استفتائات و جوابات

فتاوی کا تقابلی جائزہ

مقدمہتقلیدطہارتوضوغسلتیمماحکام میتقبلہنماز کے اوقاتنمازی کا لباسنمازی کی جگہمسجد کے احکامواجبات نمازنماز جماعتنماز جمعہمسافر کی نمازنماز قضا روزہروزہ کو باطل کر دینے والی چیزیںاعتکافخمساحکام حجکچھ سوالات کے جوابات مقدمہ انسان کے اعمال کا صحیح یا غلط ہونا اس بات سے وابستہ ہے کہ وہ دینی مسائل کو کتنا جانتا اور اس کی بنیاد  پر کتنا عمل کرتا ہے۔ اور دینی مسائل سے آشنائی کا ایک راستہ یہ ہے کہ کسی جامع الشرائط مجتہد کی تقلید اور پیروی کی جائے۔مرجع تقلید کے فتوے معلوم کرنے کے لئے اس کے رسالہ کو دیکھا جاسکتا ہے جس میں مرجع تقلید کے فقہی نظریات بیان کئے گئے ہوں اور جس کے صحیح ہونے کے بارے میں ہمیں اطمینان ہو۔آیۃ اللہ العظمیٰ اراکی طاب ثراہ کی رحلت کے بعد چونکہ بہت سے مومنین نے رہبر معظم انقلاب حضرت آیۃ اللہ العظمٰی خامنہ ای دام ظلہ کی تقلید اختیارکی ہے، اور آپ کا رسالہ عملیہ چونکہ زیرترتیب اور ابھی شایع نہیں ہو سکا ہے نیز یہ کہ اجوبۃ الاستفتاآت کے عنوان سے ابتک جو کچھ منظر عام پر آیا ہے اس میں تمام ضروری اور روزمرہ کے مسائل موجود نہیں ہیں لہذا ہم نے ضروری سمجھا کہ مذکورہ کتاب اور معظم لہ سے کئے گئے دیگر سوالات اور ان کے جوابات کو مد نطر رکھ کر جو موصوف نے دیئے ہیں،حضرت امام خمینی (قدس سرہ) اور رہبرمعظم  کے فتووں میں موجود اختلاف کو ایک مجموعہ کی صورت میں ترتیب دےدیں تاکہ آپ کے وہ تمام مقلدین جو پہلے امام خمینی(رح)کے مقلد رہ چکے ہیں،دونوں کے فرق کو سمجھ کر آپ کے فتووں تک رسائی حاصل کر سکیں۔ یاد دہانی *-رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای دام ظلہ کے مقلدین،زیر نظر مجموعہ میں ذکر شدہ اختلاف فتاویٰ کی روشنی میں اپنے شرعی فریضہ پر عمل کرسکتے ہیں۔ اور اگر ذکر شدہ امور کے علاوہ ان کے سامنے کچھ اور مسائل ہوں تو ان کے بارے میں استفتاء کرسکتے ہیں۔ *-اس مجموعہ میں بیان شدہ بعض امور میں فتووں کا، اختلاف نہیں ہے بلکہ احکام سے متعلق کسی حکم کے بارے میں الگ سے کوئی توضیح یا اضافہ مقصود ہے۔ *-آیۃ اللہ العظمیٰ حضرت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے آپ کی تحریر الوسیلہ،کی توضیح المسائل یا عروۃ الوثقٰی کے حواشی سے اخذ کئے گئے ہیں۔ *-اختصار کی خاطر فتووں کے حوالے ذکر نہیں کئے گئے ہیں۔ضرورت کی صورت میں اصل کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے جونشر معروف قمنے شایع کی ہیں۔ *-اس سائٹ پر جیسا کہ آپ ملاحظہ فرمارہے ہیں امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوے داہنی طرف کے ستون میں فہرست وار اور اسی سلسلے میں آیۃ اللہ العظمٰی خامنہ ای دام ظلہ کے فتوے سامنے والے ستون میں نقل کئے گئے ہیں۔ تقلید امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے ۱۔ اس مجتہد کی تقلید کرنا چاہئے جو مرد، بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، حلال زادہ، زندہ اور عادل ہو۔ نیز احتیاط واجب کے تحت اس مجتہد کی تقلید کریں جو دنیا کا حریص نہ ہو اور اپنے زمانے کے مجتہدین سے اعلم ہو۔ ۱۔ اگر ایک ہی وقت میں کئی جامع الشرائط، فقہا موجود ہوں اور ان کے فتووں میں اختلاف ہو تو احتیاط واجب کے تحت مقلد اس مجتہد کی تقلید کرے جو ان میں اعلم ہو لیکن اگر اعلم کے فتوے احتیاط کے منافی اور غیر اعلم کے فتوے احتیاط کے موافق ہونا ثابت ہوجائے تو اس صورت میں اعلم کی تقلید واجب نہیں ہے۔ ۲۔ اعلم وہ ہے جو کسی مسئلہ کے قواعد اور الٰہی احکام کے سر چشموں کو بہتر طور پر جانتا ہو۔ اور اسی مسئلہ کی طرح دیگر مسائل اور روایات کے سلسلہ میں بھی زیادہ معلومات رکھتا ہو اسی طرح روایات کو اچھی طرح سمجھتا ہو۔ مختصر یہ کہ جو شخص احکام شرعی کے استنباط میں زیادہ ماہر ہو۔ ۲۔ اعلم وہ ہے جو دلیلوں کے ذریعہ حکم خدا کی شناخت اور الہی فرائض کے استنباط میں دوسرے مجتہدین سے زیادہ قوی ہو اور اپنے زمانے کے حالات کی شناخت بھی مجتھد کے اجتہاد میں اس حد تک دخیل ہے کہ جتنی احکام شرعی کے موضوعات کی تشخیص اور احکام شرعی کے بیان کے لئے  فقہی رائے کا مالک ہونا  دخیل ہے۔ ۳۔ ابتداءاً تقلید میت جائز نہیں ہے۔ ۳۔ کسی مرحوم مجتہد کی تقلید، ابتدائی تقلید کی صورت میں احتیاط واجب کی بنیاد پر جائز نہیں ہے۔سوال: وہ نوجوان جو نئے نئے بالغ ہوئے ہیں اور انھوں نے آپ کی تقلید اختیار کی ہے چونکہ تقلید کی ابتدا کر رہے ہیں اور ان کے لئے شرعی مسائل سے آشنائی ضروری ہے، تو کیا وہ امام خمینی (قدس سرہ) کے رسالے سے استفادہ کرسکتے ہیں؟جواب: عمومی مسائل میں،جن کی ہمارے عزیز جوانوں کو ضرورت ہے حضرت امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے رسالے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اور اگر اپنے کسی مسئلہ کا جواب اس میں نہ ملے تو استفتاء کرسکتے ہیں۔ طہارت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ آب کر کلو گرام کے مروجہ وزن کے اعتبار سے تقریباً ۴۱۹/ ۳۷۷ کلو گرام  ہے۱۔ تقریبا ۳۸۴ لیٹر ہے ۲۔ سوال: طہارت کے لحاظ سے اہل کتاب کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے؟جواب: غیر مسلم کسی بھی دین یا مذہب سے کیوں نہ ہو  نجاست کا حکم رکھتا ہے۔ ۲۔ سوال: (اہل کتاب) طہارت کے حکم میں ہیں یا نجاست کے؟جواب: اہل کتاب کی ذاتی نجاست، ثابت نہیں ہے، ہماری نظر میں وہ ذاتی طہارت رکھتے ہیں۔اہل کتاب میں یہودی، عیسائی، زرتشتی،اور صابئی شمار ہوتے ہیں۔ ۳۔ حرام گوشت پرندوں کا فضلہ یا بیٹ نجس ہے۔ ۳۔ حرام گوشت پرندوں کا فضلہ نجس نہیں ہے۔ ۴۔ جو خون انڈوں میں ہوتا ہے وہ نجس نہیں ہے لیکن احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کے کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اور اگر خون کو انڈے کی زردی میں اس طرح ملادیں کہ اس کا وجود ختم ہوجائے تو زردی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ۴۔ انڈوں میں پایا جانے والا خون پاک ہے لیکن اس کا کھانا حرام ہے۔ ۵۔ سوال: وہ چمڑا جو بیرونی ممالک سے آتا ہے اور جس سے جوتے وغیرہ بنتے ہیں وہ پاک ہے یا نجسَ۔جواب: جو چمڑا اسلامی ممالک سے آّتا ہے وہ طہارت کا حکم رکھتا ہے مگر یہ کہ آپ کے لئے ثابت ہوجائے کہ غیر شرعی طریقے سے ذبح ہوا ہے۔ اسی طرح غیر اسلامی ممالک سے آنے والا چمڑا نجس ہے مگر یہ کہ آپ کے لئے ثابت ہوجائے کہ شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے یا آپ اس بات کا احتمال دیں کہ ملک میں درآمد کرنے والا مسلمان ہے جس نے حیوان کے تزکیہ کے بعد چمڑا مسلمانوں کے اختیار میں دیا ہے۔ ۵۔ سوال: اس گوشت، چمڑے اور حیوانی اعضاء کے سلسلہ میں اپنی مبارک نظر تحریر فرمائیں جو غیر اسلامی ممالک سے فراہم کیا گیا ہےَ۔جواب: اگر اس بات کا احتمال ہو کہ حیوان کو اسلامی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہے تو پاک ہے اور اگر یقین ہو کہ اسلامی طریقہ سے ذبح نہیں ہوا ہے تو نجس ہے۔۶۔ شراب اور ہر وہ چیز جو انسان کو مست کردیتی ہے اگر قدرتی طور پر بہنے والی (سیال) ہے تو نجس ہے۔۶۔ مست کردینے والے مشروبات احتیاط کی بنیاد پر نجس ہیں۔۷۔ جو چیز کسی نجس چیز میں مل کر نجس ہوگئی ہو اگر کسی پاک چیز سے لگ جائے تو اس کو بھی نجس کردیتی ہے اور اسی طرح تین مرحلوں تک  نجاست کا یہ سلسلہ رہے گا لیکن اس کے بعد نجاست نہیں پھیلے گی۔۷۔ جو چیز عین نجس سے لگنے کی وجہ سے نجس ہوچکی ہے وہ اگر کسی پاک چیز سے لگ جائے اور اِن دونوں میں کوئی ایک چیز تر ہو تو وہ پاک چیز کو بھی نجس کردے گی۔ اور اگر یہ چیز جو نجس چیز سے مل کر نجس ہوئی ہے یعنی (متنجس) پھر کسی پاک چیز سے لگ جائے تو بنا بر احتیاط اس پاک چیز کو بھی نجس کردے گی۔ لیکن یہ آخر میں نجس ہونے والی چیز (متنجس سوم) کسی اور چیز میں لگے تو اس چیز کو نجس نہیں کرے گی۔۸۔ اگر کسی مسلمان کا لباس یا اس کا بدن یا اس کی کوئی اور چیز مثلا برتن یا بستر وغیرہ (جو اس کے استعمال میں ہو) نجس ہوجائے اور پھر یہ مسلمان غائب ہوجائے تو اگر یہ احتمال ہو کہ غائب ہونے والے  نے اس  چیز کو پاک کر دیا  ہوگا یا وہ چیز اس کے ذریعہ مثلا آب جاری میں گرنے سے پاک ہوگئی ہے، تو اس چیز کے استعمال سے پرہیز ضروری نہیں ہے۔۸۔ اگر یقین کہ کسی مسلمان کا بدن، لباس یا اس کی کوئی اور ذاتی چیز نجس ہوگئی ہے اور ایک مدت تک وہ مسلمان دکھائی نہ دے اور پھر جب دکھائی دے تو وہ مسلمان اس چیز سے پاک چیزوں کی طرح کام لے رہا ہو تو وہ چیز طہارت کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن شرط ہے کہ اس چیز کا مالک اس کی پہلی نجاست سے اور طہارت و نجاست کے احکام سے واقف ہو۔۹۔ پیشاب کا مقام پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے پاک نہیں ہوتا اور اگر مرد  پیشاب کے بعد ایک بار دھولیں تو کافی ہے لیکن عورتیں اور اسی طرح وہ لوگ جن کا پیشاب غیر فطری مقام سے خارج ہوتا ہے ان کے لئے احتیاط واجب یہ ہے کہ دو بار دھوئیں۔۹۔ سوال: رفع حاجت کے بعد پیشاب کا مقام کتنی بار دھونے سے پاک ہو تا ہے؟جواب: پیشاب کا مقام احتیاط واجب کی بنا پر دو بار دھونے سے پاک ہوجاتا ہے۔۱۰۔ پخانے کے مقام کا پانی کے علاوہ کسی اور چیز سے پاک ہونا محل تامل ہے لیکن (نجاست کے صاف ہو جانے کے بعد،پانی سے پاک کرنے سے پہلے) نماز پڑھی جاسکتی ہے۔۱۰۔ پخانے کے مقام کو دو طرح سے پاک کیا جا سکتا ہے: ایک تو یہ کہ پانی سے دھوئیں یہاں تک کہ نجاست زائل ہوجائے،اس کے بعد(طہارت کے لئے) پانی ڈالنا ضروری نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ تین پاک پتھروں یا کپڑوں یا اسی طرح کی کسی اور چیز سے نجاست کو صاف کریں اور اگر تین ٹکڑوں سے نجاست پورے طور پر صاف نہ ہو تو اور ٹکرے استعمال کرکے پوری طرح صاف کریں۔ چنانچہ تین ٹکڑوں کے بجائے ایک ہی پتھر یا کپڑے کے تین الگ الگ حصوں سے بھی یہ کام  کیا جاسکتا ہے۔ وضو امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ (وضو میں) سر کے مسح کے بعد ہاتھوں میں بچی ہوئی وضو کے پانی کی اس تری سے پیروں کا مسح کسی ایک انگلی کے سرے سے پیروں کے ابھار تک کریں اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ پاؤں کے جوڑ تک مسح کریں۔۱۔ پیروں کے مسح میں پاؤں کے جوڑ تک (ہاتھوں کی انگلی)کھینچنا چاہیئے۔۲۔ احتیاط واجب کی بنیاد پر چہرے کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوئیں اور اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھویا تو وضو باطل ہے۔ اور ہاتھوں کو بھی کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھونا چاہیئے۔۲۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہئے اور اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھویا تو وضو باطل ہے۔۳۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کا دھونا پہلی بار واجب، دوسری بار جائز اور تیسری مرتبہ (یا اس سے زیادہ) حرام ہے۔ اور اگر ایک چلو پانی سے پورے عضو کو دھولے اور وضو کی نیت سے ہی پانی ڈالے تو ایک مرتبہ حساب ہو جائے گا چاہے ایک بار کا قصد کیا ہو یا نہ کیا ہو۔۳۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو دھونا پہلی بار واجب، دوسری بار جائز اور اس کے بعد غیر شرعی ہے۔ پہلی باردوسری بار یا اس سے زیادہ کا تعین  وضو کرنے والے کی نیت پر ہے یعنی پہلی بار کی نیت سے ایک شخص کئی بار چہرے پر پانی ڈال سکتا ہے۔۴۔ دونوں ہاتھوں کو دھونے کے بعد ہاتھوں میں موجود وضو کی تری کے ذریعہ سر کے اگلے حصہ کا مسح کرے اور ضروری نہیں ہے کہ مسح داہنے ہاتھ سے ہی ہو یا اوپر سے نیچے کی طرف ہو۔