رہبر انقلاب اسلامی نے 24 اگست 2016 کو ہفتہ حکومت کی مبارکباد پیش کی اور سابق صدر اور وزیر اعظم شہید رجائی اور شہید با ہنر کو اخلاص عمل، محنت و لگن اور عوام دوستی کا نمونہ قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس طرح کی عظیم ہستیوں کو شہید کرنے والے روسیاہ منافقین کو پاک صاف ظاہر کرنے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کا مقام ہے کہ بعض لوگ ان مجرموں کو جنھوں نے ممتاز شخصیات سے لیکر عوام الناس تک ہزاروں انسانوں کو شہید کیا، مظلوم ظاہر کرنے اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نورانی چہرے کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ خبیث اور موقع پرست عناصر کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر پائیں گے اور انھیں ایک بار پھر شکست کا سامنا ہوگا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت اور کابینہ کے بعض ارکان کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ رپورٹیں بہت اچھی تھیں، عوام کو ان سے مطلع کیا جانا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایٹمی معالے میں امریکیوں کی وعدہ خلافی سے تجربہ حاصل کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ امریکا کی کسی بھی حکومت کے وعدے پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور ان کے وعدوں کے جواب میں کوئی عملی اقدام نہیں کرنا چاہئے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ایٹمی معاہدے کے مسئلے میں میری نکتہ چینی فریق مقابل کی عہد شکنی اور خباثت پر ہے، یہ ہمارے اپنے لوگوں پر اعتراض نہیں ہے، کیونکہ ہمارے مذاکرات کاروں نے اپنی توانائی بھر دن رات محنت کی اور ہم ان زحمتوں کی قدر کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سیکورٹی کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے لطف اور عسکری و سیکورٹی فورسز کی قابل قدر زحمتوں کی وجہ سے ہمارا ملک ایک محکم سیکورٹی ڈھال سے آراستہ ہے جبکہ علاقے کے ممالک میں بدامنی پھیلی ہوئی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سائیبر اسپیس کے بارے میں کہا کہ یہ ایسی دنیا ہے جس کی وسعت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، اس سے جہاں بہت سے مواقع ہاتھ آتے ہیں وہیں بہت سے اندیشے اور خطرات بھی جنم لیتے ہیں، چنانچہ مواقع کو بنحو احسن استعمال کیا جائے اور خطرات کا مقابلہ کیا جائے۔
اس ملاقات میں صدر روحانی نے بھی اپنی تقریر میں حکومت کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے اقتصادی ثبات و استحکام کے ماحول کو اپنی حکومت کی تین سالہ کارکردگی کی سب سے اہم کامیابی قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

 

بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاه و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین

ہفتہ حکومت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں کابینہ کے تمام محترم ارکان کو، محترم صدر جمہوریہ، آپ کے معاونین، محترم وزرا اور مجریہ کے تمام ارکان کو۔ صدر مملکت نے بالکل بجا فرمایا کہ ہفتہ حکومت کا تعلق، پورے ملک کی سطح پر پھیلی مجریہ سے ہے۔ اللہ تعالی آپ کی زحمتوں کو قبول فرمائے اور ان اقدامات کے عوض خیر و برکت کے ثمرات سے نوازے۔
اپنے عزیز شہیدوں رجائی (صدر مملکت محمد علی رجائی) باہنر (وزیر اعظم محمد جواد باہنر) کو یاد کرنا چاہوں گا۔ صدر مملکت نے بجا طور پر فرمایا کہ یہ دونوں حقیقت میں نمونہ عمل تھے مختلف پہلوؤں سے؛ اخلاص عمل کے اعتبار سے بھی، محنت و لگن کے اعتبار سے بھی۔ البتہ انھیں موقع نہیں مل پایا کہ وہ چند سال خدمت کرتے، لیکن 'سالی کہ نکوست از بھارش پیدا است' (جو سال اچھا ہوتا ہے اس کا اندازہ اس کے موسم بہار سے ہی ہو جاتا ہے۔) جو کام انھوں نے کیا، خاص طور پر مرحوم رجائی نے جنھیں کچھ زیادہ وقت بھی ملا، اس سے ثابت ہو گیا کہ کام اسی طرح آگے بڑھتا ہے۔ اخلاص، گہری دلچسپی، عوام دوستی اور بے تکان کام، انھیں جیسی چیزوں سے۔ اللہ کی لعنت ہو جرائم پیشہ منافقین پر کہ جن کے ہاتھوں یہ دونوں عزیز ہستیاں خاک و خوں میں غلطاں ہوئیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج بعض مغربی حلقے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ان روسیاہ عناصر کو پاک صاف ظاہر کریں، منافقین کو مظلوم ظاہر کریں اور ان کے لئے ہمدردی کا ماحول پیدا کریں۔ البتہ ان حلقوں کو کامیابی نہیں ملے گی۔ جنھوں نے ملک کے اندر ہزاروں لوگوں کا خون بہایا ہے۔ امام جمعہ و جماعت سے لیکر بازار کے تاجر تک، اسٹوڈںٹ سے لیکر سیکورٹی افسران تک، روزہ افطار کرنے دسترخوان پر بیٹھے خاندان تک اسی طرح دوسرے ہزاروں افراد کو، ان کی صحیح تعداد مجھے یاد نہیں ہے، یہاں تک کہ ملکی عمائدین کو، شہید بہشتی جیسی ہستی کو، اس زمانے کی اس عظیم شخصیت کو شہید کر دیا، ان دو عظیم ہستیوں کو شہید کر دیا اور آج کچھ خبیث سیاسی چہرے خواہ وہ بیرون ملک ہوں یا ان سے قلبی وابستگی رکھنے والے وہ افراد جو ملک کے اندر ہیں، ان کی کوشش ہے کہ ان مجرمین کو بے گناہ ظاہر کریں، ان کی شبیہ کو سدھاریں اور انھیں مظلوم ظاہر کریں اور دوسری جانب امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی نورانی و مبارک شبیہ کو مسخ کریں۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی شبیہ مسخ ہونے والی نہیں ہے۔ بلا شبہ ان عناصر کو اپنی اس کوشش میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
میں اس موقع پر واقعی دل سے حکومت کی زحمتوں اور خدمات کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ آج آپ حضرات کی رپورٹیں بہت اچھی تھیں، صدر محترم کی رپورٹ بھی بہت اچھی تھی، محترم نائب صدر کی رپورٹ بھی بہت اچھی تھی، وزرا کی رپورٹیں بھی بہت اچھی تھیں۔ ان رپورٹوں میں بڑی اچھی باتیں اور نکات تھے۔ مناسب ہوگا کہ یہ باتیں عوام کے کانوں تک پہنچیں اور ان کے سامنے پیش کی جائیں۔ جیسا کہ اشارہ کیا گیا ہمارا اصلی سرمایہ اور پونجی تو عوام ہی ہیں۔ عوام کا اعتماد اور عوام کی امیدیں تمام حکومتوں کے لئے مددگار رہی ہیں۔ ہمیں اس پونجی کی ضرورت ہے۔ ان رپورٹوں کو قومی میڈیا کے ذریعے منعکس کیا جائے اور دوسرے افراد بھی انھیں بیان کریں۔ میں آپ حضرات کی اس محنت و مشقت کی قدردانی کرتا ہوں۔
