28 ستمبر 2016کو شہید ستاری ایروناٹیکل یونیورسٹی کی تقریب سے خطاب میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ آج ملت ایران اسلام، خود مختاری، اپنے اعلی اقدار اور دین خدا کی حکمرانی کے اپنے موقف پر کاربند رہنے کی وجہ سے دشمنوں کے ایک وسیع محاذ کا سامنا کر رہی ہے، چنانچہ ملک کی مسلح فورسز کو چاہئے کہ ضرورت کے وقت اپنا کردار ادا کرنے کے لئے ہمیشہ خود کو تیار رکھیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے نوجوان، مومن اور کارساز فورسز کو ملک کا بہت بڑا اور حقیقی سرمایہ قرار دیتے ہوئے مقدس دفاع کے دور کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ مقدس دفاع کا زمانہ بہت سخت آزمائش کا زمانہ تھا، جس میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کا جوہر آشکارا ہوا اور فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں بڑے نمایاں اور درخشاں کارنامے انجام پائے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ مسلح فورسز کی کیڈٹ یونیورسٹیوں کے اندر ایک بہت ضروری کام مقدس دفاع کے دور سے نوجوان فوجیوں کو روشناس کرانا اور ان حالات سے آگاہ کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آٹھ سالہ جنگ در حقیقت ایک بین الاقوامی جنگ اور ملت ایران کے انقلاب اور اسلامی نظام، نیز اقدار، تشخص اور سرحدوں پر دنیا کی تمام بڑی طاقتوں اور علاقے اور دنیا میں ان طاقتوں کے آلہ کاروں کا حملہ تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شہید صیاد شیرازی اور شہید بابائی جیسے عظیم کمانڈروں کی قربانیوں، شجاعت اور جانفشانی کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ آج دوست و دشمن سمیت ساری دنیا دل و زبان سے ملت ایران کی قوت، شجاعت، عظمت اور فراست کی معترف ہے۔
بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین‌

میں آپ تمام عزیز جوانوں کو اور ملک کے مستقبل کی امیدوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز میں نئے نئے شامل ہونے والے کیڈٹس کو بھی اور فارغ التحصیل ہوکر اپنی خدمات کے آغاز کا آج جشن منانے والے جوانوں کو بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ جیسا کہ آپ نے اپنے حلف نامے میں کہا اور ہم نے سنا کہ یہ وہ راستہ ہے جس کا انجام بہت اچھا ہے۔ واقعی بہترین منزل تک لے جانے والے راستوں میں ایک راستہ یہی ہے جس کا آپ نے انتخاب کیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی یونیورسٹیوں کے کمانڈروں کا شکریہ ادا کرنا لازمی سمجھتا ہوں، ان یونیورسٹیوں میں بڑی وسعت پیدا ہوئی ہے۔ اوائل انقلاب میں ہمارے پاس صرف ایک ہی کیڈٹ یونیورسٹی تھی۔ لیکن آج متعدد کیڈٹ یونیورسٹیاں مختلف میدانوں میں مشغول کار اور مصروف تربیت ہیں۔ ان یونیورسٹیوں کے کمانڈروں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی تینوں افواج کے کمانڈروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اساتذہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، خاص طور پر ان اساتذہ کا جو ان کورسز میں مصرف تدریس ہیں۔ علمائے کرام کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو ان عزیز جوانوں کی دینی تربیت کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں اور فوجی جوانوں کی کیمپنگ میں، کلاسوں میں اور نشستوں میں جذبہ اخلاص کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔ آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
