ٹکنالوجی کا تعمیری و تخریبی استعمال

اخلاقیات سے بے بہرہ علم و دانش

حقیقی پیشرفت کا مفہوم

ایٹمی ٹکنالوجی کی اہمیت

مقامی ٹکنالوجی

غیر صحتمند ایٹمی مقابلہ آرائی

ایٹمی ہنگامہ آرائی کی حقیقت

ہنگامہ آرائی

مادی و روحانی طاقت

عام تباہی کے ہتھیاروں کی نابودی کی ضرورت

عالمی امن کو لاحق خطرہ

سامراجی دباؤ کے مقابلے میں ایران کا منطقی موقف

قوموں کی خواہش

حق تلفی

ایران کی ایٹمی ہتھیاروں سے بے نیازی

ایٹمی ٹنکالوجی


ٹکنالوجی کا تعمیری و تخریبی استعمال

ایٹم لفظ جہاں سائنسی میدان میں انسانی پیشرفت پر دلالت کرتا ہے وہیں بد قسمتی سے تاریخ کے گھناونے ترین سانحے، سب سے بڑی نسل کشی اور انسان کی سائنسی کامیابی کے غلط استعمال کا غماز بھی ہے۔ حالانکہ متعدد ممالک نے ایٹمی ہتھیار بنانے اور ان کا ذخیرہ تیار کرنے کا اقدام کیا ہے جو اپنی جگہ پر ارتکاب جرم کی تمہید ہے اور اس سے امن عالم کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں لیکن ایک ہی حکومت ہے جس نے ایٹمی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ واحد امریکی حکومت ہے جس نے ہیروشیما اور ناگاساکی میں مظلوم جاپانی عوام کو ایک غیر مساویانہ جنگ میں ایٹمی حملے کا نشانہ بنایا۔

پیشرفتہ سائنس اگر کسی با کمال اور اچھی قوم کے پاس ہو تو باعث خیر و برکت ہوتی ہے، جدید اسلحے اگر کسی دانشمند اور بالغ نظر قوم کے پاس ہوں تو بے خطر ہیں۔ (سائنس کی) اس طاقت سے کس نے قوموں کو نقصان پہنچائے ہیں؟ اس سے ایٹم بم بنا دئے گئے۔ جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے آخری ایام میں امریکیوں نے کیا اور جاپانیوں پر آفت ٹوٹ پڑی یا جیسا کہ سویت یونین کے ایک ایٹمی کارخانے میں رساؤ ہونے سے بڑی تعداد میں لوگ ہلاک اور نابود ہو گیا۔ اگر ایٹم سے کوئی المیہ رونما ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار بے لگام بڑی طاقتیں ہیں۔ اگر دنیا میں امریکا کی سامراجی طاقت پر قابو پا لیا جائے تو ایٹمی خطرہ اپنے آپ قابو میں آ جائے گا۔

ٹاپ

اخلاقیات سے بے بہرہ علم و دانش

مغربی دنیا کی ترقی یافتہ اور پوسٹ ماڈرن تہذیب اور معاشرہ اگر اپنی سائنس و ٹکنالوجی سے بشریت کو نجات دلانے سے قاصر ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ انسانیت کی معیت سے بے بہرہ ہے۔ علم و دانش اور انسانیت میں ہم آہنگی بہت اہم چیز ہے اور اس کی ہر جگہ ضرورت ہے۔ جہاں بھی علم و دانش تو ہو لیکن ضمیر، معنویت، اخلاقیات، جذبات و احساسات نہ ہوں وہاں انسان کو اس علم سے کوئی فا‍ئدہ نہیں پہنچے گا۔ معنویت و اخلاقیات سے بے بہرہ علم ایٹم بم میں تبدیل ہوکر بے گناہوں کی جانیں لیتا ہے، اسلحے کی شکل اختیار کرکے مقبوضہ فلسطین اور لبنان میں نیز دنیا کے دیگر خطوں میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بناتا ہے، مہلک کمیاوی مادے میں تبدیل ہو جاتا ہے اور (عراق کے علاقے) حلبچہ اور دنیا کے دیگر خطوں میں مرد و زن، پیر و جواں، انسان و حیوان سب کو نابود کر دیتا ہے، یہ چیزیں کہاں سے آئیں؟ یہ مہلک مادے، انہی علمی مراکز اور انہی یورپی ممالک سے نکلے ہیں۔ انہی نے یہ مادے تیار کرکے ایک ایسی حکومت کے حوالے کر دئے جسے کسی بات کا پاس و لحاظ نہیں تھا۔ ہتھیار اور انواع و اقسام کی سائنسی مصنوعات انسان کو خوش بخت بنا سکی ہیں نہ آئندہ بنا سکیں گی۔ یہ خاندانوں کو، مردوں عورتوں اور بچوں اور نوجوانوں کی فلاح و بہبود کو یقینی نہیں بنا سکتیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ علم و دانش اخلاقیات اور روحانیت سے بے بہرہ ہے۔