۴۔ سر اور پیر کا مسح ہاتھوں میں موجود وضو کی تری کے ذریعہ کرنا چاہئے۔ اور احتیاط یہ ہے کہ سر کا مسح داہنے ہاتھ سے کیا جائے لیکن مسح کے لئے اوپر سے نیچے کی طرف ہی ہاتھ لے جانا ضروری نہیں ہے۔۵۔ اگر چہرے یا ہاتھ پر کوئی زخم،پھوڑاپھنسی یاچوٹ ہو اور پٹی یا پھانبا وغیرہ ہٹا کر اس کو کھولا جا سکتا ہو تو اگر اس پر پانی ڈالنا نقصان دہ ہو لیکن گیلا ہاتھ پھیرنا نقصان دہ نہ ہو تو واجب ہے کہ گیلا ہاتھ اس پر پھیرے۔۵۔ اگر وضو کے اعضاء پر کوئی زخم یا چوٹ ہو اور وہ کھلا ہوا ہو اور پانی ڈالنا اس کے لئے نقصان دہ نہ ہو تو اسے دھونا چاہئے لیکن اگر دھونا نقصان دہ ہے تو اس کے اطراف کو دھوئے اور احتیاط یہ ہے کہ اگر اس پر گیلا ہاتھ پھیرنا نقصان دہ نہ ہو تو گیلا ہاتھ پھیر لینا چاہیئے۔۶۔ اگر زخم یا پھوڑا یا چوٹ سر کے اگلے حصہ میں یا پاؤں کے اوپر ہے اور وہ کھلا ہوا ہے تو اگر سر یا پیر کا مسح نہ کرسکتا ہو تو مسح کی جگہ ایک پاک کپڑا رکھے اور ہاتھ میں وضو کی بچی ہوئی تری سے ہی اس کپڑے کے اوپر سے مسح کرلے، اور احتیاط مستحب کے تحت تیمم بھی کرے۔ اور اگر کپڑا رکھنا ممکن نہ ہو تو وضو کے بجائے تیمم کرے اور بہتر ہے کہ بغیر مسح کا ایک وضو بھی کرے۔۶۔ اگر مسح کی جگہ پر زخم ہے اور اس پر گیلا ہاتھ نہ پھیرسکتا ہو تو وضو کے بجائے تیمم کرے لیکن اگر زخم کے اوپر کوئی کپڑا رکھ کر ہاتھ پھیر سکتا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ تیمم کے علاوہ اس طرح کے مسح کے ساتھ وضو بھی کرے۔ غسل امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ غسل ترتیبی میں،غسل کی نیت کے ساتھ پہلے سر وگردن، پھر بدن کا داہنا حصہ اور اس کے بعد بدن کا بایاں حصہ دھوئے۔۱۔ غسل ترتیبی میں بدن کے آدھے داہنے حصہ کو بائیں حصہ سے پہلے دھونا احتیاط پر مبنی ہے [یعنی احتیاط واجب کے تحت پہلے بدن کے آدھے داہنے حصہ کو دھوئے اور پھر بائیں حصہ کو دھوئے]۲۔ مجنب کے اوپر جو امور حرام ہیں ان میں،قرآن کے ان سوروں کا پڑھنا بھی ہے جن میں سجدہ واجب ہے، یعنی ۳۲واں سورہ (الم تنزیل)، ۴۱واں سورہ (حم سجدہ)، ۵۳واں سورہ (والنجم) اور ۹۶واں سورہ (اقرأ) اور اگر ان چاروں سوروں کا ایک حرف بھی پڑھے تو بھی حرام ہے۔۲۔ مجنب کے اوپر جو امور حرام ہیں ان میں سے، واجب سجدے والی آیتوں کا پڑھنا بھی ہے [لہذا ان سوروں کی دوسری آیتوں کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے]۳۔ اگر زندہ جسم سے کوئی ہڈی والا حصہ جدا ہو جائے اور اس جدا شدہ حصہ کو غسل دینے سے پہلے،کوئی انسان چھودے تو اسے چاہئے کہ غسل مس میت کرے۔ لیکن اگر جدا شدہ حصہ ہڈی سے عاری ہو تو اس کے چھونے سے غسل مس میت واجب نہیں ہوگا۔ اور اگر کسی میت کو غسل دینے سے پہلے جسم سے کوئی ایسی چیز جدا کی جائے جو اگر جسم سے متصل ہوتی تو اس کے چھونے سے غسل واجب ہوجاتا تو مردہ کے بدن سے اس کے جدا کر لینے کے بعد بھی اگر اس چیز کو چھوئیں گے تو غسل واجب ہو جائے گا۔۳۔ مردے کا بدن ٹھنڈا ہونے کے بعد اور اس کو غسل دینے سے پہلے میت سے جدا شدہ کسی حصہ کا چھونا  جسم مردہ کو چھونے کا حکم رکھتا ہے۔ لیکن اس حصہ کو چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا جو انسان کے مرنے سے پہلے ہی اس کے جسم سے جدا کردیا گیا ہو۔ تیمم امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ تیمم میں چار چیزیں واجب ہیں: اول: نیت۔ دوم: دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ایک ساتھ کی ایسی چیز پر مارنا کہ جس پر تیمم صحیح ہے۔سوم: دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو پوری پیشانی اور اس کے دونوں اطراف پر، سر کے بالوں کی جڑوں سے ابرؤوں تک اور ناک کے اوپر اور احتیاط واجب کے تحت ہتھیلیوں کو ابرؤوں پر بھی پھیرا جائے۔چہارم: بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرنا پھر اسی طرح دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیرنا۔٭ غسل کے بدلے اور وضو کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں کوئی فرق نہیں ہے۔۱۔ سوال: تیمم کا طریقہ کیا ہے؟ کیا غسل کے بدلے اور وضو کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں کوئی فرق ہے؟جواب: تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ: پہلے نیت کریں پھر دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ایسی چیز پر ماریں کہ جس پر تیمم صحیح ہے اس کے بعد دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ، پوری پیشانی اور اس کے دونوں اطراف پر سر کے بالوں کے اگنے کی جگہ سے ابرؤں تک اور ناک کے اوپر کھینچیں اور آخر میں بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پوری پشت  پر اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پوری پشت پر پھیریں۔اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کے بعد دوبارہ اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارے اور  بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پشت پر اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر پھیرے۔ یہ طریقہ غسل اور وضو دونوں کے بدلے میں کئے گئے تیمم میں یکساں ہے۔۲۔ سیاہ سنگ مرمر،چونے کے پتھر(gypsum) نیز دیگر تمام قسم کے پتھروں پر تیمم صحیح ہے لیکن جواہرات مثلا عقیق اور فیروزہ کے پتھر پر تیمم باطل ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ خاک یا ایسی دوسری چیزوں کے ہوتے ہوئے کہ جن پر تیمم صحیح ہے،چونے اور آہک پر بھی تیمم نہ کریں۔۲۔ سوال: چونے کے پتھر(gypsum)،پختہ چونے یا آہک کے پتھر(lime.stone)،اور اینٹ پر تیمم کرنا کیسا ہے؟جواب: تیمم ہر اس چیز پر صحیح ہے جو زمین کا حصہ کہلائے مثلا چونے کے پتھر اور آہک کے پتھر پر تیمم صحیح ہے بلکہ چونے،پختہ آہک،اینٹ اور اس کے مثل چیزوں پر بھی صحیح ہونا بعید نہیں ہے [یعنی ان پر تیمم کیا جاسکتا ہے]سوال:  کیا سیمینٹ اور ٹائلز پر سجدہ اور تیمم کیا جا سکتا ہے؟جواب: ان دونوں چیزوں پر سجدہ اور تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگرچہ احوط یہ ہے کہ ان پر تیمم سے پرہیز کیاجائے۔۳۔ تیمم کے لئے پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور ان کی پشت کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اور اگر ہتھیلی نجس ہو اور اسے پاک نہ کیا جا سکتا ہو تو اسی نجس ہتھیلی سے تیمم کریں گے۔۳۔ سوال: آپ  کی نظر میں جس چیز پر تیمم کیا جائے اس کا پاک ہونا ضروری ہے تو کیا اعضائے تیمم (پیشانی اور ہاتھ کی پشت) کا پاک ہونا بھی ضروری ہےَ۔جواب: احتیاط یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پاک ہو اور اگر محل تیمم کا پاک کرنا ممکن نہ ہو تو بغیر پاک کئے ہی تیمم کرے۔ اگرچہ طہارت کی شرط نہ ہونا دونوں صورتوں میں بعید نہیں ہے۔۴۔ اگر غسل کے بدلے میں تیمم کرے اور پھر وضو کو توڑنے والا کوئی حدث سرزد ہوجائے تو اگر بعد کی نمازوں کے لئے بھی غسل نہ کرسکتا ہو وضو کرے اور اگر وضو نہ کرسکتا ہو تو وضو کے بدلے میں تیمم کرے۔۴۔ جس نے غسل کے بدلے میں تیمم کیا ہو اگر اس سے حدث اصغر صادر ہوجائے مثلا پیشاب کرلے تو بعد کی نمازوں کے لئے اگر اب بھی غسل نہ کرسکتا ہو تو احتیاط واجب کی بنیاد پر غسل کے بدلے دوبارہ تیمم کرے اور  وضو بھی کرے۔۵۔ اگر انسان نماز کے لئے وضو نہ کرسکتا ہو اور تیمم بھی ممکن نہ ہو تو نماز ساقط ہے۔ لیکن احتیاط مستحب ہے کہ بغیر طہارت کے نماز پڑھ لے اور احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کی قضا بھی بجا لائے۔۵۔ اگر انسان نماز کے لئے وضو نہ کرسکتا ہو اور تیمم بھی ممکن نہ ہو تو احتیاط کی بنیاد پر نماز وقت کے اندر وضو اور تیمم کے بغیر پڑھ لے اور پھر وضو یا تیمم کے ساتھ اس کی قضا بجا لائے۔۶۔ اگر ضرر کے یقین یا ضرر کے خوف کی وجہ سے تیمم کرے اور نماز سے پہلے پتہ چل جائے کہ پانی اس کے لئے مضر نہیں ہے تو اس کا تیمم باطل ہے۔ اور اگر نماز کے بعد پتہ چلے تو نماز صحیح ہے۔۶۔ اگر کوئی یہ سمجھ کر تیمم کرے کہ پانی اس کے لئے نقصان دہ ہے اور  اس تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے سے پہلے ہی پتہ چل جائے کہ نقصان دہ نہیں ہے تو اس کا تیمم باطل ہے۔ اور اگر اس تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد پتہ چلے پانی ضرر نہیں کرتا تو احتیاط واجب کی بنیاد پر وضو کرے یا غسل کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔ احکام میت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ جو مسلمان عالم احتضار یعنی جانکنی کی حالت میں ہو اسے اس طرح چت لٹانا چاہئے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ یہ حکم سب کے لئے ہے چاہے مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بڑا کوئی فرق نہیں ہے۔۱۔ مناسب ہے کہ مسلمان کو احتضار کی حالت میں پیٹھ کے بل (چت) قبلہ کی طرف اس طرح لٹائیں کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ بہت سے فقہاء نے اس کام کو خود مرنے والے پر (اگر وہ قادر ہو) یا پھر دوسرے لوگوں پر واجب سمجھا ہے۔ اور اس میں احتیاط ترک نہیں ہونا چاہئے۔۲۔ میت کو غسل دینے والے کے لئے شیعہ اثنا عشری اور عاقل ہونا ضروری ہے، نیز مسائل غسل کو بھی جانتا ہو اور احتیاط واجب کی بنا پر وہ بالغ بھی ہو۔۲۔ میت کو غسل دینے والے کے لئے شیعہ اثنا عشری اور بالغ و عاقل ہونا ضروری ہے، نیز غسل کے مسائل کو بھی جانتا ہو۔ قبلہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےاگر قبلہ کی سمت معلوم کرنے کے لئے کوئی ذریعہ نہ ہو یا یہ کہ کوشش کرنے کے بعد بھی کسی سمت کی طرف گمان (غالب) پیدا نہ ہو سکے تو اب اگر نماز کے وقت میں وسعت ہو تو چاروں طرف چار مرتبہ نماز پڑھے اور اگر چار مرتبہ نماز پڑھنے کا وقت نہ ہو تو جس قدر وقت میں گنجائش ہو اتنی سمت میں نمازیں پڑھے ...جس کے پاس قبلہ معلوم کرنے کا کوئی راستہ نہ ہو اور اس کا گمان بھی کسی سمت کی طرف نہ جارہا ہو تو احتیاط کی بنیاد پر چاروں طرف نماز پڑھے اور اگر چار نماز پڑھنے کا وقت نہ تو جس قدر وقت ہو اتنی سمت نماز پڑھے۔ نماز کا وقت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ سوال: چاندنی راتوں کی فجر صادق کے سلسلہ میں جناب عالی کی نظر مبارک یہ ہے کہ کچھ دیر انتظار کیا جائے یہاں تک کہ فجر کی سفیدی چاندنی پر غالب آجائے تو کیا حضرت عالی کا فتویٰ اب بھی اسی طرح ہے؟ اگر جواب مثبت ہو تو یہ انتظار کتنے منٹ تک ہونا چاہیئے اور ماہ قمری میں یہ چاندنی راتیں کتنی راتیں ہیں؟جواب: اس کا معیار وہ راتیں ہیں جن میں چاندنی طلوع فجر پر غالب رہتی ہے اس میں نماز کے لئے اتنا انتظار کرنا چاہئے کہ طلوع فجر کی روشنی نمایاں ہوجائے۔۱۔ سوال: چاندی راتوں میں نماز صبح پڑھنے کے لئے کیا یہ ضروری ہے کہ ۱۵سے بیس منٹ تک انتطار کیا جائے جبکہ گھڑی کے اعتبار سے نماز کا وقت ہوچکا ہو اور اس ذریعہ سے طلوع فجر کے سلسلہ میں یقین کا حاصل کرنا بھی ممکن ہو؟جواب: طلوع فجر، نماز صبح کے اول وقت اور اسی طرح وقت سحری کے اختتام اور روزہ کا وقت شروع ہونے کا تعین کرنے کے سلسلہ میں چاندی راتوں اور اندھیری راتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں احتیاط اچھی ہے۔سوال: سلام و تحیات کے ساتھ! ماہ رمضان المبارک کی آمد اور اسی طرح شہروں کی توسیع اور طلوع فجر کی دقیق تشخیص نہ ہوسکنے کے پیش نظر جناب عالی سے گزارش ہے کہ روزہ کے لئے ترک سحر اور اقامہ نماز صبح کے اوقات کے سلسلہ میں اپنی نظر مبارک کو بیان فرمائیں۔