ملک چلانا بہت دشوار کام ہے۔ اگر مثبت کام انجام پائے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خامیاں نہیں ہیں، مشکلات نہیں ہیں، مختلف شعبوں میں انجام پانے والے کام میں کوئی نقص نہیں ہے۔ کیوں نہیں، کمزوریاں اور خامیاں بھی ہیں، لیکن بہرحال ملک چلانا آسان کام نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کبھی کبھی کچھ لوگ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور مختلف شعبوں کی صورت حال کے تعلق سے شکایتیں کرتے تھے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) یہی جملہ کہتے تھے کہ جناب ملک چلانا بہت دشوار کام ہے۔ ہمیشہ اسی ایک جملے پر اکتفا کرتے تھے۔ یہ حقیقت بھی ہے۔ میں صدر مملکت بھی رہ چکا ہوں، لہذا مجھے معلوم ہے۔ اسی طرح مختلف حکومتوں کی کارکردگیوں سے بھی باخبر ہوں۔ واقعی بہت دشوار کام ہے۔ ملک بھر میں یہ وسیع پیمانے پر گوناگوں قسموں کے کام، عوام کی توقعات جن میں بعض بجا اور بعض ممکنہ طور پر بے جا توقعات، خرابیاں اور وہ مشکلات جو طاغوتی (شاہی) دور سے یونہی جمع ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ ظاہر ہے ان چیزوں کی وجہ سے کام زیادہ دشوار ہو جاتا ہے۔ کچھ خامیاں موجود ہیں۔ اس تعلق سے جو اقدامات ہونے چاہئے ان کے بارے میں، میں ابھی عرض کروں گا، کچھ نکات بیان کروں گا۔ چند عناوین کے تحت ذکر کروں گا۔ تاہم جو کام انجام پا رہا ہے وہ بھی بہت غنیمت ہے۔
دن بھی تیز رفتاری سے گزرتے جا رہے ہیں۔ اس سال کی یہ ملاقات غالبا آپ سے ہماری چوتھی ملاقات ہے۔ پہلی ملاقات آج کے ہی کے دن ہوئی تھی۔ وقت تو اسی طرح گزرتا ہے۔ زندگی اسی طرح بیت جاتی ہے، بہت تیزی سے گزر جاتی ہے۔ ان ایام اور لمحات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیجئے۔ میں جناب روحانی کی حکومت سمیت سبھی حکومتوں کے ٹرم کے پہلے سال میں یہ بات عرض کرتا آیا ہوں کہ پلک جھپکتے یہ مدت ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ چار سال کی مدت کم نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھئے کہ تاریخ میں 'امیر کبیر' نام کی ایک شخصیت ہے، جو بہت درخشاں شخصیت ہے۔ انھیں تین سال کے لئے عہدہ ملا تھا۔ لہذا تین سال اور اس طرح کی جو مدتیں ہیں وہ بھی اپنے آپ میں ایک اہم دورانیہ ہے۔ اس طرح چار سالہ مدت کم نہیں ہے۔ یہ جو ایک سال باقی رہ گیا ہے یہ بھی اسی طرح ہے۔ اس حکومت کی عمر کا یہ باقی ماندہ ایک سال بھی اسی طرح ایک سال کا دورانیہ ہے جو اپنے آپ میں اہم ہے، اس ایک سال میں بھی ہر دن کوئی نہ کوئی کام انجام دیا جا سکتا ہے، منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ ٹرم کے آخری دن تک آپ تمام حضرات اس موقع سے استفادہ کریں اور آخر تک کام کریں۔ یعنی یہ نہ سوچئے کہ اب تو یہ حکومت ختم ہونے والی ہے، کل کو میں اس عہدے پر رہوں گا یا نہیں، کچھ معلوم نہیں ہے۔ اس طرح بالکل نہیں سوچنا چاہئے۔ آخری دن اور آخری لمحات تک کام کرنا چاہئے۔
فروعی مسائل میں الجھنے سے بھی بچئے۔ جو یہ چند مہینے رہ گئے ہیں، یہ ایسے چند مہینے ہیں کہ ان میں بتدریج انتخابی مقابلے کا ماحول پیدا ہوگا۔ یعنی انتخاباتی باتیں، پرچار اور اس طرح کے سیاسی مسائل پیش آئیں گے۔ مخالفین کچھ کہیں گے، موافقین بھی کچھ بولیں گے۔ یہ چیزیں آپ کا دھیان کام سے نہ ہٹائیں۔ آپ ان چیزوں پر بالکل توجہ نہ کیجئے۔ اپنا کام کرتے رہئے۔ حکومت کے لئے بہترین تشہیر اور پروپیگنڈا اس کا کام ہے۔ یعنی اگر آپ تشہیراتی مہم کے تحت ہزار باتیں کہہ ڈالیں اور دوسری طرف کوئی اچھی کارکردگی پیش کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو عوام کے درمیان یہی ایک اچھا کام ان ہزار باتوں سے زیادہ اثر انگیز ثابت ہوگا۔ یعنی اگر عوام دیکھیں اور محسوس کریں تو یہ حکومت کا بہترین پرچار ہوگا۔ تو آپ فروعی باتوں میں الجھنے کے بارے میں سوچئے بھی نہیں۔
یہ ہفتہ حکومت کا موقع بڑا اچھا موقع ہے ان مفکرین اور اہل قلم کے لئے بھی جو حکومت سے باہر ہیں، اسی طرح حکومت میں شامل افراد کے لئے بھی یہ جائزہ لینے اور پرکھنے کا اچھا موقع ہے۔ خود احتسابی کریں، اپنے کام کا خود جائزہ لیں۔ بَلِ الاِنسانُ عَلى نَفسِهِ بَصیرَه [۲] تمام اداروں کے سربراہان اپنے کام کا تخمینہ دوسروں سے بہتر انداز میں لگا سکتے ہیں۔ ہم نے جو کچھ کیا ہے جب اس کو بیان کرتے ہیں تو ظاہر ہے بیان ایک الگ چیز ہے، کبھی ہم کچھ دعوے کر دیتے ہیں، لیکن بعد میں جب خود اپنے ذہن کو ٹٹولتے ہیں تو دیکھتے ہیں نہیں ہم خود بھی اپنے اس دعوے سے مطمئن نہیں ہیں۔ یعنی یہ خود احتسابی میری نظر میں بہت ضروری ہے۔ باہر جو ماہرین اور مفکرین ہیں وہ بھی حکومت کے کاموں اور کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر کوئی تنقید کرتا ہے تو اس میں کوئي نقصان نہیں ہے، کوئی حرج نہیں ہے، مگر تنقید منصفانہ ہونی چاہئے۔ تنقید کا مطلب ہے خامیوں کی نشاندہی کرنا اور انھیں دور کرنے کے طریقوں اور گرہیں کھولنے کی روشوں کی جانب رہنمائی۔ صحتمند تنقید یہی ہے۔ یہ میری نظر میں بہت اچھی چیز ہے۔
میں اس پر تاکید کرنا چاہتا ہوں اور اسے ایک بار پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ اپنی باتیں آپ عوام کے سامنے رکھئے، جو کام انجام دئے ہیں ان سے عوام کو مطلع کیجئے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہونا چاہئے۔ یعنی وہی بیان کیجئے جس کی بابت آپ مطمئن ہیں، اسے آپ عوام کے سامنے ذکر کیجئے۔ یہ صادقانہ بیان، یہ حقیقت بیں بیان عوام کو متاثر کرے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
میں نے کچھ موضوعات نوٹ کئے ہیں جن کے بارے میں گفتگو کرنی ہے، البتہ آپ حضرات نے بھی اپنی رپورٹوں میں بعض موضوعات کا ذکر کیا ہے۔