ٹاپ

حقیقی پیشرفت کا مفہوم

روحانیت و معنویت سے لگاؤ، اللہ تعالی سے رابطہ وہ عامل ہے جو کسی بھی قوم کی حقیقی پیشرفت و ترقی کو یقینی بناتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں عرف عام میں جس چیز کو کامیابی کہا جاتا ہے ممکن ہے اس کا استعمال غلط راہوں میں کیا جائے۔ یعنی ممکن ہے کہ کوئی ملک سماجی سرگرمیوں کے لحاظ سے نظم و ضبط والا اور با اخلاق ہو، علم اور دولت بھی حاصل کر لے لیکن اس علم اور دولت کو اور اپنے اسی عوامی نظم و ضبط کو کسی دوسری قوم کی نابودی کے لئے استعمال کرے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ ہمارے نقطہ نگاہ سے یہ درست نہیں ہے۔ اپنی علمی صلاحیت کو بروئے کار لایا جائے ایٹم بم جیسے ہتھیار بنانے کے لئے جو گرائے جانے کی صورت میں گنہگار، بے گناہ، مسلح (غیر مسلح)، چھوٹے بچوں، شیر خوار نونہالوں اور مظلوم انسانوں میں کوئی فرق رکھے بغیر سب کو تلف کر دیتا ہے، جو سائنس اور ٹکنالوجی اس راہ میں استعمال ہونے لگے اور جس ملک کے پاس یہ ٹکنالوجی ہو، وہ ترقی جو اس صورت حال پر منتج ہو ہم اس کی ہرگز حمایت نہیں کر سکتے۔ ہم ایسی تبدیلی پسند نہیں کرتے۔ ہر تبدیلی اور ترقی میں خدا پرستی، روحانیت سے عشق، احساسات اور محبت کے جذبات کی تقویت لازمی ہے اور ہمیں اس سمت میں قدم بڑھانا چاہئے۔

ٹاپ

ایٹمی ٹکنالوجی کی اہمیت

ایٹمی ٹکنالوجی اور جوہری سائنس اہم ترین انسانی کامیابیوں میں سے ایک ہے جو دنیا کی قوموں کے رفاہ و بہبود اور تمام انسانی معاشروں کی ترقی و پیشرفت میں مددگار بن سکتی ہے اور بننا بھی چاہئے۔ ایٹمی سائنسز کا وسیع دائرہ کار، طبی، صنعتی اور توانائی کے شعبوں کی ضرورت کی تکمیل کر سکتا ہے جن میں ہر ایک کی بڑی خاص اہمیت ہے۔ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ معاشی زندگی میں ایٹمی ٹکنالوجی نے بڑا نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے اور وقت گزرنے اور صنعتی، طبی اور توانائی کے شعبے کی ضروریات میں تیز رفتار اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی جائے گی اور اسی تناسب سے ایٹمی توانائی کے حصول اور اس کے استعمال کی کوششیں بھی تیزتر ہوتی جائیں گی۔ مشرق وسطی کی قومیں جو دنیا کی دیگر اقوام کی مانند امن و سلامتی اور پیشرفت و ترقی کی ضرورتمند ہیں، یہ حق رکھتی ہیں کہ اس ٹکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے آئندہ نسلوں کی بہتر پوزیشن اور اقتصادی مقام کو یقینی بنائیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے شہری ایٹمی پروگراموں کے سلسلے میں فضا کو غبار آلود بنانے کا شاید ایک مقصد یہ ہے کہ علاقے کی قوموں کو اپنے اس فطری اور ارزشمند حق کی جانب متوجہ ہونے سے روکا جائے۔

ٹاپ

مقامی ٹکنالوجی

اسلامی جمہوریہ ایران نے دشمنوں کو مایوس کرتے ہوئے ایٹمی ٹکنالوجی حاصل کر لی۔ ایران ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کا رکن تھا اور وہ آئی اے ای اے سے متعلق معاہدے پے دستخط کر چکا تھا جس کی بنا پر یہ طے پایا تھا کہ اس کی مدد کی جائے گی تاہم بااثر صیہونیوں اور امریکا نے پوری دنیا سے کہہ دیا کہ ایران کی کوئی مدد نہ کی جائے۔ ایرانی نوجوانوں اور مفکرین نے اپنی درخشاں و خروشاں صلاحیتوں کے سہارے بغیر کسی باہری مدد کے کچھ برسوں کے اندر رفتہ رفتہ یہ ٹکنالوجی حاصل کر لی۔ ایٹمی اور جوہری ٹکنالوجی ایٹم بم بنانے سے محتلف شئے ہے۔ ایٹمی ٹکنالوجی ایک ایسے سائنسی شعبے میں ترقی سے عبارت ہے جو بے پناہ خصوصیات اور اہمیت کا حامل ہے۔ جو لوگ ایٹم بم بنانے کے در پے ہوتے ہیں وہ اس ٹکنالوجی کی متعلقہ شاخ پر توجہ دیتے ہیں اور اسے حاصل کرتے ہیں۔ ایران ایٹم بم کا خواہشمند نہیں ہے، وہ تو کیمیاوی اسلحے رکھنے کے بھی خلاف ہے۔ حتی اس ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌زمانے میں بھی جب عراق نے ایران پر کیمیاوی بموں سے حملہ کر دیا، ایران نے کیمیاوی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ چیزیں ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے اصولوں سے میل نہیں کھاتیں۔

