قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گزشتہ سال فلسطینی تنظیموں کے نمائندوں سے اپنی ملاقات میں علاقے اور مسئلہ فلسطین سے متعلق تغیرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے جو حقائق مقدر کر دئے ہیں ان کی بنیاد پر نیا مشرق وسطی معرض وجود میں آئے گا اور یہ مشرق وسطی اسلام کا مشرق وسطی ہوگا۔
مصر میں رونما ہونے والے واقعات کو دیکھتے ہیں ہوئے ہم قائد انقلاب اسلامی کے خطابات کی روشنی میں اسلامی ممالک کے تغیرات کا جائزہ لینے کے لئے یہ خصوصی مضمون پیش کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ہم نے قائد انقلاب کی تقاریر کی روشنی میں اسلامی تحریکوں اور اسلامی بیداری کے بارے میں چند نکات بیان کئے اور اس خصوصی مضمون کے زیر نظر حصے میں ہم اسلامی تحریکوں کے خلاف استکبار کے حربوں کی نشاندہی کریں گے۔

 

قرآن و اسلام کا خاصہ
امریکا اسلام کا خواہ وہ سرکاری سطح پر نہ بھی ہو مخالف ہے، وہ سعودی عرب اور مصر میں جس سطح پر اسلام ہے اس کا بھی مخالف ہے۔ اگر ان جگہوں پر امریکی اپنے مقاصد کی تکمیل میں کامیاب ہو جائیں تو واضح ہوگا کہ ان ملکوں کے سلسلےمیں ان کا حقیقی موقف کیا ہے؟ مجھے اطلاع ملی ہے کہ ایک امریکی اہلکار نے ایک بڑے اسلامی ملک کے ایک وزیر سے کہا تھا کہ آپ اپنی درسی کتب میں جہاد اور دین کی باتیں کم کریں۔ آپ نصاب کی کتابوں میں یہ باتیں کیوں شامل کرتے ہیں؟ تو قضیہ یہ ہے۔ یہ لوگ خود اسلام، اسلامی افکار اور اس طرز فکر سے ناراض اور چراغ پا ہیں جو انسان کو یہ سکھائے کہ کسی بھی مادی طاقت سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ اور یہ (تعلیم) اسلام اور قرآن کا خاصہ ہے۔

ملک کے عہدہ داروں اور ملازمین سے خطاب کا اقتباس 27/12/1380 ہجری شمسی مطابق 18/3/2002

یہ پٹھو ممالک بھی درد سر ہیں
مشرق وسطی میں جو شاہی حکومتیں ہیں وہ بھی امریکیوں کو پسند نہیں ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ حکومتیں ان کے لئے درد سر ہیں۔ اس حقیقت پر اسلامی اور عرب حکومتوں کو توجہ دینا چاہئے۔ امریکا کے پاس مصر کے لئے منصوبہ ہے اور سعودی عرب کے لئے بھی اس نے منصوبہ تیار کر رکھا ہے، اردن کے لئے بھی اس کے پاس منصوبہ ہے اور خلیج فارس کے ان ممالک کے لئے بھی اس کے پاس منصوبہ ہے۔ اس کے منصوبے صرف لبنان، فلسطین اور عراق کے لئے نہیں ہیں کہ دوسرے عرب ممالک آرام سے بیٹھ کر دیکھیں اور امریکا بخیال خود شام اور لبنان کی خبر لے، آگے چل کر ان کی بھی باری آنے والی ہے۔ البتہ امریکا کی خواہشات اور زمینی حقائق کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ اس وقت امریکا میں جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ بد مست انسانوں کی طرح فیصلے کرتے ہیں، انہیں کچھ نہیں معلوم کہ کیا کر رہے ہیں؟ دنیا کے حقائق سے یہ بہت دور ہیں، ان کا فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ امریکا کے اہم اور نمایاں سیاسی تجزیہ نگار بھی یہی بات کہہ اور لکھ رہے ہیں۔ ان کی انٹرنیٹ سائٹیں اور ان کے اخبارات و جرائد ان باتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ (حکمراں) امریکا کو زوال اور سقوط کی جانب لے جا رہے ہیں۔ حقیقت امر بھی یہی ہے۔ امریکا میں ان کا وجود شاید انتقام خداوندی ہے۔ بہرحال انہوں نے یہ منصوبے بنا رکھے ہیں۔

عہدہ داروں اور ملازمین سے خطاب کا اقتباس 8/8/1384 مطابق ہجری شمسی 30/10/2005
 

سامراج کے پیشگی اقدامات
امریکی جانتے ہیں کہ عالم اسلام میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ وہ اسلامی بیداری کو اسلامی انقلابی تحریکوں میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لئے پیشگی اقدامات کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جو بات قوموں کا حتمی مقدر بن چکی ہے اسے اپنے پیشگی اقدامات اور حرکتوں کے ذریعے مو‍خر کر دیں۔ حال ہی میں امریکیوں نے اعتراف کیا ہے کہ اگر انہوں نے عراق پر حملہ نہ کیا ہوتا تو صدام کی حکومت بہت جلد ہی عراق کے با ایمان و مسلمان افراد کے ہاتھوں سرنگوں کر دی جاتی اور حالات ان کے ہاتھ میں نہ رہتے۔ وہ اس سے خوفزدہ ہیں۔ ان کے اقدامات عالم اسلام میں پیدا ہونے والی اسلامی بیداری کے نتائج سے ان کے گہرے خوف اور ہراس کے باعث انجام پا رہے ہیں۔ اس علاقے میں آج امریکی جو اقدامات کر رہے ہیں وہ ان کی طاقت و قدرت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اسلامی خیمے کی، اسلامی قیام کی اور اسلامی بیداری کی قوت و طاقت سے ان کے خوف و ہراس کا شاخسانہ ہے۔

14/3/84 ہجری شمسی مطابق 4/6/2005عیسوی

انسانی وقار سے بے اعتنائی
تمہارا نظام نفرت، ظلم اور انسانی وقار سے بے اعتنائی کا نظام ہے۔ تم کیوں عراق میں داخل ہوئے؟ تم نے کیوں ایک آزاد ملک کو اپنے فوجیوں کے بوٹوں تلے روند کر رکھ دیا؟ تم نے کیوں عراقی عوام کے وقار و احترام کو نظر انداز کیا؟ اب اقتدار کی منتقلی کے منصوبے کی بات کر رہے ہیں لیکن اس طرح کہ فی الواقع اقتدار امریکا کے اختیار میں رہے۔ عراقی سیاستداں اور شخصیات یاد رکھیں کہ جو بھی طاقت عراق میں برسر اقتدار آئے گی اور امریکیوں کی پٹھو حکومت تصور کی جائےگی عراقی عوام کی نظروں میں وہ حکومت بھی امریکیوں جتنی ہی نفرت انگیز قرار پائے گی۔ عراقی عوام برداشت نہیں کریں گے کہ صدام کے جانے کے بعد اس ملک میں امریکا یا اس کے مہروں کا تسلط قائم ہو۔ اقتدار کی منتقلی کی یہی صورت ہے کہ عوام کو اختیار دیا جائے اور انتخابات کرائے جائيں، عوام انتخاب کریں۔ یہ نہیں کہ کوئی آئے اور امریکیوں کی مرضی کا منصوبہ عراقی سیاستدانوں کو سمجھا دے اور یہ سیاستداں اسی امریکی منصوبے کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں۔

27/2/83 ہجری شمسی مطابق 16/5/2004 عیسوی