توحید پہلا باب ؛ توحید اور اس کا نظریۂ کائنات
توحید کے اصطلاحی معنی خدا کے وجود کی دلیل خدا شناسی میں عقل کا مقام اسلام کا بنیادی ستون اسلامی نظریہ کائنات میں توحید اسلامی توحیدی نظریئے میں مخلوقات کی حیثیت خلقت، موحد کی نگاہ میں اسلامی نظریۂ کائنات میں انسان توحیدی فکرکی بقا کا راز دوسرا باب ،منکرین وحدانیت
بشریت کی تباہی کا راستہ جاہلیت کے معاشرے میں شرک اسلامی معاشرہ میں شرک مفہوم شرک کی شناخت کی ضرورت انسان کے مشرک بننے کی وجوہات خدا کے صاحب اولاد ہونے کا دعوی اور اس کی نفی مادہ پرستوں کے انکار توحید کی دلیل مادہ پرستی کی طرف جھکاؤ کا سبب شیطان کی اطاعت کیسے ہوتی ہے کیا خدا کچھ لوگوں سے زیادہ محبت کرتا ہے؟تیسرا باب، توحیدی نظریۂ کائنات کے اثرات
عبادت کے مصادیق خدا اور شیطان کی عبادت توحیدی معاشرہ اسلامی معاشرے کی علامتیں معاشرے کے اقتصادی ڈھانچے پر توحید کے اثرات معاشرے کی اخلاقیات پر توحید کے اثرات اسلامی معاشرے کی تعمیر میں توحیدی نظریئے کے اثرات اسلامی ثقافت میں آزادی کی بنیاد توحید، حقوق میں انسانوں کی برابری شرط نجات سیاسی نظام میں توحید وسعت نظر موحد انسان کے دل سے خوف دور ہو جاتا ہے طاغوت سے موحدانہ برتاؤ زندگی میں توحیدی فرائض توحیدی تفکر کے دفاع کی آمادگی
پہلا باب ؛ توحید اور اس کا نظریۂ کائنات
توحید کے اصطلاحی معنی قرآن کی تعلیمات کے مطابق توحید کے معنی یہ ہیں کہ خدائے واحد و لاشریک نے کائنات کو پیدا کیا، اسی نے انسانوں کو پیدا کیا اور تدبیر خلق، گردش قوانین عالم اور زندگی بشر میں جاری قوانین کی گردش اسی کے اختیار میں ہے۔ توحید یعنی اس بات پر یقین کہ عالم خلقت اور کائنات میں کہکشانوں، بادلوں، آسمانی گہرائیوں، بے شمار کرات اور لاکھوں شمسی منظوموں سے لیکر کسی پیکر اور جسم کے چھوٹے چھوٹے خلیوں اور باریک کیمیائی ترکیب تک میں پایا جانے والا عجیب وغریب، حیرت انگیز اور انتہائی پیچیدہ تناسب کہ جو اتنا عظیم، متنوع اور پیچیدہ ہے کہ اس سے ہزاروں قانون اور اصول نکالے گئے ہیں، اس لئے کہ اگر نظم ایسا ہو کہ جس کے برعکس ہونا ناممکن ہو تو اس سے آفرینش کے ایسے قوانین کا استنباط ہوتا ہے کہ جس کے خلاف ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ یہ سب کسی فکر، تدبیر اور قدرت کا کرشمہ ہے اور اتفاقیہ وجود میں نہیں آیا ہے۔ یہ ایسا عقیدہ ہے کہ ہر عقل سلیم، ہر عاقل اور صاحب فکر انسان جو فکر میں جلد بازی سے کام نہ لیتا ہو، فیصلہ کرنے میں تحمل کا دامن نہ چھوڑتا ہو اور معاملات میں پہلے سے ہی کوئی فیصلہ نہ کر لیتا ہو، اس کو قبول کرتا ہے۔ یہ فکر، تدبیر، تفکر ، عظیم و بیکراں اور ناقابل بیان قدرت جو یہ پیچیدہ اور حیرت انگیز تناسب وجود میں لائی ہے، انسان کا بنایا ہوا کوئی بت، خدائی کا دعویدار کوئی محدود انسان یا کوئی اساطیری اور علامتی سمبل اور علامت نہیں ہو سکتی؛ بلکہ ذات واحد و یکتا و لایزال ہے جس کو ادیان خدا کہتے ہیں اور اس کو اس کے آثار سے پہچانتے ہیں۔ بنابریں یہ قدرت، یہ ارادہ اور عظیم و پیچیدہ منظومے کا ناظم اور بے نظیر اور ناقابل توصیف خالق وہ معمولی چیزیں نہیں ہوسکتیں جو انسان کے اختیار میں ہیں، یا وہ خود یا اس کے جیسا کوئی اور انہیں بناتا ہے، یا اس کے جیسی کوئی مخلوق جو ختم ہوجانے والی ہے (اس کی خالق) نہیں ہوسکتی بلکہ ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو الملک القدوس السلام المؤمن المھیمن العزیز الجبار المتکبر سبحان اللہ عما یشرکون توحید یعنی خدا کے علاوہ ہر ایک اور ہر چیز کی بندگی، اطاعت اور پرستش سے رہائی، یعنی بشری نظاموں کے تسلط کی زنجیروں کا کھل جانا، یعنی مادی و شیطانی طاقتوں کے خوف کے طلسم کا ٹوٹ جانا، یعنی ان بے نہایت طاقتوں پر بھروسہ کرنا جو خداوند عالم نے انسان کے باطن میں قرار دی ہیں اور ان سے استفادے کو ایسا فریضہ قرار دیا ہے جس کی خلاف ورزی جائز نہیں ہے۔ توحید یعنی ستمگروں اور مستکبرین پر مستضعفین کے قیام، مجاہدت اور استقامت کی صورت میں، ان کی کامیابی کے وعدہ الہی پر یقین، یعنی رحمت خدا پر بھروسہ کرنا اور ناکامی کے احتمال سے نہ ڈرنا، یعنی ان تمام زحمتوں اور خطرات کا سامنا کرنا جو وعدہ الہی کی تکمیل کی راہ میں انسانوں کو درپیش ہوتے ہیں، یعنی راستے کی مشکلات کو خدا پر چھوڑدینا اور حتمی اور آخری کامیابی کی امید رکھنا، یعنی مجاہدت میں اعلی ہدف پر جو ہر قسم کے ظلم و ستم، امتیاز و تفریق، جہالت اور شرک سے معاشرے کی نجات ہے، نظر رکھنا اور راستے میں ہونے والی ذاتی ناکامیوں کا اجر، خدا سے چاہنا اور مختصر یہ کہ توحید یعنی خود کو قدرت و حکمت الہی کے بحر بیکران و لایزال سے متصل پانا، اعلی ہدف کی جانب کسی تشویش کے بغیر، امید کے ساتھ آگے بڑھنا۔ وہ تمام عزت و بلندی جس کا وعدہ کیا گيا ہے، توحید کے اسی عمیق اور روشن ادراک اور ایمان کے سائے میں حاصل ہوگی۔ توحید کے صحیح فہم، اور اس کی عقیدتی اور عملی پابندی کے بغیر مسلمانوں کے بارے میں کوئی بھی وعدہ الہی عملی نہیں ہوگا۔
خدا کے وجود کی دلیل خود شناسی جو خدا کی زیادہ معرفت حاصل کرنے سے عبارت ہے اس کے بنیادی ستونوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے نفس، اپنی کمزوری، اپنے عشق اور اپنی قلبی احتیاج سے واقف ہو۔ انسان کے دل کے اندر ایک چیز ہے جو خود خدا کے وجود کی دلیل ہے۔ وہ چیز کیا ہے؟ وہ جستجوئے خدا کی جذبہ ہے، عشق خدا ہے، جاذبیت خدا ہے جو ہمارے دل کے اندر ہے۔ مادہ پرستوں کے دل میں بھی ہے مگر غافل انسان یہ سمجھ نہیں پاتا کہ وہ کیا ہے۔ یہ جو انسان دلی وابستگیوں، محبتوں اور کششوں کے پیچھے دوڑتا ہے، اس دوڑنے کی وجہ اور اس قلبی احساس کی جڑ وہی جذبہ الہی ہے لیکن غافل اور تاریکیوں میں ڈوبا انسان وہ ضروری قلبی روشنی نہیں رکھتا اس لئے نہ اس کو پہچانتا ہے اور نہ ہی اس کو سمجھ پاتا ہے۔
خدا شناسی میں عقل کا مقام
توحید صرف یہ نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ خدا ہے اور وہ بھی ایک ہے دو نہیں ہے۔ یہ توحید کی ظاہری شکل ہے۔ باطن توحید بحر بیکراں ہے جس میں اولیائے خدا غرق ہوتے ہیں۔ وادی توحید بہت عظیم ہے اور اس عظیم وادی میں مومنین، مسلمین اور موحدین سے کہا گیا ہے کہ فکر، تدبر اور تعقل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ واقعی تعقل اور تدبر ہی ہے جو انسان کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ البتہ مختلف مراحل میں عقل نور وحی، نور معرفت اور اولیائے خدا کی تعلیمات سے آراستہ ہوتی ہے؛ لیکن سرانجام جو چیز آگے بڑھتی ہے وہ عقل ہی ہے۔ عقل کے بغیر کہیں بھی نہیں پہنچا جا سکتا۔
اسلام کا بنیادی ستون
آج مسلمانوں اور مسلم اقوام پر جو بھی مصیبتیں نازل ہو رہی ہیں وہ توحید کے زیر سایہ زندگی نہ گزارنے کا نتیجہ ہیں۔ توحید صرف ایک ذہنی چیز نہیں ہے۔ توحید ایک حقیقی امر، زندگی کا ایک دستورالعمل اورایک نظام ہے۔ توحید مسلمانوں کو بتاتی ہے کہ اپنے دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ کس طرح رہیں، سماجی نظام میں کس طرح رہیں اور کس طرح زندگی گزاریں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ توحید پر اعتقاد کا تعلق موت کے بعد سے ہے جبکہ توحید پر اعتقاد اس عالم اور زندگی کی تعمیر کرتا ہے۔ مسلمان توحید اور عبودیت کی طرف جتنا بڑھیں گے ، ان کے لئے خدا کے دشمنوں اور طاغوتوں کا شر اتنا ہی کم ہوگا۔ دوسروں کی بندگی اور غلامی کے ساتھ خدا کی بندگی نہیں ہو سکتی۔
اسلامی نظریہ کائنات میں توحید
