پہلا باب : دینی جمہوریت
ڈیموکریسی اور جمہوریت کے معنی کیا ہیں؟
جمہوریت کے دو پہلو
دینی جمہوریت کے معنی
منطقی جمہوریت کا بانی
اسلامی معاشرے میں حاکموں سے عوام کے قلبی لگاہ کی وجہ
حکومتی اہلکاروں کی اصلاح کی روش
اسلام میں سیاسی نظاموں کی قانونی حیثیت
اسلام میں جمہوریت کی بنیاد
بندگی خدا اور عوام پر خاص توجہ
جمہوریت کا تقدس
دوسرا باب: مغربی جمہوریت
مغربی جمہوریت کی تشریح
مغربی ڈیموکریسی کی حدود اربعہ
مغربی جمہوریت کا ہدف
مغرب میں سیاسی نظاموں کی قانونی حیثیت
تیسرا باب: اسلامی جمہوریہ ایران کی جمہوریت
بشری تجربات سے استفادہ
مکتب امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ ) میں جمہوریت
ایران میں اسلامی نظام کا پیکر
حکام سے عوام کا رابطہ
دینی جمہوریت اور ڈیموکریسی
پہلا باب : دینی جمہوریت
ڈیموکریسی اور جمہوریت کے معنی کیا ہیں؟
ڈیموکریسی یعنی ملک چلانے اور حکومت کے سیاسی طریقئہ کار میں عوام کی رائے کا معیار اور بنیاد قرار پانا۔ جمہوریت کا مطلب سیاسی نظام اور اس نظام کے چلانے والوں کا عوام کی طرف سے آنا ہے۔ اس کا حقیقی مفہوم اس وقت پورا ہوتا ہے جب عوام کا فیصلہ، عوام کا ایمان، عوام کا عشق، عوام کی مصلحت اندیشی اور عوام کے احساسات وجذبات سب کے لحاظ سے یہ اتفاق پایا جائے کہ یہ سیاسی نظام قائم ہو۔
ٹاپ
جمہوریت کے دو پہلو
جمہوریت کے بھی دو پہلو ہیں: جمہوریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ نظام کا ڈھانچہ عوام کے ارادے اور رائے کے مطابق تشکیل پائے۔ یعنی عوام نظام، حکومت، اراکین پارلیمنٹ اور اہم حکام کا براہ راست یا بالواسطہ انتخاب کریں۔ عوام کا انتخاب کا پہلو، دینی جمہوریت میں بھی پایا جاتا ہے اور اس کے دو پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ ضروری ہے کہ عوام چاہیں، پہچانیں، فیصلہ کریں اور انتخاب کریں تاکہ ان کے بارے میں شرعی فریضہ پورا ہو۔ بغیر شناخت، علم اور اشتیاق، ان کا کوئی فریضہ نہیں ہوگا۔
جمہوریت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب ملک کے حکام کا انتخاب ہو گیا تو عوام کے تئیں ان کے کچھ حقیقی اور سنجیدہ فرائض ہیں۔ ( ملک کے حکام کے بعض فرائض کے مشاہدے کے لئے حکومتی اہلکاروں کی اصلاح کی روش سے رجوع کریں)
دینی جمہوریت کے معنی
دینی جمہوریت یہ ہے کہ اس میں دین خدا کی حاکمیت، عوام کی آراء ، عوام کے عقیدے، عوام کے ایمان ، عوام کی خواہش اور عوام کے احساسات و جذبات سے جڑی ہوتی ہے۔ ایک انسان جس طرح خود کو صرف خدا کا بندہ سمجھتا ہے ایاک نعبد و ایاک نستعین اسی طرح خداوند عالم سے چاہتا ہے اور اس کو اپنا اصول قرار دیتا ہے کہ صالحین کے راستے پر چلے؛ اھدنا الصراط المستقیم ، صراط الذین انعمت علیھم صالحین کے راستے پر چلنا، خدا کے برگزیدہ بندوں کی پیروی اور پیغمبر یا ہر اس فرد کی جو اسلامی معاشرے کی زمام سنبھالے، مومنین اور مومنات کی جانب سے بیعت ایمان سے بیعت، دین سے بیعت اور دینداری سے بیعت ہے۔ یہ کسی ایک شخص کے سامنے سجدہ ریز ہونا نہیں ہے، کسی فرد انسان کے ارادے کا پابند ہونا نہیں ہے۔ اسلام میں جس چیز کی حکمرانی ہوتی ہے، وہ مکتب ہے، وہ مکتب جو اپنے اندر ایک ایک فرد بشر کی سعادت و کامرانی کو یقینی بناتا ہے اور یہ خود انسانوں کا بھی فریضہ ہے۔
