1395/05/11 ہجری شمسی مطابق 1 اگست 2016
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 1 اگست 2016 کو ملک کے مختلف صوبوں کے گوناگوں طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عوام الناس کی معیشتی مشکلات کو اپنی گہری اور دائمی تشوشی قرار دیا اور فرمایا کہ ان مشکلات کے ازالے کے سلسلے میں داخلی توانائیوں پر اعتماد واحد راہ حل ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان نے ایک تجربے کی حیثیت سے امریکیوں سے مذاکرات کے بے نتیجہ ہونے، ان کی عہد شکنی اور امریکا کے قابل اعتماد نہ ہونے کا ایک اور ثبوت پیش کیا ہے اور یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ملک کی پیشرفت اور عوام کے حالات زندگی کی بہبودی کا واحد راستہ داخلی توانائیوں پر توجہ دینا ہے نہ کہ ان دشمنوں پر جو علاقے اور دنیا میں ایران کے خلاف ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں ملک کے مختلف صوبوں کے گوناگوں طبقات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کی افراد کی موجودگی کو اس حقیقت کا آئینہ قرار دیا کہ ایران کے عوام قومیتی، لسانی اور مسلکی تنوع کے باوجود متحد ہوکر اس کوشش میں مصروف ہیں کہ وطن عزیز ایران کو روحانی و مادی اعتبار سے نمونہ اسلامی مملکت کے طور پر دنیا کے سامنے متعارف کرائیں، تاکہ دیگر اقوام بھی استکبار کی تفرقہ انگیز اور استعماری پالیسیوں کی مزاحمت کرتے ہوئے اسی پرافتخار راستے پر گامزن ہوں۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ دشمن کبھی مشکلات کھڑی کرتا ہے جنھیں تدبر اور سوجھ بوجھ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، تاہم کسی بھی صورت میں ان کے حل کے سلسلے میں دشمن پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے جامع مشترکہ ایکشن پلان کو دشمنوں پر اعتماد نہ کرنے کی نظرئے کی درستگی کا نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ آج تو سفارتی شعبے کے حکام اور وہ لوگ بھی جو مذاکرات میں شریک تھے، اس حقیقت کا بار بار اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکا وعدہ خلافی کر رہا ہے اور نرم گوئی اور چرب زبانی کے ساتھ ہی مشکلات کھڑی کرنے اور دیگر ممالک سے ایران کے اقتصادی روابط خراب کرنے میں مصروف ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله‌ الرّحمن ‌الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

مختلف صوبوں سے طویل مسافت طے کرکے یہاں تشریف لانے والے عزیز بھائیو اور بہنو! خوش آمدید! آپ نے آج ہمارے اس حسینیہ کو شہیدوں کے نام، شہیدوں کی یادوں اور انقلابی جذبات سے معطر کر دیا۔ ان برادران عزیز کا شکر گزار ہوں جنھوں نے ترانہ بھی پیش کیا اور اجتماعی طور پر تلاوت قرآن کی۔ البتہ نشست کے دوران تھوڑا شور تھا اور ان برادران گرامی کی انتہائی سماعت نواز تلاوت شاید بعض لوگوں کے کانوں تک نہیں پہنچ سکی۔ یہ موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا، لیکن میں نے توجہ سے سنا اور مستفیض ہوا۔ قرآن کی آیات کریمہ اور قرآنی الفاظ کی تلاوت جس وقت بھی اور جس جگہ بھی کی جائے اس سے روحانیت و برکت ملتی ہے۔ خاص طور پر ان آیتوں کی تلاوت سے جن کا انتخاب ان برادران عزیز نے کیا تھا۔ سورہ احزاب کی آیتیں تھیں، جو سخت ادوار اور دشوار حالات میں اسلامی امت کے مستقیم اور روشن راستے کی عکاسی کرتی ہیں اور امت کے راستے کو واضح کرتی ہیں۔ یہ آیتیں بتاتی ہیں کہ اگر امت اسلامیہ کسی بھی دور میں اور کسی بھی موقع پر مشکلات سے دوچار ہو جائے، اس طرح کی مشکلات سے دوچار ہو جائے جن کا ذکر ان آیتوں میں تھا تو راہ حل کیا ہے۔ مِنَ المُؤمِنینَ رِجالٌ صَدَقوا ما عاهَدُوا اللهَ عَلَیه (۱)، جب اللہ تعالی سے کیا گيا میثاق اور مومن قلوب نے اللہ سے جو عہد کیا ہے وہ سچا ہو تو سارے کام انجام پائیں گے، ساری مشکلات برطرف ہوں گی۔ بے شک زندگی میں مشکلات پیش آتی ہیں، کسی بھی قوم کے قدموں کے سامنے پختہ سڑک نہیں ہوتی، شاہراہ خود اپنی محنت اور بلند ہمتی سے تعمیر کرنی ہوتی ہے، راستہ ہموار کرنا ہوتا ہے، صاف کرنا ہوتا ہے اور پھر اپنی منزل کی جانب آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ جو قومیں، روحانیت، تمدن، رفاہ و آسائش اور سعادت و کامرانی کے اوج پر پہنچیں، انھوں نے اسی انداز سے اپنا سفر طے کیا ہے۔ یہ آیتیں ہمیں ان چیزوں کی تعلیم دیتی ہیں۔
ماہ ذیقعدہ جو نزدیک آن پہنچا ہے، حرام مہینوں میں سے پہلا مہینہ ہے۔ ماہ حرام یعنی احترام کے مہینے، یعنی وہ مہینے جو اللہ تعالی کی نظر میں محترم ہیں، «مِنهآ اَربَعَةٌ حُرُم» (۲)، چار مہینوں کو اللہ تعالی نے دیگر مہینوں سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ کچھ خاص احکام کے ذریعے واضح کیا ہے کہ یہ احترام کن چیزوں اور کن امور میں ہے۔ مسلمانوں کو ان تعلیمات الہیہ سے بھی سبق لینا چاہئے۔ معروف اور عظیم عارف الحاج میرزا علی آقا قاضی رضوان اللہ تعالی علیہ کے بقول اللہ کی نظر میں محترم مہینے وہ مہینے ہیں جن میں مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ اللہ کی جانب اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہئے، خود کو زندگی کے حساس اور اہم میدانوں میں وارد ہونے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔ آج ملت ایران کے سامنے، اس عظیم و سربلند قوم کے سامنے یہی صورت حال ہے کہ اس نے جو پرافتخار راستہ چنا ہے اس پر پوری توانائی کے ساتھ، پوری رفتار سے، پر وقار انداز میں اور سر بلندی کے ساتھ آگے بڑھے۔
