اس تقریب میں رہبر انقلاب اسلامی نے قرآن کریم کے الفاظ کی دل آویزی کو ایک معجزہ اور اس کے عالی و پرمغز مفاہیم کی جانب دلوں کے ارتکاز کا دریچہ قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ملک میں قرآنی نشستوں کی ترویج کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ حالات میں دنیا کو پہلے سے زیادہ قرآنی مفاہیم کے ادراک کی ضرورت ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ اگر آج کی زبان میں قرآن کے معانی کو لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے تو یقینی طور پر اس کی گہری تاثیر ہوگی اور وہ انسانیت کی حقیقی پیشرفت کا مقدمہ بنیں گے، کیونکہ عزت، قدرت، مادی آسائش، روحانی ارتقاء، فکر و عقیدے کی تبلیغ اور روحانی طمانیت و مسرت کا انحصار قرآن پر عمل آوری پر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آغاز میں گزشتہ سال سانحہ منی میں جاں بحق ہو جانے والے قاریان قرآن کو یاد کیا اور انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ملک میں اہل قرآن بالخصوص قرآنی نوجوانوں کی تعداد میں اضافے پرخوشی ظاہر کی۔ آپ نے فرمایا کہ اگرچہ قرآن کے الفاظ کی جاذبیت و کشش کرشماتی ہے، لیکن ان پرکشش الفاظ کا اصلی ہدف قرآنی مفاہیم کی بابرکت و پرشکوہ فضا تک لے جانے والا دریچہ وا کرنا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله‌ الرحمن‌ الرحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیة الله فی الارضین.

بہت بہت خوش آمدید کہتا ہوں۔ ہمیں آج بڑی خوشی ہوئی، واقعی ہمیں خوب فائدہ پہنچا۔ بحمد اللہ قرآن سے انس اور تلاوت قرآن کا یہ سلسلہ ہمارے ملک میں روز بروز زیادہ وسعت حاصل کرتا جا رہا ہے اور یہ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی برکتوں کا نتیجہ ہے۔ البتہ اس سال یہ عزیز قاری نہیں ہیں جن کی تصاویر یہاں ہیں (1)، میرے خیال میں یہ سب کے سب گزشتہ سال یہاں تھے، ہمارے ساتھ تھے، بعض نے تلاوت بھی کی تھی اور ہم نے ان کی تعریف بھی کی تھی، حوصلہ افزائی بھی کی تھی، دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے ان عزیزوں کو قرآن کے جوار میں، قرآن کے سائے میں، قرآن کی شفاعت سے رحمت و غفران خداوندی کے بلند درجات پر فائز کرے۔ ان کے پسماندگان کو صبر دے اور ان کے ناتمام حج کو پوری کاملیت کے ساتھ اور بہترین انداز میں درجہ قبولیت عطا فرمائے۔
کشش اور جاذبیت صرف قرآن کے مفاہیم و معارف سے مختص نہیں ہے، قرآن کے الفاظ بھی پرکشش ہیں۔ الفاظ کی اسی کشش کا نتیجہ تھا کہ جنھوں نے اپنے دلوں پر تالے لگا رکھے تھے اور نزول کے وقت قرآن کے مفاہیم کو سمجھنے، دیکھنے اور ان سے مستفیض ہونے کے لئے تیار نہیں تھے، وہی لوگ ان الفاظ کی کرشماتی کشش اور جاذبیت کے سامنے لاچار ہو گئے، اس کو روکنا ان کے بس کے باہر تھا۔ قرآن کے الفاظ، قرآن کا آہنگ، قرآن کا شیوہ اور انداز، بذات خود ایک معجزہ ہے۔ قرآن شعری مجموعہ نہیں ہے، نثر بھی نہیں ہے۔ ایسی چیز ہے جو نہ شعر ہے نہ نثر ہے، لیکن بہترین شاعری اور بہترین نثر کی کشش اپنے اندر رکھتا ہے۔ قرآن کی بعض آیتوں میں شعری اوزان بھی ہیں، لیکن قرآن کے الفاظ کی زیبائی وزن کی بنیاد پر نہیں ہے۔ جہاں کوئی وزن نہیں ہے وہاں بھی قرآن کے الفاظ کی کشش انسان کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے، اسے 'مسحور کن' کہنا درست نہیں ہے، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ دل ربا کشش ہے۔ یہ ہے صورت حال۔
