اقوام کی کامیابی میں ہوشیاری  اور پائیداری کا کردار

  ہر معاشرے کو رفاہ و آسائش، مادی و معنوی پیشرفت اور مجموعی طور پر کامیابی کے لئے، دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہوشیاری اور استحکام و پائیداری۔  ہوشیاری اس بات کا باعث بنتی ہے کہ زمانے کی نسبت اس کا انتخاب مناسب اور صحیح ہو اور معاشرے کو درپیش خطرات اور رکاوٹوں کا پہلے سے  ہی پتہ چل جائے اور ان کے بارے میں فیصلے کئے جائيں۔ پائیداری عمل میں انتخاب کا دوام  ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کی کامیابی کے لئے، جو عمل شروع ہو اس کو جاری رکھا جائے، معاشرے میں آنے والے  تلاطم اور طوفان  سے اس کی حفاظت کی جائے  اور دوسرے الفاظ میں ، وہ کمزور یا ابتر عمل میں تبدیل نہ ہونے پائے۔

 معاشرے میں ان دونوں صفات کے خطرے میں پڑ جانے کے عواقب   

اس بنا پر معاشرے کے لئے ان دونوں صفات یعنی ہوشیاری اور پائیداری کی حفاظت حیاتی اہمیت رکھتی ہے۔ جس معاشرے میں بیداری نہ ہو، وہ ایک ایسی کشتی کی طرح ہے جس کا ناخدا، کشتی کی نگہبانی کرنے والے  اور بحر پیمائی کرنے والے، دوسرے الفاظ میں اس کشتی کے سارے مسافر، ایسے خواب غفلت میں ہوں کہ نہ انہیں منزل مقصود کا پتہ ہو اور نہ ہی اس کیفیت اور جہت کا کوئی علم ہو جس میں کشتی چل رہی ہے۔  یہ کشتی اور اس کے مسافر، پرآشوب موجوں اور گردابوں میں پھنس سکتے ہیں، سمندری چٹانوں سے  ٹکرا سکتے ہیں۔ عدم پائیداری بھی اس بات کا باعث بنے گی کہ کشتی کے ملاح اور چپو چلانے والے، کچھ دیر تک تو کشتی کو صحیح جہت میں بڑھائيں  گے اور  چپو چلائيں گے لیکن خوفناک طوفان اور ہولناک موجوں کا سامنا ہونے کے بعد ان کے ہاتھ پاؤں پھول جائيں گے، ان کی ہمت جواب دے جائے گی۔ وہ چپو چلانا بند کر دیں گے،  سمندر کی لہریں انہیں پیچھے دھکیل دیں گی اور ان کی اب تک کی ساری محنت پر پانی پھر جائے گا۔ 

ہوشیاری و پائیداری اور حق کی سفارش کے لئے انسان کے اندر ہوشیاری و پائیداری لازمی ہے

کسی معاشرے میں ان دونوں صفات اور خصوصیات کا تحفظ پیچیدہ اور دشوار کام نہیں ہے۔ یہ حفاظت ایک اندرونی احساس سے وابستہ ہے۔ اس اندرونی احساس کو احساس ذمہ داری کہا جا سکتا ہے۔ احساس ذمہ داری کسی خاص فرد یا جماعت سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سبھی افراد معاشرہ اس میں شامل ہیں۔ جس معاشرے میں بھی احساس ذمہ داری مطلوبہ سطح تک رشد حاصل کر لے، اس میں ایسی فضا اور ماحول وجود میں آجائے گا کہ اس میں رہنے والے سبھی افراد معاشرے کا بھی خیال رکھیں اور ایک دوسرے کے حالات اور رفتار و کردار پر بھی نظر رکھیں گے۔ اس معاشرے کو اگر دقت نظر سے دیکھا جائے تو اس کے افراد اور جماعتیں، ایک دوسرے کی شناخت اور باہمی دوستی اور محبت کی اساس پر ایک دوسرے کی رہنمائی اور ہدایت کرتی نظر آئيں گی۔ یہ رہنمائي اور ہدایت، ایک طرف تو معاشرے کے اعمال کی نگرانی  اور حقیقی مقاصد کے مد نظر رہنے کے اسباب فراہم کرتی ہے اور دوسری طرف ان مقاصد کےحصول کی کوششوں اور اقدامات کے تسلسل کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ احساس ذمہ داری رکھنے والے معاشرے میں، ایک ایک فرد کو یہ فکر رہتی ہے کہ کوئی غفلت اور سستی میں گرفتار نہ ہو۔ اس لئے وہ مستقل طور پر ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں ، ایک دوسرے کے احوال پر نظر رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کو  صحیح راستے اور ہوشیاری و پائیداری کی سفارش کرتے ہیں۔

 بعض معاشروں میں بعض اوقات اس حفاظت پر سنجیدگی سے توجہ نہيں دی جاتی، انہیں یہ امید رہتی ہے کہ ان کے راستے میں طوفان، گرداب اور سمندری چٹانیں نہیں آئيں گی، ان کی آرزو ہوتی ہے کہ افراد معاشرہ کے کام میں پائیداری نہ ہو تب بھی سمندر کی موافق ہوائيں اور لہریں انہیں منزل مقصود تک پہنچا دیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ بالفرض اگر قدرتی عوامل، ان کی آرزو کے مطابق ہوں تب بھی، بحری ‍قزاقوں اور راہزنوں کے مقابلے میں وہ کیا کریں گے؟

 حق کی سفارش کے نظام  کو کمزور کرنا استعمار کے لئے اہم کیوں ہے؟   

 تاریخ انسانی گواہ ہے کہ استعماری طاقتوں اور لٹیروں کی  لالچی اور تسلط پسندانہ ںگاہیں، ان معاشروں پر زیادہ رہتی ہیں جن میں ہوشیاری بہت کم ہوتی ہے اور معاشرہ اپنی حفاظت کے لئے توانائی بڑھانے میں پائیداری نہیں دکھاتا۔

غفلت اور سستی کے شکار معاشرے کے برخلاف، استعماری طاقت زیادہ فعال رہتی ہے اور نہ صرف یہ کہ وہ حالات کی تبدیلی سے فائدہ اٹھاتی ہے بلکہ ایسے حالات بھی وجود میں لانے کی کوشش کرتی ہے کہ اپنا مقصد حاصل کر سکے۔ بنابریں تاریخ کے یہ منفی کردار، اپنے منصوبوں اور اسٹریٹیجی میں دو باتوں پر توجہ رکھتے ہیں، ایک مد نظر معاشرے میں ہوشیاری کم کرنا اور دوسرے پائیداری ختم کرنا۔  اس مہم میں وہ مخصوص پالیسیوں پر عمل کرتے ہیں۔ ان کی اسٹریٹیجی کا بڑا حصہ ہوشیاری اور پائیداری کے تحفظ کے خاتمے پر مرکوز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ افراد معاشرہ میں ایک دوسرے کی فکر اور احساس ذمہ داری کی زنجیر کو توڑنے کے لئے بھی اسٹریٹیجی بناتے ہیں۔ ان کی ایک اسٹریٹیجی معاشرے کے افراد اور گروہوں کے درمیان پرخلوص رابطے  کی روک تھام پر مرکوز ہوتی ہے اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ افراد معاشرہ اس بات پر قادر ہی نہ رہیں کہ ایک دوسرے کو ہوشیاری اور پائیداری کی سفارش کر سکیں۔

 استعمار کی پہلی اسٹریٹیجی: انفرادیت  کی ترویج  

 انفرادیت اور انفرادی طر‌ز زندگی کی ترویج اس سلسلے میں استعمار کی ایک اسٹریٹیجی ہے۔ یہ اسٹریٹیجی اس بات پر مبنی ہوتی ہے کہ معاشرے میں افراد اور جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے سے رابطے کا نظام نچلی ترین اور کمترین سطح پر پہنچ جائے تاکہ ہوشیار اور با خبر افراد، غفلت اور سستی کے شکار افراد میں حقیقت سے آگاہی، ہوشیاری اور پائیداری نہ پیدا کر سکیں۔ اگر ہم استعمار زدہ معاشروں کی زندگی کے مختلف پہلووں پر ںظر ڈالیں تو اس بات کا اچھی طرح مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس پالیسی اور اسٹریٹیجی کے مطابق ضروری ہوتا ہے کہ  سماجی اور اجتماعی شخصیتیں اپنی سطح سے گرکے انفرادی شخصیت بن جائيں اور انسانی نظام اور سماج  اس حد تک تقسیم ہو جائے کہ انسانی نقطوں میں تبدیل ہو جائے۔ یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ استعمار صرف روایتی استعمار اور وہ ملک نہیں ہے جو اس کا بانی ہے۔ مغربی معاشروں میں انفرادیت کے بحران اور انسانیت دشمن برائیوں اور بدعنوانیوں کے فروغ نے بالکل واضح کر دیا ہےکہ آج استعمار کی دیگر اقسام، کمپنیوں اور بڑے بڑے کارٹل کی شکل میں جو استعماری قوتیں سرگرم ہیں وہ کسی بھی قومی،  ملی اور  نسلی سرحد اور حدود کی قائل نہیں ہیں اور ہر معاشرہ حتی خود ان کا اپنا معاشرہ بھی ان کے توسیع پسندانہ استعماری اہداف میں شامل ہے۔

 دوسری استعماری اسٹریٹیجی: قوم پرستی اور نیشنلزم کی تقویت کے ذریعے
اختلاف بھڑکانا اور تفرقہ انگیزی  

