3 اگست 2021 کو منعقد ہونے والے اس پروگرام میں وزیر داخلہ نے رواں سال کے انتخابات کے عمل کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی اور منتخب صدر کے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کا حکمنامہ پڑھے جانے کے بعد حجۃ الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئيسی نے تقریر کی اور پھر رہبر انقلاب اسلامی نے خطاب کیا۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاہرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین.
میں خداوند عالم سے التجا کرتا ہوں کہ وہ (نئے دور صدارت کے) اس آغاز کو عوام کے لیے اور ملک کے لیے مبارک قرار دے۔ خاص کر اس لیے کہ ہم ایسے ایام میں ہیں جو اہلبیت علیہم السلام سے متعلق ہیں۔ کچھ دن پہلے عید غدیر تھی، کل روز مباہلہ ہے، آيت ولایت کے نزول کا دن ہے، انما ولیکم اللہ و رسولہ (2)، آیت تطہیر کا دن ہے۔ یہ ایام ائمہ علیہم السلام سے متعلق ہیں، ان کی ہمراہی کی برکت سے، ان کی دعا سے اور ان کی شفاعت سے ان شاء اللہ یہ دن ہماری قوم کے لیے مبارک قرار پائے۔
خیر، سب سے پہلے تو خداوند عالم کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ایرانی قوم کو یہ توفیق عطا کی۔ ایرانی عوام نے ایک بار پھر الیکشن کے پرمعنی عمل کو، جو دینی جمہوریت کی نشانی ہے، کامیابی سے انجام دیا۔ ہم عوام کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ بارہویں حکومت، بارہویں حکومت کے صدر اور ان کے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے اور جناب رئيسی صاحب، ان کی حکومت اور ان کے رفقائے کار کے لیے خداوند عالم سے توفیق، مدد اور خصوصی لطف و کرم کی دعا کرنی چاہیے۔ یہ پروگرام، عوامی مینڈیٹ کی توثیق کا پروگرام، جو آئین اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے شروع کی گئي سنّت پر مبنی ہے، ان گزشتہ عشروں میں اسے بارہا دوہرایا جا چکا ہے۔ یہ درحقیقت ملک کا انتظام چلانے والے ادارے یعنی انتظامیہ کی اہم ذمہ داری کی عاقلانہ طریقے سے اور پرامن و پروقار منتقلی کا ایک مظہر ہے جو بہت اہم ہے۔ عام طور پر بہت سے ممالک میں یہ منتقلی کشمکش وغیرہ کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہاں پر بحمد اللہ مختلف دور حکومت میں پر امن انداز میں، سلامتی کے ساتھ انجام پائی ہے۔ یہ دورۂ صدارت بھی خدا کے فضل و کرم سے ایسا ہی تھا۔ یہ ملک اور اسی طرح حکام و عوام میں پائی جانے والی عقلانیت، امن اور اطمینان کی بھی نشانی ہے اور سیاسی تنوع کی بھی علامت ہے۔ ایک کے بعد ایک جو حکومتیں آئيں اور جنھوں نے ایک دوسرے کو اقتدار منتقل کیا ہے، ان کے مختلف سیاسی رجحانات رہے ہیں۔ یہ چیز تنوع کی غماز ہے اور یقنی طور پر یہ تنوع، انتخابات کی آزادی اور ان کے صحیح و سالم ہونے کی نشانی ہے۔