اس کشش اور جاذبیت سے استفاد کرنا چاہئے۔ قرآن نازل کرنے کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ پرکشش کلام پیش کر دیا جائے تاکہ فصحاء، بلغاء اور شعراء وغیرہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں، گھٹنے ٹیک دیں، تعریف کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ مقصود صرف یہ نہیں ہے، مقصود یہ ہے کہ ہم اس دریچے سے، کشش اور جاذبیت کے اس جھرونکے سے، خود کو قرآنی معارف کے با برکت اور پرشکوہ گلشن کی فضا میں پہنچائیں۔ یہ ہے اصلی مقصد۔ جتنی زیبائی اور کشش قرآن کے الفاظ میں ہے اس سے ہزار گنا زیادہ، ہزار کا لفظ میں اس لئے استعمال کر رہا ہوں کہ یہی رائج ہے ورنہ شاید اصل میں ہزاروں گنا زیادہ، ظاہر ہے ہم صحیح اندازہ لگانے پر قادر نہیں ہیں، جاذبیت اور کشش قرآن کے معانی و معارف میں ہے۔ انھیں کون سمجھے گا؟ وہ سمجھے گا جو تدبر کرے گا، جو دل کے دریچے کو وا کرے گا اور ان حقائق کو دل میں اتارے گا۔ ہر زمانے اور ہر دور میں اگر انسان جو زندگی کے مسائل سے روبرو ہوتا ہے اور زندگی کے مسائل اس کے لئے اہمیت رکھتے ہیں، قرآن سے اس انداز کا قریبی رشتہ قائم کر لے تو وہ قرآن کے معجزے کا ادراک کرے گا، یہ ممکن ہے کہ بعض کو زیادہ ادراک ہو اور بعض کو کچھ کم یا کسی وقت زیادہ ادراک ہو اور کسی وقت کچھ کم۔
میرا ماننا یہ ہے کہ اگر ہم اہل دل ہیں؛ «لِمَن کان لَهُ قَلبٌ اَو اَلقی السَّمعَ وَ هُوَ شَهید» (۲) ہم اگر اہل دل کے زمرے میں ہوں، اگر ہم دل و جان کی گہرائی سے قرآن کو سنیں تو مفاہیم قرآن کے معجزے کو ہم بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہم قرآن کے معجزات کو ان لوگوں سے بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں جو ہزار سال قبل تھے۔ اس پیچیدہ دنیا میں، اس طوفانی دنیا میں، مشکلات سے بھری اس دنیا میں، اس علمی ترقی کے دور میں اور ان طاقتوں کے درمیان جب قرآن میدان میں وارد ہوتا ہے اور بات کرتا ہے تو «اِنَّ هذَا القُرءانَ یَهدی لِلَّتی هِیَ اَقوَمُ» اس چیز کو انسان باقاعدہ محسوس کرتا ہے کہ واقعی «یَهدی لِلَّتی هِیَ اَقوَمُ وَ یُبَشِّرُ المُؤمِنینَ» (۳)۔
آج میں آپ کی قرائت سے بہت محظوظ ہوا، آپ نے انفرادی طور پر جو پڑھا، گروپ کی شکل میں جو پڑھا، جو ترانے پیش کئے واقعی ان سے دل کو روحانی لذت ملی۔ بلکہ دو طرح کی لذت؛ ایک تو اس تلاوت، ان آوازوں اور خاص پیشکش کی لذت اور دوسرے ملک میں روز افزوں قرآنی نمو و ارتقاء کے مشاہدے کی لذت ہے جو اس حقیر کے لئے پہلی لذت سے زیادہ دل آویز ہے۔ بیس سال پہلے یہ چیزیں کہاں تھیں؟ تیس سال پہلے یہ ماحول کہاں تھا؟ انقلاب سے پہلے تو خیر بالکل بھی ماحول نہیں تھا کہ ہمارے نوجوان، بچے، میان سال افراد، قرآن کی راہ پر، حفظ کے میدان میں اور تلاوت کی ان روشوں کے علم میں اتنے آگے دکھائی دیں۔