  تاریخ استعمار، اس معاشرے کے مقابلے میں جس میں ہوشیاری، پائیداری اور حقیقت کی سفارش کا نظام پایا جاتا ہے، ایک اور بڑے سامراجی حربے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس سلسلے میں پڑوسی اقوام اور ملکوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ختم ہو جانے کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ اسٹریٹیجی جس کی بنیاد قوم پرستی اور نیشنلزم پر رکھی گئي، اس نے مختلف اقوام میں دشمنی اور نفرت پیدا کی اور اس چیز نے ایک دوسرے کی آگاہی اور ہوشیاری سے بہرہ مندی کا امکان ختم کر دیا۔ اس سلسلے میں  لاطینی امریکا، اسلامی دنیا، مشرقی یورپ اور افریقا کے ملکوں کی تاریخ کو بطور نمونہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ہر خطے کی تاریخ میں قوم پرستی اور نیشنلزم کے تخریبی اثرات کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

استعمار کی تیسری اسٹریٹیجی: مد نظر معاشرے کے نظام تشخص کو پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے تبدیل کرنا

استعمار کی ایک اور اسٹریٹیجی، معاشروں میں تشخص کے نظام کو جہت دینے کے لئے، روایتوں اور تشہیرات سے استفادہ ہے۔ استعماری نیوز ایجنسیاں استعمار کے لئے ایسا ماحول تیار کرتی ہیں کہ وہ اپنی مطلوبہ روایتوں کے پروپیگنڈے کے ذریعے، سماجی کشمکش بڑھائے اور اجتماعی ارادے کی کمزوری کے اسباب فراہم کرے۔ استعمار اور ذرائع ابلاغ کے رابطوں کے بارے میں جو تحقیقات انجام دی گئي ہیں ان سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ کسی بھی خطے اور  قلمرو  میں اجتماعی تحریکوں کے اندر چھوٹی چھوٹی تحریکیں وجود میں لانا اور اذہان کو معاشرے کے کلیدی مسائل سے منحرف کرنا، سامراجی ذرائع ابلاغ عامہ کی مہم کا ایک بڑا حصہ رہا ہے۔ کسی بڑی اور مضبوط تحریک کے تسلسل کی توانائي کم کرنے کے لئے  چھوٹی چھوٹی تحریکیں  وجود میں لائي جاتی ہیں۔ بڑی تحریک کی توانائي میں یہ کمی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب چھوٹی تحریکیں جزوی اختلافات سے اگے بڑھ  کے بڑی تحریک کے مقابلے میں مزاحمت کرنے لگتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، توانائي کی کمی، معاشرے میں استقامت کی سطح  کم کر دیتی ہے۔ دوسری طرف اذہان کا انحراف، ہوشیاری، پائیداری اور حقیقت کی سفارش کرنے والے اشخاص اور جماعتوں کی آگاہی اور ہوشیاری پیدا کرنے کی مہم کے نتیجہ بخش ہونے میں  رکاوٹ بن جاتا ہے۔

استعمار کی چوتھی اسٹریٹیجی : جذباتی خواہشات کو معاشرے کا اصل ہدف قرار دینا

 ایک اور چیز جس پر استعمار نے خاص طورپر کام کیا ہے اور حق، حقیقت اور ہوشیاری و پائیداری کی سفارش کے سماجی نظام کو کمزور کرنے کے لئے، اس سے فائدہ اٹھایا ہے، وہ جذباتی خواہشات کو بنیادی حیثیت دینا اور  جذباتی خواہشات کو روح و خرد پر غالب اور مسلط کرنا ہے۔ یہ غلبہ اور تسلط اس بات کا سبب بنتا ہے کہ حقیقت اور ہوشیاری کی سفارش جو اجتماعی خرد و دانشمندی پر استوار ہوتی ہے، اپنے اثرات مرتب کرنے میں ناکام ہو جائے۔ جس معاشرے میں جذباتی خواہشات اجتماعی تحریکوں کی بنیاد اور بغیر کسی محدودیت کے ان کی تسکین معاشرے کا ہدف بن جائے، وہ معاشرہ اعلی مادی اور معنوی مصلحتوں کا ادراک نہیں کر سکے گا  اور پھر  حق اور پائیداری کی سفارش بھی نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ ادراک میں بھی ایک بڑی خلیج  پیدا ہو جائے گی اور یہ بات خود حق کی سفارش کے اثرات کو کم کر دے گی۔

نتیجہ

قارئین اچھی طرح جانتے ہیں کہ جن باتوں کا ذکر کیا گیا، اجتماعی ہوشیاری اور حقیقت و پائیداری کی سفارش کے نظام کو کمزور کرنے اور اس سلسلے کو توڑنے کے لئے عالمی تسلط پسندوں اور استعماری قوتوں کے حربے صرف یہی نہیں ہیں۔ لیکن ان  سے اس بات کی تقویت ضرور ہوتی ہے کہ معاشرے کو اپنے اندر نمو و پیشرفت کے عناصر کو فعال بنانے کے ساتھ ہی ایسے اجتماعی روابط بھی وجود میں لانے کی ضرورت ہے جو ان عناصر کی حفاظت  کر سکیں اور ان میں توسیع لا سکیں۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ حق، ہوشیاری اور پائیداری کی سفارش کا نظام اور اس کا تسلسل، ایسی بنیادیں ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