رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 و الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاہرین، سیما بقیۃ اللہ فی الارضین.

تمام مسلمانوں، تمام مومنین، آپ سب دوستوں اور ایرانی قوم کو عید غدیر ان شاء اللہ مبارک ہو! عید غدیر بڑی اہم عید ہے۔ غدیر کا واقعہ، ناقابل انکار واقعات میں سے ہے، تاریخ میں اس واقعے کی تفصیلات میں بعض مصنفوں اور مؤرخوں وغیرہ نے کچھ شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جن کا جواب بھی دیا جا چکا ہے۔ لیکن غدیر کے واقعے اور اس واقعے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے امیرالمومنین علیہ السلام کو 'من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ' (2) کی حیثیت سے متعارف کرائے جانے میں کسی طرح کا کوئي شک نہیں ہے۔ یہ ناقابل انکار واقعہ ہے۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے ہیں، اہلسنت کے بڑے بڑے علماء، مصنفین اور دانشوروں نے بھی کہا ہے کہ غدیر کا واقعہ مسلم الثبوت ہے۔ مصر کے مشہور مصنف محمد عبدالغنی حسن نے، جنھوں نے علامہ امینی کی کتاب الغدیر پر تقریظ لکھی ہے، کہا ہے کہ غدیر کے واقعے میں کسی بھی طرح کا شک نہیں کیا جا سکتا۔ بنابریں عید غدیر انتہائي اہم امور میں سے ایک ہے۔

عید غدیر، اسلام کی ابتدائي صدیوں سے ہی ایک رائج عید رہی ہے، اس کے کچھ نمونوں کا ذکر مرحوم علامہ امینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الغدیر میں کیا ہے کہ فلاں جگہ لکھا ہوا ہے کہ مثال کے طور پر "یہ واقعہ رونما ہوا اور وہ دن عید غدیر کا دن تھا، یا اٹھارہ ذی الحجہ کا دن تھا۔" یعنی تاریخ اسلام میں صدر اسلام سے ہی عید غدیر کی حیثیت سے متعدد نمونوں کا ذکر کیا گيا ہے؛ فاطمی خلفاء کے دور میں، مصر میں اور دوسری جگہوں پر۔

مرحوم علامہ امینی نے اس حدیث غدیر کو، ایک سو دس اصحاب پیغمبر سے نقل کیا ہے۔ یعنی معتبر اسناد کے ساتھ متعدد روایتیں موجود ہیں جنھیں 110 اصحاب پیغمبر سے نقل کیا گيا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بہت ہی اہم چیز ہے جس کی وجہ سے اتنے زیادہ صحابہ نے اس حدیث کو نقل کیا ہے، اس واقعے کو بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ خود امیر المومنین علیہ السلام کے دلائل بھی ہیں، اور یہ بھی بہت ہی اہم چیز ہے۔ یعنی امیر المومنین نے، جو لسان صادق ہیں، لسان اللہ ہیں، کئي مواقع پر اپنے مخالفین کے سامنے غدیر کے واقعے کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے، منجملہ صفین کے واقعے میں انھوں نے اپنے اصحاب کے لیے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں واقعۂ غدیر کی تفصیل بیان کی۔ انھوں نے فرمایا کہ "پیغمبر نے یہ فرمایا، وہ اس طرح کھڑے ہوئے وغیرہ اور پھر کہا: قم یا علی، اے علی! کھڑے ہو جاؤ۔ میں کھڑا ہو گيا، آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: خدا ہمارا ولی ہے، اس نے مجھے تمھارا ولی بنایا ہے اور جس کا میں ولی ہوں، جس کا میں مولا ہوں، یہ علی اس کے مولا ہیں۔"(3) یہ بات خود امیر المومنین نے فرمائي ہے۔

ان شاء اللہ یہ عید تمام مسلمانوں کو مبارک ہو، ہمارے عزیز عوام کو بھی مبارک ہو اور ان شاء اللہ عوام کے دل خوش ہوں، کچھ مشکلات ہیں، وہ دور ہو جائيں ان شاء اللہ۔