دنیا کے بارے میں ہر مکتب کی ایک خاص آئیڈیالوجی، ایک خاص نظریہ اور ایک خاص ادراک ہوتا ہے۔ دنیا کے تعلق سے یہ خاص ادراک اور دنیا کے بارے میں یہ مخصوص نقطۂ نگاہ، نظریۂ کائنات ( آئیڈیالوجی) ہے۔ توحید بھی اسلامی نظریۂ کائنات کا حصہ ہے۔ توحید اسلام کی زندگی ساز آئیڈیالوجی کا جز بھی ہے۔ توحید تمام اسلامی ضوابط کے لئے جسم میں روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پیکر اور جسم کے تمام اعضا میں نرم و لطیف ہوا کی طرح حرکت کرتی ہے اور اسی کا نام ہے اسلام ہے۔ اس پیکر اور جسم میں صاف اور پاکیزہ خون کی طرح ہے جس کا نام دین اور اسلام ہے۔ اسلام کی تمام باریک ترین رگوں میں ( توحید موجود ہے) ، حتی کوئی بھی اسلامی حکم ایسا نہیں مل سکتا جس میں توحید کا رنگ و بو اور نشانی نہ ہو۔ اسلام کا نظریہ ہے کہ اس مجموعے میں جس کا نام دنیا ہے، ہر جگہ، اوپر سے لیکر نیچے تک، ناچیز اور حقیر مخلوقات سے لیکر بڑی اور عظیم مخلوقات تک، پست ترین جاندار یا بے جان سے لیکر باشرف ترین، طاقتور ترین اور عقل و خرد کی مالک مخلوق یعنی انسان تک، اس دنیا میں ہرجگہ، سب کے سب، ایک عظیم طاقت کے بندے، اس کے غلام، اس کے پیدا کردہ اور اسی سے وابستہ ہیں۔ اس ظاہر سے ماورا جسے انسان کی نگاہیں دیکھتی ہیں، اس سے حد سے ماورا جہاں تک تجرباتی علم و دانش ( سائنس) کی تیز بیں نگاہیں پہنچ سکتی ہیں، ان تمام چیزوں سے ماورا جو قابل لمس اور قابل حس ہیں ان سب کے ماورا ایک حقیقت ہے جو تمام حقیقتوں سے بالاتر، اعلی تر، باشرف تر اور باعزت تر ہے اور تمام مخلوقات عالم اسی کے دست قدرت کے بنائے ہوئے، تیار کردہ اور اسی کے خلق کردہ ہیں۔ اس بالاتر طاقت کو ایک نام دیا گيا ہے۔ اس کا نام خدا ہے۔ اس کا نام اللہ ہے۔ بنابریں دنیا ایک حقیقت ہے جو خود سے قائم نہیں ہے۔ جو خود ہی خود کو وجود میں نہیں لائی ہے، اپنے باطن اور اندر سے ابھر کے سامنے نہیں آئی ہے بلکہ ان گوناگوں مخلوقات کو جو سائنس کی ترقی و پیشرفت کے ساتھ زیادہ نمایاں ہوکے سامنے آرہی ہیں، ایک لا متناہی طاقت نے خلق کیا ہے اور وجود بخشا ہے۔ اس کی حیات کسی سے نہیں لی گئی ہے ، اس کا علم کسی جگہ سے اخذ اور کسب نہیں کیا گیا ہے۔ پورے عالم کا اختیار اس کے پاس ہے۔ ذرات عالم اس کے سامنے کس طرح ہیں؟ کیا ذرات جب خلق کئے گئے اور بنائے گئے تو اس بچے کی طرح جو اپنی ماں سے الگ ہوتا ہے، اس سے الگ ہوئے؟ نہیں بلکہ یہ ہر لمحہ باقی رہنے کے لئے اس کے محتاج ہیں، اس کی قدرت کے محتاج ہیں اور اس کے ارادے کے محتاج ہیں۔ سب اس کے بندے ہیں۔ تمام مخلوقات اسی کے بندے، اسی کے غلام ، اسی کے پیدا کردہ اور اسی کی مخلوق ہیں۔ سب پر اس کو تصرف حاصل ہے۔ سب کو اس نے خاص نظم کے ساتھ خلق کیا ہے۔ سب کو اس نے منظم اور دقیق قوانین اور طریقوں سے وجود بخشا ہے۔ ان قوانین کا آج سائنس انکشاف کر رہی ہے۔ اسلامی نظریۂ کائنات میں توحید یعنی دنیا کا کوئی پیدا کرنے والا اور بنانے والا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، اس دنیا کی ایک پاک و لطیف روح ہے۔ دنیا کا کوئی خلق کرنے والا ہے اور تمام اجزائے عالم اس کے بندے، اس کے غلام اور تمام مخلوقات اس خدا اور اس خالق کے اختیار میں ہیں۔
اسلامی توحیدی نظریئے میں مخلوقات کی حیثیت
اسلام کا خالص توحیدی نظریہ کہتا ہے کہ تمام ممکنات و موجودات، ایک جگہ سے، ایک مبدا سے اور ایک دست قدرت سے خلق ہوئے ہیں، پیدا ہوئے ہیں اور بنائے گئے ہیں۔ سب اس کے بندے اور غلام ہیں۔ سب اس کی قدرت کے سامنے بے بس ہیں اور سب کو اس کا فرمانبردار ہونا چاہئے۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنا سر کسی اور کے پیر پر رکھے اور اسی طرح کسی کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ اپنا پیر کسی دوسرے کے سر پر رکھے۔ جس طرح انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنا پیر کسی کے سر پر رکھے، اسی طرح اس کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ اپنا سر کسی دوسرے کے پیر پر رکھے۔ اس لئے کہ دونوں صورتوں میں حق و حقیقت کے خلاف عمل ہوگا۔ جو گھوڑے پر بیٹھا ہے اور اس کے گھوڑے کی سم کے نیچے بندگان خدا ہاتھ پیر مار رہے ہیں، اس میں اور ان بندگان خدا میں کوئی فرق نہیں ہے۔
خلقت، موحد کی نگاہ میں
جب انسان مسلمان ہو گیا تو ہر چیز اس کے لئے تمہید اور وسیلہ ہو جاتی ہے۔ ایک وسیع تر عالم تک پہنچنے کا وسیلہ، موت کے بعد کی دنیا تک پہنچنے کا وسیلہ نہیں، بلکہ انسان کے عالم فکر و بینش تک پہنچنے کا وسیلہ جو ذات خدا جتنی وسعت رکھتا ہے۔ انسان کے لئے تمام چیزیں وسیلہ ہیں اس بات کا کہ انسان رضائے خدا حاصل کر سکے۔ دنیا کی زندگی، دنیا کی دولت، دنیا کی آسائش اور دنیا کی محبتوں کی اس کے لئے کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہوتی۔ یہ چیزیں اس وقت اس کے لئے اہم ہوتی ہیں کہ جب راہ خدا میں ہوں۔ لیکن اگر یہ محبت، یہ دولت، یہ مقام و مرتبہ، یہ زندگی، یہ اولاد، یہ عزت خدا کی راہ میں اور فریضے ادائیگی کی راہ میں نہ ہو تو اس کے لئے ان کی کوئی اہمیت و حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔
اسلامی نظریۂ کائنات میں انسان
اسلامی نظریۂ کائنات میں انسان ایسی مخلوق ہے جس میں بے پناہ صلاحیتیں نہفتہ ہیں۔ یہ انسان علم و دانش، حقائق خلقت اور رازہائے پنہاں کے انکشاف میں بے انتہا پیشرفت کر سکتا ہے۔ معنوی اور روحانی سیر و سلوک کی منزلیں طے کرنے میں بھی بے پناہ ترقی کر سکتا ہے، فرشتوں سے بھی بلند تر ہو سکتا ہے اور انواع و اقسام کی توانائیوں کے لحاظ سے طاقت و اقتدار کی بلند ترین چوٹیاں سر کر سکتا ہے۔ اگر اس سے خدا کی عبودیت کی، خدا کی اطاعت کی تو یہ راستے اس کے سامنے کھل جائیں گے اور اگر غیر خدا کی اطاعت کی تو اس کے بال و پر بندھ جائیں گے اور وہ پرواز سے محروم رہ جائے گا۔ علم و دانش کے تمام شعبوں میں انسان کی راہ میں توحید موجود ہوتی ہے اور انسان آشنا ہوتا ہے۔ صدر اسلام کا مسلمان، اگرچہ اس دور میں دنیا پر جہالت اور شرک کی حکمرانی تھی، توحید کا گرویدہ ہوا تو اس کو ایسی آزادی اور فتوحات نصیب ہوئیں کہ علم و دانش کے دروازے اس پر کھل گئے اوراس کی پیروی میں پوری بشریت وادی علم میں داخل ہوئی۔ آج دنیا اور بشریت اپنے علم و دانش کے لئے اسلام کی ممنون احسان ہے، ان مسلمانوں کی توحید کی احسانمند ہے، جنہوں نے پہلی بار علم و انش کی وادی
میں قدم رکھا۔
توحیدی فکرکی بقا کا راز
تاریخ میں، زمین پر توحید اور حکومت خدا کے دشمن بہت رہے ہیں۔ کیسے ممکن ہوا کہ پیغمبر تاریخ میں اپنے دشمنوں پر کامیاب ہوئے؟ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اتنے دباؤ کے باوجود جو موسی، شعیب، یوشع اور ہارون ( علیہم السلام) پر پڑے، بنی اسرائیل ایک روز پوری دنیا میں حکومت اور اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے؟ یہ کیسے ہوا کہ پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) جو زمانے میں تنہا تھے، صرف آپ تھے اور آپ کی تنہائی اور پوری دنیائے جاہلیت آپ کی مخالف تھی، مدینہ تشریف لائے، حکومت تشکیل دی، اور اسی حکومت کے ذریعے پوری دنیا کو توحید کے زیر سایہ لائے اور تاریخ میں ایک نئی تحریک شروع کی؟ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایران کا اسلامی انقلاب جس کی مشرق اور مغرب دونوں مخالفت کر رہے تھے اور آج کی مادی دنیا میں اس کا ایک بھی حامی و طرفدار نہ تھا، صرف اقوام اس کے ساتھ تھیں، کامیاب ہوا؟ زمانے اور تاریخ میں توحیدی نظریئے کی بقا اور ایران کے عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی میں ایک راز ہے اور وہ یہ ہے کہ بندگان خدا میں سے کچھ لوگ اس ہدف اور اصول کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ شہادت پسندی، اگر شہادت پسندی نہ ہوتی، اعلی ہدف کی راہ میں اگر جانیں نہ پیش کی گئی ہوتیں، تونہ ایران کا اسلامی انقلاب سامنے آتا، نہ پیغمبر اسلام کامیاب ہوتے، اور نہ ہی تاریخ میں توحید کوئی کامیابی حاصل کرپاتی۔ اس طرح خدا وند عالم نے تمام انبیائے الہی اور ادیان الہی کے لئے اس معاملے کو قرار دیا ہے ۔ ان اللہ اشتری من المومنین خدا خریدتا ہے، مومنین سے خریدتا ہے انفسہم ان کی جانوں کو واموالھم اور ان کی مادی ہستی کو ان کے اموال کو بان لھم الجنۃ اور اس کے بدلے میں انہیں بہشت عطا کرتا ہے۔ یہ اقوام کی شہادت پسندی کا جذبہ ہے جو انہیں کامیابی تک پہنچاتا ہے۔
