1395/02/16 ہجری شمسی مطابق 5 مئی 2016 کو ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں صدر اسلام سے لیکر اب تک دو رجحانوں بعثت اور جاہلیت کے جاری رہنے کا حوالہ دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق جاہلیت کے رجحان کی سب سے اہم خصوصیت شہوت و غضب ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آج امت مسلمہ کا سب سے اہم فریضہ امریکا کی سرکردگی والے جاہلیت کے رجحان کا مقابلہ ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران بعثت کے رجحان کے ہراول دستے کے طور پر اس راستے پر جس کا آغاز امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے کیا، بڑی طاقتوں سے بغیر کسی خوف و ہراس کے رواں دواں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امت اسلامیہ اور عظیم الشان ملت ایران کو بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارکباد پیش کی اور قرآنی آیات کی روشنی میں بعثت کے عمیق مفاہیم سے بحث کی۔ آپ نے فرمایا کہ بعثت فطرت الہیہ کی جانب رجوع کرنے، ایک نئی انگڑائی لینے اور معقولیت و حریت و مساوات و بندگی پروردگار سے آراستہ زندگی کی عید ہے اور انبیائے الہی کا مشن انسانوں کو اسی پاکیزہ فطرت، فرامین پروردگار کے دائرے میں رہتے ہوئے فکر و تدبر کرنے اور توحید کی جانب لے جانا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے اپنی تقریر میں بعثت پیغمبر کو تمام دنیا والوں کے لئے رحمت خداوندی کا دن قرار دیا اور کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صرف مسلمانوں نہیں بلکہ پوری بشریت کے لئے مظہر رحمت خداوندی تھے، کیونکہ انھوں نے عوام کو ہدایت کے راستے سے روشناس کرایا۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی‌ محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

آپ تمام حاضرین محترم، خواہران و برادران گرامی، ملک کے محترم حکام، نشست میں تشریف فرما اسلامی ملکوں کے سفیروں، تمام ملت ایران، امت اسلامیہ اور تمام بشریت کو عید بعثت پیغمبر اکرم کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ واقعی آج انسانیت کو اس وقت ماضی کے تمام ادوار سے زیادہ بعثت کا مفہوم اور اور بعثت کی حقیقت کے ادراک کی احتیاج ہے۔
قرآن کریم کی اس آیہ شریفہ میں؛ «لَقَد جآءَکُم رَسولٌ مِن اَنفُسِکُم عِزیزٌ عَلَیهِ ما عَنِتُّم حَریصٌ عَلَیکُم» تمام بشریت سے خطاب کیا گيا ہے۔ البتہ اس کے آخری فقرے میں کہا گیا ہے؛ «بِالمُؤمِنینَ رَءوفٌ رَحیم» (۲)۔ انسانیت کا رنج و الم، انسانوں اور انسانی سماجوں کی زندگی کی مشکلات پیغمبر اسلام کے دل و ذہن پر گراں گزرتی ہیں۔ 'حَریصٌ عَلَیکُم' پیغمبر انسانوں کی ہدایت کے مشتاق اور ان کی خوشبختی کے متمنی ہیں۔ یعنی بعثت تمام انسانوں کے لئے ہے۔ اس کے بعد اسی آیت قرآن میں اللہ نے پیغمبر اکرم کی بڑی پرکشش انداز سے دلداری کی ہے؛ فَاِن تَوَلَّوا فَقُل حَسبِیَ اللهُ لآ اِلهَ اِلّا هُوَ عَلَیهِ تَوَکَّلتُ وَ هُوَ رَبُّ العَرشِ العَظیم (۳) بنی نوع بشر کو مخاطب کرکے انسانیت کی اصلاح کے راستے پر آپ آگے بڑھئے اور خدائے یکتا پر توکل کیجئے، سب کچھ اس کے دست قدرت میں ہے اور سنت الہیہ اس عمل کے لئے مددگار ہے۔ آج ہمیں بعثت کے معنی کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے۔ بشریت اور خاص طور پر امت مسلمہ کے لئے اس کے مفہوم کے ادراک کی شدید احتیاج ہے۔