پہلا موضوع اقتصاد سے متعلق ہے۔ جیسا کہ ابھی اشارہ بھی کیا گيا۔ ہماری نظر میں ملک کا اولیں مسئلہ ہے اقصاد، اقتصادی مسائل، اقتصادی مشکلات اور اقتصادی پیچیدگیاں، انھیں حل کیا جانا چاہئے۔ استقامتی معیشت کی کمانڈ کی کارکردگی کی بہت اچھی رپورٹ جناب ڈاکٹر جہانگیری (نائب صدر) نے پیش کی ہے۔ اب یہ جو آپ نے فرمایا کہ میرے اختیارات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے تو یہ میرے لئے اچھی خبر نہیں ہے۔ میری توقع یہ ہے کہ انھیں واقعی کمانڈ سونپی جائے۔ صدر محترم کو بھی چاہئے کہ ان پر پوری طرح اعتماد کریں۔ ہمیں تو ان پر اعتماد ہے، لہذا ان کو یہ موقع ملنا چاہئے کہ حقیقت میں کمانڈ سنبھالیں، کیونکہ جو کام انجام پائے ہیں، ان کے بارے میں کچھ نکات ہیں جو ابھی عرض کروں گا۔ میں نے یہ رپورٹ دیکھی۔ رپورٹ اچھی ہے۔ تقریبا دو سو پروجیکٹ، پیداوار کے فروغ کے لئے پروگرام اور پیکج، ڈھائی ہزار ادھورے پروجیکٹ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنا، یہ ساری چیزیں اس رپورٹ میں ذکر کی گئی ہیں، یہ بہت اہم بھی ہیں۔ یہ ایسے کام ہیں جنھیں پیش کیا جانا چاہئے، لیکن اس سلسلے میں کچھ اہم نکات ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ پروجیکٹوں کے یقینی طور پر عملی جامہ پہننے پر نظر رکھئے۔ اگر ہم نے کوئی فیصلہ کر لیا، نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا، مگر کام کے آخر تک لگے نہ رہیں اور چشمے سے نکلنے والے اس پانی کو کھیت تک نہ پہنچائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کام ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ کام پورا تب ہوگا جب وہ سارے کام جو جناب عالی نے اور ان کے ماتحت افراد نے استقامتی معیشت کی کمانڈ کے امور کے تعلق سے انجام دئے ہیں، پورے ہو جائیں۔ اس وقت تک مصروف کار رہنا چاہئے، امور کی ایک ایک قدم کی پیشرفت پر نظر رکھنا چاہئے۔ یہ پہلا موضوع ہے جو میری نظر میں بہت اہم ہے، اسے انجام دیا جانا چاہئے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ملک میں اقتصادی شعبے میں بہت بڑے پیمانے پر سرگرمیاں انجام پا رہی ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی اور سرکاری سیکٹر میں بھی اقتصادی سرگرمیاں بہت بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ حکام کو چاہئے کہ اپنی پوری کوشش کریں کہ یہ سرگرمیاں، استقامتی معیشت کی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہو جائیں۔ اگر کوئی ایسا کام ہو رہا ہے جو ان پالیسیوں سے ہم آہنگی نہیں رکھتا تو اسے روک دیا جانا چاہئے۔ یعنی یہ واقعی بڑا بنیادی کام ہے۔ حقیقی اقتصادی میدان میں واقعی بہت کام ہو رہا ہے۔ کچھ کام ایسے ہیں جو ان پالیسیوں سے ہم آہنگ ہیں، مگر بعض کام ہم آہنگ نہیں ہیں۔ جو کام ہم آہنگ ہیں ان کی ترویج کی جانی چاہئے اور جو ہم آہنگ نہیں ہیں ان کا سد باب کیا جانا چاہئے، یا کم سے کم ان کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایسے کاموں کی مدد نہ کی جائے۔ ایک دو معاملات جو زیر بحث تھے ان کے تعلق سے میں نے جناب حجازی کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ جو معاملات زیر بحث ہیں استقامتی معیشت کی پالیسیوں میں ان کی جگہ کہاں ہے؟ یہ جواب ضرور تیار رہنا چاہئے۔ یعنی جو بھی کام انجام دئے جا رہے ہیں، وہ جناب عالی نے اور حکومتی ٹیم نے جو پالیسیاں تیار کی ہیں ان سے ہم آہنگ ہونا چاہئے۔
تیسرا نکتہ؛ تمام ملکی توانائیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے۔ البتہ خوشی کی بات ہے کہ ابھی اشارہ کیا اور حال ہی میں جناب حجتی صاحب (3) کے ساتھ ایک ملاقات تھی، جناب نعمت زادہ (4) کے بیان اخبارات وغیرہ میں نظر آتے رہتے ہیں، سننے میں آتا ہے۔ آج ان حضرات کی رپورٹ ہم نہیں سن سکے۔ خاص طور پر صنعت و زراعت کے بارے میں۔ بہت سی توانائياں ہیں جنھیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ غیر معمولی قسم کی استعداد اور صلاحیتیں موجود ہیں۔ زراعت اور جنگلات کے بارے میں مجھے ایک بات کہنی ہے جو بعد میں جناب حجتی صاحب سے عرض کروں گا۔ ان سے نجی طور پر عرض کروں گا۔
چوتھا نکتہ ہے ماحول سازی سے متعلق۔ آپ دیکھئے کہ جناب ڈاکٹر ستاری نے اپنی گفتگو میں سائنس، نالج بیسڈ معیشت اور نالج بیسڈ کمپنیوں جیسے امور پر زور دیا اور بتایا کہ یہ سب کچھ دس بارہ سال کے اندر کی گئی ماحول سازی کا نتیجہ ہے، بعض دیگر احباب نے بھی یہ بات کہی۔ یعنی جب سائنس و ٹیکنالوجی کی حدود کو توڑ کے ان سے آگے بڑھنے، علمی مہم اور جدید علوم کی پیداوار کی بات ہوتی ہے، اس پر کام ہوتا ہے، یونیورسٹیوں میں بحث ہوتی ہے اور ماحول تیار ہو جاتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ میں یہاں بیٹھ کر طلبہ اور اساتذہ سے ملاقات میں سنتا ہوں کہ جو باتیں ہم پہلے کہہ چکے ہیں، وہی باتیں آج ان کی زبان پر ہیں اور وہ انھیں چیزوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ ہے ماحول سازی۔ یہ بہت اچھی چیز ہے۔ جب یہ تیاریاں پوری ہو جاتی ہیں تو اس طرح علمی پیشرفت حاصل ہوتی ہے۔
ہم اس وقت خلائی شعبے میں، ایٹمی ٹیکنالوجی کے میدان میں، نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں، بایو ٹیکنالوجی کے شعبے میں، اسی طرح دوسرے گوناگوں میدانوں میں کافی پیشرفت کر چکے ہیں۔ بڑی اہم پیشرفت ہم نے حاصل کی ہے۔ یہ پیشرفت اسی ماحول سازی کا نتیجہ ہے۔ جب ماحول سازی ہو جاتی ہے تو سب اس فکر میں لگ جاتے ہیں۔ یعنی سب کے اندر ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ گویا ایک وسیع و عریض شاہراہ تیار ہو جاتی ہے جس پر ہر ایک سفر کرنا چاہتا ہے۔ لہذا ماحول سازی اور ذہن سازی بہت ضروری ہے۔ البتہ استقامتی معیشت کا لفظ بار بار دہرانے اور زبان پر لانے سے ماحول سازی نہیں ہوگی۔ ایسا نہ ہو کہ بار بار دہرانے کے نتیجے میں اس لفظ میں کوئی کشش باقی نہ رہے۔ اس کے بجائے تشریح کے ذریعے اور بیان کے ذریعے اسے پیش کیا جانا چاہئے۔
اس کے بعد جو نکتہ ہے وہ میں جناب جہانگیری صاحب سے عرض کرنا چاہوں گا کہ استقامتی معیشت میں توقع یہ ہے کہ ایک جست اور چھلانگ نظر آئے۔ آپ دیکھئے کہ سسٹم اور حکومت کے کچھ دائمی کام ہوتے ہیں، اقتصادی میدانوں میں معمول کے کام انجام پا رہے ہیں، اقتصاد سے وابستہ ان کئی وزارت خانوں کے مختلف شعبوں میں کام تو ہو رہا ہے۔ یہ کام ہونا بھی چاہئے، مگر استقامتی معیشت کے تحت جن کاموں کی ضرورت ہے، وہ غیر معمولی کام ہیں، ایک جست نظر آنی چاہئے۔ مثال کے طور پر یہی جناب صدر محترم نے فرمایا 'سات ہزار صنعتی یونٹوں کا چالو ہو جانا' یہ بہت اچھا ہے۔ یہ جست لگانے جیسا کام ہے۔ اسے آپ توجہ سے آگے بڑھائیے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم سات ہزار صنعتی یونٹیں چالو کر دیں گے۔ بہت اچھی بات ہے، یہ بہت مناسب ہے۔ یہ ہمارے اداروں کے عام حالات کے کاموں سے بالاتر ایک قدم ہے۔ اس طرح کی جو چیزیں ہیں جنھیں جست قرار دیا جا سکتا ہے، لمبی چھلانگ قرار دیا جا سکتا ہے، یہ معمول کی پیشرفت سے بالاتر ہیں، ان پر آپ توجہ سے کام کیجئے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ تو یہ رہا اگلا نکتہ۔ یعنی یہ کہ اقتصادی اداروں کے روز مرہ کے کاموں پر آپ اکتفا نہ کیجئے، ان سے فقط یہی طلب کرکے مطمئن نہ ہو جائیے۔
