بسم‌ اللّہ ‌الرّحمن ‌الرّحیم

و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیۃ اللّہ فی الارضین

میں آپ سبھی کو خوش آمدید کہتا ہوں، مجھے بڑی خوشی ہے، خدا کا شکر گزار ہوں کہ ایک بار پھر یہ توفیق حاصل ہوئی کہ ایک ایسے اہم دن میں، جو یقینی طور پر اللہ سے منسوب ایام میں سے ایک ہے، یہاں آپ عزیز، زحمت کش اور پیش قدم رہنے والے بھائيوں کی زیارت کر سکوں۔

19 بہمن مطابق 8 فروری 1979 کا واقعہ اسلامی انقلاب کا ایک معجزہ

19 بہمن سنہ 1357 (ہجری شمسی مطابق 8 فروری 1979) کا واقعہ، اسلامی انقلاب کے حیرت انگيز واقعات میں سے ایک ہے اور ایسے حیرت انگیز واقعات ایک دو یا سو نہیں بلکہ ہزاروں ہیں جو ان برسوں کے دوران دیکھے گئے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا اور سب سے اہم واقعہ، 8 فروری کا ہے۔ یہ بڑا اہم واقعہ تھا کہ فوج کے ایک اہم حصے نے، جو طاغوتی فوج کا حصہ تھا، اپنے آپ کو فوج سے الگ کر لیا اور امام خمینی کی پیروی اور عوام کے ساتھ شمولیت کے اعلان کے لیے سامنے آ گیا۔ یہ واقعہ اس بات کا باعث بنا کہ پوری کی پوری فوج کو اسلامی جمہوریہ سے جڑنے کی ترغیب ملے۔ اس وقت کے فوج کے سربراہوں نے بھی جب حقیقت کو دیکھ لیا تو وہ انقلاب کے سلسلے میں غیر جانبداری کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جبکہ ان کی غیر جانبداری کا کوئي مطلب نہیں تھا، طاغوتی نظام کی فوج، طاغوتی نظام کے دفاع میں کس طرح غیر جانبدار رہ سکتی ہے؟ لیکن فوج کے سربراہوں نے غیر جانبداری کا اعلان کیا کیونکہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ پوری فوج عوام سے جڑ گئي ہے، تقریبا پوری کی پوری۔ یہ بات ایک معجزے کی طرح تھی، واقعی ایک معجزاتی کام تھا۔ طاغوتی حکومت کا اصل بھروسہ فوج اور ساواک پر تھا کیونکہ عوام سے تو اس کا کوئي رابطہ ہی نہیں تھا، عوام پر تو بھروسہ تھا ہی نہیں، ملک کے اندر اس کا اصل سہارا فوج اور ساواک تھی جبکہ ملک کے باہر امریکا۔ شیطانوں کا یہی سہارا اور ان کی امیدوں کا یہی مرکز، شیطانوں کو دھول چٹانے کا ایک اہم ذریعہ بن گیا تھا، تو یہ ایک معجزہ ہی ہے۔ مطلب یہ کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کا ایک طاقتور عامل، فوج کا عوام سے جا کر مل جانا تھا، اگر یہ نہیں ہوتا اور عوام اور فوج کے درمیان ٹکراؤ ہو جاتا تو اس کے بھیانک نتیجے سامنے آتے۔ عوام میں فوج کی شمولیت، جس میں ہراول دستے کا کردار فضائيہ نے ادا کیا، اس بات کا سبب بنی کہ انقلاب، ان سخت اور دشوار مسائل اور ان مشکلات کے بغیر کامیاب ہو جائے کہ جن کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا۔