عید بعثت، بشریت کے آلام کے ازالے کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کی عید ہے۔ اس طرح یہ حقیقی معنی میں ایک بڑی عید ہے۔ پوری تاریخ بشریت میں انسانوں کے سامنے جو بنیادی رنج و آلام رہے ہیں وہی آج بھی گوناگوں شکلوں میں جاری ہیں۔ غیر اللہ کی پرستش، ظلم و ناانصافی کا دور دورہ، عوام کے اندر طبقاتی فاصلہ، کمزور طبقات کی مشکلات اور طاقتور طبقوں کی زیادتیاں، یہی بشریت کے دیرینہ مسائل اور آلام رہے ہیں۔ مستبد طاقتور افراد کے ناپاک عزائم کی وجہ سے یہ مشکلات ہمیشہ انسانی معاشرے پر مسلط ہوتی رہی ہیں۔ بعثت انھیں رنج و آلام کے تصفئے کے لئے ہے۔ در حقیقت یوم بعثت الوہی فطرت کی جانب رجوع کا دن ہے، کیونکہ الوہی فطرت کے مطابق جو بشر کی ذات میں ودیعت کر دی گئی ہے ان تمام آلام، درد و رنج اور انتشار کو مسترد قرار دیا گيا ہے۔ انسان کی الوہی فطرت کا تقاضا ہے حق کی طرفداری، عدل و انصاف کی حمایت، مظلومین کے حق کے لئے کی جانے والی جدوجہد میں تعاون، یہ ہے حقیقی انسانی فطرت۔
امیر المومنین علی علیہ السلام کا انبیائے کرام کی بعثت کے مقصد کی تشریح میں ایک جملہ ہے جو نہج البلاغہ میں ہے اور جس کے بارے میں واقعی گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے، آپ فرماتے ہیں؛ لِیَستَأدُوهُم میثاقَ فِطرَتِه؛ پیغمبر انسانوں کو ذات بشر میں قرار دئے گئے فطری میثاق پر عمل آوری کی ترغیب دلاتے ہیں، انھیں اس میثاق کے نئے سرے سے اعتراف کی دعوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ انسان آزاد رہے، انصاف کے ساتھ زندگی بسر کرے، نیکی بھلائی کے ساتھ زندگی گزارے، غیر اللہ کی پرستش نہ کرے؛ لِیَستَأدُوهُم میثاقَ فِطرَتِهِ وَ یُذَکِّروهُم مَنسِیَّ نِعمَتِه؛ انسانوں کو ان نعمتوں کی جانب متوجہ کریں جنھیں وہ فراموش کر چکا ہے، اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی جانب۔ ہم وجود کی نعمت، صحت و سلامتی کی نعمت، عقل و خرد کی نعمت، اچھے اخلاقیات کی نعمت سے جسے اللہ نے انسان کی ذات میں ودیعت کر رکھا ہے غفلت برتتے ہیں۔ انسان بھول جاتا ہے۔ انبیائے الہی انسانوں کو ان نعمتوں کی یاددہانی کراتے ہیں۔ ہم اپنے وجود کی نعمت، اپنی صحت و سلامتی کی ونعمت، عقل و خرد کی نعمت، انسان کی سرشت میں اللہ تعالی کی جانب سے ودیعت کردہ نیک اخلاقیات کے نعمت سے غافل رہتے ہیں۔ انسان بھول جاتا ہے۔ انبیائے الہی اسے یہ بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلاتے ہیں۔ وَ یُذَکِّروهُم مَنسِیَّ نِعمَتِه وَ یَحتَجّوا عَلَیهِم بِالتَّبلیغ؛ عوام الناس پر حجت تمام کرتے ہیں، حرف حق ان کے گوش گزار کرتے ہیں، حقائق کو ان کے سامنے آشکارا کرتے ہیں، بیان کرتے ہیں۔ بیان اور توضیح انبیائے الہی کا بہت اہم فریضہ ہے۔ انبیاء کے دشمن جہل اور پردہ پوشی کو اپنا حربہ بناتے ہیں۔ نفاق کا پردہ استعمال کرتے ہیں، جبکہ انبیائے الہی جہل و نفاق کے پردے کو چاک کر دیتے ہیں۔ وَ یُثیرُوا لَهُم دَفائِنَ العُقول؛ بشر کے لئے عقل و خرد کا خزانہ باہر نکالتے ہیں۔ انبیاء اس لئے مبعوث کئے گئے کہ انسانوں کو فکر و تدبر کی ترغیب دلائيں، غور و خوض کا عادی بنائیں، سوچنے اور فکر کرنے کا راستہ دکھائیں۔ واقعی یہ کتنا عظیم مقصد ہے۔ یہی انبیاء کی بعثت کے اہداف ہیں۔ آج انسان کو اس چیز کی کیسی شدید ضرورت ہے؟! جب انسانوں کے سامنے عقل و خرد کے خزانے کھول دئے جائیں تب پھر؛ وَ یُرُوهُم ءایاتِ المَقدِرَة (۴) عقلوں کی رہنمائی کا مرحلہ ہے توحید کی منزل کی جانب، آیات الہیہ کی جانب، اب قدرت پروردگار کی نشانیوں کو انسانوں کی آنکھوں کے سامنے رکھنے کا مرحلہ آتا ہے۔ اگر عقل کو ہدایت و رہنمائی نہ ملے، اگر انبیائے الہی کی ہدایت کا سہارا اسے نہ ملے تو وہ حقائق کا پوری درستگی کے ساتھ ادراک نہیں کر سکتی۔ اس کی رہنمائی کی جاتی ہے اور اللہ تعالی نے اس کی ذات میں جو توانائی ودیعت کر دی ہے اس کی مدد سے یہ راستہ طے کیا جاتا ہے اور عالم کون و مکاں کے حقائق سے انسان کو روشناس کرایا جاتا ہے۔ عقلی توانائی اور تعقل کی انسان کے اندر بڑی اہمیت ہے لیکن یہ عمل ہدایت پروردگار اور نصرت خداوندی کے زیر سایہ انجام پانا چاہئے۔ یہی مقصد بعثت ہے۔
بعثت کے مد مقابل محاذ، جاہلیت کا محاذ ہے۔ جاہلیت کو تاریخ کے کسی خاص دور سے مختص نہیں سمجھنا چاہئے۔ ہمیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اس زمانے میں پیغمبر اکرم کو جاہلیت کے دور کا سامنا تھا اور وہ زمانہ اب گزر چکا ہے۔ جاہلیت اسی زمانے سے مختص نہیں تھی، جاہلیت کا سلسلہ جاری ہے، جس طرح بعثت کا دریا پوری روانی سے جاری ہے۔
رگ رگ است این آب شیرین و آب شور
بر خلایق میرود تا نفخ صور (۵)
بشر کے اندر یہ دونوں محاذ موجود ہیں۔ بعثت انبیائے الہی کے مقابلے میں یہ جاہلیت ہے۔ یہاں جاہلیت سے مراد علم کا فقدان نہیں ہے۔ یہ وہ جہل نہیں ہے جو علم کی ضد ہے۔ کبھی کبھی علم بھی جاہلیت کی خدمت کے لئے استعمال ہونے لگتا ہے۔ آج یہی صورت حال ہے۔ آج دنیا میں علم و دانش میں کافی پیشرفت حاصل ہو چکی ہے، لیکن پھر بھی وہ اسی جاہلیت کی خدمت کر رہا ہے جسے مٹانے کیلئے انبیاء کو مبعوث کیا گیا۔ یہاں مراد وہ جاہلیت ہے جو اللہ اور پیغمبروں کے ذریعے ہدایت یافتہ عقل کی ضد ہے۔ اگر انسانی زندگی پر عقل و خرد کی حکمرانی ہو اور وہ بھی ایسی عقل جو انبیائے الہی کے زیر سایہ پروان چڑھی ہے تو زندگی کا سعادت بخش بن جانا یقینی ہے۔ اسی سمت میں جانے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ صورت حال نہیں ہے، انسانی عقل و خرد کی بالادستی نہیں ہے، بلکہ لالچ و غضب کا غلبہ ہے تو نفسا نفسی کا عالم ہو جائے گا اور بشریت بدبختیوں کی بھٹی میں جھلسنے لگے گی۔ یہ چیز ہم پوری تاریخ کے دوران دیکھتے آئے ہیں اور آج بھی اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
جب شہوت و غضب کا انسانی سلوک پر غلبہ ہو گيا تو اس کا نتیجہ آپ نے دو عالمی جنگوں کی شکل میں دیکھا۔ دسیوں لاکھ انسان خاک و خوں میں غلطاں ہو گئے۔ انسانی جان بے وقعت ہوکر رہ گئی، انسان کا وقار ختم ہو گیا۔ انبیاء کے ہاتھوں ہر سطح پر، انفرادی سطح پر بھی، سماج کی سطح پر بھی اور عالمی سطح پر بھی ہدایت یافتہ عقل و خرد کی بالادستی کے مقابل شہوت و غضب کی یہ حکمرانی ہوتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو اگر عالمی طاقتوں کے طرز عمل اور طریقہ کار پر خداداد عقل و خرد کا سایہ ہو تو دنیا کا رنگ کچھ ہوگا اور اگر ان پر نفسا نفسی کی کیفیت طاری ہو، جاہ پسندی کا غلبہ ہو، فتنہ انگیزی بھری ہوئی ہو تو حالات کچھ اور ہوں گے۔ بشریت کی بنیادی مشکلات یہی ہیں۔ بعثت اسی محاذ جاہلیت کے مقابلے کے لئے ہے جو کسی بھی زمانے میں سر ابھار سکتی ہے اور اس کا مقابلہ کرنا تمام انسانوں کا فریضہ ہے۔