دوسرا باب ،منکرین وحدانیت
بشریت کی تباہی کا راستہ
سب سے بڑا گناہ جس سے کوئی انسان یا معاشرہ دوچار ہوتا ہے، شرک ہے۔ خداوند عالم سبھی گناہوں کو معاف کر دیتا ہے مگر شرک کو نہیں معاف کرتا۔ ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذلک لمن یشاء۔ لیکن شرک اتنا بڑا اور مہیب گناہ ہونے کے باوجود ان گناہوں میں سے ہے کہ دنیا کے لوگوں میں اس کے مرتکبین بہت زیادہ ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ یہ گناہ بہت سے گناہوں کے برخلاف ہمیشہ ہر ایک کے لئے اور ہر شکل میں قابل شناخت نہیں ہے۔ لہذا روایات میں شرک کو، شرک آشکارا اور شرک پنہاں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ شرک جاہلیت کے معاشرے میں بھی ہوتا ہے اور اسلامی معاشرے میں بھی ہوتا ہے۔
جاہلیت کے معاشرے میں شرک
جاہلیت کے معاشرے میں سب کچھ شرک ہے۔ لوگوں کے سارے کام شرک آلود ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ جاہلیت اور غیر اسلامی معاشرے میں بر سرکار وہ لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے کی سمت اور حرکت، شرک آمیز بنا دیتے ہیں۔ اس لئے خود وہ بھی اور وہ تمام لوگ بھی جو ان کی پیروی کرتے ہیں، درحقیقت آتش (جہنم) اور ہلاکت کی طرف جاتے ہیں۔ جب کسی شرک آلود معاشرے میں مبداء ہستی اور عالم پر مسلط قوت قاہرہ سے انسانوں کے رابطے کا مسئلہ انحراف کا شکار ہوتا ہے تو لازمی طور پر اس معاشرے کے انسان ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں۔ کوئی، ایک خدا کی طرف جاتا ہے تو دوسرا دوسرے خدا کا رخ کرتا اور تیسرا تیسرے خدا کی طرف جاتا ہے۔ جو معاشرے شرک کی بنیاد پر استوار ہو ان میں افراد اور انسانوں کے گروہوں کے درمیان ایک ناقابل نفوذ دیوار اور کبھی نہ ختم ہونے والی کھائی حائل ہوجاتی ہے۔
اسلامی معاشرہ میں شرک
اسلامی معاشرے میں خدا کے جانشین اور اس کے مامور کردہ افراد، برسراقتدار ہوتے ہیں، اس کے باوجود وہاں بھی شرک موجود ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں جو اسلامی معاشرہ بنا رہنا چاہتا ہے، شرک کا پہلا نمونہ یہ ہے کہ اس معاشرے میں حکام کچھ باتوں کے لحاظ میں پڑ کر، جذبات کے ٹھنڈے پڑ جانے کی وجہ سے یا مستقبل، اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں مایوسی کا شکار ہوکر، غیر الہی احکام وضع کرنے اور پھر ان کے نفاذ کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا یہ عمل شرک کے مترادف ہوتا ہے۔ یہ شرک اور بہت بڑا شرک ہے۔ اس معاشرے میں جو اسلام کے نام پر اور مسلمان عوام کے ذریعے وجود میں آیا ہو، اگر اس معاشرے کے برسراقتدار کچھ لوگ بعض مصلحتوں کے پیش نظر احکام خدا پر معاملہ کرنا چاہیں تو یشترون بآیات اللہ ثمنا قلیلا یہ اس معاشرے میں شرک آلود فعل ہے۔ یہ معاشرہ اگرچہ مسلمان عوام کے ذریعے تشکیل پایا ہے لیکن ایک پنہاں شرک اس پر حکمفرما ہے۔
مفہوم شرک کی شناخت کی ضرورت
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیںان بنی امیۃ اطلبوا للناس تعلیم الایمان ولم یطلبوا تعلیم الشرک لکی اذا حملوھم علیہ لم یعرفوا یعنی بنی امیہ نے عوام کے لئے ایمان سیکھنے کا راستہ کھلا رکھا لیکن شرک کیا ہے یہ جاننے کا راستہ بند کر دیا تاکہ اگر لوگوں کو شرک کی طرف لے جائیں تو لوگ اس کو نہ پہچان سکیں۔ بنی امیہ علماء، اہل دین اور ائمہ علیہم السلام کو نماز، حج، زکات، روزہ اور عبادات کے بارے میں بولنے اور احکام الہی بیان کرنے کی اجازت دیتے تھے۔ اس کا راستہ کھلا رکھتے تھے کہ توحید اور نبوت لوگوں کو سمجھائیں لیکن اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ شرک کا مفہوم، اس کے مصادیق اور معاشرے میں شرک کی علامتوں کے بارے میں لوگوں کو کچھ بتایا جائے۔ اس لئے کہ اگرشرک کے بارے میں لوگوں کو یہ باتیں سکھائی جاتیں تو وہ فورا سمجھ جاتے کہ وہ شرک میں مبتلا ہو رہے ہیں اور جان جاتے کہ بنی امیہ انہیں شرک کی طرف لے جا رہے ہیں۔ فورا سمجھ جاتے کہ بنی امیہ ایسے طاغوت ہیں جنہوں نے خدا کے مقابلے میں سر اٹھایا ہے اور اگر کوئی ان کی اطاعت کرے تو درحقیقت اس نے شرک کا راستہ اپنایا ہے۔ اس لئے وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ عوام شرک کے بارے میں کچھ جانیں۔
انسان کے مشرک بننے کی وجوہات
علامہ مجلسی بحار الانوار کی اڑتالیسویں جلد میں فرماتے ہیں کہ انّ آیات الشرک ظاھرھا فی الاصنام الظاھرۃ وباطنھا فی خلفاء الجور، الذین اشرکوا مع آئمۃ الحق ونصبوا مکانہ یعنی قرآن کریم میں شرک کی آیات بظاہر ظاہری بتوں یعنی انہی پتھر اور لکڑی کے بتوں کے بارے میں ہیں مگران کی باطنی تاویل یہ ہے کہ یہ آیات خلفائے جور (یعنی ظالم حکام) کے بارے میں ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں ہیں جو ناحق خود کو خلیفہ (اسلامی حاکم) کہتے تھے اور اسلامی معاشرے پر حکومت کرتے تھے۔ یہ خلفائے جور ( یعنی ظالم حکام ) اسلامی حکومت اور مسلمانوں کے معاشرے پر حکمرانی کے دعوے میں برحق اماموں کے شریک بن گئے اور خود کو آئمہ حق کا شریک قرار دینا خدا کا شریک قرار دینا ہے۔ کیونکہ آئمہ حق خدا کے نمائندے ہیں، خدا کی زبان بولتے ہیں اور خدا کی طرف سے بولتے ہیں۔ چونکہ خلفائے جور نے ان کی جگہ خود کو خلیفہ کہا اور ان کے امامت کے دعوے میں خود کو شریک قرار دیا اس لئے یہ بت اور طاغوت ہیں اور جو بھی ان کی اطاعت کرے وہ درحقیقت مشرک ہے۔
خدا کے صاحب اولاد ہونے کا دعوی اور اس کی نفی