انقلاب کے آغاز میں امریکی بغاوت کی ناکامی

البتہ امریکی آخری لمحے تک فوج کی جانب سے پرامید تھے، ان کا خیال تھا کہ فوج عوام کے سامنے کھڑی ہو سکتی ہے اور اس کے لیے انھوں نے پلاننگ کی تھی، یہ بات آپ نے شاید بعض مآخذ میں دیکھی ہو لیکن یہ بات ایک دم صحیح اور مسلمہ ہے، انھوں نے ایک بغاوت کی منصوبہ بندی کی تھی جو بہمن کے مہینے میں ہونے والی تھی، اس بغاوت کے تحت انقلاب کے رہنماؤں اور پیش پیش رہنے والوں کو گرفتار کیا جانا تھا، عوام کے ساتھ اٹھائیس مرداد (اٹھارہ اگست) کے واقعے سے دسیوں گنا زیادہ تشدد کے ساتھ پیش آنا تھا اور ان تمام رکاوٹوں کو انسانی رکاوٹوں کو جو اس کے سامنے تھیں، ختم کر دینا تھا، یہ امریکا کا پلان تھا۔ بدنام زمانہ جنرل ہایزر نے، جو اس زمانے میں نیٹو میں امریکا کے گماشتوں میں نمایاں ترین افراد میں سے ایک تھا اور برابر ایران آیا جایا کرتا تھا، اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ جنرل براؤن، جو اس وقت کی ڈیموکریٹ حکومت میں امریکا کے وزیر دفاع تھے، اس وقت بھی اتفاق سے امریکا میں برسر اقتدار حکومت ڈیموکریٹک پارٹی کی تھی، تو اس کے وزیر دفاع جنرل براؤن نے اسی ہایزر کو اس بات کی اجازت دے رکھی تھی کہ شاہ کی حکومت کو گرنے سے روکیں، چاہے اس کے لیے دسیوں ہزار لوگوں کا خون بہانا پڑے، تو اس طرح کی بغاوت ہونے والی تھی۔ اس شیطانی سازش کو جن چیزوں نے نقش بر آب کر دیا ان میں سے ایک، فضائیہ کا یہ قدم تھا۔ شاید خود ان نوجوانوں کے ذہن میں، جنھوں نے آ کر امام خمینی سے بیعت کی تھی اور میں خود قریب سے اس کا شاہد تھا اور میں نے انھیں دیکھا تھا، اس بات کا اندازہ بھی نہیں تھا کہ ان کے کام کی اتنی زیادہ اہمیت ہے۔

ملک، عوام اور فوج کی صورت حال کے بارے میں امریکہ سے اندازے کی غلطی ہوئی

اس معاملے میں ایک نکتہ جو قابل غور ہے اور ہمارے لیے سبق آموز بھی ہے، زمانہ حال کے لیے بھی، ہمارے کل کے لیے بھی سبق آموز ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی صورتحال کے بارے میں، فوج کے بارے میں اور عوام کے بارے میں امریکیوں نے اندازے کی بڑی غلطی کی۔ یہ بڑا اہم نکتہ ہے۔ ان سے اندازے کی غلطی ہوئي، یعنی انھوں نے فوج سے جو امید لگا رکھی تھی وہ اسی اندازے کی غلطی کا نتیجہ تھا، وہ بھونچکے رہ گئے، اندازے کی اسی غلطی کی وجہ سے وہ بھونچکے رہ گئے۔ اس واقعے کے برسوں بعد جو دستاویزات جاری ہوئے ان میں انھوں نے اعتراف کیا کہ فروری انیس سو اناسی سے کچھ پہلے تک انھیں شاہ اور پہلوی حکومت کے زوال کا بالکل اندازہ نہیں تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پنٹاگون 11 فروری سے پہلے تک یہ اعلان کر رہا تھا کہ شاہ کی حکومت کا گرنا ناممکن ہے، مطلب یہ کہ یہ لوگ اس قدر غلط فہمی میں تھے،  اندازے کی اتنی شدید غلطی کر رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے کہ فوج کا پورا کنٹرول ہے اور اس بات کا  کوئی امکان نہیں ہے کہ شاہ کی حکومت گر جائے۔ البتہ امریکیوں کے لیے ایران کی فوج، خود شاہ سے بھی زیادہ اہم تھی، وہ کہتے تھے کہ شاہ ایک آدمی ہے، مر جائے، چلا جائے، آ جائے، ہم کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ بٹھا دیں۔ لیکن فوج، فوج کا ادارہ ان کے لیے بہت اہم تھا، اس سے انھوں نے بڑی امید لگا رکھی تھی۔ مگر یہی فوج جو امریکیوں کے لیے اتنی زیادہ اہم تھی، جس پر انھوں نے کافی کام کیا تھا اور ان دنوں ایران میں امریکا کے چالیس ہزار مشیر ایرانی فوج میں موجود تھے، وہی فوج طاغوتی حکومت کی شکست کا سبب بن گئي اور ایران کے تعلق سے امریکا کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے: فاتاھم اللہ من حیث لم یحتسبوا (2) انھیں اس جگہ سے چوٹ پہنچی، اس جگہ سے انھوں نے طمانچہ کھایا، جس جگہ کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