ٹاپ

غیر صحتمند ایٹمی مقابلہ آرائی

سائنسی لحاظ سے چینیوں نے قابل تعریف ترقی کی ہے لیکن آپ یہ دھیان رکھئے کہ انیس سو اڑتالیس میں جب جدید چین، کمیونسٹ چین کی بنیاد رکھی گئی، ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا لیکن سویت یونین جو آئيڈیالوجی کے لحاظ سے ایک تجربہ کار حکومت اور سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں ترقی کے لحاظ سے بہت مجھی ہوئی حکومت تھی، اس نے اپنے پاس موجود ہر چیز چین کو فراہم کی، وہ زمانہ بھی اسٹالن کا زمانہ تھا۔ چین جیسا ایک عظیم ملک، جس کی اس وقت کی آبادی آج جیسی تو نہیں تھی لیکن پھر بھی یہ وسیع و عریض اور بڑی آبادی والا ملک تھا، ایشیا کے قلب میں اور سویت یونین کے قریب واقع ہونے کے لحاظ سے کمیونسٹ سویت یونین کے لئے بہت اہمیت کا حامل ملک تھا۔ اس (سویت یونین) کے پاس جو کچھ تھا اس نے چینیوں کو فراہم کیا، حتی جوہری ٹکنالوجی بھی دی۔ ہمارے نوجوانوں کا یہ طرہ امتیاز رہا کہ انہوں نے ایٹمی توانائی خود اپنے بلبوتے پر حاصل کی۔ چینیوں کو ایٹمی توانائی روسیوں سے تحفتا حاصل ہو گئی، اسی طرح شمالی کوریا کو بھی (ایٹمی ٹکنالوجی) فراہم کی گئی، چینیوں نے بھی فراہم کی اور روسیوں نے بھی دی۔

تو آپ دیکھئے کہ چین جیسے ممالک نے دوسرے ممالک کی غیر معمولی حمایت و مدد کے ذریعے ترقی کی۔ ہندوستان کا بھی یہی عالم ہے، البتہ کچھ دیگر زاویوں سے۔ جب چین اور روس کے مابین اختلافات پیدا ہو گئے، اسٹالن کے دور کے بعد کئی عشروں تک ان دو بڑے کمیونسٹ ممالک کے درمیان شدید اور گہرے اختلافات رہے، جیسے مغربی اور مشرقی بلاکوں کے اختلافات تھے، یا شاید اس سے بھی زیادہ شدید تھے۔ ان اختلافات کے باعث روس نے چین کے ہمسایہ ملک ہندوستان کی مدد شروع کی، چین نے ہندوستان کے حریف ملک پاکستان کی مدد شروع کر دی! یعنی ان دوستیوں میں سیاسی عوامل کا بڑا عمل دخل رہا۔ اس زمانے میں چینیوں نے پاکستان کو ایٹمی ٹکنالوجی دی اور روسیوں نے ہندوستان کو ایٹمی توانائی اور دوسری بہت سی کامیابیوں کے حصول میں ہندوستان کی مدد کی۔ بنابریں ہندوستان اور پاکستان دونوں کی کامیابیوں میں دوسروں کی مدد شامل ہے۔

ٹاپ

ایٹمی ہنگامہ آرائی کی حقیقت

آج ایٹمی قضیئے میں، جس پر دنیا میں بڑا ہنگامہ مچایا جا رہا ہے، ایران کے سلسلے میں دنیا کا موقف کیا ہے، بالخصوص ایشیائی ممالک، مشرق وسطی کے ممالک اور اسلامی ممالک کا کیا رخ ہے۔ امریکی تو خیر ہمیشہ کی طرح یہی کہہ رہے ہیں کہ دنیا ایران کی یورینیم کی افزودگی سے متعلق سرگرمیوں کی مخالف ہے! جی نہیں آپ کو دنیا کی پہچان ہی نہیں ہے۔ دنیا کی قومیں، حتی ان کی حکومتیں جن کا ایک نمونہ دنیا کے سو سے زائد ناوابستہ ممالک اور او آئی سی کے تقریبا پچاس ممالک ہیں اوراسی طرح دوسری تنظیموں کے ممالک جن کی مجموعی تعداد دنیا کی واضح اکثریت کے برابر ہے، وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ ایٹمی ٹکنالوجی پر دنیا کی مٹھی بھر توسیع پسند اور مغرور طاقتوں کی اجارہ داری ختم ہونی چاہئے، وہ ملت ایران کی اس بات پر تعریف و تحسین کر رہے ہیں کہ وہ اس راستے میں شجاعانہ انداز میں ڈٹی ہوئی ہے۔ ملت ایران نے اپنے پر وقار سفر میں اپنی توانائی، اپنی شادابی، اپنی محنت و مشقت اور اپنے ان افکار و نظریات سے کہ جن کے باعث مغربی دنیا کا خیالی قلعہ زمین بوس ہو گیا ہے اور اس پر سنجیدہ قسم کے سوالیہ نشان لگ گئے ہیں، روز بروز نشو نما کی منزلیں طے کرتی رہے گی، ان میں مزید وسعت و گہرائي پیدا کرے گی اور عالم اسلام اور مسلمان قوموں کو قیمتی روحانی و معنوی تحفہ پیش کرے گی۔ وہ بالآخر سامراجی محاذ کو شکست سے دوچار کر دے گی۔

