شعرا و ادبا سے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے شعرا کی صنف کو ملک کا گراں قدر سرمایہ قرار دیا اور ملک کے بنیادی مسائل اور احتیاجات کے بارے میں بیدار رہنے اور بروقت موقف اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ آج اس وقت نرم جنگ، سیاسی و ثقافتی تصادم کی شکل میں ایک نئی جنگ جاری ہے اور اس مقابلہ آرائی میں صنف شعر کو ایک موثر ذریعے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ترانے کو شاعری کی بہت موثر قسم قرار دیا اور فرمایا کہ ترانے کی تیز رفتار ہمہ گیری شعر کی دیگر اصناف سے زیادہ ہے اور ترانہ بہار کی تازہ ہوا کی مانند معاشرے کے اندر اتر جاتا ہے، بنابریں اچھے ترانے موزوں کرکے اور ان کی مناسب ترویج کے ذریعے اس میدان میں موجود خلا کو پر کرنے کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ شعر کا زندہ اور ملک کے معروضی حالات اور احتیاجات کے بارے میں موقف کا حامل ہونا ضروری ہے۔
اس ملاقات کے آغاز میں 23 شعرا نے رہبر انقلاب اسلامی کی موجودگی میں اپنے اشعار پیش کئے۔ شعرا نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی امامت میں نماز مغرب و عشا ادا کی اور آپ کے ساتھ روزہ افطار کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

اس حقیر کے لئے یہ نشست بڑی شیریں اور خوش آئند تھی، ان نشستوں کی مانند جو برسوں سے نیمہ رمضان کے موقع پر منعقد ہوتی ہیں، یہ بھی جلسہ انس، جلسہ ادب، جلسہ صفا اور پیشرفت و ارتقاء کے مشاہدے کا جلسہ ہے۔ نوجوانوں کے آج کے اشعار کا جب میں دس سال قبل اور پندرہ سال قبل کے اشعار سے موازنہ کرتا ہوں تو اس ارتقا اور پیشرفت کو دیکھ کر دل سے کلمہ شکر نکلتا ہے اور حوصلہ ملتا ہے۔ بحمد اللہ ہمارے نوجوانوں نے بڑی اچھی پیشرفت حاصل کی ہے۔ بہت اگے گئے ہیں۔ شعرا کی تعداد بھی زیادہ ہوئی ہے اور اشعار کا معیار بھی اچھا ہوا ہے۔ بحمد اللہ ملک میں شعری کارواں ارتقائی عمل طے کر رہا ہے۔ البتہ ہماری تمنا اس سے زیادہ پیشرفت دیکھنے کی ہے۔ شعری میدان میں کچھ کمیاں بھی دیکھنے میں آتی ہیں۔ ایسی فرزانہ، دانشمند، اہل ذوق و صاحب فن شخصیات کی محفل میں دل تو چاہتا ہے کہ بہت کچھ بیان کیا جائے، بہت سی باتیں کرنے کا دل چاہتا ہے، لیکن نہ تو اتنا وقت ہے اور نہ ایسی حالت ہے۔ آپ دو گھنٹے یا اس سے زیادہ دیر سے سماعت فرما رہے ہیں، اب اگر ہم اس بوجھ میں اور بھی اضافہ کر دیں تو مناسب نہیں ہوگا، لیکن بہرحال کہنے کو بہت کچھ ہے۔

حرفهای نگفته ‌ام به دل است‌
غزل ناسروده را مانم‌

یہاں عزیز دوست اور گراں قدر شاعر جناب حمید سبزواری مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہوں گا، وہ برسوں سے دائمی طور پر ہماری اس محفل کی زینت بڑھاتے رہے ہیں۔ اس موقع کی تقریبا ساری محافل میں ہم ان کے وجود سے بہرہ مند ہوئے۔ اگر میں حمید سبزواری مرحوم کو یاد کرتا ہوں تو یہ صرف ایک دوست کو یاد کرنا اور شاعر کو یاد کرنا نہیں ہے، بلکہ حمید کو، حمید کی شخصیت اور حمید کی شعری زندگی کو یاد کرنے سے خاص سبق ملتا ہے، مخصوص مفاہیم ذہن میں منتقل ہوتے ہیں۔ جب تک یہ عزیز ہستیاں بقید حیات رہتی ہیں، ان کی شاعری کا بحیثیت مجموعی جائزہ نہیں لیا جاتا، بنابریں اگر کوئی چاہے کہ اس کی شاعری کا بحیثیت مجموعی جائزہ لیا جائے تو اس کا راستہ یہی ہے (2)۔ جب تک وہ ہمارے درمیان ہوتے ہیں کسی کو ان کی شعری زندگی کا جائزہ لینے کی فرصت نہیں ملتی۔ مگر جب ان میں سے کوئی ہمارے درمیان سے چلا جاتا ہے تو پھر انسان فکر میں ڈوب جاتا ہے، جائزہ لیتا ہے، نظر دوڑاتا ہے۔ حمید مرحوم کے سلسلے میں پہلی بات تو یہی ہے کہ ان کا شاعری کا انداز بہت اچھا تھا۔ حقیقی معنی میں وہ شاعر تھے، یعنی ذات اور ماہیت کے اعتبار سے وہ شاعر تھے، تصنع کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ انھیں شعر کی گوناگوں اصناف پر مکمل عبور حاصل تھا۔ الفاظ کی دنیا پر اچھا تسلط رکھتے تھے۔ الفاظ کا بہت بڑا خزانہ رکھتے تھے۔ اشعار میں تنوع بہت ہوتا تھا۔ ایک اہم چیز یہ تھی کہ ہمیشہ معروضی حالات کو پیش نظر رکھ کر شاعری کرتے تھے۔ یعنی جب سے میں ان سے واقف ہوا، یہ اوائل انقلاب کی بات ہے، انقلاب کے شروعاتی مہینوں میں جناب حمید صاحب سے میری واقفیت ہو گئی تھی اور ان سے شعری و ادبی رشتہ قائم ہو گیا تھا، اس زمانے کی عجیب و غریب مصروفیات اور مسائل کے بیچ وہ کسی دریچے کی مانند اس حقیر کو تازہ ہوا کے جھونکے کا احساس کرا دیا کرتے تھے اور میرے لئے یہ مواقع بڑی غنیمت ہوا کرتے تھے۔ اسی وقت سے یہ شخص ہمیشہ حالات حاضرہ کی پوری خبر رکھتا تھا اور ان کے اشعار میں تازہ تغیرات و حالات کا انعکاس صاف دیکھا جا سکتا تھا۔
میری نظر میں مرحوم حمید سبزواری کی عدیم المثال خصوصیت ان کے ترانے ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے بھی اور معیار و مندرجات کے اعتبار سے بھی۔ آج ہمارے یہاں یہ خلا موجود ہے۔ آج بھی ہمیں ترانوں کی ضرورت ہے۔ ترانہ ایک احتیاج ہے۔ میں اپنی گفتگو کے آخر میں چاہتا تھا کہ ترانے کے تعلق سے ایک بات عرض کروں جو میں نوٹ کرکے لایا تھا لیکن اب جب ترانے کا ذکر آ ہی گیا تو یہ نکتہ بھی عرض کرتا چلوں۔ میری نظر میں ترانہ شاعری کی بڑی اہم اور اثرانگیز صنف ہے اور یہ بہت تیزی سے اپنا اثر دکھاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر حالات حاضرہ کے بارے میں ہمارے پاس کوئی ترانہ ہو جسے ہمارے نوجوان کیمپنگ کے وقت پڑھیں، جیسے کوہ پیمائی کرنے والے نوجوان جو اجتماعی طور پر جاتے ہیں، اگر وہ یہی ترانہ پڑھیں، جو اجتماعات ہوتے ہیں ان میں اس ترانے کو پڑھا جائے، یا کچھ نوجوان گیارہ فروری کے جلوسوں میں اسی ترانے کو پڑھیں تو یہ بڑی اچھی چیز ہوگی۔ یہ معارف و تعلیمات کی ترویج میں مددگار ہے اور ہمیں معارف کی ترویج کی سخت ضرورت ہے۔ ترانے سے یہ کام انجام پاتا ہے اور اس کا اثر بھی بڑی سرعت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس سے ماحول اور کلچر بنتا ہے، ترانے کی ایک خصوصیت یہی ہے کہ اس سے ثقافت سازی ہوتی ہے، یہ کسی خاص طبقے اور صنف تک محدود نہیں رہتا بلکہ بلند ترین علمی سطح سے لیکر عوام الناس کی سطح تک ہر جگہ بڑی تیزی سے پھیل جاتا ہے۔ یہ چیز ہم نے مرحوم حمید کے ترانوں میں دیکھی ہے۔
اللہ مغفرت فرمائے شہید مجید حداد عادل کی جو ہمارے ڈاکٹر حداد عادل صاحب کے بھائی تھے، انیس سو اسی کے عشرے کے اوائل میں انھوں نے مجھ سے کہا کہ جب 1980 میں سنندج کا علاقہ انقلاب دشمن عناصر کے قبضے سے آزاد ہوا، ظاہر ہے اس علاقے پر انقلاب مخالف عناصر کا قبضہ ہو گیا تھا، انھوں نے اپنا تسلط قائم کر لیا تھا اور ہماری فورسز صرف چھاونیوں تک محدود ہوکر رہ گئی تھیں۔ جب یہ علاقہ آزاد ہوا تو عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ آزاد ہونے سے پہلے سنندج کی سڑکیں محاصرے میں تھیں، بہت مخدوش ہو گئی تھیں، فائرنگ کی آوازیں ہمیشہ سنائی دیتی تھیں۔ جب انقلاب دشمن عناصر کو وہاں سے باہر نکالا گیا تو سنندج ایک عام شہر بن گيا۔ سنندج بڑا خوبصورت شہر ہے۔ جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ بڑا پرکشش اور جاذب نظر شہر ہے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے دیکھا کہ پھلوں کے جوس بیچنے والا ایک شخص سڑک کے کنارے چٹائی بچھائے جوس نکال رہا تھا اور فروخت کر رہا تھا۔ نوجوان آتے تھے، صف میں کھڑے ہو جاتے تھے، جس کی باری ہوتی تھی وہ شخص جوس نکال کر اسے دے دیتا تھا۔ وہ مشین میں گاجر ڈالتا تھا اور ہاتھ سے اسے چلاتا تھا تو ساتھ ہی یہ ترانہ بھی پڑھتا جاتا تھا؛