2009 کے فتنے اور ایٹمی ڈیل کے معاملے میں بھی امریکہ کی اندازے کی غلطی جاری رہی

البتہ اندازے کی ان کی غلطی اب بھی جاری ہے یعنی آج تک امریکی، ایران کے مسائل کے سلسلے میں اندازے کی غلطیاں کر رہے ہیں اور واقعی سیاسی تخمینوں کا ان کا نظام کام نہیں کر رہی ہے، وہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں، وہ ہمارے مسائل اور ہماری قوم کے مسائل کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں، وہ ایرانی قوم کو اب تک پہچان نہیں پائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لگاتار اور پے در پے غلطیاں کر رہے ہیں۔ سنہ 2009 کے فتنے میں امریکیوں نے غلطی کی، اس وقت کے امریکا کے ڈیموکریٹ صدر (3) نے باضابطہ طور پر فتنے کی حمایت کی تھی اور یہ سوچ کر اس کا دفاع کیا تھا اس سے سب کچھ ختم ہو جائے گا، یہ اندازے کی غلطی تھی۔

پابندیوں کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے، یہ سخت پابندیاں اور دوسرے الفاظ میں عدیم المثال اور ہمہ گیر پابندیاں، جن کے بارے میں وہ خود کہتے تھے کہ پوری تاریخ میں ایسی پابندیوں کی مثال نہیں ہے، وہ صحیح کہہ رہے تھے، ان کاخیال تھا کہ یہ پابندیاں ایران کو اکھاڑ دیں گی، لیکن ان کے اندازے غلط تھے، اندازے کی غلطی تھی، انھوں نے بے جا آس لگا رکھی تھی۔ انہی بڑے احمقوں میں سے ایک نے، جس کی طرف کبھی میں نے یہیں اشارہ کیا تھا، (4) دو تین سال پہلے کہا تھا (5) کہ ہم جنوری دو ہزار انیس میں تہران میں کرسمس منائيں گے! ان کی امید یہ تھی کہ وہ جنوری 2019 میں یہاں آئيں گے اور یہاں سب ختم ہو چکا ہوگا اور وہ یہاں جشن منائیں گے۔ اب وہ شخص خود تو تاریخ کے کوڑے دان میں پہنچ ہی گیا، اس کے چیف (6) کو بھی بڑی بے عزتی سے لات مار کر وائٹ ہاؤس سے نکال دیا گيا، دونوں تاریخ کے کوڑے دان میں چلے گئے؛ بحمد اللہ اسلامی جمہوریہ ایران سربلندی سے کھڑا ہے۔

دشمن کے مقابلے میں کامیابی کے بنیادی عوامل: عوامی شراکت، اللہ کے وعدوں پر بھروسہ، قومی طاقت کے عناصر کی تقویت

سادہ لوحی سے کام نہیں لینا چاہیے! جی ہاں دشمن اپنے اندازوں میں غطی کرتا ہے لیکن ہمیں چوکنا رہنا چاہیے۔ کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ دشمن کی اندازے کی مشینری کا ناقص ہونا ہی ہمیں کامیاب کرتا ہے، ہمیں کام کرنا چاہیے، کوشش کرنی چاہیے۔ میدان میں عوام کی موجودگي، میدان میں اپنی موجودگي کی ضرورت پر لوگوں کا ایمان، عوام اور حکام کی جانب سے خداوند عالم کے وعدوں پر اعتماد، باہمی منصوبہ بندی، یہ سب مؤثر ہیں اور مؤثر رہے ہیں۔ اگر امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بھی نو اور دس فروری کو مارشل لاء توڑنے کا حکم نہیں دیتے تو حالات کچھ اور ہوتے۔ بیٹھنے، دیکھتے رہنے اور دشمن کی غلطی کی امید میں رہنے سے کام نہیں ہوتا، کوشش کرنی چاہیے، میدان عمل میں اترنا چاہیے، کام کرنا چاہیے، خدا پر بھروسہ کرنا چاہیے، مجاہدت کرنی چاہیے، مسلسل باہمی منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور وہ بھی ہمیشہ۔ یہ حکام کی ذمہ داری ہے۔ طاقت کے قومی عناصر کو بڑھاتے رہنا چاہیے جن میں سے ایک مسلح افواج ہیں۔ طاقت پیدا کرتے رہنا چاہیے اور اس طاقت کا عملی طور پر مظاہرہ بھی کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ اس بات پر تاکید کی ہے کہ اپنی مومن اور عوامی مسلح افواج کی تقویت کرنی چاہیے جو بحمد اللہ مومن بھی ہیں اور عوامی بھی۔ چاہے وہ فوج ہو، سپاہ پاسداران ہو، رضاکار فورس ہو یا پولیس فورس ہو۔ یہ ملک کے حکام کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے، البتہ یہ تقویت علاقائی اور عالمی ضرورتوں کے مطابق، ترجیحات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ترجیحات پر توجہ مرکوز کر کے کی جانی چاہیے۔ یہ بات میں ملک کے فوجی اور سول حکام سے ہمیشہ کہتا رہا ہوں اور اب بھی کہتا ہوں۔