قرآن کریم انسانوں کو جو عقیدہ دیتا ہے، وہ اہداف الہی کی تکمیل میں دخیل ہوتا ہے اورجس چیز کو غلط عقیدہ قرار دیکر اس کی نفی کرتا ہے، وہ چیز معاشرے کی گمراہی میں دخیل ہوتی ہے۔ غلط عقیدے کی نفی دراصل انسانی معاشر ے میں گمراہی کی جڑوں کی نفی ہے۔ قرآن کریم سورۂ رحمان کی آیت نمبر ستاسی میں فرماتا ہے وقالوا اتّخذ الرّحمن ولدا عیسائی، یہودی، مشرکین قریش، مشرکین عربستان اور دوسری جگہوں کے مشرک کہتے تھے کہ خدا رحمان صاحب اولاد ہے۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ خدا کی بیٹی ہے، کچھ کہتے تھے بیٹا ہے، کچھ کہتے ہیں اس کے بیٹی اور بیٹا دونوں ہیں، بعض کہتے تھے کہ ایک اولاد ہے اور بعض کہتے تھے اس کی اولادیں لاتعداد ہیں۔ کنبے والا ہے۔ اس دعوے کا مطلب یہ تھا کہ مخلوقات عالم میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کی خدا سے نسبت ، خدا سے بندے کی نسبت نہیں ہے بلکہ یہ نسبت ولدیت کی ہے۔ یہ اگرچہ مالک نہیں ہیں لیکن مالک کے بیٹے ہیں اس کے بندے کے بیٹے نہیں ہیں۔ یہودی کہتے تھے کہ عزیزبن اللہ یعنی عزیز پیغمبر خدا کے بیٹے ہیں ، وہ دراصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ تمام مخلوقات عالم خدا کے بندے اور غلام ہیں لیکن وہ خدا کے بندے اور غلام نہیں ہیں، وہ خدا کے بیٹے ہیں، خدا کے نورچشم ہیں۔ عیسائی، حضرت عیسی کے بارے میں یہی کہتے تھے۔ کفار لات، منات اور عزی کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ خدا کی بیٹیاں ہیں۔ یونان اور روم کے مشرکین کہتے تھے کہ خدا کے لاتعداد اولادیں ہیں۔ سب کا نظریہ یہی تھا یعنی دو صفیں مد نظر رکھی گئیں ، ایک خدا کی صف اور دوسری تمام بندوں اور مخلوقات کی صف جس میں سب خدا کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ ان دو صفوں کو تین قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ خدا، خدا کی اولادیں اور اس کے بندے۔ خدا اور انسان کے بیچ ایک درمیانی حد کا عقیدہ معاشرے میں بڑی گمراہیوں کا موجب ہے۔ یہ درحقیقت یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ بندگان خدا، خدا کے بندے ہونے کے ساتھ ہی ایک دوسرے کے بندے بھی ہوں۔
مادہ پرستوں کے انکار توحید کی دلیل
خدائی انسان کہتا ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے، جو مشاہدہ کرتا ہے، اس سے ماورا ایک برتر اور عظیم تر حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت نہ ہوتی تو یہ موجودات وجود میں نہ آتے۔ مادہ پرست کہتا ہے کہ نہیں، ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، اس کے علاوہ کسی اور چیز کے معتقد اور پابند نہیں ہو سکتے۔ ہم نے لیبارٹریوں اور تجربہ گاہوں میں بہت جستجو کی لیکن وہ وجود ہمیں نظر نہ آیا جس کے موحدین قائل ہیں۔ اس دور کے مادہ پرست کہتے ہیں کہ اس عالم سے ماورا کوئی حقیقت وجود نہیں رکھتی۔ مادہ پرست چونکہ مکتب الہی سے فکری اور ذہنی مایوسی سے دوچار ہوا ہے اس لئے یہ باتیں کرتا ہے۔ وہ چونکہ اس بات کا قائل ہے کہ آج کی دنیا اور انسانوں کے امور کو چلانا، قیام عدل اور امتیاز کا خاتمہ مادی طرز فکر کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے اسی نقطہ نگاہ کی بنیاد پر مکتب الہی سے روگرداں ہے۔ جو لوگ اس زمانے کے بعض ازموں کے گرویدہ ہیں، ان کی فکری حالت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس حقیقت کے انکار کی وجہ یہ نہیں ہے کہ خدا سے ان کی لڑائی ہے، یا وجود خدا پر ان کے پاس کوئی محکم دلیل نہیں ہے اس لئے وجود خدا کا انکار کرتے ہیں یا اس کو قبول نہیں کرتے۔ معاملے کے دوسرے رخ کی بھی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ خدا کی نفی میں کوئي استدلال ہے ہی نہیں، نہ اس وقت ہے اور نہ کبھی ماضی میں تھا۔ کوئی نہیں ہے جو کہے خدا کے نہ ہونے کی دلیل یہ ہے۔ دنیا کے تمام مادہ پرستوں میں پہلے دن سے آج تک کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو کہے کہ میں ثابت کرتا ہوں کہ اس دلیل سے خدا کی نفی ہوتی ہے۔ جو بھی اس بارے میں بولتا ہے کہتا ہے کہ میرے لئے یہ ثابت نہیں ہے کہ خدا ہے؛ میں نے نہیں سمجھا، میں نے خدا کے ہونے کے استدلال کو قبول نہیں کیا۔ قرآن کریم بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے ان ھم الّا یظنّون یہ وہم و گمان کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں ورنہ دلیل سے خدا کی نفی نہیں کر سکتے۔
مادہ پرستی کی طرف جھکاؤ کا سبب
اس چیز کی طرف جس کو مادی مکتب کہا جاتا ہے، جھکاؤ کی وجہ یہ ہے کہ مادہ پرست انسان سمجھتا ہے کہ آج دنیا کو مادی مکتب بہتر طریقے سے چلا سکتا ہے۔ کہتا ہے کہ مادی مکتب ، ظلم کو زیادہ اچھی طرح ختم کر سکتا ہے، امتیاز اور عدم مساوات کو بہتر طور پر مٹا سکتا ہے، ظلم و انانیت کو بہتر طور پرجڑ سے ختم کر سکتا ہے۔ مادہ پرست کہتا ہے کہ دین یہ کام نہیں کر سکتا۔ کیوں کہتا ہے کہ دین یہ کام نہیں کر سکتا؟ اس لئے کہ دین کے معنی و مفہوم سے بالکل واقف نہیں ہے۔ دین کے بارے میں اس کے علاوہ اور کـچھ نہیں جانتا جو اس نے کوچہ و بازار میں لوگوں میں مشاہدہ کیا ہے۔ مختصر یہ کہ اسے دین کی کوئی خبر نہیں ہے اور دین کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ اس سے پوچھا جائے کہ دین کیا ہے تو کچھ مذاہب کا نام گنواکر کہے گا یہ دین ہیں اور چونکہ یہ نشہ آور ہیں (افیم کی خاصیت رکھتے ہیں) ظلم اور ظالم کے مترادف ہیں اس لئے عوام کی کوئی مشکل حل نہیں کر سکتے۔ ظاہر ہے کہ ایسے غیر معقول فرد سے دوچار ہونے کے بعد ان کا بہترین اور صحیح ترین جواب یہ ہے کہ جی ہاں اگر کوئی ایسا دین تمہیں مل جائے جو ظالم کے لئے سازگار ہو، مستبد کے ساتھ تعاون کرے ، مظلوم کا ساتھ نہ دے سکے، لوگوں کی کوئی مشکل حل نہ کرسکے، لوگوں کے آج اور کل کے لئے ذرہ برابر بھی فائدہ نہ رکھتا ہو، ہم تمہیں اپنا وکیل بناتے ہیں، جب بھی اور جہاں بھی تمہیں کوئی ایسا دین مل جائے، اس کو مسترد کر دو۔ ایک لمحے کے لئے بھی اس دین کو قبول نہ کرو۔ اس لئے کہ جو دین خدا کی طرف سے ہے وہ ایسا نہیں ہے۔
شیطان کی اطاعت کیسے ہوتی ہے
وانّ الشّیاطین لیوحون الی اولیائھم لیجادلوکم یعنی شیاطین اور وہ جو بدی کے محور ہیں، اپنے دوستوں، اپنے محاذ والوں اور خود سے وابستہ لوگوں میں یہ وسوسہ پیدا کرتے ہیں کہ وہ آپ سے جنگ کریں۔ شیاطین بدی، برائیوں اور بربادی کے محور، اپنے کارندوں، دوستوں، اپنے محاذ والوں اور خود سے وابستہ لوگوں کے اندر یہ وسوسہ پیدا کرتے ہیں کہ وہ آئیں اور آپ سے بحث کریں، مباحثہ کریں اور آپ کو باتوں میں الجھائیں۔ شیطان کے ان کارندوں کے مقابلے میں آپ کا فریضہ کیا ہے؟ وان اطعتموھم انکم لمشرکون اگر آپ نے ان کی اطاعت کی اور ان کی پیروی کی تو مشرک ہو گئے۔ شیطان کی اطاعت یعنی رحمان کے مقابلے میں بدی کے محور کی اطاعت۔ شیطان خدا کے مقابلے میں ہے۔ شیطان یعنی بدی کے محور کی اطاعت سے، شیطان کے دوستوں کی اطاعت سے، اس کے زرخرید کارندوں کی اطاعت سے، اس کے پٹھوؤں کی اطاعت سے، اس کے رفیقوں کی اطاعت سے اور اس کے غلاموں کی اطاعت سے انسان مشرک ہو جاتا ہے۔ ان اطعتموھم اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو انّکم بیشک تم ، لمشرکون مشرک ہوگئے۔
کیا خدا کچھ لوگوں سے زیادہ محبت کرتا ہے؟
وقالت الیھود و النصاری نحن ابناء اللہ و احباؤہ یہودیوں نے کہا ہم خدا کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں۔ پھر خدا ان کے ایک جرم پر ان سے منہ پھیر لیتا ہے۔ (ان کے دعوے کا) جواب بھی دیتا ہے اور ان کی مذمت بھی کرتا ہے۔قل فلم تقتلون انبیاء اللہ بغیر حق اگر تم خدا کے اتنے چاہنے والے، اتنے نزدیک اور اس کے قرابتدار ہو تو اس کے پیغمبروں کو کیوں قتل کرتے ہو؟ اس کے برگزیدہ بندوں کو کیوں قتل کرتے ہو؟ یہودی کہتے تھے، ہم خدا کی اولاد اور خدا کے قرابت دار ہیں، اس لئے ہم برتری رکھتے ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ یہ غلط ہے۔ ایک اور جگہ پر فرماتا ہے یا ایھا الذین ھادوا ان زعمتم انّکم اولیاء اللہ من دون النّاس فتمنوا الموت ان کنتم صادقین اگر تم یہ کہتے ہو کہ خدا کے بڑے رفیق ہو اور اس کے قرابت دار ہو، تو اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو، تاکہ اس کھوکھلی زندگی سے نجات پاکے اپنے عزیز محبوب اور اس کے پاس پہنچ جاؤ جس کے قوم و قبیلے سے ہونے کے دعویدار ہو۔ اس کے بعد خداوند عالم فرماتا ہے ولا یتمنونہ ابدا محال ہے ، یہ موت کی تمنا ہرگز نہیں کریں گے، یہودی اور موت کی تمنا؟!