ہماری آج کی یہ نشست بہت خاص قسم کی ہے۔ ملک کے چاروں گوشوں سے، کئی صوبوں سے ہمارے عزیز عوام تشریف لائے ہیں اور یہاں جمع ہوئے ہیں۔ ملک کے جنوب مشرقی حصے سے لیکر شمال مغربی علاقے تک مختلف قومیتیں، فارس، ترک، کرد، بلوچ سب اس اجتماع میں موجود ہیں۔ اس کا خاص مفہوم ہے۔ وہ خاص مفہوم یہ ہے کہ مختلف اور متعدد قومیتوں والا متحدہ ایران ایک ہی ہدف رکھتا ہے اور ایک ہی راستے پر گامزن ہے۔ بے شک زبانیں الگ الگ ہیں، مسلک الگ الگ ہیں، لیکن اس قوم کے اعلی اہداف یکساں ہیں۔ یہ سب کی خواہش ہے کہ وطن عزیز ایران کو ایک مثالی اسلامی ملک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اسلامی مملکت کا نمونہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس ملک میں سارے لوگ صرف نماز، روزے اور دعا و توسل میں مصروف ہیں۔ نہیں، یہ سب کچھ تو ہے ہی، یہی تو روحانیت و معنویت ہے، لیکن اس روحانیت کے ساتھ ساتھ مادی پیشرفت، علمی نمو، مساوات کا فروغ، طبقاتی فاصلے میں کمی اور اشرافیہ کلچر کے نمونوں اور مظاہر کا تصفیہ بھی ہے۔ اسلامی معاشرے کی یہ خصوصیات ہیں۔ اس معاشرے میں عوام الناس خوش بختی کی زندگی بسر کرتے ہیں، احساس تحفظ کے ساتھ جیتے ہیں، آسودہ خاطر رہتے ہیں اور اپنے اعلی اہداف کی جانب رواں دواں ہیں۔ اللہ کی عبادت بھی کرتے ہیں، دنیاوی پیشرفت بھی انھیں حاصل ہو رہی ہے۔ ملت ایران ایسے معاشرے میں تبدیل ہو جانے کے لئے کوشاں ہے۔ سب کی یہی خواہش ہے۔ شیعہ اور سنی کا فرق نہیں ہے۔ کرد، بلوچ، فارس اور ترک میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے سب اس ہدف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک نمونہ عمل بن جائے گا اور جب یہ نمونہ عمل آنکھوں کے سامنے آ جائے گا تو دیگر مسلم اقوام بھی اسی راستے پر چل پڑیں گی۔
آج ہماری مشکل یہ ہے کہ عالمی استکبار اور استعماری طاقتوں کو ایک دو صدی سے اپنا مفاد اس میں نظر آیا کہ مسلم اقوام کے درمیان تفرقہ ڈال دیں۔ انھیں اپنا مفاد اس میں نظر آتا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ ایسی صورت حال ہو تو ان مسلم اقوام کی ثروت لوٹنا آسان ہوگا، انھیں اس پیشرفت سے جو ان کا حق تھی، دور رکھا جا سکے گا، ان کا استحصال کیا جا سکے گا۔ عالمی طاقتوں نے علم و سائنس کے میدان میں اپنی کامیابیوں کی مدد سے، حاصل ہونے والی ٹیکنالوجیوں کی مدد سے اور جدید اسلحے کی مدد سے اپنا یہ مقصد پورا کرنے کی کوشش کی اور افسوس کا مقام ہے کہ کافی حد تک انھیں کامیابی بھی ملی۔ ہم نے اوائل انقلاب سے لیکر آج تک ہمیشہ مسلمان اقوام کی جانب دوستی کا ہاتھ پھیلایا، سب کو اتحاد کی دعوت دی، سب کو وحدت کا پیغام دیا، دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں استقامت کی اپیل کی تو اس کی وجہ یہی تھی۔
جب ملت ایران خود کو اس مقام پر پہنچا لے جائے گی جہاں وہ حقیقی معنی میں ایک مسلم امت کے طور پر خود کو دنیا کے سامنے متعارف کرائے تو یہی اسلام کی سب سے بڑی تبلیغ ہوگی۔ دیگر اقوام بھی اسی سمت چل پڑیں گی اور عظیم مسلم امہ کی تشکیل ہو جائے گی جو باعث عزت اور ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کی بنیاد بنے گی۔ وہ اسلامی تمدن معرض وجود میں آ جائے گا جس کے بارے میں ہمیں یہ توقع ہے کہ مغرب کے گمراہ کن مادی تمدن پر غلبہ حاصل کر لے گا۔ اس کا مقدمہ یہی ہے، مقدمہ یہ ہے کہ ہم ملت ایران کی حیثیت سے خود کو مثالیہ بنانے کی سمت پیش قدمی کریں۔ سب کو کمر ہمت کسنا چاہئے، عہدیداران کو بھی بلند ہمتی سے کام لینا چاہئے اور عوام کو بھی ہمت دکھانی چاہئے۔ یہ کوئی ایک دو سال کی مہم نہیں ہے۔ یہ دراز مدتی مشن ہے۔ اس کے لئے وقت درکار ہے۔ چنانچہ اگر آپ دیکھیں تو اسلامی تمدن میں، جس کا اوج چوتھی اور پانچویں صدی میں نطر آیا، نمایاں علمی مقام حاصل ہوا، عالم اسلام میں مایہ ناز اور شہرہ آفاق علما، محققین، فلاسفہ اور سائنسداں نظر آئے جو دنیا کو آگے لے جانے میں کامیاب ہوئے، چنانچہ مغرب کی بہت سے میدانوں کی پیشرفت انھیں کی شروع کی ہوئی مہم کی مرہون منت ہے۔ آج ان شاء اللہ ہماری رفتار تیز ہوگی اور ہم زیادہ جلدی اس منزل پر پہنچ جائیں گے، تاہم وقت تو لگنا ہی ہے۔