ٹاپ

ہنگامہ آرائی

سرزمین فلسطین کے غاصب صیہونی اور امریکا کا بر سر اقتدار گروہ کہ اسلامی جمہوری نظام کے خلاف جس کے بغض و کینے کی کوئی انتہا نہیں ہے اور جو اپنے ہدف کے حصول کے لئے ہر مذموم سے مذموم تر راستہ اختیار کرنے پر آمادہ ہے، اس نے دنیا میں ایک ہنگامہ یہ کھڑا کیا کہ ایران ایٹمی ہتھیار کے حصول کے در پے ہے۔ اسی مقصد کے تحت بہت سی حکومتوں اور اور رائے عامہ کو اکسایا گيا۔ اس ہنگامہ آرائی سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس بات پر عالمی اجماع قائم ہو جائے کہ ایران کی سائنسی سرگرمیاں اور ایٹمی ٹکنالوجی دنیا میں عمومی خوف و تشویش کی باعث ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے یہ قبول کیا کہ وہ لوگ ( آئي اے ای اے کے معاینہ کار) آئیں اور یورینیم کی افزودگی کے پورے عمل کو جو ایک معینہ جگہ پر انجام پا رہا ہے دیکھیں۔ وہ لوگ آئے اور انہوں نے دیکھا، انہیں اجازت دے دی گئی تھی کہ اور جہاں کہیں بھی محسوس کریں کہ یورینیم کی افزودگی کا عمل انجام دیا جا رہا ہے، وہاں جائیں اور دیکھیں تاکہ انہیں بھی معلوم ہو جائے کہ صیہونیوں کا پروپیگنڈا سراسر جھوٹ ہے۔ ایٹمی ٹکنالوجی اپنے پاس رکھنے کا یہ ایک پر امن طریقہ ہے۔

ٹاپ

مادی و روحانی طاقت

ہر قوم کو اپنے اعلی اہداف کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ دین و روحانیت کے نقطہ نگاہ سے طاقت و قدرت کی تعریف، مادی نقطہ نظر سے طاقت کی جو تعریف ہے اس سے مختلف ہے۔ مادی نظر طاقت کو وسائل اور ساز و سامان میں تلاش کرتی ہے، ایٹم بم، کیمیاوی ہتھیاروں، حیاتیاتی اسلحوں اور مادی پیشرفت کے دیگر گوناگوں وسائل میں ڈھونڈھتی ہے۔ لیکن ساری طاقت یہی نہیں ہوتی۔ طاقت و قدرت کا بنیادی اور بڑا حصہ تو خود ان انسانوں کے وجود کے اندر پنہاں ہوتا ہے جو ان وسائل کے استعمال کرنے والے ہیں۔ جب کوئی گروہ راہ حق پر گامزن ہے، حق کے لئے اور اعلی و ارفع اہداف و اقدار کے لئے سعی و کوشش میں مصروف اور اس سعی و کوشش میں اپنے پورے وجود، اپنی تمام تر توانائی اور جملہ وسائل کو بروئے کار لانے پر کمربستہ ہے تو حقیقی طاقت اس کے پاس ہوگی۔ جو گروہ حق کے لئے اور برحق اقدار کے لئے محنت و مشقت کر رہا ہے وہ کبھی بھی طاقت کا بہیمانہ استعمال نہیں کر سکتا، ظلم نہیں کر سکتا، سامراجی حرکتیں انجام نہیں دے سکتا، انسانوں کی توہین و تحقیر نہیں کر سکتا، دوسرے کی سرزمین اور علاقے پر جارحیت اور تجاوز نہیں کر سکتا، قوموں کے وسائل اور منفعت ان سے چھین کر اپنے قبضے میں نہیں کر سکتا۔ یہ روحانی طاقت کا خاصہ ہے۔ مادی طاقتوں کو تو اخلاقیات کی کوئی شد بد ہے ہی نہیں، انہیں اس کی کوئی خبر ہی نہیں ہے۔ مادی طاقتیں حق اور برحق اقدار کے لئے کام نہیں کرتیں۔ مادی قدرت رکھنے والے تو جنگل کے قانون کے عادی ہوتے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس مادی طاقت ہوتی ہے لہذا وہ اپنی مرضی کو ہی حق سمجھتے ہیں جبکہ یہ سراسر غلط ہے، یہ غلط سوچ ہے۔

