بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس جشن نکاح میں احباب اکٹھا ہیں تو اس موقع سے استفادہ بھی ہو جائے اور خطبۂ نکاح سے پہلے میں اپنے معمول کے مطابق ان رسومات سے متعلق ضروری مسائل پر کچھ باتیں بھی عرض کر دوں۔ اب جبکہ ہم ان فضول اور لاحاصل رسومات میں بری طرح بندھے ہوئے ہیں، اگر ان کے بارے میں کچھ ضروری باتیں عرض کر دی جائيں، جنھیں بیان کرنا ہر صورت میں ضروری ہے، تو یقینا یہ بڑی بات ہوگی۔

شادی کے مسئلے میں بہت سی مبہم باتیں بلکہ ایسی باتیں، پائي جاتی ہیں جنھیں غلط طریقے سے سمجھا گيا ہے۔ ان مبہم یا تحریف شدہ باتوں کو، بنیادی اسلامی افکار و تعلیمات میں اشاروں میں یا صراحت کے ساتھ بیان کیا گيا ہے لیکن کچھ تو وقت گزرنے کی وجہ سے اور کچھ اس ماحول کی وجہ سے جس میں عام طور پر ہمیں ڈال دیا گيا ہے اور ہم اسی ماحول میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں یعنی دکھاوے کی انتہائي عبث، لایعنی رسومات میں، یہ چیزیں اس بات کا سبب بنی ہیں کہ ہم اسلام کی رائے، اسلامی نظریے اور اس سلسلے میں اسلام کے مدنظر مسائل کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ یہ بات صرف اسی مسئلے تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر مسائل میں بھی، شادی، گھرانے کی تشکیل، بچوں کی پرورش، ایک خدائي تحفے کی حیثیت سے بچے کے سلسلے میں ہمارے نظریے، بچوں سے امید لگانے اور ان کے مستقبل کے سلسلے میں امید رکھنے اور اسی طرح کے دیگر مسائل میں بھی یہی صورت حال ہے۔ قرآن مجید میں ایک جگہ خداوند عالم 'عباد الرحمن' یعنی رحمان کے بندوں کی خصوصیات کے بیان کے ضمن میں، جہاں وہ فرماتا ہے: "اور رحمن کے بندے تو وہی ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ انھیں سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں۔" اس کے بعد وہ فرماتا ہے: "اور جو برابر دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنے شریک حیات اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا دے۔" (1) مطلب یہ کہ پروردگار کے بندے، خدا کے حقیقی بندے وہ لوگ ہیں جو اپنی زبان اور اپنے عمل سے اور خدا کی جو فکری معرفت انھوں نے حاصل کی ہے، اس کی بنیاد پر اس طرح کہتے ہیں اور اس طرح سوچتے بھی ہیں کہ اے پرورگار! ہمیں اپنے شریک حیات اور بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر۔ مطلب یہ ہوا کہ بال بچوں کو انسان کی آنکھوں کا نور اور دل کی ٹھنڈک ہونا چاہیے۔ یہ سمجھنے کے لیے کس طرح شریک حیات اور بچے انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن سکتے ہیں، ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ آنکھوں اور دل کی ٹھنڈک کس چیز سے حاصل ہوتی ہے؟ اسلام کی نظر میں، وہ ساری قوتیں جو انسان کے وجود میں رکھی گئي ہیں اور وہ سارے وسائل جو اسے عطا کیے گئے ہیں، در حقیقت وہ اس روش اور تحرک کے اسباب ہیں جو خداوند عالم نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔ وہی چیز گرانقدر ہے جو خدا کی راہ میں ہے، جب کوئي چیز خدا کے لیے ہو تو وہ اسلام کی نظر میں معزز اور معتبر ہے۔ "بے شک میری نماز، میری عبادت، میری زندگي اور میری موت اس اللہ کے لیے ہی ہے جو عالمین کا پروردگار ہے۔" (2) یعنی نماز، عبادت، زندگي اور موت سب اللہ کے لیے اور اس کی راہ میں ہونا چاہیے۔ وہ نماز جو انسان کی تعمیر اور اس کے نتیجے میں اس کے اطراف کے ماحول کی تعمیر کے لیے نہ ہو اور انسان پر وہ تعمیری اثر نہ ڈالے، وہ حقیقی نماز نہیں ہے۔ وہ نماز جو خدا کے لیے نہ ہو یعنی خدا کی راہ میں نہ ہو، یعنی اپنی حقیقی سمت سے دور ہو گئي ہو، وہ نماز انسان کو خدا سے قریب نہیں کرتی۔ زندگي کے تمام جلوے بھی اسی طرح ہیں۔ اسلام میں ایسا نہیں ہے کہ ہماری عبادتوں اور دوسری چیزوں میں فرق ہو، یعنی ہم یہ کہیں کہ ہماری عبادتیں اللہ کے لیے ہیں لیکن عبادت کے علاوہ جو دوسرے کام ہم انجام دیتے ہیں وہ دوسرے مقاصد کے لیے ہیں۔ ایک مسلمان جو بھی کام کرتا ہے اور اسلام اور توحید پر ایمان رکھنے والا شخص جو بھی کام انجام دیتا ہے وہ اسی سمت میں ہونا چاہیے اور اس میں بھی نماز جیسی ہی روح اور نماز جیسے ہی معنی ہونے چاہیے، یعنی اسے خدا کے لیے ہونا چاہیے۔ اگر ایک مسلمان انسان اپنی زندگي کے ایک حصے کو خدا کے لیے قرار دے، خدا کی راہ میں قرار دے اور دوسرے حصے کے ساتھ ایسا نہ کرے تو اس طرح کا انسان، ایک خدائي اور توحیدی انسان بننے کی کوشش میں نہیں ہے۔ خدائي بننے کی مکمل شرط یہ ہے کہ اس انسان کی زندگي کے تمام امور پوری طرح سے خدا کے لیے اور خدا کی راہ میں ہوں؛ منجملہ شادی، اولاد، بچوں کا مستقبل۔ آج ہمیں اپنے درمیان اور اپنے سماج میں ایک بہت گہرے انحراف کا سامنا ہے۔ بیوی اور بچے، ان لوگوں کے درمیان بھی، جو بڑی حد تک دین کے پابند ہیں، جست اور ارتقاء کا وسیلہ نہیں ہیں بلکہ اس کے برخلاف جمود اور عدم تحرک کا سبب ہیں۔ بجائے اس کے کہ انسان کی بیوی یا اس کا شوہر یا اولاد، ایک ایسا پر ہو جس کے ذریعے وہ پرواز کرے، ایک ایسا لنگر ہے جس کی وجہ سے وہ زیادہ گہرائی میں ڈوبتا چلا جاتا ہے، عام رفتار سے بھی پیچھے رہ جاتا ہے، نہ صرف یہ کہ خدا کی جانب ہماری حرکت میں اور خدائي اہداف کی طرف ہمیں بڑھاتا نہیں اور ترغیب نہیں دلاتا بلکہ اس معمولی سی حرکت اور تحرک سے بھی، جو زندہ انسان اور زندہ مخلوق کی نشانی ہے، ہمیں روک دیتا ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم بچے یا بیوی کے مفہوم کو سمجھے ہی نہیں ہیں۔ جب یہ مختصر سی بات اور اسلام کی واضح بات ہمارے لیے عیاں ہوگي کہ ہم دنیا کی اس متحرک مشین کا ایک ذرہ ہیں، اس دیو ہیکل مشین کا ایک چھوٹا سا پرزہ ہیں اور یہ مشین ایک سمت میں اور ایک راستے پر بڑھ رہی ہے، "آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی تسبیح کر رہا ہے۔" (3) "آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے، اسے ہم نے کھیل تماشا نہیں بنایا ہے۔" (4) "ان دونوں کو ہم نے برحق پیدا کیا ہے۔" (5) سب کے سب، یہ پورا کاروان ہستی ایک ہی سمت میں اور ایک ہی منزل کی طرف گامزن  ہے، انسان بھی جہاں تک اس کا ارادہ اور اس کی خواہش، تعمیری اثر نہیں رکھتی، اپنے وجود کے اس دائرے اور خطے میں، جو بغیر ارادے کے حرکت کر رہا ہے، اسی سمت میں گامزن ہے۔ جہاں انسان کا ارادہ اس کی زندگي کے فیصلوں پر، سماجی مواقف پر اور انفرادی و اجتماعی حالات پر اثر انداز ہوتا ہے، وہاں اگر وہ چاہے اور فیصلہ کرے تو اس کارواں کے ساتھ اور کارواں کی سمت میں جو خدا کی طرف بڑھ رہا ہے، شامل ہو سکتا ہے بلکہ اس کارواں کی حرکت میں مؤثر اور تعمیری کردار ادا کر سکتا ہے۔ جب انسان کو، خدا پر ایمان کے سبب اس کارواں میں، کاروان ہستی میں، اپنے عظیم الشان انسانی درجے کے ساتھ آگے بڑھنا ہے تو جو کچھ اس کے اختیار میں ہے، اسے اس سفر اور حرکت کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ "اور اللہ نے انسان کی جنس سے ہی اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔" (6) زوجیت یا نوع انسان کی دوگانگي اور ہر جنس کے تناسب سے اس کی خصوصیات اور دوسری جنس کے لیے قرار دی گئي اس کی خصوصیات اس لیے ہیں ان میں سے ہر ایک جنس، عورت اور مرد، شادی، شریک حیات، ایک ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کی زوجیت کے سائے میں جو سکون حاصل کرتے ہیں، اس کے ذریعے زیادہ آسانی سے اور زیادہ بہتر طریقے سے راستہ طے کرے۔ مطلب یہ کہ اس راستے کو زیادہ اچھے طریقے سے طے کرنے اور بہتر طریقے سے آگے بڑھنے کے لیے شادی ایک ذریعہ ہے اور شریک حیات ایک وسیلہ ہے۔

جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی زوجیت میں آتی ہيں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت علی اپنی توانائی کا ایک حصہ، جو خدا کی راہ کے علاوہ کہیں خرچ نہیں ہوتی تھی اور خدا کے علاوہ کسی کے لیے استعمال نہیں ہوتی تھی، اب خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے مختص کر رہے ہیں جس کا نام زوجہ ہے، نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس توانائی کو، جسے وہ اب تک خدا کی راہ میں استعمال کر رہے تھے، اب بھی خدا کی راہ میں ہی خرچ کریں گے لیکن ایک دوسرے متحرک اور متلاشی انسان کی مدد سے کہ وہ بھی خدا کے لیے ہے اور خدا کی راہ میں ہے، وہ انسان بھی اپنی تمام تر توانائيوں کو خدا کی راہ میں استعمال کرتا رہا ہے تاکہ ان دونوں کا سنگم، دو انفرادی توانائيوں کا ملاپ، ایک زیادہ کارآمد اجتماعی توانائي پیدا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے شادی کے بعد ایک زیادہ دلاور سپاہی ہیں اور زیادہ متحرک انسان ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی توانائي کے ساتھ ایک اور توانائي جڑ گئي ہے اور ان کی ضرورتوں کو، جو ممکنہ طور پر انھیں کام سے، تحرک سے اور آگے بڑھنے سے روک سکتی تھیں، ان کے ہی جیسا ایک انسان پورا کر رہا ہے اور اس کی وجہ سے اس توانائي کا کوئي بھی حصہ رائيگاں نہیں جا رہا ہے بلکہ یہ پوری کی پوری توانائي خدا کی راہ میں بہتر سے بہتر طریقے سے، زیادہ سے زیادہ اور زیادہ تیزی سے استعمال ہو رہی ہے۔