ہم نے ان 37، 38 برسوں میں جو انقلاب آنے کے بعد گزرے ہیں، اچھی پیشرفت حاصل کی ہے۔ واقعی اگر کوئی منصفانہ نظر سے جائزہ لے تو امریکا اور برطانیہ کے قدموں میں پڑا رسوا و گمنام، پسماندہ اور مجبور ایران آج اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک آکر صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں کہ علاقے میں موجود اسلامی جمہوریہ کے وسائل کو استعمال کریں، بلکہ کسی صورت سے ہڑپ لیں، مگر وہ ایسا نہیں کر پا رہے ہیں۔ یعنی اسلامی وقار، اسلامی نظام کا وقار اور اسلامی مملکت ایران کی شان و عظمت اس طرح چار سو پھیلی ہے کہ جو طاقتیں اب تک ملت ایران سمیت اقوام کو حقارت بھری نظروں سے دیکھتی تھیں، آج اسے اپنے برابر کی قوت کے طور پر تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ ملت ایران کی عمومی اور ہمہ گیر پیشرفت ہے۔ ہم نے علم و سائنس کے میدان میں پیشرفت حاصل کی، سیاست کے میدان میں پیشرفت حاصل کی، اسلام کو مطلوب دیگر میدانوں میں بھی پیشرفت حاصل کی۔ سماجی انصاف کے اعتبار سے بھی آج صورت حال ماضی کی نسبت بالکل الگ ہے۔ البتہ اسلامی مساوات کی منزل تک پہنچنے کے لئے ابھی کافی فاصلہ طے کرنا ہے، مطلوبہ سماجی انصاف کی منزل سے ابھی ہم کافی دور ہیں۔ البتہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت بھی ہمارے معاشرے میں اشرافیہ کلچر کی علامات، تجملات اور بعض دیگر انحرافی چیزیں کم نہیں ہیں، لیکن جب ہم انقلاب سے قبل کے دور کو سامنے رکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ ماضی کی نسبت اس وقت ملت ایران کی پیشرفت، اس اسلامی ملک کی پیشرفت کافی نمایاں ہے۔ آپ میں جو نوجوان ہیں، انھوں نے انقلاب سے قبل کا دور نہیں دیکھا ہے لیکن ہم نے اور ہماری عمر کے افراد نے وہ زمانہ دیکھا ہے۔
اگر ہم خود کو اس مطلوبہ منزل تک پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ کیا ہے؟ میں اس کا جواب دو لفظوں میں اگر دینا چاہوں تو یہ کہوں گا کہ اس کا طریقہ ہے داخلی توانائیوں اور وسائل پر تکیہ کرنا۔ ہمارے پاس صلاحیتوں اور توانائیوں کی کمی نہیں ہے۔ وہ صلاحیتیں اور توانائیاں جو اب تک استعمال نہیں ہوئی ہیں کافی زیادہ ہیں۔ ہم نے تو پیشرفت کے منصوبے میں آٹھ فیصدی کی اقتصادی ترقی کو مد نظر رکھا ہے اور کہا ہے کہ ملک کو اس پروگرام کے دوران آٹھ فیصدی کی شرح ترقی تک پہنچنا ہے تو اس کی وجہ وہ بے شمار توانائیاں اور صلاحیتیں ہیں جو ملک کے اندر موجود ہیں۔ شروع میں تو کچھ لوگ یہ کہتے تھے کہ اقتصادی میدان میں آٹھ فیصدی کی شرح نمو ممکن نہیں ہے۔ لیکن بعد میں حکام نے خود آکر ہم سے کہا کہ آپ نے جو لکھا ہے وہی درست ہے۔ آٹھ فیصدی کی اقتصادی شرح نمو امکان میں ہے۔ البتہ اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صحیح پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔ صحیح اور منصوبہ بند اسٹریٹیجی کی ضرورت ہے۔ تساہلی، بے عملی اور دوسروں کی دست نگری کی صورت میں یہ ممکن نہیں ہے۔ منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ اس کی بنیاد ملک کے اندر موجود صلاحیتیں ہیں۔ ملک کے پاس بے پناہ صلاحیتیں اور توانائياں موجود ہیں۔ ہماری آٹھ کروڑ کی آبادی میں تیس فیصدی سے زیادہ حصہ 20 سے 35 سال کی عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ یعنی عنفوان شباب میں ہے۔ نوجوانی، تحرک اور امید و نشاط کا مظہر ہے۔ ہمارے ملک میں اتنی بڑی تعداد میں نوجوان موجود ہیں۔ ان نوجوانوں میں دسیوں لاکھ تعلیم یافتہ، ماہر اور اختراعی صلاحیت کے مالک نوجوان ہیں۔ گزشتہ 37 سال کے عرصے میں ہمارے ملک کا انفراسٹرکچر بہت اچھا ہو چکا ہے۔ ہم نے مختلف میدانوں میں بہت کارآمد اور موثر انفراسٹرکچر تیار کر لیا ہے۔ میں یہ جو عرض کر رہا ہوں کہ ہم نے یہ کام کیا ہے تو مراد یہ ہے کہ یہ کام ملک کے حکام نے انجام دیا ہے، اس سلسلے میں میرا کوئی رول نہیں ہے۔ سب کچھ تیار ہے تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کے لئے، پیشرفت کی منزلیں طے کرنے کے لئے۔
یہ پیشرفت بھی بحمد اللہ حاصل ہوئی۔ آپ اسلامی انقلاب کے بعد کے ان تیس برسوں کا موازنہ بعض دیگر ملکوں کی تیس سال کی پیشرفت سے کیجئے جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا۔ ایسے ممالک جنھوں نے تیس سال تک امریکا کے تسلط میں زندگی بسر کی۔ امریکا سے نقدی بھی حاصل کرتے رہے۔ یعنی سالانہ کئی سو ملین یا کئی ارب ڈالر امریکا سے لیتے رہے، لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ تیس سال بعد جب اعداد و شمار پیش کئے تو پتہ چلا کہ ان کے دار الحکومت میں بیس لاکھ افراد بے گھر ہیں جو قبرستانوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ کسی ملک پر امریکا کے اثر و نفوذ اور تسلط کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ بنابریں ضرورت اس بات کی ہے کہ داخلی توانائیوں کو بروئے کار لایا جائے۔
