چاہئے۔ میں نے ایک دفعہ جناب روحانی صاحب سے کہا تھا کہ ایک صوبے میں، میرے خیال سے یہ ہمدان کی بات ہے، ہمارے دوستوں نے جاکر جائزہ لیا اور رپورٹ دی کہ اس صوبے کے مختلف حصوں میں زراعت میں کافی رونق ہے۔ جب اس کی وجہ دریافت کی گئی تو معلوم ہوا کہ ایگریکلچر انجینیئرز کی خدمات لی گئی ہیں اور ما شاء اللہ اس صوبے میں ایسے نوجوان انجینیئرز کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ ان انجینیئرز نے وہاں زراعت میں کام کیا ہے اور وہاں کے لوگوں نے انجینیئرز کی تجاویز پر عمل کیا ہے۔ اس کے لئے تحقیقاتی کام کرنے اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ کاموں کی تقسیم بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام آپ انجام دے سکتے ہیں تاکہ اس کا فائدہ ملے۔
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال؛ یہی پانی کا مسئلہ جس کا ذکر ہوا، پانی کی تقسیم اور پانی کا صحیح استعمال بہت اہم ہے۔ امپورٹ پر کنٹرول، میں ایک بار پھر تاکید کرنا چاہوں گا۔ آپ کہیں گے کہ ہم نے امپورٹ کو روک دیا ہے، لیکن بازار میں امپورٹڈ پھل موجود ہیں۔ ایران سے اچھا پھل کہاں پیدا ہوتا ہے جسے ہم امپورٹ کریں؟! میری صدارت کے زمانے میں ایک عرب ملک سے جس کا میں اس وقت نام نہیں لینا چاہتا، ایک صاحب یہاں آئے تھے، میرے لئے تحفے کے طور پر کجھور کا بڑا خوبصورت ڈبا لے آئے تھے۔ ہمارے پاس کتنی اقسام کی کھجوریں ہیں۔ جنوبی علاقوں کی گوناگوں اقسام کی کھجوریں، صوبہ فارس، صوبہ خوزستان اور صوبہ بلوچستان کی کھجوریں اور ہمارے لئے باہر سے تحفے میں کھجور لائے! بس اس کی پیکنگ بڑی خوبصورت تھی۔ میں وہ کھجور کابینہ میں لے گیا تھا اور میں نے وہاں کہا کہ اس کھجور کا موازنہ ہمارے یہاں پیدا ہونے والی کھجور سے کیجئے۔ ہماری کھجور اس سے بہتر ہے لیکن اس کی پیکنگ کا کام بڑی خوبصورتی سے انجام دیا گيا ہے۔ اس زمانے میں ہمارے یہاں کھجور چٹائی کے تھیلوں میں یونہی بھر دی جاتی تھی اور بازار میں بھیج دی جاتی تھی۔ اب تو صورت حال بہتر ہو گئی ہے۔ بہرحال پھل بے تحاشا امپورٹ ہو رہا ہے۔
ایک اور اساسی مسئلہ ہے جو بنیادی طور پر وزارت زراعت سے متعلق ہے لیکن یہ صرف وزارت زراعت کا کام نہیں ہے، یہ گاؤں پر توجہ مرکوز کرنے کا مسئلہ ہے۔ یعنی اسے حکومت کے منصوبوں میں ترجیحی بنیاد پر شامل کیا جانا چاہئے۔ ہمیں گاؤں پر بھرپور توجہ دینا چاہئے۔ ہم اس بارے میں کئی سال سے بولتے آ رہے ہیں، لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا جا سکا ہے۔ ہمیں صنعتوں کو گاؤں اور مختلف شہروں میں لے جانا چاہئے۔ میں نے ارومیہ میں دیکھا کہ سیب زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ لوگوں نے بتایا کہ کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ سیب بیچ کر جو پیسے ملتے ہیں اس سے کہیں زیادہ پیسے مزدوری میں چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح انگور اور زردآلو ہے۔ ان کے لئے صنعتوں کی ضرورت ہے۔ ملک میں مختلف جگہوں پر یہ پھل پیدا ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ پھلوں کو توڑنے کی مزدوری ان کی قیمت سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ اگر ہم متعلقہ صنعتیں وہاں لے جا سکتے ہیں اور ان پھلوں کو استعمال کر سکتے ہیں تو ایسا ضرور کرنا چاہئے۔ استعداد اور ظرفیت تو بہت زیادہ ہے۔ میں نے ایرانشہر میں ٹماٹر دیکھے جو خربوزے جتنے بڑے تھے! یہ کسی ایک ٹماٹر کی بات نہیں ہے۔ وہاں سارے ٹماٹر اتنے ہی بڑے تھے۔ وہاں ایرانشہر اور بمپور کے درمیان ایک باغ تھا، اس وقت ہم کو جلاوطن کرکے وہاں بھیجا گیا تھا، لوگوں نے ہمیں بلایا اور وہی ٹماٹر لیکر آئے جو خربوزے جتنے بڑے تھے۔ اسی طرح وہاں کی پیاز بھی بہت بڑی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے وہ پیاز ہاتھ میں لی تو پورے پنجے کے برابر وہ پیاز تھے۔ خیر، تو یہ چیزیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ پورے ملک میں کئی جگہوں پر اس طرح کی چیزیں موجود ہیں۔ اگر ہم دیہی صنعتوں پر توجہ دیتے ہیں، اگر گاؤوں پر توجہ دیتے ہیں، اگر ان باغات کو اہمیت دیتے ہیں تو ان سے ہمارے دیہی علاقوں کی بڑی مدد ہوگی اور وہاں رہنے کے والے غریب افراد کی بڑی خدمت ہوگی۔
معدنیات کے سلسلے میں بھی میں نے نوٹ کیا تھا کہ کچھ باتیں بیان کروں گا لیکن وقت گزر گیا اور ویسے بھی جناب نعمت زادے صاحب پر اب اور بوجھ ڈالنا صحیح نہیں ہوگا! جو رپورٹ مجھے ملی ہے اس کے مطابق ہم ملک کی معدنیات کا صرف پندرہ فیصدی حصہ ہی استعمال کر رہے ہیں! ہمیں معدنیات کو تیل کی جگہ پر لانا چاہئے۔ ہمیں واقعی یہ کام کرنا ہوگا۔ میں نے کئی سال پہلے شاید بیس سال قبل اس وقت کی حکومت سے کہا تھا کہ ہمیں ملک کو ایسی پوزیشن میں پہنچانا ہے کہ جب بھی ہم چاہیں تو اپنے تیل کے کنوؤں کو بند کر دیں۔ ہمیں نہ تو خریداروں کی کمی کا اندیشہ رہے، نہ مارکٹ تک رسائی کی فکر ہو اور نہ پیٹرو ڈالر کے نہ ملنے کا خوف ہو۔ ہمیں اس مقام پر پہنچنا ہے۔ ہمیں واقعی تیل کا کوئی متبادل ذریعہ تلاش کرنا ہوگا۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ تیل کی کیا حالت ہو گئی ہے! بڑی طاقتوں اور علاقے کے کچھ خبیث عناصر کے بس ایک اشارے پر 100 ڈالر کا تیل 40 ڈالر کا ہو جاتا ہے۔ سو ڈالر سے قیمت نیچے آنے کا سلسلہ جو شروع ہوا اس میں کتنے مہینے لگے؟ یعنی اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسے ملکی معیشت اور ایک ریاست کے اقتصاد کے لئے ریڑھ کی ہڈی نہیں بنایا جا سکتا، ملکی معیشت کو اس پر منحصر نہیں کیا جا سکتا۔ تیل ہماری دولت ہے لیکن اس کے اختیارات دوسروں کے ہاتھ میں ہیں اور اس سے ہونے والی آمدنی کا بھی بیشتر حصہ دوسروں کو ملتا ہے۔ تیل فروخت کرکے جتنا فائدہ ہمیں ملتا ہے اس سے زیادہ منافع وہ یورپی یا دوسرے ممالک حاصل کرتے ہیں جو خام تیل خرید رہے ہیں۔ اس پر ٹیکس اور نہ معلوم کیا کیا چیزیں لگا دیتے ہیں۔ ہم تیل بیچ کے پیسے کماتے ہیں اور خریدار حکومت یہی تیل اپنے عوام کو بیچتی ہے اور وہ بھی منافع کماتی ہے لیکن اس کا منافع ہم سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ کتنے گھاٹے کا سودا ہے۔ اب یہ بھی ہے کہ کچھ صورتوں میں ہم مجبور ہوتے ہیں تیل کی پیداوار بڑھانے اور اسے فروخت کرنے پر، وہاں تو ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہوتا۔ لیکن واقعی جب میں تیل کی پیداوار اور برآمدات میں اضافے کی خبر سنتا ہوں تو مجھے خوشی نہیں ہوتی۔ میں ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ ہمیں کوئی متبادل تلاش کرنا چاہئے۔ اب اگر ہم متبادل تلاش کر رہے ہیں تو ایک بہترین متبادل معدنیات ہیں۔
معدنیات کے شعبے میں بھی ہمیں خام مال کی فروخت سے سختی کے ساتھ اجتناب کرنا چاہئے۔ ہمارے پاس بڑی قیمتی معدنیات ہیں۔ صوبہ کرمان میں اور اسی طرح خراسان کے جنوب میں بڑے قیمتی پتھر ہیں۔ اب اگر ہم یہی پتھر یوں ہی معدنیات سے نکالیں اور اٹلی کو ایکسپورٹ کر دیں۔ اٹلی اس پر کام کرے اور اس کی قیمت میں دس گنا اضافہ کرکے بیچے اور بعض اوقات ایکسپورٹ کرکے خود ہمارے ملک کو دے تو یہ چیز واقعی بڑی عجیب ہے۔ تو اس مسئلے پر توجہ دینا چاہئے۔ معدنیات کے معاملے میں بھی میری نظر میں نجی سیکٹر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ صوبائی عہدیداران، گورنر وغیرہ جیسا کہ مجھے رپورٹ ملی ہے، کہتے ہیں کہ معدنیات اور دیگر شعبوں میں نجی سیکٹر کو شامل کر سکتے ہیں۔