ٹاپ

عام تباہی کے ہتھیاروں کی نابودی کی ضرورت

جب سے ہیروشیما اور ناگاساکی میں ریاستہائے متحدہ کی حکومت کے ہاتھوں ایٹمی بم دھماکوں سے تاریخ کا بے مثال انسانی المیہ رونما ہوا اور بشریت کی سلامتی بہت بڑے خطرے سے دوچار ہو گئی اسی وقت سے ان ہتھیاروں کی نابودی کی ضرورت پر عالمی برادری کا حتمی اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال نہ فقط یہ کہ وسیع ترین قتل عام اور تباہی پر منتج ہوا بلکہ اس نے لوگوں کے درمیان، فوجی اور غیر فوجی کے درمیان، چھوٹے اور بڑے کے درمیان، مرد و زن کے درمیان اور بچوں اور بوڑھوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا اور اس سیاسی اور جغرافیائی سرحد میں انسانیت سوز اثرات پھیل گئے۔ حتی بعد کی نسلوں کو بھی ناقابل تلافی خسارہ ہوا۔ بنابریں ان ہتھیاروں کا کسی بھی طرح کا استعمال حتی انہیں استعمال کرنے کی دھمکی مسلمہ اور بدیہی ترین انسان دوستانہ اصولوں کی خلاف ورزی اور جنگی جرائم کا واضح مصداق ہے۔

ٹاپ

عالمی امن کو لاحق خطرہ

چند طاقتوں کی ان غیر انسانی ہتھیاروں تک رسائی ہو جانے کے بعد فوجی اور سلامتی کے لحاظ سے بھی اب کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ ایٹمی جنگ میں فتح ناممکن اور ایسی جنگ میں پڑنا غیر عقلی اور غیر انسانی عمل ہے۔ تاہم اخلاقی، عقلی، انسانی اور حتی فوجی لحاظ سے ان بدیہی باتوں کے باوجود معدودے چند حکومتوں نے جو سب کو بد امنی سے دوچار کرکے اپنی سلامتی و تحفظ کو یقینی بنانا چاہتی ہیں ان ہتھیاروں کی نابودی کے عالمی برادری کے مکرر مطالبات کو نظر انداز کیا ہے۔

ان ہتھیاروں کی نگہداشت، ان میں اضافے اور ان کی تخریبی توانائی بڑھانے پر بعض حکومتوں کا اصرار، کہ جس سے خوف و ہراس پھیلانے، قتل عام اور یقینی عمومی نابودی سے پیدا ہونے والی دفاعی طاقت پر مبنی جھوٹے احساس تحفظ کے علاوہ کوئی اور نتیجہ حاصل ہونے والا نہیں ہے، دنیا میں ایٹمی دہشت کے تسلسل پر منتج ہوا ہے۔ بے شمار اقتصادی اور انسانی وسائل کو غیر منطقی رقابت پر صرف کر دیا گيا تاکہ بڑی طاقتوں کو یہ خیالی توانائي آسودگی ہو کہ وہ اپنے حریفوں، کرہ ارض کے دیگر باشندوں اور ساتھ ہی اپنے آپ کو دس ہزار بار نابود کر سکتی ہیں۔ بلا وجہ نہیں ہے کہ یقینی باہمی نابودی پر استوار اس دفاعی اسٹریٹیجی کو دیوانگی کا نام دیا گيا ہے۔ (MAD=Mutual assured destruction)

حالیہ برسوں میں بعض ایٹمی حکومتیں دیگر ایٹمی طاقتوں کے مقابلے میں یقینی باہمی نابودی پر مبنی دفاعی اسٹریٹیجی سے بھی آگے بڑھ گئی ہیں اور ان حکومتوں کی ایٹمی اسٹریٹیجی میں ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی حلاف ورزی کرنے والوں سے لاحق عام خطرات کے مقابلے میں بھی ایٹمی انتخاب کی حفاظت پر زور دیا گيا ہے جبکہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والی وہ طاقتیں ہین جو ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی چھٹی شق کی رو سے عائد ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے کے علاوہ ان ہتھیاروں کے پھیلاؤ میں سب سے آگے رہی ہیں اور صیہونی حکومت کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرنے میں مدد کرکے اور اس حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کے ذریعے (این پی ٹی) معاہدے کی پہلی شق پر مبنی اپنے فرائض کے بر خلاف ان ہتھیاروں کے حقیقی پھیلاؤ میں براہ راست کردار ادا کرتی رہی ہیں اور انہوں نے مشرق وسطی کے علاقے اور دنیا کو ایک سنگين خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ ان حکومتوں میں ریاستہائے متحدہ امریکا کی جارح اور تسلط پسند حکومت سب سے پیش پیش ہے۔

