رہبر انقلاب اسلامی نے ہر سال 11 فروری کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے پروگراموں میں عوام کی بھرپور والہانہ شرکت کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 37 سال کے دوران گیارہ فروری کے جلوسوں میں عوام کی بھرپور شرکت عزم و ارادے، محبت و وابستگی اور حمایت و پشت پناہی کے جذبے کے ہمراہ رہی ہے اور اس سال بھی فضل پروردگار سے سڑکوں پر عوام کی موجودگی بہت وسیع اور 'دشمن شکن' اور بدخواہوں کو مایوس کرنے والی ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ انتخابات انقلاب کے اہداف سے عوام کی بیعت کا اعادہ ہے اور اس سے قوم تازہ دم ہو جاتی ہے اور انتخابات میں سارے لوگوں کی شرکت پر اس حقیر کی تاکید اس لئے رہتی ہے کہ ہمہ گیر شرکت سے ملک اور نظام کا وقار بڑھتا ہے اور اس کی عزت کی ضمانت ملتی ہے، لہذا اس عظیم عمل میں شرکت سارے عوام کا فریضہ ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق ملت اور اسلامی نظام کے درمیان جھوٹا اور خطرناک شگاف ڈالنا دشمن محاذ اور اس میں سر فہرست امریکا کا دائمی ہدف رہا ہے۔
اس ملاقات کے آغاز میں فضائیہ کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل شاہ صفی نے 8 فروری کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے، دفاعی، سائنسی اور ثقافتی میدانوں مین فضائیہ کی خدمات کی رپورٹ پیش کی۔ (۱)
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
و الحمد لله ربّ العالمین و صلّی الله علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین‌

برادران گرامی خوش آمدید! مجھے بڑی خوشی ہے کہ ہر سال 8 فروری کا دن اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی فضائیہ سے تعلق رکھنے والے عزیزوں کی ایک جماعت سے ملاقات کا موقع اور بہانہ فراہم کر دیتا ہے۔ بحمد اللہ ہر سال فضائیہ کے خوش آب و رنگ گلستاں کے منتخب پھولوں کا ایک گلدستہ یہاں نظر آتا ہے اور ہمیں ان سے دو باتیں کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
آج کی مناسبت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ کیونکہ 8 فروری کے دن جب فضائیہ نے خود کو انقلاب کی خدمت میں پیش کر دیا اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے حضور میں جا پہنچی، البتہ وہاں نمونے کے طور پر کچھ لوگ تھے، مشتی از خروارے کی مثال تھے، ایک بڑے مجموعے کے منتخب کچھ افراد تھے، تو ملکی حالات میں یکبارگی بدلاؤ آ گیا اور سب کے ذہنوں میں موجود تخمینے یکسر دگرگوں ہو گئے۔ یہ حقیقت سامنے آئی کہ عوام کے خلاف فوج کا جو ہوا کھڑا کیا گيا تھا، اس زمانے میں دربار سے وابستہ اعلی فوجی افسران اور ان کے امریکی آقا جن خطرناک اقدامات کی باتیں کرتے تھے ان کی کوئی اساس نہیں تھی۔ سب کچھ محض توہم تھا۔ میں اس دن موجود تھا اور میں نے قریب سے جذبات، اشتیاق آمیز احساسات اور لوگوں کی کیفیت کو دیکھا، واقعی بالکل حیرت انگیز چیز تھی۔ اس چیز کی قدر کی جانی چاہئے۔ اس بامعنی اور اثر انگیز مہم کی یاد ہماری تاریخ اور ہمارے ذہنوں سے کبھی مٹنی نہیں چاہئے۔ تاریخ کے اہم واقعات اور اثر انگیز تغیرات صرف یادوں تک محدود نہیں ہیں۔ یہ در حقیقت ایک درس ہیں، رہنما ستارے ہیں۔ اس دن فضائیہ نے جو اقدام کیا وہ رہنما ستارہ ہے ان تمام لوگوں کے لئے جو اس ادارے سے وابستہ ہیں یا مستقبل میں اس سے جڑیں گے۔ اس واقعے کے بعد کے ایام میں بھی فضائیہ نے ثابت کیا کہ بالکل صحیح اور سیدھے راستے پر رواں دواں ہے۔ یہ حقیقت امر ہے۔ برسوں سے گوناگوں واقعات میں فوج اور مسلح فورسز سے میرا واسطہ رہا ہے۔ میں پورے یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ نے واقعی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپریشنوں میں بھی، سپورٹنگ مہم میں بھی، اندرونی ساخت کو مستحکم بنانے میں بھی اور وسائل و ساز و سامان کی فراہمی میں بھی۔ برسوں سے ہمیں ضرورت کے وسائل یا تو فروخت ہی نہیں کئے گئے اور اگر فروخت کئے گئے تو کم مقدار میں۔ لیکن اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ ہمیشہ اپنے پاؤں پر کھڑی رہی۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی مضبوطی سے کھڑی رہے گی اور روز بروز اس کی قوت و طاقت میں مزید اضافہ ہوگا۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ 8 فروری 1979 کو فضائیہ نے غیر معمولی اقدام انجام دیا تو عوام نے بھی فوری طور پر اپنی جوابی ذمہ داری پوری کی۔ یہ بھی ایک سبق ہے۔ یعنی 10 اور 11 فروری کی شب جب فضائیہ کی چھاونی پر شاہی گرڈ فورس کا خطرہ مڈلانے لگا اور حملہ ہو گیا اور ان کے بقول سرکش فضائیہ کو سبق سکھانے کا عمل شروع ہوا تو اس موقع پر عوام نے بڑھ کر فضائیہ کی مدد کی۔ آپ غور کیجئے کہ کس طرح فوری رد عمل سامنے آتا ہے۔ یعنی ایک عسکری ادارے کے عوام کے ساتھ رہنے، عوام کی خدمت کرنے اور عوام سے جڑے رہنے کا صلہ عوام کی طرف سے فوری ملتا ہے۔ یعنی عوام پشت پناہی کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ بڑا کلیدی مسئلہ ہے کہ ایک ادارے کو عوام کی حمایت حاصل ہے یا نہیں۔ یہ بہت اہم فرق ہے۔ فضائیہ کو اپنے اقدام کا صلہ فوری طور پر ملا۔
