اخلاق اور انسان
اسلام نواز انسان کی بنیادی پہچان
انسان کی بد نصیبی کی جڑ
اقوام اور تہذیبوں کے زوال کا بنیادی سبب
معاشرے کے اصلی اقدار
اسلامی معاشرے اور جاہلیت کے معاشرے کی سرحد
زمین پر بہشت
اخلاق اور دولت کا رشتہ
اخلاق اور انتظامی سسٹم
علم کے ساتھ اخلاق ضروری ہے
علم سے اخلاق کی جدائی
معالج کا اخلاق
اخلاق سے سیاست کی جدائی کا خطرہ
اخلاق اور فن
اخلاق اور فن کی یگانگت
اخلاقی مشکلات
اخلاق سے عاری آزادی
اخلاق سے دوری
اخلاقی برائیاں
خاندان میں اخلاقیات کا شیرازہ بکھرنے کے عواقب
اخلاق اور انسان
اخلاق اور انسان
اسلام نواز انسان کی بنیادی پہچان
اسلامی انسان وہ انسان نہیں ہے جو صرف اسلامی اعتقاد رکھے اور اسلامی عمل کرے، بلکہ اسلامی اخلاق بھی ایک بنیادی پہچان ہے ورنہ اگر انسان محکم اسلامی عقیدہ رکھتا ہو اور نماز، روزے کا پابند بھی ہو لیکن حاسد ہو، بخیل ہو، بزدل ہو، لوگوں کا برا چاہنے والا ہو، بے حوصلہ اور بے ارادہ ہو تو یہ انسان مسلمان انسان نہیں ہے۔ مسلمان انسان کو تربیت، علم اور عمل، تینوں پہلووں سے اسلام پر کاربند ہونا چاہئے۔
انسان کی بد نصیبی کی جڑ
انسان کی بدنصیبیوں اور پریشانیوں کی جڑ تلاش کریں تو وہ انسانوں کی نفسانی برائیوں میں پیوست ملے گی۔ کمزوری اور پریشانی یا اختلافات کی وجہ سے ہوتی ہے یا دنیا پرستی اور حرص و طمع کی وجہ سے ہوتی ہے یا انسانوں کے ایک دوسرے سے بد دل ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے یا خوف، کمزوری کے اظہار اور موت کے ڈر کی وجہ سے ہوتی ہے یا نفسانی خواہشات، شہوت پرستی اور عیاشی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ انسانی معاشروں کی مصیبتوں کی اصل وجوہات ہیں۔
اقوام اور تہذیبوں کے زوال کا بنیادی سبب
تہذیبوں کا زوال گمراہی کا نتیجہ ہے۔ تہذیبیں اپنے عروج پر پہنچنے کے بعد کمزوریوں، خلاؤں اور گمراہیوں کی وجہ سے زوال پذیر ہوتی ہیں۔ ہم اس کی علامتیں آج مغربی تہذیب میں دیکھ رہے ہیں، تمدن اخلاق سے عاری، مادیت معنویت اور دین سے خالی اور طاقت عدل و انصاف سے بے بہرہ ہے۔
اقوام کا زوال یک بیک نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک تدریجی عمل ہے۔ اس تدریجی عمل کو آج امریکا اور یورپ میں مغربی مفکرین کی تیزبیں نگاہیں دیکھ رہی ہیں۔ ان معاشروں میں نوجوانوں کو، بے راہ روی، بے حیائی، زیادتی او جرم و جارحیت کی تربیت دی جا رہی ہے اور نوجوان نسل اخلاقی برائیوں میں غرق ہے۔ ایسی نوجوان نسل، ہر معاشرے میں چاہے اس کے پاس کتنا ہی علم و دانش اور دولت و ثروت کیوں نہ ہو، دیمک کی طرح معاشرے اور نظام کے ستونوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔
معاشرے کے اصلی اقدار
معاشروں کا حقیقی تشخص ان کا اخلاقی تشخص ہے۔ یعنی درحقیقت کسی بھی معاشرے کی اصل بنیاد اس کی اخلاقی راہ و روش ہے اور بقیہ تمام چیزیں اسی پر استوار ہوتی ہیں۔