تیسرا باب، توحیدی نظریۂ کائنات کے اثرات
عبادت کے مصادیق
کبھی کسی کی عبادت اس صورت میں کی جاتی ہے کہ اس کو مقدس اور مافوق الفطرت قوتوں کا مالک سمجھیں۔ جیسے تاریخ میں لوگ بتوں اور مقدس شخصیات کی پرستش کرتے رہے ہیں۔ عبادت میں سب سے پہلے جو چیز نظر آتی ہے، یہی تقدس اور روحانی اور قلبی حالت ہے۔ جیسے مثال کے طور پر عیسائی جو حضرت عیسی علیہ السلام یا آپ کی والدۂ گرامی حضرت مریم صلوات اللہ علیہا کی پاکیزگی اور تقدس کے قائل ہیں، ان کے تخیلاتی مجسمے کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہیں، گریہ کرتے ہیں اوران کی پرستش کرتے ہیں۔ عبادت صرف یہ نہیں ہے کہ انسان کسی مقدس وجود کے سامنے، قلبی احترام کے ساتھ ، اس کو بالاتر سمجھتے ہوئے، اس کے سامنے جھکے، سجدہ کرے رکوع میں جائے، اس سے دعا مانگے، اس کی ستائش کرے اور اس کی طرف خضوع و خشوع کے ساتھ ہاتھ بلند کرے۔ بلکہ کچھ اور کام بھی ہیں جنہیں دوسرے معنی میں عبادت کہا جا سکتا ہے۔ عبادت کے دوسرے معنی کیا ہیں؟ عبادت کے دوسرے معنی کے لئے فارسی میں جو لفظ زبانوں پر رائج ہے ، وہ اطاعت ہے۔ کسی کی بھی بلاقید و شرط اطاعت اس کی عبادت ہے۔ قرآن کی زبان میں کسی بھی غیر خدا کی عبادت، اب وہ غیر خدا چاہے کوئی سیاسی طاقت ہو، مذہبی قوت ہو، کوئی باطنی عامل جیسے انسان کا نفس ہو، اس کی نفسانی و شہوانی خواہشات ہوں، انسان کے وجود سے الگ کوئی وجود ہو لیکن کوئی متمرکز سیاسی یا دینی قوت نہ ہو، کوئی عورت ہو کوئی مرد ہو جس کے لئے انسان بیجا احترام کا قائل ہے، یا کوئی دوست ہو- اس کی مطلق اطاعت کرنا اس کی عبادت کرنا ہے۔ جو بھی کسی فرد یا کسی شئے کی اطاعت کرے گویا اس نے اس کی عبادت کی ہے۔
خدا اور شیطان کی عبادت
امام محمد تقی (علیہ السلام) فرماتے ہیںمن اصغی الناطق فقد عبدہ عبادت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ صرف اطاعت ہی نہیں بلکہ تمام حواس کسی کے حوالے کر دینا ( یعنی پورے حواس کے ساتھ کسی کی طرف ملتفت ہونا ) بھی اس کی عبادت ہے۔ کیا انسان صحیح باتیں بھی نہ سنے؟ اس بارے میں حدیث میں آگے چل کے فرماتے ہیں و ان کان الناطق ینطق عن اللہ فقد عبد اللہ اگر وہ شخص جو بول رہا ہے اور اس نے لوگوں کے تمام حواس اپنی طرف مبذول کر رکھے ہیں، خدا کی باتیں کر رہا ہے، تو اگرچہ سننے والوں کے دل اس کی طرف مبذول ہیں، اذہان اس پر متمرکز ہیں اور فکر و روح اس کی طرف متوجہ ہے، لیکن وہ لوگ خدا کی عبادت کر رہے ہیں۔ وان کان الناطق ینطق عن لسان ابلیس فقد عبد ابلیس لیکن اگر بولنے والا شیطان کی باتیں کر رہا ہے، ابلیس کی زبان بول رہا ہے، فکر و فلسفہ الہی کے خلاف بحث کر رہا ہے اور لوگ اس کی باتیں سن رہے ہیں، تو ابلیس کی اطاعت اور عبادت میں مصروف ہیں۔ یعنی در اصل وہ خود شیطان ہے۔ وہ خود جو اس طرح بول رہا ہے، شیطان کا نمائندہ یا اس کا ترجمان نہیں بلکہ قرآن کے نزدیک وہ خود شیطان ہے۔
توحیدی معاشرہ
جب کسی معاشرے میں توحید آ جاتی ہے تو بندوں میں برابری بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ توحیدی معاشرے میں مبدا، مالک ہستی اور سلطان عالم وجود اس ذات حی و قیوم اور قاہر مطلق کو سمجھا جاتا ہے کہ تمام اتفاقات عالم اسی کی قدرت کاملہ اور ارادے کے مرہون منت ہوتے ہیں، تو سارے انسان چاہے وہ کالے ہوں یا گورے، کسی بھی رنگ و نسل اور سماجی حالت سے تعلق رکھتے ہوں، سب ایک ہی رشتے میں بندھ جاتے ہیں چونکہ اس خدا سے مل جاتے ہیں اور ایک ہی جگہ متصل ہوتے ہیں اور اسی سے نصرت اور مدد طلب کرتے ہیں۔ یہ توحید پر اعتقاد کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس نقطۂ نگاہ میں صرف انسان ہی ایک دوسرے سے مرتبط نہیں ہوتے بلکہ توحیدی نقطۂ نگاہ سے تمام اشیاء، اجزائے عالم، حیوانات، جمادات، آسمان، زمین اور تمام چیزیں ایک دوسرے سے متصل اور مرتبط ہیں اور تمام انسان ایک ہی کنبے کے ہیں۔ بنابریں جو کچھ انسان دیکھتا ہے، احساس کرتا اور سمجھتا ہے، ایک افق، ایک عالم اور ایک مجموعہ ہے کہ جو ایک صحتمند دنیا اور امن کی فضا میں قرار پاتا ہے۔
اسلامی معاشرے کی علامتیں
اسلامی معاشرے سے مراد وہ معاشرہ ہے کہ جس میں تمام افراد معاشرہ پر اطاعت خداوند عالم حکمفرما ہو، یا بہتر الفاظ میں اس معاشرے کی تمام راہ و روش فرمان خدا کے مطابق ہو اور جیسا خدا نے فرمایا ہے، اس طرح ہو۔ کسی معاشرے میں خدا کی عبودیت کی علامتیں چند چیزوں میں آشکارا طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ چند چیزیں معاشرے میں وجود میں آ جائیں تو سمجھنا چاہئے کہ وہ معاشرہ خدا کی بندگی میں ہے اور وہ نظام ، نظام الہی ہے۔ ایک یہ کہ اس معاشرے میں بندگان خدا حکومت کریں، دشمنان خدا نہیں۔ طاغوتی عناصر معاشرے پر مسلط نہ ہوں۔ جو اپنی دعوت دیتے ہیں، عوام کے لئے خدا کو نہیں بلکہ خود کو واجب الاطاعت سمجھتے ہیں، جو فرعون، نمرود اور تاریخ کے دیگر طاغوتوں کی طرح عوام کو اپنی خدمت میں طلب کرتے ہیں اور ان کے دل خدا سے آشنا نہیں ہیں، وہ معاشرے پر مسلط نہ ہوں بلکہ بندگان خدا کو بالادستی حاصل ہو۔ دوسرے یہ کہ احکام الہی رائج ہوں۔ عوام حکم خدا پرعمل کریں، ان احکام پر نہیں جو ہوا و ہوس یا انسان کی کمزور اور غلط تشخیص کے نتیجے میں صادر ہوتے ہیں۔ احکام کی حدود کو قرآن اور حکم خدا سے معین کیا جائے۔ تیسرے یہ کہ امتیاز نہ ہو، کالے گورے، عرب عجم، فلاں قوم ، فلاں قبیلہ فلاں کنبہ اور خاندان اور فلاں طبقہ، یہ باتیں امتیاز کا باعث نہ بنیں۔ معاشرے میں انسان بحیثیت انسان سامنے آئے اور تقوا برتری کی بنیاد قرار پائے۔ چنانچہ یہ تمام نشانیاں اور علامتیں صدر اسلام میں پائی جاتی تھیں۔ چوتھے یہ کہ معاشرے میں عوام اور انسانوں کا احترام ہو۔ انسان محترم ہو۔ ایسا نہ ہو کہ انسان کو حیوانی وسیلہ سمجھا جائے۔ معاشرے میں انسان کو عالم کی برترین مخلوق اور دنیا کو چلانے والا سمجھا جائے نہ کہ ایسی مخلوق جو اپنا پیٹ بھرتی ہے اور اس پر بوجھ لادا جاتا ہے کہ اگر ذہن نہیں سمجھتا ہے تو نہ سمجھے، اعلی اہداف کا شوق نہیں ہے تو نہ ہو۔ معاشرے میں انسان مکرم ہو۔ یہ جو خدا فرماتا ہے کہ لقد کرمنا بنی آدم یہ یونہی نہیں کہا گيا ہے۔ یہ ایک بنیاد ہے، اسلامی معاشرے کی ایک اساس ہے۔ جہاں بھی اس اصول پر عمل نہ ہو وہ معاشرہ اسلامی نہیں ہے۔ جہاں انسان ذلیل ہو، جہاں انسانوں پر طاقتوروں کی ہوا و ہوس کی حکمرانی ہو، جہاں انسان کو سوچنے اور فکر کرنے کا حق نہ دیا جائے، حصول علم کا حق نہ دیا جائے، اپنا راستہ خود منتخب کرنے کا حق نہ دیا جائے، یہ حق نہ دیا جائے کہ جس راستے کو اس نے پہچانا ہے اور سمجھا ہے یعنی راہ خدا اس کو تلاش کرے ، وہ معاشرہ اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ پانچویں یہ کہ معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہو، جس معاشرے میں ظلم ہو وہ خدائی معاشرہ نہیں ہوسکتا۔ چھٹے یہ کہ خدائی اور اسلامی معاشرے کی ایک علامت، جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ جس معاشرے میں جہاد نہ ہو، جہاد فی سبیل اللہ کی کوشش نہ ہو وہ معاشرہ بھی اسلامی معاشرہ نہیں ہو سکتا۔