ٹاپ

سامراجی دباؤ کے مقابلے میں ایران کا منطقی موقف

امریکیوں کو پتہ ہونا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران جنگ پسند نہیں ہے۔ اسلامی نظام اپنے بنیادی اصولوں کی بنا پر جنگ پسندی کا مخالف ہے۔ ایران کسی بھی جنگ کا استقبال نہیں کرتا، یہ بات سب جان لیں۔ یہ ایران کے اسلامی نظام کے تمام عہدہ داروں کا متفقہ اور مسلمہ موقف ہے، وہ ہر قسم کی جنگ سے اجتناب کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ اسلامی اصولوں کا تقاضا یہ ہے کہ ایران دوستی و محبت اور امن و سلامتی کے پیغام کا حامل ہو کیونکہ ملت ایران کے پاس کہنے کے لئے اپنی ایک بات ہے۔ جس کے پاس اپنی کوئی بات نہ ہو وہ چاہتا ہے کہ شور شرابا رہے کہ کان پڑی آواز سنائي نہ دے اور کسی کو پتہ نہ چل سکے کہ اس نے کیا بات کہی ہے۔ جو طاقت کی زبان استعمال کرنے کا عادی ہے وہ چاہتا ہے کہ ہنگامہ کھڑا رہے لیکن جس کے پاس بیان کرنے کے لئے اپنی منطقی بات ہے وہ چاہے گا کہ سکوت ہو اور فضا پرسکون ہو تاکہ لوگ اس کی منطقی بات سن سکیں۔

سامراجی اور سرمایہ دارانہ خیمہ اپنی تمام تر سیاسی طاقت، اپنی پوری معاشی و اقتصادی توانائی اور اپنے جملہ تشہیراتی چینلوں کی مدد سے ملت ایران کو پسپائی اختیار کرنے اور سر تسلیم خم کر دینے پر مجبور کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے، صرف ایٹمی حقوق کے سلسلے میں نہیں، ایٹمی حقوق تو ملت ایران کے حقوق کا ایک حصہ ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ملت ایران کو پروقار زندگی کے حق، اس کی خود مختاری کے حق، اپنے فیصلے خود کرنے کے حق اور علمی ترقی کے حق سے دست بردار ہونے پر مجبور کر دیں۔ اس وقت ملت ایران سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کی راہ پر رواں دواں اور دو صدیوں پر محیط طاغوتی (شاہی) دور کی پسماندگی کی تلافی کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ یہ (طاقتیں) سراسیمہ ہو گئی ہیں۔ انہیں برداشت نہیں ہے کہ ملت ایران جو دنیا کے انتہائی حساس علاقے میں واقع ہے اور جس نے اسلام کے علمبردار کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کر لی ہے، یہ کامیابیاں حاصل کرے، یہی وجہ ہے کہ اس پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ لیکن ملت ایران بھی ڈٹی ہوئی ہے۔ امریکیوں کو تجربہ ہو چکا ہے، وہ سمجھ چکے ہیں کہ ساز و سامان، ایٹم بم اور دیگر چیزیں قوموں اور ان کے ارادوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بالکل بے فائدہ ہیں۔ وہ حکومتوں کو ڈرا سکتے ہیں، فوجوں کو ڈرا سکتے ہیں لیکن قوموں کو ڈرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ٹاپ

قوموں کی خواہش

ملت ایران کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ یہی نعرہ جو ملک کے ہر گوشے میں ایٹمی انرجی کے تعلق سے گونجتا رہتا ہے کہ انر‍ژی ھستہ ای حق مسلم ماست ( ایٹمی انرجی ہمارا مسلمہ حق ہے) یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ بہت سی قوموں کو نہ یہ معلوم ہے کہ ایٹمی انرجی کیا شئے ہے اور نہ یہ پتہ ہے کہ یہ ان کا مسلمہ حق ہے اور اگر انہیں معلوم بھی ہو جائے تب بھی وہ اس سلسلے میں ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتیں۔ لیکن ملت ایران کو یہ بھی علم ہے کہ ایٹمی انرجی عصر حاضر میں سائنسی ترقی کے میدان میں ایک معیار کا درجہ رکھتی ہے، اگر کسی قوم کے پاس یہ موجود نہ ہو تو اس کی شکست یقینی ہے، ملت ایران یہ بھی جانتی ہے کہ یہ (ایٹمی انرجی) اس کا مسلمہ حق ہے، وہ اس کے لئے نعرے لگاتی ہے اور دل گی گہرائیوں سے اپنے حکام سے اس کا مطالبہ کر رہی ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کا ملک دوسروں کی نظر عنایت کے بغیر بھی، دوسروں کی جانب دست نیاز دراز کئے بغیر بھی اپنے اس مسلمہ حق کو حاصل کر لینے پر قادر ہے اور اسے لے سکتا ہے۔ یہ بڑی اہم چیز ہے۔ یہ عالم ہے ملت ایران کے جوش و خروش اور امید و نشاط کا۔