«این بانگ آزادی است کز خاوران خیزد»
یہ ترانہ حمید نے کہا تھا۔ شاید ایک مہینہ دو مہینہ یا اس سے کچھ کم وقت گزرا تھا اس ترانے کو کہے ہوئے اور اتنی سی مدت میں یہ ترانہ سنندج شہر میں ایک جوس بیچنے والے شخص کی زبان سے سنا گیا۔ کسی نے اس سے یہ ترانہ پڑھنے کے لئے نہیں کہا تھا۔ جناب فیض صاحب (3) کے بقول اسلامی نظام کا طرفدار (4) بھی نہیں تھا کہ اسے تلقین کی گئی ہو کہ یہ ترانہ پڑھو۔ نہیں، وہ یونہی خود بخود یہ اشعار پڑھ رہا تھا۔ یہ ہے ترانے کی خاصیت۔ ترانہ تازہ ہوا کی مانند، باد بہاری کی طرح گہرائی تک اتر جاتا ہے۔ اس کی ترویج کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس پر تقریظ لکھوانے کی ضرورت نہیں پڑتی، اس کے بارے میں اشعار کہلوانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ترانہ اگر موزوں ہو گیا ہے تو اپنا اثر ضرور ڈالتا ہے۔ آج ہمارے پاس اس کی کمی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آج ہمیں اس کی ضرورت ہے اور مرحوم حمید سبزواری رضوان اللہ علیہ اس میدان میں مثالیہ تھے۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے، جو اعداد و شمار مجھے دئے گئے ان کے مطابق تقریبا انھوں نے چار سو یا اس سے بھی زیادہ ترانے کہے۔ ان چیزوں کی بڑی قدر و قیمت ہوتی ہے۔ انھیں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔
یہ جو میں نے ان اشعار کا ذکر کر دیا کہ جو جناب سیار صاحب اور جناب عرفان پور صاحب نے مشترکہ طور پر کہے تھے (5)، میں نے عرض کیا کہ یہ اشعار میں نے سنے تھے، وہ یہی اشعار تھے جن پر انقلاب مخالف غیر ملکی چینلوں نے رد عمل دکھایا اور اس کی بڑی مذمت کی۔ انھیں اس کام کی اہمیت کا فوری طور پر احساس ہو گیا۔ مجھے جہاں تک یاد ہے کہ فاکس نیوز کے بارے میں رپورٹ دی گئی تھی کہ اس نے بہت برا بھلا کہا تھا۔ ان اشعار کی مدد سے جو بڑا اچھا گیت تیار کیا گیا تھا جس کے مشمولات بہت اچھے تھے، اس سے وہ بہت برہم ہوئے تھے، بہت ناراض ہوئے تھے۔ لیکن خود ہمیں اس کی کوئی خبر نہیں۔ یعنی ہم نے ترویج کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اچھے ترانے کی ہم نے ترویج نہیں کی۔ میری نظر میں ترانے کہنا بہت اچھا ہے۔ پھر اسے خوش اسلوبی سے گانا بہت اچھا ہے۔ البتہ الفاظ اور ترکیبوں کے بارے میں میری کچھ سفارشات ہیں جو بعد میں عرض کروں گا۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے عزیز شاعر حمید پر۔ اللہ کی مغفرت ان کے شامل حال ہو۔ جس کا ذکر ہوا وہ ان کی عظیم خدمات کا چھوٹا سا حصہ تھا، ان شاء اللہ یہ ان کے لئے زاد آخرت قرار پائے گا۔
میرے عزیزو! شاعر ملک کا سرمایہ ہے۔ ملک کا افتخار آمیز اور حد درجہ پسندیدہ سرمایہ شاعر ہے۔ یوں تو سارے ہی فنکار سرمایہ ہیں، لیکن شاعر کی منفرد خصوصیت ہے، اسی طرح شعر و شاعری کی فن و ہنر کی گوناگوں قسموں میں ایک الگ اہمیت ہے۔ ان خصوصیات کی وجہ سے سماج میں شاعر کا مقام بلند ہوتا ہے۔ یہ سرمایہ اور ذخیرہ ہے۔ یہ سرمایہ مشکل مواقع پر ملک کے کام آنا چاہئے۔ یہ بالکل واضح اور فطری سی بات ہے۔ جب بھی ملک کو ثقافتی میدان میں، سیاسی میدان میں، سماجی میدان میں، عوامی رابطوں کے میدان میں، سماجی رشتوں کے میدان میں یا غیر ملکی دشمن سے مقابلہ آرائی کے میدان میں، مدد کی ضرورت پڑے، تو یہ سرمایہ اور یہ پونجی بھی، قومی ترقیاتی فنڈ کی مانند جہاں ہم تیل کی آمدنی کا ایک حصہ رکھتے ہیں کہ ضرورت کے وقت اسے استعمال کریں گے، ملک کے کام آنا چاہئے۔ لہذا اگر ہمارے پاس ایسے اشعار ہوں جن میں ملک کو درپیش مسائل کے بارے میں کوئی موقف نہیں ہے، تو وہ ملک کے کام نہیں آئیں گے۔ ان میں موقف ہونا چاہئے۔