یہ نشست حکومت کے اراکین کے شکریے کے لیے ہے۔ چاہے وہ لوگ جو پورے آٹھ سال عہدے پر رہے، چاہے وہ لوگ جو اس سے کم رہے ہوں۔ یہ بات یاد رکھیے کہ جس نے بھی خدمت کی نیت سے کوئي کام انجام دیا ہے، عوام کی خدمت کے لیے اور خدا کی راہ میں کام کیا ہے، وہ کام خدا کے نزدیک بھلایا نہیں جا سکتا۔ چاہے وہ کام کہیں بھی نہ لکھا گيا ہو، ایک کام کے لیے جو زحمت کسی نے اٹھائي ہے، جو پریشانی برداشت کی ہے، کوشش کی ہے، ممکن ہے کسی کو بھی اس کے بارے میں علم نہ ہو اور کہیں پر درج نہ ہو، اس کے بارے میں کوئي بات نہ کی جائے لیکن کرام الکاتبین جانتے ہیں، خداوند عالم کا علم، ہر چیز پر محیط ہے۔ جس نے بھی خدا کے لیے کام کیا ہے، عوام کی خدمت کے لیے کام کیا ہے، خلوص کے ساتھ کام کیا ہے، وہ جان لے کہ اس کی کوشش رائیگاں نہیں گئی ہے اور ان شاء اللہ خدا کے نزدیک وہ ماجور ہے، اسے اجر ملے گا۔ حقیقی ذخیرہ یہی ہے، کسی عہدے پر کام کرنے کے دوران حقیقی ذخیرہ یہی ہے۔ اہل دنیا صدارت، وزارت، مینجمنٹ اور اس طرح کے دوسرے عہدوں کو اپنی دنیا کے لیے، کچھ چیزوں کا ذخیرہ کرنے کے لیے، اپنے لیے کوئي جگہ بنانے کے لیے، اپنے مستقبل کے لیے کوئي ٹھکانہ تیار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، آپ دیکھتے ہیں نا؟! یہ کام دنیا میں رائج ہے۔ دین اسلام اور اسلامی ثقافت میں ایسا نہیں ہے، اصلی ذخیرہ، آخرت کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کی ایک عبارت ہے جسے میں نے نوٹ کیا ہے، مالک اشتر کے نام جو حکمنامہ ہے اس کی ابتدا میں ہی ہے، آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ حکمنامہ کافی طویل اور تفصیلی ہے۔ اس کے ابتدائی فقروں میں آپ فرماتے ہیں: "فلیکن احب الذخائر الیک ذخیرۃ العمل الصالح"(4) ہم نے تمھیں جو یہ مشن دیا ہے، اس میں تم اپنے لیے جو سب سے اچھا اور سب سے پسندیدہ ذخیرہ فراہم کرنا چاہتے ہو، وہ عمل صالح کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔ یعنی اچھے کام کرو، عمل صالح کرو، خدا کے لیے کام کرو، کوشش کرو، اسے ذخیرہ بناؤ۔ جس نے بھی خدا کے لیے کام کیا ہے، چاہے میں اور میرے جیسے افراد اسے جانیں یا نہ جانیں، چاہے شکریہ ادا کریں، چاہے نہ کریں، جس نے خدا کے لیے کام کیا ہے، اچھا کام کیا ہے، وہ ذخیرہ اس کے لیے محفوظ ہے۔

خیر جناب روحانی صاحب کی حکومت کی کارکردگي، مختلف شعبوں میں یکساں نہیں رہی ہے۔ جو کچھ ہم نے اس وقت دیکھا ہے، اس کے مطابق بعض جگہوں پر یہ کارکردگي توقع کے مطابق رہی، بعض جگہوں پر توقع کے مطابق نہیں رہی؛ بہرحال مختلف شعبوں نے کوششیں کیں، کام انجام دیے، جناب روحانی صاحب نے ان کی تفصیلات بیان کیں۔ خیر خدمت کا موقع ایک نعمت ہے، یہ کہ مجھے اور آپ کو اس بات کا موقع ملے کہ لوگوں کی خدمت کریں، يہ خدا کی ایک بڑی نعمت ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس اس کے وسائل نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر پیسے کی ضرورت ہے، ان کے پاس پیسے نہیں ہیں، جسمانی طاقت کی ضرورت ہے، ان کے پاس نہیں ہے، سماجی اثر و رسوخ کی ضرورت ہے، ان کے پاس نہیں ہے، مؤثر عہدے کی ضرورت ہے، ان کے پاس نہیں ہے۔ آپ کو، جنھیں ایک مؤثر عہدہ حاصل ہوا ہے، اس کی قدر و قیمت سمجھنا چاہیے۔ یہ ایک بڑی نعمت ہے جو خداوند عالم نے عطا کی ہے اور ہر نعمت پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس کا شکر یہ ہے کہ اس موقع سے خدا کے لیے استفادہ کیجئے اور ہر ممکن توانائی استعمال کیجیے، صرف خدا کی خوشنودی کے لیے، اس کے حکم کی تعمیل کے لیے اور ہمارے ملک میں اور ہمارے معاشرے میں انقلاب کے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے، بنیادی اصول یہ ہے۔