اگر معاشرے میں اخلاق ہوگا تو سماجی انصاف بھی فراہم ہوگا، معاشرے میں ترقی آئے گی اور معاشرہ لوگوں کے لئے، اسی دنیا میں بہشت بن جائے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بنی آدم پر جو مصیبتیں بھی نازل ہوتی ہیں، اس کی جڑ برا اخلاق اور لوگوں کے اخلاق کی برائی ہوتی ہے۔ سماجی انصاف بہت حد تک اخلاق سے وابستہ ہے۔ البتہ اس کا بڑا حصہ معاشرے کے قوانین اور اصول و ضوابط سے تعلق رکھتا ہے لیکن قوانین اور اصول و ضوابط، اس وقت تک کارگر نہیں ہو سکتے جب تک افراد معاشرہ خدائی اور اسلامی اخلاق کے مالک نہ ہوں۔ آج بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی آمدنی بہت زیادہ ہے، کیا ساری آمدنی انہیں اپنے ہی اوپر خرچ کرنی چاہئے؟ یہ مادی اخلاق ہے، یہ شیطانی طرز عمل ہے۔ بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ یہ حیوانی طریقہ ہے۔ جانور کے پاس جو کچھ ہوتا ہے، سب صرف اس کا ہوتا ہے۔ انسانی اخلاق بالخصوص اعلی اسلامی اخلاق اس کی اجازت نہیں دیتا۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے، وہ اس کی اپنی لازمی ضرورتیں پوری ہونے اوراس کی (جائز) خواہشات کی تکمیل کے بعد، ان لوگوں پر خرچ ہونا چاہئے جو اس معاشرے میں رہتے ہیں۔
اسلامی معاشرے اور جاہلیت کے معاشرے کی سرحد
ایک معاشرہ ایسا ہے کہ جس میں رہنے والے انسانوں کے اخلاقیات صحیح ہیں۔ افراد معاشرہ عفو و درگذر کرنے والے، صاحب فکر، عاقل، نیکیاں اور احسان کرنے والے، ایک دوسرے کی مدد کرنے والے، مشکلات میں صبر کرنے والے، مصیبتوں میں تحمل سے کام لینے والے، خوش اخلاق، ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے اور جہاں ایثار و فداکاری کی ضرورت ہو وہاں ایثار و فداکاری کرنے والے ہیں۔ اس کے بالعکس بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ (افراد معاشرہ) ایسے ہوں جن کے باہمی روابط رحمدلی، مروت، انصاف اور خوش اخلاقی کے بجائے، مفاد پرستی پر استوار ہوں، ایک دوسرے کو صرف اس وقت تک قبول اور برداشت کریں جب تک ان کے مفادات کے مطابق ہو اور اگر مفاد کے مطابق نہ ہو تو ایک دوسرے کو ختم کر دینے کے لئے تیار ہو جائیں۔ معاشرے کی ایک قسم یہ بھی ہے۔ یہ معاشرہ جاہلیت کا معاشرہ ہوگا۔ اس میں اور اس معاشرے میں جہاں اخلاقی اصولوں کی حکمرانی ہے، جس کو اسلامی معاشرہ کہا جاتا ہے، فرق ہے۔ بعثت حضرت رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اہم خصوصیت آپ کا اخلاقی خوبیوں کی دعوت دینا ہے۔ بنابریں کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اور جاہلیت کا ایک فرق اور سرحد اخلاق کا مسئلہ ہے۔
زمین پر بہشت
اسلام چاہتا ہے کہ انسان ایک دوسرے کے تئیں مہربان ہوں، ایک دوسرے کے حالات اور مستقبل سے پوری دلچسپی رکھیں، ایک دوسرے کے ہمدرد ہوں، ایک دوسرے کی بھلائی چاہیں، ایک دوسرے کی غلطیوں اور تکالیف سے متاثر ہوں، ایک دوسرے کے لئے دعا کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں۔ وتواصوا بالمرحمۃ یہ دوستی، محبت کا رشتہ، یہ بھائیوں میں محبت ومہربانی، خیر خواہی، خیر اندیشی، یہ سب بہت اچھی اور ممتاز صفات ہیں۔ اپنے اندر ان صفات کی تقویت کرنی چاہئے۔ انسان کے لئے سب سے بری صفت یہ ہے کہ انسان خود کو اپنے مادی مفادات کو بنیاد قرار دے اور اپنی ذات کی تسکین اور ذاتی خواہش کی تکمیل پر بے شمار انسانوں کو موت کے خطرے سے دوچار کرنے اور مصیبتوں میں مبتلا کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔
جس معاشرے میں حسد، بخل، تنگدلی، جرم، لالچ، بد خواہی، سازش اور ایک دوسرے کی نسبت بددلی نہ ہو وہ معاشرہ درحقیقت روئے زمین پر ایک بہشت ہے؛
ع بہشت آنجاست کآزاری نباشد ( بہشت وہاں ہے جہاں کوئی آزار و رنج نہ ہو)
تزکیہ ہو تو اسلامی معاشرے کی فضا، بہشت ہے۔
اخلاق اور دولت کا رشتہ
کچھ لوگ سادہ لوحی سے کام لیتے ہوئے دنیا کے بعض دولتمند ملکوں کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے پاس دولت ہے لیکن دین اور اخلاق نہیں ہے، ہمیں بھی اسی راستے پر چلنا چاہئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دولتمندی دین اور اخلاق سے عاری ہونے کی وجہ سے ہے۔ یہ غلط ہے۔ ہر صاحب دولت و ثروت ملک، کچھ خاص عوامل کی وجہ سے دولتمند ہوا ہے۔ جہاں بھی محنت، سعی و کوشش اور تدبیر سے کام لیا جائے گا، وہاں اس کا نتیجہ حاصل ہوگا۔ یہ قانون الہی ہے۔ حتی جو لوگ بغیر معنویت کے صرف مادیات کے لئے کوشش کرتے ہیں، اگر صحیح تدبیر اور طریقے سے کام لیتے ہوئے کوشش اور محنت و مشقت کریں تو اس کو حاصل کر لیں گے۔ کلا نمد ھؤلاء و ھؤ لاء من عطاء ربک یہ قرآن کا بیان ہے۔ صرف مادیات کے لئے محنت اور کوشش کی جائے تو دولت و طاقت حاصل ہوتی ہے، لیکن سعادت نصیب نہیں ہوتی۔
اخلاق اور انتظامی سسٹم
جہاں تک ہو سکے، اپنے مینجمنٹ کو زیادہ سے زیادہ اسلامی بنائيں۔ اسلامی انتظامی توانائی کے ساتھ انسانی اخلاق ۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ (جب عزم کر لیں تو پھر خدا پر بھروسہ کرکے شروع کریں) خداوند عالم اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے کہ عوام کا خیال رکھئے جنگ احد کے بعد کی بات ہے، انہوں نے شکست کھائی ہے، دکھی ہیں۔ ان سے مشورہ کیجئے، ان سے خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آئیے؛ لیکن فاذا عزمت فتوکل علی اللہ جب عزم کر لیا تو خدا پر توکل کریں اور آگے بڑھیں۔ انتظامی مہارت یہ ہے: خوش اخلاقی ہو لیکن اسی کے ساتھ، استحکام، انتظامی اقتدار اور ہر حال میں خدا پر توکل، پرودگار عالم سے نیکی طلب کرنا اور اس پر اعتماد اور توکل کرنا۔
علم کے ساتھ اخلاق ضروری ہے
طالب علم کے لئے ایک فطری پارسائی ضروری ہے۔ طالب علم جتنا پارسائی سے نزدیک ہوگا، علم سے اتنا ہی مانوس اور ہم آہنگ ہوگا اور علم کو اتنا ہی زیادہ پسند کرے گا، اتنا ہی زیادہ علم حاصل کرے گا، اتنی زیادہ علم کی قدر کرے گا اور علم کو اتنی ہی زیادہ اہمیت دے گا۔ علم کو اخلاق کے ساتھ اور صنعتی، سائنسی اور مادی ترقی کو اخلاقی رشد کے ساتھ ہونا چاہئے۔ خدا پر توجہ اخلاقی رشد کا بنیادی عامل شمار ہوتی ہے۔
فرض کریں کوئی معاشرہ ایسا ہے جس میں معنویت اور اخلاق ہے لیکن علم نہیں ہے تو یہی بے علمی اس کو تباہی کے دہانے پر لے جائے گی۔ اس لئے کہ دشمن آئے گا اور اپنے علم کے ماحصل کو، جس کی اس معاشرے کو ضرورت ہوگی، حتی معنویات کی قیمت پر اس معاشرے پر مسلط کرے گا اور اس کے ہاتھ فروخت کرے گا۔ یہ معاشرہ ایک دن، دو دن، کچھ عرصے تک صبر کرے گا، علم کے ماحصل کو اپنے ملک میں نہیں لائے گا لیکن سرانجام اسے درآمد کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ یہ حالت اس وقت وجود میں آئے گی جب بنیاد تباہ و برباد ہو چکی ہو۔ اگر ملک میں، معاشرے میں اچھی یونیورسٹی ہو، لیکن معنویت اور اچھا اخلاق نہ ہو تو حالت کیا ہوگی؟ اس کی حالت اس سے بھی بدتر ہوگی۔ اس لئے کہ اس صورت میں ملک میں علم ترقی کرے گا لیکن انسانی اقدار و اہداف کے برعکس سمت میں جائے گا۔ یہ علم ظلم، استعمار، امتیاز، بے عفتی، حتی قومی اصول و اقدار سے خیانت کا وسیلہ بن جائے گا۔
علم سے اخلاق کی جدائی
آج مغربی دنیا اور مغربی تمدن علم و دانش کی غیر معمولی پیشرفت کے باوجود جو بشریت کو نجات دلانے پر قادر نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مزاج بشریت کے لئے سازگار نہیں ہے۔ جہاں بھی علم ہو لیکن ضمیر، معنویت اور انسانی احساسات و جذبات نہ ہوں، وہاں علم و دانش سے بشریت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ علم، معنویت اور اخلاق کے بغیر ایٹم بم میں تبدیل ہو جاتا ہے اور بے گناہوں پر گرتا ہے، اسلحہ بن جاتا ہے اور لبنان، فلسطین اور دنیا کے دیگر علاقوں میں بے گناہوں کو ہدف بناتا ہے، مہلک کیمیائی مادہ بن جاتا ہے اور حلبچہ نیز دنیا کے دیگر علاقوں میں عورتوں، مردوں، بچوں اور بوڑھوں کا بہیمانہ انداز سے قتل عام کرتا ہے۔ یہ چیزیں کہاں سے آئیں؟ یہ مہلک مواد، علم و دانش کے انہی مراکز سے اور انہی یورپی ملکوں سے آئے۔ انہی ملکوں نے یہ مواد تیار کیا اور اس حکومت کو دیا جس کو انتہائی بنیادی اصولوں کا بھی کوئی پاس و لحاظ نہیں تھا۔ اسلحے اور انواع و اقسام کی سائنسی مصنوعات آج نوع انسان کو سعادت و خوش نصیبی عطا نہیں کر سکیں اور نہ ہی کر سکتی ہیں۔ یہ سائنسی مصنوعات افراد بشر، عورتوں، مردوں اور بچوں کو زندگی کی لذتوں سے آشنا نہیں کر سکتیں، اس لئے کہ ان کے ہمراہ اخلاق و معنویت نہیں ہے۔
معالج کا اخلاق
ایک ڈاکٹر اور طبیب کو دو زاویوں سے اخلاق کے مسئلے کو زیادہ اہمیت دینی چاہئے۔ ایک لینے کے زاویئے سے اور دوسرے واپس دینے کے زاویئے سے۔ جس مرحلے میں وہ علم حاصل کرتا ہے، وہاں بھی اسلامی اخلاقیات ہیں۔ یعنی تعلیم و تربیت میں اسلامی اخلاق؛ طریقۂ تعلیم، تعلیم کا موضوع، کس سے تعلیم لی جائے، کس لئے تعلیم حاصل کی جائے، یہ سب تعلیم کے مختلف مراحل ہیں۔ رحم اللہ امرء عمل عملا فاتقنہ (یہ اصول) تعلیم میں بھی (نافذ) ہے۔ یعنی اچھی تعلیم حاصل کرنا، ہمیشہ بہترین چیزیں حاصل کرنا اور بہترین چیزیں رکھنا، اخلاقیات کا جز ہے۔
اس کے بعد جو سیکھا ہے اس کو کام میں لانے کا مرحلہ ہے۔ یہ بیماروں اور یونیورسٹی میں طلبا سے دوچار ہونے کا مرحلہ ہے۔ یہ دوسرا مرحلہ ہے۔ یہاں بھی اخلاقیات کا عمل دخل ہے۔ بقراط کی وصیت میں بہت ہی اہم نکات پائے جاتے ہیں جن کا تعلق بیماروں کے ساتھ ہی سلوک اور اس بات سے ہے کہ بیماری کیسے دور کی جائے اور یہ اس میدان میں اخلاق کے دو پہلوؤں میں سے ایک ہے۔
اخلاق سے سیاست کی جدائی کا خطرہ
دنیا میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سماج میں وہ لوگ ابھر کے سامنے آتے ہیں جو خاص انفرادی اخلاق کے مالک ہوں۔ تکبر کرنا، آرام و آسائش کی زندگی گزارنا، فضول خرچی، فیشن پرستی، خود پسندی و خود سری وغیرہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن کے بارے میں لوگوں نے تسلیم کرلیا ہے کہ جو لوگ حکومت میں ہوں ان کی یہ خصوصیات ہوتی ہیں۔ حتی انقلابی ملکوں میں، وہ انقلابی حضرات، جو کل تک خیموں میں زندگی گزارتے تھے، ویرانوں اور قبرستانوں میں روپوش رہتے تھے، حکومت ملتے ہی ان کی زندگی کی حالت بدل جاتی ہے، ان کی حکومت کا طریقہ بدل جاتا ہے اور وہ بھی وہی طریقہ اپنا لیتے ہیں جو دنیا کے دیگر حکام اور سلاطین کا ہوتا ہے۔
امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس غلط فکرکو بدل دیا اور دکھا دیا کہ قوم اور مسلمین عالم کا مقبول ترین رہبر کیسی زاہدانہ زندگی گزارتا ہے، ملاقات کے لئے آنے والوں سے محلوں کے بجائے حسینیہ میں ملتا ہے اور لباس اور زبان کی سادگی کے ساتھ ہی عوام کے سلسلے میں انبیاء کے طرز عمل کا نمونہ پیش کرتا ہے۔
سیاست کو دو خطرات لاحق ہوتے ہیں: ایک یہ ہے کہ سیاست اخلاق سے دور اور معنویت و فضیلت سے عاری ہو سکتی ہے۔ یعنی شیاطین، سیاست پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں اور سیاست معاشروں کے تسلط پسندوں اور دولت پرستوں کے مفاد کے تحفظ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اگر سیاست اس مصیبت میں مبتلا ہو گئی تو انسانی معشروں کے تمام شعبے عیوب اور مشکلات میں مبتلا ہو جائیں گے اور پھر کوتاہ نظر، بچکانہ خصلت کے مالک اور ضعیف النفس افراد سیاست کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور سیاست کی قیادت قوی اور باصلاحیت ہاتھوں سے نکل کے نالائق لوگوں کے پاس چلی جائے گی۔
اخلاق اور فن
اخلاق اور فن کی یگانگت
جو انسان قابل احترام اور باشرف ہو اس کا دل، ذہن اور فکر بھی باشرف اور قابل احترام ہوگی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سامنے والے کو صرف اس بنا پر کہ وہ بیٹھا فنکار کی باتیں سن رہا ہے، سب کچھ دے دیا جائے بلکہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ فنکار اس کو کیا دینا چاہتا ہے۔ بات اخلاق اور فضیلت کی ہو رہی ہے۔ میں نے، میرا خیال ہے کہ، رومین رولینڈ (معروف فرانسیسی مصنف، جس کا اصل نام ایل سن جسٹ تھا26 /1/1866 - 30 /12/1944) کے حوالے سے پڑھا ہے کہ اس نے کہا تھا کہ کسی بھی فنی کام میں ایک فیصد فنکاری، ننانوے فیصد اخلاق ہونا چاہئے۔ یا احتیاط سے کام لیتے ہوئے اس طرح کہیں کہ: دس فیصد فنکاری اور نوے فیصد اخلاق ہونا چاہئے۔ مجھے ایسا لگتا کہ یہ بات عین حقیقت نہیں ہے۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو میں کہوں گا کہ سو فیصدی فنکاری اور سو فیصدی اخلاق ہونا چاہئے۔ ان میں آپس میں کوئی منافات نہیں ہے۔ کام کو سو فیصدی فنکارانہ خلاقیت کے ساتھ انجام دینا چاہئے جس میں سو فیصدی اعلی اور بافضیلت باتیں پیش کی جائیں۔ آرٹ اور فن کے شعبے میں بعض ہمدرد لوگوں کے لئے جو چیز باعث تشویش ہے، یہ ہے کہ فنکار تخیل اور آرٹ کی آزادی کے نام پر فضیلتوں کو فنا اور اخلاقیات کی بے حرمتی نہ کر دے، یہ بہت اہم ہے۔
اخلاقی مشکلات
اخلاق سے عاری آزادی
مغربی ڈیموکریسی کا فلسفہ اور بنیاد لبرلزم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان آزاد ہے اوراس آزادی کا تقاضا ہے کہ آمریت نہ رہے، جمہوریت رہے۔ اب یہ آزادی جو لبرلزم سے ماخوذ ہے، آزادی مطلق ہے۔ یعنی اگر عوام فیصلہ کر لیں کہ اس چیز کو قبول کریں جو سو فیصد ان کے نقصان میں ہے ( تو وہ یہ کام کر سکتے ہیں) فرض کریں کہ برطانیہ کے عوام، جس طرح انہوں نے اپنی پارلیمنٹ میں ہم جنس بازی کو قانونی حیثیت دے دی ہے، اسی طرح، یہ فیصلہ کریں کہ ہیروئن کا استعمال اور محارم (ماں، باپ ، بھائی بہن اور بیٹی بیٹے وغیرہ) سے شادی کی بھی اجازت ہونا چاہئے تو؟ اب ان کے پاس اس کو قبول نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ ہم جنس بازی اور محارم کی شادی دونوں میں فرق کیا ہے؟ اس کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ آج اگر امریکی کانگرس یا برطانوی پارلیمنٹ محارم کی شادی کو منظوری دینے کا فیصلہ کریں تو اب مردانہ غیرت وغیرہ کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یعنی اس آزادی کی حدود پر کوئی منطق حکمفرما نہیں ہے۔ اگر وہ یہ کہیں کہ اس حد کے بعد آزادی، اخلاق کے خلاف ہے تو ہم یہ کہیں گے کہ کون سا اخلاق؟ کوئی اخلاق بچا ہی نہیں ہے۔ سب آزاد ہیں۔ اس لئے کہ لبرلزم کا مطلب آزادی ہے اور اس آزادی کی کوئی حدبندی نہیں کی جا سکتی الا یہ کہ آزادی، آزادی کے خلاف اور سماجی آزادی کی بنیاد کے خلاف ہو۔ ان کی ریڈ لائن صرف یہ ہے۔ مغربی ڈیموکریسی لبرلزم کے فلسفے اور منطق سے، درحقیقت اپنے کھوکھلے پن کو ثابت کرتی ہے۔ اس صورت میں معاشرے کی تمام اخلاقی قدریں ختم ہو جائيں گی۔ وہ اس کا اعتراف کرنے پر تیار نہیں ہیں لیکن اس کا یقینی نتیجہ یہی ہے۔
اخلاق سے دوری
مغرب والوں نے اخلاق کی بنیادیں بھی خود ہی ختم کی ہیں۔ پچاس ساٹھ سال پہلے سے ہی انہوں نے اخلاقیات کی بنیادوں کو گرانا شروع کر دیا۔ یعنی انفرادی آزادی اور اس میں لامحدود توسیع کہ ہر شخص جو چاہے انجام دے، جتنی لذت (جس طرح سے بھی) حاصل کرنا چاہے حاصل کرے، اس بات نے معاشرے کو ثقافتی لحاظ سے اندر سے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ثقافت اور شخصیت کے لحاظ سے سخت بحران کا شکار ہے۔
امریکی معاشرہ، زیادہ دولت، زندگی کے وسائل کی فراوانی اور سائنسی ترقی کے باوجود معنوی فقر اور وحشتناک اخلاقی تہی دستی کا شکار ہے کہ ایسے جرائم اور المیے وہاں تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں۔ یہ معنویت اور دینداری سے دوری کا نتیجہ ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ماں وقتی لذت اور حقیر خواہش کی تکمیل کے لئے اپنے بچوں کو قتل کر دے؟
اگر انفرادی لذت کا حصول اس بات کا باعث ہو سکتا ہے کہ انسان آزادی کے ساتھ اس کام کو انجام دے تو پھر منشیات کے استعمال پر اتنی پابندی اور دباؤ کیوں ہے؟ کوئی شخص ایسا ہے جس کا جی چاہتا ہے کہ منشیات استعمال کرے، اس کی اس خواہش کی تکمیل میں رکاوٹ کیوں بنتے ہو؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ جب کسی معاشرے میں اخلاقی بنیادیں گر جائیں تو اس کو کوئی بھی چیز نہیں بچا سکتی۔ آج ان کی یہی حالت ہے۔
اخلاقی برائیاں
یہ جو بعض لوگ دنیوی زندگی کے لالچ میں پڑ کر روح کے لئے تکلیف دہ زندگی گزارتے ہیں اور اخلاقی برائیوں، ناپسندیدہ صفات، حرص و طمع اور بخل کے شکار ہو جاتے ہیں، یہ کائنات کے بارے میں خدائی، معنوی اور توحیدی نظرئے سے جو لوگوں کو اتحاد و یک جہتی اور پرامن بقائے باہمی کی دعوت دیتا ہے، دوری کا نتیجہ ہے۔ ایک ساتھ رہنا اور اتحاد انسان کے اندر انفرادی طور پر بھی پسندیدہ اور شیریں ہے اور معاشرے اور دنیا کی سطح پر بھی ایسا ہی ہے۔
اقوام، حکام، بڑوں اور چھوٹوں کی یہی برائیاں ہیں جو ان کے دل کے اندر خود پسندی، خود پرستی اور فرعونیت کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ بعض اوقات انسان اپنے جسمانی قالب سے باہر، یعنی اپنے ظاہر میں فرعونیت کی کوئی علامت نہیں رکھتا لیکن باطن میں، دل کے اندر، فرعون ہوتا ہے۔ خود پسندی، خود پرستی، اپنے آپ کو محور قرار دینا، اپنی ذات کو بڑا بناکر پیش کرنا، اپنی خواہشات، اپنے میلانات، اپنی شہوات اور اپنے مفادات کو بہت اہم سمجھنا، یہ باتیں، زندگی کی اکثر برائیوں کی جڑ ہیں؛ لہذا تزکیہ نفس، نفس کی پاکیزگی کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
خاندان میں اخلاقیات کا شیرازہ بکھرنے کے عواقب
جہاں بھی شہوت پرستی، اخلاقی برائیوں اور بے راہ روی کا راستہ کھلا، وہاں خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور پھر وہی ہوتا ہے جس کا آج مغربی ملکوں میں مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں بے راہ روی زیادہ ہے، وہاں یہ چیز زیادہ واضح ہے۔ ان جگہوں پر خاندان کا تصور اپنی حقیقت کھو چکا ہے۔ اگر کبھی میاں بیوی کچھ دیر کہیں بیٹھنا چاہیں تو مثال کے طور پر ایک وقت معین کریں جب سب گھر والے جمع ہوں اور کچھ دیر افراد خاندان کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی لیں، یعنی پرخلوص اور محبت آمیز گھر کی فضا کا کوئی وجود نہیں رہا۔ لہذا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کریں اور ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کریں۔