آپ جانتے ہیں کہ میں نے اسی نشست میں بارہا عرض کیا ہے کہ میں اس کا طرفدار نہیں کہ آپ جو بھی شعر کہیں اس میں موقف ضرور ہو یا سیاسی فرض شناسی کی عکاسی ضرور کی جائے، ایسا نہیں ہے، غزل کے اشعار اور عاشقانہ اشعار موزوں کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بھی شاعر کے طبعی و فطری میلان کا جز ہے۔ وہ غزل کے اشعار کہے، کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اسی تغزل میں بھی، اسی عشقیہ شاعری میں بھی ہدایت کی رمق ہونا چاہئے، انحراف و فساد کی رمق نہیں ہونا چاہئے۔ میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ اگر آپ نے کوئی غزل کہی ہے تو سراپا سیاسی مسائل کا آئینہ بن جائے۔ نہیں، آپ اس طرح کر سکتے ہیں کہ دو تین اشعار میں آپ نے عشق و محبت کے اور جذباتی میلان کے مضامین باندھے، پھر نشتر کا کام کرنے والے دو شعر بھی شامل کر لیجئے۔ ہمارے اچھے شعرا نے ہمیشہ اسی نہج پر اشعار کہے ہیں۔ غزل کہی ہے تو اس میں کسی حساس مسئلے اور نکتے کو بھی ایک دو اشعار میں باندھ دیا ہے۔ شاعر کے اشعار، زندہ اشعار ہونے چاہئے۔
ایک اور مسئلہ ان اشعار کا ہے جو ملک کے معروضی مسائل کے بارے میں کہے جاتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے اس دور میں ایسے شعرا کی تعداد کم نہیں ہے جن سے ہم جاریہ مسائل کے بارے میں موقف کے حامل اشعار سنتے ہیں۔ دس پندرہ سال قبل کی نسبت آج ہم اس پہلو سے کافی آگے اور بہتر حالت میں ہیں۔ لیکن ان کی ترویج نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر شہید غوطہ خوروں کے بارے میں یا حرم اہل بیت کا دفاع کرنے والوں کے بارے میں کچھ اشعار کہے گئے، جیسے یہی اشعار جو جناب (6) نے حرم اہل بیت کے محافظین کے بارے میں سنائے، یہ بہت اچھے اشعار ہیں۔ ان کی بڑی نمایاں حیثیت ہے، ان کی ترویج کیوں نہیں ہوتی؟ میرا سوال یہ ہے کہ ان کی ترویج و تشہیر کا کیا طریقہ ہے؟ یا مثال کے طور پر شیخ زکزاکی (7) کے بارے میں اشعار لکھے گئے۔ شیخ زکزاکی اپنے راستے اور مہم کے تعلق سے پرعزم، شجاع اور مظلوم انسان ہیں جنھیں حملے کا نشانہ بنایا گيا، ان سے انتقام لیا گیا۔ اب مثال کے طور پر اگر ہم اس نظم کا ترجمہ کریں اور اسے کچھ اداروں کو ارسال کریں جہاں ان کی شہرت ہے تو پھر دیکھئے کہ اس کا اثر کتنا بڑھ جاتا ہے۔ لوگوں کو کتنا حوصلہ ملے گا؟! ہم یہ کام نہیں کرتے۔ اس میدان میں واقعی ہم سے کوتاہی ہو جاتی ہے۔ یا فلسطین کے مسئلے میں، یمن کے مسئلے میں، بحرین وغیرہ کے معاملات میں یا امریکا کی خیانتوں کے مسئلے میں؛ امریکیوں نے جامع مشترکہ ایکشن پلان کے معاملے میں کم خیانتیں نہیں کی ہیں۔ انھیں بیان کرنا چاہئے۔ یہ صرف سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہی بیان کرتے رہیں، سیاسی رہنماؤں سے زیادہ بہتر ہے فنکار ان حقائق کو بیان کریں۔ فنون میں سب سے آسان، پررونق، تیز رفتار اور جو دسترسی میں بھی ہے شعر ہے۔ یہ مضامین بیان کئے جانے چاہئے، ان حقائق کو منعکس کیا جانا چاہئے، رائے عامہ تک منتقل کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح مقدس دفاع کے موضوع پر۔ میں اپنے ان برادران عزیز کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنھوں نے ہماری اس شب کی نشست میں بحمد اللہ ان موضوعات سے متعلق اشعار پیش کئے۔ بڑا اچھا اقدام ہے، یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے، اس میں وسعت آنی چاہئے، اس کی ترویج ہونا چاہئے۔ میں دیکھتا ہوں کہ بعض جگہوں پر اس کے برخلاف عمل ہوتا ہے۔