میں نے اس دن بھی جناب روحانی صاحب سے کہا تھا کہ کاموں کا بنیادی ہدف، انقلاب کے اہداف کی پیشرفت ہونا چاہیے۔ ہمارا ملک انقلابی ملک ہے، ہم نے انقلاب برپا کیا ہے، ان عوام نے انقلاب برپا کیا ہے، جان دی ہے، جدوجہد کی ہے، برسوں تک زحمتیں اٹھائي ہیں، ان سارے خطروں کا سامنا کیا ہے، مقابلہ کیا ہے، استقامت کی ہے انقلاب کے اہداف کے لیے، انقلاب کے اصولوں کے لیے۔ ہمیں ان اہداف کے لیے کام کرنا چاہیے، کوشش اور ہدف یہ ہونا چاہیے اور اسے ان اہداف سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔

دوسروں کو آپ کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ ایک تجربے کو میں نے خاص طور پر نوٹ کیا ہے، یہ وہ بات ہے جسے میں نے آپ سے اور عوام سے گفتگو میں بار بار دوہرایا ہے، اس وقت بھی میں اسی بات کو دوہرا رہا ہوں۔ یہ تجربہ، مغرب سے بد اعتمادی کا ہے، آئندہ آنے والوں کو اس تجربے سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اس حکومت میں یہ بات پوری طرح ثابت ہو گئي کہ مغرب پر بھروسہ کرنے کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔ مغرب والے ہماری مدد نہیں کریں گے بلکہ جہاں بھی انھیں موقع ملے گا، وہ ہمیں نشانہ بنائیں گے اور جہاں وہ وار نہیں کرتے، وہ ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں ان کے لیے وار کرنے کا امکان ہی نہیں ہوتا ہے، (ورنہ) جہاں بھی ان کے لیے ممکن تھا، انھوں نے ہم پر وار ضرور کیا ہے۔ یہ بہت اہم تجربہ ہے۔ ملک کے داخلی پروگراموں کی بنیاد قطعی طور پر مغرب کے تعاون پر نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ یقینی طور پر وہ پروگرام ناکام ہو جائیں گے۔ آپ نے جہاں کہیں بھی اپنے کاموں کی بنیاد مغرب کے تعاون کے آسرے پر رکھی، وہاں آپ ناکام رہے۔ جہاں آپ نے مغرب پر بھروسہ کیے بغیر خود کوشش کی اور آگے بڑھے، کامیاب رہے۔ آپ کام کو دیکھیے! گيارہویں اور بارہویں حکومت کی کارکردگی ایسی ہے۔ جہاں بھی آپ نے امور کی بنیاد مغرب کے تعاون اور اتفاق رائے اور مغرب اور امریکا وغیرہ کے ساتھ مذاکرات پر رکھی، وہاں پر رک گئے اور آگے نہیں بڑھ سکے۔ کیونکہ وہ مدد نہیں کرتے، دشمنی کرتے ہیں، دشمن ہیں نا! جہاں بھی آپ نے انھیں نظر انداز کیا، خود آگے بڑھے اور مختلف طریقوں کو استعمال کیا- ہزار راستے موجود ہیں، ایسا نہیں ہے کہ صرف ایک ہی راستہ ہو، نہیں مختلف راستے موجود ہیں۔ اگر انسان غور و فکر کرے تو وہ اپنی ذاتی اور سماجی زندگی اور محکمہ جاتی امور کے لیے مختلف راہیں تلاش کر لے گا- جہاں بھی آپ اس طرح سے آگے بڑھے، وہاں آپ نے پیشرفت کی۔