اولاد اور بچے کا مسئلہ بھی یہی ہے۔ اسلامی نظریے سے اولاد اور بچہ، آگے بڑھنے اور تحرک کا ایک ذریعہ ہونا چاہیے، زیادہ اونچی جست کا وسیلہ ہونا چاہیے، انسان کے پیروں میں بیڑیوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے، ایک پتھر کی طرح نہیں ہونا چاہیے جو انسان کو پرواز کرنے سے تو درکنار، اس کی اپنی معمولی رفتار سے بھی روک دے۔ اس سوچ اور نظریے سے ممکن ہے کہ انسان یہ سوچے کہ اولاد کے طور پر جو اسے دیا گیا ہے، وہ خدا کی طرف سے ایک امانت ہے اور اس امانت کو اسے حتی المقدور اس کی آفرینش کے مقصد اور ہدف کی راہ میں لگانا ہے۔ یہ بال و پر سے محروم ایک پرندے کی طرح ہے جس کے ماں باپ اپنی شفقت آمیز پرورش کے ذریعے اس کے بال و پر کو سنوارتے ہیں تاکہ وہ اونچائي پر پرواز کر سکے؛ اس بات کو اس نظریے سے دیکھا جانا چاہیے۔ اگر ہم کسی پرندے سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں یہ کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ ہمیشہ کے لیے اس کے پر کاٹ کر، اس کے بالوں کو اکھاڑ کر اور اس کے پیروں کو باندھ کر اسے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر میں اور اپنے پنجرے میں رکھ لیں۔ اس کی مدد تو یہ ہے کہ اسے اس کی فطری سمت میں، اس راہ پر آگے بڑھنے میں جو اس کے لیے متعین ہے، اس کی مدد کریں، آب و دانہ دینا، اسی مقصد کے لیے ہے۔ تو آپ دیکھیے کہ اگر ہم اس نظریے سے بیوی اور بچوں کو دیکھیں تو ہماری بہت سی غلط فہمیاں، غلط نظریات اور غلط کام اپنے آپ ہی دور ہو جائيں گے۔ یہ چیز ہمیں ایک بار پھر اس حقیقت کی طرف متوجہ کراتی ہے اور اس حقیقت کو ماننے کے لیے آمادہ کرتی ہے کہ ہم نے کوتاہی کی ہے۔ حالانکہ اس وقت کی دنیا، عمیق انسانی افکار سے پیدا ہونے والی ثقافتوں کی تجلی کی دنیا ہے اور ایسی دنیا ہے جس کے بازار میں، عالمی افکار کی منڈی میں ایک صحیح سوچ، ایک رہنما سوچ اور انسان کی ذات، اس کی حقیقت اور وجود سے نکلنے والی سوچ سے زیادہ بارونق کوئي متاع نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اسلامی افکار اور اسلامی نظریات کے ادراک کے لیے جو انسانی فطرت کے مد نظر پیش کیے گئے ہیں، اب بھی ہم نے اس طرح سے کوشش اور کام نہیں کیا ہے جیسا کہ کیا جانا چاہیے تھا اور اب بھی بہت سے اسلامی مسائل ہمارے لیے واضح نہیں ہیں۔

بہرحال اس موقع سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے، میرا مطلب یہ محفل اور پروگرام ہے، ہمیں گہرائی سے اس حقیقت کا احساس و ادراک ہونا چاہیے کہ شادی، گھرانے کی تشکیل، بچے کی پیدائش، بیوی کے ساتھ مشترکہ زندگي اور بچے کی پرورش وہ ضروری قدم ہیں جو ہمیں اپنی زندگي کے ہدف، مقصد اور منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔ ان چیزوں کو اور ان رسومات کو اس نظریے سے دیکھا جانا چاہیے اور افسوس کہ ہمارے معاشرے کے ایک بڑے حصے میں یہ باتیں اس طرح پیش نہیں کی جاتیں۔ اب بھی شادی کو تجارت کی شکل دی جاتی ہے، شادی کے مراسم، انتہائي پست شکل میں اور دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں اور اب بھی گھرانے کی تشکیل ایک حیوانی خواہش کی تکمیل یا اسی جیسی کسی چیز سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ اسے انسان کے ارتقائي سفر کے ایک وسیلے اور ذریعے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا ہے۔ یہ ہمارے اطراف کی تلخ حقیقت ہے۔ ہمارے لیے اسلامی افکار سے جس حد تک مدد لینا ممکن ہو، لینا چاہیے اور اس سلسلے میں اسلام نے ہمیں جو طرز تعلیم عطا کیا اس سے استفادہ کرنا چاہیے، انھی چھوٹے چھوٹے میدانوں میں اور زندگي کے ان بظاہر غیر اہم گوشوں میں اس طرح کی پابندیاں بہت زیادہ نتیجہ خیز ہو سکتی ہیں۔ میں انھی چند جملوں پر اکتفا کرتا ہوں جنھیں میں نے اختصار کے ساتھ بیان کیا۔

امید ہے کہ ہمارے دل اسلامی تعلیمات سے اور اسلام کی شناخت سے پہلے سے زیادہ روشن ہوں گے۔ امید ہے کہ عباد الرحمن (رحمن کے بندوں) کی دعا ہمارے سلسلے میں بھی قبول ہوگي۔ ہماری بیویاں اور ہماری اولاد دنیا و آخرت میں ہماری آنکھوں اور دل کی ٹھنڈک بنے گی۔ مجھے امید ہے کہ یہ باتیں دیکھنے اور سننے والے پر تعمیری اثر ڈالیں گی۔ حقیقت میں یہ کوشش کی جائے گی کہ ہم ویسے ہی بنیں، جیسا کہہ رہے ہیں۔

 

(1) سورۂ‌ فرقان، آیت 74

(2)سورۂ انعام، آیت 162

(3) سورۂ جمعہ، آیت 1

(4) سورۂ دخان، آیت 38

(5) سورۂ دخان، آیت 39

(6) سورۂ اعراف، آیت 189