ملک کی امن و سلامتی کی پاسباں مسلح فورسز کی مادی و روحانی ہر پہلو سے تقویت کی ضرورت

بحمد اللہ پچھلے ایک دو مہینوں میں فوج نے بھی، سپاہ پاسداران نے بھی اور وزارت دفاع نے بھی سبھی کی آنکھوں کے سامنے نمایاں صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ انجام پانے والی ان فوجی مشقوں کو خود ہمارے عوام نے بھی دیکھا اور دنیا نے بھی، شاید تقریبا دس فوجی مشقیں انجام پائيں، جنھیں عوام نے بھی دیکھا اور دنیا نے بھی دیکھا، سیٹلائٹس کی نگراں آنکھوں نے بھی دیکھا اور تعریف بھی کی اور بعض نے تعجب کا اظہار بھی کیا۔ واقعی یہ لائق ستائش ہے۔ خاص طور پر پابندیوں کے حالات میں۔ اطلاعات تک ہماری رسائي، مواد تک ہماری رسائي، وسائل تک ہماری رسائي کیونکہ بیرونی ممالک سے کچھ بھی لانا ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔ اس طرح کے سخت حالات میں ہماری مسلح افواج نے، چاہے وہ ہماری وزارت دفاع ہو، چاہے فوج ہو اور چاہے سپاہ پاسداران ہو، اتنے بڑے کام انجام دیے ہیں اور ان کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ دراصل امیر المومنین علیہ السلام کے حکم کی پیروی ہے۔ امیرالمومنین مالک اشتر کے نام اپنے معروف فرمان میں فرماتے ہیں: "فالجنود باذن اللہ حصون الرعیۃ" اس کے کچھ ہی جملے بعد فرماتے ہیں: "و سبل الامن" (7) مسلح افواج ملک کی سلامتی کا سبب ہیں اور یہ بات کتنی قابل فخر ہے کہ کوئی ملک اپنی قومی سلامتی کو اپنے ہی افراد کے ذریعے، اپنے فرزندوں کے ذریعے، اپنی مسلح افواج کے ذریعے یقینی بنائے اور دوسروں کا انتظار نہ کرے۔ البتہ اس بات پر بھی توجہ رہے کہ مسلح افواج کی تقویت صرف ہتھیاروں اور آلات سے نہیں ہوتی، یہ اس کام کا ایک حصہ ہے، انھیں منظم بنانا بھی اس کام کا ایک حصہ ہے، جذبہ، ایمان اور دلوں میں معنوی طاقت اس کا اور زیادہ اہم حصہ ہے؛ مسلح افواج کی تقویت کا مطلب ہے یہ ساری چیزیں، حتی معنوی پہلو بھی۔