معاشرے کے اقتصادی ڈھانچے پر توحید کے اثرات
توحیدی معاشرے میں سماجی سہولتیں سب کو حاصل ہونی چاہئیں۔ مطلب یہ نہیں ہے کہ سب کے پاس پیسہ برابر ہو۔ پیسہ برابر نہیں کرتے بلکہ موقع اور وسائل سب کو برابر سے فراہم کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کوئی فرد زیادہ تیز ہو اور دوسرا کاہل ہو۔ اگر کوئی زیادہ کام کرے گا تو زیادہ محنتانہ لے گا۔ اس کا محنتانہ لیکر دوسرے کو نہیں دیں گے کہ دونوں کا پیسہ برابر ہو جائے، بلکہ افراد معاشرہ کو پڑھنے، کام سیکھنے اور کام کرنے کا برابر سے موقع دیا جاتا ہے ؛ مواقع سب کو یکساں طور پر ملتے ہیں۔ معاشرے کے اقتصادی ڈھانچے پر توحید کی تاثیر یہ ہے کہ معاشرے میں توازن اور اعتدال کی حالت ہو۔ برابری کی نہیں بلکہ توازن اور اعتدال کی حالت۔ وہ جملہ جو امیر المومنین (علیہ السلام ) نے آغاز خلافت میں ایک فریضے اور اس نقطے کے عنوان سے بیان فرمایا کہ جس کے لئے آپ نے خلافت قبول فرمائی، یہ تھا کہ وما اخذ اللہ علی العلماء ان لا یقارّوا علی کظّۃ ظالم ولا سغب مظلوم یعنی خداوند عالم نے علما اور دانشوروں کا فریضہ قرار دیا ہے کہ ستمگروں کے سیر ہونے اور مظلوموں اور ستم رسیدہ لوگوں کے بھوکے رہنے پر چین سے نہ بیٹھیں۔ یہ اسلامی اقتصادی نظام کا ایک اہم عنوان ہے اور ان مسائل کی اساس پر اسلامی اقتصادی نظام استوار ہوگا۔ یہ توازن اور اعتدال کی حالت خدا پر انسان کے ایمان کی دین ہے۔ اگر خدا نہ ہو، اگر اس عالم اور انسان کی فکر کا کوئی مالک نہ ہو، اگر انسان خود اپنی قوت و طاقت پر بھروسہ کریں اور جو بھی حاصل کریں اس کے مالک ہوں اور سب کچھ اپنا سمجھیں تو معاشرے کی حالت کچھ اور ہوگی۔ توحیدی معاشرے کے مالی امور میں توحیدی نظریہ جو توحیدی قرار داد کی ایک اہم شق ہے، قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وآتوھم من مال اللہ الذی اتاکم خدا نے جو دولت تمہیں عطا کی ہے وہ خدا کی ہے اس کو ضرورتمندوں کو ان کی ضرورت اور حاجت کے لحاظ سے دو۔ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے، سب خدا کا ہے۔ انسان صرف امانتدار ہیں ( دولت انہیں امانت کے طور پر دی گئی ہے) المال مال اللہ جعلھا ودایع عندالناس دولت کو خدا نے انسان کو امانت کے طور عطا کیا ہے۔ یہ توحیدی آئیڈیالوجی کا لازمہ ہے۔
معاشرے کی اخلاقیات پر توحید کے اثرات
توحیدی نظام اور معاشرے میں رہنے والے تمام لوگوں کا انداز فکر، اپنے بھائیوں اور تمام انسانوں کے ساتھ سلوک اور اپنی ذاتی زندگی میں ان کا طرز عمل ان لوگوں سے مختلف ہوتا ہے جو مادی نظاموں میں رہتے ہیں۔ وہ خدا کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، خدا سے اپنی حاجت طلب کرتے ہیں، خدا سے محبت کرتے ہیں، خدا سے ڈرتے ہیں، خدا کی پناہ حاصل کرتے ہیں، خود کو خدا کا بندہ سمجھتے ہیں، بندگان خدا کے لئے محبت و ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں، بندگان خدا پر ظلم نہیں کرتے، ان سے حسد نہیں کرتے، ان کو لالچ کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور تمام اچھی اخلاقی صفات جن کا اخلاقیات کی کتابوں میں ذکر ہوا ہے، خدا پر ایمان کا نتیجہ ہے اور اسلامی اخلاقیات کی بنیاد اور ستون ، ایمان باللہ ہے۔
اسلامی معاشرے کی تعمیر میں توحیدی نظریئے کے اثرات
اسلام کے سماجی مسائل میں ایک قابل توجہ اور بنیادی مسئلہ ہے جس پر توجہ اسلام کے تمام سماجی مسائل میں انسان کی مدد کر سکتی ہے۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی فکر اور اسلامی نیز توحیدی اعتقاد اسلامی معاشرے کے سماجی اور عمومی ڈھانچے کی تعمیر میں کیا اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں، ان کا سماجی پیکر ان لوگوں سے کیا فرق رکھتا ہے جو خدا پر اعتقاد نہیں رکھتے۔ کیا خدا پر اعتقاد صرف یہ ہے کہ لوگ دل اور زبان سے خدا کو قبول کر لیں اور انفرادی اعمال جیسے نماز، روزہ، سچ بولنے اور جھوٹ سے پرہیز کرنے اور ذاتی امور میں خدا کو مد نظر رکھنے کے پابند بن جائیں ۔ اب چاہے وہ جس معاشرے میں بھی، جس شکل میں بھی اور جس نظام میں بھی زندگی گزاریں، کوئی حرج نہیں ہے یا نہیں بلکہ خدا پر اعتقاد، موحد انسانوں اور خدا پر اعتقاد رکھنے والوں کی عام زندگی میں متجلی ہونا چاہئے۔ اس میں شک نہیں کہ خدا پر اعتقاد صرف انسان کے دل اور ذہن میں ہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ خدا پر اعتقاد کا مطلب ایسی دنیا کی تعمیر ہے جو اس اعتقاد کے مطابق ہو۔ توحید پر عقیدہ اور خدا پر اعتقاد، موحد اور مسلمان معاشرے کے نظام حکومت میں بھی، اس معاشرے کی اقتصادی راہ و روش میں بھی اور معاشرے کے ایک ایک فرد کی اخلاقیات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ جس معاشرے کے لوگ خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں، اس معاشرے میں توحیدی مکتب فکر کی حکومت ہونا چاہئے۔ یعنی مکتب اسلام، اسلامی شریعت اور اسلامی احکام و قوانین کو لوگوں کی زندگی پر حکمفرما ہونا چاہئے اور معاشرے میں ان احکام کو نافذ کرنے والے کی حیثیت سے وہ سب سے زیادہ لائق اور مناسب ہے جس میں دو بنیادی اور نمایاں صفات پائی جاتی ہوں۔ اول یہ کہ وہ ان احکام کو، شریعت اسلام کو اور فقہ اسلام کو سب سے بہتر جانتا ہو اور احکام الہی اور قوانین اسلام سے پوری طرح واقف ہو۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ تعلیمات و احکام الہی سے واقف یہ شخص اس بات پر قادر ہو کہ خود کو گناہ، عمدی خطاؤں اور عمدی انحراف سے محفوظ رکھ سکے۔ یعنی وہ چیز جس کو اسلامی ثقافت میں عدالت کی صفت کہا جاتا ہے۔
اسلامی ثقافت میں آزادی کی بنیاد
اسلامی ثقافت میں آزادی کی بنیاد توحیدی نظریہ کائنات ہے۔ اصول توحید اپنے ظریف اور دقیق معانی کی گہرائیوں کے ساتھ انسان کے آزاد ہونے کا ضامن ہے۔ یعنی جو بھی وحدانیت کا معتقد ہے اور توحید کو قبول کرتا ہے، اسے چاہئے کہ انسان کو آزادی دے۔ تمام پیغمبروں کی پہلی بات یہ تھی کہ خدا کی اطاعت کرو اور طاغوت اوران لوگوں سے جو غیر خدا ہیں اور انسان کو غلام اور اسیر بنانا چاہتے ہیں، ان سے اجتناب کرو۔ ان اعبدواللہ واجتنبو الطاغوت (یعنی اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے دوری اختیار کرو) بنابریں اسلامی آزادی توحید پر استوار ہے۔ روح توحید یہ ہے کہ غیر خدا کی بندگی کی نفی ہو۔ اسلام میں آزادی کی بنیاد انسان کے ذاتی شرف اور شخصیت سے عبارت ہے جو کسی بھی غیر خدا کا بندہ نہیں ہوتا اور درحقیقت انسان کی آزادی کی بنیاد توحید اور خدا کی معرفت اور شناخت ہے۔ اسلامی ثقافت میں آزاد انسان کو غیر خدا کی اطاعت کا حق نہیں ہے اور نہ ہی وہ غیر خدا کی اطاعت کر سکتا ہے۔