پانی کا معاملہ بھی بہت اہم ہے، میں نے اسے بھی نوٹ کیا تھا۔ جناب چیت چیان نے جو بات کہی وہ بالکل درست ہے۔ زمین کے اندر پانی کی سطح کا نیچے جانا بڑا اہم مسئلہ ہے۔ جو منصوبہ بندی آپ نے کی ہے اور جس کے بارے میں آپ نے بتایا وہ کافی نہیں ہے۔ منصوبہ بندی پچاس فیصدی یا اس سے بھی کم کام ہے، اسے عملی جامہ پہنانا اہم ہے۔ البتہ آپ کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے۔ پانی کے استعمال میں کفایت شعاری کے ساتھ ہی آبپاشی کے طریقوں کی اصلاح اور ہر علاقے میں زراعت کے رول ماڈل تیار کرنا ضروری ہے۔
آخری بات چھٹے ترقیاتی منصوبے کے تعلق سے کہنی ہے، البتہ اب کافی دیر ہو چکی ہے۔ چھٹے ترقیاتی منصوبے (10) کو جتنی جلد ہو سکے مکمل کیجئے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ پروگرام مزاحمتی معیشت سے ہم آہنگ ہونا چاہئے اور اسے جلدی سے جلدی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیجئے۔ میرا خیال یہ ہے کہ اسے اسی سال منظوری مل جانی چاہئے۔ یعنی اس کام کو جلد از جلد مکمل کیجئے۔ پارلیمنٹ کو بھی مشغول کیجئے، اسے بھی میدان میں لائیے، پارلیمنٹ میں اس مسئلے پر پوری سنجیدگی کے ساتھ بحث ہو۔
اللہ تعالی آپ کی مدد فرمائے۔ هُوَ الَّذی اَنزَلَ السَّکینَةَ فی قُلوبِ المُؤمِنینَ لِیَزدادوا ایمانًا مَعَ ایمانِهِم؛(۱۱)
اللہ تعالی آپ کے دلوں کو ہمارے دل کو طمانیت عطا فرمائے، ذہنوں اور فکروں کو تہہ و بالا کر دینے والی طوفانی کیفیت سے نجات دلانے والی طمانیت جس کی وجہ سے انسان کے ایمان میں بھی اضافہ ہوتا ہے؛ ِیَزدادوا ایمانًا مَعَ ایمانِهِم یعنی وہ سکون و طمانیت ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ یہ طمانیت قدرت خداوندی پر بھروسے کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے؛ وَ للهِ‌ جُنودُ السَّمٰواتِ وَ الاَرضِ وَ کانَ اللهُ عَلیمًا حَکیمًا (12)، اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔ ہم بھی ہمیشہ آپ کے لئے دعا کرتے ہیں۔ اللہ کے لئے کام کرنا، عوام کے لئے کام کرنا، اخلاص دل کے ساتھ کام کرنا، ان شاء اللہ ہمارے دستور العمل کا جز ہوگا اور خداوند عالم ہمارے کاموں میں برکت دے اور ہماری مساعی کو درجہ قبولیت عطا فرمائے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا خطاب شروع ہونے سے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر حسن روحانی، نائب صدر ڈاکٹر اسحاق جہانگیری، وزیر صنعت و معدنیات و تجارت انجینیئر محمد رضا نعمت زادہ، وزیر توانائی انجینیئر چیت چیان، وزیر پیٹرولیم انجینیئر بیژن نامدار زنگنے، وزیر زراعت انجینیئر محمود حجتی، وزیر صحت و طبی تعلیم ڈاکٹر سید حسن قاضی زادہ ہاشمی نے اپنی اپنی رپورٹیں پیش کیں۔
۲) ہاؤسنگ اور شہری ترقیات کے وزیر
۳) ایران کے قومی نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کے ڈائریکٹر
۴) سورہ فتح، آیت نمبر ۷؛ «زمین اور آسمانوں کی افواج اللہ کی ہیں، اللہ تعالی علیم و حکیم ہے۔
۵) وزیر ثقافت و اسلامی ہدایت ‌
۶) حقیر، پست‌
۷) بحارالانوار، جلد ۱۰۰، صفحہ ۹
۸) وزیر محنت، کو آپریٹیو اور سماجی رفاہیات
۹) رہبر انقلاب نے یہ جملہ مذاقا کہا جس پر حاضرین نے قہقہہ لگایا۔
۱۰) اسلامی جمہوریہ ایران کا چھٹا اقتصادی، سماجی و ثقافتی ترقیاتی منصوبہ
۱۱) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۴؛ «وہی ہے جس نے مومنین کے دلوں پر طمانیت نازل کی تاکہ ان کے ایمان میں اضافہ ہو۔
۱۲) ایضا؛ «... زمین اور آسمانوں کی افواج اللہ کی ہیں، اللہ تعالی علیم و حکیم ہے۔