منطقی جمہوریت کا بانی
جمہوریت کا تعلق در اصل اسلام سے ہے۔ صحیح اور منطقی شکل میں جمہوریت کا بانی اسلام ہے۔ حکومت نبوی میں مسلمانوں کی ایک ایک فرد نے آکر پیغمبر ( صل اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیعت کی۔ مرد بھی آئے اور خواتین بھی آئیں۔ اس زمانے میں انسانی معاشرے میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ صرف جزیرۃ العرب میں اور عربوں کے درمیان ہی عورتیں پسماندہ نہیں تھیں، بلکہ ایران اور روم کی سلطنتوں میں بھی عورتوں کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ ابھر کے سامنے آئیں۔ مگر پیغمبر خدا کو خداوند عالم کا حکم ہوتا ہے کہ اذا جائک المومنات یبایعنک علی ان لا یشرکن باللہ یعنی جب مومن عورتیں آپ کی بیعت کرنے کے لئے آئیں تو اسی اصول پر بیعت کریں؛ بیعت کے لئے آنے والے مردوں کی طرح۔ عورتوں نے بھی آکے بیعت کی اور مردوں نے بھی آکے بیعت کی۔ دل ایک دوسرے سے ملے، ارادے باہم متصل ہوئے اور پیغمبر اکرم ( صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور عوام نیز مومنین کی ایک ایک فرد کے درمیان پروردگار کی ذات مقدس کی توحید جلوہ گر ہوئی۔ ہاں وہ پیغمبر سے بھی محبت کرتے تھے لیکن پیغمبر کی ذات مد نظر نہیں تھی۔
اسلامی معاشرے میں حاکموں سے عوام کے قلبی لگاہ کی وجہ
اسلام میں فرد مد نظر نہیں ہوتا۔ کسی کو بھی کسی فرد کی دعوت نہیں دینی چاہئے۔ کوئی بھی فرد دین کی نمائندگی کے بغیر، بذات خود لوگوں کی محبت و قلبی لگاؤ کا مرکز نہیں بنتا کہ لوگ اس کے لئے قربانیاں دیں۔ شروع سے مسلمان اسی کے عادی رہے ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ مسلمانوں میں، محبت، الفت، اخلاص، صادقانہ جذبات اور دیگر معنوی احساسات وغیرہ اس کے لئے ہوتے ہیں، جس کے لئے وہ سمجھتے ہیں کہ دینی و معنوی اقدار کے مرکز یعنی اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔ پیغمبر کے سلسلے میں بھی یہی امر تھا کہ آپ سے لوگوں کو قلبی لگاؤ تھا۔ یہ عوام کی حکمرانی اورجمہوریت ہے۔
حکومتی اہلکاروں کی اصلاح کی روش
آج وہ بہترین چیز جو ملک کے حکام کی راہ و روش اور رفتار و کردار کی اصلاح کی بنیاد اور معیار بن سکتی ہے، دینی جمہوریت ہے۔ امیر المومنین علیہ الصلواۃ و السلام مالک اشتر سے فرماتے ہیں ایاک و المن علی رعیتک باحسانک او التزید فیما کان من فعلک او ان تعدھم فتتبع موعدک بخلفک فان المن یبطل الاحسان والتزید یذھب بنور الحق والخلف یوجب المقت عند اللہ و الناس فرماتے ہیں کہ نہ لوگوں پر یہ احسان جتاؤ کہ ہم نے یہ کام تمھارے لئے کئے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں، نہ ہی جو کام کئے ہیں ان کے بارے میں مبالغہ کرو، مثلا چھوٹا کام کرکے اس کو بڑا بتاؤ، اور نہ ہی یہ کرو کہ وعدہ کرو اور عمل نہ کرو۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اگر احسان جتایا تو تمھارا نیک عمل ضائع ہوجائے گا، مبالغہ نور حق کو ختم کر دے گا یعنی وہ تھوڑی سی صداقت جو پائی جاتی ہے وہ بھی لوگوں کی نگاہوں میں ختم ہو جائے گي اور اگر وعدہ خلافی کی تو یوجب المقت اللہ والناس یہ لوگوں کی نگاہ میں بھی اور اللہ کے نزدیک بھی، گناہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ کبر مقتا عنداللہ ان تقولوا ما لا تفعلون اور انصف اللہ و انصف الناس من نفسک ومن خاصۃ اھلک ومن لک فیہ ھوی من رعیتک یعنی اپنے ساتھ، اپنے دوست احباب اور رشتے داروں کے ساتھ ، عوام کے ساتھ اور خدا کے ساتھ انصاف کرو؛ یعنی ان کے ساتھ کسی امتیاز سے کام نہ لو۔ یعنی پارٹی بازی، کسی کے لئے خصوصی امتیاز کا قائل ہونا، کوئی کمپنی یا مالی آمدنی کا مرکز، کچھ خاص لوگوں کو اس لئے دینا کہ وہ اس حاکم کے دوست احباب اور رشتے دار ہیں۔ یہ سب وہ کام ہیں جو جمہوریت کے خلاف ہیں۔ و لیکن احب الامور الیک اوسطھا فی الحق و اعمھا فی العدل و اجمعھا لرضی الرعیۃ وہ کام کرو جو افراط و تفریط سے پاک ہوں اور عوام کے تعلق سے وسیع سطح پر عدل و انصاف سے کام لو اور عام لوگوں کی خوشی اور ان کی رضامندی زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی فکر میں رہو، اس فکر میں نہ رہو کہ کچھ خاص لوگ، جن کے پاس دولت و طاقت ہے، وہ تم سے خوش ہوں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں فان سخط العامۃ یجحف برضی الخاصۃ یعنی اگر صاحبان دولت و طاقت کی خوشنودی حاصل کی اور عوام کو ناراض کیا تو عوام کی ناراضگی خواص یعنی صاحبان دولت و طاقت کی خوشنودی کو سیلاب کی طرح بہا لے جائے گی۔ و ان سخط الخاصۃ یغتفر مع رضی العامۃ صاحبان دولت و طاقت کی خوشی کا خیال نہ رکھا تو وہ تم سے ناراض ہوں گے؛ تو ان کو ناراض ہوجانے دو۔ اگر عوام تم سے راضی اور خوش ہیں اور تم نے ان کے لئے کام کیا تو انہیں (یعنی صاحبان دولت و طاقت کو) ناراض رہنے دو۔ یغتفر یہ ناراضگی بخشی ہوئی ہے۔
اسلام میں سیاسی نظاموں کی قانونی حیثیت
دینی جمہوریت کی حقیقی صورت یہ ہے کہ نظام کو خدا کی ہدایت اور عوام کے ارادے سے چلنا چاہئے۔ اسلام میں عوام قانون کی جملہ بنیاد نہیں ہیں بلکہ اس کے جملہ ارکان میں سے ایک ہیں۔ اسلام کا سیاسی نظام عوام کی رائے اور مرضی کے علاوہ دیگر اصولوں پر بھی جن کو تقوا اور عدل کہا جاتا ہے، استوار ہوتا ہے۔ جس کو حکومت کے لئے منتخب کیا گیا اگر اس میں تقوا اور عدل پسندی نہ ہو تو خواہ تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہو تب بھی اس کی حکومت اسلام کے نقطۂ نگاہ سے غیر قانونی ہے۔ اکثریت تو کچھ بھی نہیں، امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں،و لامری ما الامام الا الحاکم بالقسط اسلامی معاشرے میں حاکم اور حکومت صرف وہ ہو سکتی ہے، جوعدل پر قائم ہو،عدل و انصاف پر عمل کرے۔ اگر عدل و انصاف قائم نہ کیا تو چاہے جس نے بھی اس کو منصوب کیا ہو اور چاہے جس نے بھی اس کو منتخب کیا ہو، وہ حکومت غیر قانونی رہےگی۔