اقتصادی مسائل کے تعلق سے ایک اور چیز جو بہت اہم ہے وہ بنیادی اقدامات ہیں جنھیں انجام دینا ممکن ہے، یعنی یہ بہت مشکل کام نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر فیصلوں کے ڈی سنٹرلائیزیشن کا موضوع ہے جس کا ابھی ذکر ہوا اور بہت خوشی کا مقام ہے کہ اس نہج پر سوچا جا رہا ہے۔ یہ اچھی چیز ہے۔ یعنی فیصلہ سازی کے عمل کو سنٹرلائیزڈ حالت سے نکال کر صوبوں کی سطح پر تقسیم کیجئے۔ یا مثلا بینکوں کی سہولیات کو پیداواری شعبے کی جانب موڑنا۔ میں نے اس دن محترم وزیر خزانہ (5) اور جناب سیف صاحب (6) سے کہا کہ آپ کے پاس جو بھی علم ہے اور جتنی بھی آپ نے پڑھائی کی ہے آج اسے بھرپور طریقے سے استعمال کیجئے اور نقدی کی جو یہ بہت بڑی مقدار موجود ہے اسے پیداواری شعبے کی جانب لے جائیے۔ یعنی آپ کی ہنرمندی یہ ہونا چاہئے کہ یہ کام سرانجام پائے۔ میری نظر میں یہ کام ممکن ہے، یعنی جو صاحبان اختیار ہیں، ان کے لئے یہ کام انجام دینا ممکن ہے۔ یہ بہت اہم کام ہے۔ برآمدات کے لئے ترغیبی تدابیر۔ بسا اوقات ترغیبی تدابیر اختیار تو کی جاتی ہیں، لیکن ان میں دوام نہیں ہوتا۔ ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ جو برآمدات کے شعبے میں سرگرم عمل افراد ہیں ان کے حوصلے بلند نہیں رہتے بلکہ ایک طرح کا اندیشہ ہمیشہ لاحق رہتا ہے۔ چونکہ برآمدات کا مسئلہ بہت اہم ہے اس لئے اس سے متعلق ترغیبی تدابیر کی بھی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ زرعی پیداوار کی قیمت ادا کرنے کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔
اسمگلنگ روکنے کا موضوع، اسمگل کرکے لائے گئے سامان کو فوری طور پر نابود کر دینا بہت ضروری ہے۔ البتہ ان مسائل سے وابستہ بعض افراد نے ہم سے کہا کہ اسمگل کرکے لائے گئے اس سامان کو دوبارہ ایکسپورٹ کیا جا سکتا ہے، واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ اچھی بات ہے، اس میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں اس وقت یہ اعلان کر رہا ہوں۔ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ اسمگل کرکے لائے گئے سامان کو ہر صورت میں ضائع کر دیا جائے تو یہ ان لوگوں کی بات نہیں ہے جو دو چار پیکٹ سامان پیٹھ پر لاد کر اٹھا لاتے ہیں۔ ہم بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کرنے والے مافیا کی بات کر رہے ہیں، جو ملک کے پورے بازار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
بیورو کریسی کا مسئلہ بھی بہت پرانا ہے، میں اسے دہرانا نہیں چاہتا۔ بعض اوقات افسر شاہی اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ سرمایہ کار کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور اس میں کوئی کام شروع کرنے کی رغبت نہیں رہ جاتی۔
ایک اور مسئلہ نالج بیسڈ اقتصاد کی حمایت کا ہے۔ بحمد اللہ جناب ستاری صاحت نے یہاں بیان کیا اور اعتراف بھی کیا، یہ ایک طرح کا اعتراف بھی تھا کہ سب ان سے تعاون کر رہے ہیں۔ واقعی مدد کی ضرورت ہے۔ علمی شعبے کی سب مدد کریں۔ سارے ادارے مدد کریں۔ اگر ایسا ہے کہ واقعی سب آپ کی مدد کر رہے ہیں تو اللہ کا شکر ہے۔ ہمیں نالج بیسڈ معیشت کے مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ نالج بیسڈ کمپنیوں پر خاص توجہ دینی ہوگی۔ شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت ملک میں کئی ملین نوجوان ایسے ہیں جو کام کے لئے آمادہ ہیں۔ اگر ان کی کوئی مدد ہو جائے تو وہ اس میدان میں بہت اگے جا سکتے ہیں اور مختلف شعبوں کو متحرک کر سکتے ہیں۔
میں نے سنا کہ بعض اوقات بعض حکومتی شعبوں میں، اس مسئلے پر جناب صدر محترم ان شاء اللہ توجہ دیں تو بہت اچھا ہے، وہی پروجیکٹ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے آتا ہے تو اسے قبول کر لیا جاتا ہے اور انھیں وسائل بھی فراہم کر دئے جاتے ہیں، لیکن جب ملک کے اندر کی نالج بیسڈ کمپنیاں وہی پروجیکٹ انجام دینا چاہتی ہیں تو انھیں وسائل فراہم نہیں کئے جاتے۔ ہمیں اس طرح کی رپورٹیں ملی ہیں، ان شاء اللہ یہ رپورٹیں غلط ہوں گی، لیکن بہرحال یہ رپورٹیں ہیں۔ میرے خیال میں اس چیز پر توجہ دینا چاہئے۔ یہ کچھ باتیں نالج بیسڈ اکانومی کے بارے میں تھیں۔ اسی طرح گاؤوں کا مسئلہ بھی ہے۔ اس بارے میں بھی بیان کرنے کے لئے بہت کچھ ہے۔
ایک اور موضوع جس کے بارے میں میں بات کرنا چاہتا ہوں، خارجہ سیاست ہے۔ یہ شعبہ شروع ہی سے جناب روحانی صاحب کی حکومت کی ترجحات میں تھا۔ کمپین کے دوران بھی اور بعد میں حکومتی اقدامات میں بھی۔ یہ اہم کام تھا۔ میں بھی اس سے اتفاق رکھتا ہوں۔ میں شروع ہی سے سفارتی سرگرمیوں اور ڈپلومیٹک کام کا حامی رہا ہوں اور میرا ماننا ہے کہ اس میدان میں محنت کرنا چاہئے۔ تاہم اس سلسلے میں کچھ نکات ہیں؛ ایک تو یہی ہے کہ ہمیں اپنی سفارتی توانائیوں کو عالمی سطح پر مناسب انداز میں تقسیم کرنا چاہئے۔ یعنی ایشیا کی وسعت اور توانائیوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں اسی سطح پر سفارتی سرگرمیاں انجام دینا چاہئے، افریقا کی سطح بھی اسی اصول کے تحت اور لاطینی امریکا میں بھی اسی بنیاد پر سفارتی کام کرنا چاہئے۔ تو ہمیں اپنی سفارتی کوششوں کو مناسب انداز میں تقسیم کرنا چاہئے۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہر جگہ ہمیں سفارتکاری میں بہت سرگرم رہنا چاہئے۔ خاص طور پر علاقے کے آج جو مسائل ہیں، ظاہر ہے آج یہاں بڑے پیچیدہ مسائل ہیں، ہمارے علاقے کے حالات، شام کے مسائل، عراق، لبنان اور شمالی افریقا کے مسائل، مشرق کی طرف افغانستان اور پاکستان وغیرہ کے مسائل، یہ بے حد پیچدہ مسائل ہیں۔ ان ملکوں کی سیاست بڑی الجھی ہوئی ہے اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے والی ہے۔ ایسے معاملات میں بہت ضروری ہے کہ بڑی توجہ سے، ہوشیاری کے ساتھ اور موثر انداز میں کام کیا جائے۔ میدان میں قدم رکھا جائے۔ کچھ جگہوں پر ہم وارد میدان ہوئے بھی ہیں۔ ایسا ہی ہے۔