دشمن بسا اوقات مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان جائے اپنی تدابیر سے ان مشکلات کو راستے سے ہٹائے، دشمن پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک مثال یہی ایٹمی مذاکرات اور مشترکہ جامع ایکشن پلان ہے۔ آج ہمارے سفارتی شعبے کے حکام بھی، وہ لوگ بھی جو مذاکرات میں شروع سے آخر تک شامل رہے، یہ لوگ بھی کہہ رہا ہے کہ امریکا نے وعدہ خلافی کی ہے۔ پرسکون ظاہری وضع قطع، حکام، وزیر خارجہ اور دیگر عہدیداران کی نرم و شیریں گفتگو کی آڑ میں امریکا تخریبی اقدامات کرتا ہے۔ دیگر ممالک سے وطن عزیز کے اقتصادی تعلقات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ یہ بات مشترکہ جامع ایکشن پلان سے تعلق رکھنے والے حکام بھی کہہ رہے ہیں۔ یہ بات میں ایک سال، ڈیڑھ سال سے مسلسل کہتا آ رہا ہوں کہ امریکیوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ بعض لوگوں کے لئے یہ بات قبول کر پانا بڑا دشوار تھا، لیکن آج خود ہمارے حکام یہی کہہ رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہمارے عہدیداران نے جو ایٹمی مذاکرات کار ہیں، یورپ میں دیگر فریقوں سے ملاقات کی۔ ہمارے عہدیداران نے یہی باتیں ان سے کہی ہیں اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ہمارے عہدیداران نے کہا کہ آپ نے عہد شکنی کی ہے، آپ نے یہ خلاف ورزی کی ہے، آپ کو یہ کام انجام دینا تھا اور آپ نے انجام نہیں دیا۔ پس پشت آپ نے یہ تخریبی اقدامات کئے۔ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر دستخط کو چھے مہینے کا وقت گزر چکا ہے، مگر عوام کی معیشتی صورت حال میں کوئی قابل لحاظ بدلاؤ نظر نہیں آتا۔ حالانکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ پابندیاں ہٹائی جائیں، اس کا ہدف ہی یہ تھا کہ ظالمانہ پابندیاں ہٹا لی جائیں۔ کیا ایسا نہیں تھا؟ اب تک پابندیاں نہیں ہٹائی گئی ہیں، اب کہتے ہیں کہ رفتہ رفتہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے! کیا تدریجی طور پر پابندیاں ہٹانے کی بات ہوئی تھی؟ اس وقت عہدیداران نے ہم سے بھی اور عوام سے بھی یہی کہا تھا کہ ان مذاکرات میں یہ طے پایا ہے کہ جس دن ایران نے اپنے وعدوں پر عمل کر دیا، پابندیاں یکبارگی اٹھا لی جائیں گی۔ یعنی امریکا نے ملت ایران کے راستے میں یہ جو ظالمانہ اور خباثت آمیز رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں، انھیں ختم کر دیا جائے گا۔ اس وقت سے اب تک چھے مہینے گزر چکے ہیں، لیکن پابندیاں نہیں ہٹی ہیں۔ آٹھ کروڑ کی آبادی والے ملک کے لئے چھے مہینے کی مدت کم وقت ہے؟ اگر امریکیوں کی یہ خباثتیں نہ ہوتیں تو حکومت اس چھے مہینے میں کتنے کام کر سکتی تھی؟ یہ مشترکہ جامع ایکشن پلان ہمارے لئے ایک نمونہ ہے، ایک تجربہ ہے۔ میں نے گزشتہ سال یا ڈیڑھ سال قبل، مجھے تاریخ ٹھیک سے یاد نہیں ہے (3)، قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان اور یہ ایٹمی مذاکرات ہمارے لئے ایک نمونہ ہوگا۔ ہم دیکھیں گے کہ امریکی کیا کرتے ہیں؟ یہ جو بڑی شیریں کلامی کر رہے ہیں، میٹھی میٹھی باتیں کر رہے ہیں، کبھی خط لکھتے ہیں، محبت کا اظہار کرتے ہیں، تعاون کی باتیں کرتے ہیں، مذاکرات کی نشستوں میں ایرانی حکام سے بڑی نرمی سے گفتگو کرتے ہیں، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ عمل کے میدان میں کیا رخ اپناتے ہیں؟! اب واضح ہو گیا کہ عمل کے میدان میں ان کا کیا طریقہ کار ہے۔ بظاہر میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں، وعدے دیتے ہیں، لیکن جب عمل کا مرحلہ آتا ہے تو سازشوں میں لگ جاتے ہیں، تخریبی حرکتیں شروع کر دیتے ہیں، ہمارے امور کی انجام دہی میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ یہ ہے امریکا اور یہ ہے عملی تجربہ۔ اب امریکی کہہ رہے ہیں کہ آئیے علاقائی مسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ مگر یہ تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ امریکیوں سے مذاکرات مہلک زہر کی مانند ہے۔
اس تجربے سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ ہم کسی بھی معاملے میں امریکا کو قابل اعتماد فریق سمجھ کر گفتگو نہیں کر سکتے۔ انسان کبھی دشمن سے بھی بات کرتا ہے اور وہ دشمن اپنے قول کا پابند ہوتا ہے تو اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ اپنے قول سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور عہد شکنی نہیں کرے گا۔ ایسے دشمن سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر ثابت ہو جائے کہ دشمن حد درجہ نابکار ہے، ایسا دشمن ہے جو عملی میدان میں وعدہ خلافی میں کوئی تامل نہیں کرتا، عہد شکنی کرتا ہے، اور جب آپ کہئے کہ تم نے عہد شکنی کیوں کی؟! تو بڑے مزے سے مسکراتا ہے، پھر وہی چرب زبانی شروع کر دیتا ہے اور اپنی حرکتوں کی توجیہ پیش کرنے لگتا ہے۔ ایسے دشمن سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ یہ جو میں برسوں سے کہتا آ رہا ہوں کہ امریکا سے ہم مذاکرات نہیں کریں گے تو اس کی وجہ یہی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس معاملے میں اور علاقائی مسائل کے بارے میں، اسی طرح دیگر معاملات میں امریکا اور اس جیسی دیگر حکومتوں سے ہماری مشکل ایسی ہے کہ مذاکرات سے حل نہیں ہونے والی ہے۔ ہمیں اپنا راستہ منتخب کرکے اس پر گامزن ہو جانا چاہئے۔ دشمن کو پیچھے پیچھے دوڑنے دیجئے، اسے پیچھے پیچھے بھاگنے دیجئے! ہمارے سیاسی و سفارتی حکام صریحی طور پر کہہ رہے ہیں کہ امریکی ہم سے سب کچھ لے لینا چاہتے ہیں اور اس کے عوض کچھ بھی دینے پر آمادہ نہیں ہیں! اگر ایک قدم آپ نے پیچھے کھینچا تو وہ اسی مقدار میں آگے بڑھ آئیں گے۔ ہم جو مسلسل کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات نہیں کریں گے اور بعض افراد کہتے ہیں کہ جناب! مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تو مذاکرات کرنے حرج یہی ہے کہ فریق مقابل آپ کو آپ کے صحیح راستے سے ہٹا دےگا، آپ سے مراعات لے لیگا، کیونکہ جب آپ مذاکرات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کچھ مراعات دیجئے اور کچھ مراعات لیجئے! مذاکرات کا یہی تو مطلب ہے! مذاکرات کا مطلب یہ تو نہیں کہ ساتھ میں بیٹھیں، گپ شپ کریں، گفت و شنید اور ہنسی مذاق ہو، سب لطف اندوز ہوکر اٹھ جائیں! مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ کچھ دو اور کچھ لو! آپ کو جو دینا ہے اسے تو وہ فورا لے لیتے ہیں، لیکن جو آپ کو ملنا چاہئے اسے وہ دینے پر تیار نہیں! زور زبردستی کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ مستکبر اسی کو کہتے ہیں۔ عالمی استکبار کے یہی معنی ہیں، اس کے معنی ہیں زبردستی کی باتیں کرنا، خود کو برتر سمجھنا، اپنے قول کا پابند نہ رہنا، خود کو کوئی بھی ذمہ داری پوری کرنے کا پابند نہ سمجھنا، استکبار سے مراد یہی ہے۔ وہ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا؛ 'امریکا سب سے بڑا شیطان ہے۔' واقعی یہ تعبیر بالکل درست اور غیر معمولی تعبیر ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ قیامت کے دن شیطان اپنی پیروی کرنے والوں سے کہے گا کہ: اِنَّ اللهَ وَعَدَکُم وَعدَ الحَقِّ وَ وَعَدتُکُم فَاَخلَفتُکُم (۴) اللہ تعالی نے تم سے سچا وعدہ کیا اور تم نے اللہ کے اس سچے وعدے کی پیروی نہیں کی، اس کے پابند نہیں رہے اور میں نے تم سے جھوٹا وعدہ کیا اور تم میرے پیچھے چل پڑے، میں نے وعدہ خلافی کی، میں نے تم سے وعدہ کیا اور پھر اس وعدے کو توڑ دیا۔ شیطان قیامت کے دن اپنے پیروکاروں کی اس طرح ملامت کرے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے کہ شیطان اپنے پیروں کاروں سے کہے گا؛«فَلا تَلومونی وَلوموا اَنفُسَکُم» مجھے سرزنش نہ کرو بلکہ خود کو ملامت کرو۔ یہ چیز آج من و عن امریکا پر صادق آتی ہے۔ شیطان قیامت میں یہ باتیں کہے گا جبکہ امریکی آج اسی دنیا میں یہی باتیں کہہ رہے ہیں۔ وعدہ کرتے ہیں مگر اسے پورا نہیں کرتے، وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ مراعات لے لیتے ہیں، اور مراعات دینے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کرتے۔ آج امریکا کی یہی حالت ہے۔ لہذا اس پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔
ملک کے بڑے مسائل کے بارے میں جو باتیں ہو رہی ہیں، اسی طرح ملک کی دراز مدتی پالیسیوں کے بارے میں ہمارے عزیز نوجوانوں کو چاہئے کہ غور کریں، اس کا جائزہ لیں۔ یہ تجربات کا نتیجہ ہیں، یہ دشمن کی مکمل شناخت کے بعد وضع کی جانے والی پالیسیاں ہیں۔ یہ ایسی چیزیں نہیں کہ کوئی کچھ کہے اور کوئی دوسرا آکر اس کے جواب میں کہے کہ؛ 'نہیں جناب ایسا نہیں ہے۔' ان مسائل پر ہمارے نوجوان غور و خوض کریں۔ خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں بڑے ذہین اور ذی فہم نوجوان موجود ہیں۔ انھیں چاہئے کہ جائز لیں، تجزیہ کریں تو راستہ واضح ہوگا۔
صحیح راستہ کیا ہے؟ صحیح راستہ وہی ہے جو ہم نے عرض کیا؛ اندرونی توانائیوں اور صلاحیتوں پر تکیہ کیا جائے، داخلی ظرفیت کو بنیاد بناکر کام کیا جائے، انھیں نوجوانوں کی استعداد کو بنیاد بنایا جائے، نوجوانوں کی اختراعی صلاحیتوں کی مدد لی جائے، جو اختراعات ہمارے نوجوان کرتے ہیں، وہ جو علمی کاوشیں کرتے ہیں، جو دانش حاصل کرتے ہیں، وہ دانش جو ٹیکنالوجی میں تبدیل ہوتی ہے، ان پر تکیہ کیا جائے، ہمارے پاس صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق البتہ یہ اعداد و شمار کئی سال قبل کے ہیں کہ ہمارے پاس کئی سو چھوٹی پیداواری یونٹیں ہیں، یہ بہت بڑی بات ہے! میں نے اپنی تقاریر میں بارہا یہ بات کہی ہے، ملک کے عزیز حکام کو چاہئے کہ چھوٹی اور میانہ سطح کی پیداواری یونٹوں پر توجہ دیں۔ ہمارے ملک میں اس طرح کی کئی لاکھ یونٹیں موجود ہیں، ان کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہئے، اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اختراعی صلاحیتیں سامنے آئیں گی۔
ہم نالج بیسڈ اکانومی پر زور دے رہے ہیں، اس سلسلے میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران خوش قسمتی سے بہت اچھا کام ہوا ہے، لیکن اس میں مزید وسعت لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں داخلی پیداوار پر توجہ دینا چاہئے۔ میں نے داخلی مصنوعات کے استعمال پر بار بار تاکید کی۔ ایک بار پھر آپ کی خدمت میں، عزیز عوام کی خدمت میں، ملک کے حکام کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ پیداواری سرگرمیوں کی جانب قدم بڑھائیے۔ داخلی پیداوار کو بڑھائیے، اس کی ترویج کیجئے۔ افسوس کی بات ہے کہ زمینی حقیقت اس سے مختلف ہے۔ مختلف شعبوں میں، مثال کے طور پر گھریلو سامان ملکی کارخانے بھی بنا رہے ہیں، بڑی معیاری، غیر ملکی مصنوعات کی ہم پلہ بلکہ بسا اوقات ان سے زیادہ بہتر مصنوعات بنا رہے ہیں، لیکن آپ جب بازار میں جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ غیر ملکی سامان بھرا پڑا ہے۔ کیوں؟ یہ سارا سامان کہاں سے آیا؟ میں جو بار بار تاکید کرتا ہوں کہ ملک کے اندر جو مصنوعات تیار کی جا رہی ہیں انھیں غیر ممالک سے امپورٹ نہ کیا جائے، اس کی یہی وجہ ہے۔