جو راستہ آج آپ عزیز نوجوانوں نے چنا ہے، یہ بڑا با برکت راستہ ہے اور آپ نے اس راستے کا انتخاب کرکے اپنے وطن عزیز کے لئے ایک سرمایہ تیار کیا ہے۔ آپ نوجوان حقیقت میں ملک کے لئے عظیم سرمایہ ہیں۔ کسی بھی ملک کے پاس مومن، کارآمد، حریت پسند اور سرفراز افرادی قوت سے زیادہ گراں قیمت اور اہم کوئی اور سرمایہ نہیں ہے۔ آج آپ اس عظیم نعمت کے مصداق ہیں، اس کی قدر کیجئے۔
ہمارے آج کے نوجوانوں نے مسلط کردہ جنگ کا زمانہ نہیں دیکھا ہے۔ اس میدان میں موجود آپ تمام یا اکثر عزیز نوجوان ایسے ہیں جو مسلط کردہ جنگ ختم ہو جانے کے بعد پیدا ہوئے۔ مقدس دفاع کا زمانہ بڑا عجیب زمانہ تھا، بڑا اہم دور تھا، سخت آزمائشوں کا دور تھا۔ آزمائش و امتحان کا موقع در پیش ہو تب عظیم اور سخت کوش افراد اپنے جوہر دکھاتے ہیں، ایسے ہی مواقع پر اصلی جوہر نکھرتے ہیں۔ مقدس دفاع کے زمانے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کا جوہر دکھائی دیا۔ فوج نے مختلف شعبوں میں اپنے افراد کی مدد سے بڑے درخشاں اور عظیم کارنامے انجام دئے۔ آپ نے مقدس دفاع کا نام سنا ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں، اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے اندر اور خاص طور پر مسلح فورسز میں ایک بہت ضروری کام جو انجام دیا جانا چاہئے، مقدس دفاع کے حالات سے کیڈٹس کو زیادہ سے زیادہ روشناس کرانا ہے۔ مقدس دفاع کا زمانہ کوئی معمولی زمانہ نہیں تھا، عام دور نہیں تھا۔
مسلح فورسز برسوں روز مبادا کی تیاری کرتی ہیں۔ وہ روز مبادا تب آتا ہے جب ان کے ملک، ان کی قوم، ان کی سرحد اور ان کے تشخص پر حملہ ہو جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر مسلح فورسز دفاع کے لئے پہلی صفوں میں کھڑی نظر آتی ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا امتحان دیتی ہیں۔ مقدس دفاع کے زمانے میں ملک کی ہر چیز پر حملہ ہوا تھا۔ صرف ملک کی سرحدوں پر حملہ نہیں ہوا تھا، بلکہ ملک کے قومی تشخص پر بھی حملہ ہوا تھا، ملک کے اسلامی نظام حکومت پر، ملت ایران کے عظیم انقلاب پر، ان اقدار پر جنھیں اس عظیم قوم نے اپنایا تھا، حملہ ہوا، سب پے حملہ ہوا تھا۔ ہمارے مد مقابل صرف صدام کی بعثی حکومت نہیں تھی، حقیقت میں یہ ایک عمومی جنگ تھی، ملت ایران کے خلاف یہ ایک بین الاقوامی جنگ تھی۔ نیٹو بھی عراق کی مدد کر رہی تھی، امریکا بھی مدد کر رہا تھا، اس زمانے کا سوویت یونین بھی مدد کر رہا تھا۔ رجعت پسند عرب حکومتیں، مالی مدد کر رہی تھیں، اپنے پیٹرو ڈالر اس پر پانی کی طرح بہا رہی تھیں۔ تشہیراتی ذرائع جو صیہونیوں کے قبضے میں تھے اور آج بھی ہیں، ساری دنیا میں، شب و روز انھیں کے مفاد میں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ اس عظیم معرکے میں، اس قیامت کبری میں، ملت ایران کے پاس جو عظیم طاقت تھی وہ تھی ایمان کی طاقت، استقامت کی طاقت، اللہ پر توکل کی طاقت، روح اللہ (امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ) پر اعتماد کی طاقت، سارے دشمنوں کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز نے قیام کیا۔ اسی کو اللہ کی خوشنودی کے لئے قیام کرنا کہتے ہیں۔؛ اَن تَقوموا للهِ‌ِ مَثنی و فُرادی‌ (۲)، انھوں نے قیام کیا، میدان میں قدم رکھا، اپنی جان کی بازی لگا دی، اپنی توانائیوں کو استعمال کیا۔