میں کبھی نہیں بھول سکتا؛ آدھی رات کا وقت تھا۔ 10 یا 11 فروری سے قبل والی رات تھی۔ ہم ایران روڈ پر ایک گھر میں جاتے تھے اور وہیں رات گزارتے تھے۔ ہم نے سنا کہ ایران روڈ پر لوگ آوازیں لگا رہے تھے کہ آئیے پیروزی روڈ کی جانب بڑھئے، وہاں شاہی گارڈ فورس نے حملہ کر دیا ہے۔ یہ چیز میں نے اپنی آنکھ سے دیکھی۔ یعنی پورے شہر میں یہی فضا تھی کہ ایک گروپ فضائیہ کی مدد کے لئے جا چکا تھا اور دوسرا گروپ روانہ ہو رہا تھا۔ ہم تو ایران روڈ پر یہ دیکھ رہے تھے، دوسری جگہوں پر بھی یہی صورت حال تھی۔ لوگ ایک دوسرے کو بلا رہے تھے کہ آؤ فضائیہ کی مدد کے لئے چلو۔ لوگ مدد کے لئے بھاگے چلے جا رہے تھے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ یعنی جب آپ عوام کے ساتھ ہوں گے تو عوام بھی آپ کی پشت پناہی کریں گے۔ جس فوج کو عوام کی مدد حاصل ہو اس کو دشمن سے روبرو ہونے میں کوئی تشویش نہیں ہوتی۔
بحمد اللہ موجودہ فضائیہ اس زمانے کی ‌فضائیہ اور انقلاب سے پہلے کی فضائیہ سے بالکل الگ ہے، دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ کوئی یہ نہ جتائے کہ انقلاب سے پہلے تو نئے نئے طیارے اور فلاں ملک کی ساخت کے طیارے فضائیہ کے پاس ہوا کرتے تھے اور آج یہ طیارے ہمارے پاس نہیں ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس زمانے میں فضائیہ میں زرق و برق تو خوب تھی مگر وہ اندر سے پوری طرح کھوکھلی تھی۔ آج ممکن ہے کہ وہ زرق و برق نہ ہو لیکن یہ ادارہ مستحکم اور استوار ہے۔ اندرونی توانائیاں موجزن ہیں۔ آج آپ اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں۔ فضائیہ کے محترم کمانڈر کی رپورٹ میں ہم نے سنا کہ آپ کلپرزے بنا رہے ہیں، پارٹس تیار کر رہے ہیں، وسائل تیار کر رہے ہیں اور خود اپنی تدابیر کی مدد سے اقدامات انجام دے رہے ہیں۔ اس زمانے میں ایسا نہیں تھا۔ اس زمانے میں بے حساب کتاب پیسے لیتے تھے جس کے بارے میں اب حکومتی عہدیداران کو معلوم ہوا ہے کہ اس دور میں کس طرح پیسے خرچ کئے جاتے تھے۔ پیسہ لیکر جس قیمت پر چاہتے تھے ساز و سامان فضائیہ کو دیتے تھے۔ انقلاب کے بعد بھی کچھ لوگوں کی کوشش تھی کہ ایف 14 طیاروں کو جو کچھ عرصہ پہلے ہی خریدے گئے تھے، لوٹا دیں، لیکن بفضل پروردگار ہم نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اسے بھی ایران سے باہر پہنچا دینا چاہتے تھے کہ ہمارے پاس یہ بھی نہ رہ جائے۔ آج فضائیہ کے پاس جدت عملی کی توانائی ہے، قوت ہے، اس کی موجودہ توانائی کا ماضی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے اور اس توانائی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جب کسی قوم کے سامنے دشمنوں کی طرف سے خطرات ہوں تو انتظامیہ کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ اس قوم کے امن و سلامتی کو یقینی بنائے۔ حکومت کی اولیں ذمہ داری یہ ہے کہ ملک کی سیکورٹی کو اور ملت کی سیکورٹی کو یقینی بنائے۔ سیکورٹی کا تحفظ مختلف طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک ہے عسکری طریقہ اور فوجی قوت میں اضافہ۔ آج آپ کے پاس وہ تمام وسائل موجود ہونا چاہئے جو سیکورٹی کو پائیدار بنائیں اور اس کی ضمانت بنیں۔ ان میں کچھ وسائل تو ہم خود تیار کرتے ہیں اور کچھ کی بیرون ملک سے خریداری کرتے ہیں۔ فضائیہ میں روز افزوں ترقی ہونی چاہئے۔ یعنی کسی حد اور سطح پر مطمئن ہوکر بیٹھ نہیں جانا چاہئے۔
نظام سے اور اس عظیم عوامی سیلاب سے کہ جسے آپ نظام کی پشت پر اور انقلاب کی پشت پر پچھلے 37 سال سے ہمیشہ آہنی دیوار کی مانند کھڑا پاتے ہیں، اپنا رابطہ اور مستحکم کیجئے۔ عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ مسلح فورسز ان کے ساتھ ہیں، ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں، ان کے آگے آگے چل رہی ہیں اور ان کی حفاظت کے لئے کوشاں ہیں تو ان کا حوصلہ بڑھتا ہے۔ مسلح فورسز کو عوام سے حوصلہ ملتا ہے کہ عوام ان کی پشت پر موجود ہیں اور ان کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ چند جملے مجھے فضائیہ کے تعلق سے عرض کرنا تھے۔