قوموں کی تحقیر اور ان کا استحصال، ان کے مالی وسائل کو لوٹنا، قوموں کی افرادی قوت کو ضائع کرنا، یہ سب جاہلیت کی حکمرانی کا نتیجہ ہے۔ جب جاہلیت کا غلبہ ہو جاتا ہے تو عالمی سطح پر بہت سی قومیں استعمار کے پیروں تلے کچل دی جاتی ہیں، ان کے وسائل لوٹ لئے جاتے ہیں، خود ان کی بھی تحقیر کی جاتی ہے، وہ برسوں پیچھے چلی جاتی ہیں۔ استعمار کے چنگل میں پھنس جانے والی قومیں دسیوں سال اور بعض تو صدیوں پچھڑ گئیں۔
نہرو(6) نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ ہندوستان پر انگریزوں کے قابض ہونے سے پہلے یہ ملک اس وقت کے اعتبار سے پیشرفتہ تمدن کا مالک تھا۔ یہاں تک کہ پیشرفتہ صنعت کا مالک بھی تھا۔ انگریز داخل ہوئے اور انھوں نے اس وسیع و عریض ملک کی باگڈور اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسے پیچھے دھکیل دیا تاکہ وہ اپنی ترقی کا راستہ ہموار کر سکیں۔ چھوٹی سی دور افتادہ برطانوی حکومت ہندوستان جیسے عظیم ملک کے وسائل لوٹ کر طاقتور بن گئی، مگر اس ملک کو اس نے تاریکیوں میں دھکیل دیا۔ یہ ہے سامراج، یہ ہے شہوت و غضب کی حکمرانی کا نتیجہ۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد، جیسا کہ بتایا گیا ہے اور ضبط تحریر میں لایا گيا ہے، دسیوں مقامی جنگیں ہوئیں اور ہر جگہ بڑی طاقتوں کا ہاتھ نظر آیا۔ آج بھی آپ دیکھئے، اسی مغربی ایشیا کے علاقے میں دیکھئے کہ کیا حالات ہیں؟ شمالی افریقا میں کیا ہو رہا ہے؟!! یہ جنگیں کس نے شروع کروائی ہیں؟ شر پسند اور بدعنوان افراد کو ہتھیار کس نے فراہم کرایا ہے، کس نے انھیں وسائل مہیا کرائے ہیں، کس نے انھیں ملکوں کو فتنے کی آگ میں دھکیل دینے کی ترغیب دلائی ہے۔ انھیں کس نے ورغلایا کہ وہ ملکوں کا بنیادی ڈھانچہ مسمار کرکے رکھ دیں اور پوری طرح نابود کر دیں؟ شیطان یہی تو کرتا ہے؛ وَ کَذٰلِکَ جَعَلنا لِکُلِ‌ّ نَبِیٍ‌ّ عَدُوًّا شیٰطینَ الاِنسِ وَ الجِنِ‌ّ یُوحی بَعضُهُم اِلی‌ بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرورًا (۷) یہ صورت حال ہے۔ شیطان آپس میں تعاون کرتے ہیں، ایک سسٹم کی تشکیل کرتے ہیں اور جب دنیا کے امور پر ان کا تسلط قائم ہو جاتا ہے تو پھر بشریت کی یہ حالت ہوتی جو آپ آج دیکھ رہے ہیں۔
سچے مومنین اور اسلامی جمہوریہ سے صیہونزم کی دشمنی انھیں چیزوں کی بنا پر ہے۔ ورنہ کسی سے ہمارا کوئی پشتینی جھگڑا نہیں ہے۔ جب صیہونی حکومت اور صیہونی سرمایہ داروں کا وسیع نیٹ ورک حکومتوں پر اپنے پنجے گاڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت جیسی حکومتیں اس کی مٹھی میں آ جاتی ہیں اور یہ حالت ہو جاتی ہے کہ کسی بھی رہنما کا آگے بڑھنا، کسی بھی پارٹی کا اقتدار میں پہنچنا ان کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے تو دنیا کا وہی انجام ہوتا ہے جو آج آپ کے سامنے ہے۔ انھیں چیزوں کی وجہ سے جب دنیا میں ملت اسلامیہ اور ملت ایران کی تحریک شروع ہوتی اور اسلامی بیداری کی لہر اٹھتی ہے تو وہ اسلام کو بدنام کرنا شروع کر دیتے ہیں، ایران کی شبیہ مسخ کرنے میں لگ جاتے ہیں، شیعوں کو بدنام کرتے ہیں۔