تیسرا نکتہ سفارتی مسائل سے متعلق ہے۔ سفارتی توانائيوں کا استعمال معیشت کے لئے ہے۔ اقتصادی ادارے وزارت خارجہ کے ساتھ اقتصادی مسائل کے بارے میں مستقل بنیادوں پر تعاون کریں۔ مثال کے طور پر ہم یہ بات کرتے ہیں کہ فلاں پیشرفتہ ٹیکنالوجی فلاں ملک سے اپنے یہاں لانا چاہئے۔ یا فلاں ملک کے لئے برآمدات میں اضافہ کرنا چاہئے، میں خاص طور پر برآمدات پر تاکید کرنا چاہوں گا، تو اس سلسلے میں وزارت خارجہ کو سعی و کوشش کا محور بنایا جانا چاہئے۔ ہم نے سنا ہے اور دیکھا ہے کسی ملک میں ایک وزارت اقتصادی مسائل پر بات کر رہی ہے، لیکن وزارت خارجہ کو بالکل اس کی کوئی خبر ہی نہیں ہے۔ یہ نقصان کی بات ہے۔ یہ سراسر ضرر ہے۔ البتہ یہ دو طرفہ ذمہ داری ہے۔ دیگر اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وزارت خارجہ سے تعاون کریں اور اس سلسلے میں اس کی مدد کریں، اسی طرح وزارت خارجہ کی ذمہ داری ہے کہ اس ہدف کے لئے بیٹھ کر منصوبہ بندی کرے۔ یعنی ایک خاص ڈیپارٹمنٹ میں، البتہ بظاہر وزارت خارجہ میں ایک اقتصادی شعبہ پہلے سے ہی موجود ہے۔ اس کی سطح پر منصوبہ بندی کی جانی چاہئے، اسے متحرک کیا جانا چاہئے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ سفارتی میدان میں اسی چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جس پر دستخط ہو چکے ہیں، جو مسلمہ ہے اور جس کو دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ دیگر ممالک سے ہمارے روابط کے تعلق سے یہ چیز بہت اہم ہے، اس سلسلے میں باریکی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
البتہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کا مسئلہ بھی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ چونکہ میں مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں کافی کچھ بیان کر چکا ہوں، لہذا اس بحث کو دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہتا۔ صدر محترم جناب ڈاکٹر روحانی صاحب سے بھی اس بارے میں دائمی طور پر گفتگو رہتی ہے۔
بہرحال مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں جو نکتہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مغربی فریقوں خاص طور پر امریکا کے منفی روئے کو ہم مد نظر رکھیں۔ فریق مقابل کے منفی روئے، غلط انداز اور خیانت کی توجیہ ہرگز نہ پیش کریں۔ وہ غلط رویہ اپنا رہا ہے۔ اب بالکل واضح ہو چکا ہے، امریکی منفی حرکتیں کر رہے ہیں اور ہمیں ان منفی حرکتوں کو یاد رکھنا چاہئے۔ اس پر توجہ رکھنا چاہئے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ ہم تجربہ حاصل کریں۔ ممکن ہے کہ مثلا امریکا کی کوئی حکومت یا کسی اور ملک کی کوئی حکومت ہم سے وعدہ کرے، ہم سے کوئی بات کہے تو اس طرح کے وعدوں اور باتوں پر ہرگز اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے، ہرگز نہیں۔ اگر اس نے کوئی وعدہ کیا ہے تو آپ بھی وعدہ کیجئے۔ کسی شخص نے اشعار کہے تھے، اس نے پیغام بھجوایا اور اپنے اشعار لیکر خلیفہ کے پاس پہنچا اور وہ اشعار پڑھے۔ خلیفہ نے اشعار سن کر کہا کہ میں تمہیں اتنا سونا دوں گا۔ مثلا ایک لاکھ دینار اس شاعر کو دئے جائیں۔ خلیفہ نے یہی جملہ ایک کاغذ پر لکھ کر شاعر کو دے دیا اور کہا کہ جاؤ لے لو۔ شاعر خزانچی کے پاس گيا اور اسے وہ کاغذ دینے کے بعد کہنے لگا کہ جناب مجھے ایک لاکھ دینار دے دیجئے۔ خزانچی نے کہا کہ کیوں؟ شاعر نے کہا کہ میں نے کچھ اشعار کہے ہیں۔ خزانچی نے کہا کہ تم نے شعر کہے ہیں، ہے نا؟ تم نے شعر کہے خلیفہ کو پسند آئے، خلیفہ نے یہ تحریر دی جس سے تم خوش ہو گئے، حساب برابر ہے۔ اٹھو اور اپنا راستہ لو! (7)۔ اسی طرح ہوتا ہے۔ ایک بات فریق مقابل نے کہی، کوئی وعدہ کیا ہے جو ہمیں بہت پسند آیا ہے، جواب میں ہم بھی اس سے وعدہ کر لیں جس سے وہ خوش ہو جائے، لیکن کوئی نقد چیز اسے نہ دیں کہ بعد میں اس کے محتاج ہوکر رہ جائیں کہ وہ اپنے وعدے پر عمل کرتا ہے یا نہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
بہرحال مشترکہ جامع ایکشن پلان کے سلسلے میں دن رات محنت کرنے والے اور زحمتیں اٹھانے والے عہدیداران کی قدردانی کرتے ہیں۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر میری کچھ تنقیدیں ہیں، کچھ اعتراضات ہیں، یہ بات میں کہہ بھی چکا ہوں۔ آپ سے بھی کہہ چکا ہوں اور عمومی تقاریر میں بھی کہہ چکا ہوں۔ مگر یہ اعتراض فریق مقابل پر ہے۔ اپنے عہدیداروں پر اعتراض نہیں ہے، اپنے افراد پر اعتراض نہیں ہے۔ ہمارے افراد نے تو حتی الوسع محنت کی، جتنا ہو سکتا تھا کام کیا۔ مگر فریق مقابل بہت خبیث ہے، بہت پست ہے۔
تیسرا موضوع ہے سائنس و ٹیکنالوجی۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ملک کی پیشرفت کے لئے واقعی ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کا مسئلہ ملک کی عمومی بحث بن جائے۔ یعنی وہ تین اہم ستون جن پر آج ملک ٹکا ہوا ہے ان میں سے ایک اہم، بلکہ شاید ان میں سب سے اہم سائنس و ٹیکنالوجی کا شعبہ ہے۔ بحمد اللہ اچھی پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ محنت ہوئی، کام کیا گيا۔ لگن کے ساتھ امور انجام دئے گئے۔ تاہم ہماری پیشرفت کی رفتار کم ہو گئی ہے۔
جناب ڈاکٹر فرہادی (8) نے مجھے ایک رپورٹ بھیجی، کیونکہ میں نے تقریر میں کہا تھا کہ علمی نمو کی رفتار کم ہو گئی ہے، کہ نہیں، ہمارا علمی نمو اچھا ہے۔ مجھے اس سے اختلاف نہیں ہے۔ میں اسے جانتا ہوں۔ جو کچھ آپ نے مجھے ارسال کیا وہ میرے لئے نیا نہیں تھا۔ میں نے جو بات کہی تھی اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ میں نے رفتار کی بات کی تھی کہ رفتار میں کمی آ گئی ہے۔ دیکھئے ہم اپنے مقابل فریقوں سے کافی پیچھے ہیں۔ اگر ہم ان کے برابر ہونا چاہتے ہیں تو ایسی صورت میں اگر ہماری رفتار اس فریق مقابل کے مساوی ہوئی تو ہمارے درمیان یہ فاصلہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ ہمیں اور زیادہ رفتار سے آگے بڑھنا ہوگا۔ اس کے برابر پہنچنا ہے تو کئی گنا زیادہ رفتار سے آگے بڑھنا ہوگا۔ اس طرح ہم اس سے آگے بھی نکل سکتے ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔ ہمارے یہاں وہ برق رفتاری کئی سال تک رہی۔ اب اگر رفتار میں اضافہ ہوتا ہے تو گویا ہمارا ہدف پورا ہوگا۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری رفتار کم ہو گئی ہے۔ جس نکتے پر جناب ڈاکٹر فرہادی صاحب کو توجہ دینا چاہئے وہ یہ ہے۔