ہمارے سامنے دو عیدیں ہیں۔ ایک انقلاب کی سالگرہ کی عید ہے 11 فروری کو، جسے تین دن بچے ہیں۔ دوسری عید انتخابات کی ہے۔ انتخابات بھی در حقیقت ایک عید ہے۔ ان دونوں عیدوں کی ہمیں قدر کرنا چاہئے۔ یہ ہمارے لئے بڑی پرمغز اور اہم عیدیں ہیں۔ پہلی عید کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے جو انقلاب کی عید ہے، جو 11 فروری کو منائی جائے گی، حقیقت میں ہماری قوم نے پچھلے 37 سال کے دوران اس دن کو ایک عید کے طور پر منایا ہے۔ عید کا مطلب وہ مناسبت ہے جو ہر سال دہرائی جائے۔ لفظ 'عید' در اصل 'عود' سے لیا گیا ہے۔ یعنی ہر سال ہم کسی ایک دن کو کسی مناسبت کی بنا پر جشن کے طور پر مناتے ہیں۔ 11 فروری کو انقلاب کی فتحیابی کی وجہ سے یہ جشن ہر سال پورے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا رہا ہے۔ یہ چیز ایران ہی نہیں ساری دنیا میں عدیم المثال ہے۔ میں یہ جو بات کہہ رہا ہوں عین حقیقت ہے۔ یہ تخمینہ اور اندازہ نہیں مصدقہ حقیقت ہے۔ جن ملکوں میں انقلاب آئے ہیں وہاں انقلاب کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔ کچھ لوگ ایک ایوان میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر ان کے سامنے پریڈ ہو جاتی ہے۔ یہ انقلاب کی سالگرہ کا پروگرام ہوتا ہے۔ عوام الناس اس دوران اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ ایران میں انقلاب کی سالگرہ عوام منعقد کرتے ہیں۔ عوام سردی کے موسم میں، گوناگوں مشکلات کے باوجود، برفباری کے دوران بھرپور طریقے سے میدان میں اترتے ہیں اور عوامی شراکت و موجودگی جلوہ فگن ہوتی ہے۔ یہ لا متناہی سلسلہ ہے۔ اس سال 11 فروری کے جشن میں جو لوگ شرکت کریں گے شاید ان کی نصف تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہوگی جنھوں نے 11 فروری 1979 کا دن نہیں دیکھا ہے، لیکن اس کے باوجود جشن میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ در حقیقت انقلاب کا نیا جنم ہے۔ کیونکہ ہمارا یہ انقلاب عسکری قوت کے ذریعے نہیں بلکہ سڑکوں پر عوام کی موجودگی کے نتیجے میں کامیاب ہوا۔ عوام نے صرف اپنی رغبت، اپنے ارادے، اپنے احساسات و جذبات سے ہی نہیں بلکہ جسم و جان سے بھی میدان میں اپنی موجودگی درج کرائی۔ یہ بڑی دشوار لڑائی تھی کیونکہ گولیوں کی بوچھار ہو رہی تھی۔ قتل کیا جا رہا تھا، گوناگوں خطرات تھے۔ مگر عوام نے سارے خطرے مول لئے اور سڑکوں پر اتر پڑے۔ اس مستحکم آہنی ارادے نے کھوکھلی بنیادوں والے شاہی نظام اور اغیار پر منحصر بوسیدہ حکومت کو اکھاڑ پھینکا۔ یعنی عوام کا سڑکوں پر اور میدانوں میں عزم و ارادے کے ساتھ اور دلچسپی و شجاعت کے ساتھ پشت پناہ کے طور پر موجود رہنا عوامی شراکت کی علامت ہے۔ عوام نے گزشتہ 37 سال کے عرصے میں اس شراکت کو قائم و دائم رکھا ہے۔ اس سال بھی آپ دیکھیں گے کہ توفیق خداوندی سے عوام سڑکوں پر جلوہ گر ہوں گے اور 'دشمن شکنی' کریں گے۔
اس یادگار لمحے پر کہنگی کی گرد نہیں جمنے دینا چاہئے۔ یہ عظیم واقعہ فراموشی اور غفلت کی نذر نہیں ہونا چاہئے۔ انقلاب زندہ ہے اور ہم انقلاب کے راستے پر ابھی آدھا سفر طے کر سکے ہیں۔ میرے عزیزو! آپ جانتے ہیں کہ انقلاب یکبارگی رونما ہو جانے والا کوئی واقعہ نہیں ہے۔ انقلاب تبدیلی کا ایک عمل ہے۔ یہ تبدیلی بتدریج انجام پاتی ہے۔ بیشک شروعات میں انقلابی تغیرات کی ضرورت ہوتی ہے، انقلابی نظام تشکیل دینا ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد جب انقلاب اپنے ستونوں کو مستحکم کرتا ہے اور اپنے تمام مطلوبہ اہداف پورے کرتا ہے تو اس کے لئے وقت درکار ہوتا ہے اور یہ عمل تدریجی طور پر طے پاتا ہے۔ اگر وہ اہداف فراموش کر دئے گئے، وہ عظیم واقعہ بھلا دیا گيا تو وہی ہوگا جو بہت سے بظاہر انقلابی کہے جانے والے ملکوں میں ہوا ہے۔ بعض انقلاب تو شروعاتی مراحل میں ہی کچل دئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ حالیہ عرصے میں بعض ملکوں میں ہوا۔ انقلاب واقعی ابتدائی مراحل میں ہی کچل دیا گيا۔ بعض انقلابات ایسے تھے جو عین شباب کے عالم میں موت کا شکار ہوئے۔ اس کی وجہ یہی تھی۔ اس کی وجہ تھی طے شدہ اہداف سے انحراف۔ ان اہداف کا باقی رہنا ضروری ہے۔ ان اہداف میں سماجی انصاف کا قیام ہے۔ حقیقی معنی میں اسلامی زندگی کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ کیونکہ دنیا و آخرت کی عزت اسی اسلامی زندگی میں مضمر ہے۔ ہدف ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل ہے، جس میں علم و دانش بھی ہو، عدل و انصاف بھی ہو، اخلاقیات بھی ہوں، عز و وقار بھی ہو اور ترقی و پیشرفت بھی ہو۔ یہ اہداف ہیں۔ ہم ابھی ان اہداف تک نہیں پہنچے ہیں بلکہ بیچ راستے میں ہیں۔