آج امریکی حکومت اور اس کی ہمنوا حکومتوں کی طے شدہ پالیسی ہے اسلام دشمنی، ایران دشمنی اور شیعہ دشمنی۔ وہ اسی نہج پر کام کر رہی ہیں۔ یہ ان کی مسلمہ پالیسی ہے۔ اگر قومیں غفلت کا شکار ہوں تو یہ طاقتیں آگے بڑھتی رہتی ہیں اور جیسے ہی قومیں انگڑائی لیتی ہیں ان طاقتوں کے منصوبے درہم برہم ہونے لگتے ہیں، لہذا وہ چراغ پا ہو جاتی ہیں۔ چیخ پکار مچا دیتی ہیں کہ مغربی ایشیا کے علاقے میں آپ کا وجود کیوں ہے؟ آپ ہمیں ہمارا کام کیوں نہیں کرنے دیتے؟ کل یا پرسوں کی بات ہے؛ امریکی ترجمانوں نے اعلان کیا کہ مغربی ایشیا کے علاقے میں جسے وہ مشرق وسطی کہتے ہیں، امریکا کی پالیسیوں کی ایران کی جانب سے مخالفت کے باعث ہم ایران پر پابندیاں لگائیں گے یا ایران کا مقابلہ کریں گے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ایرانی عوام! آپ حالانکہ آگاہ ہو چکے ہیں، بصیرت حاصل کر چکے ہیں، علاقے میں رونما ہونے والے تغیرات کی گہرائیوں کو سمجھ چکے ہیں، مگر پھر بھی آپ پیچھے ہٹ جائیے اور ہمیں اپنا کام کرنے دیجئے، ہم جو چاہیں گے کریں گے، یعنی ہماری شیطنت جاری رہے گی۔ یہ تو جاہلیت والی صورت حال ہے اور آج یہ جاہلیت موجود ہے۔
جب جاہلیت پھیل جاتی ہے، جب شیطانی قوتوں کا غلبہ ہو جاتا ہے تو پھر سرکشی شروع ہو جاتی ہے۔ یہی طاغوت ہے۔ اَلَّذینَ ءَامَنُوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللهِ وَ الَّذینَ کَفَروا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الطّاغُوت (۸) یہ ایک معیار ہے۔ طاغوت کو تقویت پہنچانے کے لئے کسی کی بھی طرف سے اٹھایا جانے والا قدم طاغوتی محاذ سے مربوط مانا جائے گا۔ طاغوتی قوتوں کا کام ہے، فساد پھیلانا اور تباہی مچانا۔ وَ اِذا تَوَلّی‌ٰ سَعی‌ٰ فِی الاَرضِ لِیُفسِدَ فیها وَ یُهلِکَ الحَرثَ وَالنَّسلَ وَ اللهُ لا یُحِبُّ الفَسادَ (۹) اللہ تعالی انسانیت کی فلاح و بہبود چاہتا ہے اور طاغوت انسانیت کی تباہی کا خواہاں ہوتا ہے۔ ایک دو شہروں میں بم مار کر لاکھوں انسانوں کو تلف کر دیتا ہے، صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے اور برسوں بعد بھی معافی مانگنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ آپ ہیروشیما کے المئے کے لئے معافی مانگئے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ نہیں، معافی نہیں مانگوں گا۔ معذرت کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں۔ افغانستان، عراق اور علاقے کے دوسرے ملکوں کا بنیادی ڈھانچہ تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں، کبھی خود یہ کام کرتے ہیں، کبھی اپنے آلہ کاروں کے ذریعے کرواتے ہیں اور کسی بھی غلطی کا ذرہ برابر اعتراف کئے بغیر اپنی یہی روش مسلسل جاری رکھتے ہیں۔ اس کی حقیقت یہی ہے؛ اِذا تَوَلّی‌ٰ سَعی‌ٰ فِی الاَرضِ لِیُفسِدَ فیها وَ یُهلِکَ الحَرثَ وَالنَّسل. یہ جاہلیت کا محاذ ہے، یہ جاہلیت کا رجحان ہے۔ ماہیت و جوہر کے اعتبار سے آج کی جاہلیت بھی وہی پیغمبر اسلام کے زمانے کی جاہلیت ہے۔ البتہ دور حاضر کی جاہلیت کے پاس نئے وسائل، نئی شکل اور نئی تدابیر ہیں۔ یہ صورت حال تمام مسلمانوں اور پوری امت مسلمہ کے دوش پر کچھ ذمہ داریاں عائد کرتی ہے۔ مقابلہ آرائی اور جدوجہد کا فریضہ عائد کرتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے کبھی کسی جنگ کا آغاز نہیں کیا اور کسی بھی ملک کے خلاف کبھی لشکرکشی نہیں کی، لیکن ہمیشہ اپنا موقف اور اپنا نعرہ بلند آواز کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ہمارے عظیم قائد (امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے امریکی اسلام اور رجعت پسند اسلام کو ایک ہی صف میں قرار دیا ہے، یہ دونوں ہی خالص اسلام سے متصادم ہیں۔ وہ خالص اسلام سے ہراساں ہیں۔ اسلامی ملکوں میں یہ مفسد تنظیمیں فتنہ انگیزی کر رہی ہیں، اسلام کو بدنام کر رہی ہیں، اسلام کا نام لیکر ایک شخص کا جگر اس کے سینے سے باہر نکالتے ہیں اور لوگوں کے سامنے، کیمروں کو سامنے دانتوں سے اسے چبا جاتے ہیں، اسلام کے نام پر انسانوں کو کیمروں کے سامنے، اربوں انسانوں کے سامنے زندہ جلا ڈالتے ہیں۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی انھیں مغربی حکومتوں کی پراسرار حمایت و پشت پناہی حاصل رہتی ہے۔ کہنے کو تو وہ داعش مخالف اتحاد بھی تشکیل دیتے ہیں، لیکن پختہ اطلاعات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فوجی اتحاد نمائشی ہے، اس کے حملے حقیقی نہیں ہیں، صرف ظاہری اور نمائشی ہیں۔ جب میڈیا میں ان فتنہ انگیز گروہوں کے خلاف کوئی بیان دیتے ہیں تو ان کے لئے 'اسلامک اسٹیٹ' کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ یعنی جو لوگ عوام سے وحشیانہ برتاؤ کر رہے ہیں، بچوں کو تباہ کر رہے ہیں، کمسن بچوں کو فریب دیتے ہیں، ان سے خود کش حملے کرواتے ہیں، ان کے لئے 'اسلامک اسٹیٹ' کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں اسلام دشمنی۔
آج ہم مسلمانوں کا فریضہ ہے آگاہی حاصل کرنا اور دنیا کو حقائق سے روشناس کرانا۔ بعثت کا مطلب ہے انسان کی نجات اور بشر کی سعادت و کامرانی کے لئے برانگیختہ ہونا۔ بعثت کا مطلب ہے انسانی معاشرے کے اندر نیکی و بھلائی پر استوار نظام کی تشکیل۔ یہ ہے بعثت کا مفہوم۔ بعثت یعنی پوری بشریت کی خیر خواہی، ہم تمام افراد بشر کے خیر خواہ ہیں۔ یہاں تک کہ ان طاغوتی حکومتوں کے مفسد سربراہوں کے لئے بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کی ہدایت فرمائے۔ ان کی رہنمائی کرے، یا انھیں غلط راستے پر آگے بڑھنے سے روک دے، یا ان کی عمر مختصر کر دے کہ اس سے زیادہ فساد نہ پھیلائیں، اس سے زیادہ غضب الہی کا باعث نہ بنیں۔ یہ بھی واقعی دعائے خیر ہے۔ اسلام تمام بشریت کا خیر خواہ ہے، پیغمبر تمام انسانیت کی سعادت و کامرانی چاہتے ہیں۔
اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے ساتھ جو نئی مہم شروع ہوئی ہے اور جسے دشمن اپنی لاکھ کوششوں کے باوجود ختم نہیں کر سکے بلکہ روز بروز اس کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے، اس کی جڑیں زیادہ گہری ہوتی جا رہی ہیں، یہ مہم یقینی طور پر اپنی منزل مقصود تک پہنچے گی اور دشمنوں کا عناد اس عظیم رجحان کو مٹا نہیں پائے گا۔