جواب: مناسب ہے کہ مومنین محترم ایدھم اللہ تعالی احتیاط کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے روزے کے لئے ترک سحر اور نماز صبح کے سلسلہ میں(اسلامی جمہوریہ ایران کے)ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی اذان کے شروع ہونے کے ساتھ ہی سحری کھانا ترک کردیں اور اذان سے پانچ چھ منٹ بعد نماز صبح ادا کریں۔۲۔ نماز عصر کا مخصوص وقت وہ ہے جب  وقت مغرب میں صرف اتنا وقت باقی رہ جائے کہ اس میں صرف نماز عصر پڑھی جاسکتی ہو۔۲۔ سوال: نماز عصر کا وقت اذان مغرب تک ہے یا غروب آفتاب تک؟جواب: نماز عصر کا آخری وقت، غروب آفتاب تک ہے۔۳۔ انسان اس وقت نماز شروع کرسکتا ہے جب اسے یقین ہوجائے کہ نماز کا وقت داخل ہو چکا ہے یا یہ کہ دو مرد عادل وقت نماز ہو جانے کی خبر دیں۔ لیکن احتیاط واجب کی بنیاد پر(اول وقت کے تعین کے لئے)مؤزن کی اذان کافی نہیں ہے اگرچہ مؤذن عادل اور موثق ہی کیوں نہ ہو۔۳۔ نماز شروع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کا انسان یقین پیدا کرلے کہ نماز کا وقت ہوچکا ہے یا دو عادل مرد خبر دیں کہ وقت ہوچکا ہے یا یہ کہ کوئی موثق اور وقتِ نماز پہچاننے والا موذن اذان دے۔۴۔ اگر بھولے سے نماز ظہر پڑھنے سے پہلے ہی نماز عصر شروع کردے اور درمیان نماز یاد آجائے کہ نیت میں غلطی ہو گئی ہے تو اگر یہ وقت،ظہر و عصر کا مشترک وقت ہو تو نماز کی نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دینا چاہیئے یعنی نیت کرے کہ جو کچھ میں نے اب تک پڑھا ہے اور جس نماز میں مشغول ہوں اور جو کچھ ابھی پڑھوں گا وہ سب نماز ظہر ہوگی اور نماز ختم کرنے کے بعد نماز عصر پڑھے گا۔ اور اگر یہ وقت ظہر کا مخصوص وقت ہو تو نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹادے اور نماز کو ختم کرے اور پھر نماز عصر پڑھے اور احتیاط یہ ہے کہ نماز (ظہر و) عصر کو بھی اس کے بعد پڑھے اور یہ احتیاط بہت اچھی چیز ہے۔۴۔ اگر یہ سمجھ کر نماز عصر شروع کی ہے کہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے اور درمیان نماز یاد آ جائے کہ نماز ظہر نہیں پڑھی ہے تو اگر یہ وقت نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت ہو تو فورا نماز کی نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دے گا اور نماز کو ختم کرے گا اور اس کے بعد نماز عصر پڑھے گا۔ اور اگر یہ اتفاق نماز ظہر کے مخصوص وقت میں پیش آئے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دے گا لیکن نماز کو ختم کرنے کے بعد دونوں نمازوں (ظہر و عصر) کو ترتیب کے ساتھ بجا لائے گا۔ اور نماز مغرب و عشاء میں بھی یہی شرعی فریضہ ہے۔ ۱۔ نماز ظہر کا مخصوص وقت،وقت ظہر شروع ہونے کے بعد اتنی مدت تک رہتا ہے کہ جس میں غیر مسافر چار رکعت اور مسافر دو رکعت نماز پڑھ سکتا ہو۔ نمازی کا لباس امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ مرد کے لئے سونے کے زیورات مثلا گلے میں سونے کی زنجیر یا سونے کی انگوٹھی پہننا یا سونے کی گھڑی باندھنا حرام ہے اور ان کے ساتھ نماز پڑھنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔۱۔ سونے کی زنجیر پہننا، سونے کی انگوٹھی پہننا اور سونے کی گھڑی باندھنا مردوں کے لئے حرام ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر ان کے ساتھ نماز باطل ہے۔۲۔ سوال: توضیح المسائل میں مسئلہ نمبر ۸۳۱ سے ۸۸۳ تک مردوں کے لئے یہ توضیح دی گئی ہے کہ نمازی مرد کا لباس زردوزی کا نہیں ہونا چاہئے۔ تو آیا یہاں زرد سونا مراد ہے یا سرخ اور سفید سونا بھی اس میں شامل ہے؟ (کیونکہ جناب عالی نے پلیٹینیم پہننے کی اجازت دی ہے) لہذا فرمائیں کہ سونے کا رنگ شرط ہے یا سونے کی حقیقت؟جواب: سفید سونے (پلیٹینیم) میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر وہی عام سونا ہو تو جائز نہیں ہے اگرچہ اس کا رنگ بدل گیا ہو۔۲۔ سوال: حضرت عالی کی نگاہ میں کیا سفید سونے کا استعمال میں مردوں کے لئے کوئی حرج ہے؟جواب: اگر سونا ہے اور کسی دوسرے مادہ کو ملادینے کی وجہ سے اس کا رنگ سفید ہو گیا ہے تو حرام ہے لیکن اگر پلیٹینیم ہے یا سونے کا مادہ اس میں اتنا کم ہو  کہ بول چال میں اسے سونا نہ کہا جاتا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔۳۔ نمازی مرد کا لباس خالص ریشم کا نہیں ہونا چاہئے اور نماز کے علاوہ بھی اس کا پہننا مردوں کے لئے حرام ہے۔ اور جو چیزیں نماز میں اکیلے پہننے سے نماز نہیں ہوتی جیسے ازاربند اور رومال وغیرہ، احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ بھی خالص ریشم کی نہ ہوں۔۳۔ نمازی مرد کا لباس،حتی  رومال، جراب اور لباس کا استر بھی خالص ریشم کا نہیں ہونا چاہئے۔ اور نماز کے علاوہ بھی ریشم کا پہننا مردوں کے لئے حرام ہے۔۴۔ تین صورتوں میں جن کی تفصیل بعد میں آئے گی اگر نمازی کا بدن یا لباس نجس ہو تو اس کی نماز صحیح ہے:اول: یہ کہ جسم کے زخم یا چوٹ یا پھوڑے کی وجہ سے کسی کا لباس یا بدن خون آلود ہو جائے۔دوم: یہ کہ بدن یا لباس پر ایک درہم سے کم جگہ پر تقریبا ایک اشرفی کے برابر،خون لگا ہو۔سوم: ...۴۔ اگر نمازی کا بدن یا لباس،زخم، چوٹ یا پھوڑے پھنسی کے علاوہ کسی اور وجہ سے خون آلود ہو جائے اور خون کی مقدار انگشت شہادت کی پور سے کم جگہ پر ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس سے زیادہ جگہ پر ہو تو صحیح نہیں ہے۔۵۔ اگر حیض یا نفاس کا خون،سوئی کی نوک کے برابر بھی نمازی کے لباس یا بدن پر ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور احتیاط واجب کی بنیاد پر خون استحاضہ بھی نمازی کے بدن یا لباس پر نہیں ہونا چاہئے لیکن اگر دوسرا خون مثلا انسان کے بدن کا خون یا کسی حلال گوشت جانور کا خون یا کتے، سور، کافر، مردار یا کسی حرام گوشت جانور کا خون، اگرچہ نمازی کے بدن یا لباس پر کئی جگہ موجود ہو لیکن ان سب کو جمع کرنے سے خون ایک درہم سے کم جگہ میں ہو (جو تقریبا ایک اشرفی کے برابر ہوتی ہے) سے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر بھی احتیاط یہ ہے کہ کتے، کافر، مردار اور حرام گوشت جانور کے خون سے بچا جائے۔۵۔ ماقبل مسئلہ کے حکم سے خون حیض مستثنی ہے کیونکہ اس کا اگر معمولی سا خون بھی نمازی کے بدن یا لباس پر لگ جائے تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور احتیاط واجب کی بنا پر خون نفاس و استحاضہ نیز نجس العین اور حرام گوشت اور مردار کے خون کا  بھی یہی حکم ہے بلکہ یہ حکم نفاس اور استحاضہ کے علاوہ، قوت سے خالی نہیں ہے۔ نمازی کی جگہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ (نمازی کی جگہ کے لئے) پانچویں شرط یہ ہے کہ نمازی کی پیشانی اس کے زانو کی جگہ سے آپس میں ملی ہوئی چار انگلیوں سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔ اور احتیاط واجب یہ ہے کہ (پیشانی) پیروں کی انگلیوں کے سروں سے بھی اس سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔۱۔ ضروری ہے کہ نمازی کی پیشانی کی جگہ اس کے زانوؤں اور پیروں کی انگلیوں کے سروں کی جگہ سے آپس میں ملی ہوئی چار انگلیوں سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو۔۲۔ احتیاط مستحب کی بنا پر(نماز میں)عورت کو مرد کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیئے اور اس کے سجدہ کی جگہ مرد کے کھڑے ہونے کی جگہ سے کچھ پیچھے ہونا چاہیئے۔۲۔ ضروری ہے کہ نماز کی حالت میں عورت اور مرد کے درمیان کم از کم ایک بالشت کا فاصلہ ہو اور اس صورت سے اگر مرد و عورت ایک دوسرے کے برابر میں کھڑے ہوں یا عورت مرد سے آگے بھی کھڑی ہو تو دونوں کی نماز صحیح ہے، یہ حکم احتیاط واجب کی بنیاد پر ہے۔۳۔ خانہ کعبہ کے اندر(حجرے میں)یا اس کی چھت پر واجب نماز پڑھنا مکروہ ہے لیکن مجبوری کی حالت میں کوئی حرج نہیں ہے۔۳۔ خانہ کعبہ کے اندر نماز واجب کا پڑھنا مکروہ ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی چھت پر نماز نہ پڑھے۔۴۔ انسان کو چاہئے کی ادب کی رعایت کرے اور پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی قبر سے آگے نماز نہ پڑھے چنانچہ اگر نماز پڑھنا بے احترامی شمار ہو تو نماز پڑھنا حرام ہے لیکن نماز باطل نہیں ہے۔۴۔ نمازی کو نماز پڑھتے وقت پیغبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کی قبر کے آگے کھڑا نہیں ہونا چاہئے لیکن برابر میں کھڑے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ مسجد کے احکام امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ اگر مسجد کو غصب کرلیں اور اس کی جگہ گھر وغیرہ بنالیں اس طرح کہ اس کو اب مسجد نہ کہا جاتا ہو تو بھی اس جگہ کا نجس کرنا حرام اور اس کو پاک کرنا واجب ہے۔۱۔ جو مسجد غصب، منہدم اور متروک ہوجائے اور اس کی جگہ کوئی اور عمارت بنادی جائے یا متروک رہنے کے سبب اس کے مسجد ہونے کے آثار مٹ چکے ہوں اور اس کی تعمیر نو کی امید بھی نہ ہو اس طور پر کہ وہاں کے باشندے وہاں سے کوچ کرچکے ہوں تو اس جگہ کا نجس کرنا حرام ہو معلوم نہیں ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ نجس نہ کریں۔۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر مسجد کو سونے سے نہ سجائیں اور اسی طرح انسان یا حیوان کی مانند ان چیزوں کی تصویر وغیرہ بھی مسجد میں نہ بنائیں کہ جن میں جان ہوتی ہے لیکن پھول پتی کی مانند بے جان چیزوں کی تصویر کشی مکروہ ہے۔۲۔ مسجد کو سونے سے سجانا اگر فضول خرچی میں شمار ہو تو حرام ہے اور بصورت دیگر بھی مکروہ ہے۔ واجبات نماز امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ کسی انسان کے لئے اگر یہ احتمال ہو کہ آخر وقت میں شاید کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکے تب بھی اول وقت نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ نماز میں تاخیر کرے۔۱۔ جس شخص کے لئے یہ احتمال ہو کہ شاید آخر وقت میں کھڑے ہوکر اپنی نماز پڑھ سکے اسے احتیاط کی بنا پر اس وقت تک انتظار کرنا چاہئے لیکن اگر کسی عذر کے تحت اس نے اول وقت اپنی نماز بیٹھ کر پڑھ لی اور پھر آخر وقت تک اس کا عذر برطرف نہ ہوا تو جو نماز اس نے پڑھی ہے وہ صحیح ہے اور اعادہ ضروری نہیں ہے۔ اور اگر اول وقت کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادر نہیں تھا اور اسے یقین تھا کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے متعلق اس کی عاجزی اور ناتوانی آخر وقت تک باقی رہے گی لیکن آخر وقت گزرنے سے پہلے،وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے قابل ہوجائے تو اسے چاہئے کہ کھڑے ہوکر نماز کا اعادہ کرے۔۲۔ جو شخص بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا اسے چاہئے کہ نماز کے لئے دائیں کروٹ اس طرح لیٹ جائے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلہ کی طرف ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو بائیں کروٹ اس طرح لیٹے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلہ کی طرف ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس طرح چت لیٹ جائے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔۲۔ جو شخص بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا اسے چاہئے کہ لیٹ کر نماز پڑھے اور احتیاط واجب کی بنیاد پر اگر ممکن ہو تو دائیں کروٹ اس طرح لیٹے کہ اس کا چہرہ اور بدن قبلہ کی طرف ہو، ورنہ بائیں کروٹ لیٹے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس طرح چت لیٹے کہ اس کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔۳۔ روزانہ کی نماز پنجگانہ میں انسان کو پہلی اور دوسری رکعت میں پہلے سورہ حمد اور اس کے بعد کوئی ایک مکمل سورہ پڑھنا چاہیئے۔۳۔ روزانہ کی نماز پنجگانہ میں انسان کو چاہئے کہ پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ حمد پڑھے اور اس کے بعد احتیاط واجب کی بنیاد پر ایک مکمل سورہ پڑھے۔۴۔ اگر(نماز میں)غلطی سے ایسا سورہ شروع کردے کہ جس میں سجدہ واجب ہے تو اگر آیت سجدہ پر پہنچنے سے پہلے یاد آجائے تو اس سورہ کو چھوڑ کر کوئی اور سورہ پڑھے۔ اور اگر سجدہ والی آیت کو پڑھنے کے بعد یاد آئے تو نماز کے درمیان اشارہ کے ذریعہ سجدہ بجا لائے اور پھر اسی سورہ کے پڑھنے پر اکتفا کرے۔۴۔ نماز واجب میں سجدہ والے سوروں کا پڑھنا جائز نہیں ہے اور اگر عمدا یا سہوا ان میں سے کسی سورے کو پڑھے اور سجدہ والی آیت پر پہنچ جائے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر(بیٹھ کر)آیت سجدہ کی تلاوت کے سجدہ کو انجام دے اور پھر کھڑے ہو کر اگر سورہ مکمل نہ ہوا ہو تو مکمل کرے اور پوری نماز اور پھر نماز کا اعادہ بھی کرے۔ اور اگر سجدہ والی آیت پر پہنچنے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس سورے کو چھوڑ دے اور کوئی دوسرا سورہ پڑھے اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد پھر سے نماز کا اعادہ کرے۔۵۔ نماز میں جب کوئی سورہ پڑھنے کے لئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے تو کہ پہلے سے سورہ کو معین کرلے اور’’بسم اللہ....‘‘ اسی سورہ کی نیت کے ساتھ پڑھے اور اگر سورہ کو معین کرنے کے بعد اس سورہ کو چھوڑدے تو دوسرے سورہ کو پڑھنے کے لئے اس سورہ کی نیت سے دوبارہ’’بسم اللہ...‘‘ پڑھے۔۵۔ سوال: جو انسان پہلے سے ہی سورہ حمد اور سورہ توحید پڑھنے کی نیت رکھتا ہو یا اس کی عادت ہمیشہ یہی ہو اور کسی مخصوص سورہ کا تعین کئے بغیر بلا ارادہبسم اللہ الرحمن الرحیمکھ دے تو کیا اس کے اوپر واجب ہے کہ سورہ کو معین کرنے کے بعد پھر سے’’بسم اللہ...‘‘پڑھے؟جواب: ’’بسم اللہ...‘‘کا دوبارہ پڑھنا واجب نہیں ہے بلکہ اسی ’’بسم اللہ...‘‘پر اکتفا کرسکتا ہے اور حسب خواہش کوئی بھی سورہ ’’بسم اللہ...‘‘دہرائے بغیر پڑھ سکتا ہے۔۶۔ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد اور سورہ،عورت بلند آواز سے اور آہستہ بھی پڑھ سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی نامحرم اس کی آواز کو سن رہا ہو تو احتیاط واجب ہے کہ آہستہ پڑھے۔۶۔ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد اور سورہ عورت بلند آواز سے یا آہستہ بھی پڑھ سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی نامحرم اس کی آواز کو سن رہا ہو تو بہتر ہے آہستہ پڑھے۔۷۔ اگر تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ الحمد پڑھے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کی بسم اللہ کو بھی آہستہ پڑھے۔۷۔ مرد  اور عورت پر واجب ہے کہ تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ یا سورہ حمد کو آہستہ پڑھیں لیکن اگر سورہ حمد پڑھیں تو فرادیٰ نماز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بلند آواز سے بھی پڑھ سکتے ہیں اگرچہ احتیاط یہی ہے کہ’’بسم اللہ...‘‘آہستہ کہیں اور نماز جماعت میں یہ احتیاط، واجب ہے۔`۸۔ اگر تیسری یا چوتھی رکعت کے رکوع میں یا رکوع میں جاتے وقت شک کرے کہ حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھی ہے یا نہیں اپنے شک پر دھیان نہیں دینا چاہیئے۔۸۔ اگر تیسری اور چوتھی رکعت کے رکوع میں شک کرے کہ حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھی ہے یا نہیں تو اپنے شک پر دھیان نہیں دینا چاہیئے۔ لیکن اگر رکوع میں جاتے وقت جبکہ رکوع کی حد تک نہ پہنچا ہو شک کرے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر واپس پلٹے اور حمد یا تسبیحات اربعہ پڑھ کر(رکوع میں جائے)۔۹۔ اگر شک ہو کہ کوئی آیت یا لفظ صحیح ادا کیا ہے یا نہیں تو اگر اس کے بعد والی چیز میں مشغول نہ ہوا ہو تو پھر سے اس آیت یا لفظ کو صحیح طور سے ادا کرنا چاہیئے۔ اور اگر اس کے بعد والی چیز میں مشغول ہوچکا ہو اور وہ بعد کی چیز رکن ہو مثلا رکوع میں شک کرے کہ سورہ کے فلاں لفظ کو صحیح پڑھا ہے یا نہیں تو اس شک کی طرف دھیان نہ دے، اور اگر وہ(بعد کی)چیز رکن نہ ہو مثلا اگر اللہ الصمد کہتے وقت شک کرے کہ قل ہو اللہ احد صحیح طور پر پڑھا ہے یا نہیں تو بھی یہ کرسکتا ہے کہ اپنے شک کی طرف دھیان نہ دے لیکن اگر احتیاط کے طور پر اس لفظ کو(دوبارہ)صحیح طور سے ادا کرلے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کئی بار شک ہو تو کئی بار دھرا سکتا ہے لیکن اگر(شک) وسواس کی حد تک پہنچ جائے اور بار بار وہ لفظ ادا بھی کیا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے۔۹۔ اگر کسی آیت کو تمام کرنے کے بعد شک کرے کہ صحیح پڑھا ہے یا نہیں تو اپنے شک کی طرف دھیان نہیں دینا چاہیئے،اور یہی صورت ہے اگر آیت کا ایک جملہ پورا کرنے کے بعد اس کے صحیح پڑھنے کے بارے میں شک ہو مثلاایاک نعبدکہنے کے بعد شک کرے کہ صحیح ادا کیا ہے یا نہیں۔البتہ ان تمام صورتوں میں جس چیز کے صحیح ادا ہونے کے بارے میں شک ہے اگر اسے احتیاطا دوبارہ پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔۱۰۔ اگر رکوع کی حد تک جھکے لیکن ہاتھوں کو گھٹنوں پر نہ رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے۔۱۰۔ احتیاط یہ ہے کہ رکوع میں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھے۔۱۱۔ انسان رکوع میں جو بھی ذکر پڑھے وہ کافی ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ ذکر کی مقدار تین مرتبہسبحان اللہ یا ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم وبحمدہ  سے کم نہ ہو۔۱۱۔ رکوع میں ایک بار سبحان ربی العظیم و بحمدہ کہنا یا تین بارسبحان اللہ کہنا واجب ہے اور اگر اس کی جگہ کوئی اور ذکر مثلا الحمد للہ یا اللہ اکبر وغیرہ اسی مقدار میں کہہ دے تب بھی کافی ہے۔۱۲۔ سجدہ میں جو بھی ذکر پڑھے کافی ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ ذکر کی مقدار تین مرتبہسبحان اللہ یا ایک مرتبہ سبحان ربی الاعلی وبحمدہ  سے کم نہ ہو۔۱۲۔ سجدہ میں ایک بار سبحان ربی الاعلی و بحمدہ کہنا یا تین بارسبحان اللہ کہنا واجب ہے اور اگر اس کی جگہ کوئی اور ذکر مثلا الحمد للہ یا اللہ اکبروغیرہ اسی مقدار میں کہہ دے تب بھی کافی ہے۔۱۳۔ سجدوں میں ذکر واجب کے برابر انسان کا بدن ساکن ہونا چاہئے۔ اور مستحب ذکر میں بھی،اگر اس ذکر کی نیت سے ہو کہ جس کا حکم سجدہ کے لئے دیا گیا ہے،بدن کا ساکن ہونا ضروری ہے۔۱۳۔ سجدوں میں ذکر واجب کہتے وقت بدن ساکن ہونا چاہئے حتی جس وقت کوئی ذکر استحباب کی نیت سے سجدہ میں کہہ رہا ہو مثلا سبحان ربی الاعلی و بحمدہ یا کسی اور ذکر کی تکرار کر رہا ہو تب بھی احتیاط واجب یہ ہے کہ بدن میں حرکت نہ ہو۔۱۴۔ اگر پیشانی زمین پر رکھنے کے بعد یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا ہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر کھڑا ہوجائے اور رکوع بجا لائے اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد دوبارہ نماز پڑھے۔۱۴۔ اگر پہلے سجدہ میں یا اس کے بعد،دوسرے سجدہ میں داخل ہونے سے پہلے یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا ہے تو اٹھ کر کھڑا ہو اور رکوع انجام دے اور پھر دونوں سجدے اور نماز تمام کرنے کے بعد سجدہ اضافہ کے لئے احتیاطا دو سجدہ سہو کرے۔ ۲۔ اگرچہ(تحریر الوسیلہ میں)صفحہ ۱۵۵ پر مرقوم ۸ویں مسئلہ کی اصل تحریر مطابق اس مسئلہ میں امام خمینی (قدس سرہ) اور آیۃ اللہ خامنہ ای (مد ظلہ) کے درمیان کوئی اختلاف نظر نہیں ہے۔ نماز جماعت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےامام جماعت کو بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، عادل اور حلال زادہ ہونا چاہئے وہ،جو نماز کو صحیح طریقہ سے پڑھ سکتا ہو نیز اگر ماموم مرد ہیں تو امام کو بھی مرد ہونا چاہئے... اور احتیاط واجب یہ ہے کہ عورت کا امام بھی مرد ہو۔سوال: کس صورت میں عورت امام جماعت ہوسکتی ہے؟جواب: اگر مامومین میں صرف عورتیں ہوں تو امام جماعت، عورت ہوسکتی ہے۔ نماز جمعہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ نماز جمعہ کے خطبے ظہر سے پہلے اس طرح پڑھنا کہ خطبہ تمام ہوتے ہوئے ظہر کا وقت ہوجائے جائز ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ خطبے زوال کے بعد دئے جائیں۔۱۔ نماز جمعہ کے خطبے ظہر سے پہلے دیئے جا سکتے ہیں اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ اس کا ایک حصہ وقت ظہر کے اندر ہو اور احوط یہ ہے کہ پورے خطبے وقت ظہر داخل ہونے کے بعد دئے جائیں۔۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز جمعہ میں اتنی تاخیر نہ کی جائے کہ وہ وقت جسے عرف میں اول ظہر کہتے ہیں گزر جائے اور اگر اس میں تاخیر ہوجائے تو نماز جمعہ کے بجائے نماز ظہر پڑھے۔۲۔ نماز جمعہ کا وقت اول ظہر سے ہے اور احوط یہ ہے کہ اس کو عرف میں رائج نماز ظہر کے اوائل وقت(تقریبا ایک دو گھنٹہ)سے زیادہ پیچھے نہ لے جائیں۔ مسافر کی نماز امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ مسافر کو آٹھ شرطوں کے ساتھ ظہر،عصر اور عشاء کی نماز قصر کرنا یعنی دو رکعت پڑھنا چاہیئے:ساتویں شرط: مسافر کا پیشہ مسافرت نہ ہو۔ لہذا شتربان، ڈرائیور،چوپان،ملاح اور ان کے جیسے دوسرے افراد خواہ وہ اپنے گھر کا سامان لے جانے کے لئے ہی سفر میں ہوں پہلے سفر کے علاوہ انہیں نماز پوری پڑھنا چاہئے لیکن پہلے سفر میں اگرچہ سفر لمبا ہو جائے ان کی نماز قصر ہے۔۱۔ سوال: کن حالات میں مسافر پر چار رکعتی نماز کا قصر پڑھنا واجب ہے؟جواب: آٹھ شرطوں کے ساتھ...ساتویں شرط: یہ کہ اس کا پیشہ سفر نہ ہو مثلا چوپان، ڈرائیور، ملاح وغیرہ نہ ہو اور وہ لوگ بھی ان ہی سے ملحق ہوں گے جن کا کام کاج سفر میں ہے۔۲۔ سوال: ایک شخص کسی کمپنی میں مارکٹ آفیسر ہے اور کئی سالوں سے روزانہ صبح کو اپنے وطن سے کام پر جاتا ہے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے زیادہ ہے اور پھر شام کو پلٹتا ہے اور کبھی کبھی خود ڈرائیونگ کرتا ہے آیا یہ شخص مسافر ہے یا دائم السفر؟جواب: اپنی ملازمت کی جگہ اور راستہ میں یہ شخص مسافر کا حکم رکھتا ہے۔توضیح:امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوہ کے مطابق اپنے پیشہ ورانہ سفر کے دوران صرف ان لوگوں کا نماز پوری پڑھنا اور روزہ رکھنا صحیح ہے کہ جن کا پیشہ ہی مسافرت ہے یعنی ان کے کام کی بنیاد ہی سفر پر قائم ہو اور ان کا کام سفر کے بغیر کسی مستقل جگہ انجام نہ پا سکتا ہو مثلا اپنے شہر سے باہر ڈرائیونگ کرنے والے ڈرائیور، پائلٹ اور ملاح وغیرہ۔ لیکن جن کا پیشہ مسافرت نہیں ہے اگرچہ روزانہ اپنے کام کے لئے سفر کریں ان کی نماز سفر میں قصر ہے اس معلم کی طرح جو روزانہ یا ہر ہفتہ تدریس کے لئے سفر کرتا ہے۔ایک مسئلہ اور ایک استفتاء ملاحظہ کریں:مسئلہ:  وہ جس کا پیشہ سافرت نہیں ہے اگر مثال کے طور پر کسی شہر یا گاؤں میں کوئی مال ہے جس کو ڈھونے کے لئے وہ پے در پے سفر کرتا ہے تو اسے اپنی نماز قصر پڑھنا چاہئے۔سوال: فوج نے دیہاتوں میں خدمت کے لئے کچھ لوگوں کو ملازم رکھا ہے اور خود سپاہ کا مرکز بھی ان لوگوں کے کا وطن میں نہیں ہے اور روزانہ یا ہر تیسرے دن انھیں اطراف شہر میں مجبورا سفر کرنا پڑتا ہے تو ان کی نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟ مختصر یہ کہ ان کے کام کا لازمہ سفرہے۔