ان حالیہ مذاکرات کے بارے میں بھی ایک بات عرض کر دینے میں کوئي قباحت نہیں ہے۔ آپ حضرات بھی مسائل سے واقف ہی ہیں۔ انھی مذاکرات میں، جو حال ہی میں جاری تھے، ہمارے سفارتکاروں نے بڑی محنت کی۔ ہمارے بعض سفارتکار تو اس معاملے میں واقعی بہت اچھی طرح ابھر کر سامنے آئے، لیکن امریکی اپنے معاندانہ موقف پر بری طرح سے ڈٹے رہے اور انھوں نے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا۔ وہ کاغذ پر یا اپنے وعدوں میں تو کہتے ہیں کہ ہاں ہم پابندیاں ہٹا لیں گے لیکن انھوں نے نہیں ہٹائیں اور نہیں ہٹائیں گے۔ وہ شرط رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ پابندیاں ختم ہو جائیں تو ابھی اسی سمجھوتے میں ایک جملہ شامل کر دیجیے جس کا مفہوم یہ ہو کہ ان موضوعات کے بارے میں ہم آپ سے بعد میں بات کریں گے اور سمجھوتہ کریں گے۔ اگر آپ نے یہ جملہ نہیں شامل کیا تو ہم اس وقت ایک دوسرے سے اتفاق رائے نہیں کر سکتے۔ یہ جملہ کیا ہے؟ یہ جملہ ایک بہانہ ہے اگلی مداخلتوں کا۔ خود ایٹمی معاہدے اور ایٹمی معاہدے کی مدت میں توسیع کے بارے میں، مختلف ديگر مسائل کے بارے میں، میزائل ٹیکنالوجی کے بارے میں اور خطے کے بارے میں کہ اگر بعد میں آپ نے کہا کہ نہیں، ہم اس بارے میں بات نہیں کریں گے، مثال کے طور پر ملکی سیاست یا پارلیمنٹ اس بات کی اجازت نہیں دیتی تو وہ کہیں گے "ٹھیک ہے، آپ نے خلاف ورزی کی ہے، اس لیے سب ختم، کوئي معاہدہ نہیں۔" اس وقت ان کی روش اور ان کی پالیسی یہ ہے۔ وہ پوری طرح سے غیر اخلاقی اور خباثت آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں اور انھیں، اپنے وعدوں کو توڑنے میں کسی بھی قسم  کا عار نہیں ہے۔

انھوں نے ایک بار معاہدوں کو توڑا، بغیر کوئی قیمت چکائے خلاف ورزی کی اور اس وقت بھی جب ان سے کہا جا رہا ہے کہ آپ کو وعدہ کرنا ہوگا، گارنٹی دینی ہوگي کہ آپ خلاف ورزی نہیں کریں گے تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم گارنٹی نہیں دیں گے! اسے وہ ہمارے دوستوں، ہمارے سفارتکاروں سے کھل کر کہہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتے کہ ہم خلاف ورزی نہیں کریں گے، ہم اس طرح کی گارنٹی نہیں دے سکتے۔ یہ لوگ اس طرح کے ہیں۔ یہ تجربہ ہے، یہ اگلی حکومت، اگلے حکومتی عہدیداروں اور سیاسی میدان میں سرگرم لوگوں کے لیے تجربہ ہے۔ اسے ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے۔ یہ بہت ہی اہم تجربہ ہے جسے ہم نے اس حکومت میں اور ہمیشہ حاصل کیا ہے، البتہ اس حکومت میں یہ تجربہ زیادہ ہوا ہے۔

مجھے امید ہے کہ خداوند عالم مدد کرے گا۔ وقت ختم ہو گيا لیکن باتیں باقی ہیں، کہنے کے لیے باتیں زیادہ ہیں لیکن اب دامن وقت میں گنجائش نہیں ہے بلکہ ہمارے مقررہ وقت سے کچھ زیادہ ہی ہو گيا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم تمام دوستوں اور بھائيوں کی مدد کرے گا کہ وہ جہاں کہیں بھی رہیں، اپنی دینی اور انقلابی ذمہ داریوں پر عمل کریں اور جہاں کہیں بھی رہیں، حقیقی معنی میں انقلابی بنے رہیں اور ان شاء اللہ انقلاب کے اہداف کی سمت پیشرفت کے لیے کام کرتے رہیں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس نشست کے آغاز میں صدر مملکت حجۃ الاسلام حسن روحانی نے حکومت کی کارکردگي کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) کافی، جلد 1، صفحہ 420 (جس کا میں مولا ہوں، اس کے یہ علی مولا ہیں)

(3) بحارالانوار، جلد 31، صفحہ 411

(4) نہج البلاغہ، خط نمبر 53