یہاں ہمیں قرآن کریم کے اس حکم اور اس آیہ شریفہ کی سفارش پر عمل کرنا ہوگا جس کی تلاوت کی گئی؛ فَقُل حَسبِیَ الله؛ یعنی جب دیکھو کہ تمہاری مخالفت ہو رہی ہے، اگر دیکھو کے لوگ روگردانی کر رہے ہیں، اگر دیکھو کہ ہر طرف سے گوناگوں حربوں کے ساتھ مخالفین نے تمہارا محاصرہ کر لیا ہے تو کہو؛ فَقُل حَسبِیَ اللهُ لآ اِلهَ اِلّا هُوَ عَلَیهِ تَوَکَّلتُ وَ هُوَ رَبُّ العَرشِ العَظیم. یہ ہمارے عظیم قائد (امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا جذبہ توکل تھا جس نے ہمیں راستہ دکھایا اور ہمیں اس منزل تک پہنچایا۔ ملت ایران ان شاء اللہ اسی توکل کے ساتھ اپنے راستے پر رواں دواں رہے گی اور امت اسلامیہ اسلامی بیداری کی مدد سے ان حقائق کو روز بروز اور زیادہ عملی شکل دیتی جائے گی۔
اسلام کی فتح اور مسلمانوں کی کامیابی یقینی ہے۔ تاہم اس بيچ ہمارے کچھ فرائض ہیں، تمام افراد کی کچھ ذمہ داریاں ہیں، جماعتوں کی بھی ذمہ داریاں ہیں، ملکوں کے سیاسی رہنماؤں کی بھی ذمہ داریاں ہیں، اسلامی حکومتوں کے سربراہوں کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔ اگر سب نے اپنے اپنے فریضے پر عمل کیا تو اللہ تعالی کی بارگاہ میں اجر پائیں گے اور اگر عمل نہ کیا تو؛ «فَسَوفَ یَأتِی اللهُ بِقَومٍ یُحِبُّهُم وَ یُحِبُّونَه» (10) اللہ کا کام رکنے والا نہیں ہے۔ یہ سفر جاری رہے گا۔ ہماری دعا ہے کہ ہم ان لوگوں میں شمار ہوں جو اس فریضے سے کبھی بھی کترانے کی کوشش نہیں کرتے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی نے تقریر کی۔
۲) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۱۲۸«یقینا تمہارے لئے خود تم میں سے پیغمبر آیا اس کے لئے یہ بہت شاق ہے کہ تم مصیبتوں میں گرفتار ہو جاؤ، تمہاری ہدایت کا مشتاق ہے اور مومنین کے لئے ہمدرد و مہربان ہے۔»
۳) سوره‌ توبه، آیت نمبر‌ ۱۲۹؛ «پس اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو؛ میرے لئے اللہ کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے اس پر توکل کیا اور وہ عرش عظیم کا پروردگار ہے۔»
۴) نهج ‌البلاغه، خطبه‌ ۱
۵) مولانا، مثنوی معنوی؛ دفتر اوّل‌
۶) آزادی کے بعد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواهر لعل نِهرو
۷) سوره‌ انعام، آیت نمبر ۱۱۲ کا ایک حصہ؛ « اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ شیطان انسانوں اور شیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آیند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے رہے ہیں.»
۸) سوره‌ نساء، آیت نمبر۷۶ کا ایک حصہ «جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جو لوگ کافر ہو گئے وہ طاغوت کی راہ می لڑتے ہیں۔»
۹) سوره‌ بقره، آیت ۲۰۵؛ «اور جب وہ پلٹتا ہے (یا کوئی سربراہی پا جاتا ہے) تو زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے، کھیتیوں اور نسلوں کو نابود کرتا ہے اور اللہ تعالی تباہ کاری کو پسند نہیں کرتا۔»
10) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۵۴ کا ایک حصہ « بہت جلد اللہ تعالی دوسرے گروہ کو لے آئے گا جنھیں وہ دوست رکھتا ہو اور وہ اسے دوست رکھتے ہوں۔»