جواب: وطن کے علاوہ جہاں بھی ہوں ایک جگہ دس روزہ قیام کی نیت کے بغیر نماز قصر ہے اور روزہ صحیح نہیں ہے۔۲۔ سوال: جس کا کام کاج سفر میں ہے اس کی نماز اور روزہ کا کیاحکم ہے مثلا وہ ملازم جو اپنی ملازمت پر سفر کرتا ہے یا وہ مزدور جو اپنے کام کی جگہ سفر کرتا ہے اور اس طرح کے دوسرے لوگوں کا کیا حکم ہے؟جواب: اگر ہر دس دن کے اندر کم از کم ایک بار اپنے کام کے لئے اپنی ملازمت یا کام کی جگہ جاتا ہے تو اس کا حکم اس شخص کی طرح ہے جس کا پیشہ ہی سفر ہو اس کا روزہ صحیح ہے اور نماز پوری پڑھے گا۔توضیح:رہبر معظم انقلاب (مد ظلہ) کے فتوہ کے مطابق جن لوگوں کا کاروبار سفر میں ہے یا اپنے کام کے لئے کم از کم دس دن کے اندر اپنی ملازمت یا کام کی جگہ جانا پڑتا ہے تو یہ لوگ بھی ان کی طرح ہیں جن کا پیشہ ہی مسافرت ہو یعنی اپنی نمازیں اس طرح کے سفر میں پوری پڑھیں اور ان کا روزہ بھی صحیح ہے، مثلا وہ معلم حضرات جو تدریس کے لئے یا وہ ملازمین جو اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لئے یا وہ مزدور جو اپنے کام کاج کے لئے ہر ہفتہ کم از کم ایک بار اپنے کام پر ضرور جاتے ہیں اور پلٹ آتے ہیں سفر کے دوران کام پر ان کی نمازیں پوری ہیں۔ لیکن تحصیل علم کے لئے کیا جانے والا سفر،آپ کی نظر میںپیشہ ورانہ سفر کا حکم نہیں رکھتا الا یہ کہ خود تحصیل کام اور مشغلہ کے طور پر ہو مثلا جو لوگ فوج یا پولیس وغیرہ کی ٹرینیگ کے دوران میں تحصیل علم پر مامور ہوں۔ذرا دو استفتاآت ملاحظہ کریں:سوال: ایک طالبعلم جو ہر ہفتہ تعلیم کے لئے اسکول جاتا آتا ہو اور اس کا اسکول وطن سے چار فرسخ(۱۲میل)یا اس سے زیادہ دوری پر ہو،اپنی نماز اسکول میں پوری پڑھے کا یا قصر ہو گی؟جواب: تعلیم کے لئے سفر پیشہ ورانہ سفر کا حکم نہیں رکھتا بلکہ جو طالبعلم پڑھنے کے لئے کہیں سفر کرتا ہے وہ عام مسافر کے حکم میں ہے(یعنی اسکول میں نمازیں قصر پڑھے گا)۔سوال: میں شہر رفسنجان میں ملازم ہوں اور تعلیم میں بھی مشغول ہوں۔ وزارت تعلیم و تربیت کے زیر نظر مرکز عالی میں داخلہ مل جانے کے پیش نظر اپنی عام ڈیوٹی کے ساتھ مجھے آفس کی طرف سے ہفتہ کے ابتدا کے تین دنوں میں تحصیل علم کے لئے شہر کرمان جانا پڑتا ہے بقیہ ایام میں خود اپنے وطن میں رہ کر ڈیوٹی انجام دیتا ہوں حضرت عالی کی نظر میں میری نماز روزے کے سلسلہ میں کیا حکم ہے آیا طالب علم ہونے کا حکم میرے اوپر جاری ہوگا یا نہیں؟جواب: اگر تحصیل علم آپ کی ڈیوٹی میں شامل ہے تو آپ کی نماز پوری ہے اور روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ۳۔ جو شخص سفر پر جارہا ہے وہ اس وقت نماز قصر پڑھے گا کہ جب کم از کم اپنے شہر سے اتنا دور نکل چکا ہو کہ شہر کی دیواریں دکھائی نہ دیتی ہوں اور وہاں کی اذان سنائی نہ دیتی ہو ورنہ اگر اس قدر دور ہونے سے پہلے نماز پڑھنا چاہے تو پوری نماز پڑھے گا۔٭ سفر پر جانے والا اگر ایسی جگہ پہنچ جائے کہ اذان کی آواز نہ سنائی دے لیکن شہر کی دیواریں دکھائی دے رہی ہوں یا (اس کے برعکس) اذان کی آواز سنائی دے لیکن دیواریں نہ دکھائی دیں تو اگر وہاں نماز پڑھنا چاہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر نماز قصر بھی پڑھے گا اور پوری بھی۔۳۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ دونوں علامتوں کی رعایت کرے لیکن صرف اذان کی آواز نہ سنے جانے پر اکتفا کرنا بعید نہیں ہے۔ [یعنی اگر شہر سے اتنا دور ہو جائے کہ وہاں کی اذان کی آواز نہ سن سکے لیکن دیواریں دکھائی دے رہی ہوں اور وہاں نماز پڑھنا چاہے تو قصر نماز پڑھنا چاہئے، لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ قصر بھی پڑھے اور پوری بھی یا یہ کہ اتنی دور جانے کے بعد نماز پڑھے کہ دیواریں بھی نہ دکھائی دیں۔ اور اگر روزہ سے ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس جگہ روزہ کو نہ توڑے بلکہ رکا رہے یہاں تک کہ اتنی دور ہوجائے کہ دیواریں بھی نہ دکھائی دیں]۔۴۔ سوال:  ’’بلاد کبیرہ‘‘یعنی بڑے شہروں کے سلسلہ میں امام خمینی (قدس سرہ) کا فتوہ تفصیل سے بیان فرمائیں۔جواب: غیر معمولی طور پر بڑے شہروں کے سلسلے میں جس کا تعین عرف کے ذریعہ ہوتا ہے،مسافرت کے لئے سفر کے شروع اور اختتام کی منزل خود گھر کو قرار دیتے ہیںس اور دس دن کے قیام کے سلسلہ میں اس کے ایک مخصوص محلہ میں قیام کی نیت کرنا چاہئے [اس وقت ایران میں شہر تہران غیر معمولی بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے]۴۔ سوال: بڑے شہروں کو وطن بنانے اور ان میں دس دن قیام کے سلسلہ میں حضرت عالی کی نظر کیا ہے؟جواب: مسافر کے احکام، وطن بنانے اور دس روز قیام کی نیت سے ٹھہرنے کے سلسلے میں بڑے شہروں اور عام شہروں میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ کسی مخصوص محلہ کا تعین کئے بغیر کسی بڑے شہر میں سکونت کی نیت اور ایک مدت تک قیام سے ہی وہ شہر وطن کے حکم میں ہوگا،چنانچہ اگر کسی خاص محلہ کا تعین کئے بغیر پورے شہر  میں دس دن کے قیام کی نیت ہو تو روزہ صحیح ہے اور نماز پوری ہوگی۔۵۔ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہے اگر شروع سے ہی یہ نیت کر لے کہ دس دن کے درمیان اطراف شہر میں جائے گا تو اطراف شہر میں وہ جگہ جہاں وہ جانا چاہتا ہے اگر شہر کے دائرے اور  اس کی دیوار سے باہر نہ ہو یا اس شہر کے اطراف کے کھیتوں اور باغوں کے درمیان ایسی جگہ ہو کہ وہاں جانا اس شہر میں اقامت کے منافی نہ کیا جائے (یعنی عرف میں یہی کہیں کہ وہ ایک ہی شہر میں دس دن رہا ہے) ایسی صورت میں وہ نماز پوری پڑھے گا۔ لیکن اگر (حد ترخص سے گزر کر) چار فرسخ (یعنی ۱۲میل) کے اندر ہی جانا چاہے تو اگر اس کی نیت میں پہلے سے یہ رہا ہو کہ دس روز میں صرف ایک بار وہاں جائے گا اور آنے جانے میں دو گھنٹہ سے زیادہ وقت نہ لگائے تو تمام دس دنوں میں اپنی نماز پوری پڑھے گا۔۵۔ جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اگر شروع سے ہی یہ نیت رکھتا ہو کہ دس دن کے درمیان اطراف شہر (چار فرسخ(۱۲میل)سے کم کی دوری میں) صرف اتنی دور جائے گا،کہ عرف میں یہی کہیں کہ دس دن تک ایک ہی جگہ قیام کیا ہے مثلا اگر ارادہ رکھتا ہے کہ دس دنوں میں کسی ایک دن یا ایک رات کچھ گھنٹوں کے لئے یا اس سے کچھ زیادہ ایک تہائی دن یا ایک تہائی رات تک کے لئے،صرف ایک بار یا کئی بار شہر کے اطراف میں جائے گا لیکن ان کی مجموعی مدت ایک تہائی دن یا ایک تہائی رات سے زیادہ نہ ہو، تو ایسی صورت میں دس دن کے قیام کی نیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نماز پوری رہے گی۔ لیکن اگر دس دن کے قیام کا ارادہ کرتے وقت اس کی نیت میں ہو کہ اس مدت سے زیادہ محل اقامت کے باہر رہے گا تو قیام کی نیت محقق نہیں ہوگی اور وہاں نماز قصر رہےگی۔۶۔مکہ اور مدینہ میں نماز قصر کرنے اور پوری پڑھنے کے درمیان اختیار صرف مسجد الحرام اور مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے مخصوص ہے،یہ حکم پورے مکہ اور پورے مدینہ کے لئے نہیں ہے۔ ہاں یہ اختیار اصل مسجد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مسجد کی موجودہ توسیع شدہ عمارت میں ہر جگہ جاری ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ اصل مسجد تک ہی اکتفاء کیا جائے۔ لہذا موجودہ مسجد کے تمام حصوں میں ایک مسافر پوری نماز بھی پڑھ سکتا ہے اور قصر بھی پڑھ سکتا ہے۔۶۔ مکہ اور مدینہ میں ہر جگہ ایک مسافر پوری نماز پڑھ سکتا ہے اور یہ حکم مسجد الحرام اور مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے مخصوص نہیں ہے۔ قضا نماز امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےباپ کی چھوٹی ہوئی نمازیں اور روزے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہیں کہ وہ ان نمازوں اور روزوں کی قضا بجا لائے۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ماں کی قضا نمازوں اور روزوں کو بھی بجا لائے۔ماں باپ کی قضا نمازیں اور روزے بڑے بیٹے پر واجب ہیں۔ روزہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ اگر کوئی نہ جانتا ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے لیکن ظہر سے پہلے ہی متوجہ ہو جائے اور روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ کی نیت کرلے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔ اور اگر روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے چکا ہو یا ظہر کے بعد متوجہ ہوا ہے کہ ماہ رمضان ہے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اسے چاہئے کہ مغرب تک روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے اور رمضان کے بعد اس روزہ کی قضا بھی ادا کرے۔۱۔ جس نے رمضان میں بھول کر یا لاعلمی کی وجہ سے روزہ کی نیت نہ کی ہو اور دن میں کسی وقت متوجہ ہو جائے تو اگر اس وقت تک روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے چکا ہو، تو اس دن کا روزہ باطل ہے لیکن اس کے بعد بھی غروب تک روزہ کو باطل کرنے والے کاموں سے پرہیز کرے۔ لیکن اگر (ماہ رمضان کی طرف) متوجہ ہونے کے وقت تک کسی ایسے کام کا مرتکب نہ ہوا ہو کہ جس سے روزہ باطل ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں اگر ظہر کے بعد متوجہ ہوا ہے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر ظہر سے پہلے متوجہ ہو گیا ہے تو احتیاط واجب کی بنیاد پر روزہ کی نیت کرلے اور روزہ رکھے اور بعد میں اس روزہ کی قضا بھی کرے۔۲۔ جو شخص کسی مرنے والے کے روزے کی ادائیگی کے لئے اجرت لے چکا ہو وہ اگر اپنے مستحبی روزے رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن جس کے اوپر اپنے روزہ کی قضا یا اور کسی طرح کے واجبی روزے ہوں وہ مستحب روزہ نہیں رکھ سکتا اور اگر بھول کر مستحب روزہ رکھ لے تو اگر ظہر سے پہلے اسے یاد آجائے، اس کا مستحبی روزہ باطل ہوجائے گا اور وہ اپنی نیت کو واجب روزہ کی نیت میں پلٹ سکتا ہے، اور اگر ظہر کے بعد یاد آئے تو اس کا روزہ باطل ہے۔ اور اگر مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کا روزہ صحیح ہے لیکن اشکال سے خالی نہیں ہے۔۲۔ جس کے ذمہ ماہ رمضان کا قضا روزہ واجب ہے وہ مستحبی روزہ نہیں رکھ سکتا چنانچہ بھول کر مستحب روزہ رکھ لے تو اگر روزہ کے درمیان یاد آجائے اس کا مستحبی روزہ باطل ہو جائے گا اب اگر ظہر سے پہلے یاد آیا ہے تو اس روزہ کی نیت کو ماہ رمضان کی قضا کی نیت میں تبدیل کرسکتا ہے اور اس کا روزہ صحیح ہوگا۔۳۔ اگر مریض ماہ رمضان کی ظہر سے پہلے ٹھیک ہوجائے اور اذان صبح سے اس وقت تک روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ کی نیت کرلے اور اس دن کا روزہ رکھے لیکن اگر ظہر کے بعد ٹھیک ہوا ہے تو اس دن کا روزہ اس کے اوپر واجب نہیں ہے۔۳۔ اگر مریض، ماہ رمضان میں دن کے وقت ٹھیک ہوجائے تو واجب نہیں ہے کہ روزہ کی نیت کرے اور اس دن کا روزہ رکھے لیکن اگر ظہر سے پہلے ٹھیک ہو گیا ہے اور روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام بھی انجام نہیں دیا ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ نیت کر لے اور روزہ رکھے لیکن ماہ رمضان کے بعد اس دن کی قضا بھی کرنا چاہیئے۔۴۔ اگر کسی معینہ واجبی روزہ مثلا ماہ رمضان کے روزہ میں روزہ رکھنے کی نیت سے پلٹ جائے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اگر روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کی نیت کرے لیکن اسے انجام نہ دے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔۴۔ ماہ رمضان کے روزہ میں اگر دن میں کسی وقت روزہ رکھنے کی نیت سے پلٹ جائے اس طرح کہ روزہ کو جاری رکھنے کا ارادہ باقی نہ رہے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور دوبارہ روزہ جاری رکھنے کی نیت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر روزہ رکھنے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہو یعنی ابھی فیصلہ نہ کیا ہو یا روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کا ارادہ ہو لیکن اسے انجام نہ دیا ہو تو ان دونوں صورتوں میں اس کے روزہ کی صحت محل اشکال ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ کو مکمل کرے اور بعد میں اس کی قضا بھی کرے۔دوسرے تمام معینہ واجبی روزوں مثلا معینہ نذر کے روزے وغیرہ کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ مبطلات روزہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار اس انجکشن سے پرہیز کرے جو غذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے لیکن ایسے انجکشن کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جس سے کسی عضو کو بے حس کیا جاتا ہے یا جو دوا کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔۱۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار طاقت کے یا غذا کے ہر اس انجکشن سے پرہیز کرے جو عضوات میں یا رگوں میں لگائے جاتے ہیں اسی طرح گلوکوز وغیرہ چڑھانے سے بھی پرہیز کرنا چاہیئے۔ لیکن بے حس کرنے والے انجکشن کا استعمال نیز زخموں اور چوٹوں پر دوا لگانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار سیگرٹ، تنباکو اور ان جیسی روسری چیزوں کا دھواں حلق میں نہ لے جائے، لیکن گاڑھی بھاپ روزہ کو باطل نہیں کرتی الا یہ کہ وہ منھ میں جاکر پانی ہوجائے اور اسے حلق سے نیچے اتارلے۔۲۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار ہر طرح کی دھویں والی چیزوں کے پینے سے پرہیز کرے اسی طرح ایسے منشیات کے استعمال سے بھی پرہیز کرے جو ناک کے ذریعے یا زبان کے نیچے رکھ کر استعمال کئے جاتے ہیں۔۳۔ اگر روزہ دار زبان سے یا لکھ کر یا اشارہ سے یا ان جیسے کسی اور طریقہ سے خدا، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے جانشینوں علیہم السلام کی طرف عمدا جھوٹی نسبت دے تو اگرچہ فورا یہ کہہ دے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے یا توبہ کرلے پھر بھی اس کا روزہ باطل ہے اور احتیاط واجب کہ تحت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نیز دیگر انبیا اور ان کے جانشین علیہم السلام کے لئے بھی اس حکم میں کوئی فرق نہیں ہے۔۳۔ احتیاط کی بنیاد پر خدا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور معصومین علیہم السلام پر جھوٹ باندھنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے اگرچہ بعد میں توبہ کرلے اور کہے کہ میں نے جھوٹ باندھا ہے۔۴۔ اگر ایسی روایت اور قول معصوم نقل کرنا چاہے جس کے بارے میں اسے پتہ نہ ہو کہ صحیح ہے یا جھوٹی ہے تواحتیاط واجب کی بنیاد پر اس شخص یا کتاب کے حوالے سے اسے نقل کرے کہ جس نے اسے نقل کیا یا لکھا ہو لیکن اگر خود بھی نقل کر دے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔۴۔ ان روایات کے نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جو کتابوں میں آئی ہیں اور انسان نہیں جانتا کہ جھوٹی ہیں، اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ ان کو کتاب کے حوالہ کے ساتھ نقل کرے۔۵۔ گردوغبار کو منھ میں داخل کرنا روزہ کو باطل کردیتا ہے چاہے کسی ایسی چیز کا غبار ہو کہ جس کا کھانا حلال ہے جیسے آٹا یا کسی ایسی چیز کا غبار ہو کہ جس کا کھانا حرام ہے۔۵۔ روزہ دار کو چاہئے کہ احتیاط واجب کی بنیاد پر گردوغبار مثلا جھاڑو دینے کی وجہ سے اٹھنے والے غبار کو حلق سے نیچے نہ اتارے، اسی طرح احتیاط واجب کی بنیاد پر سگرٹ بیڑی وغیرہ کا دھواں بھی روزہ کو باطل کردیتا ہے۔۶۔ رمضان کی شب میں اگر مجنب سوجائے اور پھر بیدار ہو اور یہ احتمال دے کہ اگر دوبارہ سوئے گا تو غسل کے لئے بیدار ہوجائے گا تو پھر سو سکتا ہے۔جو رمضان کی شب میں مجنب ہے اور جانتا ہے یا احتمال ہے کہ اگر سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے گا تو اگر ارادہ رکھتا ہو کہ اٹھ کر غسل کرے گا اور اس ارادے کے ساتھ سوجائے اور اذان صبح تک سوتا رہ جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔۶۔ جو شخص جاگنے میں مجنب ہوا ہو یا سونے میں مجنب ہو اور بیدار ہوجائے اور جانتا ہو کہ اگر سوئے گا تو اذان صبح سے پہلے بیدار نہیں ہو سکے گا، اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ غسل کرنے سے پہلے سوئے اور اگر سوجائے اور اذان سے پہلے غسل نہیں کیا تو اس کا روزہ باطل ہے، لیکن اگر احتمال ہو کہ اذان صبح سے پہلے غسل کے لئے بیدار ہوجائے گا اور غسل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو لیکن بیدار نہ ہو سکے تو اسے اس روزہ کی قضا رکھنا چاہئے۔ ۷۔ اگر مجنب رمضان کی رات میں سوجائے اور آنکھ کھلنے کے بعد جانتا ہو یا خیال کرے کہ اگر دوبارہ سو گیا تو اذان صبح سے پہلے بیدار ہوجائے گا اور ارادہ بھی رکھتا ہو کہ اٹھنے کے بعد غسل کر لے گا اس صورت میں اگر دوبارہ سوجائے اور اذان صبح تک بیدار نہ ہو تو اسے چاہئے کہ اس دن کے روزہ کی قضا کرے یہی حکم ہے،اگر دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ سو کر جاگے اور پھر سے سوجائے، کفارہ اس پر واجب نہیں ہوگا۔۷۔ جو شخص رمضان کی شب میں مجنب ہو اور حالت جنابت میں اس خیال کے ساتھ سوجائے کہ اذان صبح سے پہلے بیدار ہو کر غسل کرلے گا اور اذان کے وقت تک بیدار نہ ہوسکے تو اس دن کے روزہ کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ واجب نہیں ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ کفارہ بھی دیا جائے۔۸۔ اگر مسئلہ نہ جاننے کے سبب کوئی ایسا کام انجام دے جس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں اگر مسئلہ معلوم کر سکتا تھا تو احتیاط واجب کی بنیاد پر اس کے اوپر کفارہ ثابت ہے، اور اگر مسئلہ معلوم کرنے پر قادر نہیں تھا یا مسئلہ کی طرف متوجہ ہی نہیں تھا یا یقین تھا کہ اس کام سے روزہ باطل نہیں ہوتا تو کفارہ اس پر واجب نہیں ہے۔۸۔ اگر شرعی مسئلہ سے لاعلمی کے سبب ایسا کام انجام دے جو روزہ کو باطل کردیتا ہے مثلا وہ نہ جانتا ہو کہ سر کو پانی میں ڈبونا روزہ کو باطل کردیتا ہے اور سر کو پانی میں ڈبودے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اس روزہ کی قضا کرنا چاہئے لیکن اس کے اوپر کفارہ واجب نہیں ہے۔اوراگر ایسا کام انجام دیا ہے جس کے بارے میں جانتا ہے کہ حرام ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس سے روزہ بھی باطل ہو جاتا ہے تو روزہ کی قضا کےعلاوہ احتیاط واجب کی بنیاد پر کفارہ بھی دینا چاہیئے۔ اعتکاف امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےاعتکاف صرف مسجد میں ہی صحیح ہے لہذا جو شخص اپنے گھر،امام باڑے یا امام بارگاہ یا روضوں میں اعتکاف کرے اس کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔ اور مسجدوں میں بھی صرف ان ہی مسجدوں میں اعتکاف صحیح ہے: مسجد الحرام، مسجد النبی، کوفہ کی جامع مسجد، مسجد بصرہ۔ اور ہر شہر کی جامع مسجد میں قصد رجا کے ساتھ اعتکاف کیا جاسکتا ہے ان کے علاوہ دیگر مساجد میں اعتکاف جائز نہیں ہے۔سوال: عرض ہے کہ مسجدوں (جامع مسجد اور عام مساجد)  کے اندر اعتکاف کے سلسلہ میں اپنی نظر مبارک بیان فرمائیں۔جواب: جامع مسجد میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور دیگر مسجدوں میں قصد رجا کی نیت سے کوئی حرج نہیں ہے۔ ۳۔ قصد رجاء، یعنی خدا کا مطلوب ہونے کی نیت سے اور ثواب و انعام کی امید پر کوئی عمل انجام دینا۔ خمس امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ سوال: اگر کوئی اپنے گھر کو بیچے اور دوسرا گھر خریدے یا بنائے تو کیا بیچے جانے والے گھر کی ملی قیمت پر خمس واجب ہے اگرچہ اس رقم پر ایک سال پورا نہ گزرا ہو؟جواب: اگر بیچا جانے والا گھر کاروبار کے منافع،تنخواہ یا کسی اور آمدنی کے ذریعہ، حاصل خمس نہ دئے ہوئے مال سے لیا گیا تھا تو اس کی قیمت سے فورا خمس نکالنا واجب ہے۔۱۔ سوال: اگر کوئی اپنے رہائشی گھر کو بیچ دے تاکہ دوسرا گھر خرید سکے یا بنائے تو بیچے جانے والے گھر کی ملی قیمت میں خمس ہے یا نہیں؟جواب: اگر سال پورا ہونے کے بعد بیچا ہے اور گھر کے(مؤونہ)خرچ میں شمار ہونے کی وجہ سے خمس میں حساب نہ کیا گیا ہو تو گھر کی ملی قیمت میں خمس نہیں ہے چاہے سال کے آخر تک رقم باقی رہے۔۲۔ جو رقم حج کے لئے نام رجسٹر کرانے کی بابت ادا کی گئی ہے اور اسی سال اس کا نام قرعہ میں نکل آئے تو ادا شدہ رقم میں خمس نہیں ہے اور اگر بعد کے برسوں میں نام نکلے تو اس کا حساب کرنا ہوگا مگر یہ کہ پہلے استطاعت رکھتا تھا اور اب اس رقم کو شامل کئے بغیر حج کے لئے نہ جاسکتا ہو۔ ۲۔ جو رقم حج یا عمرہ کے لئے نام رجسٹر کرانے کی بابت ادا کی گئی ہے اگر سفر کے خرچ کے عنوان سے ایک شخص اور ’’ادارہ حج و زیارت‘‘ کے درمیان ہونے والے معاہدہ کے مطابق ادا کی گئی ہے تو اس پر خمس واجب نہیں ہے مگر یہ کہ اس رقم کو واپس لے لیں۔۳۔ سوال: اگر کوئی رقم کسی کے پاس امانت کے طور پر  یا کرایہ مکان کے لئے مالک مکان کے پاس رہن کے طور پر رکھوائے تو کیا اس بات کے پیش نظر سے کہ اس رقم کو ایک وسیلہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے،وجوہات شرعیہ ادا کرنا ہوں گی؟جواب: جی ہاں! اس رقم پر خمس ہے اور جب بھی اس کی وصولی کا امکان ہو ملنے کے بعد خمس ادا کرنا چاہیئے۔۳۔ سوال: عام طور سے مکان کرایہ پر لینے کے لئے ایک رقم پیشگی مالک مکان کو دیتے ہیں اگر یہ رقم کاروبار کی منفعت سے ہو اور کئی سالوں تک مالک مکان کے پاس پڑی رہے تو کیا واپس ملتے ہی اس کا خمس ادا کرنا ضروری ہے یا یہ کہ اس رقم پر سال کے خرچہ میں شمار ہونے کے سبب خمس نہیں ہے اور اگر اسی رقم سے کسی اور جگہ کرایہ پر مکان لینا چاہے تو کیا حکم ہے؟جواب: جب تک کرایہ کے مکان کے لئے اس رقم کی ضرورت رہے اس وقت تک اس پر خمس نہیں ہے۔۴۔ ... اگر مکان خریدنے کے لئے ایک رقم اپنے پاس کئی سال تک رکھے رہے تو یہ رقم سال کے خرچہ میں شمار نہیں ہوگی اور اس پر خمس دینا ضروری ہے۔سوال: اس رقم پر خمس ہے یا نہیں جو کوئی شخص شادی یا تعلیم کے لئے الگ کر دیتا ہے؟جواب: اگر محنت کی آمدنی سے ہو اور ایک سال کے اندر استعمال نہ ہو تو اس پر خمس ہے۔۴۔ سوال: جس شخص کو کسی گھریلو سامان مثلا فرج کی ضرورت ہو اور یک مشت خریدنے کی قوت نہ ہو اور ہر ماہ اس کے لئے کچھ رقم جمع کر رہا ہو تاکہ جب اس کی قیمت کے برابر رقم جمع ہوجائے تو اسے خریدلے یا شادی کے لئے رقم جمع کر رہا ہے تو کیا خمس کی سالانہ تاریخ آ جانے پر اس طرح کی جمع شدہ رقم میں خمس ہوگا یا نہیں؟جواب: محنت کی آمدنی سے جمع کی ہوئی رقم اگر مستقبل قریب میں (مثلا خمس کی تاریخ سے دو تین ماہ کے بعد ہی ضروریات زندگی سے کسی چیز کی فراہمی) کے لئے ہو اور اس کا خمس نکالنے کے بعد ضرورت کا سامان خریدا نہ جا سکتا ہو تو اس میں خمس واجب نہیں ہے۔ ۱۔ زندگی کی ضروریات سے مراد: مکان، کپڑے اور گھر کی ضروریات کے سامان ہیں۔ احکام حجاستطاعت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ استطاعت کے لئے واپسی پر خود کفیل باقی رہنا شرط ہے۔ یعنی حج سے واپسی پر تجارت، کھیتی باڑی، کاروبار یا آمدنی کا کوئی اور ذریعہ جائداد، باغ یا دوکان کی صورت میں باقی ہو اس طرح کہ زندگی گزارنے کے لئے پریشانی اور مشکل سے دوچار نہ ہو اور اگر اپنی شان کے مطابق کمائی پر قادر ہو تو یہی کافی ہے اور اگر واپسی پر رقوم شرعی مثلا زکات و خمس کا ضرورتمند ہو جائے تو(استطاعت کے لئے) کافی نہیں ہے لہذا ان طلاب اور اہل علم پر حج واجب نہیں ہے جو حج سے واپسی پر حوزہ علمیہ کے ماہانہ وظیفہ(شہریہ) کے محتاج ہوں ۔۱۔ اگر(حج سے) واپسی کے بعد ماہانہ وظیفہ (شہریہ) کے ذریعہ ان کی زندگی چل سکتی ہو تو کافی ہے اور(استطاعت کے بعد) ان پر حج واجب ہوگا۔۲۔ جس نے حج نیابتی کے لئے اجرت لی ہو اور بعد میں اسی سال مالی استطاعت پیدا ہوجائے تو اب اگر اسی سال کے لئے حج نیابتی کی اجرت لی ہو تو اسے حج نیابتی انجام دینا چاہیئے اور اگر اس کی استطاعت باقی رہی تو اگلے سال اپنے حج کو انجام دے گا۔۲۔ اگر حج نیابتی (کی رقم ہاتھ آنے) کی وجہ سے استطاعت حاصل ہوئی ہو تو امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوہ کے مطابق عمل کرے گا لیکن اگر کسی اور طریقہ سے استطاعت حاصل ہوئی ہو تو اس کے اجارہ (نیابتی حج) کا باطل ہونا معلوم ہوجائے گا اور اسے اپنا حج ادا کرنا چاہیئے۔۳۔ جس کے لئے شادی کرنا ضروری ہو اور اس کے لئے پیسے کی ضرورت ہو اسی صورت میں مستطیع ہوگا کہ جب اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ شادی کا خرچ بھی موجود ہو۔۳۔ اگر شادی نہ کرنے کی وجہ سے کسی مشکل، بیماری یا حرام میں پڑنے کا اندیشہ ہو یا شادی نہ کرنا توہین و خفت کا سبب ہو تو (استطاعت کے لئے) حج کے اخراجات کے علاوہ شادی کے مخارج بھی ہونا ضروری ہے۔۴۔ جو شخص مالی اعتبار سے مستطیع ہے لیکن بدن کی صحت یا راہ کھلنے کے لحاظ سے مستطیع نہیں ہے اپنا مال کسی کام میں لگا کر اپنے آپ کو استطاعت سے خارج کرسکتا ہے لیکن اگر ان زاویوں سے بھی مستطیع ہے اور صرف جانے کے وسائل آمادہ نہیں ہیں یا حج کا وقت ابھی نہیں پہنچا ہے تو وہ اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہیں کرسکتا اور اگر ایسا کیا تو حج اس کے ذمہ واجب ہوجائے گا اور اسے ہر صورت میں حج کرنا ہوگا۔۴۔ حج کی انجام دہی کے لئے لازم وقت کے پہنچ جانے کے بعد ایک مستطیع شخص اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہیں کرسکتا اور وہ وقت کے آ جانے سے پہلے بھی احتیاط واجب یہ ہے کہ اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہ کرے۔ نیابت امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ سوال: ایک شخص نے مالی استطاعت کے بعد حج کے لئے اپنا نام رجسٹر کرایا اور دو سال بعد قرعہ میں اس کا نام نکل آیا لیکن سفر سے چند مہینہ پہلے اس کا انتقال ہوگیا اور مرنے سے پہلے اس نے اپنے بیٹے کو حج بجالانے کے لئے اپنا نائب بنا دیا اب اگر اس کا بیٹا خود مالی اعتبار سے مستطیع تھا لیکن اس نے نام رجسٹر کرانے کے سلسلہ میں کوتاہی کی تھی اور نام نہیں لکھوایا تھا چنانچہ اگر وہ نام لکھواتا تو شاید پہلے سال ہی یا بعد کے برسوں میں اس کا نام قرعہ میں آجاتا اب یہ لڑکا باپ کی طرف سے حج بدل کے لئے مدینہ آیا ہوا ہے مگر ابھی محرم نہیں ہوا ہے، تو اس کا کیا فریضہ ہے؟جواب: مذکورہ صورت میں نیابت(کا حج)صحیح نہیں ہے، اسے چاہئے کہ اپنا حج ادا کرے۔۱۔ اگر وصیت کے ٹوکن کے ذریعہ بیٹے کے لئے حج پر جانے کا راستہ نکل آئے یا یہ کہ میت کے ورثہ کسی بیٹے کو حج کا ٹوکن دے دیں کہ وہ  باپ کی طرف سے جاکر حج کو انجام دے تو اسے چاہئے کہ باپ کی طرف سے حج انجام دے لیکن اگر وصیت نہ ہو یا ورثہ کی طرف سے مطالبہ نہ کیا گیا ہو کہ حج نیابتی وہ خود انجام دے تو اسے چاہئے کہ حج اپنی طرف سے انجام دے اور باپ کے لئے کسی اور کو نائب بنائے۔۲۔ سوال: جو نائب حج کی نیابت قبول کرتے وقت معذور نہ ہو اور عقد اجارہ کے بعد عمل حج کی ادائیگی کے وقت یا محرم ہونے سے پہلے کوئی معذوری پیش آ گئی ہو اور اس نے کسی بھی عذر کے تحت ایک معذور کے فریضہ کے مطابق حج انجام دیا ہو تو کیا اس کا حج نیابتی منوب عنہ کی طرف سے کافی ہے؟ اور آیا عذر کی کیفیت کے لحاظ سے حکم میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟جواب: محل اشکال ہے۔۲۔ جو نائب حج کی نیابت قبول کرتے وقت معذور نہ ہو لیکن عقد اجارہ کے بعد عمل کے وقت یا محرم ہونے سے پہلے کوئی معذوری پیش آ گئی ہو تو اس حالت میں اگر اس کا عذر  حج کے بعض اعمال میں نقص پیدا ہونے کا سبب نہ بنے، نیابت صحیح ہے مثلا اگر وہ بعض ایسے کام جو حج کے دوران متروک ہیں ترک کرنے سے معذور ہو لیکن اس کا یہ عذر حج کے اعمال میں نقص کا سبب بنے تو اجارہ کا باطل ہو جانا اس صورت میں بعید نہیں ہے اور اجرت کے سلسلہ میں نائب اور منوب عنہ کے درمیان مصالحت ہو جانا اور منوب عنہ کی طرف سے عمرہ اور حج کا اعادہ احوط ہے۔ احرام امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ اگر تلبیہ بقدر واجب بھی نہ جانتا ہو اور سیکھ بھی نہ سکتا ہو یا سیکھنے کا وقت نہ ہو اور کسی کے کہلوانے سے بھی دہرا نہ کرسکتا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ جیسے بھی کہہ سکتا ہے کہے اور اس کا ترجمہ بھی دہرائے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے علاوہ تلبیہ کے لئے نائب بھی لے لے۔۱۔ جیسے بھی کہہ سکتا ہو ادا کرے اور احتیاط کی بنا پر کسی کو نائب بھی بنائے۔۲۔ احرام کے دو کپڑوں کو پہننے کے لئے کوئی خاص ترتیب ضروری نہیں ہے بلکہ جس ترتیب سے بھی پہن لے کوئی حرج نہیں ہے، صرف خیال رہے کہ ایک کو لنگی کی صورت میں جیسے بھی چاہے پہنے اور دوسرے کو چادر قرار دے جیسے بھی چاہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ چادر سے دونوں شانوں کو ڈھانکے۔۲۔ اگر رائج طریقہ کے مطابق ہو تو کافی ہے۔ چادر اتنی بڑی ہونا چاہئے کہ دونوں شانوں کو چھپا سکے۔۳۔ اگر حائضہ پاک ہونے تک انتظار نہ کرسکتی ہو تو احتیاط یہ ہے کہ مسجد (شجرہ) کے پاس محرم ہوجائے اور جحفہ یا اس کے کسی موازی مقام سے احرام کی تجدید کرے۔۳۔ جو عورتیں عذر رکھتی ہیں اور بھیڑ وغیرہ کے سبب مسجد سے گزرنے کی حالت میں محرم نہیں ہوسکتیں ان پر واجب ہے کہ جحفہ یا اس کے موازی کسی مقام سے محرم ہوں چنانچہ یہ بھی کرسکتی ہیں کہ نذر شرعی کے ساتھ مدینہ میں اپنی قیامگاہ سے ہی محرم ہو جائیں۔۴۔ مستطیع شخص اگر میقات سے احرام باندھنا علم کے باوجود جان بوجھ کر موخر کردے اور کسی عذر کی وجہ سے میقات واپس بھی نہ جاسکتا ہو اور آگے بھی کوئی میقات نہ ہو تو اس کا حج باطل ہے اور اسے چاہئے کہ دوسرے سال حج کرے۔۴۔ اگر ممکن ہو تو میقات واپس جائے اور اگر تنگی وقت یا کسی اور عذر کے سبب واپس نہ جاسکتا ہو تو حرم کے(دائرے سے) باہر جائے اور وہاں سے محرم ہو اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو حرم کے اندر ہی محرم ہوجائے اور اس کا حج صحیح ہے۔۵۔ جو شخص بھول کر یا مسئلے سے لاعلمی یا کسی اور عذر کے سبب احرام کے بغیر ہی میقات سے گزر جائے تو اگر میقات تک واپس جا سکتا ہو اور پھر وہاں سے واپس آکے عمرہ کے اعمال میں بھی پہنچ سکتا ہو تو اس پر واجب ہے کہ واپس جائے اور میقات سے احرام باندھ کر آئے چاہے حرم میں داخل ہو چکا ہو یا نہ ہوا ہو، اور اگر مذکورہ طریقہ سے واپس آنا ممکن نہ ہو تو اب اگر حرم  میں داخل نہ ہوا ہو تو جہاں ہے وہیں سے احرام باندھے گا اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جس قدر بھی ممکن ہو میقات کی طرف واپس ہو اور وہاں محرم ہو۔ کہ(حرم میں داخل ہو)۵۔ احتیاط واجب کی بنا پر جس قدر بھی ممکن ہو میقات کی طرف واپس جائے اور(وہاں محرم ہو)۔۶۔ سوال: جو شخص عمرہ مفردہ انجام دے چکا ہو کیا ایک ماہ سے کم مدت میں بغیر احرام کے میقات سے باہر جاسکتا ہے؟جواب: احتیاط یہ ہے کہ رجائے مطلوب کی نیت کے ساتھ دوسرے عمرہ مفردہ کے لئے محرم ہو اور بغیر احرام کے باہر نہ جائے۔۶۔ پچھلے احرام کو ایک ماہ گزرنے سے پہلے بغیر احرام کے میقات سے گزر سکتا ہے۔۷۔ سوال: زوجہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نذر کرتی ہے اور نذر کے تحت محرم ہوجاتی ہے تو کیا اس کا احرام صحیح ہے؟ اور اب اگر اسی احرام کے ساتھ اعمال بھی بجالائی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟جواب: اگر میقات سے پہلے محرم ہوئی ہے تو اس کا احرام صحیح نہیں ہے، اگرچہ اس صورت حال سے، حج ختم ہونے کے بعد اگر متوجہ ہو تو اس کا عمل صحیح ہے، لیکن اگر عمرہ کے بعد متوجہ ہو جائے تو صرف اس صورت میں عمل صحیح ہے کہ اس کی تلافی ممکن نہ ہو اور اگر تلافی ہوسکتی ہو تو میقات واپس جائے اور وہاں سے محرم ہو اور  اگر میقات نہ جاسکتی ہو تو حرم کے باہر سے احرام باندھے۔۷۔ شوہر کی عدم موجودگی میں زوجہ کی جانب سے میقات سے پہلے احرام باندھنے کی نذر شوہر کی اجازت پر موقوف نہیں ہے لیکن شوہر ساتھ ہونے کی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر نذر نہ کرے اور اگر بغیر اجازت کے نذر کرے تو نذر منعقد نہیں ہوگی۔ محرمات احرام امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ خوشبو والے پھول اور سبزوں کے استعمال سے پرہیز کرے سوائے کچھ قسموں کے جو جنگلی ہیں جیسے بومادرون، درمنہ اور خزامی جن کے لئے کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ خشبودار پھول ہے۔۱۔ سوائے عطر کے کہ جس کا استعمال احرام کی حالت میں حرام ہے احتیاط واجب کے تحت کسی بھی قسم کی ایسی خوشبودار چیز نہیں سونگھنا چاہیئے کہ جس کو عطر نہیں کہا جاتا۔۲۔ سیب یا بہی کی مانند خوشبودار پھلوں سے پرہیز ضروری نہیں ہے اور ان کے کھانے اور سونگھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن احتیاط یہ ہے کہ ان کے سونگھنے سے پرہیز کرے۔۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر ان کے سونگھنے سے پرہیز کرے۔۳۔ احتیاط واجب کی بنا پر خوشبو کے استعمال کا کفارہ، ایک بھیڑ ہے۔۳۔ خوشبو کے استعمال پر کفارہ کا واجب ہونا ثابت نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایک بھیڑ کفارہ دے۔۴۔ احتیاط یہ ہے کہ آئینہ نہ دیکھے اگرچہ زینت کے لئے نہ ہو۔۴۔ زینت کے قصد کے بغیر آئینہ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔۵۔ (احرام کے محرمات میں) تیرہواں عمل، زینت کے لئے انگوٹھی پہننا (ہے) اور اگر استحباب کے لئے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔۵۔ احتیاط واجب کی بنیاد پر محرم کو انگوٹھی پہننے اور مہندی لگانے سے اگر ان کا زینت میں شمار ہو پرہیز کرنا چاہیئے ولو زینت کا قصد نہ رکھتا ہو بلکہ ہر اس کام سے پرہیز کرے جو زینت سمجھا جاتا ہے۔۶۔ اگر سر دھوئے تو اس کو تولیہ یا رومال سے خشک نہیں کرنا چاہئے اور سر کے بعض حصہ کا بھی وہی حکم ہے جو پورے سر کا حکم ہے۔۶۔ تولیہ سے سر خشک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ تولیہ پورے سر پر ڈال کر سر کو اس سے خشک کرے۔۷۔ رات کو سفر میں مکانوں کے درمیان گزرتے وقت چھت کے نیچے بیٹھنا احتیاط کے خلاف ہے اگرچہ اس کا جائز ہونا بعید نہیں ہے لہذا رات میں پرواز کرنے والے ہوائی جہاز میں محرم کے بیٹھنے کا جائز ہونا بعید نہیں ہے۔۷۔ لیکن بارش کی راتوں اور(جاڑے کی)ٹھندی راتوں میں سائے میں نہ بیٹھنے کی احتیاط ترک نہ ہو مگر یہ کہ اس احتیاط پر عمل کسی مشکل اور پریشانی کا باعث بنے۔۸۔ سوال: محرم کے لئے پانی کی وہ مشک اٹھا کر چلنے کا کیا حکم ہے جو سلی ہوئی  ہو؟جواب: احتیاط یہ ہے کہ اس کو کاندھوں پر نہ اٹھائیں ہاتھ میں لیکر چلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔۸۔ ہمیان(کمر میں باندھی جانے والی چمڑے وغیرہ کی تھیلی) ازار بند(بلٹ وغیرہ)یا(رومال کی مانند)ایسے چھوٹے کپڑے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جن کو لباس میں شمار نہیں کیا جاتا۔