انقلاب کا واقعہ اور انقلاب کی حقیقت ہمیشہ ہمارے ذہن و دل میں زندہ رہنی چاہئے۔ دشمن محاذ نے اسی نقطے کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ جو آپ خبروں میں دیکھتے ہیں کہ فلاں امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ ہم اسلامی جمہوری نظام سے یہ نہیں چاہتے کہ وہ اپنی ماہیت بدلے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کرے، اس طرح کی باتیں وہ کرتے ہیں جو آپ نے بھی یقینا سنی ہوں گی، روئے کی تبدیلی سے مراد یہی ہے۔ یعنی اب تک اسلامی جمہوری نظام کی روش انقلابی تھی، انقلابی اہداف کے مطابق تھی، اسی روش کو تبدیل کرنا ہے۔ میں نے ملک کے سفارت کاروں سے بھی جو چند ماہ قبل یہاں جمع ہوئے تھے کہا تھا (2) کہ اسلامی جمہوریہ کے نام سے ان دشمنوں کو کوئی خاص مشکل نہیں ہے، انھیں اس پر بھی اعتراض نہیں ہے کہ عمامہ پہننے والا کوئی شخص اسلامی جمہوریہ کی قیادت کرے۔ بس شرط یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ اپنی ماہیت کو ختم کر دے، انقلابی و اسلامی پہلوؤں کو نظر انداز کر دے۔ ایسا ہو جائے تو یہ طاقتیں اسلامی جمہوریہ سے دوستی کر لیں گی۔ ان کی پوری کوشش یہ ہے اور ان کی ساری دشمنی اور عناد اس بات سے ہے کہ اسلامی جمہوریہ کا سفر الوہی و اسلامی اہداف کی جانب کیوں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عزت آفرین و قوت آفرین عوامل کو نابود کر دیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس ملک پر ان کا پرانا تسلط پھر بحال ہو جائے۔
ہم برسوں سے دشمن کے زیر تسلط تھے۔ الگ الگ ادوار میں اس تسلط کی الگ الگ شکلیں رہیں۔ قاجاریہ دور میں کسی شکل میں اور پہلوی دور میں کسی اور شکل میں۔ قاجاریہ دور میں دو حریف طاقتوں کا ہم پر تسلط رہا۔ برطانیہ اور اس زمانے کا روس جو ہنوز سوویت یونین میں تبدیل نہیں ہوا تھا۔ ایک آتا تھا اور کوئی امتیاز حاصل کر لیتا تھا تو دوسرا آکر کہتا تھا کہ آپ نے اسے یہ امتیاز دیا ہے تو ہمیں بھی دیجئے، اسے بھی ایک امتیاز مل جاتا تھا۔ دو طاقتوں میں مراعات اور امتیازات حاصل کرنے کی مقابلہ آرائی تھی اور ملک کے نااہل حکام قوم اور قومی اہداف کو ان پر نثار کرتے تھے۔ اس زمانے میں ایران کی آبادی ڈیڑھ دو کروڑ سے زیادہ نہیں تھی۔ انھوں نے اس قوم کی ہر چیز کو قربان کر دیا۔ اس زمانے میں اس طرح اور پہلوی حکومت کے دور میں کسی اور انداز سے، البتہ پہلوی دور میں حالات اور بھی ابتر ہو گئے۔ یعنی انھوں نے ان طاقتوں کے مفادات کی خدمت کو اپنا فریضہ مان لیا اور ملک کے دروازے ان کے لئے کھول دئے۔ چونکہ ایرانی و اسلامی ثقافت ملت ایران کو مزاحمت و استقامت کے لئے آمادہ کر سکتی تھی اس لئے انھوں نے اس ثقافت کو ہی بدل دیا۔ تمباکو کے مسئلے میں جس جذبے نے غیر ملکی طاقتوں کو سبق سکھایا، اسی جذبے نے آئینی انقلاب کے وقت عوام کو میدان میں اتر پڑنے کا حوصلہ دیا۔ پہلوی دور میں یہ کوشش کی گئی کہ یہ جذبہ پوری طرح مٹ جائے۔ ان کی یہ کوشش تھی۔ رضاخان اور محمد رضا ان کی خدمت میں لگے ہوئے تھے اور وہ جو چاہتے تھے یہ انجام دیتے تھے۔ ویسے رضاخان اور محمد رضا کو خود بھی استقامت اور اسلامی ثقافت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی تاہم وہ سارے اقدامات اپنے آقاؤں کے حکم کی تعمیل میں کرتے تھے۔ برسوں سے ملک کی یہی حالت تھی۔
یہ ملک اپنی اسلامی ماہیت کی وجہ سے، ایرانی استعداد کی وجہ سے، ان استثنائی صلاحیتوں کی وجہ سے جو ایرانی معاشرے کے پاس ہیں اور بہت سے ہمسایہ معاشروں اور دنیا کے بہت سے معاشروں میں جن کا فقدان ہے، ان خصوصیات کی وجہ سے، اسی طرح ایک غیر معمولی اور عدیم المثال قائد یعنی امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے منصہ ظہور پر آ جانے کے نتیجے میں کامیاب ہوا، اس نے خود کو اس جال سے چھڑایا، اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا، اس ملک نے اپنی بات رکھی اور اپنے سفر کا آغاز کیا۔ وہ ان ساری چیزوں کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ آج دشمن محاذ اسی کوشش میں لگا ہوا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ آج کل دشمن کے منہ سے جنگ کی باتیں بہت سنائی دیتی ہیں، جنگ ممکن بھی ہے، حالانکہ ہمیں بعید نظر آتی ہے مگر محال تو نہیں ہے۔ البتہ اس وقت جو چیز دشمن کے ایجنڈے میں ہے وہ 'نرم جنگ' ہے۔ اس نرم جنگ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نشانے پر جو ملک ہے اس کی قوت کے جملہ عوامل کو اس سے سلب کر لیا جائے۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ سے اور ملت ایران سے قوت کے تمام عوامل کو سلب کر لیں اور اسے ایک کمزور، زبوں حال، ہتھیار ڈال دینے والی قوم میں تبدیل کر دیں۔ یہ ہے ان کا ہدف۔ جب کوئی ملت گھٹنے ٹیک دے تو پھر فوجی حملے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی اور اگر کبھی ضرورت پڑی بھی تو یہ کام بڑی آسانی سے انجام دے دیا جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں ان کے اندر اس کی جرئت نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی دن ملت ایران ضعف کا شکار ہو گئی، قوت کے عوامل اس کے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر اس پر حملہ کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔ انقلاب کو ذہنوں میں زںدہ رکھنا، انقلابی فکر کی حفاظت و نگہداشت اور عمل، برتاؤ، فیصلوں، ضوابط اور قوانین میں انقلابی رخ اور پہلو کو قائم رکھنا وہ چیزیں ہیں جو اس دہشتناک صورت حال کا سد باب کر سکتی ہیں اور ملت کو استحکام و ثبات کے اسی راستے پر رواں دواں رکھ سکتی ہیں جس پر وہ آج چل رہی ہے۔ یہ کچھ باتیں تھیں عید انقلاب کے تعلق سے۔ ان شاء اللہ گیارہ فروری کو عوام سڑکوں پر نکلیں گے اور دشمن کو ایک بار پھر مایوسی میں مبتلا کر دیں گے۔ اس کے بعد انتخابات کی عید ہے۔ انتخابات بھی ایک عید ہے۔ میں نے اس سے پہلے بھی انتخابات کے بارے میں کچھ باتیں عرض کی تھیں (3)، انتخابات کے بارے میں بیان کرنے کو بہت کچھ ہے۔ انتخابات اسلامی جمہوری نظام کے پیکر میں نیا لہو بھر دیتا ہے اور ملت کے قوا کو نئی طاقت عطا کرتا ہے۔ کچھ نئے لوگ سامنے آتے ہیں اور ذمہ داریوں کو اپنے دوش پر اٹھاتے ہیں، کچھ کام انجام دیتے ہیں۔ کچھ کاموں کی انجام دہی میں کامیاب ہوتے ہیں کچھ کام ایسے بھی ہوتے ہیں جو وہ نہیں کر پاتے۔ کچھ لوگوں کے اندر کام انجام دینے کی توانائی ہوتی ہے اور کچھ کے اندر نہیں ہوتی۔ قوم کو یہ حق دیا گيا ہے کہ ایک خاص وقت پر پارلیمنٹ یا صدر کے بارے میں چار سال کے لئے اسی طرح ماہرین اسمبلی کے بارے میں اور زیادہ مدت کے لئے فیصلہ کرے۔ کون عہدے پر رہے اور کون عہدے سے ہٹے۔ انتخابات کا یہی مطلب ہے۔ انتخابات یعنی ملک، ملت اور عوام کا تازہ دم ہونا ان کے اندر نئے خون کی گردش۔ یہ ہے الیکشن۔ میں جو تاکید کرتا ہوں کہ انتخابات میں سارے لوگ شرکت کریں تو اس کی یہی وجہ ہے۔ انتخابات جب ہمہ گیر ہو جاتے ہیں اور اس میں سب کی شرکت ہوتی ہے تو ملک کا وقار بڑھتا ہے، اسلامی جمہوری نظام کی عزت کو چار چاند لگتے ہیں۔ ملکی سلامتی کی ضمانت ملتی ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کی حفاظت کا راستہ صاف ہوتا ہے۔ انتخابات عظیم اہداف کے تعلق سے بیعت کا اعادہ ہے۔ اس لئے سب کا فریضہ ہے کہ اس عظیم جمہوری عمل میں شرکت کریں۔
دشمن محاذ جس کی قیادت امریکا کر رہا ہے اس کا ایک دائمی ہدف اوائل انقلاب سے تاحال یہی رہا ہے کہ عوام اور اسلامی نظام کے درمیان خلیج پیدا کرے۔ یعنی عوام اور اسلامی نظام کے باہمی امتزاج کی موجودہ صورت حال کے بالکل برعکس تصویر۔ دشمن یہ شگاف ڈالنے کے لئے کوشاں ہے۔ البتہ انھیں اب تک کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ انتخابات ایک ایسا عمل ہے جو اس پہلو سے دشمن کو مایوسی میں مبتلا کرتا ہے۔ کیونکہ یہ اسلامی نظام سے عوام کی وابستگی کا مظہر ہے اور یہ چیز اس خلیج پر خط تنسیخ کھینچ دیتی ہے جو دشمن کو مطلوب ہے۔ اس طرح سے انتخابات؛ «اِن تَنصُرُوا الله» کا مصداق ہیں۔
قرآن کہتا ہے؛ اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم (۴) اگر تم اللہ کی نصرت کروگے تو اللہ تعالی بھی تمہاری مدد کرے گا۔ اللہ کی نصرت کرنے کا کیا مطلب ہے۔ کس طرح یہ مدد کی جاتی ہے؟ اللہ کی نصرت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ روئے زمین پر امور کی انجام دہی میں ارادہ خداوندی کے مطابق عمل کرنا۔ اس کا سب سے بڑا مصداق اسلامی جمہوریہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ کی جو بھی جس طرح سے بھی مدد کرے اس پر «اِن تَنصُرُوا الله» کا اطلاق ہوگا۔ اس نے گویا اللہ تعالی کی نصرت کی ہے۔ اب اس کا صلہ کیا ہے؟ یَنصُرکُم، اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا۔ کیا ایسا ہی نہیں ہوا ہے؟ کیا اوائل انقلاب سے یہی صلہ نہیں ملا ہے؟ کیا امتحان کے لمحات نہیں آئے؟ اوائل انقلاب سے اب تک کون لوگ ہمارے خلاف رہے ہیں؟ واقعی اس کا باریکی سے جائزہ لینا چاہئے۔ البتہ اہل فکر افراد کی نظر میں یہ جائزہ ہے۔ آغاز انقلاب سے دنیا کی پہلے نمبر کی مادی طاقتیں اسلامی جمہوری نظام سے برسر پیکار رہیں لیکن اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ جب کسی ملک میں انقلاب آتا ہے تو انقلاب کا مزاج ہی یہ ہے کہ آشفتگی اور انتشار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس آشفتگی کے دور میں ان دشمن طاقتوں نے ملک کو تقسیم کر دینے کی کوشش کی، بغاوت کروانے کی کوشش کی مگر انھیں کامیابی نہیں ملی۔ انھوں نے جنگ مسلط کروا دی اور آٹھ سال تک اس ملک پر جنگ مسلط رکھی۔ شروع سے ہی پابندیاں عائد کر دیں۔ آج آپ جو پابندیاں دیکھ رہے ہیں وہ شروعاتی پابندیوں کا تسلسل ہے۔ البتہ اس میں روز بروز شدت آتی جا رہی ہے۔ کس ملک کے اندر ان حالات میں ڈٹے رہنے کی طاقت ہے؟ اتنے خطرات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی طاقت کس ملک میں ہے؟ مگر اسلامی جمہوری نظام نے، اسلامی مملکت ایران نے مقابلہ کیا۔ صرف خود کو بچائے نہیں رکھا بلکہ اپنی قوت و توانائی میں مسلسل اضافہ بھی کیا۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت کا مقابلہ شروعاتی دنوں کی طاقت سے نہیں کیا جا سکتا۔ ایران ایک علاقائی طاقت کے طور پر اور کچھ معاملات میں عالمی قوت کی حیثیت سے دنیا کی معدودے چند طاقتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی رائے اور نظر دنیا کے بعض مسائل میں دنیا کی پہلے نمبر کی طاقت کی رائے سے زیادہ موثر مانی جاتی ہے۔ آج یہ حالات ہیں۔ ایران ایک ایسی طاقت میں بدل چکا ہے۔ یعنی اللہ کی مدد حاصل ہوئی ہے۔ «اِن تَنصُرُوا الله» آپ نے انجام دیا تو اس کے نتیجے میں «یَنصُرکُم» کی نعمت ملی۔ اللہ نے آپ کی مدد کی۔ اگر اللہ مدد نہ کرتا تو یہ نہ ہو پاتا۔ اس «اِن تَنصُرُوا الله» کو آگے بھی جاری رکھنا چاہئے اور انتخابات میں عوام کی شرکت اسی زمرے میں آتی ہے۔
انتخابات کے بارے میں مجھے ابھی بہت کچھ کہنا ہے۔ کچھ باتیں کہی جا رہی ہیں۔ ان دنوں کچھ ایسی باتیں بھی سنائی دے رہی ہیں جن میں میں نہیں پڑنا چاہتا کیونکہ وہ رائے عامہ کی تشویش کا سبب بنیں گی اور ان کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں شک و تردد کی کیفیت پیدا ہوگی۔ یہ نازیبا اور غلط باتیں ہیں۔ یہ خالص سیاسی نگاہ سے مسائل کو دیکھنے کی کوشش ہے، دینی و روحانی پہلو کو بالکل نظر انداز کر دینے کے مترادف ہے۔ ان دنوں ایسی کچھ باتیں سنائی دیتی ہیں۔ میں اس وقت ان چیزوں میں نہیں پڑنا چاہتا۔ ان دنوں ایسی کچھ باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔ میں سردست ان چیزوں کو نہیں چھیڑنا چاہتا، بس اتنا عرض کرنا ہے کہ عوام یاد رکھیں کہ ان کا وقار، ان کا افتخار، ان کا اقتدار اور دشمن محاذ کے سامنے ان کی استقامت کا دارومدار اس پر ہے کہ اپنے انقلابی فرائض کو بخوبی سرانجام دیں اور ان فرائض میں ایک اہم فریضہ انتخابات سے متعلق ہے۔ حکومتی عہدیداران وا قعی بڑی زحمتیں اٹھا رہے ہیں، بڑی محنت کر رہے ہیں، انتخابات کے انعقاد کے تعلق سے بھی اور دیگر امور کی انجام دہی کے تعلق سے بھی۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ انتخابات کے تشہیراتی مسائل اور ذرائع ابلاغ کے مسائل ملک کے حکام کو ان کے کلیدی فرائض سے غافل نہ کر دیں۔ انتخابات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور آئندہ بھی کہتے رہیں گے کہ انتخابات بہت اہم ہیں، لیکن بہرحال انتخابات ایک خاص دورانئے کی چیز ہے۔ ایک خاص وقت میں انجام پاکر ختم ہو جانے والی چیز ہے۔ یہ وقت ختم ہو جاتا ہے جو چیز باقی رہتی ہے وہ ملک کے کلیدی مسائل ہیں۔ ان میں ایک ملکی معیشت کا مسئلہ ہے۔ اقتصادی میدان میں اور اقتصادی سرگرمیوں کے میدان میں ملک کو مستحکم اور ٹھوس بنانے کا مسئلہ ہے تاکہ دشمن اقتصادی حربوں سے ملک پر کوئی دباؤ نہ ڈال سکے اور اپنی مرضی اور مطالبات مسلط نہ کر سکے۔ اگر ہم تیل پر منحصر نہ ہوں، اگر ہم اپنی قومی پیداوار کی تقویت کر لے جائیں تو اس صورت میں اگر تیل کی قیمت سو ڈالر سے گھٹ کر بیس پچیس ڈالر تک پہنچ جائیگی تو ہم پریشان نہیں ہوں گے۔ اگر ہم داخلی پیداوار کو مستحکم کر لے جائیں، جمود کو ختم کر دیں تو پھر دشمن اگر کوئی چیز ہمیں فروخت کرنے سے انکار کرتا ہے تو ہمیں کوئی اضطراب نہیں ہوگا۔ معیشت کو اندرونی طور پر مستحکم بنانا چاہئے۔ ہمارا ملک ایک بڑا ملک ہے۔ یہ ایک بڑا اور چار موسموں والا ملک ہے۔ ہمارا ملک ایسا ہے جس کے پاس بے شمار وسائل ہیں اور ہماری سب سے بڑی دولت ہماری افرادی قوت ہے۔ ماہر، کارآمد، نوجوان اور جوش و جذبے سے بھری ہوئی افرادی قوت۔ ہمارا ملک دنیا کے ان ممالک میں ہے جن کے پاس تعلیم یافتہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہمارے پاس عالمی سطح پر انجینیئروں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے بہت سے شعبے ایسے ہیں جن میں ہمارا ملک صف اول کے چار پانچ ملکوں میں شامل ہے۔ افرادی قوت کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ یہ کسی بھی ملک کی پیشرفت کا بہت اہم ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ وسیع و عریض سرزمین، یہ موسموں کا تنوع، ملک کے مختلف حصوں میں الگ الگ آب و ہوا، ملک کے اندر موجود یہ وسیع ذخائر و وسائل، یہ ساری چیزیں ہمیں یہ توانائی دیتی ہیں کہ اپنی معیشت کو مستحکم بنائیں۔ جب آپ اپنی معیشت کو اندرونی طور پر مستحکم بنا لیں گے تو دوسری طاقتیں آپ پر پابندیاں عائد کرنے کے بجائے آپ کی خوش آمد کریں گی۔ جب وہ دیکھ لیں گی کہ اقتصادی دباؤ اور معاشی پابندیوں سے آپ کی پیشانی پر بل نہیں پڑ رہے ہیں تو پھر وہ خود ہی پسپا ہو جائیں گی، شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ پھر پابندیاں عائد کرنے کی حماقت نہیں کریں گی، کیونکہ انھیں پہلے سے یقین ہوگا کہ یہ عبث اقدام ہے۔ یہ بنیادی کام ہے۔ میں جو استقامتی معیشت کی بات کرتا ہوں اور اسے بار بار دہراتا رہتا ہوں اس کی یہی وجہ ہے۔ میں دس بارہ سال سے یہ بات بار بار زور دیکر کہہ رہا ہوں کہ اگر ملکی معیشت کو اندرونی طور پر ہم مستحکم بنائیں تو دشمن کی جانب سے پیدا کی جانے والی بہت سی مشکلات کا ازالہ ہو جائے گا۔ ہمارے نوجوانوں کے لئے، روزگار کے مواقع کے لئے، بے روزگاری سے پیدا ہونے والی مشکلات کے ازالے کے لئے بڑے واضح طریقے سے مہیا ہو جائیں گے۔
ملک کے حکام کے لئے میری سفارش یہ ہے کہ انتخابات کے بارے میں اخبارات میں جاری ہنگامے میں خود کو نہ الجھائیں، بلکہ ملکی معیشت کی فکر میں رہیں۔ سرمائے کو اس سمت میں لے جائیں جہاں اسے لے جانا چاہئے۔ یعنی پیداوار کی سمت میں بڑھیں، خواہ وہ زراعتی پیداوار ہو یا صنعتی پیداوار۔ اتنا عظیم ملک، اتنا وسیع ملک، گوناگوں مصنوعات اور پیداوار والا ملک ہے، ایسے میں انسان جب یہ دیکھتا ہے، میں تو اخبارات میں دیکھتا ہوں، آپ بازار میں اور سڑکوں پر دیکھتے ہوں گے، کہ انواع و اقسام کے غیر ملکی پھل رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے سنترے، ہمارے سیب تو درختوں پر لگے ہوئے ہیں اور ہم غیر ملکی پھل امپورٹ کر رہے ہیں! اس پر توجہ دینا چاہئے، اس کا حل نکالنا چاہئے۔ ملکی سرمائے کو پیداوار کی جانب لے جانا چاہئے، اغیار پر مزید انحصار اور درآمدات میں اضافے کی جانب نہیں۔ ان حالات میں جب انتخابات کا مسئلہ پیش آتا ہے تو ساری توجہ اسی جانب مرکوز ہو جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ یہ وقتی مسئلہ ہے۔ جن لوگوں کو انتخابات کے امور کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ ان امور کو انجام دے رہے ہیں، اس بارے میں غور و فکر کر رہے ہیں۔ ملکی حکام کو اپنے ذہن ان امور میں الجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں یہ بات اپنے عزیز عوام سے بھی کہہ رہا ہوں اور حکام سے بھی عرض کر رہا ہوں کہ ہماری پالیسیاں اور ہماری نقل و حرکت دشمن کے وسیع محاذ کو مد نظر رکھتے ہوئے طے پانی چاہئے۔ ہماری پوری توجہ اس محاذ پر رہنی چاہئے۔ اگر کوئی بھی شخص اور جماعت دشمن کی جانب سے غفلت برتے تو اس کی کوئی بھی تعریف نہیں کر سکتا کہ یہ تو سب کی طرف سے دل صاف رکھتے ہیں۔ یقینا دشمن مسکراکر ملے گا، مگر آپ کو نظر رکھنا چاہئے کہ اس مسکراہٹ کے پیچھے کیا ہے؟! دشمنی کو فراموش نہیں کرنا چاہئے، دشمنوں سے غفلت نہیں برتنی چاہئے۔ ہمارے سامنے ایک دشمن محاذ ہے۔ آج ہم اپنی سیکورٹی کے مسئلے میں، اپنی معیشت کے مسئلے میں، اپنی ثقافت کے مسئلے میں، اپنے نوجوانوں کے معاملے میں اور سماجی مسائلے کے بارے میں اس بات پر توجہ رکھیں کہ دشمن کیا کر رہا ہے اور تمام مسائل میں اسی زاویہ فکر کے تحت منصوبہ سازی کریں، اسی بنیاد پر پالیسیاں طے کریں اور اسی اساس پر قانون وضع کریں، اسی بنیاد پر اقدام کریں اور اسی بنیاد پر بات کریں۔ دشمن کی جانب سے غافل ہو جانا کوئی افتخار کی بات نہیں ہے۔ ہمیں دھیان رکھنا چاہئے کہ دشمن موجود ہے۔ بعض لوگ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ جناب آپ ہمیشہ دشمن دشمن ہی کہتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر ہم دشمن دشمن نہ کہتے رہیں گے تو بھول جائیں گے کہ ہمارا کوئی دشمن موجود ہے اور پھر ہماری اس غفلت کا فائدہ اٹھاکر دشمن آگے بڑھے گا اور جو چاہےگا کرے گا۔
دشمن کو بھی پہچاننا چاہئے۔ اس کی دشمنی کو بھی سمجھنا چاہئے۔ سعدی کے بقول؛
دشمن چون از همه کار فرو ماند، سلسله‌ی دوستی بجنباند؛ وقتی سلسله‌ی دوستی جنباند، آن‌وقت کاری کند که هیچ دشمنی نتواند کرد (5)
یعنی دشمن دوستی کی آڑ میں وار کرتا ہے۔ ہم سب کو اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ بحمد اللہ ملک کے حکام کی کارکردگی بہت اچھی ہے۔ واقعی محنت سے کام کر رہے ہیں، سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، تاہم مزید ہوشیاری برتنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ بڑا نابکار دشمن ہے، بڑا بے غیرت اور پست دشمن ہے۔
