یہ قول زریں، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛

قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع اخْتَبِرُوا إِخْوَانَكُمْ بِخَصْلَتَيْنِ فَإِنْ كَانَتَا فِيهِمْ وَ إِلَّا فَاعْزُبْ ثُمَّ اعْزُبْ ثُمَّ اعْزُبْ مُحَافَظَةٍ عَلَى الصَّلَوَاتِ فِی مَوَاقِيتِهَا وَ الْبِرِّ بِالْإِخْوَانِ فِی الْعُسْرِ وَ الْيُسْر

شافی، صفحه‌ى 652

ترجمہ و تشریح: کتاب الکافی میں فرزند رسول حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ «اختبروا اخوانكم بخصلتين» اپنے بھائیوں کو دو خصلتوں کے ذریعے پرکھو۔ یہاں اخوان سے بظاہر وہ سبھی لوگ مراد نہیں لئے گئے ہیں جن کے ساتھ انسان کی معاشرت رہتی ہے۔ یہاں یہ مراد ہے کہ جن لوگوں کا آپ اپنے قریبی دوست کے طور پر انتخاب کرنا چاہتے ہیں ان میں دو صفتوں کے بارے میں ضرور پتہ کر لیجئے۔ اگر یہ دونوں صفات ان میں موجود ہوں تب تو ٹھیک ہے ورنہ دوسری صورت میں و الا فاعزب ثم اعزب ثم اعزب عزب کے معنی ہیں دور ہو جانے کے، چھپ جانے کے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے لا یعزب عنہ مثقال ذرۃ (اللہ سے کوئی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ سورہ سبا آيت 3) ایسے لوگوں سے دور ہو جائیے، ان سے خود کو چھپائے رکھئے۔
یہ دو صفات ہیں کیا؟ «محافظة على الصّلوات فى مواقيتها» ایک صفت ہے وقت پر نماز ادا کرنے کی پابندی۔ یہاں وقت پر نماز ادا کرنے سے مراد ہے فضیلت کے اوقات میں اور اول وقت نماز کی ادائیگی۔ ورنہ اگر نماز کا پورا دورانیہ مراد لیا جائے خواہ اس کا آخری حصہ ہی کیوں نہ ہو تو ظاہر ہے کہ آخری وقت تک بھی نماز نہ ادا کرنے والا تو فاسق ہے۔ یہاں امام یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ وہ انسان فضیلت کے وقت اور اول وقت نماز پڑھتا ہو۔ جناب بہجت مرحوم ( انتہائی پرہیزگار اور جلیل القدر عالم دین) سے ہم نے بارہا سنا، خود میں نے مرحوم کی زبانی بھی سنا اور دوسرے افراد نے بھی نقل کیا کہ آپ فرماتے تھے کہ ان کے استاد غالبا جناب قاضی مرحوم نے ان سے کہا کہ اگر کوئی اول وقت نماز پڑھنے کا عادی ہے تو میں اس کی نجات کی ضمانت دینے کے لئے تیار ہوں۔ میں نے مرحوم سے پوچھا کہ بلا شبہ وہ نماز مراد ہے جو کما حقہ ادا کی جائے؟ آپ نے جواب دیا کہ بالکل یہی مراد ہے، توجہ اور اخلاص سے فضیلت کے وقت پر پڑھی جانے والی صحیح نماز مراد ہے۔ اگر کوئی انسان اس چیز کی پابندی کرے تو یہ عادت اس کی معراج کرا دے گی اور اسے یکتا پرستی کا بلند درجہ عطا کر دے گی۔ ایک تو یہ خصلت ہے۔
و البرّ فى الاخوان فى العسر و اليسر دوسری خصلت کا تعلق سماجی زندگی ہے۔ پہلی صفت، شخصی اور انفرادی صفت ہے اس کا تعلق بندے اور اللہ سے ہے لیکن دوسری صفت کا تعلق دوسرے انسانوں سے اس شخص کے رابطے کی نوعیت سے ہے۔ یہ صفت ہے اپنے بھائيوں کے حق میں سختی اور گشائش دونوں طرح کے حالات میں نیکی کرنا۔ خواہ سختی میں ہی کیوں نہ ہو۔ سختی کے ایام میں بھی انسان مدد کر سکتا ہے۔ اگر تنگدستی ہے، پیسے نہیں ہیں کہ دے تو کم از کم دلجوئی کے دو لفظ تو بول سکتا ہے، زبان سے اس کی مدد کر سکتا ہے۔ یہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مدد کرنے والے کے سختی اور گشائش کے حالات مراد ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس کی مدد کی جا رہی ہے اس کے سختی اور گشائش دونوں طرح کے حالات مقصود ہوں۔ کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگ انسان کی اس وقت مدد کرنے پر تیار رہتے ہیں جب اس کے حالات اچھے ہیں، اس کا اقبال بلند ہے۔ لیکن جیسے ہی اس کے برے دن شروع ہوئے، یہ افراد منہ پھیر لیتے ہیں۔ جب قسمت ساتھ چھوڑ دیتی ہے تو یہ لوگ بھی اسے تنہا چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ وہ شخص ایسا نہ ہو، بلکہ ہر طرح کے حالات میں اپنے بھائیوں کی مدد کرے۔