۹۔ سوال: کیا محرم عورت اپنے چہرا تولیہ سے پوجھ سکتی ہے یا اس کا بھی حکم مرد کے سر کی طرح ہے کہ جس کو ڈھکا نہیں جا سکتا؟جواب: احتیاط کی رعایت ضروری ہے۔۹۔ اگر (کوئی عورت) تولیہ پورے چہرے پر ڈال لے تو صحیح نہیں ہے ورنہ کوئی حرج نہیں ہے۔۱۰۔ سوال: شہر مکہ میں کچھ ٹیونل بنے ہوئے ہیں جن کی لمبائی ۱۵۰۰ قدم سے زیادہ ہے تو کیا حج کا احرام باندھنے کے بعد موٹر کار یا بس وغیرہ کے ذریعہ ان سے گزرا جاسکتا ہے؟ جبکہ معلوم ہے کہ ان پر چھت پڑی ہوئی ہے؟جواب: کوئی حرج نہیں ہے۔ ہاں اگر خود اس راستہ کو اپنائے اور اس چھت کے نیچے سے گزرے تو صحیح نہیں ہے۔۱۰۔ کوئی حرج نہیں ہے۔۱۱۔ سوال: کیا حالت احرام میں وہ دانت اکھاڑا جاسکتا ہے جس میں شدید درد ہو اور ڈاکٹر بھی اس کے اکھاڑنے کے لئے کہے؟ اگرچہ خونریزی کا باعث ہی کیوں نہ ہو؟جواب: اگر ضروری ہے تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن احوط ہے کہ کفارہ بھی ادا کرے۔۱۱۔ کفارہ دینا احتیاط مستحب ہے۔ ۵۔ سایہ میں اور چھت کے نیچے چلنا۔ طواف امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ طواف کی شرطوں میں پانچویں شرط یہ ہے کہ طواف ہر طرف سے خانہ کعبہ اور مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیان ہو۔۱۔ طواف کی جگہ کے لئے کوئی حد نہیں ہے،مسجد الحرام میں جہاں تک بھی طواف کرنا کعبہ کا طواف کرنا قرار پائے طواف صحیح اور مجزی ہے ہاں اگر اضطرار اور بھیڑ بھاڑ نہ ہو تو مستحب ہے طواف کہ کعبہ اور مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیان ہو۔۲۔ سوال: اگر طواف کے درمیان نماز جماعت قائم ہوجائے اور آدمی طواف جاری رکھنے سے معذور ہو تو اس کا فریضہ کیا ہے اور اگر سعی کے درمیان ہو تو کیا فریضہ ہے؟جواب: اگر طواف یا سعی کے چوتھے شوط (چکر) کے بعد سلسلہ ٹوٹے تو جہاں سے چھوڑا ہے وہیں سے (باقی ماندہ) طواف یا سعی آخر تک انجام دے گا اور اگر طواف کے چوتھے شوط سے پہلے چھوڑا ہو اور فاصلہ طویل ہوجائے تو طواف دوبارہ شروع سے انجام دے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ بقیہ طواف مکمل کرے اور اس کی نماز طواف پڑھنے کے بعد طواف کا اعادہ کرے اور دوسری نماز طواف پڑھے اور سعی میں بھی بقیہ سعی مکمل کرنے کے بعد پھر سے سعی کا اعادہ کرنے میں احتیاط ہے۔۲۔ اگر طواف کا سلسلہ توڑدے جبکہ آدھا طواف یعنی ساڑھے تین شوط (چکر) انجام دے چکا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ جہاں سے طواف چھوڑا تھا وہیں سے آگے بڑھا کر طواف پورا کرے اگرچہ ایک مکمل طواف ’’تمام و اتمام کسی بھی نیت سے بجا لائے اور اگر ساڑھے تین شوط سے کم انجام دیا ہو تو ازسرنو طواف انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۶۔ ۶۔ یعنی نیت کرے کہ اگر پہلا طواف صحیح تھا تو اس طواف کے ذریعہ اس کی تکمیل ہوجائے اور اگر پہلا طواف صحیح نہ رہا ہو تو یہ طواف اس کا طواف شمار ہو۔ نماز طواف امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےاگر کوئی شخص قرائت یا واجب اذکار صحیح طور پر نہ سیکھ سکے تو نماز جیسے بھی اس سے ہوسکتا ہے خود انجام دے اور  یہی کافی ہوگی اور اگر ممکن ہو تو کسی کو ساتھ لے لے کہ وہ قرائت اور اذکار کو پڑھتا رہے اور یہ دہراتا رہے اور احتیاط یہ ہے کہ مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس کسی عادل شخص کی اقتدا کرے لیکن نماز جماعت پر اکتفا نہ کرے جیسا کہ نائب بنانا بھی کافی نہیں ہے۔نماز طواف میں جماعت کا شرعی جواز ثابت نہیں ہے لہذا جیسے بھی ہوسکے خود پڑھے اور احتیاطا نائب بھی بنائے۔ دو عمرہ کا فاصلہ امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ حج کی طرح عمرہ کی تکرار بھی مستحب ہے اور دو عمرہ کے درمیان کے فاصلہ کے سلسلہ میں علما نے اختلاف کیا ہے اور احوط یہ ہے کہ ایک مہینہ سے کم میں قصد رجاء کے ساتھ انجام دیا جائے۔۱۔ دو عمرہ کے درمیان کسی معین فاصلہ کا ہونا شرط نہیں ہے لیکن احتیاط کی بنا پر ایک مہینہ میں صرف ایک عمرہ اپنے لئے انجام دے سکتا ہے لیکن غیر کے لئے ہر ایک کی طرف سے ایک عمرہ انجام دینا جائز ہے۔۲۔ عمرہ تمتع کے بعد اور حج تمتع سے پہلے عمرہ مفردہ انجام نہیں دینا چاہئے اور اگر انجام دے دے تو عمرہ مفردہ کی صحت محل اشکال ہے لیکن عمرہ تمتع اور حج تمتع میں کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا۔۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر عمرہ مفردہ انجام نہیں دینا چاہئے۔ احرام حج امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےاحتیاط واجب یہ ہے کہ جو شخص عمرہ تمتع سے فارغ ہوجائے اور محل بن جائے وہ کسی ضرورت کے بغیر مکہ سے باہر نہ جائے اور اگر باہر جانے کی کوئی ضرورت پڑجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ حج کے احرام کے لئے محرم ہو اور پھر باہر جائے اور اسی احرام کے ساتھ اعمال حج کے لئے پلٹے۔عمرہ تمتع کے بعد اگر حج کے فوت ہونے کا خطرہ نہ ہو تو مکہ کے باہر قریب کے علاقوں کی طرف نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قربانی امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ قربانی کے شرائط میں سے یہ ہے کہ زیادہ بوڑھا نہ ہو۔۱۔ قربانی کا بوڑھا نہ ہونا شرط نہیں ہے۔۲۔ قربانی کی ساتویں شرط یہ ہے کہ اس کے بیضہ کچلے ہوئے نہ ہوں، احتیاط واجب کی بنیاد پر۔۲۔ بیضہ کا کچلا ہوا نہ ہونا شرط نہیں ہے مگر یہ کہ خصی ہونے کی حد تک پہنچ جائے۳۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ ذبح کرنے والا مومن ہو، بلکہ یہ قوت سے خالی نہیں ہے اور یہی کفارے کے حیوان کے ذبح کرنے والے کے سلسلہ میں بھی ہے۔۳۔ اگر ذبح کرنے والے کو قربانی کرنے میں اپنا نائب بنایا ہو تو [احتیاط واجب کی بنیاد پر مومن ہونا چاہئے] لیکن اگر اس سے صرف ذبح کرنے کا مطالبہ کرے تو ذبح کرنے والے کا مومن ہونا ضروری نہیں ہے اور خود قربانی اور قربت کی نیت کرے گا۔۴۔ سوال: اسٹیل کے چاقو سے ذبح کرنا کیسا ہے جس کے بارے میں پتہ نہیں ہے کہ لوہا ہے یا نہیں؟جواب: صحیح نہیں ہے۔۴۔ ذبح کرنے کے آلے کو لوہا ہونا چاہئے اور اسٹیل (یعنی لوہا اور زنگ سے حفاظت کا مادہ) در حقیقت لوہا ہی ہے اور اس سے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حلق یا تقصیر امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوے۱۔ احتیاط واجب کی بنا پر منی میں پہلے رمی جمرہ کرے اس کے بعد ذبح کرے پھر تقصیر یا حلق۔۱۔ اگر قربانی منی میں ہو تو مذکورہ ترتیب واجب ہے اور اگر منی میں نہ ہو تو اس کی رعایت احتیاط واجب کی بنیاد پر ہے اور دونوں صورت میں اگر رعایت نہ کرے تو گنہگار ہے لیکن اس کا عمل صحیح ہے۔۲۔ ایام تشریق کے آخر تک حلق کو موخر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ عمدا ہی کیوں نہ ہو اور رات میں بھی حلق صحیح ہے اور کافی ہے۔۲۔ احتیاط واجب کی بنا پر حلق یا تقصیر عید کے دن ہونا چاہئے اور اگر اس میں تاخیر کی تو شب یازدہم یا اس کے بعد اس کا انجام دینا کافی ہے۔ منی میں رات گزارنا امام خمینی (قدس سرہ) کے فتوےآیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) کے فتوےحاجی کے اوپر واجب ہے کہ شب یازدہم اور شب دوازدہم کو منی میں بیتوتہ کرے یعنی غروب آفتاب سے آدھی رات تک وہاں رہے۔رات کے شروع سے آدھی رات کے بعد تک یا آدھی رات کے پہلے سے طلوع فجر تک وہاں رہ سکتا ہے۔ آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای (دام ظلہ) سے چند استفتاآت ۱۔ براہ کرم غنا اور موسیقی نیز اس کے آلات کے مسئلہ کو سادہ اور قابل فہم طریقہ سے میرے لئے بیان فرمائیں۔ جواب: غنا مرکب ہے لہو و لعب اور عیاشی کی محفلوں سے مناسبت رکھنے والے اور ان محفلوں کے مخصوص گانے سے۔ یہ گانا حرام ہے، گانا بھی حرام ہے اور سننا بھی۔ موسیقی کے ساز اور آلات بھی اگر اس طرح  استعمال کئے جائیں جس طرح عام طور سے مذکورہ محفلوں میں استعمال ہوتے ہیں تو ان کا استعمال بھی حرام ہے اور سننا بھی۔ لہذا موسیقی اگر غنا ہو (یعنی مذکورہ محفلوں کے مخصوس انداز کےگانے) یا آلات موسیقی کی آواز ہو تو حرام ہے لیکن اگر اس طرح کی نہ ہو تو حرام نہیں ہے۔ ۲۔ عورت کا عورتوں کے درمیان اسی طرح مرد کا مردوں کے درمیان یا محرموں کے درمیان شادیوں میں ناچنا کیسا ہے؟ جواب: ناچنا اگر شہوت کے بھڑکنے یا کسی برائی کے پیدا ہونے یا کسی حرام کے مرتکب ہونے کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے بجز خلوت میں شوہر کے لئے زوجہ کے رقص کے، اسی طرح اس کے برعکس۔ ۳۔ ارواح کے احضار کے سلسلہ میں جناب عالی کی نظر کیا ہے؟ جواب: ارواح کا حاضر کرنا اپنی جگہ کوئی ممانعت نہیں رکھتا مگر یہ کہ کسی حرام کام کے ساتھ ہو یا کسی حرام کام کے انجام دینے کے ارادہ سے ہو۔ ۴۔ ہپناٹزم کا شرعی لحاظ سے کیا حکم ہے؟ جواب: عقلائی غرض کے لئے مقابل کی رضایت کی صورت میں فی نفسہ حلال ہے اور کوئی حرج نہیں ہے۔ ۵۔ نامحرم کو دیکھنا کا کیا حکم ہے؟ جواب: نامحرم کے چہرے اور گٹے تک ہاتھوں کو احساس شہوت کے بغیر دیکھنا حرام نہیں ہے۔ ۶۔ اگر ایک اجنبی انسان کے نطفہ کو کسی عورت کے رحم میں ڈالیں تو شرعی اعتبار سے صحیح ہے یانہیں؟ جواب: مذکورہ عمل اپنی جگہ پر شرعی اعتبار سے ممنوع نہیں ہے لیکن حرام نگاہ اور ہاتھ لگانے سے پرہیز کیا جائے۔ ۷۔ اگر زن و شوہر کے ذریعہ بنے ہوئے جنین کو کسی نامحرم عورت کے رحم میں ڈالا جائے تو اس کا شرعی حکم کیا ہوگا؟ براہ مہربانی مسئلہ کے وضعی احکام بھی بیان فرمائیں۔ جواب: اس کام میں فی نفسہ اشکال نہیں ہے اگرچہ ہاتھ لگانے اور نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا ہوگا اور بچہ صاحب نطفہ مرد و زن سے ملحق ہوگا اور ان کے اور ان کے رشتہ داروں کے لئے محرمیت ثابت ہوگی اور صاحب رحم عورت کے سلسلہ میں بھی احتیاط کی جائے۔ ۸۔ عورتوں اور مرودں کی وقتی یا دائمی نس بندی کا کیا حکم ہے؟ اگر نس بندی بانجھ ہونے کا سبب ہو تو کیا حکم ہے؟ جواب: اگر نس بندی عقلائی غرض سے، بڑے نقصان کے بغیر اور زوجہ میں شوہر کی اجازت سے ہو تو اس میں فی نفسہ کوئی حرج نہیں ہے اور اس کے لئے وقتی یا دائمی اسی طرح بانجھ ہونے یا نہ ہونے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ۹۔ میں نے ایک سالہ بچی کو فرزندی میں قبول کیا ہے اب کسی راہ حل کی تلاش میں ہوں جس سے وہ محرم ہوسکے۔ جواب: اس بچی کو مصلحت کی صورت میں اور حاکم شرعی کی اجازت سے اپنے والد کے عقد موقت میں لاسکتے ہیں۔ ۱۰۔ کیا قسامہ میں ایک آدمی پچاس قسم کھا سکتا ہے؟ جواب: قسامہ میں جہاں قسم کھانے والوں کی تعداد (مدعی کی طرف) پچاس افراد سے کم ہو وہاں اس قسامہ کی بنیاد پر حکم کرنے میں واقعی اشکال ہے۔ ۱۱۔ قتل عمد میں اگر مقتول کے سارے کے سارے اولیاء، صغیر یا مجنون ہوں وہاں کیا ولی قہری (باپ یا پدری جد) یا عدالت کی طرف سے معین ہونے والے قیم، قصاص یا دیہ کا مطالبہ کرسکتا ہے؟ جواب: اولیائے صغیر و مجنون کے ادلہ ولایت سے اس طرح استفادہ ہوتا ہے کہ شارع کی طرف سے ان کی ولایت کا جعل کرنا مولی علیہ کی مصلحت کی حفاظت کے لئے ہے۔ لہذا پیش نظر مسئلہ میں کیونکہ اولیائے دم، صغیر و مجنون ہیں لہذا ان کے شرعی ولی کو چاہئے کہ ان کی مصلحت اور فائدے کے پیش نظر مناسب اقدام کرے اور قصاص یا دیہ یا بامعاوضہ معافی یا بلا معاوضہ معافی کے سلسلہ میں اس کی تشخیص نافذ ہوگی۔ ظاہر ہے کہ صغیر و مجنون کی مصلحت کی تشخیص تمام پہلؤوں کو منجملہ اس کے سن بلوغ سے قریب یا نزدیک ہونے کو ملحوظ رکھتے ہوئے انجام پائے گی۔