توحید، حقوق میں انسانوں کی برابری
فرمان خدا کا مفہوم، مفہوم کتاب کے علاوہ ہے۔ البتہ فرمان خدا کتاب خدا میں ہے۔ فرمان خدا، وہ ابلاغ ہے جو خدا نے بندوں کو عطا کیا ہے۔ خداوند عالم نے انسانوں کی کلی زندگی کے لئے ایک دستورالعمل دیا ہے۔ یعنی خدا ایک روش کو معین کرتا ہے جس پر انسانوں کو چلنا چاہئے۔ یہ روش کیا ہے؟ یہ روش وہی چیز ہے جس کی پیغمبران خدا شروع سے آخر تک دعوت دیتے رہے ہیں، وہی چیز جو اصول اسلام سے حاصل ہوتی ہے یعنی انسان کا احترام، حقوق فطرت اور احکام وغیرہ کے لحاظ سے انسانوں کی برابری۔ تاریخ میں یہی تعلیمات ہیں جو تکامل حاصل کرتی ہیں۔ لیکن ایک روش، ایک فرمان (ہے جو خدا نے بندوں کو دیا ہے) اور ایک عہد ہے جو خدا نے اپنے بندوں سے لیا ہے۔ طاغوت کیا کرتے ہیں؟ طاغوت اس روش کو تبدیل کرتے ہیں۔ خدا توحید کی دعوت دیتا ہے یعنی یہ کہ بندے ایک دوسرے کی عبادت نہ کریں، خدا کی عبادت کریں، طاغوت آکر اس روش کو تبدیل کر دیتے ہیں، ایسا کام کرتے ہیں کہ لوگ بندوں کی عبادت کریں۔ بندے ایک دوسرے کی عبادت کریں۔ مثلا خدا لوگوں کو انسانوں کی تکریم اور انسانوں کی عزت کرنے کی دعوت دیتا ہے اور الہی تعلیمات اسی بنیاد پر استوار ہیں لیکن طاغوت، انسانوں کی تحقیر، تذلیل اور انہیں ذلیل و خوار کرنے کی بنیاد پر اپنے منصوبے تیار کرتے ہیں۔ آج مغرب کی مادی ثقافت میں لوگ اپنی زندگی میں مذہب کے خلا کا شدید احساس کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی فطرت سے جس کا عہد خدا متقاضی ہے، دور ہو گئے ہیں اور انہیں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ طاغوتی اور غیراللہ کے ذریعے بنائے گئے نظام انسان کے ساتھ اس طرح کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں کہ انسان خدا کو فراموش کر دے۔ ایسا نہیں ہے کہ خدا کا نام اور خدا کے نام کی کوئی حقیقت نہ ہو، خدا کا نام ان کی سماعتوں میں پہنچتا ہے، حتی بعض اوقات بظاہر وہ خدا کے معتقد بھی ہوتے ہیں، لیکن خدا کے حق کو فراموش کر دیتے ہیں۔ یعنی یہ نہیں جانتے کہ معاشرے میں خدا کی جگہ کیا ہے۔
شرط نجات
نجات، وہ فلاح جو پیغمبر سے نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا لاالہ الا اللہ کہو تاکہ فلاح یعنی نجات پا جاؤ؛ نجات غلط فکر سے، بری باتوں سے، ان وابستگیوں، پابندیوں اور زنجیروں سے جن میں انسان کے ہاتھ، پیر، گردن اور دل جکڑے ہوئے ہیں اور ان تمام چیزوں سے نجات کے بعد، ان ظالم طاقتوں سے نجات جو انسانوں پر ستم کرتی ہیں۔ یعنی اگر کسی قوم کی فکر، ذہن، دل اور عقیدہ کامل ہو جائے لیکن ظالم، ستمگر، استعماری اور استحصال کرنے والی اور کسی ظالم نظام کی استبدادی طاقت اس پر حکومت کر رہی ہو تو اس کی نجات کامل نہیں ہے۔ مکمل نجات، دل، ذہن، طور طریقوں، معاشرے، سیاست اور معنویت کی نجات ہے۔ یہ نجات، دین توحید اور لاالہ الا اللہ کا ہدف ہے۔ موحدین کی بہشت خدا کے صالح بندوں کا سونا، کھانا پینا، بولنا تجارت کرنا، تفریح، لکھنا پڑھنا، سیاسی اور سماجی امور کی انجام دہی اور ان کی زندگی کی گوناگوں سرگرمیاں سب اسی ہدف ( خدا کی طرف آگے بڑھنے ) کے لئے ہیں۔ اس ہدف کی سمت بڑھنے سے انسان کے ارد گرد ایسی بہشت وجود میں آتی ہے جو عالم وجود کی فطری راہ میں انسان کے ارادے اور جذبات و خواہشات کی برابری اور یک رنگی سے تشکیل پاتی ہے۔ اس اسلامی، توحیدی اور معنوی زندگی میں تضاد، تناقض، تصادم اور اختلاف نہیں ہوتا۔ توحیدی نظریہ خود انسان کے باطن میں بھی ایک بہشت وجود میں لاتا ہے۔
سیاسی نظام میں توحید
توحید یعنی انسان کوغیر خدا کی عبودیت نہیں کرنی چاہئے۔ غیر خدا جو بھی ہو چاہے طاغوت ہو یا خدا کے مقابلے میں کوئی اور شئے ہو۔ لہذا ملک کے سیاسی نظام اور پیکر میں، جہاں بھی کسی امر کی اطاعت، خدا کی اطاعت ہو، صحیح ہے اور جہاں بھی غیر خدا کی اطاعت ہو، غلط ہے۔ اسلامی نظام کی بنیاد یہی ہے۔ شرک آلود افکار، یا زیادہ صحیح الفاظ میں، طاغوتی اور شیطانی، طاغوت شیطان کا ہی دوسرا نام ہے، شیطان یعنی برائیاں، بدعنوانیاں اور انحراف پیدا کرنے والی طاقت؛ طاغوت یعنی سرکش، یعنی وہی شر، بدی اور انحراف؛ طاغوتی طاقتیں یعنی طاغوتی تفکر، شیطانی تفکر، ذاتی طرزعمل، دفتری اور تنظیمی روش، سماجی طور طریقوں اور سماجی نظام کی تشکیل کی کیفیت میں اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
وسعت نظر
موحد انسان میں وسعت نظر پیدا ہو جاتی ہے۔ تنگ نظری، کوتاہ بینی اور دور اندیشی سے محرومی جیسی باتوں سے موحد انسان کو نجات مل جاتی ہے ۔ موحد انسان یہ نہیں کہتا کہ مجھے اس میدان میں شکست ہوئی یا میرے محاذ کو اس میدان میں پسپائی نصیب ہوئی اور ہمیں نقصان اٹھانا پڑا۔ وہ جانتا ہے کہ توحیدی نظریہ کی قلمرو، حیات انسان ہے۔ موحد انسان کی نگاہ مادی مسائل اور پست اور حقیر ضرورتوں تک محدود نہیں رہتی۔ موحد انسان جب دیکھتا ہے تو مادی ضرورتوں کے ساتھ ہی انسان کی دسیوں، سیکڑوں عظیم ترین اور باشرف ترین ضرورتیں اس کو نظر آتی ہیں۔ اس کی فکر اور اس کے حواس پست اور حقیر ضرورتوں پر نہیں رکتے۔ موحد انسان اپنے سامنے بے انتہا وسیع مستقبل دیکھتا ہے۔ موحد، دنیا کے خاتمے کا قائل نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ دنیا کو آخرت سے متصل دیکھتا ہے۔ آخرت کو دنیا کا تسلسل سمجھتا ہے، موت کو زندگی کی دیوار نہیں سمجھتا، اس راہ کا اختتام فرض نہیں کرتا، بلکہ وسیع تر دنیا کی طرف جانے کا راستہ اور گزرگاہ سمجھتا ہے۔ یہ توحید کے خواص ہیں۔ غیر موحد انسان کتنا ہی فداکار کیوں نہ ہو، باشرف انسانی نظریات کا کتنا ہی عاشق کیوں نہ ہو، اس کے لئے موت کے ساتھ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے؛ جبکہ موحد انسان کے لئے موت ایک وسیع تر زندگی اور زیادہ دلکش اور اچھی فضا کا سرآغاز ہے۔ کوئی مادہ پرست اگر بہت فداکار ہوا تو وہ خود کو وہاں پھینکنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے جو اس کی نظر میں عدم اور نابودی ہے۔ لیکن موحد انسان بہت فداکار نہ ہو، یا اس کے اندر اتنی فداکاری نہ ہو، یا وہ اتنی فداکاری نہ کرنا چاہے تو بھی اس کے لئے وہاں جانا جس کو مادہ پرست نابودی سمجھتا ہے، زیادہ آسان ہے، اس لئے کہ وہ اس جگہ کو عدم اور نابودی نہیں سمجھتا ہے بلکہ اس جگہ کو ایک دوسری جگہ اور فضا سمجھتا ہے جو انسانی زندگی کے اس علاقے سے وسیع تر ہے۔
موحد انسان کے دل سے خوف دور ہو جاتا ہے