آج دنیا کی قوموں کی نگاہیں ملت ایران پر ٹکی ہوئی ہیں، انہیں ملت ایران سے حوصلہ ملتا ہے، جذبہ ملتا ہے، طاقت ملتی ہے۔ ملت ایران کے سامراج مخالف نعرے آج پورے عالم اسلام میں پھیل چکے ہیں۔ آج دنیا کے ہر اسلامی ملک میں، خواہ وہاں کیسی بھی حکومت قائم ہو، عوام ملت ایران کے نعروں، جذبوں اور معینہ اعلی اہداف کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ظلم کی مخالفت، تسلط پسندی کی مخالفت، مظلوموں کی مدد و اعانت، ملت فلسطین کے دفاع اور صیہونزم کے سرطانی نیٹ ورک سے دشمنی کے نعرے (اسلامی ممالک میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں)

یہ ہے مسلمان قوموں کی دلی حالت۔ یہ ہے اسلامی انقلاب کا پھیلاؤ۔ ملت ایران کا یہی ایٹمی انرجی سے متعلق نعرہ، یہ جو ایرانی قوم دشمن کے شدید دباؤ کے سامنے زبردست استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حق کا مطالبہ کرتی ہے، آج عالم اسلام میں اس انداز سے پھیل گیا ہے کہ اسلامی اور عرب ممالک کے ترجمان بیان کرتے ہیں کہ ایٹمی انرجی عرب قوموں کا عمومی مطالبہ بن چکی ہے۔

ٹاپ

حق تلفی

اس خطے میں امریکا کی جانب سے کی جانے والی حق تلفی کی مثالیں ایک دو نہیں ہیں۔ ایران کے سلسلے میں، اسی ایٹمی مسئلے کے سلسلے میں، یہی مسئلہ جو چند سال سے جاری ہے، کس قدر حقائق پر پردے ڈالے گئے ہیں، کس قدر غلط بیانیاں کی گئي ہیں، کتنی دروغگوئی ہوئي ہے۔ ایک ایسی قوم کے مطالبے کو دبانے کی کتنی کوششیں کی گئیں جو اپنا فطری اور قانونی حق چاہ رہی ہے۔ ملت ایران کا کہنا ہے کہ ہم ایٹمی صنعت تک دسترسی چاہتے ہیں، ہم زندگی کے متعدد شعبوں میں ایٹمی انرجی کا پر امن استعمال کرنا چاہتے ہیں، جوابا کہا جاتا ہے کہ نہیں ملت ایران ایٹم بم بنانا چاہتی ہے! وہ دروغگوئی کیوں کرتے ہیں؟ کیوں اپنی ان باتوں سے وہ ملت ایران کے دلوں میں گہری نفرتیں ڈال رہے ہیں؟ ایرانی قوم اور حکام نے بارہا اعلان کیا ہے کہ ہم ایٹمی ہتھیار کے خواہاں نہیں ہیں، ہماری اسحلہ جاتی ضروریات میں اس کی کہیں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہم ان ہتھیاروں کے استعمال کو حرام اور اس مصیبت عظمی سے بنی آدم کی حفاظت کے لئے کوششوں اور اقدامات کو عمومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے خیال میں ایٹمی ہتھیاروں کے علاوہ دوسرے عام تباہی کے ہتھیار بھی جیسے کیامیاوی ہتھیار اور حیاتیاتی ہتھیار انسانیت کے لئے سنجیدہ خطرات شمار ہوتے ہیں۔ ملت ایران جو خود کیمیاوی ہتھیاروں کی قربانی بن چکی ہے اس قبیل کے ہتھیاروں کی پیداوار اور نگہداشت کے خطرات کو دوسری قوموں سے زیادہ بہتر طریقے سے محسوس کر سکتی ہے، وہ ان (ہتھیاروں) کے مقابلے کے لئے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لانے پر آمادہ ہے۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ دنیا کا واحد ایٹمی مجرم اس وقت دروغ گوئی کرتے ہوئے خود کو ایٹمی اسلحے کے پھیلاؤ کی روک تھام کرنے والے کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے جبکہ اس نے اس سلسلے میں یقینا کوئي بھی سنجیدہ اقدام نہیں کیا ہے اور ہرگز کرے گا بھی نہیں۔ ایٹمی اسلحے کی روک تھام کا امریکا کا دعوی اگر غلط نہ ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ صیہونی حکومت متعلقہ عالمی قوانین بالخصوص ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) سے خود کو الگ رکھتے ہوئے مقبوضہ فلسطینی سرزمین کو ایک ایسے اسلحہ خانے میں تبدیل کر پاتی جس میں ایٹمی ہتھیاروں کا پورا ذخیرہ موجود ہو؟