میرے عزیزو! میرے عزیز نوجونو! یہ آپ کی گزشتہ نسل تھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بعد آپ آئے ہیں اور آپ ان کے افتخارات کے وارث ہیں۔ اس زمانے میں فوج عوام کے نزدیک اتنی مقبول نہیں تھی۔ شہید صیاد شیرازی اور شہید بابائي جیسی عظیم شخصیتوں اور فوج کے افسروں نے اپنی ان قربانیوں کے ذریعے اور دشمن سے مقابلے کے لئے میدان جنگ میں اپنے تمام وجود سے لڑنے والے دلیروں نے یہ افتخارات حاصل کئے ہیں۔ انھوں نے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کو یہ عوامی مقبولیت دلائی۔ میں نے قریب سے ان کی مجاہدتوں کا مشاہدہ کیا ہے، میں نے دیکھا ہے کہ انھوں نے کیا کارنامے انجام دئے۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہ کس طرح اپنی جان پر کھیل جاتے تھے اور اپنا سب کچھ قربان کر دیتے تھے۔
میرے عزیزو! خود کو آراستہ کیجئے، خود کو آمادہ کیجئے! علمی و فنی اعتبار سے بھی آمادہ کیجئے، محکمہ جاتی اور انتظامی اعتبار سے بھی خود کو آمادہ کیجئے، اسی طرح ایمانی، فکری اور عقیدتی اعتبار سے خود کو آمادہ کیجئے جو ان تمام چیزوں کا سرمایہ ہے۔ اس راہ میں اپنے دلوں کو اللہ سے متصل کیجئے۔ آپ کا ملک بہت بڑا ملک ہے، بہت اہم ملک ہے، بڑا عظیم ملک ہے، آپ کی قوم دانشمند، شجاع اور مقتدر قوم ہے۔ یہ صرف ہم نہیں کہہ رہے ہیں، آج ساری دنیا اور وہ تمام لوگ جو باخبر ہیں اس کے معترف ہیں۔ یہ بات سب اعلانیہ طور پر کہتے ہیں، دشمن طاقتیں زبان سے اعتراف تو نہیں کرتیں، لیکن دل ہی دل میں وہ بھی اس حقیقت کو مانتی ہیں اور متعدد مواقع پر ان کی یہ سوچ آشکارا بھی ہوئی اور ہمیں اس کی اطلاع بھی ملتی رہتی ہے۔ یہ ملک اپنی آزاد پالیسیوں کی وجہ سے، اپنے جذبہ ایمانی کی وجہ سے، اسلام پر گہرے عقیدے کی وجہ سے، روئے زمین پر اور سماج میں دین خدا کی حکمرانی کے اپنے نظرئے کی وجہ سے، اپنے مد نظر اعلی اقدار کی وجہ سے دشمنوں کے بہت بڑے محاذ کا سامنا کر رہا ہے جو اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے۔ البتہ تقریبا چالیس سال سے وہ حملے کر رہے ہیں اور بار بار ہزیمت اٹھا رہے ہیں۔ تاحال وہ ناکام ہی رہے ہیں، آئندہ بھی توفیق خداوندی سے وہ ناکام ہی ہوتے رہیں گے۔ دشمن کو شکست دینے کے اس عمل میں آپ حقیقی معنی میں اپنا کردار ادا کیجئے۔ آپ خودسازی کیجئے۔ میں محترم اساتذہ سے اور علمائے کرام سے جو ان پاکدل اور عزیز نوجوانوں پر کام کر رہے ہیں، درخواست کروں گا کہ حتی المقدور یہ کوشش کریں کہ ان کے ذاتی تجربات، ان کی علمی، روحانی اور فکری آمادگی ان نوجوانوں میں منتقل ہو جائے۔ توفیق الہی سے اور لطف پروردگار سے مستقبل میں آپ لوگ بڑی شخصیات میں تبدیل ہو جائیں گے اور ان شاء اللہ وطن عزیز آپ پر افتخار کرے گا، اگر آپ محنت سے کام کریں گے۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب کرے، آپ کے آنے والے کل کو آج سے بہتر قرار دے۔ ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ توفیق الہی سے اس ملک کا مستقبل، حال سے بدرجہا بہتر ہوگا۔ امام زمانہ علیہ السلام کا اسم مبارک ہماری محفل اور ہماری گفتگو کی زینت اور برکت ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ حضرت کے دعائیں ہمارے شامل حال ہوں۔ ہمارے شہدا اور ہمارے بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) ہماری کارکردگی سے رضامند ہوں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) اس تقریب کے آغاز میں جو شہید ستاری ایروناٹیکل انجینیئرنگ یونیورسٹی میں منعقد ہوئی اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل عطاء اللہ صالحی اور شہید ستاری ایروناٹیکل انجینیئرنگ یونیورسٹی کے کمانڈر جنرل مہدی ہادیان نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔
۲) سوره‌ سبأ، آیت نمبر ۴۶ کا ایک حصہ «...دو دو کرکے اور اکیلے، اللہ کے لئے اٹھ کھڑے ہو۔...»