کسی انسان پر توحید کا اہم ترین اثر یہ مرتب ہوتا ہے کہ وہ خدا کی راہ میں، اپنے فریضے کی انجام دہی میں اور اس چیز کے راستے میں جس کو وہ اپنا ہدف قرار دیتا ہے، دشمنوں سے نہیں ڈرتا۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مومنین سے کہا جاتا ہے کہ فلا تخافوھم و خافون اپنے دل سے دوسروں کا ڈر نکال دو۔ مجھ سے ڈرو اور خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرو۔ جو موحد ہوتا ہے اور اپنے پرودگار پر یقین رکھتا ہے، اس کے دل سے ڈر نکل جاتا ہے ۔ یہ ڈر اور خوف ہے جو ڈر اور خوف رکھنے والے کی دنیا و آخرت دونوں چھین لیتا ہے۔ غریب ہو جانے کے ڈر سے انسان دوسروں کی مدد کرنے سے گریز کرتا ہے، پریشانیوں میں مبتلا ہونے کے ڈر سے انسان جرائم اور برائیوں میں پڑتا ہے اور ذلت و رسوائی قبول کرتا ہے، بے اعتبار زندگی کے ہاتھ سے نکل جانے کے خوف سے انسان زندگیوں کا خاتمہ کرتا ہے، سماجی زندگی کو تلخ بنا دیتا ہے یا ختم کر دیتا ہے۔
طاغوت سے موحدانہ برتاؤ
لشکر اسلام کا ایک ایلچی ساسانی فرمانروا کے محل میں داخل ہوا۔ موٹے اور کھردرے لباس میں ملبوس یہ شخص ایک بڑی سیاسی طاقت کے دربار میں داخل ہوا۔ کیا وہ ڈرا؟ اس کا ذہن پریشان ہوا؟ ہرگز نہیں۔ جب کوئی معمولی اور حقیر انسان کسی عظیم الشان طاقت کے سامنے آتا ہے تو اس کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ خود کو تھوڑا سا اس عظیم طاقت سے متصل کر لے اور ذرا سا اس کے نزدیک آ جائے، چاہے اس کے لئے چرب زبانی، خوشامد اور اظہار خوف و بندگی سے ہی کیوں نہ کام لینا پڑے۔ کیا ایسا ہوا؟ ہرگز نہیں۔ جب وہ آیا تو آگے بڑھا اور تخت کے سامنے پہنچـا اور شاید یزدگرد کے تخت پر اس نے ایک پیر رکھ دیا کیونکہ اس نے دیکھا کہ یزدگرد اس سے خط لینے کے لئے آگے نہیں آیا۔ وہ پیغام لایا تھا دوسرے لوگ آگے آئے کہ اس سے وہ پیغام لیں۔ اس نے کہا تمہیں نہیں دوں گا، خود اس کو دوں گا۔ وہ اپنی جگہ سے اس عرب سے خط لینے کے لئے نہیں اٹھا تو وہ مجبور ہوکے اس کے تخت تک گیا تاکہ خط اس کو دے۔ ایران کے بادشاہ نے پوچھا کیوں آئے ہو؟ کہا لنخرج الناس من عبادۃ العباد الی عبادۃ اللہ ومن ضیق الدنیا الی سعۃ الدنیا والآخرۃ اس نے کہا ہم اس لئے آئے ہیں کہ لوگوں کو، خدا کے بندوں کو دنیا کی تنگ اور محدود جگہ سے نکال کے وسیع تر دنیا اور آخرت میں لے جائیں۔ یعنی اے یزدگرد، ہم اس لئے آئے ہیں کہ لوگوں کو، دوسروں کو تیری، تیرے صوبیداروں، تیرے معین کردہ حاکموں اور تیرے سرداروں کی بندگی سے آزادی دلائیں۔
زندگی میں توحیدی فرائض
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر دینی فکر اور اصول پر ایمان، پوری آگاہی و بصیرت کے ساتھ ہونا چاہئے۔ فہم و شعور اور علم کے ساتھ ہونا چاہئے۔ اندھی تقلید نہیں ہونی چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایمان عہد و پیمان کے ساتھ ہونا چاہئے۔ جس چیز پر ایمان لانا ضروری ہو وہ ایسی چیز ہونی چاہئے کہ جو انسان کی زندگی میں اس کے عمل میں، چاہے وہ عمل انفرادی ہو یا اجتماعی، چاہے اس کی ذات سے تعلق رکھتا ہو چاہے معاشرے سے متعلق ہو، چاہے انسانیت سے متعلق ہو یا مستقبل کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہو، اس کے کندھوں پر کوئي ذمہ داری اور فریضہ ڈالے اور انسان اپنے دوش پر کسی ذمہ داری کا بوجھ محسوس کرے۔ توحید ایک آگاہی اور علم ہے اور اس علم کے بعد انسان پر کچھ فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ توحید موحد کے کندھوں پر جو ذمہ داری ڈالتی ہے، وہ اسلامی عقائد سے عائد ہونے والی تمام ذمہ داریوں اور فرائض میں سب سے زیادہ سنگین اور موثر ہے۔ پہلا عہد اور فریضہ یہ ہے کہ عبودیت اوراطاعت صرف خدا کے لئے ہے۔ دوسرا فریضہ اور عہد جو توحید کا عقیدہ موحد کے کندھوں پر ڈالتا ہے، وہ یہ ہے کہ توحیدی معاشرہ بغیر طبقے بندی کا معاشرہ ہے۔ یہ ایسا معاشرہ ہے کہ جس میں انسانی دستے حقوق میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں بلکہ سب کے حقوق مساوی ہوتے ہیں۔ سب ایک ہی راستے میں ، ایک ہی طرح کے وسائل اور سہولتوں کے ساتھ اور زندگی کے ایک ہی طرح کے حقوق کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔
توحیدی تفکر کے دفاع کی آمادگی
تاریخ میں حق و باطل کے درمیان ہمیشہ لڑائی اور جنگ رہی ہے۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جو آج کے دور سے مخصوص ہو۔ اچھائی اور برائی کے درمیان جنگ، حق و باطل کے درمیان جنگ کا ہی نتیجہ ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے کہ و لولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع دنیا میں کچھ انسانوں کو خدا پر توکل سے حاصل ہونے والی قوت اور اس دنیا میں موجود طاقتوں سے کام لیکر، بعض دوسرے لوگوں کو جو دنیا میں برائیاں پھیلاتے ہیں، ہٹانا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر و شر کے درمیان جنگ اور لڑائی تاریخ میں ہمیشہ جاری رہی ہے۔ ادیان و افکار الہی اور دیگر ادیان میں فرق یہ ہے کہ ادیان الہی کی نگاہ میں جنگ ایسا عمل ہے جو صرف خدا کے لئے ہے۔ بغیر سوچا سمجھا عمل نہیں ہے۔ بغیر ہدف کے اور بلامقصد عمل نہیں ہے بلکہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اسی وجہ سے رسول خدا کی ، مدینے میں اپنی حکومت کے دور میں ، دس سال میں کفار اور دشمنوں سے شاید تقریبا ستر جنگیں ہوئیں۔ ان دس برسوں میں ایک لمحے کے لئے بھی رسول خدا سکون سے نہ رہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی تمدن و ثقافت تاریخ میں ایک تحریک کے عنوان سے باقی رہی۔ بالکل واضح اور فطری ہے کہ دنیا کی طاغوتی طاقتیں اس بات کی اجازت نہیں دیں گی کہ حق ایک تحریک کے عنوان سے دنیا میں باقی رہے لہذا وہ اس کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کریں گی۔ اگر توحید و فکر الہی کا، اس گل معطر کا کوئی محافظ نہ رہے تو گلچینوں کے ہاتھ اس تک پہنچ کے اس کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں گے۔ جب انسان نے اس بات پر یقین کر لیا کہ راہ خدا میں مجاہدت اور جنگ کرنا ضروری اور درحقیقت دینی اور خدائی اقدار کا دفاع ہے تو اس کے لئے اس جنگ اور مجاہدت کے مقدمات فراہم کرنا بھی فریضہ ہو جاتا ہے۔ یہ بات کہ مسلمانوں کو راہ خدا میں جنگ کے لئے خود کو تیار کرنا چاہئے، قرآن میں بھی ہے: واعدوا لھم ما استطعتم دشمن کے مقابلے کے لئے، جتنی تمہارے اندر توانائی ہو اتنی تیاری کرو۔ من قوۃ ومن رباط الخیل تمام ضروری قوتوں اور طاقتوں کو آمادہ اور تیار کرنا چاہئے تاکہ اس وسیلے سے ترھبون بہ عدواللہ وعدوکم خدا اور اسلامی معاشرے کے دشمن کو اپنی قوتیں اور طاقتیں مجتمع کرکے ڈراؤ اور مرعوب کرو۔