کسی ایسے فنکار کو بڑھ چڑھ کر خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے جس نے ان اڑتیس برسوں میں کبھی بھی اسلامی انقلاب یا اسلام سے متعلق مفاہیم و مضامین کی جانب ذرہ برابر رجحان و میلان ظاہر نہیں کیا۔ جبکہ اس فنکار کی کوئی قدردانی نہیں کی جاتی جس نے اپنی پوری عمر اسی راہ میں بسر کی، اس کی جانب کوئی اعتنا نہیں کیا جاتا۔ یہ بہت غلط طریقہ ہے۔ ہمارے عہدیداران کو چاہئے کہ اس مسئلے کی جانب توجہ دیں۔ تو ہمارا موقف یہ ہے کہ ہم اپنی شاعری کو، اپنے اشعار کو زندہ اور گرمی حیات سے سرشار بنائیں، موقف کا حامل بنائیں اور پھر ان اشعار کی ترویج کریں، متعلقہ لوگ ترویج کریں۔ قومی نشریاتی ادارہ اس کی ترویج کرے۔ سرکاری و غیر سرکاری ادارے ترویج کریں۔
خوشی کا مقام ہے کہ جو افراد مصروف کار ہیں، واقعی بحسن و خوبی اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں، لیکن ان کا دائرہ کار اور ان کے وسائل محدود ہیں، وسائل کو وسعت دینا چاہئے تاکہ وہ آسانی سے کام کر سکیں۔ اس میدان میں بھی جس کا میں نے ذکر کیا اور شعرا کی تربیت کے میدان میں بھی کام کریں، خوش قسمتی سے اس میدان میں بھی کچھ کام ہو رہے ہیں۔
شاعری کی کچھ صنفیں ایسی ہیں جو عوام کے درمیان بہت زیادہ رائج ہیں، جیسے نوحہ، مرثیہ وغیرہ۔ نوحے کا اثر بہت زیادہ ہے۔ اس کے اندر گہری تاثیر ہے۔ البتہ اگر اس نوحے کے اندر اچھے مضمون کو سمویا گیا ہو۔ آپ دیکھئے کہ عاشور کے دن، اسی طرح عزاداری کی دیگر مناسبتوں پر کروڑوں لوگ جن میں اکثر و بیشتر نوجوان ہوتے ہیں، نوحہ خواں کے اشعار سنتے ہیں۔ نوحے کے اشعار اور پیش کرنے کے انداز سے ان کے اندر ہیجان برپا ہو جاتا ہے۔ سینہ زنی کرتے ہیں، گریہ کرتے ہیں، دینی امور کے تعلق سے ان کے جذبات و احساسات کی حرارت بڑھتی ہے۔ یہ بڑا اچھا موقع ہے۔ ہم اس موقع سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ملک کو اس سے استفادہ کرنا چاہئے، اسلام کو اس سے استفادہ کرنا چاہئے، اسلامی نظام کو چاہئے کہ اس سے استفادہ کرے۔ میں نوحہ خواں حضرات کو متنبہ کر چکا ہوں اور آپ شعرائے کرام کی توجہ بھی اس نکتے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ مثال کے طور پر انقلابی تحریک کے دوران محرم کے ایام میں مجھے یاد ہے کہ جہرم کے علاقے میں ہونے والے ماتم کی کیسٹ مجھے لاکر لوگوں نے دی۔ اس وقت ہم مشہد میں تھے۔ وہ حد درجہ اثر انگیز تھی۔ ایک تو شعر، الفاظ، معانی اور ترکیبوں کے اعتبار سے اس میں بڑی کشش تھی، دوسرے آواز بہت اچھی تھی، تیسرے انداز بڑا ہیجان انگیز، متحرک کر دینے والا اور رہنما انداز تھا۔ واقعی بڑی اہم چیز تھی۔ اس کے بعد یزد سے ایک کیسیٹ آئی۔ ان دونوں شہروں کا ماتم مجھے یاد ہے، دوسری کسی جگہ میں نے نہیں دیکھا۔ اس زمانے میں انقلابی تحریک کے جو مسائل تھے انھیں بھی نوحے کے قالب میں ڈھالا گیا تھا۔ یہی چیز ہم نے مقدس دفاع کے دوران بھی دیکھی۔ جو نوحے جناب آہنگران نے پڑھے اور وہ شاعر جو ان کے لئے اشعار کہتے تھے اللہ ان پر رحمت کرے جناب معلمی مرحوم، ان اشعار میں درس ہوتا تھا۔ ہمیں اس سلسلے میں سنجیدگی سے کام کرنا چاہئے۔ البتہ نوحے کے اشعار کی الگ خصوصیات ہوتی ہیں۔ یعنی الفاظ کے اعتبار سے، بندش الفاظ کے لحاظ سے، شعری سانچے کے اعتبار سے اس کی الگ خصوصیات ہوتی ہیں جن کا نوحے میں ہونا ضروری ہے تاکہ نوحہ خواں اسے بآسانی پیش کر سکے۔ تاہم میری گزارش ہے نوحہ خواں حضرات سے، مرثیہ خواں حضرات سے کہ وہ توجہ دیں؛ اس قسم کے اشعار کا مطالبہ کریں، قبول کریں، انھیں استعمال کریں۔ آپ شعرائے کرام بھی اس سلسلے میں جہاں تک ممکن ہے کوشش کیجئے۔