اسمگلنگ کے معاملے میں میں نے حکام سے کہا کہ جب آپ کسی گروہ کو پکڑیں اور اسمگلنگ کا سامان برآمد کریں جو کئی ہزار ٹن کی مقدار میں ملک کے اندر آ رہا ہے تو اسے سب کے سامنے آگ لگائیں۔ اسمگلروں پر اس طرح ضرب لگائیں۔ کیونکہ ظاہر ہے جب کوئی غیر ملکی سامان آ جاتا ہے، خواہ قانونی طریقے سے آیا ہو جیسے کسٹم وغیرہ ادا کرکے لایا گیا ہو، یا اسمگلنگ کے ذریعے لایا گیا ہو جس کی مقدار بہت زیادہ ہے، تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ داخلی پیداواری یونٹیں بند ہو جائیں گی۔ جب پیداواری یونٹیں بند ہوتی ہیں تو اس کے نتیجے میں یہی حالات پیدا ہوتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو روزگار نہیں ملے گا، روزگار کے مواقع محدود ہو جائیں گے، ملک میں کساد بازاری کا ماحول پیدا ہوگا، عوام کی زندگی اور معیشت بہت دشواریوں سے دوچار ہو جائے گی۔ ان مسائل کو تو آپ یورپ اور امریکا سے تعلقات بڑھا کر حل نہیں کر سکتے۔ ان مسائل کو ہمیں خود حل کرنا ہے۔ یہ ذمہ داری تو خود ہمارے دوش پر ہے۔ اس کا راستہ یہی ہے۔
ملک کے پاس توانائیاں بہت زیادہ ہیں۔ اختراعی صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔ آٹھ کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں، جس کے پاس پندرہ کروڑ آبادی کی گنجائش موجود ہے، ان شاء اللہ حکام جیسا کہ میں نے بار بار کہا ہے کہ مدد کریں اور نوجوانوں کی آبادی بڑھائیں، نوجوانوں کی تعداد کا یہ اچھا تناسب جو آج ہے اسے قائم رکھیں، اسے ختم نہ ہونے دیں، ایسا نہ ہو کہ رفتہ رفتہ ملک کی آبادی بڑھاپے کی جانب بڑھتی چلی جائے۔ یہ ملک، یہ آبادی، یہ صلاحیتیں، چار موسموں والی سرزمیں مادی اعتبار سے پیشرفت کے مراحل طے کر سکتی ہے اور عوام کی معیشتی مشکلات دور ہو سکتی ہیں۔ اس کا یہی طریقہ ہے۔
عوام کے معاشی مسائل کی مجھے بہت فکر ہے۔ مجھے عوام کی معیشت کے بارے میں ہمیشہ فکر لگی رہتی ہے۔ تاہم میں جتنا بھی سوچتا ہوں، ماہرین اور باخبر افراد سے جب بھی مشاورت کرتا ہوں تو یہی پاتا ہوں کہ ہمارے پاس داخلی توانائیوں پر تکیہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ غیر ملکی تاجروں کی آمد و رفت رہے اور حالات میں کوئی بہتری نہ آئے، چنانچہ اب تک نہیں آئی ہے تو اس کا کیا فائدہ ہے؟ تقریبا ایک سال سے مسلسل یہ آنا جانا لگا ہوا ہے اور اب تک کچھ بھی نہیں ہو پایا ہے۔ وہ اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ان کی نظر ایران کے بازار کو اپنے قبضے میں کر لینے پر ہوتی ہے اور یہ ہمارے نقصان میں ہے۔ وفود کی آمد و رفت کا فائدہ سرمایہ کاری کی صورت میں اور پیداوار میں اضافے کی صورت میں ہونا چاہئے، اس کے نتیجے میں ہمیں ضرورت کے مطابق ٹیکنالوجی ملنا چاہئے، نئی ٹیکنالوجی ملک میں آنا چاہئے، لیکن فی الواقع اس کا یہ نتیجہ یا تو بالکل نہیں ہے یا بہت محدود پیمانے پر ہے۔ محترم حکام کو چاہئے کہ ان چیزوں پر توجہ دیں، ان کا خیال رکھیں۔ ہم نے جو 'اقدام و عمل' (کے نعرے) کا اعلان کیا اس کا نمایاں نتیجہ سامنے آنا چاہئے، البتہ اس وقت کام ہو رہا ہے لیکن نتیجہ اتنا واضح ہونا چاہئے کہ عوام باقاعدہ محسوس کریں۔ یہ طریقہ ہے۔
ثقافتی اور روحانی امور کے بارے میں بھی کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن اس وقت ان موضوعات کو نہیں چھیڑنا چاہتا، اس کا اپنا موقع و محل ہے۔ اس وقت بحث کا موضوع اقتصادی اور معیشتی مسائل ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عوامی معیشت میں بہتری آئے، جو مشکلات ہیں، طبقاتی فاصلہ ہے، یہ سب حل ہو تو ہمیں یہ سارے کام کرنا چاہئے۔
ایک اور اہم ترین مسئلہ ہے داخلی بدعنوانی کی روک تھام۔ یہ جو ابھی بات ہوئی اور حکام نے بھی صریحی طور پر کہا ہے کہ بدعنوانی اور کرپشن کا سد باب کیا جا رہا ہے، اس کے بارے میں بحمد اللہ ہمیں بعض اداروں سے رپورٹ ملی ہے کہ موثر کارروائی ہوئی ہے۔ تمام اداروں میں اسی طرح اقدامات ہونے چاہئے۔ پوری توجہ سے کارروائی کی جانی چاہئے۔ اسے بیچ میں نہیں چھوڑنا چاہئے۔ بدعنوانی کا سد باب ضروری ہے۔
اشرافیہ کلچر کی روک تھام ہونا چاہئے۔ یہ کلچر ملک کے لئے ایک مصیبت ہے۔ اگر ملک میں اونچی سطح پر اشرافیہ کلچر رائج ہو تو باقی جگہوں تک اس کا سرایت کر جانا فطری ہے۔ ایسی صورت میں آپ دیکھیں گے کہ جو گھرانہ مالی اعتبار سے بہت اچھی حالت میں نہیں ہے وہ بھی جب اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کرتا ہے یا کوئی اور تقریب منعقد کرنا چاہتا ہے تو رئیسانہ انداز میں اخراجات برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جب اشرافیہ کلچر رائج ہو جائے تو اس کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ اشرافیہ کلچر کو روکنا چاہئے۔ حکام کی روش، ان کا طرز بیان، ان کی تعلیمات سب کچھ اشرافیہ کلچر کے خلاف ہونا چاہئے۔ اسلام نے یہی درس دیا ہے۔