بہرحال جو چیز میرے مد نظر ہے وہ یہی ہے۔ یعنی نمو کی رفتار بڑھائیے، ورنہ مجھے معلوم ہے کہ نمو ہے، ہم پیشرفت کر رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں، فطری بھی ہے، مگر عام رفتار سے پیشرفت کافی نہیں ہے۔ ہماری پیش رفت کی سرعت ہی تھی جس کا ساری دنیا میں چرچا ہونے لگا تھا۔ منعکس کیا جانے لگا تھا۔ کچھ کو حسد ہونے لگا، کچھ کو تشویش ہونے لگی، دنیا میں کچھ لوگ ہماری علمی پیشرفت دیکھ کر فکرمند ہو گئے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ ہماری رفتار بہت زیادہ تھی۔ نالج بیسڈ اقتصاد کے بارے میں میں اپنے معروضات پیش کر چکا ہوں۔
بہرحال اب علوم کا شعبہ مطمئن ہے، میں نے یہاں نوٹ کیا تھا کہ اداروں سے مدد نہیں مل رہی تھی، لیکن اب آپ نے فرمایا کہ مدد ملنے لگی ہے۔ بہت اچھی بات ہے، اگر آپ مطمئن ہیں تو پھر ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟ ہمارا قضیہ تو در حقیقت آپ کا قضیہ ہوتا ہے۔
علمی پیشرفت کی بحث اسی طرح جاری رہنی چاہئے۔ اسے ہرگز رکنے نہ دیجئے۔ آپ سب کے سب، سارے احباب یونیورسٹی سے وابستہ افراد ہیں۔ میری ایک سفارش تو یہ ہے کہ یونیورسٹیوں سے اپنا رابطہ منقطع نہ ہونے دیجئے۔ یعنی یونیورسٹیوں میں آپ کی آمد و رفت جاری رہنی چاہئے۔ جہاں کہیں بھی ہوں، جب بھی یونیورسٹی سے وابستہ حلقوں کا سامنا ہو تو سائنسی ایجادات اور علمی پیشرفت، اسی طرح سافٹ ویئر مشن اور پیشرفت کی رفتار جیسی باتیں ضرور بیان کیجئے۔ ایسا ماحول بنے کہ ہر استاد، ہر طالب علم اور ہر محقق یہ محسوس کرے کہ اس کام کی انجام دہی اس کا فریضہ ہے۔ یہ بھی اس مسئلے سے متعلق اہم نکتہ تھا۔
ایک اور نکتہ ریسرچ کے بجٹ کا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ریسرچ کا بجٹ کم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو محدود بجٹ ہے وہ بھی پوری طرح دیا نہیں جاتا۔ ویسے ہم نے ایک حکومت سے وعدہ کروا لیا تھا، مجھے یاد نہیں ہے کہ کون سی حکومت تھی، یہ وعدہ کروا لیا تھا کہ ریسرچ کے بجٹ کو ڈیڑھ فیصدی، دو فیصدی اور زیادہ سے زیادہ تین فیصدی تک پہنچایا جائے گا۔ بہرحال ڈیڑھ فیصدی کی بات تو مان لی تھی۔ بعد میں جب یونیورسٹی کے افراد یہاں آئے اور انھوں نے تقریریں کیں تو بتایا کہ اعشاریہ چھے فیصدی اور اعشاریہ پانچ فیصدی بجٹ ہے اور وہ بھی پورا نہیں دیا جاتا۔ بہرحال ایسے اقدامات کئے جائیں کہ ریسرچ کا بجٹ پوری طرح دیا جائے۔
ایک اور مسئلہ یونیورسٹی اور صنعت کے باہمی رابطے کا ہے۔ میں برسوں سے اس پر زور دیتا آ رہا ہوں۔ میں نے اس پر بڑا اصرار کیا ہے۔ اللہ رحمتیں نازل کرے آپ کے والد مرحوم پر، ڈاکٹر ابتکار مرحوم (9) ایک بار وہ یہاں تشریف لائے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے صدر مملکت سے اس چیز کا مطالبہ کیا ہے۔ کہنے لگے؛ 'واقعی! یہی ہماری مشکلات کا اصلی حل ہے۔' انھوں نے کہا کہ اصلی مسئلہ یہی ہے۔ بہرحال زندگی نے وفا نہیں کی۔ اللہ رحمت نازل کرے ابتکار مرحوم پر۔ تو یہ بہت اہم ہے۔ یعنی دونوں فریقوں کے لئے ترغیبی پیکج رکھنا چاہئے۔ اس صنعت کے لئے بھی جو تحقیقاتی کاموں پر اپنا پیسہ خرچ کرتی ہے۔ ظاہر ہے جب کوئی صنعتی یونٹ یونیورسٹی کی ریسرچ سے استفادہ کرنا چاہے گی تو کچھ اخراجات ضرور ہوں گے۔ آپ اس خرچ کو مد نظر رکھئے۔ ٹیکس کی مراعات وغیرہ کے ذریعے اس کی تلافی کیجئے۔ اسی طرح ریسرچ سینٹر اور تحقیقاتی شعبے اور محقق کی حوصلہ افزائی کا راستہ نکالئے۔ دونوں فریقوں کو ترغیب دلائي جائے کہ وہ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔
ایک اور موصوع جس کے بارے میں مجھے چند باتیں کرنی ہیں سلامتی ہے۔ بحمد اللہ آج ملک کے پاس ایک محکم سیکورٹی ڈھال ہے۔ آپ غور کیجئے کہ ہمارے گرد و پیش کیا حالات ہیں۔ ہمارے مشرق میں افغانستان ہے، وہاں کیا حالات ہیں، پاکستان کی کیا صورت حال ہے؟ ہمارے مغرب میں آپ عرب ہمسایہ ممالک، عراق، شام، یمن کو دیکھئے اور مغربی ایشیا کے اس علاقے میں رونما ہونے والے واقعات کو دیکھئے۔ ہمارے اطراف میں آپ لیبیا، مصر اور دیگر جگہوں کو دیکھئے۔ جب انسان ان حالات کو دیکھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ کتنی عظیم نعمت ہے یہ امن و سلامتی جو آج بحمد اللہ ہمارے پاس ہے۔ سیکورٹی ڈھال نے ملک کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے جس کے نتیجے میں ہم سیکورٹی کے مسائل و مشکلات سے محوظ ہیں۔ عوام الناس سیکورٹی کے اعتبار سے سکون سے اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ میری نظر میں مناسب ہوگا کہ حکام عوام الناس سے اپنی گفتگو اور تقاریر میں اس نکتے کا ذکر کریں تاکہ عوام کو یاد آ جائے کیونکہ؛ «نعمتان مجهولتان الصّحه و الامان» (دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں رہتی، صحت اور امن و سلامتی) ان نعمتوں میں ایک امن و سلامتی ہے۔ جب تک امن و سلامتی رہتی ہے کسی کو خیال نہیں آتا ہے کہ امن و سلامتی ہے۔ گھر سے دفتر جانا چاہتے ہیں مگر بدامنی کا ماحول ہے، اسکول جانا ہے لیکن بدامنی ہے، یونیورسٹی جانا ہے لیکن بدامنی ہے، ایک شہر سے دوسرے شہر جانا ہے لیکن بدامنی ہے تو کیا صورت حال ہوگی؟ بحمد اللہ آج ملک میں سیکورٹی کی صورت حال اچھی ہے۔ یہ ہماری سیکورٹی فورسز کی زحمتوں اور مشقتوں کا ثمر ہے۔ واقعی ان فورسز کا شکریہ ادا کرنا چاہئے اور انھیں تقویت پہنچانا چاہئے۔