اسلام میں جمہوریت کی بنیاد
ایک مسئلہ جس پر میں نے بارہا تاکید کی ہے، یہ ہے کہ اسلامی نظام میں اسلامی بنیاد عوامی بنیاد سے الگ نہیں ہے۔ اسلامی نظام میں عوامی بنیاد ہی اسلامی بنیاد بھی ہے۔ جب ہم اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں، تو ممکن نہیں ہے کہ عوام کو مد نظر نہ رکھا جائے۔ انتخابات میں عوام کے حق کی بنیاد اور اساس خود اسلام ہے۔ بنابریں دینی جمہوریت کی اپنی ایک بنیاد اور اس کا اپنا ایک فلسفہ ہے۔
دینی جمہوریت اور شریعت الہی میں یہ بات واضح ہے کہ عوام حاکم کو پسند کرتے ہوں، تاکہ اس کو قبول کیا جائے اور اس کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہو۔ (کسی مسلمان سے پوچھیں) تم مسلمان ہو بتاؤ کہ عوام کی رائے کیوں معتبر ہے؟ کہے گا اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں، اس لئے کہ ہم اسلام پر عقیدہ رکھتے ہیں اور اس لئے کہ اسلام کی منطق میں عوام کے رائے ، خدا کی نظر میں انسان کی جو خاص منزلت ہے اس کی بنیاد پر لوگوں کی رائے معتبر ہے۔ اسلام میں انسانوں پر کسی کی بھی حکومت اور ولایت قبول نہیں ہے سوائے اس کے جس کو خدا معین کرے۔ بہت سے فقہی مسائل میں حاکم، قاضی یا مومن کی ولایت کے مسئلے میں جب شک ہوتا ہے کہ اس ولایت پر شرعی جواز ہے یا نہیں، تو ہم کہتے ہیں کہ نہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ اصل عدم ولایت ہے (اسلامی فقہ کا ایک اصول جس کی رو سے مشکوک چیز کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے)۔ یہ اسلام کی منطق ہے۔ ولایت صرف اس وقت قبول کی جاتی ہے جب اس کے بارے میں شارع ( شریعت بنانے والے یا رسول اسلام ) کا حکم ہو اور حکم شارع اس بات پر ہوتا ہے کہ جس کو ہم ولایت دے رہے ہیں، وہ ولایت کے جس مرتبے پر بھی فائز ہو، اس کوصلاحیت اور اہلیت کا مالک یعنی صاحب تقوا و عادل اور عوام میں مقبول ہونا چاہئے۔ دینی جمہوریت کی منطق یہ ہے جو بہت گہری اور محکم ہے۔ مومن پورے اعتقاد کے ساتھ اس منطق کو قبول کرکے اس پر عمل کر سکتا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔
بندگی خدا اور عوام پر خاص توجہ