بعض ملکوں کی بڑی بھول: امریکہ سے اپنی قومی سلامتی کی حفاظت کی بھیک مانگنا

بعض ملکوں کی بڑی بھول یہ ہے کہ وہ امریکہ سے اپنی قومی سلامتی کی بھیک مانگتے ہیں، خود ان میں یہ توانائی نہیں ہے، اتنی ہمت نہیں ہے، عالمی مسائل کا صحیح ادراک بھی نہیں ہے۔ وہ خرچ بھی کرتے ہیں، پیسہ لگاتے ہیں، اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں اور بے عزت بھی ہوتے ہیں، ان کی توہین بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی ضرورت کے مواقع پر ان کی سلامتی کی حفاظت بھی نہیں ہوتی۔ ضرورت کے ان مواقع پر، وہی چیز جس سے انھوں نے امید لگا رکھی تھی، ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ آپ نے کچھ سال پہلے مصر اور تیونس وغیرہ کے واقعات میں دیکھا کہ اگرچہ ان جگہوں پر جو لوگ اقتدار میں تھے، وہ امریکا کے وفادار تھے لیکن امریکا نے ان کی مدد نہیں کی۔ عوام کے مقابلے میں، عوامی تحریک کے مقابلے میں وہ کیا کر سکتے تھے؟ محمد رضا پہلوی کے ساتھ بھی ایک پہلو سے ایسا ہی ہوا، جب وہ فرار ہوا اور ایران سے باہر چلا گیا تو کچھ عرصے امریکا میں رہنا چاہتا تھا، امریکیوں نے اسے باہر کر دیا، وہ پناما اور ادھر ادھر جانے پر مجبور ہو گيا۔ امریکیوں نے اسے اپنے پاس نہیں رکھا، اس نے ان کے لیے اتنا زیادہ کام کیا تھا، ان کی اتنی خدمت کی تھی اور ان سے امید لگا رکھی تھی۔ جب ہم دوسروں سے امید لگاتے ہیں تو یہ ہوتا ہے، جب ہم اپنے آپ پر بھروسہ کرتے ہیں، خدا سے مدد مانگتے ہیں اور اپنی قومی سلامتی کو خود یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ عزت ہے جو بحمد اللہ اسلامی جمہوریہ کے پاس ہے۔ بہرحال میں نے دشمن کی اندازے کی غلطی کی طرف جو اشارہ کیا وہ اہم نکتہ ہے۔

دشمن سے مرعوب ہو جانا یا اغیار سے آس لگانا: بہت بڑی غلطیاں

اندازے کی یہ غلطی معاشی مسائل میں اور دیگر امور میں بھی پائی جاتی ہے۔ ہمیں اس پر توجہ رکھنی چاہیے اور اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی غلطیوں کا خیال رکھنا چاہیے، ہمیں اپنی غلطیوں پر خود ہی توجہ رکھنی چاہیے۔ میں ایک غلطی کی طرف اشارہ کرتا ہوں جو ممکن ہے کہ ہم سے سرزد ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ ہم دشمن کی طاقت سے مرعوب ہو جائيں، یہ بڑی غلطی ہے، یہ ہماری غلطیوں میں سے ہے، یا اپنے کام کے کسی حصے میں اس سے امید باندھ لیتے ہیں، اسی حالت کے ساتھ جو اس وقت ہماری ہے، چاہے وہ مثال کے طور پر معاشی مسائل ہوں، چاہے سیاسی مسائل ہوں یا پھر عالمی مسائل ہوں، ہم کسی اجنبی سے امید لگا بیٹھیں، وہ اجنبی جس کا ارادہ ہی جارحیت کا ہے، لوٹ مار کا ہے، مداخلت کا ہے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہوگي۔ البتہ میں کسی بھی صورت میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ ہم اپنی ملکی طاقت کو مبالغے کی نظر سے دیکھیں۔ نہیں! حقیقت کو دیکھیں، کوشش کریں کہ اسے بہتر بنائيں۔ لیکن میں پر زور طریقے سے یہ نصیحت کروں گا کہ ہمارے پاس جو بھی صلاحیت ہے، ہم دشمن سے مرعوب نہ ہوں کیونکہ اگر ہم مرعوب ہو گئے تو پھر تھم جائيں گے، بے کار ہو جائیں گے۔