یہ تو ملکی مسائل کے بارے میں میرے چند معروضات تھے۔ اقتصادی مسائل کے بارے میں میرا جو موقف ہے وہ یہی ہے جسے میں عوام کے سامنے بھی اور حکام کے سامنے بھی بیان کرتا رہتا ہوں۔ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ اپنی داخلی توانائیوں پر بھروسہ کیا جائے۔ احتیاجات اور خامیوں کی نشاندہی کی جائے اور پھر ان کے ازالے کے لئے منصوبہ بندی کی جائے۔
اب علاقائی مسائل کے تعلق سے کچھ باتیں؛ اس وقت علاقہ بڑی ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے۔ اگر اس کیفیت کا بھی باریکی سے جائزہ لیجئے تو امریکا کی ریشہ دوانیاں صاف نظر آتی ہیں۔ یہ جو سعودی حکومت صیہونی حکومت کے ساتھ اعلانیہ طور پر اظہار دوستی کرنے لگی ہے، علی الاعلان آمد و رفت ہو رہی ہے، یہ امت مسلمہ کی پشت میں خنجر گھونپنے کی مانند ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جو حرکت سعودی حکام نے کی ہے اور صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے روابط کو آشکارا کر دیا ہے تو یہ انھوں نے امت مسلمہ کی پیٹھ میں خنجر مارا ہے، انھوں نے بہت بڑی خیانت کا ارتکاب کیا ہے، وہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں، تاہم اس قضیئے میں بھی امریکیوں کا ہاتھ ہے۔ سعودی حکومت تو امریکا کی تابعدار ہے، امریکا کے ہاتھ میں ہے، امریکا کے اشاروں پر کام کرتی ہے، اس نے جب یہ نہایت احمقانہ اقدام کیا ہے تو اس میں بھی امریکا کا اہم رول ہے۔
یا اگر آپ دیکھتے ہیں کہ یمن پر تقریبا ڈیڑھ سال سے بمباری ہو رہی ہے تو یہ کوئی معمولی بات ہے؟ ایک ملک پر، صرف عسکری مراکز پر نہیں نہیں بلکہ بازاروں، اسپتالوں، رہائشی مکانات، اجتماعات، چوراہوں اور اسکولوں پر اندھا دھند بمباری کر رہے ہیں! یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا جرم ہے۔ نہ ماہ رمضان کا تقدس ان کی سمجھ میں آتا ہے، نہ ماہ حرام کا انھیں کوئی احساس ہے، نہ بچوں کا خیال ہے، کس بڑے پیمانے پر طفل کشی انھوں نے کی ہے؟! یہ بھی بہت سنگین جرم ہے جس کا ارتکاب سعودی حکومت کر رہی ہے۔ تاہم یہ جرم بھی امریکا کی پشت پناہی سے انجام پا رہا ہے، امریکا سے گرین سگنل ملنے کے بعد انجام دیا جا رہا ہے، امریکی طیاروں کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے، امریکا سے امپورٹ کئے جانے والے ہتھیاروں کے ذریعے ان جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ سارے وسائل وہی فراہم کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ بھی اگر اس بارے میں کچھ بولنا چاہتی ہے، وہ بھی ایک عرصہ دراز کے بعد ایک حق بات زبان پر لانا چاہتی ہے اور مذمت میں کچھ بولنا چاہتی ہے تو اس کا منہ پیسے سے، دھمکی سے، دباؤ سے بند کر دیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اس روسیاہ سکریٹری جنرل نے اعتراف بھی کیا اور کہا کہ مجھ پر دباؤ ڈالا گیا ہے! اگر دباؤ ڈالا گیا ہے اور آپ دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو عہدہ چھوڑ دیجئے! اس عہدے پر بنے رہ کر آپ بشریت سے خیانت کیوں کر رہے ہیں؟ یہ ساری انسانیت کے ساتھ خیانت ہے۔ اس معاملے میں بھی امریکا ملوث ہے۔
بحرین کا قضیہ دیکھئے کہ وہاں ایک غیر ملک سے فوج آتی ہے عوام پر مظالم ڈھانے کے لئے۔ یہ بھی امریکا کے ہی گرین سگنل سے ہوا ہے۔ اس وقت سعودی حکومت کا یہ حال ہے کہ اسے 'بچے' چلا رہے ہیں، واقعی احمق بچوں کے ہاتھ میں یہ حکومت ہے، تاہم مسائل کا جائزہ لیکر انسان جو نتیجہ اخذ کرتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ سب کچھ امریکا کے ذریعے اور امریکا کی پشت پناہی کے ساتھ ہو رہا ہے۔
ان تکفیری تنظیموں کی بھی یہی صورت حال ہے۔ یہ (امریکی) دعوے کرتے ہیں کہ انھوں نے تکفیری تنظیموں کے خلاف اتحاد تشکیل دیا ہے، ویسے تو انھوں نے اب بھی ان گروہوں کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی ہے، بلکہ ہمیں ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بعض اوقات وہ ان گروہوں کی مدد بھی کر رہے ہیں، تاہم ان گروہوں کی تشکیل بھی امریکا کی ہی دین ہے اور اس کا اعتراف بعض امریکا حکام نے بھی کیا ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا اور کہا کہ داعشی عناصر کی ہم نے مدد کی کہ وہ یہاں آئیں اور امت مسلمہ کے اندر اختلاف کی آگ بھی بھڑکائیں اور اموی و مروانی اسلام کی ترویج بھی کریں۔ یہ وہابی و تکفیری اسلام در حقیقت اموی اسلام اور مروانی اسلام ہے، یہ وہی اسلام ہے جو حقیقی اسلام سے کوسوں دور ہے، انھوں نے اسلام کو بدنام کیا ہے۔ البتہ اب اس آگ کی لپٹیں خود ان تک بھی پہنچ رہی ہیں۔ فارسی کا مشہور مقولہ ہے؛ «هر که باد بکارد، طوفان درو خواهد کرد» (جو ہوا بوتا ہے، طوفان کی فصل کاٹتا ہے۔) اب دھیرے دھیرے وہ اس طوفان کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ لیکن یہ خود ان کی غلطی کا نتیجہ ہے، یہ انھیں کا کیا دھرا ہے۔