میری نظر میں اس سلسلے میں تین چیزیں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ قومی دفاعی ڈھال میں بہت اہم رول رکھنے والی ایک چیز ہے عوام کا انقلابی اور دینی جذبہ۔ یہ ملکی سلامتی کو یقینی بنانے والے تین عناصر میں سے ایک ہے۔ یعنی ہمارے عوام کا دینی اور انقلابی جذبہ ہے جو سیکورٹی فورسز کی بہترین انداز میں اپنا کام انجام دینے کے لئے حوصلہ افزائی کرتا ہے، ایک اہم عنصر یہی ہے جس کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ ایک اور اہم عنصر ہمارا سیکورٹی اور فوجی ڈھانچہ ہے۔ اس کی قدردانی کی جانی چاہئے، حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے، مدد کی جانی چاہئے، یہ لوگ واقعی بڑی محنت کر رہے ہیں۔ ایک اور اہم عنصر ہے ہمارے وسائل اور ٹیکنالوجی۔ یہی جدید وسائل جو بنائے جا رہے ہیں، جو کام انجام دیا جا رہا ہے، ابھی چند دن قبل جناب ڈاکٹر روحانی نے جاکر اس کی رونمائی کی۔ یہ سب بہت اہم ہیں۔ ان چیزوں کی بڑی اہمیت ہے۔ ملکی سیکورٹی میں اس کا بڑا اہم کردار ہے۔ ملک اپنا دفاع کرنے پر قادر ہو اور دوسروں کو اس کا علم بھی ہو کہ اس ملک کے اندر دفاعی توانائی موجود ہے تو یہ اپنے آپ میں بہت بڑی کامیابی ہے۔ آپ دیکھئے کہ ایس 300 کے معاملے میں جسے ہم خریدنا چاہتے تھے، کیا ہنگامہ آرائی کی گئی اور اس ہنگامہ آرائی کی پشت پر کیسی کیسی حرکتیں کی گئیں؟! روس کے اتنے دورے کئے گئے کہ یہ سودا انجام نہ پائے۔ جبکہ ایس 300 کسی شہر پر حملے کے لئے استعمال ہونے والا نہیں ہے۔ ایس 300 تو حملہ آور کو نشانہ بنانے کے لئے ہے۔ یہی تو ہے نا؟! یعنی دشمن ہمارے ملک میں دفاعی توانائی بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ اسے یہ برداشت ہی نہیں کہ آپ کے پاس دفاع کی طاقت ہو۔
بنابریں ایک بنیادی کام یہ بھی ہے کہ ہم اپنے دفاعی وسائل کی تقویت کرتے رہیں اور ان تینوں عناصر یعنی عوامی جذبے، سیکورٹی کے ساختیاتی ڈھانچے اور وسائل و ٹیکنالوجی، ان میں سے کسی ایک کو بھی اگر ہم نے کمزور ہونے دیا تو یہ ہمارے نقصان میں ہوگا اور جو بھی ان میں سے کسی بھی عنصر کو کمزور کرے اس نے در حقیقت ملک کو نقصان پہنچانے والا کام کیا ہے۔
پانچواں موضوع ثقافت کا مسئلہ ہے۔ ملک کی بہت اہم ترجیحات میں سے ایک ثقافت ہے۔ ثقافت میں ادبیات اور فنون سے لیکر طرز زندگی، عمومی کلچر، اخلاقیات اور سماجی برتاؤ سب شامل ہے۔ ان میدانوں کے تعلق سے ہمارے دوش پر ذمہ داریاں ہیں۔ ہمارے ثقافتی اداروں پر واقعی ذمہ داری ہے۔ آپ سنیما اور تھیئیٹر کی مثال لے لیجئے! اگر نظارت نہ کی جائے تو کیا ہوگا؟! میں ان میدانوں میں بہت سختگیری کرنے اور گھٹن کا ماحول بنا دینے کا قائل نہیں ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ آزاد فکر کا میں حامی ہوں، مگر آزاد فکری اور لا ابالی پن میں فرق ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دشمن کو آزاد فکری کا یہ پلیٹ فارم مہیا کرا دیا جائے اور وہ جس طرح چاہے ملک پر ضرب لگائے۔ آج ملک کے زیادہ بڑے اور اہم کام ہمارے مومن و انقلابی نوجوان انجام دے رہے ہیں۔ یہی نالج بیسڈ کمپنیاں، مختلف النوع سرگرمیاں، محنت و مشقت، زیادہ تر یہ کام مومن نوجوانوں کے ذریعے انجام پا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی فلم یا تھیئیٹر ڈراما ایسا تیار ہو جائے جو ان نوجوانوں کے ایمان پر حملہ آور ہو تو کیا یہ اچھی بات ہوگی؟ یہ ایسی چیز نہیں ہوگی جس سے انسان خطرے کا احساس کرے؟ دو صورتیں ہیں، حملہ و اقدام، دفاع اور جوابی عمل۔ ثقافت کے میدان میں ہم اقدامی مرحلے میں بھی کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور دفاعی میدان میں بھی ہماری کارکردگی ناقص ہے۔ میری نظر میں ان میدانوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دین کے جوہر اور انقلابی ماہیت سے وابستہ ثقافت ہمارے عمل کی بنیاد ہے، ہمیں واقعی اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ثقافتی پروڈکٹ جیسے کتابیں، فلمیں، ڈرامے، اشعار، اخبارات و جرائد، اسی طرح ثقافتی و علمی شخصیات، مثال کے طور پر کوئی ثقافتی شخصیت ہے جس نے اپنی پوری عمر انقلاب کی راہ میں صرف کر دی، دوسری ثقافتی شخصیت ایسی ہے جس نے موقع ملتے ہی ہمیشہ انقلاب کو نشتر لگایا ہے۔ ان دونوں شخصیات کے ساتھ آپ کا برتاؤ کیا ہے؟ آپ جو حکومتی عہدیدار ہیں، ثقافتی شعبے کے عہدیدار ہیں، وزارت ثقافت و اسلامی ہدایت کے عہدیدار ہیں، یا وزارت علوم سے آپ کا تعلق ہے یا پھر ادارہ اسلامی تبلیغات سے آپ وابستہ ہیں، یہ صورت حال صرف سرکاری شعبے تک محدود نہیں ہے، دوسرے بھی اس میں شامل ہیں، مثلا نشریاتی ادارے سے آپ کا تعلق ہے تو آپ کا برتاؤ ان دو افراد کے ساتھ کیسا ہوگا؟ یہ بہت اہم ہے۔ جس شخص نے پوری عمر انقلاب کی اور دین کی خدمت کی ہے، کیا اسے آپ خاص احترام دے رہے ہیں، ترجیح دے رہے ہیں، اس شخص کے مقابلے میں جس نے اپنی پوری عمر میں کوئی ایک قدم بھی انقلاب اور دین کی راہ میں انھیں اٹھایا ہے، بلکہ بسا اوقات ڈنک بھی مارا ہے؟ یہ چیزیں بہت اہم ہیں، ان نکات پر توجہ ہونی چاہئے۔ اگر ہم ان نکات پر توجہ نہیں دیں گے اور جوش میں آکر کسی ایسے شخص کی واہ واہی میں لگ جائیں گے جو اپنے پورے وجود سے اسلامی انقلاب، اسلامی نظام اور اسلامی حکومت کا مخالف ہے تو یہ اقدام عاقلانہ ثقافتی عمل کے برخلاف ہوگا۔ بنابریں یہ میرا بھی نظریہ ہے کہ آزاد فکری کا جذبہ فروغ پانا چاہئے، مگر منصفانہ انداز سے منصوبہ بندی بھی کی جانی چاہئے۔ نہ تو ثقافتی لا ابالی پن ہو اور نہ ثقافتی استبداد اور رجعت پسندی ہو۔ میں ان دونوں صورتوں میں کسی کو بھی قبول نہیں کرتا۔ صحیح راستہ یہ ہے کہ ہم خوش اسلوبی کے ساتھ منصوبہ بندی کریں، رہنمائی کریں، مدد کریں اور اسی کے ساتھ بیرونی یلغار کو بھی روکیں۔ یعنی اقدامی کارروائی بھی اور دفاعی کارروائی بھی کی جائے۔
چھٹا موضوع؛ بظاہر یہ آخری موضوع ہوگا یا شاید کچھ اور بیان کرنے کا وقت رہے! یہ ترقیاتی منصوبے کا موضوع ہے۔ چھٹے ترقیاتی منصوبے کے معاملے میں ہم کچھ پیچھے ہیں۔ واقعی یہ چھٹا ترقیاتی منصوبہ بہت اہم ہے۔ منصوبے کی اہمیت سے آپ واقف ہیں، آپ جانتے ہیں کہ یہ منصوبہ کتنا اہم ہے۔ اس منصوبے سے ہم آہنگی بھی پیدا ہوگی، ایک شعبے سے دوسرے شعبے کو مدد بھی ملے گی اور اس سلسلہ وار منصوبے کی کڑیاں ایک ایک کرکے ہمیں ہمارے وژن کے تحت طے شدہ اہداف کے قریب پہنچائیں گی۔ یعنی اگر منصوبوں کی یہ زنجیر بیچ میں کسی جگہ ٹوٹ جائے تو ہم مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ یہ واضح ہے۔ بنابریں ترقیاتی منصوبہ بہت اہم ہے۔ ترقیاتی منصوبے کا ایک واضح عمل بھی ہے جسے آئین میں معین کیا جا چکا ہے۔ کچھ پالیسیاں ہیں جن کا اعلان کیا جاتا ہے، نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا ہے۔ ان پالیسیوں کی بنیاد پر حکومت اپنا منصوبہ طے کرتی ہے۔ بعد میں یہی منصوبہ قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے، تاکہ اس منصوبے کی تمام تفصیلات پر عمل آوری سب کے لئے لازم ہو جائے۔ اسی لئے پارلیمنٹ بھی اس پورے عمل میں شامل ہے۔ میری نظر میں یہ کام آپ جتنی جلد ممکن ہو انجام دیجئے اور آگے بڑھئے۔ اب اس میں مزید تاخیر نہ ہونے دیجئے۔ البتہ ترقیاتی منصوبے میں بھی، اقتصادی میدان میں عمل اور اقدام کی بنیاد وہی استقامتی معیشت ہی ہونی چاہئے۔ ثقافت کے میدان میں ان خصوصیات کو مد نظر رکھا جائے جو میں نے عرض کیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی ابھی ذکر کی گئی خصوصیات کو ملحوظ رکھا جائے۔ یہ تینوں میدان بہت اہم ہیں۔ علم و دانش کے فروغ پر توجہ دی جائے، تحقیقات و ایجادات پر توجہ رکھی جائے۔