یہ چیزیں بڑی اہم ہیں۔ ان واقعات میں انسان کو ان چیزوں کو دیکھنا چاہیے۔ بحمد اللہ الیکشن پوری سلامتی کے ساتھ اور پوری شفافیت سے منعقد ہوا۔ مختلف میدانوں میں، الیکشن کی سیکورٹی کو یقینی بنانے والوں کے سلسلے میں بھی، جو کہ بڑا ہی اہم کام تھا اور عوام کے سلسلے میں بھی، ملک کے دشمنوں اور اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کے پالیسی ساز حلقوں میں کافی پہلے سے الیکشن کے بائیکاٹ کی ایک سازش رچی گئي تھی۔ ملک کے اندر بھی بعض لوگ غفلت کی بنا پر اور بعض لوگ شاید عناد کے سبب اس سازش کو ہوا دے رہے تھے۔ عوام نے ٹھوس جواب دیا اور انتخابات میں شرکت کی۔ عوامی شرکت بھی اچھی تھی۔ جس طرح کے حالات تھے ان کے مد نظر، عوام کی شرکت اچھی تھی اور میدان میں عوام کی بھرپور موجودگي کی غماز تھی۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور عوام کے بھی شکر گزار ہیں۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ اقتدار کی یہ منتقلی امید آفریں ہے کیونکہ جو نئے لوگ میدان میں اترتے ہیں ان کے پاس نئے نئے افکار ہوتے ہیں، نئے چہرے ہوتے ہیں جو نئے عزم کے ساتھ میدان میں آتے ہیں۔ یہ چیز ان سبھی افراد میں امید پیدا کرتی ہے جن میں خدمت کا جذبہ ہوتا ہے، خاص کر نوجوانوں میں امید پیدا کرتی ہے، یہ بڑی مغتنم چیز ہے، بڑی اہم چیز ہے۔
جو لوگ صاحب نظر ہیں، صاحب فکر ہیں یہ چیز انھیں مختلف مسائل میں اس بات کا موقع دیتی ہے کہ وہ ماضی پر غور کریں، ماضی کی غلطیوں کو تلاش کریں، ڈھونڈیں، ان کی اصلاح کریں، انتباہ دیں، بحمد اللہ محترم صدر مملکت جناب رئیسی صاحب کے بیانوں میں اور انتخابی مہم وغیرہ میں انقلاب کے بنیادی اقدار پر بارہا تاکید کی گئي، انصاف، بدعنوانی سے مقابلہ اور اسی طرح کی دوسری قدروں پر انھوں نے زور دیا۔ یہ صحیح راستہ ہے، میری پرزور تاکید یہ ہے کہ وہ اسی راستے کو جاری رکھیں اور اس وقت بھی انھوں نے اپنی تقریر میں اسی بات پر زور دیا ہے۔ جو راستہ ملک اور قوم کو اس کے بنیادی حقوق تک پہنچائے گا اور ملک کو اس کے صحیح مقام تک پہنچائے گا، وہ انقلاب کے بنیادی اقدار کو مضبوطی سے تھامے رہنے کا یہی راستہ ہے۔ یہ اقدار موہوم اور ناشناختہ چیزیں نہیں ہیں۔ آپ امام خمینی کے بیانوں میں دیکھیے، پوری طرح سے واضح اور روشن طریقے سے ان کے بیانوں میں یہ چیز موجود ہے۔ اسی کو معیار قرار دیں اور آگے بڑھیں۔ ان اہداف پر گہرائي سے توجہ اس بات کا سبب بنے گي کہ عوام بھی زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں آئيں اور مسائل کا سامنا کریں۔ یہی بنیادی بات ہے، اصل کنجی یہی ہے۔ عوام کی موجودگي تمام مسائل کو حل کرنے والی ہے، تمام مشکلات کو دور کرنے والی ہے۔ وہ چیز جو لوگوں کی موجودگي کو یقینی بنائے اور ملک کے مختلف مشکل میدانوں میں لوگوں کو آنے کے لیے ترغیب دلائے وہ مغتنم ہے۔ لوگوں کی موجودگي کا کوئي دوسرا متبادل نہیں ہے۔ انقلاب کا اصلی ہنر بھی یہی ہے۔ انقلاب کا اصلی ہنر یہ تھا کہ اس نے عوام کو جمود کا شکار ایک بھیڑ، صارفین کے ایک مجمع اور قومی و عمومی نظریے سے عاری ایک مجموعے سے بدل کر ایک پرجوش، پرتحرک، حوصلہ مند، بامقصد، آئيڈیلسٹک اور میدان میں سرگرمی سے موجود رہنے والا ایک مجموعہ بنا دیا، انقلاب کا عظیم کارنامہ یہ ہے۔ ہم نے انقلاب سے پہلے کی زندگي گزاری ہے، بس سانس لیتے تھے! واقعی ایسا ہی تھا، بکھراؤ کا شکار ایک مجموعہ جس میں ہر کوئي اپنی ہی فکر میں تھا، ملک میں قومی ایشو کی کوئي بات ہی نہیں تھی، سماجی مسائل کوئي اٹھاتا ہی نہیں تھا۔ بس اتنا تھا کہ گوشہ و کنار میں کہیں کوئي کچھ کہہ دے لیکن اس پر عمومی سطح پر کوئي توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ امام خمینی نے اپنی الہی اور معنوی تحریک کے ذریعے اس پراگندہ بھیڑ کو ایک متحد مجموعے اور حقیقی معنی میں ایک خاص سمت میں آگے بڑھنے والے معاشرے میں تبدیل کر دیا اور اسے میدان میں اتار دیا اور یہ عظیم تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ یعنی ملک سے آمر شہنشاہی نظام کا جڑ سے خاتمہ کر دیا۔ ہر وہ چیز جو قوم کو ایک متحد، پرجوش اور پرتحرک اجتماع کے طور پر میدان میں اتارے اور اس سلسلے میں مدد کرے، وہ غنیمت اور اہم چیز ہے۔ ہماری نظر میں انقلابی اقدار کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی یہ خاصیت ہے۔
محترم صدر مملکت کے لیے ایک نصیحت یہ ہے کہ اپنے نعروں میں انھوں نے عوامی ہونے، عوام کی بات سننے اور عوام کے درمیان رہنے کی جو بات بار بار دوہرائي تھی، اسے ہاتھ سے نہ جانے دیں؛ یہ بہت اہم چیز ہے۔ "عوامی حکومت" کو، جو ان کا نعرہ تھی، حقیقت میں عملی جامہ پہنائيں اور صحیح معنی میں عوام کے ساتھ، ان کے قریب اور ان کے درمیان رہیں۔ عوام کا مطلب بغیر کسی طبقاتی اور گروہی امتیاز کے تمام عوام۔ البتہ عوام کے درمیان موجودگي، جو موصوف کے ریکارڈ میں شامل ہے، غیر معمولی صلاحیت والے افراد سے رابطے کی جانب سے غافل نہ کر دے۔ اس طرح کے افراد سے رابطہ بجائے خود ایک بہت ضروری اور مفید قدم ہے۔ جینیس افراد سے تبادلۂ خیال، ان کی رائے سے فائدہ اٹھانا (بہت اہم ہے)۔
حکومت کو اتحاد کا مظہر ہونا چاہیے، عوام کے درمیان پائے جانے والے ان بعض موہوم تضادات کو اتحاد آمیز اور عطوفت آمیز نظروں کے ذریعے کمزور کیا جانا چاہیے۔ ممکن ہے کہ یہ نظریات اور یہ اختلافات پوری طرح ختم نہ ہوں لیکن معاشرے کی پیشرفت میں ان کے منفی اثرات کو روک دینا چاہیے۔
عوام کے ساتھ صداقت سے بات چیت ان کاموں میں سے ایک ہے جو عوامی ہونے میں مددگار ہیں، سیاسی ملمع کاری وغیرہ سے دور رہتے ہوئے عوام سے پوری سچائي کے ساتھ بات کرنا چاہیے، صداقت سے بات کریں، عوام کو مشکلات بتائيں، راہ حل بتائيں، عوام سے جو توقعات ہیں، انھیں بیان کریں اور عوام کی ضروری مدد کریں۔ عوام سے بات کرنا ان اہم کاموں میں سے ایک ہے جن کی عوامی حکومت کو پابندی کرنی چاہیے۔
ایک دوسری نصیحت گنجائشوں پر نظر رکھنے کی ہے۔ آج کل آپ بیانوں، مقالوں، تحریروں اور تقریروں میں دیکھتے ہیں کہ مسلسل کمیوں اور مشکلات کے بارے میں بات کی جاتی ہے، ٹھیک ہے، کمیاں زیادہ ہیں، مشکلات اور مسائل بھی زیادہ ہیں لیکن توانائیاں، مشکلات سے کہیں زیادہ ہیں۔ ملک میں بے پناہ توانائیاں ہیں۔ پانی، تیل، کانوں، وسیع داخلی منڈی، ہمسایوں اور نوجوانوں کی حیرت انگیز صلاحیت اور تیاری کے میدانوں میں غیر معمولی گنجائشیں ہیں؛ یہ ہماری گنجائشیں ہیں۔ بلاشبہ یہ گنجائشیں، مشکلات پر غلبہ کر سکتی ہیں بشرطیکہ ان صلاحیتوں کو صحیح طریقے سے پہچانا جائے، استعمال کیا جائے اور ان پر توجہ دی جائے اور اس کے لیے دن رات کی انتھک محنت کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر ان گنجائشوں سے استفادہ کرنے سے موجودہ کمیوں پر غلبہ حاصل ہو جائے گا۔