ایک صاحب نے (8)، کچھ اشعار ابھی پڑھے جس کا مضمون یہ تھا کہ اگر آپ تلوار کھینچیں تو وہ سینے بہت زیادہ ہیں جو آپ کے سامنے آ جائیں گے اور دشمن کے مقابلے میں آپ کی ڈھال بن جائیں گے۔ میں نے کہا کہ ہم نے تلوار کھینچ لی ہے، مصروف پیکار ہیں، ہم داہنے بائيں حملے بھی کر رہے ہیں، مگر آج شمشیر کی شکل، میدان جنگ کی نوعیت شروع کے برسوں سے الگ ہے۔ ہم نرم جنگ میں مصروف ہیں۔ ہم سیاسی جنگ میں مصروف ہیں، ثقافتی جنگ کر رہے ہیں، اثر و نفوذ اور سیکورٹی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ فکروں اور ارادوں کا تصادم ہو رہا ہے۔ آج ہمیں موثر وسائل اور ہتھیاروں کی شدید ضرورت ہے۔ ان موثر ہتھیاروں میں میری نظر میں شعر کا بڑا اہم مقام ہے، اس پر آپ کو توجہ دینا ہے۔
میرا یہ خیال ہے کہ شعر کے میدان میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا؛ ایک کام ترجمے کا ہے۔ جناب نے (9) آج مجھے بتایا کہ آپ نے اردو زبان میں کچھ اشعار کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ بہت اچھا کام ہے، یہ ایک ضروری کام ہے۔ مختلف پس منظر اور موضوعات سے متعلق فارسی اشعار کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر فلسطین کے موضوع پر اشعار، مقدس دفاع سے متعلق اشعار، خواتین کے موضوع پر اشعار، علاقائی مسائل کے بارے میں اشعار، یمن وغیرہ سے متعلق اشعار نظم کئے جائیں اور ان کا ترجمہ ہو؛ عربی، اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں میں۔ اچھا ترجمہ ہو اور پھر اسے شائع کیا جائے، ملک سے باہر اس کی پیشکش ہو۔ مثال کے طور پر 'فارسی شاعری میں فلسطین' ایک موضوع ہے۔ یا یہ موضوع؛ آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کی سرگزشت یا کیا ماجرا تھا؟ بہت سے لوگوں کو اس کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔ عراقی ڈاکٹر صاحبہ نے ہمارے ان عزیز دوست سے کہا تھا کہ صدام کے جانے کے بعد میں نے ایران کا پہلا اور دوسرا سفر کیا تو جب بھی کسی ایرانی کو دیکھتی مجھے یہ محسوس ہوتا کہ اسی نے جنگ میں مارے جانے والے میرے دونوں بھائیوں کا قتل کیا ہوگا۔ میری یہ سوچ تھی۔ میرے دل میں غم و اندوہ تھا۔ اس کے آگے انھوں نے کہا کہ 'پھر میں نے سلیمانی (10) کو دیکھا۔ جب میں نے دیکھا کہ سلیمانی ہمارے ملک میں آکر اس طرح جانفشانی کر رہے ہیں تو میری سوچ بالکل بدل گئی۔ یہ آخری حصہ بیان کرنے کا میرا ارادہ نہیں تھا۔ میں اس پہلے حصے کو بیان کرنا چاہتا تھا۔ یعنی ایک عراقی نوجوان، ایک عراقی خاتون، ایک عراقی ماں کو بھی نہیں معلوم کہ حقیقت ماجرا کیا ہے۔ نہیں پتہ کہ اصل میں کیا ہوا تھا؟ ہم تو اپنے گھر میں بیٹھے تھے، طیارے آئے اور ہمارے اوپر بمباری کرکے چلے گئے۔ اب ہم کیا کریں؟ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں؟ یہ طیارے آئے، ہماری سرحدوں کو عبور کرکے کئی ہزار کلومیٹر اندر کے علاقے کو نشانہ بنایا، اس کے جواب میں ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا؟ یونہی بیٹھے رہتے کہ آگے بڑھتے چلے آئیں، یا ہمیں جاکر دفاعی کارروائی کرنی چاہئے تھی؟ ہم نے دفاع کیا۔ یہ عین حقیقت ہے۔ عراقی نوجوان، عراقی ماں، عراقی یتیم، عراقی بہن کو یہ حقیقت کیوں نہ بتائی جائے؟ دوسروں کے سامنے ساری حقیقت کیوں نہ لائی جائے؟ یہ کام شعر کی مدد سے انجام دیا جا سکتا ہے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ہمارے عزیز شعرا نے واقعی اچھی ترقی کی ہے، اچھی پیشرفت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ آج جب میں دیکھتا ہوں تو نوجوانوں کے درمیان بھی، اوسط عمر کے افراد کے درمیان بھی، شعری ارتقاء نظر آتا ہے۔ یعنی ملک میں صنف شعر کو ارتقاء ملا ہے اور مجموعی طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ہماری شاعری ایک قدم آگے بڑھی ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس بلندی پر پہنچ چکے ہیں جو ہماری آخری منزل ہے اور اب مزید آگے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں یہ بات بار بار کہتا رہا ہوں اور آج ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ اپنی شعری مشاقی اور شعری ارتقائی عمل ہرگز رکنے نہ دیجئے۔ یعنی آپ آج اچھے اشعار کہہ رہے ہیں، جب آپ یہ اشعار پڑھتے ہیں تو ہمیں بہت پسند آتے ہیں، ہم محظوظ ہوتے ہیں، داد بھی دیتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شعر بام ثریا پر پہنچ چکا ہے۔ نہیں، بے شک شعر اچھا ہے، لیکن ہم چاہتے کہ آپ کا شعر بلندیوں کو چھوئے، ہماری یہ کوشش ہے۔ اس ہدف کے حصول کا ایک ذریعہ الفاظ ہیں، پرکشش، اچھے اور مانوس الفاظ۔ کبھی کبھی دیکھنے میں آتا ہے کہ شعر اچھا ہے، لیکن الفاظ میں وہ پختگی اور الفاظ کا برمحل استعمال نہیں ہے۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اگر شعر میں اچھے الفاظ ہوں تو سننے والے کو اچھا لگتا ہے۔
شعر کا ارتقائی عمل جاری رہنا چاہئے، شعر کے ارتقائی عمل کی تشخیص نباض ادب افراد کا کام ہے۔ میں نے سنا ہے کہ بعض افراد سائیبر اسپیس میں اشعار شائع کرتے ہیں۔ کوئی شعر ہے جو ایسا کچھ خاص بھی نہیں ہے، لیکن کئی ہزار لوگ اسے لائیک کرتے ہیں تو اس لائیک کی کوئی ارزش نہیں ہے۔ شاعر کے شعر کی قدر و ارزش اہل نظر افراد کی رائے پر منحصر ہوتی ہے۔ جو شعری ذوق رکھتا ہے، جسے معلوم ہے کہ شعر کیا ہے، اچھا شعر کسے کہتے ہیں، برا شعر کیا ہوتا ہے۔ بہرحال شعر کے ارتقاء کے لئے کوشاں رہنا چاہئے۔
محترم وزیر صاحب نے (11) نے جو میرے خیال میں یہاں تشریف رکھتے ہیں، جی ہاں موجود ہیں، کوتاہ مدتی دورے شروع کئے ہیں شاعر کی تربیت کے لئے۔ مگر ایک دن، پانچ دن یا دو ہفتے کے کورس سے کوئی شاعر نہیں بن سکتا۔ یہ فن و ہنر سے تعلق رکھنے والی اسی صنف کا کام ہے جو عوامی سطح پر ہونا چاہئے۔ اگر حکومتی ادارے اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس صنف کے پروگرموں میں تعاون کریں، ان کی مدد کریں، ان کو تقویت پہنچائیں، وسائل فراہم کریں تاکہ وہ اپنے کام بخوبی انجام دے سکیں۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ جناب بہجتی مرحوم ہمارے ہمدم دیرینہ جو جناب عالی (12) کے وطن یزد کے رہنے والے تھے، البتہ جناب بہجتی کا تعلق (یزد کے علاقے) اردکان سے تھا اور آپ میبد کے رہنے والے ہیں۔ غالبا اردکان اور میبد کے درمیان مختلف مسائل اور معاملات میں اختلاف نظر رہتا ہے۔ بہرحال وہ بڑے اچھے شاعر تھے۔ دعائے ابو حمزہ ثمالی کو انھوں نے شعری پیرائے میں ڈھالا، اب مجھے یہ یاد نہیں ہے کہ دعا کا کتنا حصہ انھوں نے شعری قالب میں پرویا۔ موصوف نے مجھے ایک فقرے کے بارے میں بتایا کہ اسے شعری قالب پہنانا بڑا دشوار تھا، مصرع موزوں ہی نہیں ہو پا رہا تھا۔ تو ایک اہم خدمت یہی ہے کہ انسان ان عظیم دینی متون اور مفاہیم کو منظوم شکل میں تبدیل کرے۔ یہ باقاعدہ ایک شعبہ ہے، ایک میدان ہے، ایک شعری صنف ہے۔ یہ کہنا مقصود نہیں کہ بس یہی کام انجام دیا جائے، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو کام انجام دئے جا سکتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے۔ کیونکہ یہ دعائیں عظیم مفاہیم و مضامین کی حامل ہونے کے علاوہ بڑے پائے کے الفاظ سے بھی آراستہ ہیں۔ یہ جو دعائیں ہیں، مثال کے طور پر یہی دعائے عرفہ، دعائے ابو حمزہ، مناجات شعبانیہ، صحیفہ سجادیہ کی دعائیں، یہ عظیم مفاہیم اور اسلامی تعلیمات سے پر ہیں اور واقعی بڑے پرکشش اور بہترین الفاظ کا قالب بھی ان میں موجود ہے۔ بہت اچھا ہے کہ انھیں منعکس کیا جائے۔ یں نے سال گزشتہ یہاں اخوان کا شعر پڑھا تھا (13)۔ البتہ انھوں نے یہ شعر کسی اور پس منظر میں کہا تھا؛
 