ایک اور نکتہ سائیبر اسپیس سے متعلق ہے۔ میں جناب صدر محترم سے درخواست کروں گا کہ اس پر توجہ دیں، کیونکہ سائیبر اسپیس واقعی مسلسل وسیع تر ہوتی ایک دنیا ہے جسے روکا نہیں جا سکتا۔ یعنی واقعی اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ سائيبر اسپیس میں آپ جس چیز کو دیکھئے ہر چیز ایسی شروعات نظر آتی ہے جس کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ اس فضا میں انسان جتنا بھی آگے بڑھتا جائے، اس کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ سائيبر اسپیس سے ہر ملک کو بہت اہم مواقع ملتے ہیں۔ البتہ ان کے ساتھ کچھ خطرات اور اندیشے بھی ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ان مواقع کو زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور ان خطرات کو جہاں تک ممکن ہو دور رکھیں۔ سائیبر اسپیس سپریم کونسل کی تشکیل اسی مقصد کے تحت ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر (browser) کے مسئلے کو آپ دیکھئے۔ ویسے جناب ڈاکٹر جہانگیری (نائب صدر) نے بھی اپنی رپورٹ میں اسے شامل نہیں کیا، بس ایک سطر کی حد تک اشارہ کیا کہ فلاں شعبے میں ہم نے یہ کیا ہے۔ مثلا نیشنل انفارمیشن نیٹ ورک میں موثر فلاں شعبہ تیار کیا ہے۔ (browser) کے موضوع کا آپ نے ذکر نہیں کیا۔ کئی سال سے (browser) شروع ہو چکے ہیں۔ ان کی بار بار ڈیزائننگ ہو رہی ہے۔ آج نوجوانوں نے شاید درجنوں (browser) تیار کر لئے ہیں۔ یعنی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ آپ نے اس پر زور دیا، لیکن نیشنل انفارمیشن نیٹ ورک، جو ہمارا انتہائی اہم داخلی نیٹ ورک ہے، اس کے تعلق سے ہم آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ حالانکہ جناب واعظی صاحب (10) بھی یہ مانتے ہیں اور سارے احباب اس پر متفق ہیں، مگر اس میدان میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ اس پر ہمیں توجہ دینا ہے تاکہ ایسا نقصان پہنچانے سے پرہیز کریں جس کا تدارک نہ ہو سکے۔
آخری موضوع غیر معمولی تنخواہوں کا ہے۔ اتفاق سے ڈاکٹر روحانی صاحب کی تقریر میں بھی یہی آخری موضوع تھا۔ میں گزارش کروں گا کہ اس معاملے کو آسانی سے جانے نہ دیجئے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ اس قضیئے کو بہت زیادہ اچھالنا اور جناب عالی کے بقول بار بار اسے چھیڑنا اور اعداد و شمار جاری کرنا کہ فلاں کو اتنے پیسے ملتے ہیں، فلاں کے اتنی تنخواہ ملتی ہے، شاید اچھی بات نہیں ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی بہت اہم ہے کہ آپ نے کیا کارروائی کی؟ آپ عوام کو بتائیے کہ آپ نے کیا قدم اٹھایا ہے؟ اس معاملے میں عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔ عوام جو بڑے بڑے اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں ان پر بہت زیادہ یقین نہیں کرتے۔ لیکن یہ جو ساٹھ ملین تومان، پچاس ملین تومان اور چالیس ملین تومان تنخواہوں کا معاملہ ہے تو اسے عوام بخوبی سمجھتے ہیں۔ یعنی جس شخص کی ایک مہینے کی آمدنی ایک ملین، بارہ لاکھ یا پندرہ لاکھ تومان ہے، اسے بخوبی اندازہ ہے کہ پچاس ملین کی رقم کیا ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں اتنی تنخواہ لینے والوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ جناب روحانی صاحب نے بالکل بجا فرمایا کہ ہمارا اصلی سرمایہ عوام کا اعتماد اور عوام کی امید ہے، ان اقدامات سے عوام کے اعتماد کو نہیں توڑنا چاہئے۔ آپ اتنی محنت کریں، زحمتیں اٹھائيں، کام کریں! مگر اچانک کہیں کوئی شخص اپنی غیر منصفانہ تنخواہ سے سب پر پانی پھیر دے۔ ایک ملین اور پچاس ملین کا فرق کیا غیر منصفانہ نہیں ہے؟ کیا آپ کے سرکاری اداروں میں ایک ملین، بارہ لاکھ، پندرہ لاکھ یا دو ملین تومان تنخواہ لینے والے لوگ نہیں ہیں؟ بکثرت ہیں۔ اب ایسی صورت میں کسی شخص کو تیس ملین، چالیس ملین تومان مل رہے ہیں تو یہ ناانصافی نہیں ہے؟ عوام سے ہمدردی رکھئے تاکہ عوام کو یہ محسوس ہو کہ جو تکلیف وہ اٹھا رہے ہیں، وہی تکالیف آپ بھی برداشت کر رہے ہیں، انھیں یہ احساس کرائیے کہ آپ اس مسئلے سے نمٹنے کا عزم رکھتے ہیں، اس کے سد باب کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ آپ عوام کو دکھائیے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ میرے خیال میں تو جس نے قانون شکنی کی ہے اس کے لئے کوئی بہانہ تراشی نہیں کرنا چاہئے۔ کارروائي بھی سخت ہونی چاہئے۔ یہ صرف مجریہ کا معاملہ نہیں ہے۔ دیگر شعبوں اور اداروں کے لئے بھی یہی ہدایات ہیں۔ سب اس کا خیال رکھیں۔ البتہ مجریہ کا شعبہ بالکل سامنے ہوتا ہے اور دوسروں سے زیادہ وسیع تر بھی ہے۔ کارروائی صرف مجریہ کو نہیں کرنی ہے بلکہ عدلیہ کو بھی جہاں کارروائی کرنے کی ضرورت پڑے اسے ضرور کرنا چاہئے۔

والسّلام علیکم و رحمت اللّه و برکاته

1؛ اس ملاقات کے آغاز میں جو ہفتہ حکومت کی مناسبت سے ہوئی، صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی، نائب صدر اسحاق جہانگیری، سائنس و ٹیکنالوجی کے امور کے نائب صدر سورنا ستاری، وزیر پیٹرولیم بیژن نامدار زنگنے، وزیر محنت و سماجی رفاہی امور علی ربیعی، وزیر سڑک و شہری ترقیات عباس آخوندی، نائب صدر محمد نوبخت نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔
۲؛ سوره‌ قیامت، آیت نمبر ۱۴
3؛ وزیر جہاد زراعت محمود حجتی
4؛ وزیر صنعت و معدنیات و تجارت محمد رضا نعمت زادہ
5؛ وزیر خزانہ علی طیب نیا
6؛ سنٹرل بینک کے سربراہ ولی اللہ سیف
7؛ حاضرین کی ہنسی
8؛ وزیر علوم و تحقیقات و ٹیکنالوجی محمد فرہادی
9؛ سابق صدر کے سائنس و ٹیکنالوجی کے مشیر ڈاکٹر تقی ابتکار مرحوم
10؛ وزیر مواصلات و انفارمیشن ٹیکنالوجی محمود واعظی