آج آپ نے جو عطرانگیزی کی ہے اور جہاں تک ہو سکے آپ اس میں اور بھی اضافہ کیجئے، خلاقیت دکھائے، یہ قرآنی معارف کی سمت کھلنے والا دریچہ ہونا چاہئے جو ہمیں قرآن سے آشنا اور مانوس کرے۔ قرآن کو آپ یہ نہ سمجھئے کہ بس اچھی آواز سے پڑھنے بھر کی چیز ہے، اچھی آواز سے پڑھنا تو ایک الگ ہی موضوع ہے۔ اس وقت مصر میں بعض گانے والے ہیں جو گانے بھی گاتے ہیں اور قاری قرآن بھی ہیں۔ گزشتہ نسلوں کے قاری جیسے شیخ مصطفی اسماعیل، شیخ عبد الفتاح شعشائی، یہاں تک کہ محمد رفعت جیسے افراد موسیقی داں تھے، لیکن قرآن کو قرآنی آہنگ اور قرآنی الحان کے ساتھ پڑھتے تھے۔ اسے کیبرے کی دھنوں اور فحشیات پر مبنی گانوں کی دھنوں سے دور رکھتے تھے، خلط ملط نہیں ہونے دیتے تھے۔ آج بعض لوگ ہیں جو اس باریکی کا خیال نہیں رکھتے۔ دیکھنے میں آتے ہیں ایسے افراد۔ تو یہ خوبصورت پیشکش ضروری ہے کہ ہمیں قرآن کے قریب کرے، قرآن سے ہمارا انس بڑھائے۔
ملک کے اندر ایک بہت اچھا کام یہ ہو سکتا ہے، البتہ کم و بیش انقلاب سے پہلے بھی یہ کام ہوا ہے اور انقلاب کے بعد بہتر انداز میں اور زیادہ اچھی شکل میں یہ چیز نظر آئی ہے تاہم اسے باقاعدہ رائج کرنے کی ضرورت ہے، وہ کام یہ ہے کہ تلاوت قرآن کے جلسے منعقد کئے جائیں۔ انقلاب سے پہلے قرآن کے جلسے ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے میں میں خود بھی اس طرح کے کچھ جلسے منعقد کرتا رہا ہوں۔ ان جلسوں میں شریک ہوتا تھا۔ وہ جلسے میں جانتا ہوں، دیکھ چکا ہوں۔ میری مراد ان جلسوں سے نہیں ہے۔ وہ جلسے قرآن کی تعلیم کے لئے ہوا کرتے تھے۔ شریک لوگ باری باری تلاوت کرتے تھے اور اس دوران تلاوت کی اصلاح ہو جاتی تھی۔ اس وقت تلاوت قرآن کے جلسوں سے مراد یہ ہے کہ جلسہ منعقد ہو، اس میں لوگ شرکت کریں، قاری قرآن اس میں ایک گھنٹا یا اس سے کچھ کم یا زیادہ قرآن کی تلاوت کرے، سامعین قرآن سننے کے لئے آئیں اور جلسے میں بیٹھیں اور قرآن کی تلاوت سنیں۔ اس کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ یہ کبھی کبھی انسان کے خود تلاوت کرنے سے زیادہ موثر ہوتا ہے۔ بعض افراد قرآن کے معانی کو سمجھتے ہیں، کلمات کے مفہوم سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ہم غیر عرب لوگوں کی یہ بد نصیبی ہے کہ ہماری زبان قرآن کی زبان نہیں ہے۔ عربوں کی زبان قرآنی زبان ہے۔ جب قاری کسی جملے پر تاکید کرتا ہے اور اسے کئی بار دہراتا ہے، دو بار تین یا پانچ بار اس کی تلاوت کرتا ہے۔ وہ سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ قاری کیا کہہ رہا ہے۔ اگر اس کی ناقص تشبیہ دوں تو یہ کہنا چاہئے کہ جیسے گلستان سعدی کے کچھ جملے ہم سب کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر یہ جملہ؛ «آن را که حساب پاک است از محاسبه چه باک است» اگر استعمال کیا گيا تو سب سمجھیں گے اور غور سے سنیں گے۔ قرآن کے جملے کہ جن کی حکمت ہر اعتبار سے ہزروں گنا زیادہ ہے، جب قاری ان فقروں کو پڑھتا ہے اور عرب سامع سنتا ہے تو پوری طرح سمجھتا ہے، لیکن غیر عرب سامع ممکن ہے کہ سمجھے اور ممکن ہے کہ نہ سمجھ پائے۔ تو ہماری پہلی کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ قرآنی زبان سے ہم واقف ہوں، قرآن کی زبان سیکھیں۔ یہ ایک امتیاز ہے، افتخار کی بات ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے میں یہ کام انجام دینے میں کامیاب ہو جائیں تو بہت اچھی بات ہوگی۔ اس پر ہمارے آئین میں اور انقلاب کے ابتدائی قوانین میں تاکید بھی کی گئی ہے۔ اس پر زور دیا گيا ہے کہ عربی زبان کو جو قرآن کی زبان ہے ہم سیکھیں۔ جن افراد کے لئے یہ ممکن نہیں ہے وہ کم از کم یہ کر سکتے ہیں کہ قرآن کو کھول کر اپنے سامنے رکھیں، قاری تلاوت کا آغاز کرے، یہاں قاری دس منٹ بارہ منٹ تلاوت کرتا ہے، اس جلسے میں ایک گھنٹا یا پینتالیس منٹ تلاوت کرے، ایک قاری یا دو قاری تلاوت کریں۔ خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کلام پاک کریں۔ قرائت کے اسی انداز سے جس میں تلاوت کا حسن موجود ہے۔ سامعین اس جلسے میں شرکت کریں اور اپنے سامنے قرآن کھول کر رکھیں۔ اگر معانی سمجھ میں نہیں آ رہے ہیں تو ترجمہ پڑھیں اور تلاوت کو غور سے سنیں۔ یہ ان روشوں میں ہے جن سے ملک میں قرآنی معارف کی ترویج میں مدد ملے گی۔ قرآنی جلسے ہوں، خود قرآن کے لئے نشستوں کا اہتمام کیا جائے۔ جیسے ہم محبت اہل بیت اطہار میں پروگرام رکھتے ہیں، محافل و مجالس کا سلسلہ رہتا ہے، مرثیہ کی مجالس ہوتی ہیں یا ائمہ علیہم السلام کا جشن منایا جاتا ہے۔ دو گراں قدر چیزوں میں ایک اہلبیت ہیں اور دوسرے قرآن ہے۔ قرآن کے جلسے رکھئے۔ یہ ایسا عمل ہے کہ اگر ملک میں رائج ہو جائے اور آپ قرآنی افراد، جو یہ کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں، کمر ہمت کس لیں اور یہ جلسے اور نشستیں منعقد ہونے لگیں تو ملک کے اندر قرآنی مہم کا فروغ تیزی کے ساتھ ہوگا اور لوگ قرآن سے زیادہ آشنا ہوں گے۔
عزیزان گرامی! آپ یاد رکھئے کہ آج دنیا کو قرآن کی احتیاج ہے، خواہ دنیا اس کا اعتراف کرے یا نہ کرے۔ آج دنیا تشخص کے خلا سے دوچار ہے، فکری خلا سے روبرو ہے، ایمانی خلا کے دور سے گزر رہی ہے۔ ایمان سے خالی انسان اندر سے کھوکھلے پھل کی مانند ہوتا ہے۔ آپ جو دیکھتے ہیں کہ مغربی ملکوں میں قتل اور دیگر جرائم کی شرح تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے۔ ایک وجہ یہی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے یہاں خودکشی کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو اس کی بھی ایک وجہ یہی ہے۔ بشر کے پاس اب اپنے ذہن و دل و جان کو مطمئن اور سیراب کرنے کے لئے متاع کا فقدان ہے۔ کہنے کو تو بہت کچھ کہتے ہیں، بہت کچھ تراش کر تیار کر لیا جاتا لیکن ذہن میں اسے پذیرائی نہیں مل پاتی۔ لیکن اگر قرآن ہو تو کیوں نہیں، اگر قرآن کی بوچھاریں ہوں، پورا قرآن نہیں بس ایک جھونکا ہو قرآن کا اور اسے آج کے دور سے مناسبت رکھنے والے انداز میں لوگوں تک پہنچایا جائے تو دل اپنے آپ اس کی جانب کھنچے چلے آئیں گے۔ ہم خود اس کا تجربہ کر رہے ہیں۔ یہ چیز ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ انسان کو آج قرآن کی شدید احتیاج ہے۔