«ای تکیه ‌گاه و پناه زیباترین لحظه‌های پُرعصمت و پُرشکوه تنهایی و خلوت من، ای شطّ شیرین پُرشوکت من» (۱۴)
 
اب آپ دیکھئے کہ یہ کیسا دل آویز شعر ہے؟! میں نے عرض کیا کہ جب میں یہ شعر پڑھتا ہوں تو دعا کو میں اپنا مخاطب قرار دیتا ہوں۔ دعا کی یہی کیفیت ہوتی ہے؛
«ای تکیه ‌گاه و پناه زیبا ترین لحظه ‌های پُرعصمت و پُرشکوه تنهایی و خلوت من، ای شطّ شیرین پُر شوکت من»
البتہ شاعر اس شعر کو ایک الگ سمت میں لے گیا ہے۔ اب اگر آپ حضرات دعاؤں پر استوار اشعار کو ایسے پرکشش الفاظ کے ساتھ اور اس انداز سے نظم کریں تو اس کا مضمون بھی دل میں اتر جانے والا ہوگا، شعر کی موسیقیت بھی بہت عالی ہوگی، شعر کی موسیقیت بھی ایک الگ باب ہے۔ شعر کی روانی، کشش، پاکیزگی اور موسیقیت شعر کو لکنت اور سکتے وغیرہ سے بہت بالاتر کر دیتی ہے۔ آپ اس روش اور ان بنیادوں کے ساتھ شعر کہئے تو میری نظر میں یہ بڑی اچھی چیز ہوگی۔
آخر میں ایک چیز مذہبی شاعری کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا۔ خوش قسمتی سے یہاں مذہبی شاعری کی وادی کے ہمارے کچھ احباب تشریف فرما ہیں۔ واقعی بڑے اچھے اشعار کہتے ہیں۔ ائمہ علیہم السلام کی شان میں بڑے پرمغز اشعار ہوتے ہیں؛ رثائی کلام بھی، مدح کا کلام بھی، منقبت کے اشعار بھی۔ ان کے اشعار میں بڑے اچھے پہلوؤں کی پیشکش ہوتی ہے۔ البتہ کچھ اشعار میں یہ اوصاف نہیں ہوتے۔ ہماری یہ کوشش ہونا چاہئے کہ مذہبی اشعار ائمہ علیہم السلام کے معارف اور تعلیمات کا مجموعہ ہوں۔ یعنی جب آپ یہ اشعار نوحہ خواں کو یا مرثیہ پڑھنے والے کو دیں تو اس کی اثرانگیزی کئی تقاریر سے زیادہ ہونا چاہئے۔ یعنی اگر واقعی شعر کے اندر پرویا گیا مفہوم عالی درجے کا ہوگا، مثال کے طور پر یہی شعر جو جناب انسانی صاحب (15) نے پیش کئے، اگر اس طرح کے اچھے اشعار ہوں گے، تو چونکہ اس میں فنکارانہ روش استعمال کی گئی ہے اسلئے اس کا اثر کئی تقاریر سے زیادہ ہوگا۔ لیکن اگر ان اشعار میں یہی عام باتیں ہوں گی جن کا مقصد سامعین کو صرف رلانا ہے، البتہ سامعین کو رلانا بھی ایک اہم بات ہے، لیکن ہدف صرف یہی نہیں ہے۔ ہمیں کمیت، دعبل وغیرہ کے اشعار کو دیکھنا چاہئے جو انھوں نے ائمہ علیہم السلام کی شان میں نظم کئے ہیں۔ دیکھئے کہ انھوں نے کس طرح اپنی بات پیش کی ہے، کیا کہا ہے، ان قصائد میں کیا مضامین پروئے ہیں؟ اگر انسان شعر کہنا چاہتا ہے تو اس نہج پر کہنا چاہئے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کی حفاظت فرمائے، طول عمر دے کہ آپ بر وقت اور اپنے ملک، اپنے سماج اور اپنے اسلامی نظام کے لئے کام کر سکیں، اچھے کارنامے انجام دے سکیں۔
و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل کچھ شعرا نے اپنے اشعار پیش کئے۔
۲) رہبر انقلاب اور حاضرین بے ساختہ ہنس پڑے
۳) ناصر فیض کے اس شعر کی جانب اشارہ؛ «شد قافیه تکرار ولی مسئله‌ای نیست / چون شاعر این شعر طرف‌دار نظام است»
۴) رہبر انقلاب اور حاضرین بے ساختہ ہنس پڑے
۵) نظم «هتل کوبرگ» کی جانب اشارہ ہے جو جناب محمّد مہدی سیّار و میلاد عرفان‌پور کا مشترکہ کاوش ہے۔
۶) حجّت‌ الاسلام سیّد محمّد مہدی شفیعی‌
۷) نائيجریا کے اہم شیعہ مذہبی رہنما
۸) جناب امیر عاملی‌
۹) جناب علی رضا قزوه
۱۰) پاسداران انقلاب فورس کی القدس بریگیڈ کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی
۱۱) وزیر ثقافت و اسلامی ہدایت علی جنّتی
۱۲) حجّت ‌الاسلام زکریا اخلاقی‌
۱۳) حضرت امام حسن علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے شعرا سے خطاب مورخہ 1جولائی 2015
۱۴) مہدی اخوان ثالث. شاهنامه کا آخری حصہ، غزل نمبر ۳
۱۵) علی انسانی‌