دینی جمہوریت کی نئی مثال نے بشریت کے سامنے ایک نیا راستہ پیش کیا ہے جس میں، انفرادی یا جماعتی استبداد اور صاحبان دولت و ثروت اور غارتگروں کے نفوذ سے قائم ہونے والے نظاموں کی برائیوں ، مادہ پرستی اور گناہوں میں غرق ہونے اور معنویت و دینداری سے دوری سے انسان کو نجات مل جاتی ہے اور خدا پرستی اور عوامی بنیاد کے درمیان تضاد عملی طور پر غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ یہ نیا اسوہ اور نمونہ، اپنے رشد، اپنے دوام ، اپنے استحکام اور اپنے اہداف کے حصول کے ساتھ بذات خود، ان تمام نظاموں کے بطلان کی محکم دلیل ہے جنہوں نے ہیومنزم ( انسان کو محور قرار دینے والے مکتب فکر) کے نام پر لوگوں کو خدا اور دینداری سے دور کیا اورجمہوریت کے نام پر انسانوں کومختلف شکلوں میں اپنے پنجہ اقتدار میں جکڑ لیا ہے۔ اسلام کی ثقافت میں بہترین انسان وہ ہیں جو لوگوں کے لئے مفید ہوں۔ دینی جمہوریت، عوام کو دھوکہ دینے والی ریا کار ڈیموکریسیوں کے برخلاف بغیر احسان جتائے، خلوص کے ساتھ عوام کی خدمت کرنے والا نظام ہے۔ اس نظام میں عوام کی خدمت ایک فریضے کے عنوان سے پاکدامنی اور ایمانداری کے ساتھ انجام پاتی ہے۔
جمہوریت کا تقدس
عوام کی آزادی، ان کی آراء پر اعتماد اور حقیقی جمہوریت ، ہمارے لئے مقدس ہے۔ کیوں؟ لبرلزم کے فلسفے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ خداوند عالم نے جو ہمارا مالک ہے، فرمایا ہے کہ النّاس کلّھم احرار تمام انسان آزاد ہیں۔ لاتکن عبد غیرک وقد جعلک اللہ حرّا خداوندعالم نے یہ فرمایا ہے۔ امیر المومنین فرماتے ہیں تو اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ خدا نے فرمایا ہے۔ پیغمبر فرماتے ہیں، اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ خدا نے فرمایا ہے۔ صرف الفاظ ان کے ہیں۔ خلیفہ دوم نے بھی اپنے گورنر سے، جو اسی ماحول میں تھا، کہا استعبدتم النّاس و قد خلقھم اللہ احرارا یعنی تم نے لوگوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے جب کہ خدا نے انہیں آزاد پیدا کیا ہے۔ یہ حقیقی جمہوریت کی منطق اور بنیاد ہے۔ آزادی کا اہم ترین مصداق یہ ہے کہ انسان اپنی قسمت اور مستقبل کا خود فیصلہ کرے۔ یہ جمہوریت کی بنیاد ہے۔
دوسرا باب: مغربی جمہوریت
مغربی جمہوریت کی تشریح
مغربی جمہوریت کا فلسفہ اور بنیاد لبرلزم ہے۔ ( مغربی جمہوریت) کہتی ہے کہ چونکہ انسان آزاد ہے اس لئے اس آزادی کا تقاضا ہے کہ آمریت نہ ہو جمہوریت ہو۔ اب یہ آزادی جو لبرلزم کی بنیاد پر ملتی ہے، مطلق آزادی ہے۔ یعنی اگر عوام نے فیصلہ کیا تو اس چیز کو بھی قبول کر سکتے ہیں جو سو فیصد ان کے نقصان میں ہو۔ فرض کریں کہ برطانیہ کے لوگ جس طرح انہوں نے اپنی پارلیمنٹ میں ہم جنس بازی کو منظوری دی ہے، اسی طرح، ہیروئن کے استعمال اور محرم کے ساتھ شادی کی آزادی کا فیصلہ کریں، تو ان کے پاس کوئی جواز نہیں ہے کہ اس کو قبول نہ کریں، قبول کرنا چاہئے۔ ہم جنس بازی اور محرم کے ساتھ شادی میں فرق کیا ہے؟ یہاں ان کے پاس اس کام کی کوئی منطق اور دلیل نہیں ہے۔ اگر آج امریکی کانگرس یا برطانوی پارلیمنٹ محارم ( جن کے ساتھ شادی نہیں ہوسکتی جیسے ماں، بہن، باپ، بھائی وغیرہ) کے ساتھ شادی کی آزادی کا فیصلہ کرے تو یہاں غیرت و حمیت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بنابریں اس آزادی کے اندازے اور حد کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اگر وہ کہیں کہ اس کے بعد آزادی خلاف اخلاق ہے تو ہم کہیں گے کون سا اخلاق؟ کوئی اخلاق نہیں ہے، آزاد ہیں' اس لئے کہ لبرلزم کا فلسفہ آزادی ہے اور کوئي بھی حد اس آزادی کو محدود نہیں کر سکتی، الا یہ کہ یہ آزادی، آزادی کی ضد اور اجتماعی آزادی کی بنیاد کے خلاف ہو۔ ان کی ریڈ لائن صرف یہ ہے۔ مغربی ڈیموکریسی لبرلزم کی منطق اور فلسفے پر استوار ہے اور درحقیقت اپنا کھوکھلا پن خود ثابت کرتی ہے۔ اس صورت میں معاشرے کی تمام اخلاقی قدریں ختم ہو سکتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جو لوگ اس کے قائل ہیں وہ اس بات کا اعتراف کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، لیکن اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے۔
مغربی ڈیموکریسی کی حدود اربعہ
دنیا میں ڈیموکریسی اور جمہوریت کے نام سے جو چیز بھی پائی جاتی ہے اس کی حدود اربعہ ہیں۔ مغربی ڈیموکریسیوں میں حدود اربعہ، معاشرے پر حکمفرما سرمایہ داروں اور صاحبان دولت و ثروت کی خواہشات اور مفادات ہوتے ہیں۔ صرف اسی دائرے میں عوام کے ووٹ معتبر اور نافذ ہوتے ہیں۔ اگر عوام مالی و اقتصادی طاقت کے کے برخلاف کہ سیاسی اقتدار جس کا نتیجہ ہوتا ہے، مالکین اور سرمایہ داروں کے مفادات کے برخلاف کچھ چاہیں تو اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ ڈیموکریٹک حکومتیں اور نظام عوام کے مطالبات کو تسلیم کر لیں گے۔ یہ ڈیموکریسیاں اور عوامی خواہشات، ایسے محکم اصول و ضوابط میں جکڑے ہوئے ہیں کہ جن کو توڑا نہیں جا سکتا۔ سابق سوشیلسٹ ملکوں میں بھی، جو خود کو جمہوری ممالک کا نام دیتے تھے، حکمراں جماعت کے اصول و ضوابط کی حکمرانی تھی۔ حکمراں جماعت کی پالیسیوں، نظریات اور میلانات کی حدود سے باہر عوام کی رائے کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں تھی۔
مغربی جمہوریت کا ہدف
مغربی جمہوریت، پرانی اور ناکام ہو چکی ہے اور اس کے نقائص آشکارا ہوچکے ہیں۔ اس جمہوریت کی بنیاد اقتدار پرستی ہے۔ اس میں دو گروہ ، یا دو جماعتیں ایک دوسرے کے مقابلے پر آتی ہیں۔ ان سے پوچھیں کہ تم کیا چاہتے ہو تو کہتے ہیں کہ حکومت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ حکومت اپنے ہاتھ میں لیکر کیا کرنا چاہتے ہو؟ عوام کا اخلاق و کردار بلند کرنا چاہتے ہو؟ عوام کو معنوی اور روحانی بلندی عطا کرنا چاہتے ہو؟ عوام کی زندگی حقیقی معنی میں صحیح کرنا چاہتے ہو؟ نعرے بازی اور ظاہری باتوں سے بالاتر ہونا چاہتے ہو؟ نہیں، یہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک جماعت ہے جو چاہتی ہے کہ چند سال حکومت اس کے ہاتھ میں رہے۔ یہ تو کوئی قابل قدر چیز نہیں ہے۔ یہ انسانوں کا احترام تو نہیں ہے۔ یہ انسانوں کی تکریم تو نہیں ہے۔ آج دنیا میں حتی امریکا جیسے ملک میں جس کی آواز سب سے زیادہ بلند اور اونچی ہے، مغربی جمہوریت کا بھی وجود نہیں ہے۔