عوامی ہونے کا ایک اور پہلو، بدعنوانی سے مقابلہ ہے۔ اگر ہم حقیقی معنی میں عوام کے ساتھ رہنا چاہیں تو بدعنوانی اور بدعنوان سے لگاتار لڑنا ہوگا۔ موصوف نے اپنے پچھلے عہدے پر رہتے ہوئے، بدعنوانی سے مقابلہ شروع کر دیا اور بڑے اچھے اقدامات ہوئے لیکن اصل معرکہ یہاں ہے، یعنی بدعنوانی کے مواقع اور بدعنوانی کے راستے انتظامیہ میں بنتے ہیں۔ یہاں پر بدعنوانی سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ یہ ٹیکس چوری، بے سبب اجارہ داری، سرکاری ریٹ کے زر مبادلہ کا غلط استعمال، غیر شفاف تجارتی سرگرمیاں، اسمگلنگ اور اسی طرح کی چیزیں؛ یہ وہ بدعنوانیاں ہیں جن کا حقیقی معنی میں سامنا کرنا کرنا چاہیے۔ پروگرام بنا کر اور اس کے نفاذ پر لگاتار نگرانی کرکے۔ ان برسوں کا ہمارا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ کبھی کوئي کام ہم پورے ولولے، جوش اور ہمت سے شروع کرتے ہیں لیکن دوسرے قدم میں وہ پہلے قدم والا جوش و ولولہ باقی نہیں رہتا؛ اس کام کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔ کسی کام کے لیے انسان جو ہمت کرتا ہے اور جوش دکھاتا ہے اسے نتیجہ حاصل ہونے تک جاری رہنا چاہیے۔ بدعنوانی سے اس طرح مقابلہ کرنا ضروری ہے۔
ایک اور اہم نکتہ، جو ہماری نصیحت بھی ہے، یہ ہے کہ ملک کی معیشت کے اہم مسئلے میں، جو آج ایک بنیادی مسئلہ ہے، منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ آپ جو بھی اقدام کریں وہ اس منصوبہ بندی کا ایک حصہ ہونا چاہیے جو آپ نے پہلے تیار کی ہے۔ روز مرہ کے کام اور غیر طے شدہ اقدامات، کسی مشکل کو حل نہیں کر سکتے۔ ہاں، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے اور کبھی کبھی بعض حالات میں حکومتیں، اقتصادی یا غیر اقتصادی میدانوں میں کوئي غیر طے شدہ کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن مجموعی طور پر ہر اقتصادی قدم، ہر اقتصادی کام اور ہر اقتصادی اقدام، تیار شدہ پروگرام پر مشتمل ہونا چاہیے اور اسے اس پروگرام کے کسی حصے کی تکمیل کرنا چاہیے۔ البتہ معاشی مسائل کا حل وقت طلب ہے، اسے ہمارے عزیز عوام بھی جانتے ہیں اور انھیں جاننا چاہیے کہ ان مسائل کو ایک رات میں یا ایک مختصر سی مدت میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ نہیں، یہ کام وقت طلب ہے؛ کوشش کرنا چاہیے البتہ اس مدت کو مختصر سے مختصر کرنا چاہیے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم کی مدد، ہدایت اور امام زمانہ کی مستجاب دعا سے یہ کام آگے بڑھیں گے۔
البتہ خارجہ پالیسی کے سلسلے میں، ثقافت کے بارے میں اور ديگر مسائل کے بارے میں کچھ باتیں ذہن میں ہیں لیکن بہتر ہوگا کہ اب یہ نشست اس سے زیادہ طویل نہ ہو۔ ان شاء اللہ اگر حیات رہی تو اگلی نشستوں میں موصوف کے سامنے وہ باتیں پیش کریں گے۔