دوسرے مسائل میں بھی یہی صورت حال ہے۔ امریکیوں کا دعوی ہے کہ وہ علاقے کی مشکلات کو حل کرنا چاتے ہیں، لیکن امر واقعہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ حقیقت امر یہ ہے کہ امریکا ہی مشکلات پیدا کر رہا ہے، یا ان میں شدت لا رہا ہے یا ان کے حل میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ اگر علاقے کی اقوام کے ہاتھ میں امور ہوں تو ان مشکلات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ہم اسلامی حکومتوں کو، ان عرب حکومتوں کو جو ہمارے اطراف میں ہیں، ایک بار پھر دعوت دیتے ہیں کہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ امریکا قابل اعتماد نہیں ہے۔ امریکا انھیں ہتھکنڈے اور حربے کے طور پر دیکھتا ہے، صیہونی حکومت کو تحفظ دینے کے حربے اور علاقے میں امریکا کے استکباری مفادات کی حفاظت کے ذریعے کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکا کو حقیقت میں ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی دولت استعمال کرتا ہے، ان کی توانائیوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے، حفاظتی دیوار کھڑی کرکے صیہونی حکومت کو تحفظ دینا چاہتا ہے، علاقے میں اپنے سامراجی اغراض و مقاصد کی حفاظت کرتا ہے۔ ان ملکوں سے وہ یہ کام کروا رہا ہے۔
علاقے کے مسائل کی راہ حل ہماری نظر میں یہ ہے کہ مسلمان اقوام متحد ہوں، مسلم حکومتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور استکباری اہداف اور امریکا کے عزائم نیز بعض یورپی حکومتوں کے مطالبات کے سامنے ڈٹ جائیں۔ بعض یورپی حکومتوں نے بھی امریکا کے نقش قدم پر چل کر علاقے کے عوام کی نگاہ میں خود کو گرا لیا ہے۔ بعض یورپی حکومتوں کا عوام کی نظر میں خود ہمارے ایرانی عوام کی نگاہ میں خاص احترام تھا، لیکن انھوں نے امریکا کی پیروی کرکے خود کو رسوا کر لیا۔ ان کے اہداف و مقاصد کی نشاندہی کی جانی چاہئے اور پھر ان اہداف کے سد باب کے لئے اقدام کرنا چاہئے۔ قومیں ایسا کر سکتی ہیں، ہماری قوم تو خیر ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے۔
میں آپ کی خدمت میں یہ بھی عرض کر دوں کہ ان تمام باتوں کے باوجود علاقے میں امریکا روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے منصوبے طشت از بام ہوتے جا رہے ہیں، سب کو معلوم ہو گیا ہے کہ وہ کس فکر میں ہے۔ وہ مختلف ملکوں کے امور میں مداخلت کے در پے ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف ہم سے دشمنی کا برتاؤ کر رہا ہے اور دوسروں سے اس کی بڑی دوستی ہے۔ نہیں، آپ نے ترکی میں دیکھا۔ البتہ ابھی ہماری نظر میں اس کے ثبوت نہیں ہیں، لیکن محکم الزام ہے کہ ترکی میں جو فوجی بغاوت ہوئی وہ امریکیوں کی پشت پناہی اور ان کی تدابیر سے ہوئی ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے تو امریکا کے لئے بڑی رسوائی کی بات ہوگی۔ ترکی وہ ملک ہے جس کے امریکا سے اچھے تعلقات تھے، وہ خود کو امریکا کا علاقائی اتحادی کہتا تھا۔ لیکن ان کی ترکی سے بھی نہیں بن سکی۔ اس لئے کہ اس ملک میں اسلامی رجحان موجود ہے۔ امریکا اسلام کا دشمن ہے۔ اسلامی رجحان کا دشمن ہے۔ لہذا اس ملک میں بھی فوجی بغاوت کرواتا ہے۔ البتہ اس بغاوت کو کچل دیا گيا، باغیوں پر غلبہ حاصل کر لیا گيا ہے اور وہ ترک عوام کی نگاہ سے بھی گر گئے۔ دوسری جگہوں پر بھی یہی صورت حال ہے۔ عراق میں بھی، شام میں بھی، اسی طرح دوسرے خطوں میں بھی امریکا روز بروز زیادہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
اگر ہم ایرانی عوام اللہ کے وعدے پر یقین رکھیں اور اس کی تکمیل کے مقدمات فراہم کریں تو مشکلات دور ہو جائیں گی۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ: اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم (۵) اگر تم دین خدا کی نصرت کرو گے، الہی عزائم کو مستحکم بناؤں گے اور مدد کروگے تو یقینا اللہ تعالی بھی تمہاری نصرت فرمائے گا اور جس کی مدد اللہ کرتا ہے، دنیا کی کوئی بھی شئے اسے کمزور نہیں بنا سکتی، روز بروز اس کی طاقت بڑھتی ہی جائے گی اور اسے فتح ملے گی۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ملت ایران کو تمام میدانوں میں، اقتصادی میدان میں، عسکری میدان میں، سیاسی میدان میں، ثقافتی میدان میں، علمی میدان اور سیکورٹی کے میدان میں فتحیاب کرے اور آپ عزیز ملت ایران کو کامیاب و کامران بنائے۔

و السّلام‌ علیکم‌ و رحمة الله و برکاته

۱) سوره‌ احزاب، آیت نمبر۲۳ کا ایک حصہ؛ «مومنین میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنھوں نے اللہ سے کیا ہوا میثاق سچ کر دکھایا۔»
۲) سوره‌ توبه، آیت نمبر۳۶ کا ایک حصہ؛ «... ان (بارہ مہینوں) میں سے چار مہینے (ماہ) حرام ہیں۔»
۳) حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے ذاکرین اہل بیت سے خطاب مورخہ 9 اپریل 2015
۴) سوره‌ ابراهیم، آیت نمبر22 کا ایک حصہ
۵) سوره‌ محمّد، آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