مغرب میں سیاسی نظاموں کی قانونی حیثیت
مغربی ڈیموکریسی، یعنی لبرلزم پر استوار جمہوریت، اس کی اپنی الگ منطق ہے۔ اس منطق میں حکومتوں اور نظاموں کے قانونی ہونے کی بنیاد اکثریت کا ووٹ ہے۔ اس طرز فکر کی بنیاد بھی وہی لبرلزم کا نظریہ ہے؛ ہر شخص کو آزادی ہے، اس کی کوئی اخلاقی حدود نہیں ہیں الا یہ کہ دوسروں کی آزادی کو مجروح کرنے کی حد تک پہنچ جائے۔ مغربی لبرلزم کا نظریہ یہ ہے؛ تمام میدانوں اور زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی ذاتی اور مطلق آزادی جو ملک کے سیاسی نظام کی تشکیل میں بھی ظاہر ہوگی ۔ چونکہ معاشرے میں اقلیت اور اکثریت پائی جاتی ہے، اس لئے اقلیت کے سامنے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ اکثریت کی پیروی کرے۔ یہ مغربی ڈیموکریسی کی بنیاد ہے۔ جس نظام میں یہ بات ہو وہ لبرل ڈیموکریسی کے نقطۂ نگاہ سے قانونی ہے اور جس میں یہ چیز نہ ہو وہ غیر قانونی ہے۔
تیسرا باب: اسلامی جمہوریہ ایران کی جمہوریت
بشری تجربات سے استفادہ
آج ہم اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلامی اصولوں کی بنیاد پر انسانی تجربات سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اسلام میں دینی جمہوریت ہے؛ بشری تجربات نے اس کو ایک طرح سے پارلیمانوں کی شکل میں مجسم کیا ہے۔ ہم نے پارلیمان کو قبول کر لیا، ہم نے پارلیمان کو مسترد نہیں کیا ہے۔ وہ تمام چیزیں جن کا بشریت نے برسوں اور صدیوں تجربہ کیا ہے، اسلامی تفکر کشادہ روئی کے ساتھ ان کو قبول کرتا ہے لیکن محکم اسلامی اصولوں کے مطابق ان کو ڈھال لینے کے بعد۔ یہ وہ چیز ہے جس نے اسلامی ملک ایران میں عملی شکل اختیار کی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں اسلامیت اور جمہوریت کا رابطہ
اس ملک اور اس نظام میں اسلام جمہوریت کے ساتھ ہے۔ ہماری جمہوریت اسلام سے ماخوذ ہے اور ہمارا اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس ملک میں جمہوریت نہ ہو۔ ہم نے جمہوریت کسی سے نہیں سیکھی ہے، اس کی تعلیم ہمیں اسلام نے دی ہے۔ یہ قوم اسلام سے متمسک ہے اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ اس قوم کے ذہن اور اس نظام میں عوام اور خدا دونوں مد نظر ہیں اور خدا نے عوام کو یہ راستہ طے کرنے کی توفیق عطا کی ہے۔ اس قوم، اس نظام ، ان حدود اور اس آئین نے اسلام کی بھی ضمانت دی ہے اور جمہوریت کو بھی یقینی بنایا ہے۔
مکتب امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ ) میں جمہوریت