ایک اور نصیحت یہاں ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت کی تشکیل میں ان شاء اللہ تیزی دکھائي جائے گی؛ یعنی ملک کے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت کی تشکیل میں تاخیر نہ ہو۔ محترم صدر مملکت بھی پارلیمنٹ میں اپنے مجوزہ وزیروں کے نام پیش کرنے میں اور محترم پارلیمنٹ بھی وزراء کے بارے میں اپنی صریحی رائے پیش کرنے میں تیزی سے کام لیں اور تیزی سے کام آگے بڑھائیں تاکہ ان شاء اللہ جلد از جلد حکومت تشکیل پائے اور اپنا کام شروع کر دے۔
آخری بات دشمن کی پروپیگنڈہ جنگ کے بارے میں ہے۔ آج ہمارے خلاف ہمارے دشمنوں کی سب سے زیادہ کارروائياں، سیکورٹی اور معاشی سرگرمیوں سے زیادہ پروپیگنڈہ سرگرمیاں اورسافٹ وار اور میڈیا پروپیگنڈے پر مبنی ہیں۔ وہ رائے عامہ پر مسلط ہونے کے لیے بے تحاشا پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔ بہت سارے کام کر رہے ہیں۔ اس کام کے لیے وہ اپنے ذہنی و فکری مجموعے میں مسلسل لوگوں کو ملازمت دے رہے ہیں تاکہ نفسیاتی جنگ کے ذریعے، مختلف طرح کے پروپیگنڈوں کے ذریعے ملکوں اور خاص طور پر سب سے زیادہ ہمارے ملک کی رائے عامہ پر، جو بڑی طاقتوں کی بدنیتی کے نشانے پر ہے، قبضہ کر لیں اور اسے اپنے کنٹرول میں لے لیں۔ جب کسی قوم کی رائے عامہ، غیر کے کنٹرول میں چلی گئی، تو اس قوم کی پیشرفت بھی، قدرتی طور پر انھی کی مرضی کے مطابق ہوگي۔ پروپیگنڈے کا کام، اہم کام ہے؛ ہم اس معاملے میں کمزور ہیں۔ ہمیں پروپیگنڈے کے میدان میں زیادہ مضبوطی اور زیادہ ذہانت سے کام کرنا چاہیے۔ ان غافل لوگوں کو تو نظر انداز ہی کر دینا چاہیے جو ملکی میڈیا کو بھی دشمن کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہماری گفتگو کا موضوع بھی نہیں ہے لیکن جو لوگ اس سلسلے میں نیک نیتی سے کام لیتے ہیں، ان کے بارے میں بھی ہم تساہلی کرتے ہیں۔ پروپیگنڈے کے کام، صحیح تشہیراتی حرکت اور میڈیا کے وسائل کے بارے میں ہمیں زیادہ مضبوطی اور زیادہ ذہانت سے کام کرنا چاہیے
امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم توفیق عطا کرے گا کہ محترم حکام، محترم حکومت، محترم نئے صدر مملکت اور ان کے معاونین ملک کے حق میں اور قوم کے حق میں ضروری کام انجام دیں اور ان شاء اللہ خداوند عالم مدد کرے گا، ہدایت کرے گا اور سبھی لوگ، اہل نظر افراد، صاحبان فکر، سماجی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد مدد کریں گے کہ ان شاء اللہ کام بخوبی آگے بڑھے۔
اور خداوند عالم کا درود و سلام ہو حضرت بقیۃ اللہ الاعظم امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف پر۔ خدا کی رحمتیں نازل ہوں امام خمینی اور ہمارے عزیز شہداء پر جنھوں نے ہمارے لیے یہ راستہ تعمیر کیا اور ہمیں اس راہ پر چلنے کی توفیق حاصل ہوئی۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) اس پروگرام کے آغاز میں رہبر انقلاب اسلامی کے دفتر کے عملے کے سربراہ حجۃ الاسلام محمدی گلپايگانی نے صدارتی الیکشن کے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کا حکمنامہ پڑھ کر سنایا اور اس کے بعد (صدر مملکت) حجۃ الاسلام سید ابراہیم رئيسی نے تقریر کی۔
(2) سورۂ مائدہ، آيت 55، تمھارا ولی و سرپرست صرف خدا ہے، اس کے رسول ہیں ...