قرآن آج کی اس دنیا میں بڑا کارساز ہے، یہ بہت سے کام کر سکتا ہے اور امور کو آگے لے جا سکتا ہے۔ طاقتیں، سپر طاقتیں، ایٹم بم اور صیہونی حکومت وغیرہ کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اپنے ایمانی و قرآنی ستونوں کو روز بروز زیادہ مستحکم بنائیں۔ قرآن کو لوگوں تک پہنچانے والی زبان کو ہم سیکھیں اور قرآنی مفاہیم کو دوسروں کے ذہن و دل میں اتاریں۔ بالکل طاقت بخش دوا کی مانند جسے آپ ایک گلاس پانی میں ڈالتے ہیں اور اسے پینے کے لئے کسی کو دیتے ہیں۔ اب اگر آپ نے ایک قطرے کے بجائے اس میں پانچ قطرے ڈال دئے تو ممکن ہے کہ نقصان کر دے اور وہ ہضم نہ کر پائے۔ اس مناسب زبان کو تلاش کرنا ہوگا۔ تاہم ہمیں چاہئے کہ خود کو سیر کریں، اپنے دلوں کو سیر کر لیں، اپنی روح کو سیراب کر لیں اور اسے قرآنی معارف سے معمور کر لیں۔ ہمیں خود بھی اس کی بہت ضرورت ہے۔
قرآن کی برکتیں انھیں چیزوں تک جو میں نے اپنے بیان قاصر میں ذکر کیں محدود نہیں ہیں۔ قرآن کی برکتیں لا متناہی ہیں۔ قرآن میں اور قرآن کے ساتھ وقار وابستہ ہے، قدرت وابستہ ہے، پیشرفت وابستہ ہے، مادی رفاہ وابستہ ہے، روحانی ارتقاء وابستہ ہے، فکر و عقیدے کی ترویج وابستہ ہے، روح کی مسرت و طمانیت وابستہ ہے؛ فَاَنزَلَ اللهُ سَکینَتَهُ عَلی رَسولِهِ وَ عَلَی المُؤمِنینَ وَ اَلزَمَهُم کَلِمَهَ التَّقوی وَ کانوا اَحقَّ بِها وَ اَهلَها (۴) جب دینی آسائش اور طمانیت پیدا ہو جاتی ہے تو تقوا بڑھتا ہے؛ هُوَ الَّذی اَنزَلَ السَّکینَهَ فی قُلوبِ المُؤمِنینَ لِیَزدادوا ایمانًا مَعَ ایمانِهِم، اس سکون و طمانیت سے انسان کے ایمان میں روز بروز اضافہ ہوتا ہے۔ کس ایمان میں؟ اللہ پر ایمان میں، قدرت خداوندی پر ایمان میں اضافہ ہوتا ہے؛ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے:۔ وَ لِلّهِ جُنودُ السَّماواتِ وَ الارض(۵) سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہر چیز لشکر خدا میں شامل ہے۔ ایک جگہ اور ارشاد ہوتا ہے؛ وَ ما یَعلَمُ جُنودُ رَبِّکَ اِلا هُو (۶) اللہ کے سوا کوئی بھی اس کے لشکر کو شمار کرنے پر قادر نہیں ہے۔ یہ ہے قرآن۔ یہ ایک لا زوال اور غیر معمولی طاقت ہے۔ اس سے ہم اپنی توانائی اور صلاحیت کے مطابق استفادہ کریں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ سب کی حفاظت فرمائے، آپ نوجوانوں کو حفظ و امان میں رکھے، اللہ تعالی آپ نوجوانوں کو توفیق دے کہ آپ قرآن کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں، قرآنی زندگی بسر کریں اور قرآنی انسان بن کر اس دنیا سے جائیں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) قاریان محترم؛ حسن دانش، محسن حاجی حسنی کارگر، محمد سعید سعیدی زادہ، امین باوی اور فواد مشعلی
۲) سوره‌ ق؛ آیت نمبر ۳۷ کا ایک حصہ، عبرت کا سبق ہے اس کے لئے جو دل رکھتا ہو یا جو توجہ سے بات سنے۔
۳) سوره‌ اسرا؛ آیت نمبر 9 کا ایک حصہ؛ وہ راستہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور مومنین کو بشارت دیتا ہے۔
۴) سوره‌ فتح، آیت نمبر 26 کا ایک حصہ؛ «پس اللہ نے اپنے رسول اور مومنین پر سکینہ نازل کیا اور تقوا کی آرزو کو ان سے منسلک کر دیا۔»
۵) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۴ کا ایک حصہ « وہی ہے جس نے مومنین کے دلوں پر سکینہ نازل کیا تاکہ ان کے ایمان میں اضافہ کرے او زمین و آسمان کی افواج اللہ کی ہیں۔»
۶) سوره‌ مدّثر، آیت نمبر ۳۱ کا ایک حصہ «تمہارے پروردگار کی فوج کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔»