پہلا باب: اقتصادی خود انحصاری

اقتصادی خود انحصاری کا مفہوم

معاشی خود انحصاری کی اہمیت

اقتصادی خود انحصاری کے مقدمات

اقتصادی خود انحصاری میں ثقافتی سرمایہ کاری کے اثرات

اقتصادی خود انحصاری کی شرطیں

اقتصادی تسلط و اجارہ داری

سیاسی و ثقافتی خود مختاری میں پائیدار معیشت کا کردار

دوسرا باب: اقتصادی پابندی و محاصرہ

محاصرے میں ترقی

اقتصادی ترقی میں معاشی پابندیوں کے اثرات

ایران کی پیشرفت و ترقی کی مخالفت


 

اقتصادی خود انحصاری، معاشی پابندیوں کا مقابلہ

پہلا باب: اقتصادی خود انحصاری

اقتصادی خود انحصاری کا مفہوم

معاشی خود انحصاری یعنی یہ کہ ملک اور قوم اپنی اقتصادی سرگرمیوں میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو اور کسی کی محتاج نہ رہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو قوم اقتصادی لحاظ سے خود کفا ہے وہ دنیا میں کسی سے کوئی سودا اور لین دین نہیں کرتی۔ ایسا نہیں ہے، سودا اور لین دین کمزوری کی دلیل نہیں ہے۔ کوئی چیز خریدنا، کچھ فروخت کرنا، سودا کرنا، تجارتی مذاکرات انجام دینا، یہ کمزوری کی علامتیں نہیں ہیں۔ لیکن یہ سب اس انداز سے انجام پانا چاہئے کہ قوم ایک تو اپنی بنیادی ضرورتیں خود ہی پوری کرنے پر قادر ہو اور دوسرے یہ کہ عالمی سودوں اور لین دین میں اس کا اپنا مقام ہو۔ دوسرے (ممالک) اسے بآسانی حاشئے پر نہ ڈال دیں، اس کا اقتصادی محاصرہ نہ کر لیں، اسے دوسرے ڈکٹیٹ نہ کریں۔ آج جو ممالک اقتصادی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں، ان کے پاس طاقت ہے اور بد قسمتی سے عالمی سامراج کا حصہ ہیں اور سامراجی پالسیوں پر عمل پیرا ہیں، جب وہ کسی ملک سے کوئی سودا اور لین دین انجام دینا چاہتے ہیں، تعاون کرتے ہیں تو اس ملک پر کچھ چیزیں مسلط کر دیتے ہیں۔ ملک کی آزاد معیشت سے مراد یہ ہے کہ ملک کو جس چیز کی ضرورت ہے اسے ملک کے اندر ہی تیار کیا جا سکتا ہو۔ ملک کے کارخانے سب کچھ تیار کریں اور ملک کا محنت کش طبقہ اسے اپنا انسانی و دینی فریضہ تصور کرے۔ محنت کش صرف وہ نہیں ہے جو کسی کارخانے میں کام کرتا ہے۔ جو بھی ملک میں کوئی مفید و با مقصد کام انجام دے رہا ہے وہ محنت کش ہے۔ مصنف، فنکار، استاد، موجد اور محقق بھی محنت کش طبقے کے افراد شمار کئے جا سکتے ہیں۔

ٹاپ


معاشی خود انحصاری کی اہمیت


اقتصادی خود انحصاری، سیاسی خود مختاری سے بالاتر ہے۔ ملک کے حکام، پارلیمنٹ کے اراکین اور معاشی شعبے سے جڑے افراد اس بات پر توجہ دیں کہ پیسے، اقتصادی سرگرمیوں اور اقتصادی امور میں دوسروں پر اپنا انحصار ختم کریں۔

ملک کے لئے معاشی خود کفائی انتہائی حیاتی ضرورت کا درجہ رکھتی ہے۔ جب کسی ملک کی معیشت اغیار سے وابستہ ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس پیکر کی رگ حیات اور اس کی سانس دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔ بنابریں اختیارات بھی دوسروں کے ہی ہاتھ میں ہوں گے۔

بیشتر انقلابی ممالک کا رجحان ( گزشتہ صدی میں) مشرق کی جانب تھا۔ یہ ممالک مشرقی حکومتوں اور طاقتوں سے مدد لیتے تھے۔ مثال کے طور پر جب چین میں انقلاب آیا تو دس سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے تک سویت یونین نے جو اس کا بڑا بھائی کہا جاتا تھا اور جو اشتراکی انقلاب میں سب سے آگے تھا، چین کی اقتصادی اور فنی مدد کی اور اس نے اس ملک کے لئے اپنے ماہرین بھیجے۔ دیگر کمیونسٹ ممالک کی بھی یہی صورت حال تھی۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے اقتصادی انحصار کو ختم کرنے کے لئے صرف اپنی قوم کی مضبوط قوت ارادی اور ایرانیوں کی درخشاں صلاحیتوں پر تکیہ کیا۔

ٹاپ


اقتصادی خود انحصاری کے مقدمات


جو ممالک آزاد ہوتے ہیں ان کا سب سے پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ اپنے سیاسی نظام کو خود مختاری دلاتے ہیں۔ یعنی بیرونی طاقتوں کے نفوذ سے آزاد ہوکر حکومت تشکیل دیتے ہیں۔ اس پر بھی وہ اکتفا نہیں کرتے بلکہ معاشی خود انحصاری کی جانب قدم بڑھاتے ہیں۔ معاشی خود انحصاری، سیاسی حود مختاری سے زیادہ مشکل ہے اور اس کے لئے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ بڑی طاقتوں کے اقتصادی تسلط اور نفوذ کو آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی ملک اقتصادی خود کفائی کی منزل پر پہنچنا چاہتا ہے تو اسے ماہر افرادی قوت، آمدنی کے اچھے ذرائع، بے پناہ وسائل، سائنس، مہارت، عالمی سائنسی و فنی تعاون اور دیگر بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

انقلابی ممالک اور وہ مملکتیں جنہوں نے نئی نئی خود مختاری حاصل کی ہے اقتصادی خود کفائی کے ان وسائل اور ذرائع کے حصول میں مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں۔

آزاد ملکوں کو چاہئے کہ اپنی ضرورت اور تشخیص کے مطابق اس صنعت، مصنوعات اور سامان کو ملک کے اندر موجود ذخائر اور وسائل کے سہارے تیار کر لیں۔ انہیں چاہئے کہ اپنی خلاقی صلاحیتوں، محنت و مشقت سے، اس پر حکمفرما انتظامی سسٹم اور آزادی و خود مختاری کی راہ میں قائم ہونے والے عوامی اتحاد سے، ساتھ ہی ساتھ دشمن کے تشہیراتی حربوں کی بابت پوری ہوشیاری و دانشمندی کے ذریعے مکمل اقتصادی خود انحصاری و آزادی کی سمت پیش قدمی کریں۔

ٹاپ


اقتصادی خود انحصاری میں ثقافتی سرمایہ کاری کے اثرات


ہر ملک کی افرادی قوت ہی اس کا سب کچھ ہوتی ہے۔ اگر افرادی قوت نہ ہو تو سب کچھ ہیچ ہے۔ کچھ ممالک میں ایران سے پہلے ہی انقلاب آیا گیا تھا اور اقتصادی، صنعتی، تکنیکی اور دیگر شعبوں میں انہیں کامیابیاں بھی ملیں۔ ان ملکوں نے اپنے انقلاب کے اوائل میں اپنے تمام منصوبے افرادی قوت کی تربیت کو محور قرار دیکر ترتیب دئے۔ عالم یہ ہے کہ آج بھی ان میں سے بعض ممالک ماہر افرادی قوت برآمد کر رہے ہیں۔ یعنی نہ صرف یہ کہ یہ ممالک بے پناہ افرادی قوت کی وجہ سے خود کفالت کی منزل پر پہنچ گئے بلکہ ان ممالک میں اتنے زیادہ ماہرین کے لئے جگہوں کی کمی ہے اور ان کی معیشت ایسی نہیں ہے کہ یہ تمام ماہرین اس میں کھپ سکیں۔ نتیجتا وہ دوسرے ملکوں کو برآمد کر رہے ہیں۔ اسی افرادی قوت نے انہیں اعلی سطح پر پہنچا دیا ہے جبکہ ان کے پاس تیل جیسے ذخائر بھی نہیں ہیں۔

اگر آج ثقافتی امور کے لئے بجٹ مختص کیا جا رہا ہے تو اس بات پر توجہ ہونا چاہئے کہ ممکن ہے کہ قلیل مدت میں یہ بجٹ اقتصادی امور اور معاشی سرگرمیوں کو فائدہ نہ پہنچائے لیکن اس قلیل مدت کے بعد اس کا فائدہ فی الفور ملک کو ملے گا ۔ اگر صحیح انداز سے فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے تو اس سے ملکی معیشت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اگر ثقافتی امور بالخصوص تعلیمی شعبے کے لئے بجٹ اور وسائل کو استعمال کیا جا رہا ہے تو اس سے ملک کو ہرگز نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ اس سے آگے چل کر ملک کے لئے نئے وسائل پیدا ہوں گے۔

ٹاپ


اقتصادی خود انحصاری کی شرطیں


پہلی شرط: سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ ملک میں ہر کوئی اپنے فرائض کو بنحو احسن انجام دے۔ (پیغمبر اسلام) ارشاد فرماتے ہیں: رحم اللہ امرء عمل عملا فاتقنہ اللہ رحمت نازل کرے اس شخص پر جو کام انجام دیتا ہے تو محکم انداز میں انجام دیتا ہے، بنحو احسن انجام دیتا ہے۔ یہ کوشش ہونا چاہئے کہ جب بھی کوئی کام انجام دیا جائے تو مکمل طور پر اور درست طریقے سے انجام دیا جائے۔ کوئی کسر باقی نہ رہے۔ یہ ایک اہم شرط ہے جو پوری ہو جائے تو اقتصادی خود انحصاری کی منزل پر پہنچا جا سکتا ہے۔

دوسری شرط: (خلاقیت اور نئی ایجادات) ملک کی اقتصادی سرگرمیوں اور کام کے شعبے میں خلاقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہئے۔ کتنی اچھی بات ہے کہ وہ کارخانے جو حکومت کے پاس ہیں یا وہ کارخانے جو نجی سیکٹر سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی آمدنی کا تھوڑا سا حصہ تحقیق اور اپنی مصنوعات کا معیار بلند کرنے اور کاموں کی پیشرفت کے لئے استعمال کریں۔ ترقی پذیر ممالک اس انتظار میں کیوں بیٹھیں کہ یورپ یا دنیا کے کسی اور گوشے میں کوئی آگے بڑھ کر تحقیق کرے تب یہ (ممالک) اس سے سیکھیں؟! خود بڑھ کر تحقیق کرنا چاہئے، نئی ایجاد کرنا چاہئے، پیداوار کو آگے بڑھانا چاہئے، صنعت کو آگے لے جانا چاہئے، پیداوار کو مقدار اور معیار کے لحاظ سے آگے لے جانا چاہئے۔

تیسری شرط: تیسری شرط یہ ہے کہ ملک کے علمی شعبے، معیشت کی مدد کے لئے آگے آئیں۔ یونیورسٹیوں کے مفکرین آئیں اور حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ حکومت ان مفکرین اور ماہرین کا سہارا لے جو یونیورسٹیوں میں علمی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ یہ خیال نہ پیدا ہو کہ اگر کسی یورپی مفکر نے کوئی تحقیق انجام دی ہے اور کوئی بات کہی ہے تو وہ پتھر کی لیکر بن گئی ہے۔ آج کوئی بات انہوں نے کہی، بیس سال بعد، دس سال بعد، پانچ سال بعد کوئی دوسرا محقق آکر اس بات کو غلط ثابت کر دیتا ہے اور نیا نتیجہ پیش کرتا ہے۔ مغرب والوں نے جو کچھ کہہ دیا ہے اسے آنکھیں بند کرکے کیوں قبول کر لیا جائے، کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس کی باتیں سنی اور قبول کی جاتی رہیں؟! آپ کو خود آگے بڑھ کر صحیح نظریہ قائم کرنا چاہئے۔ ہر ملک کے ماہرین اقتصادیات کو چاہئے کہ اپنی سرزمین کے حالات، وہاں کے عقائد اور اس مملکت کی خصوصیات نیز اقتصادی مسائل کے مطابق حل تلاش کریں۔

ٹاپ


اقتصادی تسلط و اجارہ داری


سامراجی تسلط کی قربانی بننے والے ملکوں کے پاس کبھی بھی اطمینان بخش معیشت نہیں رہی ہے۔ کبھی کبھار ان کے ہاں ظاہری معاشی رونق نظر آتی تھی جیسا کہ (آج بھی) تسلط کا شکار بننے والے ملکوں میں ظاہری رونق نظر آتی ہے لیکن اقتصادی ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ یعنی اگر ان کا ایک دروازہ بند کر دیا جائے یا ان کا اقتصادی محاصرہ کر لیا جائے تو سب کچھ شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گا، نابود ہو جائے گا۔ ایک سرمایہ دار نے دو تین مہینے کے اندر جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک کو دیوالیہ کر دیا۔ ان میں دو تین ملکوں میں اچھی خاصی اقتصادی ترقی تھی۔ انہی میں سے ایک ملک کے سربراہ کا انہی دنوں تہران آنا ہوا اور میری ملاقات بھی ہوئی۔ کہنے لگے کہ میں آپ سے بس اتنا کہوں گا کہ ہم راتوں رات فقیر ہو گئے! ایک امریکی یہودی سرمایہ دار نے بالکل اس طرح جیسے مٹی کا گھروندا ایک جھٹکے میں ختم ہو جاتا ہے ایک جھٹکے میں سب کچھ ختم کر دیا۔ امریکیوں کو جہاں ضرورت محسوس ہوئی پچاس، ساٹھ ارب ڈالر انجکٹ کر دئے، کہیں پچاس ارب اور کہیں تیس ارب، اور جہاں انہیں ضرورت نہیں محسوس ہوئی اسے تباہ کر دیا۔ البتہ انجکٹ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ اسی مٹی کے گھروندے کو ایک الگ انداز سے بنا دیا ہے۔ بہرحال ان ممالک کی معیشت کو مستحکم نہیں ہونے دیتے۔

ٹاپ


سیاسی و ثقافتی خود مختاری میں پائیدار معیشت کا کردار


اسلامی انقلاب سے ملت ایران کو سیاسی خود مختاری کا تحفہ ملا۔ اس قوم کو یہ جرئت ملی کہ دنیا کے غیر منصفانہ اور تسلط پسندانہ نظام کے مد مقابل سینہ سپر ہو جائے۔ یہ قوم اگر سیاسی خود مختاری اور ثقافتی تشخص کو دنیا کی سامراجی طاقتوں سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے تو اسے اپنی معیشت کی بنیادیں مضبوط کرنا ہوں گی۔ یہ ملک میں خود مختاری کی جڑوں کے مستحکم ہونے کے معنی میں ہے، اس کا دار و مدار پیداروار، کام، روزگار کی صورت حال میں بہتری، مختلف شعبوں میں نئی دریافتوں پر ہے۔ تحقیقاتی مراکز اور تجربہ گاہوں سے لیکر کارخانوں اور زراعت تک ہر جگہ نئی ایجادات ہونا چاہئے۔ ایسا ہو جانے پر ملت ایران کے گستاخ اور خونخوار دشمن ہاتھ مل کر رہ جائیں گے اور خاموشی سے گوشہ نشین ہو جائیں گے۔

ٹاپ

دوسرا باب: اقتصادی پابندی و محاصرہ

محاصرے میں ترقی

اسلامی انقلاب نے تمام تر ترقی ایسے عالم میں کی کہ جب ایران کے دشمنوں یعنی امریکا اور اس کے ہمنواؤں نے سیاسی، اقتصادی اور دیگر شعبوں میں ایران کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ بلا وقفہ جاری رکھا۔ ہمیشہ ایران سے کہا گیا کہ آپ کا اقتصادی محاصرہ کر لیا جائے گا۔ کہا گيا کہ آپ لوگ بھوکوں مر جائیں گے۔ ہمیشہ تلقین کی گئی کہ اس ملک میں تعمیر و ترقی کی راہ مسدود ہو جائے گی۔ اسی طرح دیگر گوناگوں دھمکیاں۔ بحمد اللہ یہ جو ساری ترقی ہوئی ہے ان دھمکیوں، دشمنی اور دباؤ کے باوجود ہوئی ہے۔

ٹاپ


اقتصادی ترقی میں معاشی پابندیوں کے اثرات


جنگ کے آغاز کے وقت سے اب تک اسلامی جمہوریہ ایران زمین سے آسمان پر پہنچ چکا ہے۔ ایران کو اقتصادی پابندیوں اور معاشی محاصرے کی دھمکیاں دیتے ہیں! اس ملک نے اسی اقتصادی محاصرے کے عالم میں یہ بے شمار وسائل ایجاد کئے ہیں۔ اقتصادی محاصرہ سبب بنتا ہے کہ ملک کے اندر با استعداد و با ایمان افرادی قوت زیادہ تندہی سے کوششیں اور اقدامات کرے۔ اقتصادی پابندیوں کے سخت ترین مراحل میں ایرانی جوانوں نے ایسے ہتھیار تیار کئے کہ پوری دنیا میں امریکا اور اس کے ذریعے نوازی جانے والی ایک دو حکومتوں کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں تھے۔ یہی اینٹی ٹینک میزائل تاو اس ملک کے جوانوں نے کن حالات میں تیار کیا؟ ان پر سارے دروازے بند تھے لیکن انہوں نے بنا ڈالا۔ البتہ جوہری توانائی دنیا میں اپنی خاص اہمیت کے باعث ذرا زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آئی ورنہ اسی سطح کے دوسرے مختلف شعبوں میں متعدد کارنامے انجام دئے گئے ہیں جن کی اہمیت اس (ایٹمی ٹکنالوجی) سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ البتہ ان کا دفاعی یا فوجی استعمال نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اقتصادی محاصرے کے دوران ، شدید سیاسی و اقتصادی دباؤ میں اور ان حالات میں انجام دیا گيا جب حتی وہ حکومتیں بھی جن کے ایران سے اقتصادی تعلقات تھے ایران سے وعدہ خلافی اور عہد شکنی کرتی تھیں۔ پھر بھی ایران کامیاب ہو گیا۔ یہ ایک قوم کی عظیم صلاحیت ہے جو یہ کامیابیاں دلاتی ہے۔

اگر دنیا میں کچھ مقامات پر ایران کے لئے دروازے بند ہیں تو اس کو غنیمت سمجھنا چاہئے۔ اگر دروازے کھلے ہوں تو انسان پر سستی اور کاہلی سوار ہونے لگتی ہے اور نتیجے میں وہ کسی مقام پر نہیں پہنچ پاتا۔ اہم کاموں میں محنتوں اور کاوشوں کے لئے عظیم جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ مسلسل نئی ایجادات اور نئی نئی دریافت میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ان کی علمی روش اور طرز عمل انہیں اس کے لئے حوصلہ عطا کرتا ہے اور دوسری بات یہ کہ ان کے لئے یہ کام آسان ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سامراجی طاقتوں کا پیسہ بھی انہیں دستیاب ہے۔ اس وقت مغرب والوں نے علم و سائنس کے ذریعے خود کو پوری دنیا پر مسلط کر رکھا ہے۔ ان کے اپنے عزائم ہیں۔ ان ممالک کو بھی جنہیں پسماندہ رکھا گیا ہے ترقی و حرکت کے لئے اپنے اندر جذبہ پیدا کرنا چاہئے۔ یہ جذبہ پیدا ہونے کے عوامل و اسباب میں ایک، دروازوں کا بند ہونا بھی ہے۔

ٹاپ


ایران کی پیشرفت و ترقی کی مخالفت


سرمایہ داری اور سامراج کا خیمہ اپنی تمام تر سیاسی توانائيوں، اپنی پوری مالیاتی و اقتصادی طاقت کے ساتھ اور اپنے تشہیراتی چینلوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حتی الوسع ملت ایران پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ عقب نشینی کر لے، ہتھیار ڈال دے۔ صرف ایٹمی شعبے میں نہیں یہ تو ملت ایران کے حقوق کا ایک حصہ ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ملت ایران عزت کی زندگی کے حق سے، خود مختاری کے حق سے، حق خود ارادیت سے، سائنسی میدان میں ترقی کے حق سے دستبردار ہو جائے۔ اس وقت ملت ایران سائنس و ٹکنالوجی کے میدانوں میں ترقی کی راہ پر گامزن اور طاغوتی (شاہی) دور کی دو سو سالہ پسماندگیوں سے باہر نکلنے پرکمربستہ ہے۔ یہ (دشمن) سراسیمہ ہیں۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ ملت ایران جو دنیا کے حساس ترین علاقے میں آباد ہے اور اسلام کی علمبردار کی شناخت حاصل کر چکی ہے، یہ کامیابیاں حاصل کرے، یہی وجہ ہے کہ وہ دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن ملت ایران کے پائے ثبات میں کوئی تزلزل پیدا نہیں ہو رہا ہے۔

ٹاپ