ٹاپ

ایران کی ایٹمی ہتھیاروں سے بے نیازی

ایٹمی ٹکنالوجی اور ایٹمی ہتھیاروں کے درمیان ایک طرح کا خلط ملط دیکھنے میں آتا ہے۔ حقیقت حال اس سے الگ ہے۔ ان دونوں چیزوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ایٹمی ہتھیار کی ساخت کا دار و مدار نوے فیصدی سے زیادہ افزودہ یورینیم اور انتہائی پیچیدہ ٹکنالوجی پر ہے، وہی اس کی جانب قدم بڑھائے گا جس کے اندر اس کی شدید خواہش اور اس کا مصمم ارادہ ہوگا۔ ایران کے اسلامی نظام میں اس کی خواہش نہیں ہے اور وہ اس کی سمت گيا ہے اور نہ جائے گا۔ ایران کو ایٹم بم کی کوئي ضرورت نہیں ہے۔ آج تک دشمن پر جو غلبہ اس نے حاصل کیا ہے وہ ایٹم بم کے ذریعے نہیں کیا ہے۔ ملت ایران نے برسوں قبل امریکا کو شکست دی، کیا ایسا نہیں ہے؟! ایران نے امریکا کو ایٹم بم کے ذریعے شکست دی یا اپنے عزم و ارادے اور ایمان و آگاہی اور اتحاد و یکجہتی کے ذریعے؟ ایران کی نظروں میں پوری طرح واضح ہے کہ اسے کیا چاہئے اور کس چیز کی سمت بڑھنا چاہئے، اس نے راستے کی شناخت بھی حاصل کر لی اور پیش قدمی کا بھی آغاز کر دیا، وہ ان کے اور ان کے ٹینکوں اور توپوں سے بھی نہیں ڈرا، ایران نے اس طرح غلبہ حاصل کیا ہے، ایٹم بم کے ذریعے تو اس نے غلبہ حاصل کیا نہیں۔ سابق سویت یونین کے پاس کیا ایٹم بم نہیں تھا؟ سابق سویت یونین کے جوہری بموں کی تعداد شائد امریکا کے ایٹم بموں کی تعداد سے زیادہ رہی ہو، کیا وہ شکست سے بچ گيا؟! دنیا کے فیصلہ کن میدانوں میں شکست و فتح کا دارومدار ان چیزوں پر نہیں ہے۔

ایران کے اسلامی جمہوری نظام نے آج عالم اسلام کے سامنے ایک آئیڈیل اور نمونہ پیش کر دیا ہے۔ دینی جمہوریت کا نمونہ، قومی وقار و خود مختاری کا نمونہ۔ آج قومیں امریکا مردہ باد کے نعرے لگا رہی ہیں۔ امریکا مردہ باد کا نعرہ کون لگاتا تھا؟ اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران کے علاوہ کون یہ نعرہ لگاتا تھا؟ آج سب کی زبانوں پر یہ نعرہ ہے۔ اسلامی مملکت ایران نے یہ کامیابی ایٹم بم کے ذریعے حاصل نہیں کی۔ عظیم، تاریخی اور دائمی میدانوں میں ان ہتھیاروں سے فتح حاصل نہیں ہوتی۔ آج صیہونی حکومت کے پاس کیا ایٹم بم نہیں ہیں؟ بتایا جاتا ہے کہ صیہونی حکومت کے پاس دو سو یا تین سو سے زائد ایٹمی وارہیڈ موجود ہیں۔ لیکن کتنے سال ہو گئے کہ صیہونی حکومت ایسے افراد کے سامنے جن کے پاس بندوقیں نہیں صرف پتھر ہیں، البتہ ایسے پتھر جن کے ساتھ عزم و ارادہ ہے، جذبہ ایمانی ہے، بے بس و لاچار ہوکر رہ گئی ہے۔ تو ایران کا مسئلہ ایٹم بم کا مسئلہ نہیں ہے، ایران کو ایٹم بم کی کیا ضرورت ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ جب ایٹم بم استعمال کیا جاتا ہے تو صرف دشمن ہی ہلاک نہیں ہوتے، وہ جانیں بھی تلف ہو جاتی ہیں جو دشمن نہیں ہیں اور یہ چیز اسلامی اصولوں کے منافی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کی راہ و روش کے برخلاف ہے۔ ایٹم بم تو اچھے برے سب کو نابود کر دیتا ہے، خشک و تر سب کو خاکستر میں تبدیل کر دیتا ہے، یہ کام اسلامی جمہوریہ ہرگز نہیں کر سکتا۔ اسلامی نظام کے پاس ایسی چیز ہے جس کا بیرونی حملے، بموں اور اس جیسی دیگر چیزوں سے کچھ بھی نہیں بگاڑا جا سکتا بلکہ اس کے استحکام و ثبات میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے، وہ چیز ہے قوم اور عوام۔

ٹاپ