مکتب امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) میں جمہوریت اہم اور قابل احترام بھی ہے اور طاقتور اور کار ساز بھی ہے۔ اہم اور محترم ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام اور معاشرے کے امور چلانے میں عوام کی رائے بنیادی حیثیت رکھے۔ لہذا امام خمینی ( رحمۃ اللہ علیہ ) کے مکتب میں جو اسلام پر استوار ہے، حقیقی جمہوریت پائی جاتی ہے۔ عوام اپنے ووٹوں سے، اپنے ارادے سے اور اپنے ایمان سے راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنے حکام کو منتخب کرتے ہیں۔ دوسری طرف امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) عوام کے ووٹوں کی طاقت پر یقین رکھتے تھے اور آپ کا نظریہ تھا کہ عوام کے فولادی ارادے سے دنیا کی تمام جارح طاقتوں کے مقابلے میں استحکام اور پائیداری کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے اور آپ نے اس پائیداری کا ثبوت دیا۔ امام خمینی ( رحمۃ اللہ علیہ) کے مکتب فکر میں جمہوریت دین پراستوار ہے؛ امرھم شوری بینھم سے ماخوذ ہے؛ ھوی الذی ایدک بنصرہ وبالمؤمنین سے ماخوذ ہے۔
ایران میں اسلامی نظام کا پیکر
میں نے بارہا تاکید کی ہے کہ ہمیں نظام کا پیکر، نظام کی روح اور نظام کے اصول اسلام سے لینے چاہیئیں، غیروں کے مکاتب سے نہیں۔ کچھ تہذیبوں نے کوشش کی ہے کہ ان کی بات، ان کی فکر اور ان کی راہ و روش دنیا میں رائج ہو، یعنی دیگر اقوام اور ملکوں کے لئے جو وہ پسند کریں، اقوام اسی کو قبول کریں۔ ہمیں اپنے بارے میں دوسروں کی بتائی ہوئی تدبیر تسلیم نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں اس چیز پر عمل کرنا چاہئے جو ہماری مصلحت، ہماری ضرورت ، ہمارے اعتقاد اور ہمارے ایمان کی رو سے صحیح ہو اور وہ اسلامی احکام، اسلامی عدل و مساوات اور اسلامی راہ ہے۔ یہ وہی چیز جس کو ہم نے اسلامی نظام کے پیکر اور دینی جمہوریت کا نام دیا ہے۔ دینی جمہوریت یعنی ہمارا نصب العین اسلامی اقدار کی تکمیل اور اسلامی احکام کا نفاذ ہے۔ اگر یہ احکام نافذ ہو گئے تو معاشرے میں حقیقی معنی میں اسلامی عدل و انصاف قائم ہو جائے گا۔ اسلامی جمہوری نظام میں جمہوریت ایک دینی فریضہ ہے۔ اس خصوصیت کا تحفظ حکام کا دینی عہد ہے اور اس کے لئے وہ خدا کے سامنے جوابدہ ہیں۔
حکام سے عوام کا رابطہ
شاید ان اقوام میں جن کی حالت اور ان کے ملک کے حالات، نیز حکومتوں اور حکام سے ان کے روابط سے ہم واقف ہیں، ایرانی قوم جیسی کوئي قوم نہ ملے، جس کے حکام سے روابط، صرف رسمی اور دفتری نہیں ہیں، ایسے روابط نہیں ہیں جو صرف انتخابات کے دوران اور وہ بھی خاص محرک کے ساتھ، خاص شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ (ایران میں) حکام سے عوام کا رابطہ جذباتی، ایمانی اور اعتقادی رابطہ ہے جو حکام پر عوام کے یقین کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے جو ہر چیز سے بڑھ کر اسلامی جمہوری نظام میں بہت ہی محکم ستونوں پر استوار جمہوریت کو ثابت کرتا ہے۔ وہ جمہوریت جس میں عوام اور ملک کے حکام اور امور مملکت چلانے والوں کے درمیان تعلق دو طرفہ ہو اور باطنی احساسات و جذبات اور قلبی ایمان و اعتقاد پر استوار ہو، عوامی حکومت اور جمہوریت کی اعلی ترین مثال ہے۔