آبرو، قوت اور سماجی نظام کے اعتبار سے امریکہ کا زوال

یہ لوگ جو امریکا اور بعض دیگر طاقتوں کی توانائيوں کے بارے میں غیر حقیقی تصور رکھتے ہیں انھیں حقائق پر صحیح طریقے سے توجہ دینی چاہیے۔ عالمی طاقتوں کی ہنگامہ آرائي اور شور شرابہ زیادہ ہوتا ہے، اسی شور شرابے کے ذریعے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا بنا دیتے ہیں لیکن سچائي یہ نہیں ہے۔ اب امریکا میں رونما ہونے والے ان حالیہ واقعات کو ہی لیجیے(8)۔ اس بے عزتی سے ٹرمپ کی سرنگونی کا معاملہ اور اس سلسلے میں جو واقعات ہوئے، یہ سب چھوٹی چیزیں نہیں ہیں۔ یہ ایک نادر قسم کے صدر کا زوال نہیں تھا، یہ امریکا کی عزت کا زوال تھا، امریکا کی طاقت کا زوال تھا، امریکا کے سماجی نظام کا زوال تھا، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں، یہ انھوں نے خود کہا ہے، ان کے نمایاں سیاسی تجزیہ نگاروں نے کہا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ امریکی نظام اندر سے سڑ گل چکا ہے۔ یہ بات خود امریکیوں نے ان حالیہ واقعات کے بارے میں کہی ہے، انھوں نے کہا ہے کہ امریکا کا سماجی نظام اندر سے سڑ گل چکا ہے، یہ بہت بڑی بات ہے۔ کچھ دیگر نے کہا کہ ما بعد امریکا کا دور شروع ہو چکا ہے، یہ سب ان کی باتیں ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ معاشی لحاظ سے بھی امریکیوں کو مشکلات کا سامنا ہے لیکن ان کی سب سے بڑی مشکل سماجی نظام کے سلسلے میں ہیں، سیاسی نظام کے سلسلے میں ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ پوری طرح متزلزل ہو چکے ہیں۔

میڈیا کی مدد سے امریکہ کے زوال کی پردہ پوشی

اگر یہ واقعہ جو امریکا میں رونما ہوا دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں ہوا ہوتا، خاص طور پر ان ممالک میں جن کے امریکا سے کوئي خاص روابط نہیں ہیں تو کیا وہ اسے اتنی جلدی چھوڑ دیتے؟! لیکن چونکہ دنیا پر مسلط ذرائع ابلاغ کی حکومت زیادہ تر خود ان کے ہاتھ میں ہے اس لیے وہ اسے پوشیدہ رکھنے اور رفع دفع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ساتھ ہی اس کے سیاق و سباق کو بھی دبانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ یہ بڑا اہم اور آگے بھی جاری رہنے والا معاملہ ہے۔ واقعی امریکا کا زوال ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خطے میں امریکا کی پٹھو حکومتیں گھبرائي ہوئي ہیں، بوکھلائي ہوئي ہیں، سراسیمہ ہیں، خاص طور پر صیہونی حکومت۔ صیہونی حکام کی جانب سے کی جانے والی حالیہ ہرزہ سرائیاں زیادہ تر ان کے خوف کی وجہ سے ہیں، ان کی سراسیمگي اور اضطراب کی وجہ سے ہیں، جو کچھ امریکا میں ہوا ہے، اس کی وجہ سے ہیں۔ البتہ وہ لوگ صحیح سمجھے ہیں، اس سلسلے میں دنیا شاہد ہے کہ امریکا، داخلی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی زوال کا شکار ہو گیا ہے۔

ایٹمی ڈیل کے معاملے میں امریکہ اور تین یورپی ممالک کو شرط رکھنے کا حق نہیں

جہاں تک پابندیوں کی بات ہے تو اس سلسلے میں دنیا میں آج بہت سی باتیں ہو رہی ہیں، یورپ والے کچھ کہہ رہے ہیں، امریکی کچھ کہہ رہے ہیں۔ البتہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں کوئي بھی ناحق اور بے بنیاد دعوے کرنے والوں کی بات پر کوئي توجہ نہیں دیتا، چاہے وہ ا مریکا میں ہو یا یورپ میں، کوئي ان کی بات نہیں سنتا۔ دوسرے یہ کہ اگر ہم منطقی اور قاعدے کی کرنا چاہیں تو امریکا اور تین یورپی ملکوں کو، جنھوں نے ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے تمام وعدوں کو توڑا ہے، ایٹمی معاہدے کے بارے میں شرطیں طے کرنے کا کوئي حق ہی نہیں ہے۔ انھوں نے ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے وعدوں پر ذرہ برابر عمل نہیں کیا، معاہدے کی شروعات میں انھوں نے بڑے مختصر عرصے کے لیے ساری نہیں، کچھ پابندیوں کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا لیکن انھیں پھر بحال کر دیا اور اس کے بعد ان میں اضافہ کر دیا، شاید دو یا تین گنا زیادہ پابندیاں بڑھا دیں۔ بنابریں انھیں اس سلسلے میں شرطیں رکھنے کا کوئي حق نہیں ہے۔