امریکا آج عالمی رائے عامہ کے بالکل عام سوالوں کے جواب دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ عالمی رائے عامہ آج امریکیوں سے یہ پوچھتی ہے کہ کیا آپ کو یہ خبر نہیں ہے کہ ایک ملک دس گیارہ مہینے سے یمن پر بمباری کر رہا ہے، بستیوں کو نابود کر رہا ہے؟ آپ کو اطلاع ہے یا نہیں؟ اگر اطلاع ہے تو آپ ایسے ملک کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟ اگر اطلاع ہے تو آپ اعتراض کیوں نہیں کرتے؟ اگر اطلاع ہے اور آپ ان جرائم سے واقف ہیں تو آپ کے ایندھن پہنچانے والے طیارے ان کی مدد کیوں کر رہے ہیں؟ آپ ان کی مدد کیوں کر رہے ہیں؟ آپ حمایت کیوں کر رہے ہیں؟ آپ جو انسانی حقوق کا دم بھرتے نہیں تھکتے، ان سوالوں کا جواب دیجئے۔ ہزاروں بچے، مرد اور عورتیں، بے گناہ شہری اپنے گھروں کے اندر، اسپتالوں کے اندر اور اسکولوں میں بلا وجہ قتل کئے جا رہے ہیں، کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے؟ کیا یہ حکومتی دہشت گردی کی بے رحمانہ ترین اور بدترین شکل نہیں ہے؟ آپ اس کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟ امریکی ان سوالوں کا جواب نہیں دیتے۔ دنیا کے لوگوں کے سامنے بڑی دیدہ دلیری سے انسانی حقوق کی حمایت کے دعوے بھی کرتے ہیں! یہ تو یمن کا معاملہ ہے جو گزشتہ ایک سال سے چل رہا ہے۔ دوسری طرف فلسطین ہے جس کا ساٹھ سال پینسٹھ سال سے یہی حال ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کے عوام کیا کر رہے ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے، ان کی کھیتیوں کو نابود کیا جا رہا ہے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان جگہوں پر نئے گھر تعمیر کئے جاتے ہیں اور ان گھروں میں بندوق کے زور پر صیہونیوں کو بسایا جاتا ہے اور انھیں مسلح رکھا جاتا ہے۔ آپ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں تو دفاع کے لئے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھاتے؟ آپ پیسے کیوں دیتے ہیں؟ آپ بقول خود، امریکا کے اندر موجود صیہونی لابی کے سامنے ہمیشہ گھٹنے کیوں ٹیک دیتے ہیں؟ ہمیشہ اس کی خوشامد کیوں کرتے ہیں؟ کیوں؟ یہ رائے عامہ کے بالکل سامنے کے سوال ہیں۔ امریکی ان میں کسی ایک سوال کا بھی جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اوپر سے انسانی حقوق کی حمایت کے دعوے کرتے ہیں، جمہوریت میں اپنی دلچسپی کے دعوے کرتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں امریکا کے جو اتحادی ہیں وہاں انتخابات کا نام تک نہیں لیا جا سکتا۔ وہاں لوگ انتخابات کے نام سے آشنائی تک نہیں رکھتے، ان کو معلوم ہی نہیں کہ انتخابات کسے کہتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود جمہوریت کا سرپرست امریکا ان کے ساتھ شیر و شکر ہے اور وہ بھی کس طرح؟! ان کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے۔ تو ہمارا دشمن اس قماش کا ہے۔ امریکا اس طرح کا ملک ہے۔ البتہ میں بارہا وضاحت کر چکا ہوں کہ مراد امریکی انتظامیہ ہے، مراد امریکی نظام ہے۔ امریکا کے عوام سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ عادات و اطوار امریکی حکومت کے ہیں۔ وہ پست ترین جرائم انجام دیتے ہیں اور پھر لوگوں پر ہنستے ہیں اور کسی سوال کا کوئی جواب نہیں دیتے! اگر ان کے پاس کوئی جواب ہے تو رائے عامہ کے سامنے اسے رکھیں! جب کسی ملک کو ایسے دشمن کا سامنا ہو تو اسے بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔ ملت ایران کو بہت محتاط رہنا چاہئے۔ بفضل پروردگار ہماری قوم پوری طرح ہوشیار ہے اور ہمیشہ ہوشیاری سے کام لیتی آئی ہے۔ اس عظیم قومی تحریک نے اب تک ہر موڑ پر عیار اور نابکار دشمن کی چالوں کو ناکام بنایا ہے، آئندہ بھی فضل الہی سے یہ دشمن ذلیل و خوار ہی ہوتا رہے گا۔
میرے عزیزو! آپ اس فریضے کی قدر کیجئے جو عہدے کی بنیاد پر آپ کو دیا گيا ہے، اپنی جوانی کے ایام کی قدر کیجئے! آپ نوجوان ہیں، آپ کے اندر جوش و جذبہ ہے۔ آپ کو عہدہ بھی ملا ہے۔ آپ کام کر سکتے ہیں۔ اس فضا اور اس ماحول میں کام کرنا عبادت ہے۔ خالصانہ نیت کے ساتھ اللہ کے لئے اور ملک، فوج کو اور فضائیہ کو ان منزلوں تک پہنچانے کے لئے کام کیجئے۔ زیادہ سے زیادہ محنت کیجئے۔ اللہ تعالی آپ کی عمر میں اور آپ کی مساعی میں برکت عطا کرے گا۔
دعا کرتا ہوں کہ ہمارے عظیم قائد کی روح مطہرہ، شہدا کی پاکیزہ ارواح اور خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ سے تعلق رکھنے والے شہیدوں کی روحیں آپ سب سے اور ہم سب سے راضی و خوشنود رہیں۔

والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته‌

۱) اس ملاقات کے آغاز میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی فضائیہ کے کمانڈر جنرل حسن شاہ صفی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔
۲) وزارت خارجہ کے عہدیداروں اور بیرون ملک ایران کے سفارتی مراکز کے سربراہوں سے رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ 5 نومبر 2015 کا خطاب
۳) منجملہ ملک کے ائمہ جمعہ سے رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ 4 جنوری 2016 کا خطاب
۴) سوره‌ محمّد، آیت نمبر 7 کا ایک حصہ
5) گلستان، باب هشتم (تھوڑے سے فرق کے ساتھ)