ایٹمی ڈیل کے مسئلے میں اسلامی جمہوریہ کا دو ٹوک موقف: امریکہ ساری پابندیاں ختم کرے اور اس کی تصدیق کر لینے کے بعد ایران ایٹمی ڈیل کے کمٹمنٹ کی طرف لوٹے گا

وہ فریق جسے ایٹمی معاہدہ جاری رکھنے کے لیے شرط لگانے کا حق ہے، ایران ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران نے شروع سے ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے تمام وعدوں پر عمل کیا، اسلامی جمہوریہ نے ایٹمی معاہدے کے تحت اپنی تمام ذمہ داریوں کو پورا کیا، انھوں نے وعدہ خلافی کی، ہمیں ایٹمی معاہدے کو جاری رکھنے کے لیے شرط رکھنے کا حق ہے اور ہم نے شرط رکھی بھی ہے اور کوئی بھی اسے توڑ نہیں سکتا اور وہ یہ ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ایران ایٹمی معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر لوٹ آئے جن میں سے بعض کو اس نے ترک کر دیا ہے تو امریکا کو پابندیاں پوری طرح ختم کرنا ہوں گی۔  وہ بھی زبانی اور کاغذ پر نہیں کہ کہے کہ ہم نے ختم کر دیں۔ نہیں! بلکہ عملی طور پر پابندیوں کو ختم کرے اور ہم اس کی تصدیق کریں، جب ہم محسوس کر لیں کہ پابندیاں صحیح طریقے سے ختم ہو گئی ہیں تب ہم بھی ایٹمی معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر عمل کے لیے لوٹ آئيں گے۔ یہ اسلامی جمہوریہ کا قطعی اور حتمی موقف ہے جس پر ملک کے تمام حکام کا اتفاق ہے اور ہم اپنے اس موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

عہدیداران اور عوام کا اتحاد بہت سی مشکلات کا حل

میں زور دے کر اتحاد کی نصیحت کرتا ہوں، ملک کے حکام اور ملک کے اہم مسائل کے ذمہ داروں کے درمیان اتحاد ہونا چاہیے، ہماری عزیز قوم اپنے اتحاد کو محفوظ رکھے۔ بحمد اللہ ایرانی قوم کے اسی اتحاد نے بہت سی مشکلات کو دور کیا ہے، آگے بھی یہ اتحاد باقی رہنا چاہیے۔ حکام ایک آواز ہو کر اور پوری ہم آہنگی سے آگے بڑھیں، مسلح افواج کی بھی اہم ذمہ داریاں ہیں جن سے وہ باخبر ہیں اور ان شاء اللہ وہ حقیقی معنی میں طاقت کی پیداوار جاری رکھیں گي۔ یقینی طور پر ایران اور ایرانی قوم کا مستقبل، خداوند عالم کے لطف و کرم اور حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی دعاؤوں سے آج سے کہیں بہتر اور تابناک ہوگا۔ امید ہے کہ خداوند عالم شہیدوں کے خون کی برکت ہمیشہ اس قوم کے شامل حال رکھے گا اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روح مطہر کو ہم سے راضی اور خوشنود کرے گا۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو 8 فروری 1979 کو فضائیہ کے اہلکاروں کی امام خمینی کے ہاتھ پر بیعت کے تاریخی واقعے کی سالگرہ کے موقع پر انجام پائی، ایران کی فضائیہ کے سربراہ جنرل عزیز نصیر زادہ نے ایک رپورٹ پیش کی۔

۲) سورہ حشر، آیت 2: اللہ ایسے رخ سے اُن پر آیا جدھر اُن کا خیال بھی نہ گیا تھا۔

۳) باراک اوباما

۴) قم کے عوام کے تاریخی قیام کی سالگرہ پر مورخہ 9 جنوری 2019 کی تقریر

۵) امریکہ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن

۶) سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ

۷) نهج‌البلاغه، مکتوب نمبر ۵۳ اللہ کے حکم سے فوجی عوام کا حفاظتی قلعہ ہیں اور سلامتی کا راستہ ہیں۔

۸) امریکی کانگریس پر ٹرمپ کے حامیوں کے حملے کی طرف اشارہ ہے جو امریکہ کے صدارتی انتخابات کے بعد ہوا۔